’’اسٹیشن روڈ کی گلی میں ایک ورائٹی اسٹور میں ایک لڑکی کے لیے جاب ہے۔‘‘ میری سہیلی شبانہ نے مجھے بتایا، ’’ وہاں لڑکیاں بھی کام کرتی ہیں۔‘‘
جا کر دیکھا۔ یہ ایک بیس فٹ چوڑی اور سترہ فٹ لمبی دوکان تھی۔ دائیں طرف دوکان کی مالکن کا انگریزی کے ’ایل‘ کی شکل کا کانچ کا ٹیبل تھا۔ ٹیبل میں سے رنگ برنگی گھڑیاں جلوہ دکھا رہی تھیں۔ ٹیبل بہت خوبصورت اور قیمتی تھی۔ اِسی کے پیچھے آنٹی اپنی سرخ پالش والی ڈیزائنر کرسی پر براجمان ہوئیں۔ جب وہ وہاں بیٹھیں تو اپنے پیچھے چھت سے لٹکتی ہوئی سبز پتوں اور بینگنی پھولوں کی بیلوں کے پس منظر میں ان کا چوڑا گورا چہرہ خوب پھبتا ہوا دکھائی دیا۔ سلیقے سے کٹے ہوئے بال بالکل خاموشی سے اے سی کی ٹھنڈ میں ان کی گردن پر کسی ڈرے سہمے بچے کی طرح پڑے ہوئے تھے۔ پھولوں کے گچھے کے پاس لگے ہوئے اسٹیریو سسٹم نے ان کے سیٹ پر بیٹھتے ہی ہلکی انگریزی موسیقی سے دوکان کو یوں بھر دیا کہ الگ سماں بندھ گیا۔ اس ٹیبل سے کوئی دو فٹ کی دوری پر موٹے موٹے شیشوں کے شیلف پر کانچ، چینی مٹی، لکڑی، پلاسٹک کے خوبصورت شو پیس، گلدان، کافی مگ، گلاسیں اور کھلونے وغیرہ سجے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے ایک لمبے سے شیشے کے ٹیبل میں بالوں کے پِن، چوڑیاں، بڑی مالائیں، چھوٹی چھوٹی بتیوں میں جگمگا رہی تھیں۔ ٹیبل کی دوسری طرف دیوار سے نکلے ہوئے لمبے لمبے ہینگروں میں دوپٹّے، اسکارف اور پرسیں لگی ہوئی تھیں۔ اسی کے نیچے دروازے تک کی پوری دیوار میں مختلف موقعوں کے گریٹنگ کارڈ کچھ دیوار کو ٹکائے ہوئے اور کچھ بچھائے ہوئے تھے۔
ایک نازک لڑکی کی مورتی دروازے میں داخل ہوتے وقت سواگت کرتی نظر آئی تھی۔
مجھے وہاں کی لڑکیوں کا طور طریقہ اچھا لگا اور پھر وہاں آنے والے گاہکوں کو بھی دیکھا۔ ’’اچھے رنگ ڈھنگ کے ہیں اور اچھی انگریزی بولتے ہیں۔‘‘ میں نے سوچا، ’’ کچھ سیکھنے کو تو ملے گا۔ ہندی ذریعۂ تعلیم سے پڑھائی کرنے کی وجہ سے میں انگریزی بولنے میں ذرا پیچھے رہ جاتی ہوں۔‘‘
میں نے نوکری پا لی۔ مجھے یہاں سچ مچ بہت سیکھنے کو ملا۔ اب مجھے سامان کی قیمت سمجھ میں آتی ہے۔ چھوٹ کتنی اور کس پر دی جاتی ہے؟ سب کچھ … اب مجھے اتنی عادت ہو گئی ہے کہ اپنی دوکان کھولوں تو بھی پرابلم نہیں۔ آنٹی میرے بھروسے پر دوکان چھوڑتی ہیں۔ انہیں بس کیش برابر چاہیے۔ ہر چیز لکھ کر رکھو۔ نہیں لکھا تو بھی پرابلم نہیں۔ حساب برابر سمجھتی ہیں۔ دوکان میں روز کی کمائی کبھی ہزار روپئے تو کبھی تین ہزار روپئے ہوتی ہے۔ روزانہ تین ہزار روپئے کا حساب ہوا تو بتانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے کم ہوا تو پوچھتی ہیں، آج اِتنا کم کیسے ہوا؟‘‘
