”تم ایسا نہیں کرسکتی“ شہریار نے بےیقینی سے کہا
”ہم ایسا کرسکتے ہیں“ اس نے چبا چبا کر جواب دیا۔ لاٶنج میں موجود ہر فرد پر سکتہ طاری ہوچکا تھا۔ کوٸ کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہا تھا۔ بس ایک شہریار ہی تھا جو شہرزاد کو اسکے ارادوں سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ اس نے ریوالور شہریار کے باپ پر تانہ ہوا تھا۔۔
ہاں! وہ مصطفٰی صاحب کو اپنے بھاٸ کا قاتل کہہ رہی تھی۔ جب کہ مصطفٰی صاحب تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی مصداق کھڑے اسے دیکھ رہے تھے
”ہم نے آپ سے کیا کہا ہے؟ آپ اپنا جرم قبول کر رہے ہیں یا نہیں؟“ شہرزاد نے طیش سے پوچھا تو سب سے پہلے ارتضٰی صاحب کا سکتہ ٹوٹا
”شہرزاد بیٹا یہ آپ کیا کرہی ہیں؟ آپ کو یقیناً کوٸ غلط فہمی ہوٸ ہی ہے“ انہوں نے اسے سمجھانا چاہا
”نہیں بابا! ہمیں کوٸ غلط فہمی نہیں ہوٸ ہے۔ جس انسان کو آپ اپنے باپ کی جگہ سمجھتے ہیں وہ انسان تو کیا درندہ بھی کہلانے کے لاٸق نہیں ہے“ اس نے غصے سے کہا
”آج ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں“
”شہرزاد میں تم سے آخری بار کہہ رہا ہوں کہ گن نیچے رکھ دو ورنہ۔۔۔۔۔“شہریار نے سختی سے کہہ کر بات ادھوری چھوڑ دی
”ورنہ کیا شیری؟“ اس نے شہریار کی جانب چہرہ مڑا ریوالور البتہ انہیں پر تانا ہوا تھا
”اگر بابا کو زرا سا بھی نقصان پہنچا ناں تو میں تمہیں بھی زندہ نہیں چھوڑوں گا“ شہریار نے غصے کے کہا۔ باقی سب تو تماشہ دیکھ رہے تھے
”ہم اسی کی جان لے سکتے ہیں شیری۔۔۔۔۔جسکے لۓ ہمارے دل میں کوٸ محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔اور ہم جانتےہیں کہ آپ ہم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اور آپ ہماری جان نہیں لے سکتے“ اس نے آنسوں سے لبریز آنکھوں سے کہا تو شہریار کی بولتی ہی بند ہوگٸ۔ وہ سچ کہہ رہی تھی
”لیکن شہی۔۔۔۔۔ہم بیٹھ کر بھی تو بات کرسکتے ہیں“ اب کہ اس نے نرمی سے بات کرنے کی کوشش کی
”نہیں!ہمیں ان سے اعتراف جرم کروانا ہے“ وہ کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھی
”بس بہت ہوگیا، بہت تماشہ لگا لیا تم نے“ شہریار نے اسے ایک بار پھر سختی سے کہا اور ریوالور لینے آگے بڑھا
”وہ صیح کہہ رہی ہے شہریار۔۔۔۔۔۔میں ہی قاتل ہوں۔ شہیر اور سوہا کا“ کمرے میں مصطفٰی صاحب کی شکست خوردہ آواز گونجی کمرے میں موجود افراد کو ایک پھر سانپ سونگھ گیا
”یہ۔۔۔۔یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔۔بھاٸ جان۔۔۔۔شہرذاد تو بچی ہے کچھ بھی بول دیتی ہے۔۔آپ اسکی باتوں کو۔۔۔۔۔“
”وہ کچھ بھی“ نہیں بول رہی ارتضٰی، وہ سچ کہہ رہی ہے۔ میں اس گناہ کا بوجھ چھ سال سے اٹھا رہا ہوں۔ تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں اس لۓ چھ سال سے پاکستان میں قدم نہیں رکھا۔ ایک کمزور لمحے کی زد میں آکر میں نے اپنے ہی بھتیجے کا قتل کردیا۔ بس ایک پل کو شیطان مجھ پر حاوی ہوا تھا اور مجھ سے وہ گناہ ہو گیا۔ میں چھ سال سے اس گناہ کی آگ میں جل رہا ہوں، پچھلے چھ سال میں ہر رات اللّٰہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگتے ہوۓ گزاری ہے۔ لیکن۔۔۔۔میرا گناہ اتنا چھوٹا نہیں کہ اتنی آسانی سے معاف ہوجاۓ۔“ وہ کسی ہارے ہوۓ جواری کی مانند زمین پر بیٹھ گۓ۔ شہریار تو کچھ بول ہی نہیں پارہا تھا، بےیقینی سے وہ کبھی شہرذاد تو کبھی اپنے ڈیڈ کا چہرہ دیکھتا
———*—————-*———–*
