چلو جیسے تماری مرضی اس نے یہ سن کر چین کا سانس لیا۔وہ لاونچ کے دروازے سے نکل رہی تھی جب کیتی آرا واپس آئی۔ہاتھ میں ڈبہ تھا اس نے بی جان کو پکڑیا۔
یہ لو ہماری طرف سے چھوٹا سا تحفہ۔بی جان نے ڈبہ اس کی طرف بڑھایا۔وہ یہاں سے کوئی بھی تحفہ وصول نہیں کرنا چاہتی تھی ۔مگر انکار کام نہیں آیا مجبوراً اس نے وہ ان کے ہاتھوں سے لے لیا ۔دونوں خواتین مہمانوں نواز خوش اخلاق تھی ۔مگر اسے اب مزید ایک لمحہ بھی نہیں رکنا تھا ۔سائم اور کشمالہ بھی ساتھ باہر نکل آئے۔ان کو آتا دیکھ کر ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔وہ تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئی ۔سائم کشمالہ بھی ساتھ بیٹھ گئے ۔اس کی ناراضگی کے تاثرات انہیں کچھ بھی کہنے نہیں دے رہے تھے ۔انہیں اندازہ تھا دونوں سے بری طرح ناراض ہے ۔ڈرائیور کی موجودگی کی وجہ سے خاموشی اختیار رکھی۔گاڑی ہسپتال کے گیٹ رکی وہ دونوں بھی ساتھ اتر گئے ۔
زوبیہ آپی آپ۔۔۔کشمالہ نے کچھ کہنا چاہااس کی بات سنے بنا سخت لہجےمیں بولی۔
تم لوگ مزاق کرتے ہو میں انجوائے کرتی ہوں مگر مزاق اور بدتمیزی میں فرق ہوتا ہے میں تم لوگوں کی بدتمیزی معاف نہیں کر سکتی ۔بات نکمل کر کے وہ گیٹ سے اندر گھس گئی ۔
پلیز زوبیہ آپی ہماری بات سنیں سچ میں آپ کو ہاٹ کرنا مقصد نہیں تھا سائم ان کے پیچھے ایا اور تلخی لہجے میں بولا
میرا اور اسفند کا تعلق مالک اور ملازم کا ہے تم لوگوں کی وجہ سے میری عزت کیا رہ گئی ۔شاید وہ سوچ رہے ہوں کے میں جاب میں فائدے اسانیاں کرنے کے لیے ان کی فیملی سے تعلق جان بوجھ کر رکھا
It is too much saim
میں اتنی انسلٹ برداشت نہیں کر سکتی ۔سخت انداز میں کہہ کر ہسپتال میں چلی گئی کمرے میں آنے کے بعد بھی وہ بہت دیر غصے کو کنٹرول کرتی رہی ۔خود پر بھی غصہ کے ان کی باتوں میں آنے کی کیا ضرورت تھی ۔ان کا دیا شیشوں والا سرخ جوڑا بے دلی سے الماری میں رکھ دیا۔وہ سرخ پہنتی نہیں تھی اس کے پاس سب ہلکے کلر تھے عرصہ ہوا اس نے خود پر توجہ دینی چھوڑ دی تھی کئ سالوں سے لپ اسٹک کو بھی نہیں چھوا ابھی ہی اچھی ڈاکٹر بننے کی کوشش کر رہی تھی ان کے فصول مزاق نے پانی پھیر دیا ۔اسے کبھی اندازہ نہیں تھا اس کے بھتیجا بھتجی ہیں
رات کو اس کا سامنا اسفندیار سے ہوا وہ ڈرتی ہی رہی۔کہیں وہ کچھ کہہ نہ دیں۔ان ڈائریکٹ کسی اور پر کر ہی بات کہہ دیں مگر وہ بالکل کچھ نہیں بولا۔وہ روٹین کا انداز تھا اسفندیار نے اس بات کو نظر انداز کر دیا مگر اس کی شرمندگی اپنی جگہ برقرار تھی ۔
