شہروز کی آمد نے اس کی زندگی میں ایک رنگ سا بھر دیا تھا ۔ اصغر اس کے بہت قریب آنے لگا تھا۔ اس کے دل میں جو احساس کمتری تھا وہ کسی کچے دھاگے کی مانند دھلتا جا رہاتھا کیوں کہ اصغر ایک شوہر سے زیادہ ایک اچھا دوست تھا ۔ اس لیے اس کے دل کی کتاب میں اگر دینا سعید کا باب تھا تو اس سے مرینہ کو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔وہ اصغر کو سمجھتی تھی اور اس کا دکھ بانٹ بھی لیا کرتی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ دینا جیسی مضبوط ارادوں والی لڑکی کو بھول جانا اتنا آسان نہ تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ بیت اللہ کا غلاف پکڑے کھڑی تھی ۔ اس کی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں رواں تھیں ۔ ایک سرور سا تھا جو پورے ماحول پر چھایا ہوا تھا ۔
(” اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو آپس میں ملادیا ۔ ایک میٹھا خوشگوار ہے اور دوسرا کھاری کڑوا ہے اور ان دونوں میں ایک پردہ اور مستحکم آڑ بناد ی۔”) اس نے سورة الفرقان کی آیت نمبر 53 کو زیر لب دہرایا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اللہ کی رحمت کا نزول ہورہا ہو اور وہ فضا میں کہیں اُڑ رہی ہو۔ اس نے آنکھیں بند کردیں۔ کتنی شکایتیں اللہ سے کرنی تھیں ۔ کتنے شکوے تھے اور کتنے گلے ۔۔۔ لیکن اب جب کہ وہ بیت اللہ کے سامنے کھڑی اشکوں کے سمند ر بہارہی تھی تو اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اللہ صرف اس کا ہے ۔جیسے وہ اس کے سامنے کھڑا اس کو روتے ہوئے دیکھ رہا ہے ۔ یہ عرینہ حمید کی زندگی کا وہ مقام تھا جہاں اس کے پاس کوئی رشتہ نہیں تھا ۔جہاں وہ بالکل اکیلی تھی ۔ یوں جیسے کوئی خلاؤں میں جا کر کھو جاتا ہے اور اس کے پاس اللہ کے سوا کوئی نہیں ہوتا ۔ اور نہ اس کو کسی اور کی ضرورت ہوتی ہے ۔
” آپ پریگننٹ ہیں ۔” اسے ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات یاد آگئی ۔ وہ پورے دل سے مسکرائی ۔” اللہ !”
آنسوؤں کے سبھی سمند ایک ساتھ آنکھوں سے چھلک پڑے ۔
اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا یوسف بڑی حیرت سے اس کو دیکھ رہا تھا ۔اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ایک بے مول سکّہ ہے جس کی کوئی وقعت نہیں ۔ اسے اپنا آپ ایک بھٹکے ہوئے مسافر کی مانند لگ رہا تھا، جس کو راستہ اس روتی ہوئی لڑکی نے دکھایا تھا ۔وہ اس کی زندگی میں ایک فرشتہ بن کر آئی تھی ۔ ہمیشہ وہ کچھ نہ بو ل کر بھی اس کو ایک راستہ دکھا دیتی تھی۔ وہ یوسف کے لیے ایک راہ تھی ۔
عرینہ کا وہاں سے ہلنے کو بھی دل نہیں کررہا تھا ۔ اتنے اجنبی ماحول اور انجان لوگوں میں اسے اپنا اللہ ملاتھا ۔جس کو وہ بچپن سے جانتی تھی ۔” زندگی ، لو گ ، حالات سب بدل گئے بس اللہ اور قرآن وہی ہیں ۔” وہ جو کبھی کبھی نماز پڑھا کرتی تھی ۔ وہ جو مہینوں بعد کبھی قرآن کا ایک رکوع پڑھ لیا کرتی تھی ۔آج اس کا سب سے گہرا تعلق نماز اور قرآن سے تھا ۔
واپسی میں وہ ایک بڑے عالم دین کے پاس چلے گئے ۔
” میں اپنی پچھلی زندگی کے سارے گناہوں سے توبہ کر کے ایک سچا مسلمان بننا چاہتا ہوں ۔” یوسف نے کلمہ شہادت پڑ ھ لیا۔
” انسان جب سچے دل سے توبہ کر کے اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو اللہ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف فرماتا ہے ۔ اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں ۔”
وہ گناہ بھی ؟” عرینہ نے عالم کی بات سن کر حیرانی سے سوچا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اماں کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی ۔ وہ پاکستان لو ٹنا چاہتی تھیں۔
” دوسال بیت گئے ۔ اب مجھے واپس وطن لے چلو۔” انہوں نے اصغر سے التجا کی تھی ۔ آخر کار انہیں پاکستان جانا پڑا حالاںکہ وہ واپس اپنے ماضی میں لوٹنا نہیں چاہتا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” سنان یوسف ۔ ” یوسف نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کو گود میں اٹھا لیا ۔
” ہمارا بیٹا ۔۔۔” وہ مسکرایا ۔Thanks for giving me this gift” ” یوسف نے بڑھ کر عرینہ کی پیشانی چوم لی ۔وہ جواباً مسکرائی ۔ اسے احساس ہوررہا تھا کہ وہ چاہے جتنا بھی یوسف کو نظر انداز کردے ۔ اس سے چاہے جتنی بھی نفرت کرلے وہ جواباً صرف محبت کیا کرتا تھا اوراب شاید وہ بھی اس سے محبت کرنے لگی تھی لیکن وہ عرینہ کی محبت سے منہ موڑ کے گیا تھا ۔
ایکسیڈنٹ میں یوسف کی وفات کے بعد وہ جوتوں کی دکان میں سیلز گرل کی نوکری کرنے لگی تھی ۔
” شرط لگا کے کہتی ہوں اسی دکان سے اماں کے لیے بھی جوتے چراؤں گی ۔” ایک گاہک کے لیے جوتے پیک کرتے ہوئے اس کو اپنی آواز کی باز گشت سنائی دی ۔اس کے ہونٹو ں پر ایک گہری مسکراہٹ پھیل گئی اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں نمی اتر گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” سوچا تھا آپ کے پاس آؤں گی۔ آپ کی گود میں سر رکھ کر بہت سارا رووؑں گی ۔ دل کا بوجھ ہلکا کروں گی اماں !کتنے دنوں سے میرا دل آپ سے ملنے کو مچل رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ فرصت ملے گی تو آپ کے پاس آؤں گی۔ پرآپ نے تو منہ موڑلیا ۔میرے دکھوں سے آپ ایسی انجان بن گئیں جیسے میں آپ کی کچھ لگتی ہی نہیں ہوں ۔” اس نے سفید کفن پہنے اپنی ماں کو جھنجوڑ کر کہا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
رات کا ایک بج رہا تھا ۔ماموں کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا تھا ۔سنان نے بھاگ کر شہروز کو جگایا اور اس کے ساتھ مل کر ماموں کو ہاسپٹل پہنچایا تھا ۔
منزہ گھر پر خالہ کے ساتھ رکی تھی ۔ خالہ کا رو رو کر براحال ہو گیا تھا ۔ منزہ انہیں تسلی دیتے دیتے تھک چکی تھی ۔
فون بج رہا تھا ۔ منزہ نے دوڑ کر فون اٹھایا تھا ۔
” ابو کی حالت اب کافی بہتر ہے ۔امی کو بتا دو ۔” شہروز نے بتایا تھا ۔
فون بند ہوجانے کے بعد منزہ دل ہی دل میں شکر بجالاتی خالہ کو خالو کی صحت یابی کی خبر دینے چلی گئی ۔