”تو مصطفٰی شاہد کب دے رہے ہو ہمارے پیسے واپس؟“ فون کی دوسری جانب آتی آواز نے انکے رونگٹے کھڑے کردیۓ
”مم۔۔۔۔میں جلد ہی دے دوں گا“ انہوں نے اٹکتے ہوۓ کہا
”اتنی مہلت تو خالد نے آج تک کسی کو نہیں دی جتنی تمہیں دی ہے“ اسکی آواز سے جھلکتا رعب مصطفٰی صاحب کے اوسان خطا کیۓ دے رہا تھا
”مجھےتین دن مزید دے دو۔ میں تمہارے سارے پیسے سود سمیت واپس دے دوں گا“ انہوں نے منت کی
”اور کتنی مہلت دوں میں تجھے؟“ اس نے چلاتے ہوۓ کہا تو انکا دل دہل گیا
”بس ایک آخری موقع دے دو خالد، تمہارے سارے پیسے تین دن میں واپس کردوں گا“ انہوں منت کے
”ٹھیک ہے پھر، لیکن یہ آخری موقعہ ہے اسکے بعد تو تیری لاش اٹھے گی“ خالد نے کہہ کر کھٹاک سے فون بند کردیا۔ مصطفٰی صاحب نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔ دو ماہ پہلے ہی انہوں نے خالد سے بیس لاکھ روپے قرضہ لے کر اپنے دوسرے بزنس میں لگایا تھا( ایک بزنس تو وہ امان سبزواری کے ساتھ کر ہی رہے تھے) انہیں اس میں نقصان ہوا اور سارے پیسے ڈوب گۓ۔ اب خالد بار بار اپنی رقم کا مطالبہ کر رہا تھا اور وہ بار بار اس سے مہلت مانگتے۔ انہوں نے غلطی کی کہ اس سے قرضہ لے لیا تھا۔ وہ اتنا خطرناک آدمی تھا کہ انکی جان بھے لے سکتا تھا۔ وہ بھاگ بھی نہیں سکتے تھے کیونکہ پیچھے وہ انکے بیٹے کو نقصان پہنچا سکتا تھا۔ اور پیسوں کا انتظام بھی نہیں ہورہا تھا۔
انکی مہلت کا دوسرا دن تھا، پیسوں کا بندوبست ہو نہیں سکا تھا۔ وہ خاصے پریشان تھے۔ اس دن وہ اپنے آفس جارہے تھے، راستے میں سوہا کی یونیورسٹی بھی پڑتی تھی اس لۓ اسے بھی پک کرلیا۔ خالد کے بندے اسکی جاسوسی کر رہے تھے۔ انہوں نے سوہا کو دیکھ لیا اور جاکر خالد کو اطلاع دی کہ اسکے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی تو خالد کی نیت خراب ہوگٸ۔ اگلے دن اس نے مصطفٰی کو کال کی
”پیسوں کا انتظام ہو گیا؟“ اس نے کافی نرمی سے پوچھا تو انہیں حیرت ہوٸ۔
”میں کوشش کررہا ہوں“
”ہونہہ۔۔۔۔۔تو اسکا مطلب انتظام نہیں ہوا“ اس نے پرسوچ انداز میں کہا
”میں تمہارا قرض معاف کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔“
”کیا۔۔۔۔۔واقعہ ایسا ہوا سکتا ہے کیا؟“ انہوں نے امید سے پوچھا
”وہ لڑکی جو تمہارے ساتھ تھی آج۔۔۔۔۔۔اسے میرے حوالے کردو“
”سوہا۔۔۔۔۔“انکے منہ سے بے ساختہ نکلا
”ہاں۔۔۔۔۔وہی تمہارے ملازم کی بیٹی“
”نن۔۔۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوسکتا“
”دیکھو مصطفٰی یہ تم بھی جانتے ہو کہ تم پیسوں کا بندوبست نہیں کر سکتے اس لۓ اگر جان پیاری ہے تو کل تک اس لڑکی کو میرے پاس چھوڑ جانا ورنہ۔۔۔۔۔۔ویسے بھی وہ لڑکی کون سا تمہاری اپنی بیٹی ہے“ اس نے کہہ کر فون کاٹ دیا۔ وہ ساری رات اسکی باتوں پر سوچتے رہیں۔ شیطان کہتا کہ اسکی بات ماننے میں کوٸ حرج نہیں جبکہ ضمیر ملامت کرتا۔ بلاآخر انہوں نے شیطان کی بات مان لی اور ضمیر کو سلادیا۔
اگلے دن وہ سوہا کو کالج چھوڑنے کے بہانے اسے خالد کے حوالے کر آۓ۔ وہ چیختی چلاتی رہی پر انکو رحم نہ آیا۔
سوہا کو غاٸب ہوے وہ تیسرا دن تھا جب شہرذاد اپنے بھاٸ کے پاس آٸ
”بھیا! ہمیں اپنی ایک دوست کے گھر جانا ہے“ گھر میں پچھلے تین دن سے سب پریشان تھے۔
”ٹھیک ہے میں لے جاتا ہوں“ اس نے کہا اور اسے لے کر اسکی دوست کے گھر کی جانب چل پڑا۔ اسکی دوست کا گھر ایک مضافاتی علاقے میں تھا۔ جہاں گھر کافی دور دور بنےتھے۔ شہیر نے گاڑی گھر سے کافی دور روکی اور اسے اسکی دوست کے گھر پیدل چھوڑ کر خود گاڑی کے پاس ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔اسے وہاں کھڑے زیادہ دیر نھیں گزری تھی جب اسے وہاں مصطفٰی صاحب کی گاڑی دکھاٸ دی وہ حیران ہوا
