شیشے سے بنی اس بارہ منزلہ پرشکوہ عمارت کی لفٹ سے نکلتا بلیک آفیشل سوٹ میں ملبوس ٹائی لگائے آنکھوں پر سن گلاسز اور ہاتھ میں لیپ ٹاپ اٹھائے وہ باہر نکلا اسے دیکھتے ہیں سب لوگ اٹینشن کھڑے ہو گئے اس کی پرسنالٹی اس کا رعب دیکھنے کے قابل تھا وہ سر کے اشارے سے سب کو جواب دیتا سیدھا مین اینٹرنس سے باہر نکلا تو سامنے ہی اس کا ڈرائیور دروازہ کھولے بڑے مؤدبانہ انداز میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔
آج وہ ایک بہت بڑی ڈیل کرکے اپنے محل نما گھر پہنچا تھا ۔۔
وہ شاور لے کر ٹراوزر شرٹ پہنے ماتھے پہ گیلے بال بکھرائے واش روم سے نکل کر اپنے کمرے میں موجود صوفہ پر بیٹھا ہی تھا کہ اس کا سیل فون بجنے لگا ۔۔۔۔
وہ چند لمحے فون کی اسکرین کو دیکھتا رہا جہاں رخسار آپی لکھا ہوا آرہا تھا۔۔
“ہیلو….” بالآخر اس نے فون اٹھایا
“کیسے ہو شہریار مہینوں گزر جاتے ہیں میں فون کرو تو کرو تمھیں ہماری یاد نہیں آتی….” انہوں نے چھوٹتے ہی شکوہ کیا
“آپی آپ سب جانتی تو ہیں کہئیے آج میری یاد کیسے آگئی ہے۔۔۔” نا چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ روڈ تھا
“کل تمہارا ٹائم میگزین میں انٹرویو پڑھا بہت خوشی ہوئی دنیا کے دس بڑے آدمیوں میں شامل ہو گیا میرا بھائی وہ بھی اتنی کم عمری میں میرا تو خوشی سے برا حال تھا کل سے تمہیں فون کرنا چاہ رہی تھی مگر ۔۔۔۔” وہ پھیکے لہجے میں بولی
“مگر ! کیا آپی میری زندگی میں تو آپ لوگوں نے اس مگر کے سوا کچھ نہیں چھوڑااور اب جب میں سب کچھ چھوڑ آیا ہوں تو بھی آپ لوگ مجھے نہیں چھوڑتے۔۔۔۔” وہ بے رخی سے بولا
“شاہوں میرے بھائی معذرت چاہتی ہوں اگر تمہارا دل دکھا ہو تو مگر ایک ہفتے سے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور کل ایمرجنسی میں ہسپتال لے جانا پڑا وہ کچھ کہتے نہیں ہیں مگر ان کے دل میں تم سے ملنے کی تمنا ہے کیا تم سب بھول کر ان سے ملنے پاکستان نہیں آ سکتے…”رخسار نے ریکویسٹ کی
“پاکستان شاید آپ بھول گئی ہیں میرے پاکستان آنے کی شرط اگر آپ میرے گلے میں پڑا پھندا اتار کر پھینکنے کے لئے تیار ہیں تو میں ابھی کہ ابھی پاکستان آ جاتا ہوں ۔۔۔” وہ طنزیہ لہجے میں بولا
“شاہو تم نے کبھی سوچا ہے اس سب میں سب سے بڑا نقصان اس معصوم کا ہو رہا ہے اس کا کیا قصور ہے کہ تم اسے ہر ایک کا نشانہ بنانے کو اکیلا چھوڑ گئے تمہاری بے رخی گھر سے لاتعلقی ان سب چیزوں کا طعنہ اسے دیا جاتا ہے۔۔۔” رخسار سنجیدگی سے بولی
“اس کا قصور یہ ہے کہ وہ زبردستی میری زندگی میں شامل ہوئی ۔۔۔۔” وہ غرایا
“ٹھیک ہے تم اپنے رونے روتے رہو !! اگر بابا کو کچھ ہو گیا تو پھر ساری زندگی پچھتاتے رہنا ۔۔”رخسار نے نم آواز میں کہہ کر فون رکھ دیا
______________________________________
وہ بہت دیر سے چپ چاپ شاہ بی بی کی پائنتی پر بیٹھی ان کے پیر دبا رہی تھی ۔۔۔۔
“شاہ بی بی !! آپ اتنا پریشان مت ہوں میں نے شاہو کو کال کردی ہے دیکھیں اس طرح تو آپ اپنا بلڈ پریشر بڑھا لینگی ۔۔۔” تیس سالہ باوقار سی رخسار اپنی دادی کو تسلی دیتے ہوئے بولی
” رخسار !! اتنے نازو سے اسے پالا پوسا سو طرح کے نخرے اٹھائے اور وہ؟؟ ایک لمحے میں ہمارے فیصلے سے بغاوت کرتا یہ حویلی ہی چھوڑ گیا پانچ سال ہوگئے پلٹ کر نہیں دیکھا لیکن اب تو اس کا باپ بھی ہسپتال جا پہنچا ہے تو کہہ دے اسے کہ اگر اب نہیں آیا تو پھر وہ ہمارے لئیے مر گیا ۔۔” سرخ و سفید باوقار سی شاہ بی بی رعب سے بولیں