” میں ذرا شکرانے کے نفل پڑھ لوں۔” وہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئی صوفے سے اٹھ گئیں۔ منزہ ہمدرد نگاہوں سے انہیں جاتا دیکھتی رہی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ باورچی خانے میں بیٹھی چولہا جلارہی تھی ۔ کچھ عجیب سی بے چینی تھی ۔اضطراب کا سا عالم تھا۔ “سب ایک ایک کرکے بچھڑ گئے ۔ بڑے ابا ، بڑی ماں اور اماں کو موت دور لے گئی اور عرینہ کے بچھڑجانے کے پیچھے تو کوئی وہ نہیں تھی ۔کوئی انسان کسی ایک غیر مرد کی خاطر اپنے پورے خاندان کو چھوڑ کے جاتا ہے بھلا؟” اس کو تعجب سی بے کلی تھی ۔ دل کا پیالہ شدید بھر آیا تھا ۔
” میں تو ایک ایسے رشتے میں بندھی ہوئی ہوں جس کی بنیاد محبت نہیں قربانی ہے تو پھرآج مجھے محبت کی طلب کیوں ہے ؟علی کی یہ خاموشی اور یہ بے نیازی مجھے کیوں کھلتی ہے ؟” اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی ۔ آج اس نے اصغر کو مرینہ کے ساتھ ہنستے بولتے دیکھا تھا اور پھر وہ وہاں ایک لمحہ نہیں رکی تھی ۔” پر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں اپنی ہی بہن سے جلتی ہوں ۔” اس نے آنکھوں کی نمی خشک کی۔” لیکن محبت کی ضرورت تو مجھے بھی ہے ۔” آنکھوں میں پھر سے نمی تیرنے لگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ ان کے پاس ہی بیڈ پر بیٹھی روٹھے سے انداز میں انہیں دیکھ رہی تھیں ۔
” ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ بیمار پڑ جائیں گے آپ ؟”
” یہ بات چھوٹی نہیں ہے مرینہ ! کہ جس گناہ کے لیے میں عمر بھر اپنی بہن کو معاف نہ کر سکا وہ گناہ اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ ” وہ سخت مضطرب تھے ۔
” جانتی ہوں۔ میں نے چلا چلا کر کہا تھا کہ عرینہ بجیا ایسا نہیں کر سکتیں لیکن اصغر ! سب نے وہی مان لیا جو سامنے تھا ۔ کبھی کبھی سچائی بہت تہ میںہوتی ہے اس لیے ہم اس تک پہنچ نہیں پاتے ۔”
” بہت عقلمند ہو گئی ہو ۔ ” اصغر نے چھیڑتے ہوئے کہا ۔
” آپ کی محبت کا اثر ہے ۔ ” مرینہ نے شوخ انداز میں جواب دیا ۔
” محبت؟ یہ تو بس ایک کھوکھلا سا لفظ رہ گیا ہے ۔ اس لفظ میں احساس تئیس سال پہلے تھا ۔ جب میں اندھیری شاموں کو اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی سمجھ میں نہ آنے والی باتیں سنا کرتا تھا ۔” ان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔ انہوں نے آنکھیں بند کر لیں تو وہ بھی ان کے پاس سے اٹھ کر الماری کے پاس آگئیں ۔
” آپ میری سب سے پیاری دوست تھیں اور میں نے ہمیشہ آپ کے کردار پہ لگے داغ کو مٹانا چاہا تھا لیکن کبھی کبھی سچائی کا ساتھ دینا بے حد مشکل ہوتا ہے ۔” انہوں نے الماری سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکال کر کھو ل دیا ۔
” آپ کے جانے کے بعد میں نے اس لاکٹ کو اٹھایا تک نہیں ۔۔۔ انہوں نے سونے کا وہ حسین لاکٹ اپنے دل سے لگا یا۔ ” بعض چیزیں تکلیف بہت دیتی ہیں ۔” لاکٹ واپس ڈبے میں رکھ کر انہوں نے الماری بند کر دی ۔آنکھیں بھیگنے لگی تھیں ۔ وہ کمرے سے نکل گئیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اس نے اپنی چادر تہ کر کے ایک طرف رکھ دی او ر خود بڑی پھوپھی کے پاس بیٹھ کر اخروٹ توڑنے لگی ۔
” چلے گئے وہ دونوں ؟” بڑی پھوپھی نے اخروٹ کھاتے ہوئے پوچھا ۔
” جی ! چلے گئے ۔ اصغر کو اسلام آباد میں ایک بہت بڑی کمپنی میں نوکری ملی ہے ۔” اس نے خوشدلی سے جواب دیا ۔
” کیسی نوکری ؟” فردوس بھابھی آکر بیٹھتے ہوئے بولیں ۔
” چارٹر ڈ اکاؤنٹنٹ کی نوکری۔” دینا نے فخر سے کہا ۔” بلکہ وہ تو وہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کی سوچ رہے ہیں ۔”
” لو بھئی ! میں کیسے سمجھاؤں کہ کھوئی ہوئی عزت بڑے شہروں میں جا کر پیسہ کمانے سے واپس نہیں مل جاتی۔” فردوس بھابھی نے طنز کیا ۔ دینا خاموشی سے اخروٹ توڑنے لگی ۔
” چپ رہا کرو تم ورنہ میکے بھجوا دوں گی۔” پھوپھی نے فردوس بھابھی کو غصے سے گھورا۔
” اونہہ۔ کیا غلط کہہ دیا میں نے ؟” فردوس بھابھی منہ بسور کر بڑ بڑائی۔
” کچھ لوگ سانپ سے بھی زیاد ہ زہریلے ہوتے ہیں ۔آپ کچھ بھی نہ کہو پھر بھی آپ کو ڈستے ہیں ۔” دینانے اخروٹ کھاتے ہوئے سوچا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
بہت دنوں بعد سب گھر والوں نے مل بیٹھ کر ناشتہ کیا تھا ۔اصغر کی طبیعت بہتر ہونے لگی تھی ۔ انہیں صحت یاب ہوتا دیکھ کر مرینہ نے سکھ کا سانس لیا تھا ۔
” ماموں میں آج جانے کا سوچ رہا ہوں ۔” سنان نے ناشے میں مگن اپنے ماموں کو مخاطب کیا۔ وہ جوس پیتے پیتے رُک گئے ۔
” کیا مطلب ؟ کہاں جانے کا سوچ رہے ہو ؟”
” واپس سعودیہ ۔” سنان نے سنجیدگی سے مختصر اً جواب دیا ۔
” اب تم کہیں نہیں جا سکتے ۔” انہوں نے طے کرلیا ۔
” ایک تو آپ کا گھر اتنی مشکل سے ملا ہے ۔ اماں جان نے پرانا ایڈریس دیا تھا ۔وہ تو تھینک گاڈ آپ کے پرانے پڑوسی نے آپ کا نیا ایڈریس دیا ورنہ مجھے نہیں تو میں ابھی تک آپ کو ڈھونڈرہا ہوتا۔” سنان آملیٹ کھاتے ہوئے بولا ۔
” منزل پانے کیلئے مشقت تو کرنی پڑتی ہے ۔” شہروز نے بھی حصہ لیا ۔
” ہاں ۔ بس اب یہی تمہاری منزل ہے ۔ تم کہیں نہیں جارہے ۔” ماموں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔
” نہیں ۔ میں اماں جان کی آخری خواہش پوری کرنے یہاں آیا تھا ۔”
” اور اب تمہارے ماموں کی یہ خواہش ہے کہ تم کہیں نہ جاؤ۔” وہ کرسی سے اٹھ گئے ۔
” میں یہاں نہیں رُک سکتا ۔” سنان ان کے پیچھے پیچھے ڈائیننگ روم سے نکل آیا اور اسے باہر جاتے دیکھ کر منزہ نے بڑی اپنائیت سے سوچا تھا ۔ ” یہ انداز شناسا کیوں لگتا ہے مجھے ؟”
” میں تمہیں جانے نہیں دے سکتا۔” ان کی پیشانی پر شکنیں بن گئیں ۔
وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ گئے ۔
” اماں جان چاہتی تھیں کہ میں ان کا خط آپ تک پہنچاؤں ۔ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتی تھیں کہ بابا جان کی سچائی آپ کو معلوم ہو لیکن میں اپنی ماں کے کردار پر وہ داغ برداشت نہیں کر سکا جو حالات نے ان پر لگایا تھا ۔”
وہ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا ۔” آپ مجھے بتائیں اگر آپ کو سچائی کا پتا نہ چلتا تب بھی آپ مجھے اس طرح روکتے ؟” سنان کے اس عجیب سے سوال پر انہوں نے حیرت و اضطراب کے عالم میں اس کی طرف دیکھا ۔
” شاید نہیں ۔ میں اتنا اعلیٰ طرف نہیں ہوں ۔ لیکن اب میں تمہیں جانے نہیں دے سکتا ۔ ” ان کے چہرے پر واضح اضطراب اور بے چینی کی جھلک تھی ۔