’’نئی پیڑھی کو کیا چاہئے؟‘‘ مجھ سے پوچھ کر رجسٹر میں لکھتی ہیں۔
’’ فیشن روز بدل جاتا ہے، آنٹی‘‘ میں کہتی ہوں۔
تم بھی تو کالج گرل ہو، تبھی تو تم سے پوچھتی ہوں۔‘‘ وہ اپنی بائیں آنکھ پھڑپھڑا کر مذاق کے لہجے میں کہتی ہیں۔
اُس دن میں لنچ کھا کر ٹفن بند کر رہی تھی کہ اچانک گاہکوں سے شاپ بھر گئی۔ میں فوراً ڈبہ نیچے رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ کوئی کارڈ دیکھ رہا تھا۔ کوئی لیڈیز پرس۔ میں خود دو لڑکیوں کو انگوٹھیاں اور کانوں کے بندے دکھا رہی تھی لیکن میری نظر ہر گاہک پر تھی۔ اتنے میں مجھے لگا کہ شیلف میں ایک پرس کم دکھائی دے رہا ہے۔ میں نے فوراً آنکھوں ہی آنکھوں میں پرسوں کو گِن لیا۔ ایک کم تھا۔
’’مجھے یہ پرس چاہئے مگر پانچ سو روپئے نہیں دے سکتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے پچاس روپئے کم دے دیجیے۔‘‘ میں نے اطمینان کی سانس لی اور کہا۔ تبھی اس کے ساتھ کھڑی ہوئی لڑکی نے ٹیبل کے شیلف میں ہاتھ ڈال کر اس میں سے گھڑی نکال لی۔
’’یہ بیچنی نہیں ہے۔‘‘ مجھے اس طرح اس کی ہوشیاری پر غصہ آیا تھا، اس لئے گھڑی اندر رکھ کر شیلف کو تالا لگا دیا۔ پرس خریدنے والی خاتون کا چہرہ عجیب سے ڈھنگ سے دیکھ کر وہ لڑکی اُس کے پیچھے چھُپ گئی۔
’’دو ہزار کا نوٹ؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’آپ کے پاس ساڑھے چار سو روپئے نہیں ہیں؟‘‘ میں ٹیبل میں بنے پیسوں کے شیلف سے نوٹ نکالنے لگی، ساتھ والی لڑکی ٹی شرٹ دیکھنے لگی۔ مجھے سمجھ میں آنے لگا کہ ان دونوں کے معاملے الگ ہیں۔
’’ مجھے یاد آیا کہ پرس بِک چکا ہے۔ ہماری دوکان میں آپ کے لئے کچھ نہیں ہے میڈم!‘‘ میں نے کہا، ’’ساری!‘‘
اگلے دن صبح سویرے شاپ پر پہنچ کر میں نے جھٹکن ہاتھ میں لیا۔ موپ سے فرش کو چمکایا اور مینیکوِن کے کپڑے بدل کر اس کے وِگ کے بالوں کو برش کیا اور دوبارہ اس کے سر پر لگا دیا۔ آج ہفتے کا پہلا دن تھا۔ آج یہ کام بھی تھا۔
اچانک دو کِنّروں کو دیکھا۔ شیشے کا دروازہ کھول کر سیدھے ٹیبل کے سامنے کب آ کر کھڑے ہو گئے! پتہ ہی نہیں چلا۔ میں ڈر چھپانے لگی۔
’’ذرا انگوٹھی دکھانا تو بے بی۔‘‘ کہا ایک نے لیکن دونوں کی گردن اور کمر لچک گئیں۔ میں نے شیلف سے چار انگوٹھیاں نکال کر ٹیبل پر رکھیں۔ وہ کچھ دیر انگوٹھیوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتے رہے۔ دو انگوٹھیاں لوٹا دیں۔ پھر اپنی ساڑیاں لہراتے ہوئے چلے گئے۔ میں دیکھتی رہ گئی۔ ڈر کے مارے میری زبان ہی نہیں کھلی۔ مردوں جیسی قد کاٹھی کے شیو کئے ہوئے چہروں اور نقلی بالوں کے جوٗڑے باندھی ہوئی اس مخلوق سے پیسے مانگ نہ سکی۔ دونوں نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔
