تھوڑی ہی دیر میں وصی تیار ہوکر آگیا۔۔۔
وہ صوفے پر بیٹھی انتظار کر رہی تھی۔۔
“چلیں۔۔” وصی نے قریب آکر کہا۔۔
وہ جنس پر وائٹ شرٹ اور لیدھرجیکٹ پہنے ۔۔۔جوگرز کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔
حور مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“جی۔۔۔” حور نے مختصر کہا۔۔
اور اس کے ساتھ ہولی۔۔
بارش کا موسم ہورہا تھا۔۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں بل رہی تھی۔۔
آسمان پر گھٹا چھائی ہوئی تھی۔۔اور اس موسم میں اس شہر کے مناظر اور بھی خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔۔
وصی حور کو کتنی ہی جگہوں پر لے گیا گیا۔۔
شہر کی خوبصورت جگہیں دکھائی۔۔
حور واقع بہت خوش ہوئی۔۔
انہیں گھومتے گھومتے وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔۔
رات ہوچکی تھی جب انہیں گھر جانے کا خیال آیا۔۔
وہ دونوں سڑک پر چل رہے تھے ۔۔جب تیز جھونکے سے حور کے سر سے شال پھسل گئی۔۔
اور اس کے کھلے بال ہوا میں اڑنے لگے۔۔
اس نے یک دم پاس چلتے وصی کو پکڑا۔۔
“کیا ہوا حور؟” وصی نے اس کا ہاتھ اپنے کاندھے پر دیکھ پوچھا
“ہوا بہت تیز ہے” حور نے ہاتھ جلدی سے ہٹایا اور اپنی شال ٹھیک کرنے لگی۔۔
“ہاں۔۔مزہ آیا تمہیں؟” وصی نے مسکرا بن کر پوچھا۔۔
“ہاں بہت۔۔۔یہ شہر واقع خوبصورت ہے۔۔مگر یہاں سردی ہے”
حور نے کہا۔۔
اور وصی ہنسنے لگا۔۔
“م لڑکیوں کو سردی بہت لگتی ہے جںکہ سردی کو تو انجوائے کرنا چاہیے”
وصی نے ہنستے ہوئے ۔
“ہاں بھئی لگتی ہے۔۔سردی کوئی انجوائے کیا جاتا ہے؟”
حور نے منہ بنایا۔۔
تبھی وصی کا فون بجنے لگا۔۔۔
وصی نے کال رسیو کی۔۔
“ہیلو۔۔۔” وصی نے فون کان سے لگایا۔۔
“ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔” وصی بار بار بول رہا تھا مگر آوازٹھیک سے سنائی نہیں دے رہی تھی۔۔
“کیا ہوا؟” حور نےپوچھا۔۔
“سگنل ڈروپ ہورہے ہیں یار۔۔۔شاید موسم کی وجہ سے۔۔”
وصی نے کال کاٹتےہی کہا۔۔
اس کا فون پھر بجنےلگا۔۔
“ایک منٹ یار۔۔۔” وہ کہ کر تھوڑے فاصلے پرجا کر بات کرنے لگا۔۔۔
تبھی بارش زوروں سےشروع ہوگئی۔۔
حور بھاگ کر سامنے کسی بند شاپ کے پاس کھڑی ہوئی۔۔تاکہ بارش سے بچ سکے۔۔
تبھی اس کے پرس سے فون بجنے لگا۔۔
اس نے نمالا تو شفی کا نمبر چمک رہا تھا۔۔
اس نے کالرسیو کر کان سے لگایا۔۔
“ہیلو۔۔۔”
حور نے کہا۔۔
“ہیلو حور۔۔۔سوری یار میں آج آنہیں سکا”
شفی نے کہا۔۔
“ہاں مجھے وصی نے بتایا کہ آپ رات دیر سے آئیں گے۔۔”
حور نے کہا
