(Last Updated On: )
واقفانِ محبت رہروانِ کوئے الفت یوں بیان کرتے ہیں کہ اُدھر سے شیریں اور اِدھر سے خسرو ایک دوسرے کے شوق دیدار میں تیز گام تھے۔ شبانہ روز ہر ایک کو چلنے سے کام مبتلائے آلام تھے۔ خسرو کے شہر کے قریب پہنچ کر ایک باغ پرفضا میں شیریں نے قیام کیا۔ ہم صحبتوں نے اُس کا دل بہلانے کے لیے رقص و سرود کا اہتمام کیا۔ رات کا وقت، باغ کی پرفضا ہوا نہایت مرغوب تھی۔ محفل بھی خوش اسلوب تھی۔ یہ غزل گائی جاتی تھی، تمام محفل وجد میں آتی تھی۔ غزل:
خفا ہے گر وہ مجھ سے غیر کے گھر میہماں کیوں ہوا
موافق بن کے اب میرا مخالف آسماں کیوں ہوا
جو عشق پردہ در کو دسترس تم دو نہ اس درجہ
تو یوں جیب آستین دامن گریباں دھجیاں کیوں ہو
تمھاری آنکھ جب میری طرف سے یوں پھری پائے
تمھیں انصاف سے کہہ دو موافق آسماں کیوں ہو
لیا ہے تو نے دل میرا تو گردن بھی اڑا قاتل
نہ جب پہلو میں دل ہو دوش پر بار گراں کیوں ہو
مٹا جو راہ میں اُن کی اُٹھے برباد کرنے کو
چلے کہتے ہوئے محنت کسی کی رائیگاں کیوں ہو
اُٹھاؤ تیغ دیکھیں کون پہلے سر جھکاتا ہے
اسی پر فیصلہ ہے اور آگے امتحاں کیوں ہو
نہ ہو گر یوں نموئی زلف و قد جوشِ جوانی میں
تو ہر لحظہ تہ و بالا زمین و آسماں کیوں ہو
قیامت کی طرح جب ہو درازی روزِ فرقت کی
مؤذن صبح وصل یار یوں شور آذاں کیوں ہو
تمھارے چاہنے والے بہت ہیں سر جھکانے کو
صنم یوں سجدہ گاہِ غیر سنگ آستاں کیوں ہو
رضاؔ جس کو نہ مثل قیس سودا مول لینا ہو
وہ دنیا میں اسیر گیسو لیلی و شان کیوں ہو
شیریں ادھر عیش و نشاط میں مصروف تھی کہ خسرو بھی مسافت طے کرتا ہوا حضرت عشق کی رہبری سے اُسی باغ میں پہنچا۔ ہر ایک دوسرے کے دیدار سے مسرور ہوا۔ ادھر خسرو اُدھر شیریں غش کھا کر گرے۔ دونوں طرف لشکر کے لوگ اپنے اپنے حاکم کی چارہ جوئی میں پڑے۔ ہر ایک یہ شعر پڑھتا تھا۔ شعر رضا لکھنوی
دیکھتے ہی یار کو تن سے ہوا دم ہو گیا
وائے قسمت شربت دیدار بھی سم ہو گیا
بدقت دونوں کو ہوش آیا، وصل کا سامان مہیا پایا۔ دونوں ایک تخت رواں پر سوار ہوئے، آپس میں ہمکنار ہوئے۔ اسی طرح شہر میں جلوہ فرما ہوئے۔ خوش سب امیر و غربا ہوئے۔ شادی کی تیاری ہوئی، گھر کی آبادی ہوئی۔ الغرض شیریں خسرو کے نکاح میں آئی، ملکہ کہلائی۔ مبارک سلامت کا شور مچا۔ ایک عالیشان محل شیریں کے لیے تیار ہوا۔ اُس میں وہ جلوہ فرما ہوئی۔ خواصیں ہزارہا خدمت گزار ہوئیں۔ پرستار غنچہ لب گلعذار ہوئیں۔ روزنئے جلسے تھے۔ ہر وقت محفل نشاط باعث انبساط تھی۔