شام ہونے کی قریب تھی۔آسمان پہ نارنجی رنگ گول ٹیکہ سرکتا مغرب کی جانب محوِسفر تھا۔یہ منظر شہر لاہور کے ایک پارک کے ایک کونے کا تھا۔جہاں پڑے سیمٹ کے بنچ پہ بیٹھے دو وجود سامنے کی جانب دیکھ رہے تھے۔لڑکی کی نظریں گھاس پہ تھیں۔جبکہ لڑکا آسمان پہ سفر کرتے سورج سے نظر ملانے کی کوشش میں تھا۔اور ناکام تھا۔
تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔لڑکی کے لہجے میں دکھتا تکلیف ،غم اور آنسوں کی نمی تھی۔پہلو میں بیٹھا لڑکا چونک کر سیدھا ہوا۔اور لڑکی کے بنچ پہ دھرے ملائم ہاتھ کو اپنی سخت گِرفت میں جکڑ لیا۔لڑکی نے آنسو بہاتے چونک کر لڑکے کی جانب دیکھا تھا۔گویا اس کے ہونے کا یقین کر رہی ہو۔
میں جانتا ہوں ۔عجیب ہے۔میرا مقصد تم سے ملنے سے پہلے کچھ اور تھا۔مگر نتاشا میں تمہارا اتنا اسیر ہو چکا ہوں ۔کہ تمہیں چھوڑنے کا تصور ہی میری جان کو آتا ہے۔پلیز بات کو سمجھو۔۔۔
سمجھ رہی ہوں ذریت۔۔۔سمجھ رہی ہوں۔لیکن میری جگہ تم کسی اور کو کیسے دے سکتے ہو۔ایک آنسو بہت خاموشی سے نتاشا کی آنکھ سے نکل کر اس کے سفید ملائم گال پہ بہتا چلا گیا۔ذریت نے زندگی میں پہلی بار کسی لڑکی کی آنکھوں کو آنسوں میں بھیگا دیکھا تھا۔اسے اپنا دل جکڑتا ہوا محسوس ہوا۔وہ اس لڑکی کے سامنے جھکنا نہیں چاہتا تھا۔مگر آج نہ جانے بچتا بچتا بھی کیسے جھک گیا۔
تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتی۔تم پلیز میرا یقین رکھو۔میں نے دادی کو بتانے کی کوشش کی تھی۔لیکن وہ اس سے پہلے ہی میرے لئے لڑکی پسند کر آئیں اور منگنی بھی کر دی۔میں نے جب تمہارا بتانے کی کوشش کی تو اُنہوں نے منع کر دیا ۔کہ ہمارے خاندانوں میں زبان کو بہت اہمیت ہے۔ذریت کا لہجہ پہلے جیسا نہیں تھا۔اسے لگ رہا تھا۔وہ نتاشا سے بدلہ لینے کے لئے سب کر رہا ہے۔مگر نہیں اس کے پیچھے تو کچھ اور وجہ تھی۔جس کا اندازہ اسے کل رات ہی ہوا۔
ذریت میری بھی منگنی ہوئی ہے۔لیکن میں تو تمہارے لئے سٹنڈ لے رہی ہوں۔مگر تم۔۔۔نتاشا آنکھوں میں آنسو لئے رخ اس کی جانب موڑے دھیمے سے شکوہ کر گئی۔اس نے زندگی میں پہلی بار کسی سے سچے دل سے محبت کی تھی۔اور وہ اس قدر خوش قسمت ثابت ہوئی تھی۔کہ وہ انسان بھی اس کے سامنے جھک رہا تھا۔
تم میرے پہ یقین رکھو۔میں بھی تمہارے لئے سٹنڈ لوں گا۔یہ الفاظ بولتے ہوئے۔اس کی آنکھوں میں اس کے لئے نرمی تھی۔اور ذہن سے آذر کہیں دور جا چکا تھا۔
کیا عورت کی خوبصورتی اتنی ہی طاقتوار ہے۔کہ کسی بھی سخت طعبیت مرد کو گھٹنوں پہ جھکنے پہ مجبور کر دے۔؟
کیا مرد اتنا بے بس ہو سکتا ہے۔کہ وہ عورت کے سامنے اپنا سب کچھ ہار دے؟
رات خاموشی سے پر پھیلائے زمین والوں پہ اُتر رہی تھی۔تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔رات ہوتی جا رہی تھی۔
یہ منظر ماہ نور ابتسام کے گھر کا تھا۔جہا ں پہ موجود چار افراد اس وقت سارے دن کی بھاگ دوڑ کے بعد اب کھانے کی میز پہ ایک ساتھ بیٹھے زندگی سے بھر پورباتیں کرنے کے ساتھ کھانے میں مصروف تھے۔وہ سب خوش تھے۔مگر اس سب کے ساتھ اپنی نازوں پلی۔لاڈلی ان کی پری ان سب کوچھوڑ کر نئے گھر جا رہی تھی۔اس بات نے ان کو غمگین بھی کر رکھا تھا۔ہاں مگر خوشی اس میٹھے سے غم سے کہیں زیادہ تھی۔جو وہ تین افراد اس لمحے محسوس کر رہے تھے۔اور ماہ نور اس سب کو دیکھ کر خاموش تو تھی۔مگر خوش نہیں۔۔۔ذریت کے رویے کی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کہ کیا زبان دی جائے۔وہ اس روز اس سے عجیب انداز میں پیش آیا تھا۔جس کی وجہ اسے کچھ خاص سمجھ نہیں آئی ۔سوائے اس کے کہ وہ عورتوں کو نا پسند کرتا ہے۔
ماہا۔۔۔صحیح سے کھانا کھاؤ۔کہاں گم ہو؟ابرار بھائی کی آواز پہ وہ ساری ذیہن میں آئی باتوں کو جھٹک کر رہ گئی۔
بابا میں بھنگڑا ضرور ڈالوں گا۔میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا۔پلیز آپ ابرار بھائی کو سمجھا دیں۔مجھے منع نہ کریں۔بابر کی آواز ڈائنگ ٹیبل پہ سب سے زیادہ واضح تھی۔
بابا اس سب کی کیا ضرورت ہے۔یہ وہاں جا کر کیا کرے گا۔عجیب کوئی زنانہ سا کام ہے۔ابرار بھائی کے لہجے میں ناگواری کا تا ثر بہت واضح تھا۔وہ اس سب ناچ گانے کے سخت خلاف تھے۔
تو آپ نہ کر نا ناں۔۔۔زنانہ سا کام۔آپ کو کیا۔بابر کا دل چاہ رہا تھا۔کسی طریقے سے بھائی کو ادھر سے غائب کروا دے۔
بابر آرام سے۔۔۔بابا مسکراہٹ روک کر اسے آنکھیں دکھا گئے۔
کوئی نہیں بابر بھائی۔میری فرنڈز آئی ہوں گی۔آپ ان کو تنگ کرو گے۔آپ نہیں آ رہے۔ماہ نور جانتی تھی۔اپنی بھائی کی عادتوں کو۔
ہاں ہاں تمہاری دوستیں تو عرش سے اُتری ہیں۔چھپکلیاں سی ۔۔۔بابر کو ابرار بھائی کا ساتھ دینے پہ ماہ نور پہ سخت غصہ آیا تھا۔
بابا دیکھ لیں بھائی میری فرنڈز کو کیا بول رہے ہیں۔ماہ نور بھائی کے اس طرح کے انداز پہ روہانسی ہوئی تھی۔جھٹ پیارے بابا جان کو شکایت لگا دی۔