“ہاں سوری میں کل پکا تمہیں گھمانے۔۔۔”
اتنی بات پر کال منتقع ہوگئی۔۔
“ہیلو۔۔۔۔” حور نے کہا۔۔مگر کال کٹ چکی تھی
حور نے فون کو گھورا پھر پرس میں ڈال لیا۔۔
سردی سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔
بارش کی رفتار تیز ہوگئی تھی۔۔
حور نے یہاں وہاں دیکھا
مگر وصی اسے کہیں نظر نہیں آیا۔۔
“وصی۔۔کہاں گئے۔۔”؟ وہ پریشان ہوئی۔۔
اس نے تھوڑا آگے جاکر دیکھا مگر وصی کہیں نہیں تھا۔۔
اب وہ گھبرانے لگی تھی۔۔
یک دم آنکھوں میں آنسوں امڈ آئے۔۔
وہ بھاگتی ہوئی آگے بڑھی۔۔
“وصی۔۔۔کہاں پیں آپ۔۔۔وصی۔۔۔”
وہ پاگلوں کی طرح بارش میں کھڑی بھیگ رہی تھی۔۔
آنکھوں سے آنسوں نکل کر بارش میں مکس ہورہے تھے۔۔
“وصی۔۔۔” وہ بارش میں پوری بھیگ چکی تھی۔۔
سردی سے کانپ رہی تھی۔۔مگر اس وقت اس پر صرف خوف طاری تھا۔۔
“حور۔۔۔۔” اسے اپنے پیچھے سے وصی کی آواز سنائی دی۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا۔۔وصی نے جلدی سےاس کا ہاتھ پکڑے اسے بارش سے نکالا۔۔
بھیگ کیوں رہی تھی؟” وصی نے پوچھا
“وصی۔۔۔۔آ۔۔آپ۔۔” یک دم ہی اس کی آنکھیں بند ہونے لگی۔۔۔
وہ گرتی اس سے پہلے ہی وصی نے اسے پکڑا۔۔
باہر بارش بند ہوگئی تھی۔۔
رات کے نو بج رہے تھے۔۔
سامنے حور بیڈ پر کمبل اوڑھےبے حوش لیٹی تھی۔۔
وصی پریشان تھا۔۔۔
اس نے جلدی سے ڈاکٹر حمنہ کو کال کر کے ںلایا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ پہنچ گئی تھی۔۔
“اس کو تو سردی لگ گئی۔۔بارش میں بھیگنے سے اسے بخار ہے بس پریشانی کی بات نہیں ۔۔۔” ڈاکٹر حمنہ نے چیک کرتے ہی کہا۔۔
“ہاں یہ بارش میں بھیگ گئی ہے۔۔۔”
وصی نے پریشانی سے کہا۔۔
“اس کے کپڑے بھی گیلے ہیں وصی۔۔۔وہ پوری نیلی پڑ چکی ہے۔۔چینج کرنے ہوں گے۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے کہا
“ہاں۔۔مگر یہ حوش میں نہیں ہے کیسے کرے گی چینج؟۔۔۔
حمنہ آپ کرسکتی ہیں۔۔پلیز یہاں اور کوئی اویلبل نہیں آپکے سوا۔۔۔”
وصی نے گزارش کی۔۔
“اٹس اوکے میں کردیتی ہوں۔۔”
حمنہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔
اماں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔۔
شائستہ بیگم نے انہیں دوا دی۔۔
“حور سے بات ہوئی تھی؟”
اماں نے پوچھا
“ہاں ہوئی تھی۔۔کہ رہی تھی گھومنے جاؤں گی”
شائستہ بیگم نے ہنس کر کہا
“اچھا خوش ہے نا وہ لوگ۔۔؟”
اماں نے فکرمندی سے پوچھا۔۔
“ہاں خوش تھی بہت۔۔” شائستہ بیگم نے بتایا۔۔
“اللہ ہمیشہ خوش و آباد رکھے دونوں کو۔۔”