’’کِنّر سے پیسے مانگو گی تو پاپ لگے گا۔‘‘ ایک نے کہا۔ میری تو زبان ہی نہیں کھل رہی تھی میں کیا پیسے مانگتی! کپڑے اٹھا کر لے جاتے تو بھی کیا کرتی! شکر ہے یہ کپڑے ان کے کام کے نہیں تھے۔‘‘
کچھ دیر بعد سنبھل کر میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’خدا کی مخلوق ہیں۔ اِن سے ڈرنا کیوں!‘‘
’’ہیلو شبانہ! دو کِنّر ہمارے یہاں سے نکلے ہیں۔ دو انگوٹھی اٹھا لے گئے۔ سنبھلنا۔‘‘
ہفتہ گزر گیا۔ ایک صبح پلاسٹک پھولوں پر الیکٹرانک برش پھیر رہی تھی کہ نکّڑ کی دوکان سے وہی دونوں نکلتے ہوئے دکھائی دئے۔ کندھوں پر رنگ برنگی ساڑی کو سیفٹی پِن سے کسے ہوئے تھے۔ موٹی کمروں پر کسی ہوئی ناف بالکل بھلی نہیں لگ رہی تھی۔ انہیں دیکھتے ہی میں نے برش کو آنٹی کی سیٹ پر پھینکا اور چابی لے کر شاپ سے باہر آ گئی۔ شیشے کا دروازہ لاک کر کے باہر آ کھڑی ہوئی۔ دونوں دوکان پر آئے اور دروازے کو ڈھکیلنے لگے۔
’’مالک ابھی آئے نہیں ہیں۔ آئیں گے تب ہی دروازہ کھلے گا۔‘‘
دونوں نے بد دعا کے انداز میں میری طرف جھٹک کر تالی پھینکی اور گھورتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
ہماری دوکان کالج سے مشکل سے آٹھ دس منٹ کی پیدل دوری پر ہے، اسی لئے کالج کے اسٹوڈنٹ یہاں جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہفتے سے دوسرے ہفتے فیشن کیسے بدل جاتا ہے، یہاں کام کرتے ہوئے پتہ چلا۔‘‘ نیل پالش، کبھی پلاسٹک پالش، جو دکھائی نہیں دیتی، کبھی بالکل سفید آئی لائنر۔ ہمارے یہاں ڈی او ڈورینٹ اور گریٹنگ کارڈ بھی ہوتے ہیں۔ رَیک میں لگا ہوا سامان پچاس روپئے سے شروع ہوتا ہے۔ ریک پر لکھے ہوئے الفاظ دل کو بہت بھاتے ہیں۔ میں نئی نئی کام پر لگی تھی۔ اس دن باقی لڑکیاں ابھی آئی نہیں تھیں۔ ایک شخص دوکان میں آیا۔ اس کا برتاؤ الگ الگ سا لگ رہا تھا۔ مجھے لگا شاید پِئے ہوئے تھا۔
’’لیڈیز پرس ہے؟‘‘
’’نہیں ہے۔‘‘ میں نے جھوٹ کہا کیوں کہ میں ڈر گئی تھی۔ چاہتی تھی کہ وہ یہاں سے فوراً چلا جائے۔
’’نہیں ہے؟؟ … کیسے نہیں ہے؟؟ … کیوں نہیں ہے؟؟آپ کے پاس اتنے آئٹم ہیں۔ پرس کیسے نہیں ہو گا؟‘‘ وہ بھڑک کر بولا۔ میں ڈر گئی اور بولی:
’’ کہا نا، نہیں ہے۔‘‘
وہ آ گے بڑھنے لگا۔
’’جاؤ، نہیں تو باہر کے لوگوں کو بلا لوں گی۔ یہ میرا نہیں، آنٹی کا شاپ ہے۔‘‘