بابر بعض آؤ ۔
بابا آپ بھی تو دیکھیں ۔یہ موٹی میرے پہ کیسے الزام لگا رہی ہے۔اس کی دوستیں میری کلاس میٹ سے زیادہ اچھی تو نہیں ہو گیں۔پتہ نہیں یہ عورتیں خود کو کیا سمجھتی ہیں۔بابر بھائی کے ماتھے پہ ناگواری کے واضح تاثرات تھے،ماہ نور بھائی کے الفاظ سن کر جہاں دہنگ ہوئی تھی۔وہیں مسکرا بھی دی۔
دیکھ لیں بابا ذرا اس کی گھٹیا سوچ۔۔۔ابرار بھائی بھی اسے چھیڑ رہے تھے۔بابر کا دل چاہا رو دے۔ابتسام صاحب اپنی چھوٹی سی خوشیوں بھری زندگی کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔وہ تینوں ان کی زندگی کا محور تھے۔
اچھا بابر ابھی ان فضول باتوں سے باہر آؤ۔۔۔مجھے تم سب سے ایک بات کرنی ہے۔
جی بابا۔۔۔ان کے سرئیس ہونے پہ وہ تینوں بھی سنجیدہ ہوئے۔
یہ میری وصیت ہے۔اس کی تین کاپیاں ہیں۔تم تینوں کو ایک ایک دے رہا ہوں۔ان کا لہجہ معمول سے ہٹ کر تھا۔وہ تینوں غیر فہم تاثرات سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
مگر بابا اس سب کی کیا ضرورت ہے؟ابرار بھائی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔کہ وہ کیا اس سب کا مطلب لے۔
بات ضرورت کی نہیں اس حق ،اہمیت اور فرض کی جو میں اپنی زندگی میں ہی پورا کر دینا چاہتا۔
مگر بابا آپ ۔۔۔
بات ختم کرو۔ضرورت تھی تو کیا۔اب تم لوگ بہتر ہے اپنی اپنی ذمہ داری سمجھو۔اور اپنی بہن کی ہمیشہ خیال رکھنا۔میرے بعد تم دونو کی یہ ذمہ داری ہے۔خیال رکھنا۔
بابا آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ماہ نور کو انجانے سے خوف نے گھیرانا شروع کر دیا تھا۔
اہو وو میری مانو بلی فوراً پریشان ہو جاتی ہے۔وقت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ا س کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر وہ دھیمے سے مسکرا کر اسے حوصلے دیا۔
بابا آپ اس طرح کی باتیں کیوں کرتے ہیں مجھے ڈر لگتا ہے۔ماہ نور کا لہجہ نمی لئے ہوئے تھا۔
بابا آپ پریشان مت ہوں ہم ماہا کا خیال رکھیں گے۔اور آپ کو بھی پریشان نہیں ہونے دیں گے۔ابرار نے چونک کر اسے دیکھا۔اور پھر بابا کو غور سے دیکھنے لگا۔وہ اس وقت کچھ سوچ رہا تھا۔
:::::::::::::::
آاسفند اکرام معمول کے مطابق آج مصروف تھا۔مگر گزرتے ہر لمحے کے ساتھ اس کی تھکاوٹ اس کے عصاب پہ غالب آتی جا رہی تھی۔نتاشا کا رویہ اس کے لئے غیر فہم ہوتا جا رہا تھا۔
سر یہ پارسل آپ کے لئے آیا ہے۔گارڈ کمرے کے دروازے پہ دستک دے کر داخل ہوا۔تو ہاتھ میں پکڑا پارسل بھی سامنے کر دیا۔
کس نے دیا؟کام کرتے رک کر اس نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا تھا۔
سر کوئی لڑکا تھا۔کہہ رہا تھا۔آپ کو دے دوں۔
نام بھی تو کوئی ہوگا ناں۔وہ پہلے ہی نتاشا کی وجہ سے پریشان تھا۔اُپر سے یہ بے وقوف گارڈ غصہ دلانے آگیا تھا۔
سر وہ تو میں نے پوچھا ہی نہیں۔شرمندگی سے کہتے چالیس سالہ پکی عمر کے گارڈ نے اسے غصہ دلایا ۔
بابا آپ کیا کرتے ہو۔کسی سے پکڑ کے کچھ بھی آفس لے آئے۔جانتے بھی ہیں کہ شہر کے حالات کیا ہیں۔
سر وہ مجھے لگا۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔جائیں آپ اور آئندہ خیال رکھیے گا۔کام چھوڑ کر پیکڈ لفافے کی جانب ہاتھ بڑھاتے اس نے ملاز م گارڈ کو فارغ کر دیناضروری سمجھا تھا۔
جی سر۔۔۔جان کی خلاصی پہ گارڈ باہر نکل گیا تھا۔
گارڈ کے جاتے ہی اس نے ایک نظر دروازے کو دیکھا ۔اور پھر ہاتھ میں پکڑے خاکی لفافے کو چاک کر دیا ۔اور بے تاثر چہرے کے ساتھ لفافے میں ہاتھ ڈال کر چیک کیا۔
لفافے میں کچھ تصاویر تھیں۔اس نے ایک ایک تصویر کوپلٹ کے دیکھا۔۔۔وہ سب نتاشا کی مختلف مقامات پہ کھنچی گئی تصاویر تھیں۔جن سے وہ خود بھی واقف نہ لگتی تھی۔تصاویر جس جس پوز سے لی گئیں۔اس نے اسفند کے ماتھے کی رگوں کو کھنچ دیا تھا۔نتاشا اسے دھوکا دے رہی تھی۔یہ بات وہ کافی دیر سے جانتا تھا۔مگر کس کے لئے دے رہی تھی۔یہ اس کی بد قسمتی تھی۔کہ وہ معلوم کرنے میں ناکام رہا تھا۔اس نے نہایت غصے میں ماتھے کو مسلا اور کرسی گھسیٹ کر دروازہ دھکیلتا کمرے سے نکل گیا۔
:::::::::::::::
لاؤنج کی نیم تاریکی میں نتاشا صوفے پہ ادھ منہ ہو کر پڑی سامنے چلتی سکرین پہ بلند آواز میں بجتے گانوں کو سن رہی تھی۔اس کا بائیں پاؤں بھی ساتھ ہی حرکت کرتا تھا۔
نتاشا ۔۔۔نتاشا نیند میں ڈوبی مسلسل کسی کو اپنا نام لیتے سن رہی تھی۔رات دیر تک جاگنے اور ڈپریشن کی وجہ سے وہ سو نہ سکی تھی۔اور اب ناشتے کے بعد وہ صوفے پہ بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی۔ابھی وہ آواز کو پہچانے کی کوشش میں تھی۔جب کسی نے اسے کندھے سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے سیدھا کیا۔اور ساتھ ہی اس کے قدموں پہ کھڑا کر دیا۔نتاشا اس عافت پہ حواس باختہ ہوئی۔
