شاہ گھر میں داخل ہوا تو نظر سامنے صوفے پہ بیٹھے وجود پر پڑی سرسری سی اٹھی نظر پلٹ کر آنے سے انکاری ہوئی۔پری بلیک سونٹ پہنے ہوئے تھی جو اسکی گوری رنگت پہ خوب جچ رہا تھا۔رجسٹر گود میں رکھے منہ میں پن دبائے وہ کسی سوچ میں گم تھی شاہ کچھ پل ساکت سا وہی کھڑا پری کو دیکھتا رہا پھر دل پہ ہاتھ رکتھے ہوئے بربڑایا چل ازمیر پری کو منا لے ورنہ اسکو چین نی آئےگا۔السلام علیکم
پری چونکی لیکن جواب دیے بغیراپنے کام میں مصروف ہو گئی شاہ نے ٹھنڈی سانس لی۔اور پری کے ساتھ ہی صوفے پہ بیٹھ گیا ۔کیا ہورہا ہے ؟
پھر خود ہی رجسٹر اٹھا کے دیکھنے لگا پری خاموش بیٹھی دیواروں کو گھور رہی تھی جیسے اس سے ضروری کوئی کام نہ ہو۔یہ تو بہت آسان سوال ہے۔پری کی آنکھوں میں حیرانی ابھری کہ جس سوال پہ وہ آدھے گھنٹے سے سر کھپا رہی شاہ کو مشکل لگا ہی نی۔شاہ کو اپنی چال کامیاب ہوتی ہوئی نظر آئی۔کہو تو کروا دوں حل۔پری نے ہاں بولنے کے لیے لب وا کیے لیکن شاہ سے ناراضگی کی وجہ سے خاموش ہو گی۔شاہ نے ترچھی نظروں سے پری کے تاثرات کا جائزہ لیا۔سوچ لو پری سر معیز ہیں بہت کھروس نہ مکمل اسائنمنٹ پہ کیا حشر کرتے ہیں آپ جانتی ہیں ۔
آپ کے دوست ہے تو آپ جیسے ہی ہوں گے نہ۔شاہ مسکرایا شکر ہے کفر تو ٹوٹا۔سوری نہ یار دیکھو ں کان پکڑ رہا ہوں۔شاہ نے کہتے ساتھ ہی کان پکڑے ۔اس وقت شاہ کے آفس کا کوئی بندہ اسے دیکھ لیتا تو اس کا ہارٹ فیل ہی ہو جا تا وہ ازمیر شاہ جس کےنام سے بھی لوگ کانپ جاتے ہیں اپنے سے چھوٹی معصوم سی لڑکی کے سامنے کان پکڑے بیٹھا تھا۔پری نے فوراً اس کے ہاتھ کان سے ہٹائے ہم نے آپ سے یہسب کرنے کو نی بولا تھا۔اٹس اوکے آئندہ یوں نہ کیجیے گا ورنہ بات نی کریں گے ہم آپسے ۔اچھا جلد ی سے یہ حل کر دیں ہم ت کب سے کھپ رے ہیں ۔ لاٶ مطلبی لڑکی اچھے سے جانتا ہوں آپکو مجھ سے کام نہ ہوتا اتنی جلدی کبھی نہ مانتی آپ۔
شاہ اب کروا بھی دیں۔ جو حکم جان شاہ۔پن پکڑتے ہوئے شاہ کا ہاتھ پری کے ہاتھ سے مس ہوا شاہ کے لبوں پہ جاندار مسکراہٹ ابھری۔پری کا چہرہ شرم سے لال ہوگیا شاہ اس خوبصورت منظر میں کھو گیا۔پری نے جب شاہ کو یوں دیکتھے ہوئے دیکھا تو غصے سے اٹھی ۔رہنے دیں ہم خود ہی کر لیں گے شاہ نے پری کا ہاتھ پکڑ کے بٹھایا۔ جان شاہ بیٹھ جائیں کروا رہا ہوں ۔ ہم آغا جان سے شکایت کریں گے آپکی۔شاہ نے نا سمجھی سے پری کی طرف دیکھا پھر اپنے ہاتھ میں اسکا ہاتھ دیکھ بات سمجھ آئی ۔شاہ نے شوخی سے پوچھا کیا کہیں گی ۔یہی کے شاہ۔۔۔آگے شرم سے بولا ہی نی گیا ۔ہاں بو لو کیا شاہ ۔شاہ آپ بہت برے ہیں پری نے خفگی سے کہا۔شاہ کا بے ساختہ قہقہ بلند ہوا