“ہائے اللہ شاہ بی بی !! کیسے آپ نے منہ بھر کر میرے شاہو کو ایسا کہہ دیا اس کا کیا قصور ہے بتائیں ایک تو آپ سب نے میرے بچے کے گلے میں اس منحوس لڑکی کو ڈال دیا جو اپنے ماں باپ کو تو کھا ہی چکی ہے اب تو بھائی صاحب بھی اس کے کارن ہسپتال جاپہنچے ہیں ۔۔۔” فرزانہ خاموشی سے آنسو پیتی سویرا کو دیکھتے ہوئے نفرت سے بولیں
“سویرا بیٹی تم جا کر ذرا باورچی خانہ دیکھ لو اپنے تایا کیلیئے پرہیزی کھانا اپنی نگرانی میں بنوا لو ۔۔۔” زاہدہ تائی نے خاموشی سے آنسو پیتی سویرا کو مخاطب کیا
“جی تائی امی !! ” وہ تابعداری سے سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی
” فرزانہ !! میں نے تمہیں کئی بار سمجھایا ہے سویرا کے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو میری بیٹی ہو کر تم اتنی کھٹور کیسے ہو ۔۔ ” شاہ بی بی نے تاسف سے اپنی صاحبزادی کو دیکھا
“شاہ بی بی !! معاف کیجئے گا لیکن فرزانہ آپا نے ٹھیک ہی تو کہا ہے پورے پانچ سال سے میں نے اس لڑکی کی وجہ سے اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا ایک رات سکون سے نہیں سوئی اب تو میرا صبر بھی لبریز ہونے کو ہے !! رحم کریں مجھ پر اسے بلا لیں آخر وہ بھی تو آپ کا خون ، آپ کا پوتا ہے کیا آپ کو وہ یاد نہیں آ تا کیا ؟؟؟ ” زاہدہ تائی کی آواز بھرا گئی
کمرے کے باہر پرہیزی کھانے کے بارے میں پوچھنے کیلئے آئی سویرا آنکھوں میں نمی لئیے بنا آہٹ کئیے پلٹ گئی
_______________________________________
لندن میں اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے ٹھنڈک اور خنکی اپنے عروج پر تھی بڑی روشن کشادہ سڑک پر اس ٹھنڈ میں منہ اندھیرے وہ ٹراؤزر اور ہالف سلیو ٹی شرٹ پہنے جاگنگ کررہا تھا ماتھے پر بال بکھرے ہوئے تھے اس وقت اس ماحول میں وہ اپنے آپ سے لڑ رہا تھا ، شام رخسار آ پی کے فون کے بعد سے وہ پریشان تھا اسے بھی بابا امی شاہ بی بی سب یاد آرہے تھے
” کاش آپ سب نے میری بات سنی ہوتی !! مجھے اس سب پر مجبور نہیں کیا ہوتا ” وہ بڑبڑایا اور پھر پوری رفتار سے دوڑنے لگا
کافی دیر بعد صبح کا اجالا پھیلنے لگا تھا وہ ٹریک سے اتر کر پاس کھڑی مرسڈیز میں بیٹھا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا ٹھیک آٹھ بجے اسے اپنے آفس پہنچنا تھا
ساڑھے سات بجے نک سک سے تیار کوٹ پینٹ میں ملبوس ٹائی لگائے وہ آفس جانے کیلئے تیار تھا بڑے سے اسٹائلش سے کچن میں آکر اس نے جہازی سائز فرج کھولا اور اورنج جوس نکال کر گلاس میں انڈیلا جوس پیتے ہی وہ آفس کیلیئے روانہ ہو گیا باہر اس کا ڈرائیور تیار کھڑا تھا ۔۔
بڑی سی شیشے کی طرح چمکتی ہوئی پرشکوہ عمارت کے مین اینٹرینس پر کالی سیاہ لشکارے مارتی ہوئی مرسڈیز آکر رکی باوردی ڈرائیور نے اتر کر مؤدبانہ انداز میں پچھلا دروازہ کھولا
اپنے مغرور اکھٹر انداز میں آنکھوں پر سیاہ سن گلاسسز لگائے وہ نیچے اترا سامنے ہی کھڑی اس کی سیکریٹری جینی تیزی سے اس کی جانب آئی لپک کر اس کے ہاتھ سے بریف کیس تھاما….
“گڈ مارننگ باس !! ” اس نے وش کیا
وہ سر ہلاتا بڑے بڑے قدم اٹھاتا اندر کی طرف بڑھ گیا ریسیپشن سے لیکر لفٹ اور لفٹ سے اندر مین آفس تک سارا اسٹاف چاق وچوبند تھا وہ سب کے سلام پر سر ہلاتا ہوا اپنے کیبن میں چلا گیا ۔۔۔
ابھی وہ آکر بیٹھا ہی تھا کہ جینی ناک کرکے اندر داخل ہوئی
“your black coffee boss….”