” اپنوں کے ہوتے ہوئے انجان لوگوں میں کیسے رہ لوگے ؟”
” جیسے پہلے رہتا تھا ۔ ” سنان بے نیازی سے بوال ۔
” پہلے کی بات اور تھی ۔” بلاوجہ ان کی آنکھوں میں نمی سی تیرنے لگی ۔” تئیس سال میں سر جھکا کے چلا ہوں کیوں کہ میں ایک ایسی بہن کا بھائی تھا جوایک عیسائی کے ساتھ گھر سے بھاگ چکی تھی ،لیکن آج میرا مقام الگ ہے ۔میں مطمئن ہوں ۔” انہوں نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کردیں۔” پھر آنکھیں کھو ل کر التجاعی نظروں سے سنان کو دیکھ کر کہا ۔” تم جانے کی ضد چھوڑ دو ۔ پلیز” سنان نے ہار مان کر ہمدرد نظروں سے انہیں دیکھا اور خاموش رہا ۔ ان کی آنکھوں میں تیرتی نمی سے اس کا دل کٹ سا گیا تھا ۔
” okay ” سنان نے سرجھکا کر بالآخر ان کی بات مان لی۔
” come my dear! ” انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنی بانہیں کھول دیں اور سنان بنا کسی جھجھک کے ان کے گلے لگ گیا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
عید کا دن تھا ۔اصغر اور مرینہ اسلام آباد سے آئے ہوئے تھے اور وہ ان سے ملنے جارہی تھی ۔
” جب دیکھو۔ کہیں نہ کہیں جارہی ہوتی ہو ۔ کم ازکم عید کے دن تو گھر پر ٹک جایا کرو۔” فردوس بھابھی کمرے سے نکل کر کاٹ دار لہجے میں بولیں۔
” بھابھی! وہ اصغر اور مرینہ اسلام آباد سے ۔۔۔”
” ہاں ۔ ہاں ۔ معلوم ہے ۔” فردوس بھابھی نے دینا کی بات کاٹ دی ۔” بھئی! اگر شروع سے پابندی لگائی ہوتی تو وہ دوسری گھر سے بھاگ تو نہ جاتی ایک عیسائی ۔۔۔”
” بس ۔ بھابھی !حد کر دی آپ نے ۔۔۔” علی سیڑھیاں اترتا ہواآیا ۔” تین سال ہو گئے لیکن آپ اس واقعے کو بھولنے ہی نہیں دیتیں۔” اس کی آنکھوں میں قہر تھا ۔ ” آپ ہمیشہ اس کو طعنے دیتی ہیں اور یہ خاموش رہتی ہے لیکن اور نہیں ۔ میں آپ کے منہ سے ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا ۔” وہ غرایا ۔ دینا خاموش کھڑی یہ تماشا دیکھتی رہی تھی ۔
” اس شخص سے میں نے نہ عزت مانگی ہے نہ محبت ۔۔۔ پھر بھی یہ مجھے عزت تو دیتا ہے لیکن محبت نہیں دے پایا ۔” اس نے تاسف سے سوچا ۔
” یہ کیا چلاّ رہے ہو علی ؟ عید کا مبارک دن ہے آج ۔” پھوپھی کمرے سے نکل آئیں ۔
” چھری کی طرح تیز زبان چلاتی ہو ۔ دھیان رکھا کرو کہیں خود کا گلا نہ کاٹ دو اس چھری سے۔” پھوپھی نے فردوس بھابھی کو گھورا اور پھر دینا کی طرف متوجہ ہو گئیں ۔
” تمہیں اس حالت میں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔ میں فون کر کے اصغر اور مرینہ کو یہاں بلاتی ہوں۔ تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کر و” پھوپھی نے نرمی سے کہا تو دینا سر جھکا کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ “یااللہ ! میرے بچے کی آمد کیساتھ میری آزمائشوں کو ختم کر دینا ۔” اس نے تہ دل سے دعا مانگی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
سنان نے ماموں کی خواہش کے مطابق ان کا بزنس جوائن کرلیا ۔
” ممانی جان ! آج پہلا دن ہے آفس کا ۔ دعا کریں میں یہ ذمہ داری بہ خوبی نبھا پاؤں ۔” سنان کمرے کے دروازے میں کھڑا تھا ۔
” don,t worry تم بہت اچھا کرو گے ۔ میں نے چاروں قل پڑھ کر دم کردیں اور ہاں تم مجھے ممانی جان کی بجائے خالہ جان کہا کرو مجھے اچھا لگے گا ۔”
” اماں جان سے میں جب بھی ان کی بیسٹ فرینڈ کا نام پوچھتا تھا تو وہ آپ کا نام لیتی تھیں۔ اکثر آپ کو یاد کر کے رو پڑتی تھیں ۔” وہ ماضی کے دریچوں میں جھانکنے لگا۔
” ہاں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھیں لیکن حالات کی تیز آندھی انہیں اتنا دور لے کر چلی گئی کہ پھر ملی ہی نہیں ۔” وہ یک دم اداس ہو گئیں ۔ ” خیر یہ میں کیا بحث لے کے بیٹھ گئی ۔ تم جاؤ! تمہارے ماموں تمہارا انتظار کررہے ہوں گے ۔” انہوں نے سنان کا بوسہ لیا اور اس کے جانے کے بعد بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتی رہیں ۔” آپ جتنی خوش مزاج تھیں اتنی ہی بد قسمت نکلیں ۔ بنا کسی گناہ کے آپ پہ ایک نہ مٹنے والا داغ لگ گیا جسے جنموں تک دھویا نہیں جاسکتا ۔ ” ان کی آنکھیں بھیگنے لگیں ۔ وہ نڈھال سی بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
وہ بے چینی سے صحن میں ٹہل رہا تھا ۔ اس کے ذہن میں علی کی کہی ہوئی باتیں کسی ٹیپ ریکارڈر کی طرح چل رہی تھی ۔ ” یار! میں تنگ آگیا ہوں کوئی اسے کچھ بھی بولے وہ خاموش رہتی ہے ۔ مجھے گھٹن ہوتی ہے اسے اتنا خاموش دیکھ کر ۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ الگ گھر لے لوں جہاں وہ سکوں سے رہ سکے ۔”
” تھوڑی بہت مدافعت تو قربانی کا جانور بھی کرتا ہے دینا سعید تمہاری یہ خاموشی کیا ہے ؟تمہاری خودداری یا تمہاری کم ہمتی”اس نے اضطراب کے عالم میں سوچا اور مرینہ سے مشورہ کرنے کمرے میں گیا۔
” مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ جیسا آپ ٹھیک سمجھیں ۔” مرینہ نے ہمیشہ کی طرح اس کی مرضی کو فوقیت دی تھی اور اس نے علی کو فون کر کے کہا تھا ۔ تمہیں دوسرا گھر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ گھر خالی ہے تم اپنی مرضی سے جب چاہو یہاں شفٹ ہو جاؤ۔”
اصغر اور مرینہ کے اسلام آباد واپس چلے جانے کے بعد دینا ،علی اور پھوپھی کیساتھ اپنے میکے والے گھر میں شفٹ ہو گئی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام ڈھل چکی تھی ۔ وہ بھاگتی ہوئی لیونگ روم میں داخل ہوگئی ۔
” امی جان !۔۔۔ I am back ” اس نے اعلان کیا ۔
” oh , darling! I am coming ” کمرے سے ان کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے نکل کر مسکراتی ہوئی حمائل کے پاس آگئیں ۔ “ہاؤ آر یو مائی ڈئیر؟ “انہوں نے حمائل کو سینے سے لگاتے ہوئے پوچھا ۔
“آئی ایم فائن ! وہاٹ آباؤٹ یو ؟”
“آئی ایم گڈ ۔ ہاؤ واز یور ٹرپ ؟” حمائل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے وہ صوفے پر بیٹھ گئیں اور پھرو ہ ملازم کی طرف متوجہ ہوئیں ۔”رشید حمائل بی بی کا سامان اندر لے آؤ۔”
“ٹرپ بہت زبر دست رہا ۔But I missed you ”
Anyways” میں تمہیں ایک نئے فیملی ممبر سے ملواتی ہوں۔”
“نیا فیملی ممبر ؟”حمائل نے حیرانی سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