میری پرابلم انگلش زبان ہے اور یہ علاقہ چھوٹی بڑی اچھی اچھی دوکانوں کا ہے۔ قریب ہی ’مانجی نیس ‘اور ’ہال مارک‘ جیسی دوکانیں بھی ہیں۔ دن میں کام کرنے والی لڑکیاں میری دوست بن گئی ہیں۔ اس دوکان میں تین لڑکیاں اور کام کرتی تھیں۔ دھیرے دھیرے سب چلی گئیں۔ ایک کو نکال دیا گیا کیوں کہ اس کے ہاتھ سے سامان گر کر ٹوٹتا رہتا تھا۔ دوسری کی شادی ہو گئی اور تیسری نے کالج میں آخری سال ہونے کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ یہ سب اتنی جلدی جلدی ہوا کہ جاب جوائن کرنے کے دس دنوں کے اندر ہی میں اکیلی سیلز گرل رہ گئی۔ شروع شروع میں آنٹی یا ان کی بہو میرے ساتھ ہوتیں لیکن آنٹی کے بیٹے کا ٹرانسفر ہو گیا اور آنٹی کا مجھ پر بھروسہ بڑھ گیا۔ اب میں یہاں اکیلی ہی ہوتی ہوں۔
اگلے دن ایک کسٹمر دھڑا دھڑ انگلش میں شروع ہو گیا۔ دو منٹ بعد سمجھ میں آیا کہ وہ ٹائپنگ جیسے نام کی کوئی چیز مانگ رہا ہے۔
’’ڈوُ یو ہیو اِٹ؟‘‘
’’نو سر، ساری‘‘ میں نے فوراً منع کر دیا۔
رات آٹھ بجے کے قریب آنٹی حساب دیکھنے آتی ہیں۔ لیکن اس دن وہ کوئی صبح گیارہ بجے کے آس پاس دوکان میں آ گئیں۔ میں نے آنٹی سے پوچھا تو وہ بولیں، ’’ اندر جا کر دیکھو۔‘‘
’’اِتنا مہنگا سو روپے سے شروع ہونے والا آئٹم تھا۔ اتنی صبح صبح گراہک چھوڑ دیا۔‘‘ وہ خود اندر کے چھوٹے سے اسٹور روم سے ایک چھوٹا سا ڈبّہ اٹھا لائیں۔
’’غلطی ہو گئی۔‘‘ وہ سیدھے ہندی میں کہتا تو ٹائی پِن دے نہ دیتی! اگر اس نے آدھا ہندی اور آدھا انگلش میں بولا ہوتا تب بھی سمجھ میں آتا۔ پورا انگلش میں بولا اور اتنی تیزی سے تو مشکل ہے سمجھنا۔ ’’ہی‘‘ ’’شی‘‘ کے علاوہ کچھ پلّے نہیں پڑا۔
’’آج کل چھوٹے بچے انگلش بہت زیادہ بولتے ہیں۔ جس کو دیکھو وہ انگریزی میڈیم کے اسکولوں میں بچوں کو ڈالنا زیادہ ضروری سمجھتا ہے۔ پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیوشن کی فیس ادا کرتے ہیں۔‘‘ … میری زبان تک بات آئی مگر میں کچھ بولی نہیں۔ یہاں آنٹی کو چاہیے صرف کیش۔ وہ ٹھیک سمجھ رہی ہیں، اِس لئے میں یہاں ہوں۔
’’کسٹمر کو تم کیسے ہینڈل کرتی ہو، وہ تمہارا کام ہے۔‘‘
جس دن مال آتا ہے، رجسٹر پر لکھ کر رکھ دیتی ہوں کہ اِتنا اِتنا مال آیا۔ اِتنا ڈِسپلے؟؟؟ کِیا۔ ایک چیز بِکی، ایک طرف لکھا۔ قیمت لکھی ہوئی ہو تو شام کو حساب مل ہی جاتا ہے۔
اُس شام آٹھ بجے کلوزِنگ کے وقت گاہک کے ہاتھ سے شیشے کا گُلدان چھوٹا اور چھن … ن … ن … سے ٹوٹ گیا۔ قیمت ڈیڑھ سو روپئے تھی۔ گراہک سے آدھے پیسے لینے پڑے۔ پہلے ہم مشہور ’ہورائزن‘ کمپنی کی برانڈیڈ چیزیں رکھتے تھے لیکن اب اُن برانڈ والوں کی آپسی پھوٹ کی وجہ سے اُن کی فیکٹری بند ہو گئی۔ پھر بھی ابھی ’’ہورائزن‘ کمپنی کا نام ہماری شاپ سے نہیں ہٹا ہے۔ اُن سے کہہ کر اب ہم نے اور جگہوں سے سامان منگوانا شروع کر لیا ہے۔ دام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ چیز برانڈیڈ نہیں ہے۔ پوچھنے پر میں گاہک کو بتا بھی دیتی ہوں۔ ویسے بھی سستی ہونے پر وہ خود بھی سمجھ جاتے ہیں۔