___________
اگلے دن ہسپتال میں کشمالہ میں دیکھ کر اس نے سوائے سلام کا جواب دینے کے کوئی بات نہیں کی ۔وہ اپنے سامنے بیٹھی مریضا کا بی پی چیک کر رہی تھی ۔کشمالہ کرسی پر بیٹھ کر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔دوا کی پرچی پکڑا کر نرس سے دوسری مریضہ کو بلانے کا کہتی بی پی اپیرٹس سائیڈ پر رکھنے لگی۔
آپ ہم لوگوں سے ناراض ہو گئیں ۔ اب کوئی بات سننے کو بھی تیار نہیں بات بس اتنی سی ہے شروع میں ہم نے جان کر اپ کو لالہ کے بارے میں نہیں بتایا آپ ان کے بارے میں جو کمنٹس دیتی ہم انجوائے کرتے مگر کل ہمارا مقصد لالہ کے سامنے آپ کو شرمندہ کرنا نہیں تھا وہ جب صبع گھر سے چلے جائیں تو واپس نہیں آتے اس ٹائم ہمارا دل تھا آپ ہمارے گھر آئیں اور وہیئں ہم لالہ کے بارے میں بھی بتاتے مگر بالکل اچانک غیر ارادہ طور پر لالہ آ گئے آپ پتہ نہیں کیوں اتنی کونیٹس ہو رہی لالہ کو ہماری دوستی سے کیا اعتراض ہو گا۔اور وہ اتنے تنگ نظر بھی نہیں ہیں ۔کہ آپ کو وہاں دیکھ کر کوئی الٹی سیدھی سوچی ہو ۔وہ بہت زہین آدمی ہیں اسطرح کی فصول باتیں نہیں سوچتے ۔
دوسری مریضہ کے انے تک وہ جلدی جلدی وضاحت کرنے میں مصروف تھی ۔
وہ اسکی بات کا جواب دیے بنا دوسری مریضہ سے مخاطب ہو چکی تھی ۔وہ گود میں لیے بچے کی بیماری کا بتا رہی تھا۔اسکو دوائی مشورہ دیتے ہوئے کشمالہ کی طرف دیکھا جو اس کے رویے سے مایوس ہو کر اٹھ گئی تھی ۔
کشمالہ میں تم لوگوں سے ناراض نہیں وہ ایک دم واپس مڑی اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی واقعی ۔۔۔
ہاں لیکن اب تم جاؤ اس وقت مریضوں کا رش لگا ہے وہ خوشی خوشی گردن ہلاتی چلی گئی ۔
______________
آپ نے بچوں کو خراب کر دیا وہ بیڈ نمبر سات والا سسٹر سے انجکشن لگوانے کو تیار نہیں ایک ہی رٹ ڈاکٹر زوبیہ سے لگواؤں گا۔ڈاکٹر تاجدار نے مخاطب کیا جو فلحال فارغ تھے ۔جو اچھا انسان نہ ہو وہ اچھا ڈاکٹر کیسے بن سکتا ہے ڈاکٹر شہزور نے باتوں باتوں میں ایک روز یہ بات کہی تھی ان کی یہ بات انہوں نے گرہ باندھ لی ڈاکٹر خوش اخلاق ہو ہمدرد ہو تو مریض کی آدھی بیماری باتوں سے رفع ہو جاتی ہے ۔وہ اسی چیز پر عمل کی کوشش کر رہی تھی ۔پہلی بار گل خان پر کی تھی جس کی ٹانگ کٹ گئی تھی وہ زندگی سے بےزار ہو چکا تھا اس سے بہت پیار سے باتیں کر کے امادہ کیا تھا اب وہ بات سننے لگ گیا تھا وہ بہت دن ہسپتال رہ کر جب جانے لگا تو دوستی کر چکا تھا ۔اس کے ماں باپ بہت شکر گزار تھے ۔