”تایا ابو، اور یہاں؟“ وہ حیران ہوتا گاڑی کے پیچھے گیا۔ اور چھپ کر ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ مصطفٰی صاحب اور خالد کے دو تین آدمی وہیں خالی میداں میں کھڑے تھے۔
”میں نے تو تمہارا کام کردیا تھا تو اب تم کیا چاہتے ہو؟“ انہوں نے پوچھا
”ہم نے تجھے یہاں یہ بتانے کو بلایا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔ہم نے سوہا کو مار دیا ہے اور اسکی لاش یہی پھینک دی ہے“
”کیا۔۔۔۔۔۔تم نے اسے مار دیا؟“ انہیں شاک لگا
”نہیں تو کیا زندہ چھوڑ دیتے؟ تیری جان بچ گٸ ناں توبس اپنی فکر کر“
”تو مجھے یہاں کیوں بلایا ہے؟“ انہوں نے جھنجھلاتے ہوۓ پوچھا
”دیکھ تو اب سے آذاد ہے۔ جہاں جانا چاہتا ہے چلا جا لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ پولیس کے سامنے اپنا منہ نہ کھولنا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔تو اچھی طرح جانتا ہے“ وہ اسے دھمکاتے ہوۓ وہاں سے چلے گۓ۔
انکے جانے کے بعد وہ مڑے تو پیچھے کھڑے شہیر کو دیکھ کر پتھر ہوگۓ
”تت۔۔۔تم“
”آپ اتنا بڑا گیم کھیل رہے تھے ہمارے ساتھ۔۔۔۔۔“ وہ بےیقینی سے بولا
”بیٹا میری بات سنو۔۔۔۔“
”نہیں سننںی مجھے آپ کی کوٸ بھی بات۔۔۔۔آت ایک معصوم لڑکی کے قاتل ہیں۔میں جارہا ہوں بابا کو سب سچ سچ بتانے“ وہ کہہ کر مڑا ہی تھا جب مصطفٰی صاحب نے اپنے گلے میں بندھی ٹاٸ اتاری اور پیچھے سے اسکے گلے میں باندھ کر اسے زمین پر لٹا دیا
”چھ۔۔۔۔چھوڑے مجھے“ وہ اپنا پیر زمین پر مار رہا تھا لیکن مصطفٰی صاحب کو رحم نہیں آیا۔ اور پھر جب شہیر تڑپتے تڑپتے ساکت ہوگیا تو مصطفٰی صاحب نے اسکے وجود کو گھسیٹتے ہوۓ اسکی گاڑی میں ڈالا۔ انکے سر پر شیطان سوار تھا۔ انہوں نے اسے گاڑی میں ڈالنے کے بعد اپنی گاڑی سے پیٹرول نکال کر اسکی کار کے چاروں طرف چھڑکا اور اسکے بعد ماچس جلا کر گاڑی میں آگ لگادی۔۔۔ گاڑی جل رہی تھی اور شہرذاد یہ سارا منظر دہشت زدہ نظروں سے جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر دیکھ رہی تھی۔وہ خوفزدہ انداز میں پیچھے ہٹںے لگی تو اسکا پاٶں ایک چھوٹے سے پتھر سے ٹکرایا
”کون ہے وہاں؟“ مصطفٰی صاحب پتھر کی آواز سے چونکے شہرذاد ڈر کے مارے واپس بھاگی اور بھاگتی ہی چلی گٸ۔
”لگتا ہے میرا وہم ہے، مجھے یہاں سے جلدی نکلنا چاہیۓ“ وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گۓ۔ دوسری طرف شہرذاد اندھا دھند بھاگ رہی تھی۔ وہ بھاگتے بھاگتے واپس اپنی دوست کے گھر آگٸ۔ اسکی حالت دیکھ کر اسکی دوست پریشان ہوگٸ۔ اس نےلاکھ پوچھا مگر وہ ایک لفظ بھی نہ بولی تو اسکی دوست نے اسے اپنی ہی گاڑی میں گھر چھوڑ دیا۔ گھر پر کوٸ نہیں تھا وہ اپنے کمرے میں آکر دیواروں سے سر مار مار کر روٸ تھی۔ اور اس دن کے بعد سے اگلے ایک ہفتے تک وہ بخار میں ہی مبتلا رہی۔ اور پھر جب اسکا بخار اترا تو ایک نٸی شہرذاد سامنے آٸ۔ ڈری سہمی اور اپنی جان کی دشمن۔ جب کہ مصطفٰی صاحب اسی دن لندن چلے گۓ۔ شہیر کی لاش بھی پولیس والوں انکے جانے کے بعد ہی ملی۔ دوسرے ملک جانے کے بعد مصطفٰی صاحب کے ضمیر نے انہیں ملامت کرنا شروع کردیا اور وہ اس گناہ کے بوجھ تلے دبتے چلے گۓ
———–*————–*———–*
”ڈیڈ۔۔۔۔۔۔آپ“ شہریار کی آواز کسی کنوۓ سے آتی محسوس ہوٸ۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جس باپ کو ساری زندگی آٸڈیالاٸز کرتا آیا تھا وہ اتنا بڑا گیمبلر نکلے گا
