(Last Updated On: )
دو سوفٹ دو رَویہ سڑک کی دونوں جانب بلند و بالا عمارتیں تھیں؛جن میں سے کچھ جدیدطرز اورخوب صورت وضع کی ایسی دلکش کہ انھیں دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی تھیں؛ان کے چمکتے شیشوں پر سورج کی کرنیں جب پڑتیں تو دیکھنے والوں کو دعوتِ نظارگی کا ایسا قرینہ پیش کرجاتیں،کہ اُٹھتے قدم ایک لمحے کے لیے ضرور رُک جاتے۔ جدید طرز کی ان فلک بوس عمارتوں میں عہدِ نو کی ہرچیزبغرضِ تسکین موجود تھی۔ان کے تہ خانوں سے لے کر ساتویں منزل تک ہرجگہ اشیائے صرف کے کارخانوں اورمنڈیوںکامال بھرا پڑا تھا_______ _ کون سی ایسی چیز تھی؛جواِن شاپنگ پلازوں میں نہیں تھی؟ کمپیوٹر، گھڑیاں، ٹیلی ویژن، کاریں، موٹر سائیکلیں، فرنیچر، کپڑا،فریج، ایئرکنڈیشنر، گیزر،سامانِ آرائش ، فیشن کی مصنوعات ،تازہ پھل ، سبزیاں، غلّہ، ملکی اور غیر ملکی کھانوں کے ریستوران اوراسی طرح کم وبیش ہر ملک کی جدید اور قدیم چیزیں ان پلازوں میں وافر مقدار میںموجود تھیں؛ دن رات ہزاروں لوگ شہراوربیرونِ شہر سے آکر یہاں خریداری کرتے۔ مردوزَن پر مشتمل سیلاب ان سڑکوں اور پلازوں کو گھیرے رکھتا________ ہزاروں گاڑیاں آتیںجاتیں________ انھی عمارتوں کے بیچ میں کہیں کہیں ایسی عمارتیں بھی تھیں؛ جو شان وشوکت کے ساتھ عہدِ رفتہ کی عظمتوں کی امانت دار تھیں۔ قدیم طرزکی ان عمارتوں میں سے کچھ شکستہ و بوسیدہ ہوچکی تھیں؛ان میں سے بعض کے سامنے خوانچہ فروشوں نے قبضہ کررکھاتھا؛ کہیں کہیں تھڑا ہوٹل والے قابض تھے؛کچھ عمارتوں کے سامنے رکشا اسٹینڈ بن چکاتھا۔ وہ عمارتیں جن میں خاندان آباد تھے؛ اُن کی حالت نسبتاً بہتر تھی؛ سال بہ سال روغن اورسفیدی ہوجانے کے باعث اپنے تئیں یہ عمارتیں جدیدطرز کی عالی شان عمارتوں کا مقابلہ کررہی تھیں________ پھر ان عمارتوں کے مکینوں میں سے بعض نے یہ راہ نکال لی کہ نیچے کی منزل کرائے پراُٹھا دی۔بالعموم ایسی جگہوں پر دہی بھلے ،آئس کریم، پھل سبزیاں یا پھرآرائشی سامان بیچنے والوں کی کثرت ہوتی؛البتہ بعض مقامات گودام کے طور پر بھی استعمال ہوتے تھے۔اصل میں یہ انتخاب سے زیادہ قسمت سے جڑی بات ہے۔ کسی مکین کواچھا کرایہ دار مل گیا تواُس کی بن آئی اوراُس کی بدقسمتی آڑے آئی تو کسی لنڈے فروش سے اُس کا پالا پڑ گیا_ _ _ _ _ _ _ _ جو ایک طرف عمارت کا حسن گہنانے کا سبب بنا تو دوسری جانب مالک کی آمدن میں گھاٹے کا باعث بھی۔ یہی اس شہر کا چلن تھا؛اس لیے کوئی کچھ نہیں کر سکتاتھا________ سڑک کی دائیں جانب ساڑھے تین مرلے کی ایک تکونی عمارت تھی؛سامنے سے دیکھنے پر یوں معلوم ہوتا تھا؛ جیسے ایک کنال کا عالی شان بنگلاہو________ عمارت کا نچلا حصہ سیاہی مائل سبز پتھریلی دیواروں پر مشتمل تھا؛ماہر ہنرمندوں نے پتھرتراش کرتہ در تہ اس سلیقے سے لگائے تھے کہ زمانے گزر جانے کے باوجود ان کاحسن سلامت تھا________ لگ بھگ پانچ فٹ اونچی ان پتھریلی دیواروں کے اُوپرکارنس کے انداز میں سُرخ پتھر لگایاگیاتھا؛ پھر اُوپر مسلسل دو منزلہ عمارت تھی؛ جس کی بیرونی ساخت گہرے سیاہ اورسفیدمرمر سے ڈھکی ہوئی تھی۔