یا وحشت! اسفند اکرام یہ کیا بد تمیزی تھی۔اپنے سامنے کھڑے اپنے ضبط کا امتحان لیتے اسفنداکرام کے تاثرات کی پروا کئے بغیروہ دھاڑی ۔
بد تمیزی؟ بد تمیزی کیا ہوتی ہے۔یہ تم میرے سے بہتر جانتی ہو۔وہ جو چند قدم کے فاصلے پہ اس کے کندھوں کو پکڑے کھڑا تھا۔ایک دم دھاڑا اور ساتھ ہی کندھے چھوڑتا کچھ فاصلے پہ جا کھڑا ہوا۔
اس بکواس کا کیا مطلب؟
بتاتا ہوں۔۔۔بلکہ یہ دیکھو۔کہہ کر اس نے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور نتاشا پہ اُچھال دیا۔بہت سی تصویریں اس کے قدموں میں نکلی پڑی تھیں۔اس نے جھک کر اُلٹی سیدھی پڑی تصویروں کو دیکھا۔تو ساتھ ہی سارا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔وہ اس کی مختلف مقامات پہ کھنچی گئی تصایر تھی۔اسے سمجھ نہیں آیا کیا کہے۔
اب بو لو۔دو اس بکواس کی صفائی۔اسفند کا چہرہ کڑے ضبط سے سرخ ہو چکا تھا۔نتاشا چندلمحوں تک حالات کو سمجھتی رہی۔اور جب بات کچھ کچھ سمجھ آنے لگی ۔تو ایک گہری مسکراہٹ اس کے چہرے کو چھوتی چلی گئی۔اسفند اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
صفائی؟۔۔۔ہنہ۔۔۔خواب سے نکلو اسفند اکرام۔اچھا ہوا تمہیں پتہ چل گیا۔۔۔
کون ہے یہ۔۔۔اسفند کا دم گھٹ رہا تھا۔اس نے اس کی بات کاٹ کر کسی تمہید کے بغیر پوچھا۔
ہے کوئی۔تم نہیں جانتے۔اور ایک بات تم سے بہت بہتر۔تم سے کہیں زیادہ ہنڈسم کہیں زیادہ قابل۔اس کے لہجے میں غرور تھا۔اسفند نے ایک بے تاب نظر اس پہ ڈالی تھی۔وہ اسے ظالم اور مغرور لگی
نتاشا مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے۔کہ تم مجھ سے مزاق کر رہی ہو۔اس نے بے بسی سے خود کو کہتے سُنا۔
نہیں۔۔۔سن لو اسفند اکرام میں تمہیں پسند نہیں کرتی۔میرے دل میں کوئی اور ہے۔اور یہ تمام تصویریں تمہیں اسی نے بھیجی ہیں۔۔۔بس یا اور کچھ۔اسے جو اُمید تھی۔کہ وہ ہنس کر کہہ دے گی ۔کہ ہاں اسفند اکرام وہ سب مزاق تھا۔وہ امید نتاشا نے چھین لی تھی۔
میری بات سنو۔غصے سے وہ اس کی جانب بڑھا اور اس کے دونوں کندھوں کو زور سے پکڑ کر جھٹکے دئے۔نتاشا تم مجھے چیٹ نہیں کر سکتی۔تم ۔۔۔تم تو مجھے پسند کرتی تھی۔تم۔۔۔ہم ۔۔۔ہماری منگنی ہو چکی ہے۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کیا کہے۔
نتاشا ہنس دی۔اور کندھوں کو ایک جھٹکے سے آزاد کروا کو کچھ فاصلے پہ جا کھڑی ہوئی۔
وہ۔۔۔وہ منگنی میرے بابا کی مرضی سے ہوئی تھی۔وہ تم سے رشتے داری کر کے اپنا بزنس چمکانا چاہتے تھے۔وہ اس وقت وہ ناگن تھی۔جو اپنے ہی بچے کھا جا تی ہے۔اسفند بلبلا اُٹھا۔
اس کا دل چاہ رہاتھا ۔نتاشا کا منہ نوچ لے۔
تو یہ تمہارا اور انکل کا پلین تھا؟اسے اپنی آواز کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔وہ نتاشا کو کس قدر چاہتا تھا۔کاش نتاشا اندازہ لگا سکتی۔وہ اس کی ہر سزا معاف کر سکتا تھا۔لیکن دھوکہ اور جھوٹ نہیں۔
یہی سمجھ لو۔وہ کندھے اچکا گئی۔آج ہی تو موقع ملا تھا۔اور اب وہ اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی تھی۔اس نے ہر ایک بات اس کے سامنے کھولی دی تھی۔تاکہ وہ انکار کر دے۔
نتاشا کیا تم مجھے پسند نہیں کرتی؟
نہیں۔بلکہ تم اس قابل ہو ہی نہیں کہ کوئی تمہیں پسند کرے ۔یا پھر تم سے شادی کرے۔اسفند دل مسوس کے رہ گیا۔
اینف نتاشا۔۔۔میں اپنی انسلٹ ہر گز برداشت نہیں کروں گا۔وہ دھاڑا۔نتاشا ہنس دی۔
تمہاری عزت پہلے بھی نہیں ہے۔ڈئر اسفند۔۔۔اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھی۔اور ہاتھ کی انگلی میں ڈالی انگوٹھی اس کی طرف اُچھال دی۔اسفند اسے محض دیکھ کر رہ گیا۔
نتاشا میں تمہارے پاؤں نہیں پڑوں گا۔لیکن اتنا ضرور بولوں گا۔کہ پچھتانا مگر زیادہ دیر مت کرنا۔
ہنہ۔۔۔وہ وقت ہی نہیں آئے گا۔کہ کبھی مُڑ کر مجھے تمہاری طرف دیکھنا پڑے۔اور یقین کرو کہ تمہاری یہ بدصورت شکل اس قابل بھی نہیں ہے۔کہ میں۔۔۔میں نتاشا تمہاری طرف متوجہ ہوں۔اس کے اس قدر غرور پہ اسفند سر اثبات میں ہلا کر واپس جس رستے آیا تھا۔اسی سے مُڑ گیا۔اس کے جاتے ہی۔میز پہ دھری تصویریں دیکھ کر وہ پھر سے مسکرانے لگی۔
ناٹ بیڈ۔۔۔
:::::::::::::::
تم پاگل تو نہیں ہو؟ماہ نور کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔
فرح سر جھکا گئی۔آج ماہ نور کی مہندی تھی۔وہ صبح ہی اس کے پاس چھوٹی دادی کے ساتھ آگئی تھی۔
ماہ نور اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔اسے اُمید نہیں تھی ۔کہ فرح آ جائے گی۔