”مجھے معاف کردو بیٹا! تم مجھے جو سزا دوگی مجھے قبول ہے“ انہوں نے شہرذاد کے آگے ہاتھ جوڑ دیٸے اس نے گن نیچے کری اور وہیں گرنے کے انداز میں بیٹھ گٸ۔ اشرف بابا اور ارتضٰی صاحب بےیقینی سے انہیں دیکھ رہے تھے۔ شہرذاد تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی۔ ایک یہی غم تھا اسے کہ وہ اپنے بھاٸ کے قاتل کو سزا نہ دلا سکی، اپنے بھاٸ کو انصاف نہ دلا سکی۔ ماہین نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگالیا۔
”ارتضٰی! میرے بھاٸ مجھے معاف کردو“ انہوں نے ارتضٰی صاحب کے پیر پکڑ لۓ۔
”نہیں ملے گی آپ کو معافی۔ اب آپ کو سزا ملے گی۔ شہیر بھی آپ کو سزا دلوانا چاہتا تھا نہ اور آپ نے اسے مار دیا۔ اسکا ادھورا کام اب میں پورا کروں گا۔“ شہریار نے سخت آواز میں کہا۔ اور یہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیٸے۔ تھوڑی دیر میں پولیس انکو گرفتا ر کرکے لے گٸ۔ ایک مجرم کے لۓ کوٸ جگہ نہیں تھی ان کے گھر میں۔ اشرف بابا سوہا کو یاد کرکے رو رہے تھے۔
ماہین شہرذاد کو اسکے کمرے میں لے آٸ۔ اور اسے چپ کرانے کی کوششیں کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں شہریار بھی وہیں آگیا
”ماہی۔۔۔۔۔اگر تم برا نہ مانو تو مجھے شہی سے اکیلے میں بات کرنی ہے“ اسکی آنکھیں ضبط سے سرخ ہورہیں تھیں۔
”ہاں شیور۔۔۔“وہ کہتی ہوٸ کمرے سے باہر نکل گٸ۔ شہریار نے کمرے کا دروازہ بند کردیا اور سر جھکاۓ اسکے پاس آیا۔ وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔ شہریار اسکے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور اسکے دونوں ہاتھ تھام لۓ۔
”شہی۔۔۔۔۔۔مجھے معاف کردو۔ تم اکیلے ہی اتنا سب برداشت کرتی رہی۔ کسی کو کچھ بتایا تک نہیں“
”آپ کیوں معافی مانگ رہے ہیں شیری؟ اس میں آپ کا تو کوٸ قصور نہیں“ اس روتے ہوۓ کہا
”تم مجھے تو بتا سکتی تھی ناں“
”کیسے بتاتے ہم آپ کو؟ آپ یقین کرتے؟ آپ کو لگتا کہ ہمارے حواس کام کرنا چھوڑ گۓ ہیں اس لۓ ہم بھکی بھکی باتیں کرنے لگے ہیں۔آپ کبھی ہماری باتوں پر یقین نہ کرتے“ وہ سچ کہہ رہی تھی
”بہت سہہ لیا تم نے، بہت برداشت کرلیا۔ اب میں تمہیں اور کوٸ تکلیف نہیں سہنے دوں گا۔ تماری زندگی میں آج کے بعد صرف خوشیاں آۓ گی۔“ وہ حیرت سے اسکا منہ دیکھنے لگی ابھی ابھی جسکا باپ جیل میں گیا تھا وہ خوشیوں کی بات کر رہا تھا۔ شہریار اسکی حیرت بھانپ گیا
”ایسے مت دیکھو شہی۔۔۔۔میں سچ کہہ رہا ہوں۔ چاچو نے جو تاریخ رکھی ہے، شادی اسی تاریخ پر ہوگی۔ اور ساتھ ہی تمہارے بھاٸ کے قاتلوں کو سزا بھی ملے گی“
”آپ بہت اچھے ہیں شیری۔۔۔“اسے شہریار کو دیکھ کر دکھ ہورہا تھا۔
”آج کے بعد تم کبھی نہیں رو گی“ اس نے کہا تو شہرزاد نے سر اثبات میں ہلادیا۔ وہ اسے وہیں چھوڑ کر باہر آگیا۔ لان میں علی اور حنان کھڑے تھے۔ ہمیشہ وہ ان دونوں کو رونے کے لۓ کندھے دیتا آیا تھا۔ انکے آنسو پونچھتے آیا تھا لیکن آج اسے رونا تھا۔ اسے کندھے کی ضرورت تھی۔ حنان اسکی کیفیت سمجھ رہا تھا۔ اس لۓ اسکو آگے بڑھ کر گلے لگا لیا اور شہریار بچوں کی طرح رودیا۔
———-*—————*———–*
بارش چھاچ و چھاچ برس رہی تھی۔ شہریار اور شہرزاد کی شادی کے بعد حنان اور ماہین کے گھر پہلی دعوت تھی۔ وہ لوگ وہیں سے ہوکہ اب واپس گھر جارہے تھے۔ چار دن پہلے ہی انکا ولیمہ ہوا تھا۔ صبح تک تو موسم ٹھیک ٹھاک تھا لیکن پھر شام ہوتے ہی ہلکی اور پھر تیز بارش میں تبدیل ہوگیا۔ ابھی وہ لوگ آدھے راستے ہی میں تھے جب بارش طوفانی صورت اختیار کرگٸ۔ اس نے حنان کو کال ملاٸ۔
