ان نظموں کی اشاعت سے آج تک ان کی تاثیر اور مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ بچوں سے بوڑھوں تک پوری اردو دنیا میں لوگ اسے یاد بھی کرتے ہیں اور گاتے بھی ہیں، اس مجموعہ نظم کے اشعار سے محفلیں گرمائی جاتی ہیں۔ مساجد کے ممبروں سے سیاسی جلسہ گاہوں تک اس کے مصرعے ہر انجمن میں ایک برقی رو دوڑا دیتے ہیں، نجی مجلسوں میں بھی اس کے بند کے بند پڑھے جاتے ہیں اور مکانوں دکانوں اور اداروں میں ان کے خوشخط کتبے آویزاں کئے جاتے ہیں۔ اس نظم کے الفاظ و تراکیب محاورۂ زبان بن چکے ہیں۔ اس سے قبل پذیرائی اور شہرت مسدس حالی کی تھی۔ لیکن اس کی جگہ اس مسدس اقبال نے اس طرح لے لی کہ آج نئی نسلیں حالی کے مسدس سے کم ہی واقف ہیں جبکہ اقبال کا شکوہ و جواب شکوہ اردو ادب کے ہر طالب علم کی زبان پر ہے۔ میں اقبال کی ان دونوں نظموں کو ایک ہی مرکب تخلیق سمجھتا ہوں اسی لیے مجموعہ نظم بھی کہتا ہوں اور صرف نظم بھی اس لیے کہ فی الواقع ان نظموں کی نوعیت مکالمہ و جواب مکالمہ کی ہے، جس طرح ہم شمع اور شاعر میں دیکھ چکے ہیں اور اس طرح اس مجموعہ نظم میں بھی ایک تمثیلی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ایک طرف بندہ مسلم کا کردار اور اس کا شکوہ ہے اور دوسری طرف خدائے کائنات کا سردار اور اس کا جواب ہے۔ چنانچہ شکوہ و جواب شکوہ کے ابتدائیوں میں اس فضا کی ہلکی سی نظر کستی بھی ہے جس میں مکالمہ مابین بندہ و خدا واقع ہوتا ہے اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو شکوہ میں ہی جواب شکوہ کے وہ مضمرات و ارشادات موجود ہیں جو بعد میں ایک مستقل نظم کی صورت میں رو پذیر ہوئے، چنانچہ شکوہ کا زور بیان جواب شکوہ کے پنہاں نکات کی شدت کے سبب ہی ہے، اسی لیے جب وہ نکات نظم کی شکل میں عیاں ہوئے تو پہلی تخلیق کا منطقی نتیجہ نظر آئے، خود شاعر نے مکالمے کا انداز اور جواب کی تکنیک ملحوظ رکھتے ہوئے گویا پہلی تخلیق کے جوابی مضمرات نکتہ بہ نکتہ نکال کر رکھ دئیے۔ اس سلسلے میں میں ان لوگوں سے اختلاف کرتا ہوں جو جواب شکوہ کو شکوہ سے کم اہمیت دیتے ہیں بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ جواب کے بغیر شکوہ کا حسن اور مفہوم مکمل ہی نہیں ہوتا۔ اس موضوع پر شاعر کا نقطہ نظر ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے مطالب سے ہی واضح ہے، شمع نے شاعر کے شکوے کا جو جواب دیا ہے وہ لفظ و معنی دونوں کے لحاظ سے جواب شکوہ کا ثمر پیش رس ہے۔ جو فنی تکنیک پہلی نظم میں برتی جا چکی تھی اسی کا زیادہ وسیع اور پیچیدہ تجربہ دوسری نظم میں کیا گیا ۔
’’ شکوہ و جواب شکوہ‘‘ کو مذہبی نظم قرار دے کر شاعری کی حیثیت سے رد کرنا سخت بے ذوقی کی دلیل ہے۔ مسدس حالی کے مقابلے میں اس نظم کی تاثیر اور مقبولیت کا راز ہی یہ ہے کہ جس ملی موضوع کو حاکی نے ایک درد مندی کے ساتھ نظم کر دیا تھا اسے اقبال نے درد مندی کے علاوہ فن کاری سے کام لے کر ایک زبردست شاعری بنا دیا۔ ’’ شکوہ ‘‘ کی مشہور تمہید ہے:
کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں
فکر فردا نہ کروں، محو غم دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہم نوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بہ دہن ہے مجھ کو
’’ جواب شکوہ‘‘ کی تمہیدی منظر نگاری چار بندوں پر پھیلی ہوئی ہے اور واضح ڈرامائی انداز رکھتی ہے۔ پہلے بند میں اپنے شکوہ کو نالہ بیباک قرار دے کر پھر اس کے فلک رس ہونے کا بیان دے کر، دوسرے بند میں شاعر اہل فلک پر اس کے اثر کا نقشہ کھینچتا ہے:
پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی!
