ڈاکٹر بلند اقبال(کینیڈا)
کچھ نہیں ،بس یو نہی خیال آیا تھا اور برش کینوس پر چلتا چلا گیا ۔ رنگ پر رنگ چڑ ھنے لگا اور خالی خولی لکیریں زندگی کا مزا چکھنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں بے جان کینوس جیسے زندگی کا روپ پا نے لگا۔ ایک لکیر جو ترچھی پڑی تو اُجاڑ شاخوں پر پھول کھل گئے ، ایک لکیر جو آڑی پڑ ی تو انجان راستوں پر قدموں کے نشاں بن گئے۔ کہیں دہکتا ہوا سورج جلنے لگا اور کہیں چاند شرما نے لگا۔ وقت بھی اپنے حصے کا برش پھیر گیا اور کینوس صبح و شام کے رنگوں سے سجنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسی تصویر بنی کہ خود برش بھی کینوس سے شرمانے لگا۔
آرٹ گیلری میں وہ چپ چاپ کھڑا ہوا سفید بالوں والا بو ڑھا آرٹسٹ پہلے تو اُس تصویر کو تکتا رہا جیسے خود کے بنائے ہوئے شہکار کو نظروں ہی نظروں میں تول رہا ہو مگر جلد ہی اُسے یوں لگا جیسے اُس کا دل کسی انجانے خیال سے بھرآیا ہو۔ کچھ ہی دیر میں اُسکی نظروں میں تصویر د ھندلانے سی لگی ۔۔اُورپھر جیسے تصویر کا ہر ایک رنگ اُس کی ذات میں جذب ہوتا چلا گیا۔۔یہی وہ چندلمحے تھے کہ جب وہ بو ڑھا آرٹسٹ اپنے آپ سے بے گانہ ہو گیا ۔ تصویر اُس میں شامل ہو گئی اوروہ تصویر میں شامل ہو گیا۔
اور پھر اُس بو ڑھے آرٹسٹ کو یوں لگنے لگا جیسے کینوس پر اُس کی کھینچی ہوئی آڑی تر چھی لکیریں ، اس کی بنائی ہوئی رنگوں کی بہاریں اور زندگی کی صبح و شامیں،سب ہی اُس سے غم ناک فغاؤں سے فریاد کررہی ہیں ۔۔ اُسے یوں لگا کہ جیسے وہ بلک بلک کر رو رہی ہیں اور اُس سے پوچھ رہی ہیں ۔۔
’’کیوں ایسی بھی کیا ضرورت تھی ۔۔؟ تم نے ہمیں بے جان رنگوں سے ایک ہستی کی شکل دے دی۔۔ تمہیں پتہ ہے نا۔۔ یہ جو تمہارا برش رنگوں کی بہاریں لایا ہے ۔۔وہ تخلیق سے پہلے بہت سے جنموں کی آزمائشوں سے بھی گزرا ہے ۔۔وہ ہر ایک رنگ میں جل کر تم جیسے تخلیق کار کے ہاتھوں میں اُبھرا ہے ۔ تمہیں پتہ ہے نا اِن ہرایک آڑی تر چھی لکیروں کے پیچھے کھوئی ہوئی رُتوں کے الم ناک فسانے بھی ہیں ۔۔تبھی تو ان اُجاڑ شاخوں میں کہیں پھول کھلے ہیں اور کہیں قدموں کے نشاں۔۔ یہ دہکتا ہوا سورج ،یہ شرماتا ہوا چاند، یہ شریر تارے ،یہ افق کی تمتماتی ہو ئی سُرخی، یہ شام کا ملگجا اند ھیرا ۔۔یہ گزرتے ہوئے وقت کی علامتیں۔۔ یہ سارے ہی رنگ تمہارے خیالوں میں بس کر ہم گم نام لکیروں کوزندگی دے گئے ۔ ۔۔ مگر کیوں ۔۔۔ کیا محض بازار میں بیچنے کے لیے۔۔ ؟ ‘‘