“سنان بیٹا ! یہاں آنا ذرا۔۔ “امی نے کسی اجنبی نام کو پکارا تھا ۔
حمائل حیرت سے ان کا منہ دیکھتی رہی۔
“جی خالہ جان ! آیا ” سنان کی آواز آئی ۔ حمائل کا اشتیاق مزید بڑھ گیا لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس کے سامنے تھا ۔
“سنان ! یہ حمائل ہے ۔ میری بیٹی اور حمائل ! یہ سنان ہے تمہاری پھوپھو کا بیٹا ” امی نے سنان کا تعارف کروایا۔
“پھوپھو کا بیٹا ؟ لیکن میر ی تو کوئی پھوپھو نہیں ہیں ۔”حمائل الجھ گئی ۔
“یوں سمجھ لو ابھی ہے ۔” امی نے معنی خیز انداز میں کہا ۔
” hi۔۔۔ ” حمائل نے جبراً مسکرانے کی کوشش کی ۔
” hello۔۔۔ ” سنان دوسرے صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا ۔
“سنان ! تمہارے ماموں نہیں آئے تمہارے ساتھ؟”امی نے سوال کیا ۔
“وہ actually خالہ جان! آفس میں کام زیادہ تھا تو انہوں نے مجھے گھر بھیج دیا ۔ وہ خود دیر سے آئیں گے۔ ”
“میں نے سمجھایا بھی ہے انہیں کہ زیادہ کام نہ کریں لیکن نہیں مانتے۔ ”
امی اچانک فکر مند ہو گئیں اور اسی لمحے حمائل بڑی حیرت سے سوچ رہی تھی ۔” جس شخص کو رشتوں کی پہچان نہیں۔ جو ممانی کو خالہ جان کہتا ہے وہ بزنس کیا خاک سنبھالے گا ؟” اور پھر وہ اٹھ کر کمرے میں گئی ۔
“منزہ سٹڈی چئیر پر بیٹھی کوئی ڈرائیننگ بنا رہی تھی ۔ حمائل کے آتے ہی وہ کر سی سے اٹھ گئی ۔” تم آگئی ؟” حمائل کی طرف چند قدم بڑھا کر اس نے خوش دلی سے کہا ۔
“کیوں ؟ تمہیں کوئی پرابلم ہے کیا ؟” منزہ کی طرف دیکھے بنا حمائل نے کاٹ دار لہجے میں کہا اور واش روم میں گھس گئی۔
“اس بے رخی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ میرے خدا! اس کا علاج کیا ہو ؟ ”
منزہ نے تاسف سے سوچا اور کمرے سے نکل گئی ۔
“اوہ حمائل ! آگئی تم ؟کیسی ہو ؟ ڈائننگ روم میں داخل ہوتے ہی انہوں نے حمائل کو دیکھ کر خوش دلی سے پوچھا ۔
“ٹھیک۔” وہ ایک کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گئی ۔ سر اٹھا کر اپنے منافق باپ کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں تھی اسے ۔
“تمہارا ٹرپ کیسا رہا ؟” انہوں نے کریدنے کی کوشش کی ۔
“اچھا تھا ۔” اس نے بے نیازی سے کہا اور کھانا کھانے لگی ۔
“تم پوچھو گی نہیں میری طبیعت کیسی ہے ؟ “ان کا لہجہ نرم تھا ۔
“کیا ہوا ہے آ پ کو ؟ اچھے خاصے تو ہیں آپ ” اس نے پہلی بار سر اٹھا کر اپنے باپ کو گھورا ۔ اس کے لہجے میں بے نیازی کے ساتھ ساتھ سختی بھی تھی ۔
“حمائل !” امی نے اسے ناراضگی سے دیکھا ۔” تمہارے ابو heart patient ہیں۔”
“جو دوسروں کو دماغی مریض بناتے ہیں وہ خود دل کے مریض بن جاتے ہیں ۔”اس نے انتہائی سخت لہجے میں کہا اور کرسی سے اٹھ کر تیزی سے باہر نکل گئی ۔ اس کے گلے میں زہر سا اتر گیا تھا ۔ سوائے ابو اور سنان کے سب خاموشی اور اطمینان سے کھانا کھاتے رہے ۔ کیوں کہ سنان کے لیے حمائل کا رویہ نیا تھا اور ابو کے لیے تکلیف دہ۔۔۔
” I am sorry بیٹا ! یہ ایسی ہی ہے ۔” امی نے سنان کو ندامت بھری نظروں سے دیکھا ۔
” Its okay “سنان نے مختصراً جواب دیا تو شہروز ہنسنے لگا ۔
” don’t worry dude تمہیں کچھ نہیں کہے گی ۔” سنان بھی جواباً مسکرایا تھا ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
فردوس بھابھی کے طعنوں اور ان کی آوازوں سے تو بچالیا آپ نے لیکن ماضی کی آوازوں سے کیسے بچائیں گے مجھے ؟وہ تو آپ کو سنائی بھی نہیں دیتیں ۔” و ہ آرام سے پیڑ کے نیچے کھڑی بے انتہا مضطرب تھی ۔
“عرینہ کے چلے جانے کے طعنے تو وہاں کبھی کبھی سننے کو ملتے تھی لیکن یہاں کا کونا کونا ہر پل مجھے اس کے غائب ہونے کا طعنہ دیتا ہے ۔” وہ نیچے زمین پر بیٹھ گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
منزہ نے بیڈ سے براؤن کلر کا بیڈ شیٹ ہٹا کر اس پر ڈارک گرین کلرکی بیڈ شیٹ بچھا دی اور گل دان سے پرانے پھول ہٹا کر اس میں تازہ پھول سجانے لگی ۔
“شکر ہے اتوار کا دن ہوتا ہے ۔ یہ چھوٹے موٹے کام اسی دن تو ہو پاتے ہیں ۔”
اس نے بڑی ذمہ داری سے سوچا ۔
“منزہ ایک favour چاہیے تم سے ۔” شہروز دروازے میں کھڑا تھا ۔
“جی !کہیے ۔” وہ مکمل طور پر شہروز کی طرف متوجہ ہو گئی ۔
“مجھے ایک اچھی سی پینٹنگ بنا کے دو ۔ کسی کو گفٹ میں دینی ہے ۔”
“ٹھیک ہے میں بنا لوں گی لیکن میں آج فارغ نہیں ہوں ۔ کل بنادوں گی۔”
” Okay. Thank you ” شہروز دروازے سے ہی واپس جانے کو مڑا ۔
” کر لو ں گی تمہارا کام بھی شہروز اصغر لیکن ابھی تک وہ خدوخال ادھورے ہیں ۔ وہ بنا لوں تو اس کے بعد ۔۔۔ “وہ کمرے سے نکل کر سٹور روم کی طرف گئی ۔
“لوگ اپنے سامنے تصویر رکھ کر پورٹریٹ بناتے ہیں لیکن وہ چہرہ تو مجھے زبانی یاد ہو گیا ہے ۔ وہ سوچتی آنکھیں اور وہ سنجیدہ چہرہ ۔۔۔” سٹورروم کے اندر جا کر وہ مسکرائی ۔ کینوس پر سنان کے چہرے کا خاکہ بنا ہو اتھا ۔
” یہ مکمل کر لوں اس کے بعد تمہارا کام مکمل کر سکوں گی ۔” وہ بورڈ کے پاس آگئی ۔
اس نے کھڑکی کھول کر باہر دیکھا ۔ حمائل مالی کے ساتھ مل کر کیاریوں میں نئے پودے لگا رہی تھی۔
“تم الجھی ہوئی ڈور ہو حمائل! اور اس ڈور کو جو سلجھانے کی کوشش کرے گا ۔و ہ خود الجھ جائے گا۔” حمائل کو دیکھ کر اسے الجھن سی ہونے لگی ۔ اس نے رنگوں کی ٹرے اٹھائی اور وہ چہرہ بنانے لگی جس سے اسے طمانیت کا احساس ہوا تھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
شام کا وقت تھا وہ ہال کمرے کے بیچ میں کھڑی تھی ۔ اس کی خوف زدہ نگاہیں اس آرام کرسی پر جمی ہوئی تھیں جس پر کبھی بڑے ابا بیٹھا کرتے تھے ۔ ” دینا ! بیٹا ! آج قہوہ تو بنے گا ناں ؟ وہ شوخ سی مردانہ آواز اس کے کانوں میں سرگوشیاں کررہی تھی ۔ دینا نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کانوں کو دبایا اور بدحواسی کے عالم میں باہر کی طرف بھاگ گئی ۔
” کیاہوا دینا ؟ تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ؟ پھوپھی تخت سے اٹھ کر اس کی طرف آگئیں ۔ ان کے چہرے پر فکر مندی کے آثار تھے ۔ ” تم ٹھیک تو ہوناں ؟” انہوں نے اپنے ہاتھ سے اس کا چہرہ چھولیا۔ اس کے چہرے پر بڑے پسینے کے قطرے دیکھ کر و ہ گھبرا گئیں۔
” پھوپھی ! وہ ۔۔۔ وہ کرسی ۔۔۔ بڑے ابا ۔۔” اس نے بتانے کی کوشش کی لیکن اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔
” یہ تم کیا کہہ رہی ہو بیٹا !”