فرح کے آتے ہی بہت سے ادھورے کام ان دونوں نے مل کر کئے تھے۔ماں اور پھوپھو وغیرہ تو اس کی تھیں نہیں۔ایک ہی خالہ تھیں۔جن سے ملنا ملانا بھی کم ہی تھا۔باقی خاندان میں ایک چچا تھے۔جن کو فوت ہوئے عرصہ ہوا تھا۔ہاں البتہ چچی تھیں جو ملک سے باہر اپنے بھائے کے پاس رہتی تھیں۔ان سے اکژ وہ بات کر لیا کرتی تھی۔غرض یہ کہ خاندان میں کوئی ایسا قریبی رشتہ بد قسمتی سے نہ تھا۔جو اسے نئے بنتے رشتوں کے رموز سیکھا تا۔اب وہ فرح آئی تو ساتھ ڈھیروں نصحیتوں کی پوٹلی بھی لائی تھی۔ماہ نور کو دوپہر میں مہندی کا جوڑا لینے ٹیلر کی طرف جانا تھا۔وہ جاتے ہوئے فرح کو بھی ساتھ لے گئی۔
ان دونوں نے پہلے جوڑا لیا۔پھر مارکٹ سے کچھ اور ضروری چیزیں لیں ۔اور اختتام پہ آئیسکریم پارلر کا رخ کیا۔
اور آئیسکریم پارلر آتے ہی فرح کو اپنی کتھا سُنانے کا موقع مل گیا۔اور اس کی پوری بات سُنتے ہی۔ماہ نور پریشان ہو گئی تھی۔
فری تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔اللہ کی بندی۔اگر ایسا سنگین مسلہ درپیش تھا۔تو منہ مبارک سے کچھ پھوٹا تو ہوتا۔اسے رہ رہ کر فرح کی کم ہمتی اور کم عقلی پہ غصہ آ رہا تھا۔
میں نے کوشش کی تمہیں بتانے کی لیکن میں کیا کرتی۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔کہ کیا کروں۔اوپر سے جب میں نے یہ سُنا کی تمہاری بھی شادی ہو رہی ہے۔تو میں خاموش ہو گئی۔کہ تمہیں پریشان کیوں کرنا۔
شادی ہو کر کہیں مریخ پہ نہیں جارہی ۔یہی اسی زمین پہ رہوں گی۔اور برائے مہربائی تم یہ اپنا۔۔۔چھوٹا سا ذیہن نہ ہی لڑایا کرو تو بہتر ہے۔صرف بہتر نہیں۔۔۔ بہت بہتر ہے۔ماہ نور کو سخت حیرت تھی۔وہ مسلسل کسی کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہی تھی۔اور خاموش تھی۔
ہمارے معاشرے کی عورت کی خامی یہی ہے۔کہ جب وہ کسی کے بھی ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہے ۔تو سب سے پہلے اپنی زبان کاٹ لیتی ہے۔حق کے ساتھ اور ناانصافی کے خلاف اُٹھنی والی اپنی آواز کو دبا دیتی ہے۔کہ شائد وہ اسی معاشرے میں رسوا ہونے سے بچ جائے۔یعنی وہ رسوائی سے بچنے کے لئے ظلم سہتی ہے۔۔۔جو کہ بالکل بھی عقلمندی اور دور اندیشی نہیں۔۔۔جس کی قسمت میں روسوائی لکھ دی گئی ہو۔وہ کبھی بچ نہیں سکتا۔اور جس کی قسمت میں عزت ہو وہ کبھی رسو ا نہیں ہو سکتا۔یہ معملہ اللہ پاک کا ہے۔لیکن یہ بات ہمارے کمزور ایمان کی علامت ہے۔کہ ہم عورتیں محض ظلم اس لئے سہتی ہیں ۔کہ اپنی عزت کے کھو جانے سے ڈرتی ہیں۔
فرح اس لئے چپ تھی۔کیونکہ اسے ڈر تھا۔کہ اس کی بد نامی ہو گی۔اس کے گھروالے اس پہ شک کریں گے۔اس نے یہ نہیں سوچا ۔کہ اگر اس نے موبائل فون کسی غلط ان ٹنشن سے نہیں لیا تھا۔اس کا استعمال غلط نہیں کیا تھا۔ فکر کی اور پریشانی کی کیا بات تھی ۔ جاتی اپنے گھر والوں کے پاس جا کر انہیں ساری بات بتاتی۔اور معذرت کر لیتی۔اور اس بلیک میلنگ سے بچ جاتی۔مگر وہ ڈر کا شکار رہی۔
اب بتاؤ کیا چاہتی ہو؟بابر بھائی یا ابرار بھائی وغیرہ کو بتاؤں ۔مجھے یقین ہے کہ وہ ہلپ ضرور کریں گے۔کافی دیر کی سوچ بیچار کے بعد اسے یہی حل سمجھ آیا تھا۔اور فرح ابھی بھی اپنے گھر والوں سے ڈرتی تھی۔اور
اب بھی وہ ان سے چھپ کر باہر ہی سارا معملہ حل کر لیانا چاہتی تھی۔ماہ نور نے دوبار ہ اسے سمجھانے کی کوشش نہیں کی تھی۔
نہیں نہیں میں خود ہی کچھ کر لوں گی۔پلیز تم کسی سے مت کچھ بولنا۔اور ان دونوں سے تو بالکل بھی نہیں۔ماہ نور کی بات سُن کر فرح کا سیاہ حجاب میں لپٹا خوبصورت چہرہ ذرد ہوا تھا۔ماہ نور گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
فرح بی بی اگر آپ میں اتنے گٹس ہوتے ۔تو رونا کس بات کا ہوتا۔بات کو سمجھو۔۔۔کسی کی تو ہلپ لینی ہی پڑے گی ناں۔آئیسکریم کا چمچ منہ میں رکھتے۔۔۔ٹھنڈکے کے احساس کو محسوس کرتے ۔اس نے ایک بار پھر سے اسے سمجھانا چاہا تھا۔
نہیں ناں۔۔۔مجھے کیوں شرمندہ کرواتی ہو۔۔۔فرح اب بھی وہیں اٹکی تھی۔
اوف فرح اوف۔۔۔عزت شرم،ذلت۔۔۔بی بی انہی کو بچانے کی خاظر بول رہی ہوں۔ہم کسی سے مدد نہیں مانگیں گی۔کسی کو بتائیں گی نہیں ۔تو وہ بندہ سر پہ چڑھ جائے گا۔ابھی تو معملہ اتنا بڑھا نہیں ۔ابھی تو کبھی کبھی کال کرتا ہے۔لیکن سوچو اگر اکسی دن وہ سچ میں تنگ کرنے پہ آ گیا تو۔یاد رکھو کہ وہ تمہارے گھر کا پتا تک جانتا ہے۔عقل سے کام لو۔۔۔ماہ نور آئیسکریم کھانے کے ساتھ ساتھ اسے سمجھا بھی رہی تھی۔
ماہ نور مجھے اتنا ۔۔تو ندازہ ہو چکا ہے۔کہ وہ کوئی بس ایسے ہی دل کو خوش کرنے کو جب کبھی کچھ کرنے کو نہیں ملتا تب مجھے کال کرتا ہے۔اور پانچ منٹ سے زیادہ کبھی بات نہیں کرتا۔آواز سے بھی کم عمر معلوم ہوتا ہے۔ایسے میں کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ خود ہی ہٹ جائے۔مطلب ہمیں کچھ نہ کرنا پڑے ۔اور وہ خود ہی اکتا کر تنگ آ کر بعض آ جائے۔
دیکھو فرح اگر تم اس سارے معملے کی تیہہ تک نہیں پہنچنا چاہتی تو تمہاری مرضی۔مگر ایک بات یاد رکھو۔کہ یہ اتنی جلدی تمہارا پیچھا چھوڑنے والا نہیں لگتا۔باقی تم جو چاہو کرو۔۔۔میں تمہارے ساتھ ہوں۔آخر میں اس نے گیند واپس فرح کے کوٹ میں ڈال دی تھی۔فرح گہرا سانس لے کر سر ہلا گئی۔