اچانک آرٹ گیلری میں چپ چاپ کھڑا ہوا بو ڑھا آر ٹسٹ اپنی بنائی ہوئی تصویر کو تکتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ دُھندلالی ہوئی تصویر پھر سے رنگوں کا روپ پانے لگی، پھر سے اُس کے نقوش نمایاں ہونے لگے اُسے لگا جیسے اُس کی بنائی ہوئی تصویر کسی روتے ہوئے بچے کا آنسوؤں سے دُھلا ہوا چہرا بن گئی ہو ۔
اُس را ت وہ سفید بالوں والا بو ڑھا آرٹسٹ اپنی جائے نماز پر دیر تک روتا رہا اور کسی بلبلاتے ہوئے بچے کی طرح اپنے خدا وندوتعالی سے گڑ گڑا کر فریاد کرتا رہا ۔ ۔۔
’’کیوں ایسی بھی کیا ضرورت تھی ۔۔؟تم نے ہمیں بے جان رنگوں سے ایک ہستی کی شکل دیدی ۔۔ تمہیں پتہ ہے نا تمہاری اِن ہرایک آڑی تر چھی لکیروں کے پیچھے بہت کربناک فسانے ہیں۔۔ بھوک ، غربت ،بیماری افلاس و لاچارگی کے صدیوں پُرانے زمانے ہیں ۔۔ تمہاری تصویر کے رنگوں میں انسانی لہو سے بنے ہوئے آشیانے ہیں۔۔ تمہارا برش جو ر نگوں کی بہاریں لایا ہے ،وہ جو خیال کی صورت میں تم میں سمایا ہے ۔۔اُسے وہیں بسے رہنے دیتے۔۔ ہمیں اپنی ہی ذات کا حصہ بنے رہنے دیتے ۔۔ہماری ہستی کی ایسی بھی کیا ضرورت تھی۔۔ کیا محض اپنی ذات کو جاننے کے لیے ۔۔؟ کیا محض اپنی تخلیق کو ناپنے کے لیے۔ ؟ تمہیں توپتہ ہے نا۔۔
’’ میری تخلیق تو آرٹ گیلری میں محض ایک بار بکتی ہے اور تمہاری تخلیق یہاں دنیا میں بار بار۔ ۔۔۔‘ ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’میلے میں کئی چھوٹے بڑے پنڈال ہیں،جن میں رنگا رنگ تماشے دکھائے جا رہے ہیں۔دیکھنے والے خود ہی تماشائی ہیں،خود ہی تماشا ہیں اور خود ہی تماشا دکھانے والے۔اس لیے معلوم نہیں ہونے پاتا کہ کون کیا ہے۔کون داد دے رہا ہے اور کون داد وصول کر رہا ہے ۔ یہ ایک ایسا طلسم ہے جسے کسی سامری نے نہیں بنایا بلکہ خود اس کے اسیروں نے بنایا ہے۔بنایا اور پھر خود اس کے طلسم میں جکڑے گئے۔۔۔۔۔میلے میں خوب شور ہے ،ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اس میں شریک ہے اور گزرتے ایک ایک لمحے سے پورا حظ اُٹھانا چاہتا ہے۔درویش و سلطان و دانشور ہم پیالہ و ہم مشرب ہیں،اور محفل میں ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں۔دانشور کا کہنا ہے کہ یہ اس کے قلم کا کمال ہے کہ اس نے سب کو اکٹھا کر دیا ہے۔درویش اسے اپنے فقر کا معجزہ سمجھتا ہے اور سلطان اسے اپنی فیاضی و حکمت گردانتا ہے۔باہر کچھ بھوکے جن کی انتڑیاں سوکھ کر جلد سے جا لگی ہیں،دربانوں سے دست و گریباں ہیں۔شور سن کر سلطان نے وجہ جانی تو اسے بتایا گیا کہ کچھ بھوکے روٹی کی طلب میں قصرِ شاہی کی دیواروں سے لپٹ رہے ہیں۔‘‘
(رشید امجد کے افسانہ نوحہ۔۱سے اقتباس
بحوالہ افسانوی مجموعہ ست رنگے پرندے کے تعاقب میں صفحہ نمبر ۹۷، ۹۸)