اُس دن آنٹی شام پانچ بجے ہی شاپ پر آ گئیں۔ اُن کی سیٹ پر میں کبھی نہیں بیٹھتی۔ اُس دن بھی ان کی کرسی کے پاس پڑے اسٹول پر میں اپنی سہیلی شبانہ کے ساتھ بیٹھی گپیں لڑا رہی تھی۔ آنٹی کو دیکھ کر میں اُٹھی۔ تبھی ایک گاہک دوکان میں آیا۔ میں اُس کی مدد کرنے لگی۔
آنٹی نے روزانہ کی طرح سیٹ پر بیٹھتے ہی دوکان میں ادھر اُدھر نہیں دیکھا۔ سامنے گلی کے نُکّڑ سے آگے تک کا منظر اُن کی آنکھوں کے سامنے کھُلا تھا۔ چھترپتی شیوا جی ٹرمِنس سے آنے والی ٹرین اسٹیشن پر دھیرے دھیرے رُک رہی تھی۔ جنرل ڈبے کے کچھ درمیانہ عمر کے مرد، کالج کے کچھ منچلے لڑکے کمپارٹمنٹ سے کود کر پلیٹ فارم پر کچھ قدم ٹرین کے ساتھ دوڑ رہے تھے۔ ابھی کچھ منٹوں میں شہر کو جانے والا یہ راستہ بھیڑ سے اَٹ جائے گا۔ آنٹی راستے کو گھورتی رہیں۔
آنٹی کے آنے کے کچھ دیر بعد شبانہ اپنی دوکان میں لوٹ گئی۔
’’دوستوں کا جمگھٹ یہاں پندرہ منٹ سے زیادہ دکھائی دیا تو … ۔‘‘ اُس کے جانے کے بعد آنٹی نے مجھ سے کہا۔ کہا کیا، کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’تیری خیر نہیں۔‘‘ میں نے دل ہی دِل میں ان کا جملہ پورا کر دیا۔
’’کالج پاس ہی ہے اسی لئے سہیلیاں آ جاتی ہیں … اور پھر شبانہ نے ہی تو نوکری لگائی تھی۔‘‘
’’چلو جاب چھوڑ دو۔‘‘
میں ہکّا بکّا رہ گئی۔ ذرا سی بات پر کیسے یہ کہہ گئیں!
’’تمہارا اپنا گھر نہیں ہے کہ اپنے دوستوں کو بٹھاؤ، خاطرداری کرو، خاص کر لڑکا تو بالکل نہیں چاہئے۔ دوستوں کے بارے میں تو میں سوچ بھی سکتی ہوں لیکن دوست ہوں یا باہر والے، آدھا گھنٹہ رُکے تو کچھ نہ کچھ لے جائے ورنہ ٹائم پاس کرنے کا نہیں۔ کوئی دس منٹ ٹھہرے تو فوراً پوچھنا چاہئے کہ ’آپ کو کیا چاہئے؟‘ کچھ اور وقت گزارے تو غصے سے پوچھو، اُس سے زیادہ وقت رکے تو آرام سے کہو، ’چلے جائیے ‘۔‘‘
’’ٹرین کا معاملہ ہے۔ سامنے ہی اسٹیشن پر ٹرین کے وقت پر بھیڑ رہتی ہے۔ بارش ہونے لگے تو لوگ دوکان میں چلے آتے ہیں اور کارڈ دیکھنے لگتے ہیں۔ دو کارڈ دیکھے تو دس منٹ گزر گئے۔‘‘ مگر میری یہ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
’’ٹھیک ہے آنٹی۔‘‘ بس یہی کہہ پائی۔
اُس دن وہ لڑکی یہی کر رہی تھی۔ فون پر لگاتار بات بھی کرتی جا رہی تھی۔ کافی دیر بعد میں نے پوچھا، کیا چاہئے؟‘‘
’’لَورس کارڈ چاہئے۔‘‘
’’دیکھ رہی ہوں، کافی دیر دیکھتی رہی ہو۔ ایک گھنٹہ پورا ہونے لگا ہے۔‘‘
’’میں ’ہورائزن‘ میں ہوں۔ اِدھر آ جاؤ۔‘‘ وہ مجھے اَن سُنا کر کے فون پر کسی سے کہہ رہی تھی۔
’’آپ جا سکتی ہیں۔‘‘
’’کارڈ دیکھ رہی ہوں۔‘‘
’’یہ نہیں چلتا۔ فون بند کرو۔‘‘
’’لے رہی ہوں نا!‘‘
مجھے ڈیرِنگ چاہئے۔
جب نئی نئی نوکری لگی تھی، تب کوئی گراہک دو گھنٹے بھی لگاتا تھا تب بھی بول نہیں پاتی تھی۔