وہ کافی کا مگ اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولی
“اکاؤنٹ سیکشن انچارج کو بھیجو اور آج کے اپوائنٹمنٹ کی ڈیٹیل لسٹ لیکر آؤ ۔۔۔”
“اوکے باس !! ” وہ سر ہلاتی ٹک ٹک کرتی باہر نکل گئی
سارے کاموں سے نبٹ کر اس نے ٹائم دیکھا تو گھڑی شام کے چار بجا رہی تھی اس نے اپنا فون اٹھایا ہی تھا کہ بیل رنگ ہونے لگی نمبر دیکھ کر اس کے منہ پر ہلکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
“کہا ہو تم !! مجھے لنچ پر بلا کر خود غائب ہو گئے میں کب سے اکیلی بیٹھی ہوئی ہوں !! شہریار تم ملو تو سہی ، نا تمہیں نانی یاد دلائی تو میرا نام بھی عروہ نہیں ۔۔ ” وہ غصے سے بولی
“عروہ ہنی !!سوری بےبی میں کام میں بہت بزی تھا بھول گیا کہ آج لنچ ڈیٹ تھی خیر ایسا کرو تم گھر آجاؤ میں تمہیں وہی ملتا ہوں ۔۔۔” وہ اٹھتا ہوا بولا
” Mr Sheheryar !! you are a very proud and selfish stone heart man !!
پتا نہیں کس گدھے نے مشورہ دیا تھا کہ میں تم جیسے پتھر سے دل لگا بیٹھی ۔۔۔” وہ تپ کر بولی
” میں گھر جا رہا ہوں آنا ہو تو آ جانا !!” وہ اکھڑ لہجے میں بول کر فون بند کرکے کھڑا ہو گیا
وہ گھر پہنچا ہی تھا کہ سامنے ہی سیڑھیوں پر منہ پھلائے عروہ کو دیکھ کر اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر گئی
“چلو اندر چلیں ۔۔ ” وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا کرتے ہوئے گویا ہوا
عروہ بھی کوئی چوں چراں کئیے بغیر اس کے ساتھ گھر کے اندر چلی آئی
” شہریار !! ” لاؤنچ میں آکر وہ اس کے قریب آئی اور بڑے پیار سے اس کی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی
” کیا ہوا ہے پریشان کیوں ہو ؟ ”
شہریار نے ایک نظر بغور نازک سی گلاب رنگت والی عروہ کو دیکھا
” نہیں میں پریشان تو نہیں ہوں ویسے بھی جس کی زندگی میں تم ہو وہ پریشان کیوں ہوگا ۔۔ ” وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا
” اب زیادہ بناؤ نہیں ، چار سال سے تمہیں جانتی ہوں کھڑوس انسان!! اس لئیے فٹا فٹ شروع ہوجاؤ کیا بات ہے جو تمہیں پریشان کررہی ہے ۔۔۔” وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے صوفہ پر دھکا دیتے ہوئے بولی
” میرے بابا ہاسپٹلائز ہیں !! شاید مجھے پاکستان جانا پڑے ۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولا
“Are you joking ??
دنیا بھر سے لوگ علاج کیلئے لندن آتے ہیں تم اپنے فادر کو ادھر بلوا لو ادھر علاج بھی اچھا ہوگا اور تم بھی اس تھرڈ ورلڈ کنٹری میں جانے سے بچ جاؤگے ۔۔” عروہ نے مشورہ دیا
“اوکے میں چینج کرکے آتا ہوں تم تب تک ریسٹورنٹ سے ہوم ڈیلوری آرڈر کردو۔۔۔” وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کوٹ بازوؤں میں اٹھائے اپنے بیڈروم کی سمت چلا گیا
اس کے دماغ میں ایک ہی بات گردش کررہی تھی کہ کیوں نا بابا کو وہ چارٹر پلین بھیج کر لندن بلوا لے !!! لیکن کیا بابا آجائیں گے
_______________________________________
رات کا وقت تھا پھوپھا جی ، شاہ بی بی اور زاہدہ تائی شہر ہسپتال گئی ہوئی تھیں ۔۔۔
ملگجے سے قمیض شلوار میں ملبوس سویرا میز پر گرم گرم روٹیاں لا کر رکھ رہی تھی اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے لمبی گھنی چوٹی کمر پر جھول رہی تھی رخسار بڑے غور سے سویرا کو دیکھ رہی تھی جب فرزانہ پھپھو کی آواز پر چونک گئی ۔۔
” یہ کیسی روٹی بنائی ہے اور دیکھو سالن میں نمک بھی نہیں ہے !! شاہ بی بی نہ ہوں تو اس گھر میں کھانا بھی ڈھنگ کا نہیں ملتا ہے لوٹھا کی لوٹھا ہوگئی ہے مگر ڈھنگ سے کام کرنا نہیں آیا اس کرم جلی کو ۔۔۔” وہ زہریلے لہجے میں بولی