ابھی میں نے سوچا ہے۔کہ میں فون جو اس سارے فساد کی جڑ ہے۔اسے ہی ادھر ختم کر کے جاؤں گی۔باقی جو ہوگا دیکھا جائے گا۔اس نے قدرِبشاش ہوتے ہوئے کہا تو ماہ نور سر ہلا کر ماحول کو دیکھنے لگی۔اس پُرسکون سے آئیسکریم پارلر میں اس وقت بہت زیادہ گہمہ گہمی نہیں تھی۔یہ ایک فیملی پارلر تھا۔جہاں پردے کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔
::::::::::::::::::
گھر اگر چہ شادی والا تھا۔مگر اتنے کوئی خاص مہمان نہ تھے۔چند ایک خواتین اور ساتھ آئے کچھ مردچھوٹی دادی کو اپنی ہم عمر ہی ایک خاتون مل گئیں تھیں۔جن کے ساتھ وہ جب سے آئیں تھیں۔باتوں میں مشغول تھیں۔وہ ابتسام صاحب کی پھوپھو تھیں۔
بھائی مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔ابرار ابھی کچھ دیر پہلے ہی۔دو دن کا گیا کراچی سے لوٹا تھا۔ابھی مہمانوں سے ملا ہی تھا۔اور کمرے میں آیا تھا۔جب ماہ نور دروازہ بجاتی آ گئی۔
ہاں گڑیا بولو۔۔۔جوتے اُتارتے مسکرا کر اُنہوں نے اجازت دی۔تو وہ سامنے کی جانب پڑے صوفے پہ بیٹھتی لفط ترتیب دینے لگی۔
بھائی میری دوست فرح کا پتہ ہے آپ کو؟ وہی جو مجھے کال بھی کرتی ہے اکثر۔۔۔وہ یاد دلا رہی تھی۔ابرار نے چونک کے اسے دیکھا تھا۔وہ اسے کیسے بھول سکتا تھا۔
ہاں ہاں یاد ہے۔کیوں کیا ہوا خریت؟
بھائی وہ آج صبح پشاور سے میری شادی اٹنڈ کرنے آئی ہے۔۔۔اور۔۔۔وہ اٹکی۔۔۔
تو بیٹا پرابلم کیا ہے؟اسے سُن کر حیرت اور خوشی ہوئی۔مگر وہ ایک میچور مرد تھا۔اور اپنے جزبات چھپانا جانتا تھا۔
بھائی پرابلم اس کے آنے کی نہیں اسی کے ساتھ ہے۔۔۔مطلب۔۔۔مطلب وہ خود ایک پرابلم میں ہے۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔کہ کیسے بات سمجھائے۔ابرار نے غور سے ماہ نور کو دیکھا ۔اور جوتے بیڈ کے نیچے سرکاتا سیدھا ہو گیا۔
بات جو بھی ہے۔آرام سے کرو۔بغیر رکے کرو۔
بھائی کوئی اسے فون پہ بلیک میل کر رہا ہے۔وہ سخت پریشان ہے۔
ابرار نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔کون؟
یہی تو نہیں پتہ۔۔۔ہاتھوں کو مسلتے اس نے شرمندگی سے کہا ۔جیسے سارا قصور اسی کا ہو۔
ہمم۔۔۔تم مجھے اس کا نمبر دے دینا۔باقی کا کام میں کر لوں گا۔اور کچھ؟بھائی کے اس قدر نرم لہجے اور عتماد سے کہے گئے الفاظ نے ماہ نور کا سیروں خون بڑھا دیا تھا۔اس نے فرح سے چھپ کر بھائی کو ساری بات بتائی تھی۔ورنہ وہ اگر اس سے پوچھتی ۔تو اسے یقین تھا۔کہ وہ کبھی اجازت نہ دیتی۔
نہیں ۔۔۔شکریہ بھائی۔میں جاکر اسے بتاتی ہوں۔بیچاری کافی پریشان تھی۔ماہ نور جوش میں صوفے سے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ابرار مسکرا دیا۔
ہاں جاؤ۔۔۔اسے بولو۔پریشان نہ ہو۔میں اس معملے کو دیکھ لوں گا۔کہتے ہوئے اس کے الفاظ اور لہجے میں نرمی اور چاشنی سی گھُل آئی تھی۔
بھائی میں ایک کام کرتی ہوں ۔میں اسے ہی لے آتی ہوں۔آپ خود اسے سمجھا دیں۔ماہ نور نے بات مکمل کر کے باہر کی طرف دوڑ لگا دی تھی۔اور ابرار بکھلا کر رہ گیا۔وہ اسے روکنا چاہتا تھا۔مگر پھراس کے جانے کے بعد کچھ سوچ کر چپ ہو گیا۔
کچھ لمحوں تک وہ وہیں بیڈ کی پائنتی پہ بیٹھا رہا۔اسے فرح کو دیکھنے کا جتنا اشتیاق تھا۔کاش کوئی اس سے پوچھتا۔مگر اب جب اشتیاق پورا ہونے جا رہا تھا۔تو اسے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔وہ سر جھکائے وہیں بیڈ کے کنارے بیٹھا اپنے آپ کو حوصلہ دیتا رہا۔تبھی راہدار میں میں ایک خوبصورت سی باریک مگر بردبار سی آواز گونجی جس میں جھنجھلاہٹ واضح تھی۔
کہاں لے کر جارہی ہو ماہا۔یار بازو تو چھوڑ دو میرا۔۔۔فرح اس کے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔اور ماہ نور اسے پکڑے بغیر کچھ بولے لے کر ایک کمرے کے سامنے جا رکی۔کمرے کا دروازہ آدھا کھولا۔آدھا بند تھا۔۔۔
فرح نے سوالیہ انداز میں ماہ نو ر کو دیکھا۔جو مسکراتی کمرے میں جارہی تھی۔وہ بھی آگے بڑھ گئی۔
اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا۔کمرے کے وسط میں پڑے خوبصورت بیڈ پہ بیٹھے شخص کو دیکھ کے وہ ٹھٹکی۔۔۔ابرار نے بغیر کسے تاثر کو چہرے پہ لائے ایک نظر فرح کو دیکھا۔اور پھر سلام کرتا ماہ نور کے قریب ہی بیٹھ نے کا اشارہ بھی کر دیا۔ماہ نور دونو کے تاثرارت بغور دیکھ رہی تھی۔اور مسلسل مسکرا رہی تھی۔
فرح کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کہ ماہ نور اس انجان آدمی کے کمرے میں اسے کیوں لے آئی ہے۔اس نے بیٹھ کر ایک دوسری نظر ابرار پہ ڈالی تھی۔ہلکی آسمانی رنگ کی ڈریس شرٹ میں بلیک ڈریس پنٹ میں۔۔۔اسی کے ہم رنگ کوٹ کو قریب ہی بیڈ پہ رکھے۔۔۔وہ سفر سے آیا معلوم ہوتا تھا۔ابرار نے ایک نظر ان دونوں کو دیکھا۔اور پھر فرح کی جانب دیکھتے بات کا آغاز کیا۔