اماں نے دعا دی۔۔
“آمین۔۔۔ویسے اماں اب ہمیں وصی کے لیے بھی لڑکی دیکھنی چاہیے۔۔”
شائستہ بیگم نے کہا
“ہاں کہ تو سہی رہی ہو۔۔اب وصی کا بھی گھر بس جائے بس۔۔” اماں نے لیٹتے ہوئے کہا۔۔
“ہاں آپ سوجائیں اب۔۔۔” شائستہ بیگم لائٹ آف کر کے کمرے سے نکل گئی۔۔
“میں نے کپڑے چینج کردیے ہیں۔۔۔”
ڈاکٹر حمنہ باہر صوفے پر بیٹھے وصی سے کہنے لگی۔۔
“یہ کچھ میڈیسن لکھ رہی ہوں۔۔۔تھوڑی دیر میں حوش بھی آجائے گا۔۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے دوا پرچی پر لکھ کر اسے تھمائی۔۔۔
“تھینک یو۔۔۔” وصی نے شکریہ ادا کیا
“فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ٹھیک ہوجائے گی”
اکٹر حمنہ نے مسکرا کر کہا اور وصی کو تسلی ہوئی۔۔
ڈاکٹر حمنہ کے جانے کے بعد۔۔۔
وصی حور کے کمرے میں آگیا تھا۔۔جہاں حور ابھی بھی بے سدھ آنکھیں موندے لیٹی تھی۔۔
وصی نے ہیٹر آن کر دروازہ بند کیا تاکہ حور کو تھوڑی گرمائش محسوس ہو۔۔
وصی وہیں کرسی کھسکا کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
” میری وجہ سے حور کی یہ حالت ہوئی ہے۔۔کاش کہ میں فون سننے نہیں جاتا۔۔”
وصی حور دیکھتے ہوئے سوچنے لگا
“لیکن یہ حور بھی پاگل ہے بارش میں بھیگنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔۔اتنی معصوم کیوں ہو یار تم۔۔۔؟”
وصی نے اس دیکھتے ہوئےکہا۔۔
یونہی بیٹھے بیٹھے اسے نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔۔اور وہ جانے کب سوگیا اسے پتا ہی نہیں لگا۔۔۔
رات کے چار بج رہے تھے جب حور کی آنکھ کھلی۔۔
اس نےاٹھنےکی کوشش کی مگر ہمت نہیں ہوئی۔۔
اس نے یہاں وہاں نظر دوڑائی۔۔
سامنے ہی وصی کرسی پر ٹیک لگائے آنکھیں موندے سورہا تھا۔۔اسے رات کا سارا منظر یاد آیا۔۔
وہ بمشکل ہمت کر کے اٹھی۔۔
“وصی۔۔۔” حور نے پکارا۔۔
اور وصی یک دم چونک کر اٹھا۔۔
“حور۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔۔؟”
وصی اٹھ کھڑاہوا۔۔
“جی۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔مگر آپ یہاں۔۔۔؟” وہ حیران ہوئی۔۔
“کل بارش میں بھیگنے سےتمہاری رات بہت طبیعت خراب تھی۔۔رات سے تم بےحوش تھی۔۔ میں تو پریشان ہی ہوگیا تھا۔۔۔” وصی نے گہرا سانس لیا۔۔
حور نے اس ات سن خود پر نظرڈالی۔۔
پھراسے یاد آیا کہ کل تو اسنے دوسرے کپڑے پہنے تھے۔۔اوراب وہ دوسرے کپڑوں میں تھی۔۔
وہ کل بارش میں پاگلوں کی طرح وصی کوڈھونڈ رہی تھی
اورپوری بھیگ چکی تھی۔۔۔۔
رات کاپورا واقع کسی فلم کی طرح اس کےسامنے آیا۔۔