“سوری پھپھو !! ” سویرا دھیمے لہجے میں بولی
“چل اب یہاں سے اپنی منحوس شکل گم کر !! بڑی آئی سوری پھپھو !! ارے تیری وجہ سے پانچ سال سے ہم سب شاہو کیلیئے تڑپ رہے ہیں میرے بھائی صاحب اپنے بیٹے کے غم میں ہسپتال پہنچ گئے اور یہ بی بی کہتی ہیں سوری پھپھو ۔۔۔” فرزانہ پھپھو نے اسے لتاڑا
وہ خاموشی سے پلٹ کر اپنے کمرے کی جانب چلی گئی ۔۔۔
رخسار نے بہت دکھ سے اسے جاتے ہوئے دیکھا یہ جوائنٹ فیملی سسٹم تھا اس بڑی سی حویلی میں سب ایک ساتھ رہتے تھے رشتے ناطے بھی آپس میں ہی کئیے ہوئے تھے تاکہ خاندانی زمین جائیداد گھر سے باہر نہ جانے پائے شاہ بی بی اس گھر کی سربراہ تھی ان کے دو بیٹے سلیم ، فاروق اور ایک بیٹی فرزانہ تھی
فرزانہ سب سے بڑی تھی جو اپنے تایا زاد سے بیاہی ہوئی تھی ان کے دو بیٹے تھے اکرم اور رمیز ۔ اکرم کی شادی انہوں نے رخسار سے کی
سلیم جن کی شادی ان کی بھتیجی زاہدہ سے ہوئی تھی اور ان کی دو اولادیں ہوئیں بڑی بیٹی رخسار اور پھر اس سے چار سال چھوٹا سب کا راج دلارا شہریار۔
سب سے چھوٹے فاروق تھے نٹ کھٹ شرارتی سے انہوں نے خاندانی رسم و رواج سے بغاوت کرکے اپنی یونیورسٹی فیلو سے شادی کی جو سویرا کی پیدائش پر چل بسیں ، اپنی رفیق حیات کے گزر جانے کے بعد وہ خود کو ان کی یادوں سے نہیں نکال پائے اور وہ بن ماں کی معصوم بچی اسے زاہدہ تائی نے اپنے سینے سے لگا لیا وقت گزرتا گیا ۔۔۔ایک روز فاروق کو سینے میں درد سا محسوس ہوا پتہ چلا دل کے سارے والو بند ہیں انہیں سرجری کروانی تھی جس میں بچنے کے چانسز کم تھے ۔۔
وہ خوفزدہ تھے سویرا کو لیکر ان کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھی تب شاہ بی بی اور سلیم صاحب نے تیرہ سالہ سویرا کا نکاح بیس سالہ شہریار سے کردیا ۔۔۔
شہریار ان دنوں ہائر ایجوکیشن کیلئے انگلینڈ جانے کی تیاری کررہا تھا وہ اس نکاح کیلئے وہ بھی ایک تیرہ سال کی بچی سے !! ہرگز راضی نہیں تھا مگر مجبور ہوگیا اور نکاح کے کچھ دن بعد چپ چاپ بنا بتائے حویلی چھوڑ گیا
فاروق کو جب یہ سب پتہ چلا تو وہ برداشت نہیں کر پائے اور دل کا دورہ پڑنے سے انتقال فرما گئے ۔۔ ۔
_______________________________________
رخسار اپنی پھپھو پلس ساس کے میز سے اٹھنے کے بعد ٹرے میں کھانا لئیے سویرا کے کمرے میں آئی ۔۔۔
“سویرا !! چلو شاباش اٹھو کھانا کھا لو ۔۔۔” انہوں نے اوندھے منہ آنسو بھاتی سویرا کو آواز لگائی
” رخسار بجو !! آپ نے زحمت کیوں کی ۔۔۔” وہ شرمندہ سی اٹھ بیٹھی
” بس بس ! اٹھو اور گرم گرم کھانا تناول کر کے مجھے خوش ہونے کا موقع فراہم کرو !! ” وہ پیار سے بولی
“قسم سے بجو !! مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔”سویرا ان کے ہاتھ تھام کر گویا ہوئی
” من تو مارنا سیکھ ہی چکی ہوں اب بھوک بھی مارنا سیکھ لیا ہے کیا ؟ ” رخسار نے سنجیدگی سے کہا
” بجو ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔اچھا ناراض مت ہوں ایک آپ ہی تو ہیں جو میرا اتنا خیال رکھتی ہیں پیار کرتی ہیں ۔۔۔”
“تو پھر میرا حکم مانو اور جلدی سے کھانا ختم کرو ۔۔۔” انہوں نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا اور خود پانی لینے چلی گئی
سویرا نے ابھی ٹرے سیدھی ہی کی تھی کہ ٹرے میں سائڈ پر رکھا رخسار بجو کا فون بجنے لگا اس نے فون اٹھایا
“شہریار کالنگ ” فون اس کے ہاتھ سے گر گیا