”یار! بارش تو بہت خطرناک ہوگٸ ہے۔ میرے تو گھر کا راستہ بھی خراب ہے مجھے لگتا ہے کہ تمہارے گھر واپس آنا پڑے گا“ اس نے حنان سے کہا
”میں ابھی تمہیں ہی فون کرنے والا تھا کہ تم واپس آجاٶ اپنے گھر کے لۓ نکلے تو صبح تک پھنس جاٶگے۔“
”اوکے ہم آرہے ہیں“ اس نے کال کاٹ دی اور گاڑی واپسی کے لۓ موڑ دی ابھی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ جب شہرذاد نے اسکی توجہ ایک جانب مبذول کرواٸ
”شہریار وہ دیکھے، وہ لڑکی کون ہے جو اتنی بارش میں اکیلے بس اسٹاپ پر کھڑی ہے؟“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو شہریار نے دیکھا کہ بس اسٹاپ پر اکیلے ایک لڑکی کھڑی ہے۔ شہریار نے اسے غور سے دیکھا تو اسے شاک لگا
”مس فاطمہ۔۔۔۔ ارے یہ تو فاطمہ ہے پر اتنی رات گۓ یہاں کیا کررہی ہیں یہ؟ وہ بھی اتنی بارش میں“ اس نے حیرت سے پوچھا
”شیری چل کے اس سے پوچھ لیتے ہیں پتہ نہیں بےچاری کو کوٸ مسلہ ہو“ شہرذاد کے کہنے پر وہ گاڑی فاطمہ کے پاس لے آیا
”مس فاطمہ! آپ یہاں کیا کررہی ہیں“ گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے اس نے پوچھا
”سر آپ۔۔۔۔۔۔“ وہ حیران ہوٸ۔”میں بس کا ویٹ کررہی ہوں لیکن شاید بارش کی وجہ سے راستہ بند ہوگیا ہے“
”اوہو۔۔۔تو آپ بیٹھۓ میں آپ کو چھوڑ دیتا ہوں“ اس نےکہا
”نھیں سر آپ کو زحمت ہوگی“ اس نے تکلفاً کہا لیکں سچ تو یہ تھا کہ اسے خود یہاں کھڑے ہونے سے ڈر لگ رہا تھا
”ہمیں کوٸ زحمت نہیں ہوگی۔ آپ ہمارے ساتھ چلیۓ، ہم اپنے ڈراٸیور کو کہہ کر آپ کو گھر بھجوا دینگے“ شہرذاد نے خوشدلی سے کہا تو وہ بیٹھ گٸ۔
”ہم یہاں سے ماہین کے گھر جارہے ہیں پھر انکا ڈراٸیور وہاں سے آپکو آپکے گھر چھوڑ دے گا“ شہریار نے کہا تو وہ مزید پریشان ہوگٸ۔ ایسے کسی کے گھر میں منہ اٹھا کر چل دینا مہزب طریقہ نہیں تھا۔ لیکن کیا کرتی۔وہاں ساری رات تو بس کے انتظار میں کھڑی نہیں رہ سکتی تھی ناں
گاڑی حنان کے گھر کے سامنے رکی تو شہریار نےگارڈ کو گیٹ کھولنے کا کہا۔ وہ گاڑی اندر لے کر آیا تو شہرذاد اور فاطمہ اتر گٸ۔ ماہین باہر آٸ تو شہرذاد نےفاطمہ کے آنے کے بارے میں بتایا۔ وہ سر جھکاۓ کھڑی فاطمہ کے پاس آٸ
”ڈراٸیور ابھی کسی کام سے گیا ہوا ہے وہ آتا ہے تو میں اسے کہہ دیتی ہوں کہ تمہیں ڈراپ کردے جب تک تم اندر آٶ“ ماہین نے اتنی اپناٸیت سے کہا کہ اسکی ساری ہچکچاہٹ دور ہوگٸ۔
”تھینکس میم“ وہ اسکے پیچھے چلتے ہوۓ بولی
”میم کیا ہوتا ہے۔ میں تمہاری بڑی بہنوں جیسی ہوں تم بھی مجھے شہرذاد کی طرح آپی کہہ سکتی ہو“ اس نے مسکرتے ہوۓ کہا تو وہ بھی مسکرادی۔ ماہین ان دونوں کو ہی اندر لے آٸ۔ شہریار پہلی ہی گھر کے اندر آچکا تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے اندر داخل ہوکر فاطمہ کے قدم زنجیر ہوگۓ۔ وہ آنکھیں پھاڑے اس گھر کو دیکھ رہی تھی
”کیا ہوا فاطمہ وہاں کیوں رک گٸیں آپ؟ اندر آۓ ناں“ شہرزاد نے اسے گھر کی دہلیز پر جمے دیکھا تو کہا وہ بس سر ہلاتے ہوۓ اندر آگٸ۔ لیکن اسکے قدم من من بھر کے ہورہے تھے، دماغ ماٶف ہورہا تھا۔ وہ اس گھر کی ایک ایک اینٹ کو پہچانتی تھی۔ کیونکہ یہ اسی کا گھر تو تھا۔۔۔۔۔پھر یہ ماہین؟،
”ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بعد میں خرید لیا ہو“ اس نے دل ہی دل میں سوچا لیکن کوٸ کیسے خرید سکتا تھا کس نے بیچا اس گھر کو آخر؟
ماہین اور شہرذاد برتن سیٹ کر رکھ رہی تھیں۔