پہلی نظر میں یہ دیواریں شطرنج کی بساط معلوم ہوتی تھیں۔ سامنے آٹھ مربع فٹ کا چوبی دروازہ تھا؛ جس میں سے اڑھائی فٹ چوڑا اورساڑھے تین فٹ اونچاایک دَرنکالاگیاتھا۔ بڑے کواڑ عموماً بند رہا کرتے تھے اورآمدورفت کے لیے یہ کھڑکی نما دَر ہی استعمال ہوتا؛ جس میںسے گزرنے کے لیے گردن کے ساتھ کمر کو بھی بڑی حد تک جھکانا پڑتا؛ جیسے رکوع کی حالت ہوتی ہے۔ دروازے سے چند فٹ چھوڑ کر دونوں جانب چھے فٹ چوڑی اورچار فٹ اونچی چوبی کھڑکیاں تھیں؛جن کے سامنے ایک انچ موٹے سریے کی سلاخیں تھیں۔ان سلاخوں کے پیچھے جالی نصب تھی اورکھڑکیوں کے اُوپر ٹین کے چھجے تھے؛ چھجوں کے کناروں پرٹین کی جھالریں لٹکتی تھیں________ بڑے دروازے سے اندر جائیں تو ڈیوڑھی سے جڑے دونوں جانب ایک ایک کمرا تھا؛سامنے گز بھرصحن اور پھرتکونی حصے میں طہارت خانہ اورباورچی خانہ معمولی فاصلے سے ایک ساتھ تھے۔ صحن میں سے آ ہنی تختوں سے بنی ہوئی دائروی سیڑھی تھی جو دوسری منزل تک پہنچ کرختم ہوجاتی________اُوپر والی منزل بھی عین مین اسی وضع میں بنی ہوئی تھی۔باہر کا منظر تودل لبھانے کے لیے بہت تھاالبتہ مکان کے اندر اگر کوئی پہلی بار داخل ہوجاتا تواُس کا دم گھٹنے لگتا؛ تھوڑی سی تکونی جگہ میں زیادہ دیر تک رہنا دل گردے کاکام تھا________!
کچھ عرصہ پہلے تک یہاں ایک خوب صورت نین نقشے کی سیاہ فام بڑھیا رہا کرتی تھی؛اپنی وضع قطع سے وہ انگریز معلوم ہوتی تھی۔ جن دنوں وہ کسی حد تک صحت مند تھی؛ضروریاتِ زندگی لینے کے لیے خودباہرآیا کرتی تھی؛اُس کے سر پر وکٹورین طرز کی ہیٹ،ٹانگوں میں ڈھیلی نِکراورکمر میں کم لمبائی کی قمیص، ایک کندھے پر کشکول نما بیگ اور دوسرے ہاتھ میں پلاسٹک کی ٹوکری ہواکرتی تھی؛ جو گھر سے نکلتے وقت عموماً خالی ہوتی اور واپسی پر اُس میں موسمی سبزیاں اور پھل اپنی خوشبو مہکا رہے ہوتے________ بڑھیا ٹھیک نو بجے اپنے گھر سے نکلتی اورفٹ پاتھ پر آہستہ رَو چلتے چلتے بازار تک نکل جاتی________موسم جب گرم ہونے لگتا تواُس کے ایک ہاتھ میں چھاتا بھی آجاتا؛پھر وہ بیمار ہوگئی توایک ادھیڑ عمرخاتون اُس کے گھر آنے جانے لگی؛اَب وہ پلاسٹک کی ٹوکری نئی خاتون کے ہاتھ میں دکھائی دیتی تھی۔ نئی خاتون اُسی معمول کے مطابق ضرورت کی چیزیں لایا کرتی؛پورا دن بڑھیا کے ساتھ گزارتی اور سرشام اپنے گھر لوٹ جاتی________ نہیں معلوم بڑھیا رات کا پہاڑ تنہا کیسے کاٹ لیا کرتی تھی ؟ چوں کہ زیادہ تر عمارتیں کمرشل ہو چکی تھیں؛اس لیے اکلوتے گھر پر کسی کا دھیان اتنی ہی دیر تک رہتا جتنی دیر وہ ادھیڑ عمر کی خاتون دروازے سے نکلنے اور داخل ہونے میں لگاتی؛ورنہ لوگ عموماً پرانی وضع کی اس عمارت پر سرسری نگاہ ڈال کرگزر جاتے_____اس کی نچلی منزل میں اگر لنڈے کی دُکان کھل گئی ہوتی توشاید ایک طرح کی رونق کا انتظام ہوجاتا؛ لیکن مکینوں کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔
لگ بھگ باون سال کی عمر کا ایک شخص ہر اپریل کی دس تاریخ کو اس عمارت میں داخل ہوتا اوربیس تاریخ کو پلٹ جاتا۔ یہ بڑھیا کا اکلوتا بیٹا رمیزالدین تھا، جوگزشتہ پچیس سال سے امریکا میں مقیم تھا؛وہیں اُس نے ایک گوری سے شادی کررکھی تھی؛اُس کے بچے امریکا ہی میں تھے______ _ اُس کی بیوی بچوں کو اُس کی بوڑھی ماں اورپاکستان سے کوئی سروکار نہیں تھا؛ لہٰذا وہ اس طرف کبھی نہ آئے۔ رمیز الدین اس عمارت میں جب موجود ہوتاتوگویا ہرروزروزِ عید اور ہر رات شب برات ہوتی تھی۔بڑھیا اُس کے من پسند کھانے اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی اور پھر اُس کے منھ میں چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کریوں ڈالتی جیسے پانچ سال کے بچوں کو کھلایا جاتا ہے۔وہ بھی ان لمحوں سے پوری طرح سرشار ہونے کی کوشش کیاکرتا تھا________ اپریل کی پندرہ تاریخ بڑھیا کے شوہر کی سال گرہ کا دن تھا؛ وہ شوہر جوسرکاری ڈاکٹر تھا______ تقسیم پاکستان سے قبل وہ ڈھاکا میں متعین تھا؛ حالات خراب ہوئے تواُس نے بیوی کو پانچ سالہ بیٹے سمیت مغربی پاکستان بھیج دیا؛بیوی بھی اُسی ہسپتال میں نرس تھی؛ کسی صورت آنا نہیں چاہتی تھی لیکن شوہر ،جس سے وہ بے پناہ محبت کرتی تھی، کے سامنے خاموش ہوگئی۔ ملک ٹوٹا تو تمیز الدین کا کچھ سراغ نہ مل سکا________ وہ کئی برس تک اُس کی راہ دیکھتی رہی؛ بیٹاجوان ہوگیا لیکن اُس کا انتظار ختم نہ ہوسکا۔دونوں ماں بیٹاہرسال تمیز الدین کی سالگرہ پراکھٹے ہوتے اور جی بھر کے اُسے یاد کرتے ؛ بڑھیا تو خیر روزانہ تمیز الدین کی اُس تصویر کے سامنے، جو ہمیشہ سرخ پھولوں کے ہار کے پیچھے مسکراتی رہتی،سے باتیں کیا کرتی تھی۔ رَمیز الدین سال میں ایک بار اس غرض سے آیاکرتاتھا؛ اور جب بھی یہاں آتا آس پاس کے پلازوں والے اُس کے سر ہوجاتے۔ آخری بار جب وہ یہاں موجود تھاتواُس کے گھر کی قیمت بیس کروڑ روپے لگائی گئی تھی؛اُس نے بڑھیا کو مخاطب کرکے کہا:
’’مم! یہ بہت رقم ہے۔ ہم اس سے نئی سوسائٹی میں عالی شان گھر خرید سکتے ہیں________ تم چاہو تو میرے ساتھ امریکا جاسکتی ہو؛میرا خیال ہے، تمھیں گھر فروخت کردینا چاہیے۔‘‘
بڑھیا کی ڈبڈباتی آنکھوںمیںستارے اُترآئے اور پھرایک خاموش سی چیخ اُس کے لبوں سے سرک گئی________ بیٹا اب مسلسل ماں سے معافی مانگے جارہاتھا:
’’ سوری مم!________ ریئلی ویرسوری مم!________سوری۔‘‘