” وہ الماری میں کپڑے ۔۔۔ بڑی اماں ۔۔۔ اماں ۔” وہ سسکنے لگی ۔ پھوپھی نے خاموشی سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ ” ان دنوں اس کا یوں خوفزدہ رہنا بچے پر اثر انداز ہو گا ۔” انہوں نے فکر مندی سے سوچا ۔
اگلے ہی دن پھوپھی نے بڑی ماں اور اماں کی الماری سے کپڑے نکا ل کر پڑوسیوں کو دے دیے اور بڑے ابا کی آرام کرسی کو جلا دیا اور پھر آم کے پیڑ کے نیچے کافی دیر بیٹھی کرسی کی راکھ کو دیکھ دیکھ کر روتی رہی۔
حمائل سنان سے کافی حد تک مانوس ہو چکی تھی ۔ بلکہ وہ اب حمائل کا اچھا دوست بھی بن گیا تھا اور وہ اس کے بارے میں سوچتی ” تم جتنے بورنگ اور سنجید ہ لگتے ہو اتنے تم اچھے اور friendly ہو۔”
حمائل اصغر کے لیے زندگی میں اہم چیزیں محبت اور اہمیت تھیں ۔ پھر یہ اہمیت چاہے اس کو صبار قاسم سے ملتی یا پھر سنان یوسف سے ۔۔۔۔ بلکہ صبار کو یاد کر کے وہ اکتا چکی تھی ۔ ایک بے نام سی محبت تھی۔ ایک نہ ختم ہونے والا انتظار تھا جو وہ کررہی تھی ۔ پر اسے ایسی محبت تو نہیں چاہیے تھی جس پر وہ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر چپکے سے آنسو بہا سکتی بلکہ اسے تو کسی کے ساتھ کی ضرورت تھی جو ہر پل اس کے پاس ہو۔ جو اس کے شانہ بہ شانہ چلے اور جس کی محبت وہ منزہ علی کو دکھا کر اسے دکھ پہنچا سکے ۔
لیکن صبار قاسم تو اب بہت دور بیٹھا تھا اتنا دور کہ حمائل کو بنا اس کی تصویر دیکھے اس کا چہرہ تک یاد نہ رہتا ۔ وہ جو گھنٹوں تک لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی صبار قاسم کی تصویریں دیکھتی اب وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس کی تصویر کو نہ دیکھ پاتی ۔ اس کا دم گھٹنے لگتا تھا ۔ وہ اداس ہو جایا کرتی تھی ۔ بلکہ اب تووہ مختلف مصروفیات کا بہانہ بنا کر صبار کے ساتھ بات کرنے سے جان چھڑاتی تھی ۔ وہی ایک دوسرے کا حال پوچھنا ، وہی محبت کا اظہار کرنا ، وہی پرانی باتیں دُہرانا۔۔۔ حمائل ان سب سے اکتا چکی تھی ۔ ان سب کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ اسے اب صبار سے محبت نہیں تھی ۔ بس وہ صرف چاہتی تھی کہ صبار جلد سے جلد لوٹ کر آجائے اور یہ اتنا جلدی ممکن نہیں تھا ۔
” کسی کے نام کے ساتھ کب تک جیا جائے ؟” وہ اکتا کر سوچ لیتی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
علی کسی ملک اظہر الدین کے ساتھ زمینوں کا مقدمہ لڑنے ہائی کورٹ گیا تھا ۔
پھوپھی صبح جائے نماز پہ بیٹھی علی کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہی تھیں ۔دوپہر کو علی کا فون آگیا وہ مقدمہ جیت گیا تھا اور شام تک گھر لوٹنے والا تھا ۔
پھوپھی نے جلدی سے پڑوسی کے لڑکے کو بیکری بھیج کر مٹھائی منگوائی اور پورے محلے میں تقسیم کر دی ۔ دینا سجدہ شکر بجا لائی تھی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
یونیورسٹی کی چھٹیاں تھیں ۔ دوپہر کا وقت تھا اور وہ سخت بور ہورہی تھی ۔ اپنا دھیان بٹانے کے لیے وہ سٹڈی سے کوئی کتاب لانے چلی گئی ۔
سٹڈی کا دروازہ ادھ کھلا تھا ۔ وہ اندر جانے لگی لیکن اس کے قدم دروازے میں ہی رک گئے ۔
منزہ اپنے سینے پہ کوئی کتاب رکھے سوررہی تھی ۔ شاید پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی اور شیلف کے پاس کھڑا سنان منزہ کے سوئے ہوئے چہرے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔
حمائل بے یقینی سے اس سارے منظر کو دیکھتی رہی پھراس کے ذہن میں آگ سی بھڑک اٹھی ۔ اس کی رگ رگ میں خون کے بجائے آگ سی دوڑنے لگی ۔
وہ الٹے پاؤں سیڑھیاں اترتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور غصے اور بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگی ۔ پھر وہ ڈریسنگ روم کی الماری کے پاس گئی تھی ۔ جس میں منزہ کی پینٹنگز رکھی ہوئی تھیں۔
یوں ہی ہوتا تھا کہ جب اسے منزہ پر غصہ آتا تھا اور وہ اس کو کوئی نقصان نہ پہنچا پاتی تو وہ اس کی پینٹنگز پھاڑ دیتی ۔ اس کی فریم شدہ پینٹنگز کی فریمز توڑ دیتی تھی ۔
اس نے منزہ کی بنائی ہوئی پینٹنگز الماری سے باہر پھینکنا شروع کر دیا۔ پھر اس کے ذہن میں جیسے بہت ساری گاڑیاں ایک دوسرے سے ٹکرا گئیں۔ اس نے بے یقینی سے فرش پر پڑی سنان کی پورٹریٹ کو دیکھا اور پھر کانپتے ہاتھوں سے اسے اُٹھا کر اپنی آنکھوں کے قریب کردیا جیسے اس بات کا یقین کررہی ہو کہ وہ چہرہ سنان ہی کا تھا ۔
” مطلب ۔۔۔ منزہ بھی ۔۔؟” وہ غیر یقینی سی حالت میں بڑبڑائی ۔
” کب سے ہورہا ہے یہ ؟” وہ آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گئی ۔” میں ویران ہوں اور وہ محبتیں سمیٹ رہی ہے ؟نہیں منزہ علی ! نہیں ۔۔۔ یہ تمہارا مقدر نہیں ۔” اس نے نفرت و حقارت سے سوچا اور سنا ن کی پورٹریٹ پھاڑنے لگی ۔
” میں تمہیں سکون پذیر ہونے نہیں دوں گی ۔” اس نے فرش پر بکھرے پینٹنگ کے ٹکڑوں کو نفرت سے دیکھا ۔اس کی آنکھیں انگارہ ہورہی تھیں ۔ اس کا وجود جل رہا تھا ۔ وہ وہیں پر ٹانگیں پھیلا کر ایک بے سہارا بچے کی مانند رودی ۔ ” ایس بی ! تونے جا کر بہت بڑا نقصان کیا ہے میرا ۔۔۔ ” اس نے روتے ہوئے بڑی بے بسی سے سوچا تھا ۔ صبار قاسم کی محبت ہی حمائل اصغر کا کل اثاثہ تھی لیکن اب جب کہ وہ نہیں تھا اور گھٹنوں پر سررکھ کے رونے لگی ۔وہ بہت دل گرفتہ تھی ۔ صبار نے جا کر واقعی ویران کر دیا تھا اسے ۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شام کا وقت تھا ۔ فون بج رہا تھا ۔ دینا باورچی خانے میں تھی ۔ برآمدے میں تخت پر بیٹھی پھوپھی نے فون اٹھا لیا ۔ تھوڑے سے توقف کے بعد دینا کو ان کی چیخ کی آواز سنائی دی ۔ وہ بدحواسی کے عالم میں برآمدے کی طرف بھاگ گئی ۔ پھوپھی کے ہاتھ سے ریسیور گر چکا تھا ۔ دینا کے قدم جیسے زمین میں دھنس گئے ۔ اس نے خالی نظروں سے پھوپھی کو دیکھا وہ رو رہی تھیں ۔ دینا کو اپنے سر سے دوپٹہ گرتا محسوس ہوا۔وہ وہیں پر بیٹھتی چلی گئی ۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