بولے سیارے، سر عرش بریں ہے کوئی!
چاند کہتا تھا، نہیں اہل زمیں ہے کوئی!
کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ نہیں ہے کوئی!
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضوان سمجھا
مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
دونوں ہی بندوں میں شعریت نمایاں ہے اور تمثیل کا عنصربھی پنہاں ہے، اس فرق کے ساتھ کہ شکوہ کا آغاز شاعر کو تفکر میں غرق دکھاتا ہے، جبکہ جواب شکوہ کی ابتدا کچھ اس قسم کے قصے کی منظر نگاری پر مشتمل ہے جیسا اردو کی تمثیلی مثنویوں میں پایا جاتا ہے۔ دونوں حالتوں میں شاعری کا دلکش رنگ و آہنگ یکساں ہے۔ پہلے بند میں بندش الفاظ کے ترنم کے علاوہ گل و بلبل کی استعاراتی علامت کو بڑی عمدگی و تازگی، طرفگی اور خیال آفرینی کے ساتھ استعمال کیاگیا ہے، جبکہ دوسرے بند میں گردوں، سیارے، چاند، کہکشاں اور رضوان کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصے کے کردار اور ایک پر اثر منظر کی جزو ترکیبی بنا دیا گیا ہے۔
اس شاعرانہ پس منظر میں ’’ شکوہ‘‘ کا شکوہ ایک اور تمہیدی بند کے بعد نظم کے تیسرے بند سے شروع ہو جاتا ہے:
تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
پھول تھا زیب چمن، پر نہ پریشان تھی شمیم
شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
بوے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم؟
ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی!
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟
یہاں بھی فلسفیانہ خیالات کی ترسیل ’’ پھول‘‘ ،’’ شمیم‘‘ ،’’ بوئے گل‘‘ اور’’ نسیم‘‘ کے شاعرانہ پیکروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ لیکن ان پیکروں کے علاوہ بڑی گہری شعریت انداز تخاطب کی شکوہ سنج شوخی میں ہے، جو تاری کے تمام روایتی تصورات کو برہم کر کے اسے ہمہ تن تجسس بنا دیتی ہے اور اس عالم میں وہ گویا سانس روک کر آخر تک پورا’’ شکوہ‘‘ ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور جب وہ اس عجیب و غریب داستان کو ختم کرتا ہے تو اس کا ذہن حیرتوں اور سوالوں سے معمور ہو جاتا ہے، اور وہ اپنی اس ذہنی کیفیت پر جتنا غور کرتا جاتا ہے اس کی مسرت و بصیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اپنے اپنے ماحول اور پوری کائنات کے متعلق اس کے شعور کے ساتھ ساتھ اس کے احساس شعریت میں بے پناہ وسعتیں، گہرائیاں اور بلندیاں پیدا ہوتی جاتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں حالی کے مسدس کو پڑھ کر زیادہ سے زیادہ حال کے متعلق عبرت اور ماضی کے بارے میں حسرت ہوتی ہے، حالانکہ موضوع شکوہ و جواب شکوہ اور مسدس حالی دونوں ہی ملی نظموں کا ایک ہی ہے، لیکن حالی کا شکوہ صرف اپنے ہم مذہبوں سے ہے، جس میں معناً کوئی غیر معمولی بات، کوئی ندرت و جدت نہیں اور لوگ اس کے عادی ہیں، جبکہ اقبال کا شکوہ خدا سے ہے، جو بڑی ہی نادر و جید اور غیر معمولی بات ہے اور بالکل خلاف عادت ہے۔ اس کے علاوہ حالی کے تخیل میں ہمدردگی و غمگساری جتنی بھی ہو تفکر اور شعریت کا عنصر نہیں ہے، پھر یہ تخیل ہی کا فرق ہے جو اسلوب بیان میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ حالی سیدھے سادے انداز میں مدو جزر اسلام تو دکھا سکتے ہیں، لیکن نہ تو نفاست کے ساتھ انسان کے کارناموں کے بیان واقعہ کی تاب سخن ان کے اندر ہے نہ شوکت بیان کے ساتھ خدا کی طرف سے انسان کی کوتاہیوں پر تنبیہہ کا شاہانہ انداز ان کے بس میں ہے۔