_______________________________________
رخسار کچن میں آ کر فریج میں سے دودھ نکال رہی تھی اسے اچھی طرح پتا تھا کہ سویرا کھانا نہیں کھائے گی اس نے بڑے اہتمام سے ایک گلاس بھر کر دودھ نکالا ساتھ ہی پانی کی بوتل نکال کر ٹرے میں رکھی ۔۔۔۔
” یہ اتنی رات گئے یہاں کیا ہو رہا ہے؟؟” فرزانہ پھوپو کی آواز گونجی
رخسار کا ٹرے میں گلاس رکھتا ہاتھ لرز گیا
“پھپھو !!! وہ سویرا نے کھانا نہیں کھایا تھا تو اس کے لئے دودھ لے جا رہی تھی ۔۔۔” وہ بوکھلا کر بولی
” کوئی ضرورت نہیں ہے !! چلو میرے ساتھ صبح سے سر درد سے پھٹا جا رہا ہے ، کبھی اپنی بوڑھی پھوپھو کی بھی خدمت کر لیا کرو سارا وقت اس منحوس لڑکی سے لگی رہتی ہوں ۔۔۔” فرزانہ نے اسے گھورا
” پھپھو آپ چلیں میں بس ابھی دو منٹ میں آتی ہوں ” وہ جلدی سے ٹرے اٹھا کر پلٹی
“رخسار !!! ابھی کا مطلب ابھی !! یہ ٹرے واپس رکھو تم میری بہو ہو اس منحوس کی نوکرانی نہیں چلو میرے ساتھ !! ” فرزانہ سختی سے بولیں
رخسار نے افسردگی سے اپنے ہاتھ میں تھامی ٹرے کو دیکھا اور پھر اسے واپس میز پر رکھتے ہوئے بجھے بجھے قدموں سے باہر نکل گئی
______________________________________
سویرا پھٹی پھٹی نظروں سے بیڈ پر گرے فون کو دیکھ رہی تھی جس پر شہریار کالنگ لکھا نظر آ رہا تھا فون ایک تواتر سے بجے جارہا تھا نہ جانے رخسار بجو کدھر رہ گئی تھی کچھ دیر بعد کمرے میں سناٹا سا چھا گیا فون بج بج کر بند ہو گیا تھا ۔۔
سویرا نے تیزی سے کھانے کی ٹرے اور فون کو اٹھا کر سائیڈ میز پر رکھا اور کمرے کی لائٹ بند کرکے سر تک لحاف تان کے لیٹ گئی وہ اس وقت رخسار یا کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہ رہی تھی اتنے عرصے بعد شہریار کا نام دیکھ کر وہ لرز اٹھی تھی
” یا اللہ میرے پیارے اللہ میری مشکل آسان کردے مجھے میرے بابا کے پاس بلالے ۔۔۔”
” یا اللہ کیا دنیا میں یتیموں کو جینے کا کوئی حق نہیں ؟؟؟ ماں باپ چھین لئیے تھے تو مجھے کیوں زندہ رکھا ؟؟ ” وہ روتے روتے اللہ سے شکوہ کرتے ہوئے نیند کی وادی میں اتر گئی
___________________________________
شہریار شاور لیکر لباس تبدیل کرکے باہر آیا !!عروہ بڑے مزے سے صوفے پر دونوں پاؤں اوپر کئیے بیٹھی تھی سامنے ٹی وی آن تھا ۔۔۔۔
” شیری۔ جلدی آؤ دیکھو بڑے مزے کا ٹاک شو آرہا ہے ۔۔۔” اس نے بڑے جوش سے شہریار کو پکارا
“عروہ !! کیا ہوا کھانا آرڈر نہیں کیا ؟؟؟ ”
“شیری ڈیلوری ہوچکی ہے میں تمہارا ویٹ کررہی تھی ۔۔۔” وہ صوفے سے اٹھتی ہوئی بولی
” چلو آؤ پھر ڈنر کرتے ہیں۔۔۔” وہ بڑے سے اٹالین طرز پر بنے ہوئے کچن کی جانب بڑھتا ہوا بولا
عروہ نے جلدی جلدی میز پر برتن رکھے اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔۔
” عروہ یار یہ چاول ڈش میں نکالو میں ڈرنکس نکالتا ہوں ” اس نے میز پر بیٹھی عروہ کو پکارا
” شیری !!! تم سیریسلی کوئی بھی کام میرے بغیر نہیں کرسکتے ۔۔۔”
وہ ناز سے کہتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ سے چائینز رائس کا باکس لیکر ڈش میں نکالنے لگی شہریار بڑے آرام سے فرج سے ٹیک لگائے اسے دیکھ رہا تھا
” کیا ہے ؟؟ اب مہاراج کوک نکالنے کی زحمت کرینگے یا وہ بھی میں ہی کروں !!!” چاول اور چکن چاؤمن میز پر رکھ کر عروہ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اسے گھورا
شہریار مسکراتے ہوئے پلٹا اور کوک کے کینز نکال کر میز پر آگیا
” شیری !!! ” عروہ نے کھانا کھاتے ہوئے اسے پکارا
” ہاں بولو ” وہ کوک کا سپ لیتے ہوئے بولا
” ہم کب تک ایسے ہی ملتے رہینگے ؟؟ ” وہ سنجیدگی سے بولی
” کیا مطلب ؟؟” شہریار نے کین رکھا