”شیری زرا ادھر آکے ہماری مدد کری گا“ شہرذاد نے ایک طرف کھڑے شہریار کو آواز دی
فاطمہ نے ماٶف ہوتے دماغ کے ساتھ شہریار کو منہ بناکر جاتے اور اسکے ساتھ کھڑے باقی دونوں کو ہنستے ہوۓ دیکھا۔ جن میں سے ایک تو علی تھااور دوسرے شخص کی اسکی طرف پیٹھ تھی۔ وہ دوسرا شخص کون تھا؟
”بس بھاٸ۔۔۔اب تو اپنا ولیمہ کرہی لے“ علی نے ہنستے ہوۓ اس دوسرے انسان سے کہہ رہا تھا۔ اسکی بات سن کر وہ شخص ہنسا۔۔۔۔اسکی ہنسی فاطمہ کے لۓ اجنبی نہ تھی۔
”لگتا ہے تو بھول گیا، میں نے کہا تھا کہ تیرے ولیمے کے اگلے ہی دن رکھوں گا اپنا ولیمہ“ وہ شخص ہنستے ہوۓ کہہ رہا تھا۔ فاطمہ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ یہ آواز۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آواز تو وہ لاکھوں کے مجمے میں بھی پہچان سکتی تھی۔ اس آواز کو وہ کیسے بھول سکتی تھی۔
”فاطمہ کھڑی کیوں ہو بیٹھ جاٶ“ ماہین نے اسے کھڑے دیکھ کر کہا پر اس نے نہیں سنا۔ ارگرد کھڑے لوگ غاٸب ہوگۓ۔۔۔ساری آوازیں پس منظر میں چلیں گٸ۔ وہاں صرف فاطمہ اور وہ شخص باقی رہ گا۔وہ ایک ایک قدم اٹھاتی اسکی جانب بڑھنے لگی۔ علی کی نظر اس کی جانب اٹھی تو وہ حیران رہ گیا کیونکہ فاطمہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں آگے بڑھ رہی تھی۔
”یہ کہاں جارہی ہے؟“ ماہین نے حیرت سے شہریار سے پوچھا
”مس فاطمہ۔۔۔۔۔“شہریار اسکی طرف بڑھا پر وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔ سب ہی حیران نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ سواۓ اس دوسرے شخص کے کیونکہ وہ فاطمہ کی طرف سے رخ موڑے کھڑا تھا اس لۓ اسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ فاطمہ اسکے پاس پہنچ گٸ۔ اور اس سے پہلے کے کوٸ اس کو ٹوکتا یا اس سے کوٸ سوال کرتا، اسکی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ نے سب کی بولتی ہی بند کردی
”بھا۔۔۔۔۔۔بھاٸ۔۔۔۔۔“ حنان کا لبوں کو گلاس لے جاتا ہاتھ ساکت رہ گیا، وہ پتھر کا ہوگیا۔ جس آواز کو سننے کے لیۓ اسکے کان ترس گۓ تھے۔ آج دو سال بعد وہ آواز اسکے کانوں سے ٹکراٸ تھی۔ وہ کچھ بولنے کے قابل نہ رہا تھا۔ وہ اس خوف سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہا تھا کہ وہ پیچھے مڑے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی یہ آواز اسکا وہم ہو، ایک الوژن۔ وہ پیچھے مڑے اور سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوجاۓ۔ لیکن اتنی واضع آواز اسکا وہم تو نہیں ہوسکتی ناں! وہ اسی کشمش میں مبتلہ تھا کہ ایک بار پھر سے فاطمہ کی بےچین مگر بھراٸ ہوٸ آواز سناٸ دی
”بھاٸ۔۔۔۔۔“ بس یہی وہ لمحہ تھا جب حنان بےیقینی کی کیفیت سے نکل آیا اور ایک جھٹکے سے پیچھے مڑا۔ فاطمہ کی آنسوں سے لبریز آنکھوں سے ایک آنسو بندھ توڑ کر بہہ نکلا۔ حنان کے ہاتھ سے جوس کا گلاس چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ باقی سب تو پتھر کے مجسمہ کی طرح بےحس و حرکت کھڑے تھے۔
”مر۔۔۔۔مرجا۔۔۔۔۔م“ وہ اسکا نام لینا چاہتا تھا مگر حلق میں آنسوں کا گولہ اٹک گیا
”بھاٸ۔۔۔۔بھاٸ“ وہ روۓ جاتی تھی اور لفظ بھاٸ کا ورد کۓ جاتی تھی
”مرجان۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔“ وہ تیزی سے اسکے پاس آیا اور اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر یہ یقین کرنے لگا کہ جو وہ دیکھ رہا ہے، کیا وہ سچ ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں وہ سچ تھا۔ سامنے کھڑی لڑکی حنان شاہ خان کی بہن مرجان فاطمہ خان تھی!!!۔ اسکی گڑیا، اسکی لاڈلی، اسکی من موہنی سی بہن