آپ ماہ نور کی دوست ہیں۔اس لئے میرے لئے آپ احترام کے قابل ہیں۔ماہ نور نے مجھے ابھی کچھ دیر پہلے آپ کے پرابلم کے بارے میں بتایا۔۔۔میں اسی کے حوالے سے آپ سے ایک دو سوالات پوچھوں گا۔لیکن اس سے پہلے میں صرف اتنا کہوں گا۔کہ پریشان مت ہوں۔ہر مسلے کا حل اسی دنیا میں اپنے مسلے کے ساتھ موجود ہے۔اب آپ مجھے ساری بات بتائیں۔ابرار کا لب و لہجہ نرم اور قدرِ غیر فہم تھا۔
فرح نے چونک کر ماہ نور اور پھر ابرار کو دیکھا۔اس کا دل چاہا ماہ نور کا گلا دبا دے۔اتنے ڈیسنٹ بندے کے سامنے سارے امج کا بیڑا غرق کر دیا۔
اصل میں بات یہ ہے کہ۔۔۔وہ اب آہستہ آہستہ سر جھکائے ناخنوں کو کھرچتی ساری بات بتا رہی تھی۔اور ابرار پہلوں میں بازوں کو کھڑا کئے ان پہ وزن ڈال کر بیٹھا۔اس کی ساری بات بغور سن رہا تھا۔فرح کی آواز میں جو تاثیر اس لمحے اس نے محسوس کی وہ کسے بھی جام سے کہیں زیادہ اثر انگیز اور سحر انگیز تھی۔کاٹن کے پڑنٹڈ سوٹ میں سر کو سیاہ سکارف سے ڈھامپے۔۔۔نظریں جھکائے۔۔۔ناخنوں سے کھیلتی وہ سیدھی دل میں جوتوں سمیت اُتر رہی تھی۔اور اس پہ محترمہ کی بے نیازی۔۔۔وہ ایک میچور مرد تھا۔اور اپنے آپ کو اس خوبصورت اور پارسا عورت کے سامنے سمیٹے ہوئے تھا۔ہاں مگر ایک وہی جانتا تھا۔جس نے اس کی ایک محض آواز سُننے کے بعد ہر رات اس کے مل جانے کی اپنے للہ کے سامنے دعا کی تھی۔اس نے کبھی بھی یہ محض خواہش نہیں کی۔۔۔کہ وہ اسے دیکھے جس کی آواز کے رعب اور سادگی نے ابرار کو اس کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کیا۔وہ اس کو اپنی محرم بنا کر اس سے ڈھیروں باتیں کرنے کی خواہش کرتا تھا۔اس کا سرخ غصے میں لال ہوتا چہرہ دیکھنے کی خواہش اسے ضرور تھی۔مگر کسی ایسے رشتے کے ساتھ جسے پا کر وہ اپنا ایمان بھی پورا کر لے۔ہر مومن کی طر ح ایمان کے پورے ہونے کی خواہش اسے بھی تھی۔اور وہ ہی عورت تھی۔جس کے ساتھ وہ جنت کا رستہ طے کرنا چاہتا تھا۔
کیا آپ کو شک ہے؟کسی اپنی فیملی کے مرد پہ۔۔۔یا کسی اور پہ؟ساری بات کے درمیان وہ خاموشی سے بس سنتا رہا۔اور اختتام پہ اس کے اس سوال پہ فرح نے چونک کے اسے دیکھا۔ایک نظر ماہ نور کو دیکھا(وہ فرح ہی کو دیکھ رہی تھی)اور سر نفی میں ہلا دیا۔
ٹھیک۔۔۔اب یہ میرا پرابلم ہے۔اگر آپ بُرا محسوس نہ کریں تو۔۔۔وہ فون آپ مجھے دے دیں۔میں اس لڑکے کا جلد پتہ لگوا لوں گا۔یہ کام کوئی اتنا مشکل نہیں ہے۔آپ بس اس بات کو بھول جائیں۔کل تک آپ کو پتہ چل جائے گا ۔کہ وہ کون ہے۔ابرار کے لہجے میں چھپے عتماد اور یقین نے فرح کی ساری پریشانی لے لی تھی۔وہ دھیمے سے مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئی۔
بہت شکریہ۔۔۔دھیمے سے کہہ کر وہ اُٹھی تو ساتھ ہی ماہ نور بھی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
شکریہ ابرار بھائی۔۔۔بہت شکریہ۔ماہ نورکے لفظ ابرار بھائی پہ فرح چونکی مگر پھر تیزی سے باہر نکل گئی۔
:::::::::::::
کیا کام کیا ہے تم نے۔۔۔نتاشا کے میسج پہ وہ جو لاؤنج میں خواتین کے نرغے میں بیٹھا ان کی باتین سن رہا تھا۔چونک کر نظر بچاتا ۔پڑھ کر جواب لکھنے لگا۔
کیا؟
کیااااا۔۔۔گویا بے پروائی انجوائی کی۔۔۔
جواب میں اس نے محض سوالیہ نشان سینڈ کر کے وہ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
میری تصویریں تم نے جو اسفند کو بھیجیں ۔میں ان کی بات کر رہی ہوں۔یار سچ میں ایک بلا ٹل گئی تمہاری وجہ سے۔۔۔جوش میں وہ لفظ کھاتی جا رہی تھی۔۔۔
میں نے کوئی تصویر نہیں بھیجی کسی کو۔۔۔اسے اس کی بات بُری لگی تھی۔تبھی چہرے کے تاثرات بگڑے۔
جانے دو ذریت۔۔۔ہر تصویر میں تم میرے ساتھ تھے۔لیکن سب میں تمہاری پشت ظاہر ہے۔۔۔۔تو
تو؟وہ جوش سے کہہ رہی تھی۔جبھی ذریت نے ٹوکا۔
مَیں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ۔بات ختم کرو۔
ذریت بھائی کس سے بات کر رہے ہیں۔اس کی ماموں کی بیٹی ناعمہ اس سے کچھ فاصلے پہ قارپٹ پہ بیٹھی۔احمد سے کھیل رہی تھی۔اور ذریت پہ نظر رکھے ہوئے تھی۔ذریت نے شانے اُچکا دئے۔
دوست سے۔
کونسی دوست؟گہری مسکراہٹ کے ساتھ اس نے پوچھا ۔تو ذریت بھی جواب میں ایک بار پھر شانے اُچکا گیا۔
وہی جو سب کے ہوتے۔۔۔
مطلب جینڈر بھی تو ہوگا۔۔۔مسکراہٹ دبا کر اس نے واضح کیا۔تو ذریت سر جھٹک گیا۔
دوست ہے بس۔۔۔اور جو تم اپنے اس چھوٹے سے ذیہن میں سوچ رہی ہو ۔ویسا کچھ نہیں ہے۔پڑھائی پہ دھیان دو۔ہلکے سے ڈپٹ کر وہ وہاں سے اُٹھ گیا۔اور جانے سے پہلے ایک چپت بھی لگا دی۔اس کا کوئی پتہ نہیں تھا۔کب کس کے سامنے کچھ کہہ دیتی۔
ٓاحمد تمہارے ماموں بہت چھپے رستم ہیں۔
وہ کیا ہوتا ہے؟احمد نے اپنی گول گول آنکھوں کو معصومیت سے پٹپٹا کر اپنا پسندیدہ سوال پوچھا۔تو وہ گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