’’ جواب شکوہ‘‘ کا یہ آہنگ ملاحظہ کیجئے:
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشک بے تاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
جہاں تک افسانہ ملت کے غم انگیز اور اس پر پیمانہ چشم یا پیمانہ دل کے اشک بیتاب سے لبریز ہونے کا تعلق ہے یہ کیفیت مسدس حالی میں بھی ہے۔ مگر ’’ دل دیوانہ‘‘ کے ’’ شوخ زباں‘‘ اور’’ نعرہ مستانہ‘‘ کے ’’ آسماں گیر‘‘ ہونے کا راز صرف’’ شکوہ‘‘ میں ہے جبکہ ’’ جواب شکوہ‘‘ اسی کا عکس نیز نقش ہے۔ اوپر کے بند میں ٹیپ کا پہلا مصرعہ ’’ شکوہ‘‘ ہی سے متعلق ہے۔ جس کے ’’ حسن ادا‘‘ کی داد دیتے ہوئے خداوند عالم کی زبان اعلان کرتی ہے کہ حسن ادا کے سبب شکوہ جیسی تلخ چیز بھی شکر کی طرح شیریں بن گئی۔ یہ شیرینی، تخیل کی مسلمہ تلخی کے باوجود شاعرانہ اسلوب بیان کی ہے۔ بہرحال بندوں کو خدا سے ’’ ہم سخن‘‘ کرنے کا کارنامہ ’’ شکوہ و جواب شکوہ ‘‘ دونوں نے مل کر ہی انجام دیا ہے، اس لیے کہ نظم کے دونوں حصے مربوط ہو کر ہی اس دو طرفہ مکالمے کا منظر پیش کرتے ہیں جس میں باری باری سے بندہ اور خدا دونوں ایک دوسرے سے ہم کلام ہو کر ایک تمثیل کے کردار بن جاتے ہیں۔
تاریخ، فلسفہ اور سیاست کے پر خیال نکتوں کے درمیان اور ان کی فنکارانہ پیشکش کے لیے اعلیٰ نفیس، دبیز اور لطیف شاعری کی چند جھلکیاں نظم کے دونوں حصوں میں ملاحظہ کیجئے:
شکوہ
تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آئے عشاق گئے وعدہ فرا لے کر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
درد لیلیٰ بھی وہی، قیس کا پہلو بھی وہی
نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
عشق کا دل بھی وہی، حسن کا جادو بھی وہی
امت احمد مرسلؐ بھی وہی، تو بھی وہی
پھر یہ آزردگی، غیر سبب کیا معنی؟
اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی؟
وادی نجد میں شور سلاسل نہ رہا
قیس دیوانہ نظارۂ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے، ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اجڑا ہے کہ، تو رونق محفل نہ رہا
اے خوش آن روز کہ آئی وبصد ناز آئی
بے حجا باز سوئے محفل ما باز آئی
بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
سنتے ہیں جام بکف نغمہ گو کو بیٹھے
دور ہنگامہ گلزار سے یک سو بیٹھے
تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ہو بیٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
جواب شکوہ
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
نہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
آئیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
رخت بردوش ہو اے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کر دے