” شہریار اب تم اتنے بھی بھولے مت بنو !! چار سال سے ہم ڈیٹ کر رہے ہیں اب تو ممی ڈیڈی بھی سوال کرنے لگے ہیں !! ” وہ تپ کر بولی
” عروہ میں دوسال پہلے ہی تمہیں پرپوز کر چکا ہوں اب اور کیا کروں ؟؟ ”
” دیکھو شیری تم اچھے سے جانتے ہو جب تک تمہارے پیرنٹس میرے ممی ڈیڈی سے رشتہ نہیں مانگیں گے وہ راضی نہیں ہونگے ۔۔”
” میرے بابا سائیں !! ادھر آنا نہیں چاہتے وہ تو میرے ہی ادھر رہنے پر ناراض ہیں میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں اکیلا ہوں اگر تمہیں یا تمہارے ماں باپ کو میں ایسے ہی منظور نہیں تو دروازہ کھلا ہے تم جاسکتی ہو !!!” وہ سرد لہجے میں بولا
عروہ اٹھ کر اس کے پاس آئی اور دوزانوں ہو کر اس کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی
” شیری !! تم میری جان ہو ، اگر مجھے تمہاری خاطر اپنے پیرنٹس کو بھی چھوڑنا پڑا تو میں چھوڑ دونگی لیکن کوئی درمیانی راہ نکالنے کی کوشش تو کرو ۔۔۔” اس نے شہریار کا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگایا
” آخر میں کیا کروں ؟؟ تم پاکستان جانے کو راضی نہیں اور بابا سائیں لندن آ نا نہیں چاہتے ۔۔”شہریار زچ آکر بولا
” دیکھو شیری !! اوپر والے نے ہمیں ایک گولڈن چانس دیا ہے تمہارے بابا سائیں ہسپتال میں ہیں انہیں علاج کے بہانے ادھر بلا لو باقی میں خود دیکھ لونگی ۔۔” وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولی
” تم کیا دیکھ لو گئی ؟؟ ”
” دیکھوں جب وہ تمہیں میرے ساتھ خوش دیکھیں گے تو خود ہی شادی پر راضی ہو جائینگے ویسے بھی جب تک وہ مجھ سے ملینگے نہیں انہیں میرے بارے میں کیسے پتا چلیگا کہ ان کا بیٹا میرا اسیر ہے ” وہ ناز سے بولی
“ٹھیک ہے میں کچھ سوچتا ہوں !! “وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرکے کھڑا ہو گیا
عروہ نے میز سمیٹ کر برتن سنک میں رکھے
” کافی پینے چلیں!!! ” وہ شہریار کے پاس آئی
” یار کم از کم کافی بنانا تو سیکھ لو !! ”
” کتنے کنجوس ہو اتنے بڑے بلین ائیر کی گرل فرینڈ اب کیا کچن میں کام کرے گی ؟؟ ” عروہ نے منھ بنایا تبھی اس کا فون بجا
” ممی کی کال آرہی ہے ۔۔۔” عروہ نے فون اٹھایا تو کال مس ہو گئی
” اچھا میں چلوں !! تم آرام سے بیٹھ کر اپنے بابا سائیں کو بلانے کا پروگرام بناؤ ۔۔۔” وہ آرام سے اس کے گالوں کو چومتی باہر نکل گئی
شہریار بہت دیر بیٹھا سوچتا رہا عروہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کیلیئے اسے بابا سائیں کی ضرورت تھی اور اس مقصد کیلئے اسے رخسار آپی کو اعتماد میں لینا تھا اس نے کلائی پر بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا اور اپنا سیل اٹھا کر رخسار آ پی کو فون ملانے لگا ۔۔۔
بیل جاتی رہی اس نے کئی بار فون ملایا پر بیل جاتی رہی تھک ہار کر وہ اٹھا اور اپنے کمرے کی جانب چلا گیا
_______________________________________
فجر کی اذان ہو چکی تھی سویرا جلدی سے نماز پڑھ کر شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھی دروازہ نیم وا تھا اس نے اندر جھانکا تو شاہ بی بی نماز کی چوکی پر بیٹھی نظر آئیں
” اسلام علیکم !! شاہ بی بی ”
“وعلیکم السلام ورحمتہ وبرکاتہ ”
” آپ کب واپس آئیں مجھے تو پتا ہی نہیں چلا ”
” رات دیر سے واپسی ہوئی رخسار نے بتایا تم بھوکی ہی سوچکی ہو ۔۔۔”
” جی بس وہ ایسے ہی نیند آ گئی ۔۔ ”
” سویرا بیٹی اپنی پھپھو کی باتوں کا برا مت مانا کرو اور دیکھو آئندہ ایسے بھوکے پیٹ مت سونا !! کیوں اپنے باپ کو قبر میں پریشان کرتی ہوں ؟؟ ”
” تایا سائیں کیسے ہیں !! ”
“پہلے سے تھوڑا بہتر ہے !! ”
” گھر کب آئینگے !!”