پُتر تو بڑا ہو جا پھر سب سمجھ جائے گا۔وہ اس کے کون؟کیا؟کب ؟کیوں جیسے سوالوں سے سخت عاجز تھی۔
::::::::::
شادی کا دن آیا اوررونکیں بکھیرتا چلا بھی گیا۔مسٹر ابتسام بیٹی کی ویدائی پہ جہاں غم زدہ تھے۔وہیں ایک سکون بھی تھا۔کہ کندھوں سے ایک بھاری ذمہ داری اُتر گئی تھی۔
ابھی کچھ لمحے بہن کے ساتھ باقی تھے۔جسے ابرار اور بابر نے اس کے ساتھ بیٹھ کر اور اسے حوصلہ دینے میں گُزارا تھا۔ماہ نور کی آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔
رو لو ایک ہی بار۔۔۔کیا پتہ آگے جا کر کیا بنے۔۔۔اپنی شیروانی کو سامنے سے درست کرتے ۔اسنے اتنی مدہم آواز میں کہا تھا۔کہ جس کو وہ سُنانا چاہتا تھا۔اس نے سن لیا۔اور وہ جو سب اچھے کی اُمید لگائے بیٹھی تھی۔سہم کر رہ گئی۔۔۔مگر یہ اس کے بھائیوں کی تربیت تھی ۔جو اُسے اپنی کمزوری ظاہر کرنے سے روکتی تھی۔ورنہ وہ اور اس کا خُدا ہی جانتا تھا۔کہ لاکھ مریم آپی کی تاکید اور یقین کے باوجود وہ کتنی خوف زدہ تھی۔
ماہ نور تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔اس کے صوفے کی پشت کی جانب فرح کھڑی تھی۔اس نے کئی بار اس کے ہاتھوں کے ارتاش کو محسوس کیا تھا۔آخر جھک کر پوچھ ہی لیا۔
ماہ نور نے ایک کٹیلی نظر ڈالی۔اور پھر سر واپس سیدھا کر لیا۔فرح بھی شانے اُچکا کر سیدھی ہو گئی۔ابرار سامنے ہی بیٹھا تھا۔وہ ابھی کچھ منٹ پہلے ہی ادھر آیا تھا۔آج صبح سے وہ اس قدر مصرورف رہا۔کہ ایک بار بھی اس طرف نہ آ سکا تھا۔اور جب حال میں داخل ہوا تو۔سب سے پہلے اس کی نظر ہی اس بالی پہ پڑی تھی۔جس کی وجہ سے وہ کل شام سے مارا مارا پھر ا تھا۔
فرح بلڈ ریڈگھیریدار فراک میں ملبوس تھی۔جس پہ گولڈن رنگ کا کام خوب بھلا معلوم ہوتا تھا۔اس کے ہم رنگ گولڈن دوپٹے کو خوبصورتی سے سر پہ جمائے ۔۔۔ہلکے پھولکے میک اَپ میں اس کا حُسن دو چند ہو گیا تھا۔اوپر سے ظالم کی بے پروائی۔۔۔بہت سی نظریں اس کی جانب اس شادی میں وقفے وقفے سے اُٹھی تھیں۔مگر وہاں پروا کس کو تھی۔اپنی اکلوتی سہیلی کی شادی میں وہ ہر چیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی۔
ماہ نور نے ذریت کی جانب سے وقفے وقفے سے ملنے والے ایک بھی لفظی تیر و نشتر کا جواب نہیں دیا تھا۔مگر وہ بھی اپنے نام کا ایک ہی ڈھیٹ انسان پیدا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
مجھے یقین ہے۔کہ تم اپنے گھر سے نکلنے سے پہلے ساری اچھی اُمیدیں یہیں چھوڑ کر جاؤ گی۔ذریت نے قدرِجھک کے اس کے کان قریب کہا تھا۔ماہ نور کا سانس اٹکا۔۔۔مگر خاموش رہی۔
اب بھی وقت ہے۔کر دو رخصتی سے انکار۔باقی کا کام میں کرلوں گا۔اس کی خاموشی اس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔پتہ نہیں کیا مسّلہ تھا اس لڑکی کے ساتھ۔
اگر آپ پانچ منٹ میں خاموش نہیں ہوئے۔تو میں مریم آپی کو ادھر بلا لوں گی۔پھر جو آپ کو کہنا ہو شوق سے ان کے سامنے کہہ لیجئے گا۔وہ پیچھلے کئی دن سے ٹارچر ہو رہی تھی۔اس کے الفاظ اسے دکھ دے رہے تھے۔مگر وہ اس سب سے جیسے بے بہرا ہو چکا تھا۔اگر اسے شادی نہیں کروانی تھی۔تو وہ خود کیوں نہیں کہہ دیتا تھا۔
اوہ تو تم مجھے میری ہی بہن کے حوالے سے دھمکاؤ گی۔ہم م م خوب۔۔۔بہت خوب۔اسے اس جواب کی اُمید نہیں تھی۔وہ اس کے جواب سے خاصا نہ خوش دکھتا تھا۔
ہاں تو جب آپ میرے کان میں گھس گھس کر دھمکیاں دیں گے۔تو ظاہر ہے۔مجھے بھی آپ کو اپنی سکیورٹی کا بتانا پڑے گا۔اور احساس دلانا پڑے گا۔کہ میں کوئی مجبور قسم کی لڑکی نہیں ہوں۔سلیف ڈیفنس یو نو۔۔۔زبردستی مسکرا مسکرا کر مہمانوں سے مبارکباد وصول کرتے دانت کچکچا کر اس نے کہا۔تو ذریت نے ایک ناگوار نظراس پہ ڈالی اور پھر واپس حال میں گھومتے مہمانوں کو دیکھنے لگا۔بلڈ ریڈ میں وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔مگر ذریت کو اس لمحے زہر لگی۔آہاں ہماری بِلی ہمیں کو میاؤں۔بڑ بڑاہٹ اتنی تھی ۔کہ پہلو میں بیٹھی دلہن نے صاف سُنی تھا۔ماہ نور کا دل چاہا اس کے بازو پہ چٹکی کاٹ دے۔مگر دل کی ہر بات مانی نہیں جا سکتی۔
شوخا۔۔۔سوچ کر سر جھٹک کر رہ گئی۔اسے تو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔کہ وہ اس شادی کے لئے راضی کیسے ہوئی۔اگر وہ چاہتی تو شائد انکار کر دیتی۔ہاں مگر مریم آپی کی اُمید اور یقین اور سب سے بڑھ کر دادی کے مان اور محبت نے اس کے اس فیصلے کو رد کرنے پہ مجبور کر دیا تھا۔
باقی باتیں گھر جا کر لیجئے گا۔ذریت بھائی آپ ہی کی ہے۔ابھی کہ لئے تو ہمیں موقع دے دیں۔بابر نے دانت نکال کر قدرِ جھک کر کہا۔تو جہاں پیچھے کھڑی فرح ہنسی تھی۔وہیں ماہ نور دانت پیس کر رہ گئی۔
بہتر۔۔۔ذریت نے سر ہلا کر گویا اجازت دی تھی۔