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے سے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے سے
٭٭٭
دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنالک ذکرک دیکھے
مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پانے والی دنیا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
بلاشبہ دونوں حصوں کے انداز گفتگو میں کچھ فرق ہے۔شکوہ کا ’’ نعرہ مستانہ‘‘ جواب شکوہ میں ذرا یا زیادہ موقع کے لحاظ سے متین ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل فطری ہے، انسان اور خدا کی آوازوں کے درمیان امتیاز ہونا ہی چاہیے۔ بہرحال دونوں آوازوں میں شعریت کا مطلق رنگ و آہنگ یکساں ہے۔ میں نے جس ترتیب سے ایک ہی سلسلہ بیان کے جو حوالے نظم کے دونوں حصوں میں دینے ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک بند کے مصرعوں میں، پھر ٹیپ کے دو مصرعے ملا کر چھ مصرعوں میں جو ناگزیر اور منطقی ربط خیال ہے اس کے علاوہ مختلف بندوں کے درمیان بھی ارتقائے خیال مربوط ہے۔ جہاں تک پوری نظم میں تمام اشعار کے درمیان ا رتباط کا تعلق ہے، دونوں حصوں کے مابین باہمی تنظیم منصوبہ نظم ہی سے ہویدا ہے اور اس منصوبے کی تعمیل بھی اس ارتباط پر دلالت کرتی ہے۔ چنانچہ شکوہ و جواب شکوہ کی مطابقت تو واضح ہے لیکن ہر دو حصے میں الگ الگ ارتقائے خیال اس نقطہ نظر سے تلاش کرنا عبث ہے کہ کوئی ایک نکتہ یا مضمون نظم کا موضوع ہے اور سارے اشعار اسی کے ارتقاء کا سامان کرتے ہیں، البتہ نظم کا جو عمومی تخیل ایک ملت کی مرقع سازی اور خاکہ نگاری پر مشتمل ہے وہ شروع سے آخر تک اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ موضوع تخیل ہے اور فنکاری کے سارے پیچ و ختم اسی مرکزی نقطے کے گرد نمایاں ہوتے ہیں، خیالات اور احساسات ایک روانی اور تسلسل کے ساتھ مربوط طریقے پر رونما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں تمام ارتقائے خیال کی رفتار اتنی تیز ہے کہ قاری کے لیے دم مارنا مشکل ہوتا ہے۔
لہٰذا اگر اسلام کا نظریہ حیات کسی تعصب کے تحت قاری کے مطالعے میں حائل نہ ہو تو شکوہ و جواب شکوہ کی فنی خوبیاں اس پر اپنے آپ واضح ہو جائیں گی۔ شاعری کی زبان و بیان کا استعمال اسی نظم میں اسی شان سے ہوا ہے جس کا اظہار کسی بھی انسانی موضوع کی فنی نقش گری میں ہو سکتا ہے بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ فنکار کے اندرونی جذبے کے سر جوش نے نمونہ فن میں ایک ایسی حرارت پیدا کر دی ہے جس کی آنچ مشکل سے مشکل مواد کو گھلا یا موڑ کی ہیئت کے سانچے میں بالکل فطری طور پر ڈھال دیتی ہے۔ جبکہ ایک تنقیدی نگاہ فنکار کے اندر سے ابھر کر اس سانچے کی نوک پلک بلا تکلف اور بے ساختہ درست کرتی رہتی ہے۔ شکوہ و جواب شکوہ اقبال کی ایک بڑی کامیاب حسین، پر اثر اور اہم شاعرانہ تخلیق ہے، جس کے ارتعاشات خضر راہ اور طلوع اسلام سے بھی آگے بڑھ کر ساقی نامہ ذوق و شوق اور مسجد قرطبہ کے مصرعوں اور شعروں میں فسوس کئے جائیں گے، جبکہ قبل اس کے آثار تصویر درد، اور شمع اور شاعر کے بندوں میں بھی نمایاں تھے۔