“یعنی دونو ں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی ۔” وہ کمرے سے نکل آئی ۔” لیکن میں یہ آگ بجھا دوں گی منزہ علی ! اور جب یہ آگ بجھ جائے گی تو اس کی جگہ پانی ہو گا ۔ صرف اور صرف پانی ۔” اس نے قہقہہ لگایا ” آنکھوں سے بہنے والا پانی ۔۔۔” وہ امی سے بات کرنے ان کے کمرے میں گئی ۔
وہ الماری سے اپنے لیے کپڑے نکال رہی تھیں ۔ حمائل ان کے پاس گئی ۔
” امی جی ! بات کرنی ہے آپ سے ۔” اس کا انداز سنجیدہ تھا ۔
” ہاں کرلینا بات پہلے یہ بتاوؑ کہ ان دونوں ڈریسز میں کون سا والا اچھا ہے ؟یہ میرون والا یا پھر بلیو والا ؟” انہوں نے ہینگرز میں لٹکے کپڑے حمائل کو دکھاتے ہوئے پوچھا ۔
” امی جی ! “حمائل نے منہ بسورتے ہوئے کہا ۔you never listen to me” ” وہ ناراض ہو گئی۔
” oh my darling! ” کپڑے واپس الماری میں لٹکا کے وہ حمائل کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ “ہماری compaign کی ممبرز کے لیے مسز قاسم نے اپ
بہت ہی خوفناک خواب تھا ۔ اُس کا جسم پسینے میں شرابور تھا اور وہ خوف کے مارے کانپ رہی تھی ۔
وہ اُٹھ کرنہانے چلی گئی ۔ ٹھنڈے پانی نے اُس کے ذہن سے ڈر اور خوف کا احساس مٹا دیا ۔ نہانے کے بعد وہ کمرے سے نکلی۔
ڈائننگ روم سے آوازیں آرہی تھیں ۔سب کھانا کھا رہے تھے۔ وہ باہر جا کر بے چینی سے لان میں ٹہلنے لگی۔ اُس نے اتنا اچانک فیصلہ لیا تھا کہ اُسے کچھ سوچنے کی مہلت بھی نہیں ملی تھی۔ اُس کے ذہن پہ منزہ علی سوار تھی۔ وہ اُس کے چہرے سے اطمینان اور آسودگی کا تاثر مٹا دینا چاہتی تھی اور اس کے لئے اُس نے بہت کوششیں کی تھیں لیکن وہ منزہ کو رُلا نہ سکی اور اب وہ ایک آخری بازی کھیلنا چاہتی تھی۔ ایک ایسا وار کرنا چاہتی تھی جس سے منزہ علی ایسے ٹوٹے کہ پھر دوبارہ کبھی نہ جڑ سکے۔
” پر اس آخری بازی کے لئے مجھے اپنی پہلی محبت قربان کرنی ہوگی ۔ وہ محبت جو میری زندگی کا حاصل ہے۔” اُس نے ٹہلتے ہوئے اضطراب سے سوچا تھا۔ اُس رات وہ صبار قاسم کو یاد کر کے بہت مضطرب، بہت بے چین ہوئی تھی۔اُس رات لان میں ٹہلتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے لگائے گئے ہر گلاب کی پنکھڑیوں کو مروڑ ڈالا تھا بالکل صبار قاسم کی محبت کر طرح۔۔۔
اُس رات اُس نے خود کو یہ بات سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی ” مجھے یہ سیدھی سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی؟کہ اگر میں نے ایس بی کو چھوڑ دیا تو میں خالی ہو جاؤں گی۔” لیکن اگلے لمحے اُس کو منزہ یاد آجاتی اور اس چہرے کی آسودگی ۔۔۔پھر حمائل کو کچھ یاد نہ رہا۔ پھر وہ جلنے لگی۔ ایک آگ میں جلنے لگی جو پانی سے بجھنے والی نہیں تھی ورنہ وہ رو رو کر اپنے آنسوؤں سے اُس آگ کو بجھا دیتی۔
آدھی رات تک وہ خود سے لڑتی رہی اور پھر کوئی بھی فیصلہ لئے بغیر وہ بوجھل سے قدموں کے ساتھ کمرے میں واپس آئی تھی۔
اگلے دن بھی اس کی خود کے ساتھ جنگ جاری رہی۔” نہیں ۔نہیں میں ایس بی کو نہیں چھوڑ سکتی۔ اُسے چھوڑ دوں گی تو خود کو کھو دوں گی ۔ نفرتوں کے بدلے محبتوں کا سودا نہیں کیا جاتا۔” اُس نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی تھی ۔ پھر وہ ڈریسنگ روم کے آئینے پہ چپکے گلاب کے پاس گئی تھی اور وہیں کھڑے کھڑے وہ بہت سارا روئی تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے اپنے موبائل میں شہروز کی بھیجی ہوئی تصویریں اور اُن میں منزہ علی کا مسکراتا چہرہ ۔۔۔حمائل پھر سے جلنے لگی تھی۔ وہ بھاگ کر کمرے سے نکل گئی۔
سنان کے کمرے میں جا کر اُس نے دروازہ اندر سے لاک کر دیا ۔وہ واش روم میں تھا۔ حمائل اُس کے بیڈ پہ بیٹھ کے کوئی کتاب پڑھنے لگی۔” میں اس آخری بازی کے بدلے اپنی پہلی محبت کا سودا کرنے کو تیار ہوں۔ بس مجھے تمھیں ہرانا ہے۔” اُس نے نفرت سے سوچا تھا۔ وہ جانتی تھی شہروز اور منزہ آج گھر واپس آرہے ہیں اور یہی صحیح وقت تھا منزہ پر وار کرنے کا۔۔۔سنان سے نکاح کے بعد اُس نے زیباپھپھو کو دس ہزار دے دیئے جو اس نے امی سے شاپنگ کے بہانے لئے تھے لیکن یہ آخری بازی کھیل کر بھی وہ مطمئن نہیں تھی۔
اُسے یاد نہیں تھا اُس نے آخری بار نماز کب پڑھی تھی ؟لیکن اُسے اتنا یاد تھا کہ وہ اگر کبھی نمازپڑھنے لگی تو منزہ کو نماز پڑھتے دیکھ کر وہ اپنا ارادہ بدل دیتی تھی۔ لیکن اس وقت وہ جائے نماز پہ بیٹھی گڑگڑا رہی تھی۔ وہ رو رو کر اللہ سے دعائیں کر رہی تھی کہ سنان نے اس کے پاس آکر اس کے آنسو پونچھ لئے تھے۔ وہ اس کے قریب آنے لگا تھا اور حمائل اُس کے پاس جانے سے ڈرتی تھی۔
” آئی ایم سوری سنان ! مجھے تم سے محبت نہیں ہے میں نے تو زندگی میں ایک ہی محبت کی تھی۔ایس بی۔۔۔وہ میری پہلی محبت تھا جس کو میں نے اپنی آخری بازی میں ہار دیا۔ منزہ علی کا سکون برباد کرنے کے لئے میں نے تمھارا استعمال کیا۔” وہ لکھتے لکھتے تھک چکی تھی ۔اُس نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا اور ڈائری بند کئے بغیر وہ کرسی سے اُٹھی۔