” بس اس کی شوگر کنٹرول ہو جائے تو بڑا ڈاکٹر آپریشن کریگا پھر تمہارے تایا سائیں گھر آئینگے تم بس دعا کیا کرو !!”
” اچھا شاہ بی بی میں ناشتہ بنا لوں ۔۔۔۔”
” ہاں بنا لو اور سنو صغراں مائی کو ساتھ لگا لینا ” وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں
سویرا کچن میں آئی تو رخسار بجو اور صغراں مائی پہلے سے ہی ناشتہ بنانے میں لگی ہوئی تھیں ۔۔
” سویرا شاباش جلدی سے یہ دودھ کا گلاس ختم کرو اور پھر یہ برتن میز پر لگاؤ ۔۔ ” جلدی جلدی سے انڈے تلتے ہوئے رخسار نے ساتھ رکھا دودھ کا گلاس اس کی جانب بڑھایا
“بجو آپ !! ”
” بس اب ایک لفظ اور نہیں یہ گلاس جلدی سے ختم کرو !! “رخسار نے اسے ٹوکا
سب کا ناشتہ بن چکا تھا حویلی کے سارے افراد ناشتہ اپنے اپنے کمروں میں کرتے تھے ہاں دوپہر اور رات کا کھانا ساتھ کھایا جاتا تھا رخسار ملازموں کے ہاتھوں ناشتہ بھجوا رہی تھیں تبھی انٹر کام بجا رخسار نے بات کی اور مڑی
” مائی !! شاہ بی بی اور امی کا ناشتہ شاہ بی بی کے کمرے میں لے جاؤ ” رخسار نے ٹرے سجا کر صغراں کو تھمائی
” سویرا میں ان کو ناشتہ کرا کر آتی ہوں تمہارا انڈہ پراٹھا یہ رکھا تم بھی جلدی سے ناشتہ کر لو آج ہم دونوں بابا سائیں سے ملنے جائیںگے ۔۔” وہ اپنا اور اپنے شوہر کا ناشتہ لیکر باہر چلی گئی
سویرا نے بیدلی سے ناشتہ کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھی کمرے میں آکر بیٹھی ہی تھی کہ اس کی نظر میز پر رکھے رخسار کے فون پر پڑی وہ فون اٹھا کر اسے گھورتی رہی پھر رخسار کے کمرے کی جانب بڑھی اراداہ انہیں فون واپس کرنے کا تھا ۔۔۔
کمرہ خالی تھا اکرم بھائی آفس جا چکے تھے وہ فون کو ہاتھ میں دبوچے ہوئے رخسار کو ڈھونڈتی ہوئی شاہ بی بی کے کمرے تک آئی ۔۔۔
” رخسار بیٹی تمہارا تو شاہو سے رابطہ ہے اسے سمجھاؤ کے واپس آجائے اس کے آنے سے ہی تمہارے بابا سائیں کی طبعیت سنبھل جائیگی !! ” زاہدہ تائی کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی
” امی جی !! وہ نہیں مانتا کہتا ہے سویرا کو اس کی زندگی سے نکال دیں تب ہی آئیگا ۔۔۔” رخسار نے جواب دیا
” شاہ بی بی اب آپ ہی کچھ کریں !! اگر ان کو کچھ ہوگیا تو !!! ” زاہدہ تائی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں
” زاہدہ !! میں مجبور ہوں ایک طرف اگر پوتا ہے تو دوسری طرف پوتی !!!! ”
سویرا خاموشی سے دروازے سے ہٹ گئی اس کی ذات سے آج اس کے پیارے تکلیف میں تھے ۔۔۔
” اے سویرا چل جلدی سے کچن میں جا اور سارے برتن صاف کرکے رکھ ۔۔۔” پاس سے گزرتی پھپھو نے اسے کچن کا راستہ دکھایا
سویرا کیچن میں ناشتے کے برتن دھونے میں مصروف تھیں جب رخسار اندر داخل ہوئی اور سویرا کو برتنوں کے ڈھیر سے الجھتا دیکھ کر وہ تیزی سے اس کے پاس آئی
” سویرا !!! یہ تم برتن کیوں دھو رہی ہو تو صغرا مائی کدھر ہے ؟؟ ویسے بھی تمہارے سر پر کیا کم کام ہیں ، جب سے بابا سائیں ہسپتال گئے ہیں پھپھو نے بھی گھر کی ساری ذمہ داری تم پر ڈال دی ہے آنے دو بابا سائیں کو ایک ایک بات بتاؤں گی انہیں ۔۔۔۔” رخسار نے اس کے ہاتھ سے برتن چھڑا کر نلکا بند کیا