اگر تم اپنا سامنا نہیں کر سکتی تو دوسروں کا بھی نہیں کر سکتی۔‘‘
آنٹی نے مجھے سکھایا کہ آدمی کیسے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا نیچر باہر آ کر سمجھ میں آیا ورنہ کالج سے گھر، گھر سے کالج اسی کے بیچ دنیا کی سمجھ تھی۔ نئی پیڑھی کی ہو کر بھی پتہ نہیں تھا۔ کہیں اور کام کرتی تو شاید پتہ چلتا بھی نہیں۔ کبھی کبھی لگتا ہے کہ دنیا بڑی بیکار سی چیز ہے۔ نئی نسل بھی … بات کا ڈھنگ ہی نرالا ہے۔ اِس سال میں نے بی اے کے آخری سال میں ایڈمیشن لیا ہے۔ خریداروں کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ میں پرانی نسل کی ہو گئی ہوں۔ غریب اور حیثیت والوں کے طور طریقے میں فرق محسوس کرتی ہوں۔ اونچی حیثیت والے عزت دے کر بات نہیں کرتے ہیں۔
’ ’دیدی یہ دو۔‘‘
’’ وہ دو۔‘‘
’’اس کی پرائز کیا ہے؟‘‘ کہہ کر باتیں کرتے ہیں۔ غریب کو لگتا ہے نوکر ہے۔
’’یہ دے دے چل‘‘
’’جلدی دے بابا! کیا کرتی ہے رے؟‘‘
’’ اِس طرح بات کرتے ہیں؟گراہک ہو تو دوکان میں کام کرنے والوں سے عزت سے بات نہیں کر سکتے!‘‘
’’ارے ایسے کیوں بات کرتا ہے؟ غریب لڑکی ہے۔‘‘ اس کا ساتھی اُس سے کہتا ہے۔
’’غریب کو مستی بہت ہوتی ہے۔‘‘ وہ بھی میری طرف دیکھتے ہوئے دوست کو جواب دیتا ہے۔
میں بھی جانتی ہوں، سہنا پڑتا ہے۔ ایک بار تو میں رو ہی پڑی۔ ایک گراہک نے بڑے بُرے ڈھنگ سے مجھ سے کی چین کی قیمت پوچھی۔ میں کوڈ دیکھنے لگی۔
’’اوئے! اِکڑے بَگھ تیاچی پرائز! (ارے یہاں دیکھ اس کی قیمت)‘‘
’’ذرا عزت سے بات کرو نا!‘‘
’’تو مالکن ہے یا نوکر ہے؟‘‘
’’میں نوکر ہوں مگر آپ کا کام کرتی ہوں۔ مجھ سے تمیز سے بات کیجیے۔‘‘
’’کام کرتی ہے تو عزت سے رہ۔ دوسروں کا کھاتی ہے۔ گھمنڈ کرتی ہے۔‘‘
’’محنت کرتی ہوں تو ملتا ہے۔‘‘
’’تو ہم کہاں بیٹھ کر کھاتے ہیں؟‘‘
’’یہاں بیٹھی ہے تو اپنی عزت کیوں خراب کر رہی ہے؟‘‘
’’میں تو نوکر ہوں۔ سب کو بتاتی ہوں۔ میں آپ سے آپ کہہ کر بات کرتی ہوں نا! آپ کا عزت سے بات کرنا بھی ضروری ہے۔‘‘
’’نوکر ہے تُو!‘‘ اس نے دایاں ہاتھ اُٹھا کر کہا، ’’ تیری عزت تیرے پاس رکھ۔‘‘ اس کے نتھنے پھول رہے تھے۔
’’صحیح طریقے سے بات نہیں کرنی، چلے جاؤ۔‘‘
اُس دن میں بہت روئی۔
میرے غصے سے آنٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’’آنٹی میں جاب چھوڑ رہی ہوں۔‘‘ شام کو میں نے آنٹی سے کہا، آپ کے کسٹمر برے طریقے سے بات کرتے ہیں۔‘‘ میں نے انھیں سب بتایا۔
’’اِتنی تُو تُکار کرنی ہی نہیں چاہیے۔ سامنے والے کو شہہ ملتی ہے۔ جواب پر جواب دے کر اُس کو چھیڑنے کا مزا دیتی ہو تم!‘‘ آنٹی نے اپنی چھوٹی چھوٹی گڑھوالی آنکھیں میری آنکھوں میں گاڑ دیں۔ اُن کا گورا چہرہ سُرخ ہو گیا، ’’میں نے سی سی ٹی وی سے سب دیکھا تھا۔‘‘
