ادبی جریدہ معیار کی ادارت سے شہرت پانے والے شاہد ماہلی نے اپنے اشاعتی ادارے کے ذریعے علم و ادب کی بھر پور خدمت کی۔اپنے تخلیقی اظہار کے لیے انہوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف سے کام لیا۔غزل اور نظم کی غیر ضروری کشا کش کے باوجود شاہد ماہلی نے دونوں اصناف کے ساتھ بساط بھر انصاف کیا۔کچھ لوگوں کو ان کی غزل زیادہ اچھی لگی تو کچھ لوگوں کو ان کی نظم زیادہ بھلی لگی۔میرے جیسے لوگوں کو دونوں اصناف میں ہی شاہد ماہلی بھلے لگے۔شاہد ماہلی خود بھی خاموش طبع انسان ہیں اسی لیے انہوں نے شہر کی خاموشی کی طرف توجہ کی ہے۔غور سے دیکھیں تو یہ شہر جو خاموش ہے حقیقتاََ خود شاہد ماہلی کے اندر کا شہر ہے۔اپنے اس مجموعۂ کلام کے ذریعہ شاہد ماہلی نے صرف شہر کی خاموشی کی ترجمانی نہیں کی بلکہ اس خاموشی کو ایک زبان دے دی ہے۔شاعری کی زبان۔
ایک لمحہ تھا جو تبدیل ہوا برسوں میں ایک منظر تھا جو دوبارہ دکھایا نہ گیا
پھرتا ہوں لے کے ہاتھوں میں اک کاسۂ انا سودائیوں میں ہوں،کبھی صحرائیوں میں ہوں
ہم اپنا درد سنائیں،اگر سنے کوئی کسی کا حال سنیں،کوئی ہم کلام تو ہو
”شہر خاموش ہے“کی ساری غزلوں،نظموںمیں شاہد ماہلی کے اندرکے خاموش شہر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اپنے قاری سے ہمکلام ہوتی ہوئی آوازیں،اور اپنا درد سناتی ہوئی آوازیں ،جو ہمیں اپنی آواز بھی لگتی ہیں۔
(جدید ادب شمارہ نمبر ۱۸)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