“میں بے حوش تھی۔۔”وہ بڑ بڑائی۔۔
“تو میرےکپڑےکس نے چینج کیے؟”
اس نے جھرجھری لی۔۔
“تمہارے کپڑے ڈاکٹر حمنہ نے چینج کیے تھے۔۔تمہیں حوش ہی نہیں تھا۔۔اگر ایسے ہی رہنے دیتے تو تم بیمار ہوجاتی۔۔
اسی لیے میں نے ڈاکٹر حمنہ کو کال کرکے یہاں بلایا۔۔”
وصی نے تفصیل دی
“ڈاکٹر حمنہ۔۔؟” اسے ڈاکٹر حمنہ پھر سے یادآئی۔۔
“کیا ہوا؟” اسے پریشان دیکھ وصی نے پوچھا۔۔
“نن۔۔۔نہیں کچھ نہیں۔۔۔” اس نے یک دم کہا۔۔
اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
“کیا ہوا کچھ چاہیے تمہیں؟”
وصی نے پوچھا۔۔
“نہیں۔۔۔وہ واش روم۔۔۔۔” حور نے اشارہ کیا۔۔
پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“میں لے چلتا ہوں۔۔” وصی نے اسے تھاما ۔
“نن۔۔۔نہیں میں چلی جاؤں گی۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔”
حور ہچکچائی۔۔
“مسٹر شفی۔۔۔” ڈاکٹر حمنہ پاس سے گزرتے شفی کو پکارا۔۔
“اتنی صبح صبح۔۔۔نائٹ ڈیوٹی تھی کیا آپ کی آج؟”
ڈاکٹرحمنہ نےپاس آکر پوچھا۔۔
“جی ہاں۔۔ ابھی بس گھر ہی جارہا ہوں۔۔۔”
شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
“گھر پر بیوی اکیلی۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے ہنس کر کہا۔۔
اس کی بات سن شفی بھی ہنس دیا۔۔
“بس کیا کریں۔۔۔فوجی بندہ بھی پھنس جاتا ہے۔۔
اسے دو مراحل میں فوج جوائن کرنے پر پچھتاوا ضرور ہوتا ہے۔۔” شفی نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔۔
“اچھا کون سے دو مراحل ہیں وہ۔۔۔؟”
ڈاکٹر حمنہ نے ہنس کر پوچھا۔۔
“ایک تو جب وہ ٹریننگ پر ہوتا ہے۔۔۔اور دوسرا جب اس کی نئی نئی شادی ہوتی ہے۔۔۔”
شفی نے بیچارگی سے کہا۔۔
اورحمنہ کا زور دار قہقہہ نمودار ہوا۔۔
شفی بھی ہنسنے لگا۔۔
“واقع بڑا ظلم ہے۔۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔۔
“اچھا میں چلتا ہوں میری بیوی تو ناراض بیٹھی ہوگی۔۔”
شفی نے مسکرا کرکہا۔۔
اور وہاں سے نکل گیا۔۔
گھر پہنچا تو فجر کا وقت ہورہا تھا۔۔
اس نے دروازہ بجایا پھر رک کر کھلنے کا انتظار کرنے لگا مگر
کافی دیر کوئی نہیں آیا۔۔
“سورہے ہوں گے دونوں۔۔۔”
اس نے سوچا۔۔پھر جیب سے دوسری چابی نکالی۔۔۔
اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔۔
ٹھنڈ کافی ہورہی تھی۔۔
وہ جیکٹ میں دونوں ہاتھ ڈالے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
“میرا دوپٹہ۔۔؟”
وہ دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ اسے حور کی آوازآئی..