’’آئی ایم ساری آنٹی۔‘‘ میں نے اپنی پلکیں دھیرے سے جھکا لیں۔ وہ ایک لمحہ میں شانت ہو گئیں۔
’’کوئی بھی کسٹمر غلط سلط بولا تو کہہ دینا، ’یہ میرا شاپ ہے، میں شاپ کیپر ہوں۔ کسی دوسرے کو یہاں بیٹھے دیکھا ہے کیا؟ … نہیں نا! … یہ شاپ میرا ہے۔ میری عزت کیسی ہے، کیا ہے، … مجھے پتہ ہے۔ پولیس کمپلینٹ کروں گی‘ … ۔‘‘ آنٹی نے مجھے ہمت دی۔
’’تُو تو کہتی ہے، تیرا جیجا حوالدار ہے۔ کھنڈالا کے گھاٹ پر اُس کی ڈیوٹی لگی ہے۔ وہ کتنی دوری پر ہے؟ اور … پھر تُو روئے گی تو وہ بولتا جائے گا۔ سمجھ جائے گا کہ تُو کمزور ہے۔ رونا ہو تو بعد میں رو۔ کسی نے غلط بولا، جواب دو۔‘‘ پھر اچانک وہ بھڑک اُٹھتی ہیں، ’’ خلاصہ یہ کہ کسٹمر کو ٹھیک سے اٹینڈ کرنا ضروری ہے۔ سمجھیں! یہ نہیں ہوتا تو فوراً جاب چھوڑ دو۔ میرے منہ پر چابی مار دو۔‘‘
مجھے لگتا ہے سب باس پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ وشواس دلائے تو ڈانٹے ہی کیوں نہ!
پچھلے سال بی اے کے سال دوم کی چھٹیوں میں تین مہینوں کے لئے میں نے نوکری کر لی تھی اور آنٹی کو بھی میری ضرورت ہے۔ جس دن انہوں نے دوکان کی چابی دی تھی … تب سے وہ یہاں نہیں بیٹھیں۔ اب تو میں کوڈ دیکھے بغیر چیزوں کی قیمت جانتی ہوں۔ شروع میں تو آنٹی بیمار تھیں، ایک ہفتے بعد شاپ پر آئیں۔ پتہ چلا، یہ لڑکی اچھی طرح کام کرتی ہے۔ پہلے دن ہی میں نے انہیں ساڑھے تین ہزار روپئے کیش جو دیئے تھے۔ بس ان کا وشواس بن گیا۔ جب مجھے جاب پر رکھا تب سے وہ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ بڑے پیار سے پوچھا، ’’کہاں رہتی ہو؟ کیا کرتی ہو؟ جاب کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘
میں نے ان سے کہا تھا، ’’چھٹیاں ہیں۔ بس اسی لئے تجربے کے لئے کام کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیڈی میری طرف دھیان نہیں دیتے۔
’’بارہویں ہوئی نا! اب تمہاری شادی کرتے ہیں۔ ہم خاندیش سے ہیں۔ ہمارے یہاں لڑکی اٹھارہ کی ہوئی تو بہت بڑی ہوئی۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’ابھی نہیں۔ گریجویشن ہو جانے دو بابا۔‘‘
’’میں پیسے ہی نہیں دوں گا۔‘‘ وہ مجھے فیس نہ دینے کی دھمکی دیتے ہیں۔
’’جاب کروں گی۔ خود کما کر پڑھوں گی۔‘‘
’’ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا۔ آج سے خرچہ بھی بند!‘‘ وہ سختی سے کہتے ہیں۔
یہ سب میں نے آنٹی کو نہیں بتایا، ورنہ وہ اسے مجبوری سمجھتیں۔ شاید من دُکھا کر بات کرتیں۔ آج انہیں لگتا ہے، میں ایسے ہی ہاتھ خرچ کے لئے کام کرتی ہوں۔ اب وہ مجھے بیٹی ماننے لگی ہیں۔ گھر کے پروگرام میں بھی بلاتی ہیں۔ گھر میں کام نہیں کرواتیں۔ ان کی بیٹی سویٹا بڑی سخت ہے۔ جب یہاں آتی ہے تو دوکان اوپر سے نیچے تک دیکھتی ہے۔ کام کرنے والوں سے اُسے کچھ لینا دینا نہیں۔ صرف دوکان سے مطلب ہے۔ ٹیبل کی کانچ پر اُنگلی پھیر کر دھول کا دھبہ دکھاتی ہے۔