اُس رات اُس نے نیند کی دو گولیاں لیں اور ٹیرس پہ چلی گئی۔ سردی بہت تھی لیکن وہ ٹانگیں پھیلا کر کسی بے سہارا بچے کی مانند وہاںپر بیٹھ گئی اور آپ کی زندگی میں ایک موڑ ایسا بھی آتا ہے جب حالات آپ کے حسب منشاء ہوتے ہیں لیکن پھر بھی آپ مطمئن نہیں ہوتے۔ آپ کا ضمیر آپ کو مطمئن نہیں ہونے دیتااور حمائل اصغر کو بھی اس وقت اپنا آپ کچرے کا ڈھیر لگ رہا تھا۔ وہ بہت بے چین، بہت مضطرب تھی ۔ بہ مشکل اُٹھ کر وہ ٹہلنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے اس کے جسم پہ رونگٹے کھڑے کر دیئے لیکن وہ پھر بھی کافی دیر تک ٹیرس پہ ٹہلتی رہی۔ اس غضب کی سردی میں ننگے پیر ٹیرس پہ ٹہلنے سے اس کے پاؤں شل ہو گئے تھے ۔اس کا پورا وجود برف کی مانند ٹھنڈا تھا۔ اس نے اپنے بازو ریلنگ پہ ٹکا کر بڑی بے بسی سے سوچا” پوری زندگی اب ایسے گزرے گی؟” اُس کا دل ڈوبنے لگا۔ وو دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔ دھیرے دھیرے اُس پہ غنودگی طاری ہو گئی۔ اپنی حالت سے بے خبر جنوری کی وہ سرد ترین رات اُس نے کسی بے گھر انسان کی طرح وہیں پڑے پڑے گزاری تھی۔
٭دینا سعید مر گئی تھی؟ کتنی ناقابل یقین بات تھی یہ۔۔۔۔وہ جو زندگی کو مناسب اصولوں کے تحت گزارتی تھی۔ جو ہر کام وقت پہ کرتی تھی، موت نے کتنا بے وقت آ لیا تھا اُسے۔ وہ جو ہر وقت ہر کسی کی خاطر قربان ہونے کو تیار تھی، وہ ایسے وقت پہ مرگئی جب وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔
اُ س پر سکتہ طاری تھا۔ اُس دن اصغر کو اپنے اندر کی طاقت ٹوٹتی بکھرتی محسوس ہوئی تھی۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
حمائل کی غیر موجودگی کا احساس کیے بغیر وہ کمرے سے نکل گیا۔ اُسے ایک بہت ہی اہم میٹنگ اٹینڈ کرنی تھی ۔ اسی لئے وہ ناشتہ کیے بغیر آفس چلا گیا۔ رات کو بھی وہ کھانا باہر کھا کر آیا تھا۔ وہ بہت تھک چکا تھا اس لئے سیدھا کمرے میں گیا لیکن حمائل کمرے میں نہیں تھی۔
” سٹڈی میں ہو گی۔” وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
حمائل سٹڈی میں نہیں تھی ۔ اُس کی ڈائری سٹڈی ٹیبل پہ کُھلی پڑی تھی۔ سنان غیر ارادی طور پر ڈائری پڑھنے لگا۔ اُس کے سر پر ایک ساتھ کئی پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔ اُس کی آنکھوں سے جیسے انگارے پھوٹ رہے تھے۔ وہ اُس کوڈھونڈتے ڈھونڈتے ٹیرس پہ گیا اوروہاں وہ کسی بے جان وجود کی طرح پڑی مل گئی۔
” “how can you do this to me?وہ حلق کے بل چلایا۔تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ سنان نے اُسے جھنجھوڑا ۔اُس نے بہ مشکل اپنے بھاری پیوٹے اُٹھا کر سنان کو دیکھا اور دوبارہ آنکھیں بند کر دیں۔” تم اتنی مکار اور جھوٹی ہو؟” سنان نے زور زور سے اُسے ہلایا۔” تمہیں منزہ کو ہرانا تھا اور اس کے لئے تم نے میرا استعمال کیا؟” وہ رونے لگا ۔کتنی ناقابل یقین حقیقت تھی وہ جو ہمیشہ مخلص تھی اور صاف گو۔۔۔اتنی دھوکے باز نکلی۔ یہ یقین کرنا تکلیف دہ تھا۔ وہ تو محبت کرنے لگا تھا اُس سے ۔ اُس لڑکی سے جو میرے سے اس کی ذات میں دل چسپی نہیں لیتی تھی۔سنان اُس کے لئے بس ایک مہرہ تھا۔جسے حمائل نے جب چاہا منزہ کے خلاف استعمال کیا۔ وہ اُسے بے وقوف بناتی رہی اور وہ بے وقوف بنتا رہا۔ لڑائی حمائل اصغر کی تھی لیکن اُس میں مراسنان یوسف تھا۔
” کیوں کیا تم نے ایسا؟” وہ بلند آواز میں چیخا۔حمائل نے آنکھیں کھول کر بولنے کی کوشش کی لیکن اُس کے پیوٹے بھاری تھے اور اُس کی زبان لڑکھڑارہی تھی۔
” ٹھیک ہے تمھیں ڈائیو ورس پیپرز مل جائیں گے” ۔ وہ اُٹھا اور تیزی سے سیڑھیاں اُترنے لگا۔
” یہ ہے سچائی۔ وہ بنا دروازے پہ دستک دیئے کمرے میں داخل ہوا اور حمائل کی ڈائری ماموں کی طرف اچھال دی۔ بنا اُن کی حیرت دیکھے وہ کمرے سے نکل گیا۔ بہت تیزی سے گھر نکل کر وہ بھاگنے لگا تھا۔ اُس رات وہ بے تحاشا بھاگا تھا۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا لیکن پھر بھی وہ بھاگتا جا رہا تھا اُن اپنوں سے دور۔۔۔ جنہوں نے اُسے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ اُس لڑکی سے دور جس سے اُسے محبت تھی اور جس نے اُسے دھوکہ دیا تھا۔
بھاگتے بھاگتے اُس کی سانسیں پھول گئیں ۔اُس کا گلا خشک ہو گیا۔ لیکن وہ پھر بھی بھاگتا جا رہا تھا ۔ اُسے وہاں سے بہت دور جانا تھا جہاں اُس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔بھاگتے بھاگتے اُس کی ٹانگیں تھکنے لگیں۔ وہ دھڑام سے نیچے زمین پر گر گیا۔
قریب ہی کوئی ٹیپ ریکارڈ پہ گانا سُن رہا تھا۔
کوئی ہم دم نہ رہا،کوئی سہارانہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے، کوئی ہمارانہ رہا
شام تنہائی کی ہے آئے گی منزل کیسے؟
جو ہمیں راہ دکھائے، وہی تارہ نہ رہا
کوئی ہم دم۔۔۔۔۔۔
وہ دوبارہ اُٹھ کر سڑک کے کنارے بھاگنے لگا۔ اُس کے سامنے زندگی کی تاریک اور سنسان سڑک تھی جس پہ اُس نے موت تک بھاگناتھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” سچ تو یہ ہے بجیا! کہ ہم دونوں نے مل کر انہیں ویران کر دیا ۔ آپ نے ان کی زندگی سے جاکر اور میں نے ان کی زندگی میں آکر ۔۔۔محبت تو آپ دونوں کی تھی۔ میر ا کہانی میں کہیں ذکر ہی نہیں تھا۔ نہ جانے میری یہ یک طرفہ محبت کب تک ، کہاں تک لنگڑاتی پھرے گی؟” اصغر کی بھیگی پلکوں کو دیکھ کر اُس نے افسردگی سے سوچا تھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
اصغر کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ ڈرائیور کی مدد سے وہ اُنہیں گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئیں۔ ہسپتال سے ہی شہروز کو فون کر کے اُنہوں نے بلایا تھا۔ لیکن اُس کے آنے سے پہلے ہی ڈاکٹر نے اُنہیں اصغر کی موت کی خبر دی تھی۔ اس کے بعد انہیں کچھ یاد نہیں تھا کہ کون آیا تھا؟ کون انہیں گھر لے آیا؟ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ اُنہیں صرف حمائل کی چیخیں یاد تھیں جب وہ چلا چلا کے اُن سے پوچھ رہی تھی۔ امی جی ! یہ تو مجھے وضاحت دیئے بغیر مر گئے۔ آپ سے معافی مانگے بغیر چل بسے۔آپ نے ان کو روکا کیوں نہیں؟ یہ اتنی آسانی سے نہیں مر سکتے ۔ اُن کا دماغ ماوؑف تھا اور ذہن خالی ۔۔۔۔۔اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حمائل کیا کہہ رہی ہے؟
