(Last Updated On: )
زراعت اور کشتی رانی کے لیے ملک میں نہروں کا جال بچھا ہوا تھا انکی صفائی اور انھیں قابل استمعال حالت میں رکھنے کے لیے ان شہروں اور گاوں کے باشندے ذمہ دار تھے جنکی زمینیں انکے کنارے پر ہوتی تھیں بظاہر یہ کام انھیں بلا معاوضہ کرنا پڑتا تھا یہی حال دریاوں کا تھا صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ نہروں اور دریاوں کی نگرانی رکھے اور لوگوں سے وقت پر انکی صفائی کروائے
اس بیگار کے عوض ان شہروں کے باشندوں کو اپنے اپنے شہر کے برابر دریا اور نہر کے پانی میں ماہی گیری کا کامل حق حاصل تھا صوبائی حکومت کا فرض تھا کہ وہ انکے اس حق کی حفاظت کرے اور کسی دوسرے شہر کے مچھیروں کو وہاں جال نہ ڈالنے دے
عام طور پر تمام مقدمے صوبائی عدالتوں میں ہی ہیش ہوتے تھے لیکن اگر فریقین یہ محسوس کریں کہ یہاں میرا انصاف نہیں ہوگا تو وہ بذریعہ درخواست یہ مطالبہ کر سکتے تھے کہ انکا مقدمہ بادشاہ یا مرکزی حکومت کے روبر پیش کرے اور انکی یہ درخواست بالعموم منظور ہو جاتی تھی
ملازمین کا تقرر اور تبادلے کا اختیار اگرچہ صوبائی حکومت کو حاصل تھا لیکن اسکے لیے بادشاہ کی منظوری ضروری تھی
بادشاہ ذاتی طور پر لونڈی غلاموں کی بڑی تعداد کا مالک ہوتا تھا لیکن یہ سب ہمیشہ دارالحکومت میں نہیں رکھے جاتے تھے ممکن ہے اسکی تہہ میں انکی پرورش کا بوجھ ہلکا کرنے کے علاوہ کوئی سیاسی مصلحت بھی ہو بہر حال انھیں مختلف شاہی جاگیروں ، مندروں اور مقامی حکومتوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اور طلب کرنے پر انھیں مرکزی حکومت کے پاس بھیجا جاتا تھا
فوج
ابتدا میں جب شہری ریاستوں کی باہمی رقابت اپنے عروج ہر تھی اور وہ آئے دن اپس میں لڑتی رہتی تھیں اج ایک کا پلہ بھاری اور کل دوسرے کا اسکے علاوہ بیرونی دشمنوں کے حملے کا خطرہ بھی ہمیشہ موجود رہتا تھا اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کی جنگی تربیت وسیع پیمانے پر ہو گئی اور ہر ریاست کے پاس ایک منظم اور مستقل فوج رہنے لگی
حموربی کے زمانے میں فوج دو قسم کی تھی ایک باقاعدہ یعنی وہ جو مستقل طور ہر حکومت کی ملازمت میں تھی اور اسے سرکاری خزانے سے تنخواہ ملتی تھی اور یہ ملک کے نظم و نسق اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے ایک علاقے سے دوسرے میں منتقل ہوتی رہتی تھیں
اسکے علاوہ فوج کا ایک ایسا حصہ تھا جو جاگیردار مہیا کرتے تھے بادشاہ ملک کی ساری زمین کا مالک تھا اسلیے وی اسے بطور جاگیر جسے چاہے دے سکتا تھا لیکن ہر ایک جاگیر کے ساتھ یہ شرط عائد تھی کہ طلب کرنے پر جاگیردار مسلح سپائیوں کی ایک مقررہ تعداد لیکر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوگا امن کے زمانے میں اس فوج کی تنخواہ یا کھانے پینے اور رہنے کا انتظام جاگیردار خود اپنی آمدنی سے کرتا تھا یہ بالکل وہی نظام ہے جو مغلیہ زمانے کے ہندوستان میں رائج تھا جسے منصبداری کہتے تھے یورپ کے بعض ممالک بالخصوص انگلستان کے عہد وسط کی تاریخ میں یہ قانون رائج رہا
عہد حموربی میں فوج کا کام صرف میدان جنگ میں لڑنا نہیں تھا بلکہ امن کے زمانے میں ان فوجیوں سے کتنے عام غیر فوجی اور دیوانی کام لیے جاتے تھے
فوج کی وردی میں تانبے کا زرہ بکتر ہوتا تھا فوجیوں کی ڈھال مربع تھی اور اس پر دھات کی بڑی بڑی میخیں جڑی ہوتی تھیں حملہ کرنے کا ہتھیار نیزہ تھا جبکہ دوسرا ہتھیار تیرکمان تھا
جاگیری نظام میں سپاہی کے لیے احکام کی تعمیل لازم تھی حکم عدولی کی سزا سزائے موت تھی
جاگیر کی وراثت صرف لڑکے کے نام پر منتقل ہو سکتی تھی بیوی یا بیٹی کا اس پر کوئی حق نہیں تھا اسکی وجہ یہ کہ جاگیر کے ساتھ فوجی خدمات وابستہ تھیں جو عورتیں سر انجام نہیں دے سکتی تھیں اسلیے انھیں جاگیر پر قبضہ دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا جاگیر کسی صورت بھی بیچی یا رہن نہیں رکھی جا سکتی تھی اور اگر کوئی شخص اسے خریدتا تو زرقیمت بحق سرکار ضبط ہوجاتی ہاں اگر کسی جاگیردار نے سرکاری جاگیر کے علاوہ کوئی اور جائیداد اپنی امدنی سے پیدا کر لی ہے تو یہ اسکی بیوی یا بیٹی کو مل سکتی ہے یہ فروخت بھی کی جاسکتی ہے اور رہن بھی رکھی جاسکتی ہے