گراہک نہیں دیکھتی۔ سیدھے کہتی ہے:
’’دیکھو بیٹا اپرنا! یہ اچھی طرح صاف کرنا چاہئے۔ تمہیں کیسا لگتا ہے؟ کسٹمر آئے تو اچھی بات ہو گی؟ وہ سمجھے گا پُرانی چیز ہے۔‘‘ فٹ سے بولتی ہے۔
فون کرتی ہے تب بھی مجھ سے یہی پوچھتی ہے۔ آنٹی یہ سب دیکھتی ہیں اور چپ چاپ مسکراتی رہتی ہیں۔ منع نہیں کرتیں۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا، ’’بے بی کے نام سے ہی اِس شاپ کی پرمیشن ملی ہے۔ اُس نے ہوٹل مینجمنٹ کا کورس کیا ہے۔ اسی نے اپنے ماں باپ کو آئیڈیا دیا تھا۔‘‘
میں آنٹی کو دیکھتی رہتی ہوں۔ وہ میری سوچ کو سمجھتی ہیں۔ مجھے سمجھاتی ہیں:
’’تمہارے انکل نہیں آتے کبھی شاپ پر۔ ریٹائرڈ ہیں مگر انہیں دوکان میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘
’’آپ لوگ ہماچل پردیش اپنے گاؤں بھی نہیں جاتے؟‘‘
’’فرصت ہی نہیں ملتی۔‘‘
’’گاؤں کو ہم نے یادوں میں ضرور بسا لیا ہے۔۔ اور پھر جائیں تو رہیں کہاں؟ ہمارے ماں باپ نہیں رہے۔ دور کے رشتے دار بس دور ہی ہیں۔‘‘ آنٹی ٹھنڈی سانس بھر کر کہتی ہیں۔
اس جاب نے مجھے فیس کے پیسے ہی نہیں دیئے، میری زندگی بھی بدل دی ہے۔ قبرستان کے پیچھے جھونپڑپٹی میں رہنے والی لڑکی، جو کسی سے بات بھی نہیں کر سکتی تھی، سمجھ گئی:
’’یا تو فَٹ سے جواب دو یا پھر چلی جاؤ۔‘‘
میں نے حساب کا بہی کھاتہ بند کر کے آنٹی کے ٹیبل کے دائیں طرف بنی ڈراز میں رکھ دیا۔ آئینے کے سامنے کھڑے رہ کر کھلے بالوں میں پِن لگایا۔ اپنے سفید دوپٹے کو چہرے کے گِرد لپیٹ کر پل بھر خود کو غور سے دیکھا۔ پرانی کالی جینس پینٹ پر پہنے سفید لمبے کُرتے کی سِلوٹوں کو درست کیا۔ پرس، تالا اور چابی کا گُچھا اٹھا کر شیشے کا دروازہ کھول کر دوکان سے باہر نکل آئی۔ دوکان کے آدھے کھُلے شٹر کو گِرا کر اُسے لاک کیا۔ شبانہ بھی اپنی دوکان کو لاک کر کے میرے پیچھے آ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ا تنی خوبصورت دوکان میں، میں سانولی، گول چہرے پر مہاسوں کے داغوں والی، معمولی سی سُوتی یا سستے سِنتھے ٹِک کپڑوں میں غریب ضرور دکھائی دیتی ہوں، کم حیثیت والی، مگر کوئی مجھ سے جیت کر تو دکھا دے!‘‘ ذرا سا گردن اونچی کئے ہوئے سڑک پر اپنے بڑھتے قدموں پر نظر ڈالتے ہوئے میں آگے بڑھنے لگی۔
’’تم نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ شبانہ نے پوچھا۔
’’نہیں تو۔‘‘ میں نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ تھام لیا۔
٭٭٭