”کہاں چلی گٸ تھی تم؟ میں نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا تمہیں“ وہ اب کچھ بولنے کے قابل ہوا تھا۔ وہ دونوں بہن بھاٸ اس وقت ایک ہی کیفیت کا شکار تھے، دونوں ہی ایک دوسرے کو مردہ سمجھ بیٹھے تھے۔ اور اب ایک دوسرے کو زندہ دیکھ کر یقین نہیں کر پارہے تھے
”بھاٸ۔۔۔۔۔“ وہ اس سے زیادہ کچھ بول ہی نہیں پاٸ تھی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے ہی لحے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر حنان کےہی بازوں میں جھول گٸ۔۔۔۔۔۔
————-*———–*————*
”سر! آپ کی پیشنٹ پچھلے کٸ دنوں سے کسی اسٹڑیس کے زیر اثر تھیں۔ اسکے علاوہ یہ ڈپریشن کی مریضہ بھی ہیں۔ اب کی بار انکے دماغ کو کوٸ بہت ہی گہرا صدمہ یا شاک لگا ہے جس کی وجہ سے انکا نروس بریک ڈاٶن ہوگیا ہے“ ڈاکٹر رکے اور اپنے سامنے سر جھکاۓ بیٹھے حنان کو دیکھا
”ہم نے آپ سے کہا تھا کہ انکا چوبیس گھنٹوں میں ہوش میں آنا ضروری ہے نہیں تو پھر ہم کچھ نہیں کر پاۓ گے۔۔۔۔۔۔پھر چوبیس گھنٹے گزر جانے کے باوجود بھی وہ ہوش میں نہ آٸ تو ہم نے مجبوراً انہیں وینٹیلیٹر پر شفٹ کردیا۔۔۔۔۔۔لیکن اب انکی کنڈیشن ایسی ہوگٸ ہے کہ انکو وینٹ پر رکھنے کا کوٸ فاٸدہ نہیں“ ڈاکٹر صاحب خاموش ہوۓ تو حنان نےاپنا جھکا سر اٹھایا اور سرخ ہوتی آنکھوں سے انہیں دیکھا
”آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟“
”میں یہ کہنا چاہتا ہوں مسٹر حنان کہ۔۔۔۔۔۔آپ انہیں وینٹیلیٹر سے ہٹوادیں، اور انہیں اس تکلیف سے آذاد کردے۔ صرف اپنی تسلی کےلۓ اپنی بہن کو اذیت میں مت رکھیں۔۔۔۔اگر اسکی قسمت میں زندہ رہنا لکھا ہوگا تو وہ بنا وینٹ کے بھی بچ جاۓ گی اور اگر نہیں تو۔۔۔۔۔۔پھر اسکی موت کو روکے مت۔۔۔۔مرنے دیں اسے“ ڈاکٹر صاحب نے پروفیشنل انداز میں اسے سمجھایا، اس نے کوٸ جواب نہ دیا
”آپ سوچ لیں تھوڑی دیر۔۔۔۔۔اور اگر کسی فیصلے پر پہنچ جاۓ تو میرے پاس آجاٸیے گا اور ان پیپرز پر ساٸن کردیجیۓ گا۔ ہم انہیں وینٹ سے ہٹا دیں گے“ حنان نے اثبات میں سر ہلایا اور انکے کمرے سے باہر آگیا۔
باہر کوریڈور میں سب ہی موجود تھے اور سب کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا۔۔۔۔ فاطمہ ، مرجان کیسے؟ لیکن کوٸ اس سے کچھ بھی نہیں پوچھ رہا تھا کیونکہ یہ وقت ان سب باتوں کا نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔
حنان بینچ پر بیٹھ گیا
”کیا ہوا ہے حنان؟ کیا کہا ہے ڈاکٹرز نے؟“ ماہین نے پریشانی سے اس سے پوچھا تو اس نے اپنی اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو اسکے گوش گزار کردی
”تو اب تم کیا کرو گے؟“ شہریار نے پوچھا
”پتہ نہیں“ اس نے بےبسی سے کہا
”کچھ تو فیصلہ کرنا ہوگا تمہیں“ شہریار اسکے برابر آکے بیٹھ گیا
” میں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بہن کے موت کے پروانے پر کیسے ساٸن کرسکتا ہوں شیری؟ کیسے؟“ وہ رودیا۔ شہریار نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
”تو مت ہٹاٶ اسے وینٹ سے“ شہریار نے کہا لیکن حنان نے کوٸ جواب نہ دیا بس روتا رہا۔۔۔۔
علی جو دور کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا خاموشی سے وہاں سے چلا گیا
————*————-*———–*
