(Last Updated On: )
شفا کے موبائل پر میسج آیا.
اس کے موبائل پر آزر کا نام جگمگا رھا تھا.
شفا نے ڈھڑکتے دل کے ساتھ میسج کھولا.
لکین وه صرف میسج نھیں تھا وه تو اسکی موت کا پروانه تھا.
مجھے معاف کر دینا شفا لیکن میں تم سے شادی نھیں کرسکتا.میں کسی اور سے محبت کرتا ھو اور اسی سے شادی کروں گا ھو سکے تو مجھے بھول جانا.ھمیشه کے لیئے خدا حافظ.
آنسو لڑیوں کی صورت میں اسکی آنکھوں سے نکل رھے تھے.
کیوں آزر کیوں آخر کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا.میں نے تو تم سے سچی محبت کی تھی اس بات کی اتنی بڑی سزا دی تم نے مجھے.تم نے تو بڑے بڑے دعوے کیے تھے کھاں گۓ وه تمھارے سب وعدے.شفا کا دل خون کے آنسو رو رھا تھا.تم نے اچھا نھیں کیا آزر بھت پچھتاؤ گے تم دیکھ لینا.
اب میرے دل میں تمھارے لۓ صرف نفرت ھے صرف اور صرف نفرت.
شفا آنسو صاف کر کے آمنه بیگم کے کمرے کی طرف چلی گئ.
ڈوبتے سورج کو دیکھ کر دل میں خیال آیا تھا
نا جانے کیوں میری زندگی میں تیرا ساتھ آیا تھا
خوف خدا ھے دل میں ورنه
تیری بے وفائ پر مجھے موت کا خیال آیا تھا.(Neha Malik#)
امی اب بس بھی کریں.کیوں رو رو کے خود کو ھلکان کر رھی ھیں.دعا جب سے کلثوم بیگم کو خاموش کروانے کی کوشش کر رھی تھی.
کیسے چپ کر جاؤ.جب جب تجھ کو دیکھتی ھوں دل پھٹا ھے میرا.چھوٹی خیر سے اپنے گھر کی ھو گئ اور بڑی ابھی تک ماں باپ کے گھر بیٹھی ھے.
امی کیا میں آپ پر بوجھ بن گئ ھوں.دعا نے دکھی دل سے پوچھا.
بیٹیاں بھی کبھی اپنے ماں باپ پر بوجھ بنی ھیں.لیکن بیٹیاں اپنے ھی گھر میں اچھی لگتی ھیں.دنیا والے بھی سوسوباتیں بناتے ھیں.بس اب میں کسی کی نھیں سنو گی اور جلدی کوئ اچھا سا رشته دیکھ کر ھاں کر دوں گی.وه ندا آپا ھیں نا ان کا دیود ھے کیا نام تھا اسکا ھاں لیاقت بھت اچھا لڑکا ھے میں اسکی بات کر کے دیکھتی ھوں کل جاکر.یه کھ کر وه کمرے سے چلی گئ.
دعا کی قسمت میں کیا لکھا تھا یه تو صرف اوپر والا جانتا تھا
امی میں اندر آجاؤ شفا نے اجازت مانگی.
ھاں آجاؤ پوچھ کیو رھی ھو.آمنه بیگم نےمھبت سے کھا.
امی آپ نور آپی سے کھیں که وه رشته والوں کو بلالیں.شفا نے آنسو ضبط کرتے ھوۓ کھا.
لیکن بیٹا تم نے تو آزر سے شادی کاکھا تھا.میں یھی پوچھنے آنے والی تھی کے ابھی تک وه لوگ رشته لے کر کیو نهیں آۓ.
آمنه بیگم نے پریشانی سے پوچھا.
بس امی میں اس شخص کا نام بھی نھیں سنا چاھتی.آپ نور آپی کو فون کر کے رشتے والوں کو بلالیں.یه کھ کر وه اپنے کمرے میں چلی گئ.
آمنه بیگم نے پریشانی میں نور کو فون کیا.
مجھے یقین نھیں آرھا شفا کے آزر تمهیں دھوکا بھی دے سکتاھے.میں نے ھمیشه اس کی آنکھوں میں تمھارے لیے بے حد مھبت دیکھی تھی.
آج شفا کی منگنی تھی.دعا شفا کے گھر آئ ھوئ تھی.
مجھے خود یقین نھیں آرھا دعا کے وه مجھے دھوکا دے سکتا ھے.وه کھتا تھا کے وه مجھ سے بھت مھبت کرتا ھے پھر کیو کیا اس نے میرے ساتھ ایسا.میں تو اس کے سوا کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نھیں سکتی تھی لیکن صرف امی کی خواھش کے خاطر میں نے ھاں کر دی.
شفا کے آنسو رکنے کا نام نھیں لے رھے تھے.
اچھا اب ایسے تو مت رو دیکھو میک اپ بھی سارا خراب ھو رھا ھے.اور اچھا تم مجھے یه بتاؤ تم نے میسج کے بعد اسے فون کیا تھا.
بھت بار لیکن اسکا فون مسلسل بند آرھا ھے.
آؤ شفا سب تمھیں رسم کے لۓ باھر بولا رھے ھیں.
نور نے کمرے میں آکر کھا.شفا آنسو ضبط کرتے ھوۓ باھر کی طرف چلی گئ.
منگنی کی رسم ھوگئ تھی.شفا کو پتا نھیں کیو آفتاب کا موڈ کچھ عجیب سا لگا.
لڑکے والوں کو شادی کی جلدی تھی اسی لیے اگلے مھینے کی تاریخ شادی کے لۓ طے پائ.
دعا.کلثوم بیگم نے دعا کو مخاطب کیا.
جی امی.
دعا یه ایک رشته ھے.لڑکا بھت اچھا ھے.بھت ا چھی جوب بھی ھے.یه اسکی تصویر ھے.دیکھ لو اور مجھے بتاؤ کے تمھیں کوئ اعتراض تو نھیں.
امی مجھے کوئ اعتراض نھیں ھے آپ کو جیسا بھتر لگے.مجھے آپکی پسند پر بھروسه ھے.
دعا نے کھا.
مجھےپتا تھا میری بچی کو مجھ پے بھروسه ھو گا.الله میری بچی کا بھت اچھا نصیب کرے.
کلثوم بیگم نے دعا کو سچے دل سے دعا دی.
شفا نے آج آخری بار آزر کو فون کرنے کی کوشش کی.لیکن پھلے کی طرح ھی اس کا فون بند آ رھا تھا.
بس آزر اب تم میری زندگی سے ھمیشه کے لۓ نکل گۓ ھو.میں تمھیں چاه کر بھی بددعا نھیں دے سکتی کیوں کے جن سے مھبت کی جاتی ھے انھیں بدعا نھیں دی جاتی.
شفا نے آزر کا نمبر ڈیلیٹ کر دیا.
شفا اپنے ھاتھ میں .موجود انگھوٹی کو دیکھ کر تلخی اور بے بسی سے مسکرا دی.
تیری یاد نے مجھے خاک کر دیا
دیکھ تو نے میرا کیا حال کر دیا.