بابر بھائی اُٹھیں آپ ادھر نہیں بیٹھیں گے۔ماہ نور نے دانت پیس کر کہا۔تو بابر پھر بھی جواب میں اپنے روشن روشن دانتو ں کی نمائش کرتا رہا۔
تھوڑا شرما ہی لو ماہا۔۔۔کیوں لوگوں کو شک میں مبتلا کر رہی ہو۔بابر نے مسکراہٹ روک کر کہا۔تو ماہ نور کا دل چاہا رو دے۔
بابر بھائی جائیں آپ ادھر سے۔اور ابرار بھائی کو بھیجیں۔
اچھا ماہا رونا مت پلیز۔تم روتی بہت بُری لگتی ہو۔وہ جانبوجھ کر اسے تنگ کر رہا تھا۔
ابرار بھائی۔۔۔وہیں سٹیج پہ بیٹھے اس نے سامنے کھڑے فون پہ مصروف ابرار کو آواز دی تھی۔وہ جو فون کان سے لگائے کچھ فاصلے پہ کھڑا تھا۔حیرت سے مُڑا۔
توبہ ہی ہے۔ماہا۔۔۔آہستہ بولو۔عجیب دُلہن ہو۔اس کے بلند آواز میں بولنے پہ قریب قریب بیٹھے مہمان مسکرا دئے تھے۔وجہ سے وہ سب واقف تھے۔فرح نے شرمندہ ہوتے۔ٹوکا تو وہ کلس کر رہ گئی۔
کیا ہوا میری مانو کو۔۔۔ابرار نے دیکھ لیا تھا۔بابر اسے تنگ کر رہا تھا۔وہ بھی وہیں سٹیج پہ آ گیا۔
بھائی انہیں ادھر سے بھیجیں۔بڑے کو چھوٹے کی شکائت لگا ئی۔تو جہاں ابرار مسکرایا تھا۔وہیں باقی قریب بیٹھے مہمان بھی مسکرا دئے۔
بابر بیٹا۔آپ کو کیا تکلیف ہے۔ذرا وضاحت کریں گے۔بابر کے دائیں جانب بیٹھتے۔اس کے کندے پہ بازو پھیلا کر۔گردن کو قدرِنزدیک کر کے ابرار نے پوچھا ۔تو وہ گردن سہلاتا۔سر ہلا گیا۔
کچھ نہیں بھائی بس ویسے ہی۔میں تو ماہا سے اچھی اچھی باتیں کرنے آیا تھا۔مگر یہ تو آپ کی نرمی کی وجہ سے سر پہ ہی چڑھی رہتی ہے۔دانت نکالتے،مصنوعی گھوری سے ماہ نور کو دیکھتے اس نےکہا ۔تو ماہ نور نے ایک بار پھر ابرار کو دیکھا۔
خبر دار بابر میری گڑیا کو کچھ کہا تو۔تم جانتے نہیں ہو۔میری اس میں جان بستی ہے۔اگر مجھے پتہ چلا کہ دوبار کسی نے اسے تنگ کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ابرار نے محبت سے چھوٹی بہن کو دیکھتے کہا۔تو ماہ نور کا سارا ڈر اور گھبراہٹ جاتی رہی۔اس نے ایک نظر مسکرا کر ،بلکہ جتا کر ذریت کو دیکھا۔اور پھر سامنے حال کو دیکھنے لگی۔اس کے بھائی اس کے ساتھ تھے۔اسے ڈرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
ذریت نے بغور اس کی مسکراہٹ کا جائز لیا تھا۔سر جھٹک گیا۔میری بلا سے بھاڑ میں جائے۔
::::::::::
آپ کا کام ہو چکا ہے۔اب اس نام کا بندہ کبھی آ پ کو تنگ نہیں کرے گا۔وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔اور وہ جو جانے کے لئے تیار کھڑی تھی۔۔ مُڑی۔
بہت شکریہ۔آپ نے مجھے بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا۔بہت شکریہ۔۔۔اسے حیرت اور خوشی کے ساتھ ایک سکون بھی ملا تھا۔اللہ پاک نے اس کی عزت بچا لی تھی۔وہ شکرگُزاری کیسے نہ کرتی۔
نہیں شکریہ کی اس میں کیا بات۔آپ نے مجھ سے مدد مانگی میں نے کر دی۔بلکہ میں کہوں گا۔کہ آگے بھی جب آپ کو میری مدد کی ضرورت پڑے مجھے ضرور یاد رکھئے گا۔اس نے بردباری سے ٹھہر ٹھہر کر کہا۔تو وہ مسکرا کر سر اثبات میں ہلا گئی۔
ویسے وہ تھا ۔کون جس نے یہ سب کیا۔وہ جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتی تھی۔مگر پھر بھی پوچھ لیا۔
ایک ٹین ایج لڑکا تھا۔آپ کسی فرنڈ زری کا کزن۔۔۔زری کے فون سے اس نے آپ کا فون نمبر لیا تھا۔اور آپ کے بارے میں سُنا بھی اس نے اسی لڑکی سے تھا۔وہ کہہ رہا تھا ۔اور فرح کا منہ کھولتا جا رہا تھا۔
لیکن وہ مجھے کیوں کال کرتا تھا۔اس نے معصومیت سے پوچھا۔تو ابرار کچھ لمحوں تک اسے دیکھتا رہا۔وہ اس کے اس طرح دیکھنے پہ سر جھکا گئی تھی۔شائد میں غلط سوال پوچھ گئی۔اس نے سوچا۔
ابرار نے سر جھٹکا مسکرا کر شانے اچکا دئے۔ایسے ہی آپ کو تنگ کر کے انجوائے کرتا تھا۔اور کیا۔۔۔ویل اس کے گھر والے کافی کھنچائی کر چکے ہیں اس کی۔میں نے بھی کافی ڈانٹا ہے۔اگلی بار ایسا نہیں کرے گا۔
ہنہ !منحوس مارا۔۔۔میں نے کیا بگاڑا تھا۔ایسے ہی میری ناک میں دم کئے رکھا۔سوچ کر سر جھٹکا۔تو ابرار جیسے اس کی سوچ پڑھ کر مسکرا دیا۔
بچے غلطی کریں ۔تو معاف کر دینا چاہے۔اس سے ان میں سبق سیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔اس نے نرمی سے کہا۔تو سر جھکا گئی۔البتہ دل میں جتنی گالیاں اسے آتی تھیں۔وہ متواتر دے رہی تھی۔
خیر۔۔۔اس نے ایک سانس لے کر کوریڈور میں جہاں وہ دونوں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پہ کھڑے تھے اردگرد دیکھا،اور جینز کی جیب سے فون نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔
یہ آپ کا فون۔
نہیں یہ مجھے نہیں چاہے۔کہہ کر وہ لاؤنج کی جانب بڑھ گئی۔جدھر سے ملازمہ اسے بلانے کے لئے آتی نظر آ رہی تھی۔
ابرار نے فون کو واپس جیب میں ڈالا۔اور مُڑتا۔بارعب چال چلتا۔اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔
:::::::::::
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...