جانے سے پہلے اسکی ماں نے اپنے ہاتھوں سے کڑھائی کیا ہوا دوپٹہ اس بطورِ گفٹ دیا جو اس نے یہ سوچ کر رکھ لیا کے ان کا دل نہ ٹوٹ جائے اس کے بعد خاص طور پر بچوں کے ساتھ ایسا کرنا شروع کر دیا ۔بچے سسٹر رضیہ کو نہیں پسند کرتے ڈاکٹر تاجدار کو سخت لبو لہجہ بھی انہوں ناگوار گزرتا تھا زوبیہ ان سب کی پسندیدہ تھی وہ انہیں چاکلیٹ دیتی مزے کی باتیں کرتی اور وہ بدلے میں آرام سے دوا کھا لیتے۔انجکشن لگوا لیتےڈرپ چڑھوا لیتے۔
وہ وارڈ میں داخل ہوئی کونے والے بیڈ پر ڈاکٹر شہزور اور اسفند کھڑے تھے دونوں کچھ ڈسکس کر رہے تھے وہ ایک اور بچے کو انجکشن لگاتے ان کو بھی دیکھ سن رہی تھی وہ دونوں باتیں کرتے باہر نکل گئے تو بچے کو سمجھنے لگی میں نہیں ہوں گی تو انجکشن نہیں لگواؤ گے یہ تو بہت بری بات ہے ۔وہ جب باہر نکلی تو آواز آئی کے اب بہت دیر ہو چکی کچھ نہیں اس کا ہو سکتا شہزور ڈاکٹر اسفندیار کو بول رہا تھا وہ بھی جواباً کچھ بولا جو سنائی نہیں دیا کسی کو زندگی ہارتا دیکھ کر بہت دکھی ہوتی آج سن کر دکھی ہوئی اس نے ڈاکٹر آصفہ سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے تسلی دی کے آپ نئی ہیں اس لیے بہت احساس ہو کر سوچتی ہو آہستہ آہستہ عادی ہو جاؤ گی۔یہ ہمرا پیشہ ہے زندگی موت ہر وقت اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہیے ۔جس کا وقت پورا ہو ہم اسے کیسے بچا سکتے ہیں ۔
____________
کافی دن ہو گئے حجت کی کوئی خیر خبر نہیں تھی وہ اس کے گھر جانے کا فیصلہ کر کے اس کے دیور کے پاس گئ وہ اس کی بات سے حیران ہوا اسے گھر لے آیا۔حجت تو خوش تھی ہی ساس بھی اس کی اٹھ کھڑی ہوئی آخر کو ڈاکٹر خود چچل کر ان کے گھر آئی تھی کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔
اس کی ساس اپنی بیماریوں کا بتانے لگی تو اس نے بولا اپ کے بیٹے کے ہاتھ دوا بھج دوں گی ٹھیک ہو جاؤ گے حالانکہ اسکی ساس کو دیکھ کر اس کا بی پی ہائی ہو رہا تھا حجت بس دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی اکیلے بات کا موقع نہیں ملا تھا مگر ساس سے اچھی بات چیت کی وجہ سے تسلی میں تھی کہ اب جب چاہے حجت سے ملنے آ سکے گی ۔ہسپتال جاتے ہی اس نے شہباز کو دوائی دی اماں کو دے ۔
رمضان شروع ہو چکا تھا زوبیہ کو خالہ امی کے گھر گزارا رمضان اور عید یاد آ رہی تھی تھوڑی افسرده تھی ۔ڈاکٹر آصفہ عید کی شاپنگ کے لیے بازار جا رہی تھی اسے بھی ساتھ جانے کی دعوت دی تو اس نے منع کر دیا ۔کافی جوڑے ہیں جو بغیر پہنے رکھے ہیں