اس کے ماتھے پربل نمودار ہوئے۔۔
وہ جھٹکے سے دروازہ کھول اندر داخل ہوا۔۔
سامنے کا منظر دیکھ اس کےپاؤں تلےزمین نکل گئی۔۔
حور کھلے بالوں کے ساتھ بنا دوپٹہ کے کھڑی تھی۔۔اس نے ایک ہاتھ سے وصی کے کاندھے کا سہارا لیا ہوا تھا۔۔
اور وصی کے ہاتھ میں اس کا دوپٹہ تھا۔۔۔
دروازہ کھلنے پر دونوں نے چونک کر دروازے کی جانب دیکھا۔۔
سامنے شفی پھٹی پھٹی نظروں سے انہیں دیکھ رہاتھا۔۔
حور نے یک دم دوپٹہ وصی کے ہاتھ سے لے کر پہنا۔۔
“شفی۔۔۔” وصی نے نرم لہجے میں کہا۔۔
“واؤ۔۔۔تو میرے پیٹ پیچھے یہ سب ہورہا ہے۔۔۔”
شفی نے تالی بجاتے ہوئے کہا۔۔
وصی اور حور نے ایک دوسرےکو حیرت زدہ نظروں سے دیکھا۔۔
انہیں سمجھ نہیں آیا تھا کہ شفی کیا بول رہا ہے۔۔
“شفی حور کی کل طبیعت خراب تھی وہ بارش میں بھیگ گئی تھی۔۔” وصی نے اسے ساری تفصیل بتائی۔۔
“کہانی تو بہت اچھی بنائی ہے۔۔۔مگر یہ سب فلموں میں اچھا لگتا ہے رئیلٹی میں نہیں۔۔۔”
شفی قہر برساتی نظروں سے کہا۔۔
“شفی یہ سچ ہے۔۔۔” حور نے یک دم کہا۔۔
“اچھا تم وصی کے ساتھ گھومنے گئی تھی۔۔۔مجھے بتایا تم نے۔۔۔؟” شفی کے سوال نے اسے خاموش کروادیا۔۔
“اور کیا کہ رہے تھی کہ تم بھیگ گئی تھی۔۔۔اور پوری رات سے بے حوش تھی ۔۔۔”
شفی حور سے مخاطب تھا۔۔
“جی۔۔۔” حور نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“تو کپڑے تو گیلے نہیں ہوئے۔۔۔۔”
شفی نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔
“شفی۔۔۔تو یہ۔۔۔۔” وصی نے کچھ کہنا چاہا مگر شفی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔۔
“ہاں تو حور بی بی۔۔۔کپڑے دیکھ کر تو کہیں سے نہیں لگ رہا آپ بھیگی تھی۔۔”
شفی نے چبا کر کہا۔۔
“وہ چینج کر۔۔۔۔” حور اپنی بات پوری کرتی مگر شفی نے بات کاٹ دی۔۔
“چینج کیسے کیے تم تو بے حوش تھی۔۔۔؟”
شفی نے تلخ لہجے میں سوال کیا۔۔
حور حیرانی سے شفی کا انداز دیکھ رہی تھی۔۔
اسے اس کے سوال لمحہ لمحہ حیران کر رہے تھے۔۔
“یا پھر وصی نے۔۔۔۔” شفی نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی۔۔
“شفی۔۔۔” وصی چیخا۔۔۔
“ارے میرے بھائی تجھے غصہ کیوں آرہاہے۔۔۔؟
اس بے حودہ لڑکی سے تو مجھے امید بھی یہی تھی۔۔۔
مگر تو۔۔۔تو تو میرا بھائی تھا ایک اچھا اور سچا دوست۔۔۔
تونے ایسا کیا۔۔۔؟”
شفی کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی۔۔۔
“کیا بکواس کر رہا ہے شفی تو۔۔۔؟”
وصی نے غصہ سے کہا۔۔
“وصی تو ایک بار کہ دیتا کہ میں خود ہی تم دونوں کے راستے سے ہٹ جاتا۔۔۔مگر یوں مجھے دھوکہ دینا میرے پیٹ پیچھے۔۔۔چھی”
شفی نے سر جھٹکا۔۔
اس کی بات سن وصی کی آنکھوں میں خون اتر آیا
اور وہ تیزی سے شفی کی طرف بڑھا۔۔