پہلے اُنہیں اصغر کی موت کا یقین نہیں تھا اور جب اُنہیں یقین آگیا تو برسوں پہلے اصغر کی دی ہوئی ائیر رنگز نکال کر اُنہوں نے آنکھوں سے لگا کر بہت روئی تھیں۔ الماری سے اصغر کی ڈائری نکال کر اُنہوں نے کھول دی ” مجھ پہ جو گزری سو گزری لیکن میں اپنے بچوں کو محبت کی اجازت دوں گا۔ ” ڈائری کے شروع میں لکھا شعر اُنہوں نے زیر لب دہرایا تو دل ایسے بھر آیا اور وہ اتنا روئیں کہ ان کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
اپنے آنسو پونچھ کر وہ حمائل سے بات کرنے اس کے کمرے میں گئیں اور پھر اُنہوں برسوں پہلے اپنی یک طرفہ محبت کی کہانی حمائل کو سنائی تھی اور حمائل حیرت واضطراب کے عالم میں اُنہیں دیکھتی رہی۔
” اپنے شوہر کے دل میں کسی اور عورت کو برداشت کرنا واقعی مشکل ہے لیکن اصغر کے دل میں تو دینابجیا تھیں۔ وہ عورت جو میر ی خاطر قربان ہوئی تھی۔” اُنہوں نے حمائل کی آنکھوں میں اُترتی نمی کو دیکھا۔
” وہ آدھے تھے، ادھورے تھے،چاہے جیسے بھی تھے میرے شوہر تھے اور مجھے اُن سے محبت تھی ۔ وہ تو ایسے انسان تھے جو ہر قدم پر میرے ساتھ کھڑے رہے۔ مجھے یاد ہے جب میں بی ایس سی کے ایگزامز دے رہی تھی تب تم اور شہروز چھوٹے سے تھے ۔ میں پڑھائی کرتی تھی اور اتنے عرصے میں انہوں نے تم دونوں کو سنبھالا تھا۔” اُن کی آنکھوں سے ایک گہری لڑی بہ گئی ۔” میں تو جب کبھی کوئی اداس گانا بھی سنتی تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کہیں میں اُداس تو نہیں ہوں؟ اور مجھے کیا چاہیے تھا۔۔۔؟ اُنہوں نے ہاتھوں کے پیالے منہ چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ اپنی ماں کو اس قدر بے بسی سے روتے دیکھ کر حمائل بھی ایسا دل کھول کے روئی کہ کمرے کے دروازے میں کھڑی منزہ کو بھی رونا پڑا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” میں تم سے وعدہ کرتا ہوں تمھاری بیٹی کو اپنی اولاد کی طرح رکھوں گا” اُس نے منزہ کے سر پر ہاتھ رکھ کے سوچا تھا۔ دینا سے کیا ہوا ہر وعدہ وہ پورا کرتا تھا۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
” منزہ کو کھو دیا میں نے ۔جو دوست تھی میری۔۔۔” لاؤنج کے سامنے والی سیڑھیوں پہ بیٹھی وہ پاگلوں کی مانند بڑبڑائی ۔ سامنے والی دیوار پہ بیٹھا ایک چیل اپنے پنجوں میں پکڑے ایک ننھے سے چوزے کو اپنی چونچ مار رہا تھا۔
” اور سنان بھی چلا گیا۔” اُس کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلا۔
چوزا اپنی پوری قوت لگا کر خود کو چیل کی گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
” ابو جی بھی چلے گئے۔ خاموشی سے۔۔۔” آنکھ سے اشکوں کی لڑی بہ نکلی۔ چوزا مر گیا تھا۔
” حمائل بی بی کے بارے میں ربیعہ نے بتادیا ۔سُن کر بہت افسوس ہوا۔”
اندر سے خالہ بی کی آواز آئی ،لہجے میں ہمدردی سے زیادہ دکھاوا تھا۔
چیل چوزے کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہا تھا۔
” حمائل بی بی اکلوتی بھی ہیں اور لاڈلی بھی۔۔۔ لیکن ایسی لڑکیوں کے لئے پھر اچھے رشتے تو نہیں آتے ۔ ہے ناں بیگم صاحبہ! اس لئے میں اپنے چھوٹے بھائی کا رشتہ حمائل بی بی۔۔۔
” یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں خالہ بی! ہوش میں تو ہیں آپ۔۔۔” امی کی تیز آواز اُبھری۔
چیل چوزے کو کھا چکا تھا۔ وہ دیوار سے اُڑ کر لان کے کونے میں پڑے اُس ٹوٹے سے گملے کے پاس جا بیٹھا جس میں بارش کا پانی جمع ہو گیا تھا۔ گملے کے پاس پڑے گوشت کے لوتھڑے پہ ایک بھی نگاہ ڈالے بغیر وہ پانی پینے لگا۔
” میں نے ایس بی کو بھی کھو دیا” اشکوں کی لڑی گہری ہوتی گئی۔
” معاف کرنا بیگم صاحب ! ہم تو آپ کے خادم ہیں لیکن میں نے اس لئے کہا کہ۔۔۔”
” خالہ بی ! بہتر یہی ہو گا کہ آپ اب چلی جائیں۔”
چیل سیر ہوکر اُڑ گیا۔
حمائل ایک جھٹکے سے اُٹھی اور تیزی سے اندر چلی گئی۔
” مجھے یہ رشتہ منظور ہے ۔خالہ بی! اتوار کے دن رخصتی ہو جائے تو اچھا ہے۔”
” حمائل ! یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ ” امی حیران وپریشان تھیں۔
” خالہ بی! میرے خیال میں اب آپ کو جانا چاہئے۔” امی کا سوال نظر انداز کر کے اُس نے خالہ بی سے کہا اور کمرے میں گئی۔
امی،شہروز بھائی،منزہ سب نے اُسے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے فیصلے پرڈٹی رہی۔
وہ کمرے میں بیٹھی سنان کے بھیجے ہوئے طلاق کے کاغذات دیکھ رہی تھی جب افصہ کمرے میں داخل ہوئی۔ حمائل جانتی تھی امی نے اُسے بلایا ہے اسی لئے وہ اپنے چہرے پہ کوئی بھی تاثر لائے بناء سپاٹ لہجے میں اُس کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔
” یہ تو نے کیسافیصلہ کیا ہے ماہی؟۔۔۔I had no ideaکہ تو اتنی بے وقوف ہے” افصہ نے بالآخر اصل بات پوچھ لی۔
” اس میں بے وقوفی والی کون سی بات ہے؟ ” وہ خشک لہجے میں بولی ” جب کوئی مجرم پولیس کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتا ہے تو یہ اُس کے لیے اچھا ہوتا ہے ورنہ اُس کے خلاف انکاؤنٹرسٹارٹ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔”
افصہ حیرت سے حمائل کو دیکھتی رہی ۔حمائل کیا کہنا چاہتی تھی اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
” میں اللہ کے سامنے سرینڈر کر رہی ہوں ۔ اس سے پہلے کہ میرے خلاف انکاؤنٹرسٹارٹ ہو”