اذلا ن کو ہوش آیا تو درد کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔اذلان کے حواس بحال ہوئےاس نے اردگرد کا جائزہ لیا تو کمرہ خالی تھا البتہ اب وہ بنرھا ہوا نی تھا۔شاہ کے الفاظ ا ب ازلان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ بہت غلط کیا میرے وہم گمان میں بھی نہ تھا مجھے جس غلطی کی سزا دی تم نے اب وہ لڑکی میری ضد ہے اس کو حاصل کر کے رہوں گا میں ۔ اب دیکھتا ہوں کیسے بچاوں گے اپنی اس پری وش کو۔ازلان آگے کا لائحہ عمل سوچتا کرسی سے اٹھا درد کو نظر انداز کرتے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔گھر جانے سے پہلے کلینک جا نا مناسب ہے ورنہ ان زخموں دیکھ سب کے سوالوں کے جواب دینا مشکل ہو جا ئے گا۔ ——-
شاہ آغا جان کے کمرے میں دستک دے کر داخل ہوا ۔آٶ ازمیر تم یار کب سے یوں پرایوں کی طرح آنے لگے۔جب سے آپ شاہ کو بھو ل گے۔ آغا جان نے شاہ کو نا سمجھی سے دیکھا پھر بولے جہاں تک مجھے یاد ہے صبح تک تو آپ بلکل ٹھیک تھے ہماری کسی بات پہ کوئی بحث بھی نی ہوئی آج۔پھر ناراضگی کی وجہ؟۔شاہ نے ہمت کر کے لب کھولے وہ جتنا بھی اکھڑ مزاج اور ضدی تھا آغا جان کے سا منے شرافت کے لبادے میں رہتا تھا۔مجھے اپنی امانت واپس چاہیے وہ بھی جلد ازجلد ۔آغا جان اس کی بات اچھے سے سمجھ گے تھے۔ شاہ آپ نے ہی کہا تھا کہ پری ابھی چھوٹی ہے اسے پڑ ھنے دیا جا ئے اب خو د ہی آپ ۔۔۔ہمیں آپ نے یہ بات کر کے ما یوس کیا ہے۔ شاہ آغا جان کو کیسے سمجھاتا کے اس کے دل میں جا نے کیوں پری کے کھونے کا ڈر بیٹھ گیا ہے۔آغا جان پری کی پڑھا ئی کا کوئی حرج نی ہو گا میرا وعدہ ہے آپ سے آپ میری مجبوری سمجھ لیں۔ ہم وجہ ہی تو جا ننا چاہ رہے ہیں آغا جان شاہ سے بولے ۔شاہ خا موش رہا ۔ٹھیک ہے تمہاری یہی ضد ہے تو جاٶ ہم پری سے بات کر کے کچھ کرتے ہیں۔شاہ جانتا تھا وہ ناراض ہو گے ہیں مگر فی الحال اسے صرف پری کی فکر تھی۔جاتے ہوئے لائٹ بند کرتے جانا واضح اشارہ تھا کہ اب وہ مزید اس کی شکل دیکھنا نی چاہتے۔شاہ اداس شکل لیے لائٹ بند کرتا کمرے سے نکل گیا۔——
وہ بے دھیانی میں سیڑھیاں اتر رہا تھا سامنے سے آتی پری کو دیکھ نی پایا اور پری سے ٹکرایا شاہ نے بروقت پری کو اپنی پناہ میں لیے پری نے ڈر سے آنکھیں میچ لی تھیں شاہ اس دلکش منظر میں کھو گیا کچھ دیر پہلے کی اداسی کہیں جا سوئی اسنے بے خودی میں پری کے ماتھے پہ اپنے لب رکھ دیے پری نے اس لمس سے جھٹ آنکھیں کھولی اور خفگی سے شاہ کو دیکھا اور اپنا آپ چھرانے کے لیے مزاحمت کی شاہ نے کسی نازک آبگینے کی طرح پری کو گرفت سے آزاد کر کے احتیاط سے کھڑا کیا ۔ پری ایک پر شکوہ نگاہ اس پہ ڈالتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔اتنی سی بات پہ اتنا ناراض ہو گی رخصتی والی بات پہ پتا نی کونسا طوفان کھڑا کرے گی۔شاہ بیٹا تیار رہ یہ دادا پوتی تجھے چھوڑے گے نی۔شاہ بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑا اس بات سے بے خبر کے کوئی اس کی خوشیوں پہ بری نظر لگا ئے بیٹھا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...