“زبان سمبھال کر بات کر شفی” اس نے شفی کو گریبان سے پکڑا۔۔
حور نے یک دم خوف سے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔
آنسوں اس کی آنکھ سے مسلسل بہ رہے تھے۔۔
“واہ آج تو میرے گریبان تک پہنچ گیا؟”
شفی نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔
اوروصی کو فوراً اپنی غلطی کااحساس ہوا۔۔
اس نے شفی کے گریبان سے ہاتھ ہٹائے۔۔
“سوری۔۔معاف کرنا۔۔۔دیکھ۔۔۔ میں تجھے سمجھاتا ہوں۔۔
ہاں۔۔۔تجھے ہماری بات پریقین نہیں نا؟ حمنہ۔۔۔ڈاکٹر حمنہ سے پوچھ۔۔۔اسی نے حور کی حالت دیکھ اس کے کپڑے تبدیل کیے۔۔۔اور چیک اپ کیا۔۔۔میڈیسن بھی لکھ کر دی تھی۔۔۔” وصی نے جیب میں ہاتھ مار کاغذ نکالا۔۔
“یہ دیکھ۔۔۔” وصی نے اس کی طرف بڑھائی۔۔
مگر شفی اسی طرح کھڑا رہا۔۔
نا ہی وہ کچھ دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔
“دیکھ نا یار۔۔۔کیوں کر رہاہے ایسے تو؟”
وصی نے غصہ سے کاغذ زمین پر پھینکا۔۔
اور اپنے سر پر ہاتھ رکھ اپناغصہ کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔
“آپ غلط سوچ رہے ہیں شفی۔۔۔خدا کے لیے مجھ پرنہیں تواپنےبھائی پریقین کرلیں۔۔۔”
حور نے آگے بڑھ روتے ہوئے کہا۔۔
شفی مسلسل زمین کوگھور رہاتھا۔۔
“ٹھیک ہے تم لوگ کہ رہے ہو ناکہ ڈاکٹر حمنہ کوسب پتا ہے۔۔
تو اسی سےپوچھ لیتا ہوں۔۔” شفی نے سیل فون نکال کر حمنہ کا نمبر ڈائل کیا۔۔
بیل جا رہی تھی۔۔
۔۔
“ہیلوشفی۔۔۔” حمنہ کی آواز ابھری۔۔
“ڈاکٹر حمنہ کیا کل رات آپ میرے گھر آئی تھی؟”
شفی نے پوچھا۔۔
وصی اور حور دونوں کی نظریں شفی پر تھی۔۔
“نہیں۔۔کیوں؟” حمنہ نے فوراً کہا
شفی نے ضبط سے آنکھیں بند کی۔۔
اسے جو امید تھی وہی جواب سننے کوملا تھا۔۔
اس نے اسپیکر آن کیا۔۔۔
“کیا کل آپ حور کا چیک اپ کرنے میرے گھر آئی تھی؟ ”
شفی نے پھر پوچھا۔۔
“حور کاچیک اپ؟ نہیں۔۔۔میں نہیں آئی۔۔کیوں خیریت سب ٹھیک تو ہے نا شفی۔۔”
ڈاکٹر حمنہ نے نے کہا۔۔
جسے حور اور وصی دونوں نے سنا۔۔
اور ان کے حوش اڑے۔۔
شفی نے کال کاٹ دی۔۔
شائستہ بیگم نماز پڑھ کر سیدھا کچن میں آئی۔۔
تبھی ان کے دماغ میں حور کا خیال آیا۔۔
“اس وقت تو اٹھ گئی ہوگی۔۔
فجر کے بعد کہاں سوتی ہے وہ۔۔”
شائستہ بیگم نے مسکرا کر خود کلامی کی۔۔
“کال کر کے دیکھ لیتی ہوں۔۔” وہ بڑبڑاتے ہوئے کمرے کی طرف گئی۔۔
سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر حور کا نمبر ملایا۔۔
رنگ جارہی تھی مگر کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔۔
“شاید سوگئی ہوگی۔۔۔” شائستہ بیگم نے خود کلامی کی۔۔
اور فون واپس رکھ کر کچن میں آگئی۔۔
مگر آج انہیں حور بہت یاد آرہی تھی۔۔