تم مجھے کوئی پرانی روح لگتی ہو نہ پہنانے کا شوق نہ سجنے سوارنےکا نہ جیولری کا شادی کا ارادہ بھی ہے کہ نہیں ۔ایسے تو مشکل ہی کوئی پسند کرے۔
کیا پتہ کوئی پسند کر ہی لےکھسکے ہوؤں کی کمی تھوڑا ہے دنیا میں ۔وہ اسے چھوڑ کر چلی گئیں واپسی پر اس کے لیے بھی ایک سوٹ لائی
یہ میری طرف سے عیدی کا گفٹ سارے سٹاف کو عیدی دیتی ہوں تمہیں پیسوں کی جگہ کپڑے دے رہی ہوں اس نے رکھ لیا
سب سے سن چکی تھی کہ اسفندیار سب کو ایک بار افطاری ڈینر دیتا ہے سال بھر میں یہی اسکی طرف سے دعوت ہوتی تھی ۔وہ بھی اس کے گھر ڈاکٹر آسفہ کسی بات پر اسے ایسے بولی جیسے اسے پہلے سے سب پتہ ہے مگر اس کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے
نائٹ ڈیوٹی کی وجہ سے ڈاکٹر شہاب اور سسٹر رضیہ ہسپتال میں سحری کرتے تھے شہاب رضیہ سے بولا
پرسوں افطار پارٹی ہے اسفندیار کے ہاں ویسے تو وہ خود سب کو انوائیٹ کریں گے کوئی رہ نہ جائے مجھے بھی یادانی کروانے کا بولا تھا ۔ہاں مجھے ڈاکٹر تاجدار نے بتا دیا، تھا اسی ایک دن ڈاکٹر اسفندیار ہنسی مذاق کرتے ہیں ۔وہ چپ چاپ ان کی باتیں سن رہی تھی وہ پیچھے سال کی افطار پارٹی کو یاد کر رہی تھی اگلے روز کافی بار اس کی اسفند سے ملاقات ہوئی مگر اس نے انوائیٹ نہیں کیا ایک بار بھی ۔اسے بہت انسلٹ محسوس ہوئی اگر کسی اور املے کو بولنا بھول جاتا تو وہ بہت تھے مگر ڈاکٹر تو چھ تھے ان میں خواتین بس دو۔اس نے سوچاہو گا جو لڑکی میرے گھر بھتیجا بتیجی سے دوستی کر کے آ سکتی اسے بلانے کی کیا ضرورت ظاہری بات ہے وہ آ ہی جائے گی بلکہ دن گن کر انتظار کر رہی ہو گی۔
ہفتے کے دن اس نے اکیلے افطار کرتے جل کر سوچااس نے بیماری کا نہانہ کر کے ہاف ڈے لے لی تھی اس نے رات کھانا نہیں کھایا عشاء تراویح پڑھ کر سونے لگی آنسو چپ چاپ نکل رہے تھے
کیسی طبعیت ہے اب آپ کی دوسرے روز شہزور کے روم آئی تو وہاں اسفندیار بھی تھا ڈاکٹر شہزور نے فورا طبعیت پوچھی۔بتہر ہوں بس اب کھانسی نازلہ ہے ۔کھانسی زکام تو تھا ہی اس لیے آرام سے جھوٹ بول سکی۔تھوڑا اور آرام کر لیتی یہ نہ ہو پھر لبمی پڑ جائیں ۔اسفند ایک نظر ڈال کر پیپر دیکھنے لگا، جیسے اس کو کوئی پروا، نہیں ۔وہ خاموشی سے پلٹ گئی ۔وہ تواقع کر رہی تھی کل نہ آنے کی وجہ اسفند پوچھے گا اس نے سوچا تھا کہ بول دے گی بن بلائے مہمان جانے کا کوئی شوق نہیں مگر اس کی سوچوں پر پانی پھر گیا کل پیدا ہوئی خود ترسی نے آک ڈپریشن کا روپ دھار لیا تھا
______________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...