شہناز نبیؔ(کلکتہ)
ٹوٹ رہی ہیں سب دیواریں
اب
میرے اس کے بیچ کوئی دیوار کہاں
میں نے اس کو جی بھر دیکھا
اس نے بھی یوں مجھ کو بھینچا
میرے سینے کی سب آہیں؍اک دم سے باہر آنکلیں
میرے آنسو دریا بن گئے
خاموشی صحرا در صحرا؍تنہائی پاتال تلک ہے
میرے اندر میرا کیا تھا؍میرے باہر بھی میرا کیا
جس سے میرے زخم ہرے تھے
اس نے میرے درد ہرے ہیں
میری ٹوٹی پیالی میں اک جرعہ اس کی مدرا کا
میرے جھوٹے باسن میں؍ اک لقمہ اس کے درشن کا
اس سے پوچھو؍کب کب کیا کیا اور گذرنے والا ہے
میں تو بس اتنا ہی جانوں
میرے ٹوٹے سپنے وہ پلکوں سے چننے والا ہے
میری تنہائی پہ
صدیوں تک وہ جگنے والا ہے
میری خاموشی کو لفظوں کے معنی پہنائے گا
اک نہ اک دن مجھ سا بن کر وہ کتنا اترائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہناز نبی ؔ
مرا دل نہ روئے
سفر میں یونہی
بادلوں سے جدا ہو کے بکھری ہے بارش
بن کھلے پھول مرجھا کے
گرتے رہے ہیں زمیں پر
ہوائیں بنادستکوں کے گذرتی رہی ہیں
کہاسے میں لپٹے ہوئے آنگنوں سے
چاند ؍پچھلے پہر
یونہی مدقوق سی اک ہنسی پھینکتا ہے
خوابگاہوں کے عریاں دریچے تلک
قطرہ قطرہ ٹپکتی ہے شبنم؍چٹانوں کی بے حس سطح پر
گرد میں اٹ کے بھی ؍کوئی پتہ
شعاعوں کو بانہوں میں لینے سے
ہرگز جھجکتا نہیں ہے
سفر میں عجب حادثے پیش آتے ہیں
لیکن کوئی کتنا سوچے
یہ مانا گذرتے چلے جا رہے ہیں سبھی
منظروں کی طرح؍اک صدی ایک لمحہ بنے
یا کہ لمحہ صدی؍یا اکارت ہی جائے
یہ ہستی
مگر دل سے کہہ دو نہ روئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہناز نبیؔ
خموشی
خیال اس کے؍زبان اس کی
نگاہوں پر بھی لگے تھے پہرے
اگر کھلو تو حرم کے اندر؍جؤمروتو زنانیوں میں
زبان اس کی؍خیال میرے( مگر ادھورے)
حدوں کے اندر ہو گفتگو سب
نپے تلے ہوں تمام جملے
اک ایک مصرعہ حجاب آگیں
زبان میری خیال میرے
مگر ابھی تک وہی اندھیرے
علامتوں کو زوال نہ ہو
نہ بدلے جائیں گے استعارے
کہ بحر و بر ہیں نگین اس کے
کہ صرف و نحو پہ اجارہ اس کا
وہی سناتا ہے فیصلے سب
اسی نے سانچے بنائے سارے
وہ حرفِ اول؍وہ حرفِ آخر
چلو کچھ ایسا کریں
قفس کی اک ایک تیلی بکھر ڈالیں
بے چارہ آدم ؍
اسیرِ نطق و زباں ہے کب سے
اسے خموشی کے گر سکھائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بگولہ
رمادِ زیست کا انجام اور کیا ہوتا
اڑی دیار سے تو کوئے یار جا پہنچی
بدل بدل کے بہت روپ ہم نے جانا ہے
نہ خاک ہو تو گلِ تر کہاں سے آئے گا
کہ کون لپٹے گا قدموں سے رہ نوازی میں
کہ کون دامنِ صد چاک کو بسائے گا
جبیں پہ کون تلک بن کے جگمگائے گا
مسافرت میں تیمم کے کام آئے گی
کبھی سلیقۂ عشقِ دروں سکھائے گی
کہ دور بیٹھے گی معشوق سے براہِ ادب
کبھی جنوں میں یہ صحراؤں کو تھکائے گی
ہمیں خلش ہے یہی کیوں نہ آگ سے جنمے
کہ آب و باد بھی ایسے برے نہیں تھے مگر
ہمیں اٹھانا ملانا تھا خاک میں اس کو
پہ زندگی کو بگولہ بنانا
چہ معنی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ایسی راتیں
یہ سچ نہیں ہے کہ رات بھر ہم
تمہاری یادوں کی کہکشاں سے گذر رہے ہیں
تمہارا لہجہ تو گونجتا ہے سماعتوں میں
تمہاری سانسیں بھٹکتی رہتی ہیں چار جانب
تمہاری آنکھوں کی گرمیاں ہیں نسوں میں رقصاں
مگر نہ جانے
یہ کس کی چیخیں تمہارے لہجے کی نرمیوں پر
ہوئی ہیں حاوی
یہ کس کی آہیں تمہاری سانسوں کے زیر و بم سے الجھ رہی ہیں
یہ خوف و دہشت بھری نگاہیں
یہ خاک و خوں کا عجیب میلہ
یہ سر سے چھنتی ہوئی ردائیں
یہ پارۂ دل
یہ جسم ریزہ
ہر ایک لیلیٰ سے اب یہ کہہ دو
کہ لام پر جاچکا ہے مجنوں
ہر ایک شیریں کو یہ بتادو
کہ بیستوں سے چھلکتا ہے خوں
ہمارے گھر کے سنہرے نقشے نگل رہے ہیں کٹھور صحرا
ہمارے سجدے مٹا رہا ہے سمندروں کا سیاہ پانی
شکست و ذلت
نہ فتح و نصرت
ہاں، رزم اول
کہ ، رزم آخر
تمہاری یادوں کے درمیاں اب
کچھ ایسی راتیں بھی آگئی ہیں
جو سوچتی ہیں سوا تمہارے