اس وقت وہ ان کی ہیلپ کرواتی تھی ناشتے میں۔۔۔
شائستہ بیگم کو اس وقت حور بہت یاد آتی۔۔
کیوں کہ اکثر وہ اسی وقت خوب ساری باتیں کرتے تھے۔۔
ہر بات ایک دوسرے سے شیئر کرتے۔۔
شائستہ بیگم ایک ماں کے ساتھ حور کی دوست بھی تھی۔۔
“یہ ڈاکٹر حمنہ جھوٹ کیوں کہ رہی ہے۔۔۔کل رات یہ آئی تھی۔۔۔اس نے حور کا ٹریٹمنٹ کیا۔۔۔دوائیں دی۔۔یہ کیسے مکر سکتی ہے۔۔یہ۔۔۔”
وصی حواس باختہ بولے جارہا تھا۔۔
جیسے کچھ سمجھ نا پارہا ہو۔۔
“اور کتنا جھوٹ بولے گا وصی۔۔۔؟” شفی نے غصہ سے پوچھا۔۔
“میں جھوٹ نہیں کہ رہا۔۔۔خدا جانتا ہے شفی میں نے کبھی حور کو غلط نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔”
وصی نے صفائی دینی چاہی۔۔
“بس کردے وصی۔۔۔اتنا گھٹیا کام کرتے تم لوگوں کو خدا کا خوف نہیں ہوا۔۔اور اب مجھ سے چھپا رہے ہو۔۔
آج میں ٹائم پر نا آتا تو کبھی تمہیں نا پکڑ پاتا۔۔”
شفی نے تلخ لہجے میں کہا۔۔
“اور تم ارے مجھے پہلے ہی بتا دیتی۔۔میں تم سے کبھی شادی نہیں کرتا۔۔مگر یو حرام رشتہ قائم کرتے تمہیں شرم نہیں۔۔۔”
شفی نے اسے شانوں سےتھام کر کہا۔۔
اور اس کی بات سن حور سرخ آنکھوں سے اسےگھورنے لگی۔۔
“بس کردو شفی۔۔۔اور کتنا گند اگلو گے آپ۔۔آپ کو میری اپنے بھائی پر یقین نہیں۔۔مگر اس پرائی لڑکی پر یقین ہے۔۔۔۔آپ کی سوچ کی گھٹیا ہے۔۔۔”
حور نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
اور بدلے میں شفی کا زور دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا۔۔۔
“شفی۔۔۔” وصی نے اسے جھٹکے سے حور سے پرے دھکیلا۔۔
شفی کی آنکھوں میں خون کی لہر اتر آئی۔۔
اور اس نے ایک زور دار تھپڑ وصی کے گال پر جھڑ دیا۔۔
“نکل یہاں سے ” شفی غرایا۔۔
“شفی۔۔۔تو۔۔۔” وصی نے کہا۔۔۔
“دفع ہوجا۔۔۔۔” اس نے ایک ایک مکہ وصی کی ناک پر رسید کیا۔۔۔وہ گرتے گرتے بچا۔۔۔
“شفی۔۔۔چھوڑ دو اسے۔۔۔” شفی دوبارہ وصی پر ہاتھ اٹھاتا اس سے پہلے ہی حور بیچ میں آئی۔۔۔
“سہی کہ رہی ہو قصور تو میرا ہے۔۔۔۔جیسے میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوا۔۔۔یہ بھی ویسے ہی ہوا۔۔۔
مگر میں اپنی غلطی سدھار لوں گا۔۔۔۔”
شفی نے سرخ آنکھوں سے کہا۔۔
“حورین شفی دارین میں تمہارے نام سے اپنا نام الگ کرتا ہوں ۔۔۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔”
شفی جذبات میں بہتہ کیاکہ رہاتھا یہ ۔تھا۔۔وہ بھی نہیں جانتا تھا۔۔۔
“شفی نہیں۔۔۔۔۔” وصی یک دم اس کی طرف لپکااور اسے روکنے کی کوشش کی۔۔
“طلاق دیتا ہوں۔۔۔” شفی نے وصی کے روکنے کے باوجود اپنا جملہ پورا کیا۔۔
اور حور ساکت کھڑی شفی بہتی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