’’رمیز! یہ گھر میری جنت ہے؛ تمیزالدین نے میری خواہش پراسے تعمیرکروایاتھا؛اس کے ایک ایک چپے میں اُس کی یادیں بسی ہیں؛ میں نے آج تک اُن چادروں کو نہیں بدلا جووہ لے کرآیاتھا اور ہم نے مل کربچھائی تھیں________ تم کہو بھلا کوئی اپنی جنت فروخت کر سکتا ہے؟ مئی سن________!تمیزالدین کی یادیںمیری سانسوںمیں دھڑکتی ہیں اور یہ گھر اُس کی یادوںکا مسکن ہے________ اسے چھوڑوں گی تو مر جاؤں گی________‘‘
پھر اس موضوع پر کبھی بات نہ ہوسکی________اَب جو بڑھیا بیماررہنے لگی تھی تورمیز الدین کو فکر کھائے جارہی تھی؛ مم کسی بھی صورت امریکا آنے کے لیے تیار نہیں تھیں اوراُس کے لیے ممکن نہیں تھا کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کرپاکستان جابسے________ اُس کی تینوں بیٹیاں کالج جارہی تھیں، بیٹا ابھی اسکول کے آخری سال میںتھا________ پھر ایزابیلا بھی کچھ کمزور ہو گئی تھی؛ ڈاکٹروں نے اُس کے لیے مسلسل آرام تجویز کیاتھا؛ایسے میں اُسے تنہا چھوڑ کر پاکستان جانا بھی مشکل تھا۔
O
اُن دنوں میٹرو بس منصوبے پر کام ہورہاتھا؛ جہاںبڑے بڑے پلازوں کے مالک پریشان تھے؛وہاں بڑھیا بھی اپنے ساڑھے تین مرلہ کے مکان کے لیے رنجیدہ تھی۔ منصوبے کے مطابق اُس کا گھر ڈھایا جانا ضروری تھی________ پہلے زبانی کلامی اورپھر درخواستوں کے ذریعے اُس نے کوشش کی کہ کسی طرح اُ س کا گھراس آسیب سے بچ جائے______مگر بے سود؛ تب اُس نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا؛ اُس کی خاتون وکیل نے ہر طرح سے جج کو سمجھانے کی کوشش کی ؛ لیکن دوسری طرف سے ایک ہی بات کہی جارہی تھی ؛کہ:
’’ جب ریاست کو کسی چیز کی ضرورت ہو گی تووہ اُسے اپنی ملکیت میں لے لی گی۔اس لیے خاتون کو سرکاری ویلیو کے مطابق گھر کی قیمت دے دی جائے گی۔‘‘
بڑھیا متانت کے ساتھ عدالتی کارروائی میں شریک ہوتی رہی________وہیل چیئرپربیٹھ کروہ وکیلوں کی جرح اورجج کے ریمارکس سنتی؛ آخر جب اُس کے خلاف فیصلہ سُنادیاگیا________ عین اُسی وقت اُس نے چیختے ہوئے جج کو مخاطب کیا:
’’آپ کسی عبادت گاہ کو گرانے کا حکم کیسے دے سکتے ہیں؟آپ ایسا نہیں کرسکتے_______ میںپچاس سال سے وہاں اپنے شوہر کی عبادت کررہی ہوں________ بتائیں کیا شوہر مجازی خدا نہیں ہوتا________؟ کیا اُس کی عبادت ناجائز ہے_______؟ کیاداسی کو مندر میں رہنے کا کوئی حق نہیں________؟‘‘
جذبات کا قانون کے ساتھ کیا تعلق ________؟ کچھ ہی روز بعدعدالتی ہرکاروں اور پولیس اہل کاروں کی معیت میں منصوبے پر کام کرنے والے لوگوں کا جتھاوہاں موجود تھا؛اُنھوں نے زبردستی بڑھیا کا سامان باہر نکالااوراُسے وہیل چیئر پر بٹھا کر باہر لے آئے۔ جہازی سائز کی اونچی کرین نمامشین نے اپنا پنجہ مکان کی چھت میںگاڑا________ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا؛ بڑھیا اپنی آنکھوں کے سامنے معبد کو ملبے میں بدلتے دیکھ رہی تھی________ تب کسی نے داسی کی طرف پلٹ کر دیکھا تواُس کی گردن ایک طرف لڑھک چکی تھی۔
O
[تسطیر،راولپنڈی/ جہلم ۔اگست ۲۰۱۸ء]