وہ ہسپتال سے منسلک مسجد میں آگیا۔ اندر ہسپتال میں تھوڑی دیر پہلے حنان، فاطمہ کے لۓ رورہا تھا، رونا تو وہ بھی چاہتا تھا پر کس حق سے آنسو بہاتا؟ حنان تو بھاٸ تھا اسکا وہ رو سکتا تھا، پر وہ کیا لگتا تھا فاطمہ کا جو روتا؟ اس لۓ وہ وہاں سے چلا آیا۔ مسجد میں آکر اس نے نماز پڑھی۔ اسکے بعد دعا کے لۓ ہاتھ اٹھاۓ۔ کانوں میں بےشمار آوازیں گونجنے لگی
”بشارت کا بھاٸ تمہاری بہن کو اٹھا کر لے گیا تھا“
”لنچ آپ کی طرف سے میٹھا میری طرف سے“
”اس دن لنچ آپ کی طرف سے تھا، آج ڈنر میری طرف سے وہ بھی میری امی کے ہاتھوں کا بنا ہوا“
”جن لڑکیوں کا آگے پیچھے کوٸ نہیں ہوتا وہ یہاں سے پار ہوجاتی ہیں“
”میں آپ کے تو کیا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں“
”سچ تو یہی ہے صاحب کے آپکی بہن مرچکی ہے“
”میرا ماضی۔۔۔۔اس قابل نہیں ہے کہ میں اسے آپکے ساتھ شیٸر کروں“
علی نے ضبط سے آنکھیں میچ لیں۔ کچھ نہ جانتے ہوۓ بھی وہ سب کچھ جان گیا تھا۔
”یاللّٰہ! میری ساری سانسیں لے لیں۔ اور فاطمہ کو دے دیں۔ اسے زندگی دے دیں اللّٰہ۔۔۔۔۔۔میں اس کے بغیر نہیں رہ پاوں گا۔ اسے مرتا دیکھنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں“ وہ روتا رہا اور دعاٸیں مانگتا رہا۔۔۔۔۔اسے یقین تھا کہ دل سے مانگی گٸ دعاٸیں ہمیشہ قبول ہوتی ہیں
———–*————*————-*
”کیا ہوا حنان؟ کہاں جارہے ہو؟“ علی ابھی ابھی نماز پڑھ کر آیا تھا، حنان کو کہیں جاتا دیکھ کر حیرانی سے پوچھا
”میں جارہا ہوں ڈاکٹر پاس، کیونکہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ میں مرجان کو وینٹ سے ہٹادوں گا“ علی کو شدید قسم کا جھٹکا لگا
”کیا؟ لیکن حنان، اسطرح تو وہ۔۔۔۔۔۔“
”مر جاۓ گی ناں!“ حنان نے اسکی بات کاٹتے ہوۓ کہا
”علی! میں چودہ میں ایسی ہی حالت میں رہا ہوں کہ میں نہ زندہ تھا نہ مردہ۔۔۔۔۔۔ان لمحات کی تکلیف میں اچھے سے جانتا ہوں۔ میں اپنی بہن کو بھی اسی اذیت سے نہیں گزارنا چاہتا“ اس نے کہا اور رکا نہیں، بلکہ تیزی سے ڈاکٹر کے کمرے کی جانب چل پڑا
اسکے بعد سب کچھ تیزی سے ہوا۔ ڈاکٹرز نے حنان کے علاوہ سب کو کمرے سے باہر بھیج دیا اور فاطمہ کے جسم پر لگے ایک ایک مشین اتاردی۔ جب پورا وینٹ ہٹ گیا تو تمام نرسز اور ڈاکٹرز باہر چلےگے۔ جانے سے پہلے ڈاکٹر نے حنان کو سورة یٰس پکڑاٸ اور کہا
”انکے سرہانے پر کھڑے ہوکہ پڑھتے رہی گا جانکنی میں آسانی ہوگی“ حنان نے چپ چاپ وہ لے لیا۔ اب صرف حنان اور اسکی بستر پر پڑی بہن رہ گۓ۔ حنان کا دل پھٹ رہا تھا، اسکی نازو پلی بہن آج کس حال میں پہنچ گٸ تھی۔ ابھی تک تو فاطمہ کی سانسیں آہستہ آہستہ چل رہیں تھیں پر اسکی آنکھیں بند تھیں۔
”مرجان! میری گڑیا! پلیز ایک بار آنکھیں کھول دو۔ اب تو نہ ستاٶ اپنے بھاٸ کو“ حنان نے دل ہی دل میں اسے مخاطب کیا
”میں جانتا ہوں کہ میں بہت برا بھاٸ ہوں۔ میں تمہارا خیال نہ رکھ پایا۔ لیکن تم تو اچھی بہن ہو ناں!معاف کردو اپنے بھاٸ کو۔۔۔۔۔مت چھوڑ کر جاٶ مجھے“ حنان کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔ فاطمہ کو اب سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ اسکی سانسیں کھینچ رہی تھی اور اسکی آواز حنان کا دل دہلا رہی تھی۔ وہ بےبسی سے اپنی جان سےپیاری بہن کو مرتا دیکھ رہا تھا۔ جب فاطمہ کا جسم جھٹکے کھانے لگا تو وہ تیزی سے اسکے پاس آیا
”مرجان گڑیا! آنکھیں کھولو پلیز! کچھ نہیں ہوگا تمہیں“ وہ روتے ہوۓ اس سے کہہ رہا تھا
”میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔ایک بار آنکھیں کھول دو پلیز، مرجان۔۔۔۔مرجان۔۔۔۔۔“
————*———–*————-*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...