” رخسار بجو کرنے دیں !! بس تھوڑے سے ہی تو برتن ہے پھوپھو ناراض ہو جائیں گی !! ” وہ عاجزی سے بولی
” غضب خدا کا یہ تمہیں تھوڑے سے برتن دکھتے ہیں ویسے یار تم بھی کیا سوچتی ہوگی کہ میں منہ پر کتنا پیار جتاتی ہوں اور جب تم پر پھوپھو ظلم کرتی ہیں تو چپ رہ جاتی ہوں ” وہ افسردگی سے بولی
” نہیں نہیں رخسار بجو ایسا مت کہیں ایک آپ ہی تو ہیں جو مجھے پیار کرتی ہیں ورنہ میں تو !!! میں تو کچھ بھی نہیں ” اس کی آنکھوں میں نمی امنڈ آئی
“پھوپھو تم پر اس قدر ظلم ڈھاتی ہیں اور تم افف کئیے بغیر ان کی ہر بات کو مانتی ہوں!! کام کئیے جاتی ہے !! یاد رکھو سویرا تم بھی اس گھر کی بیٹی ہوں انکار کرنا سیکھو اپنا حق پہچانو خدا کے لئے اپنے آپ کو اس طرح ختم مت کرو !! دیکھنا ایک دن آئے گا جب شہریار پلٹے گا اور تمہیں اس حویلی سے دور بہت دور لے جائے گا پریوں کے دیس میں۔۔ !! ”
سویرا نے ایک نظر رخسار کو دیکھا اور پھیکی سی ہنسی ہنس کر نلکا کھول کر برتن دھونے لگی
“اچھا چلو دھو لو برتن لیکن ایک گھنٹے کے اندر اندر تیار ہوجاؤ !! میں بھی تیار ہو کر آتی ہوں مل کر بابا سائیں سے ملنے چلتے ہیں مجھے پتا ہے وہ ہمیں یاد کر رہے ہوں گے۔۔۔” رخسار اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کچن سے نکل گئی
سویرا جلدی جلدی سارے کام نپٹاکر اپنے کمرے میں آئی الماری کھول کر ایک سادہ سا جوڑا نکالا اور جلدی سے تیار ہو گی باہر نکلی تو سامنے ہی رخسار اور زاہدہ تائی چادراوڑھے اس کا انتظار کر رہی تھی
“بجو میں ریڈی ہوں !! ” وہ بولتی ہوئی اندر آئی
” رخسار تو ہاسپٹل جا رہی !! بی بی تم کہاں جا رہی ہو ” پاس بیٹھی فرزانہ پھپھو نے اعتراض کیا
“پھوپھو میں سویرا کواپنےساتھ ہسپتال لے کر جا رہی ہوں !!! پرسوں جب میں ہسپتال گئی تھی تو بابا سائیں اسے یاد کر رہے تھے۔۔۔” رخسار کھڑے ہوتے ہوئے بولی
“کوئی ضرورت نہیں ہے !! اس کے منحوس وجود کو ہسپتال لے جانے کی !! اپنے ماں باپ کو تو کھا چکی ہے اب کہیں میرے بھائی کو کچھ نہ ہو جائے۔۔۔بس یہ نہیں جائیگی ۔۔۔” وہ قطعی لہجے میں بولیں
” امی آپ پھپھو سے کہئیے نا !!سویرا کو جانے دیں ۔۔۔” رخسار نے زاہدہ تائی کو مخاطب کیا
“رخسار بیٹی بحث نہیں کرتے !! اور سویرا تم اندر جاؤ شاہ بی بی گھر پر رک رہی ہیں ان کا خیال رکھنا اور فرزانہ باجی آپ ہمارے ساتھ چلیں ۔۔” زاہدہ کھڑی ہو گئی
سویرا بے یقینی سے اپنی ماں جیسی تائی کا بدلتا روپ دیکھ رہی تھی ۔۔۔
” اے لڑکی کھڑی کیا دیکھ رہی ہے ؟ جا اندر جا …!!!! ” فرزانہ نے اس کا سکتہ توڑا
_______________________________________
سویرا آنکھوں میں آۓ آنسو صاف کرتے ہوئے پلٹ کر واپس اپنے کمرے میں آگئی آج اس کا دل دکھ سے پھٹ گیا تھا اس کی تائی جنہوں نے اسے اتنے پیار سے پالا اور نکاح کے بعد بھی اتنا سپورٹ کیا آج وہ بھی بدل گئی تھی۔۔۔
وہ کمرے میں چکر پر چکر کاٹ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیا کریں کہ سب ٹھیک ہو جائے اور لوگ اس سے نفرت نہ کریں۔۔۔
تھک ہار کر وہ وضو کرنے چلی گئی اور پھر جائے نماز بچھا کر نفل پڑھنا شروع ہو گئی…..
نماز پڑھ کر دوپٹہ ڈھیلا کرتے ہوئے وہ شاہ بی بی کے کمرے میں کھانے کا پوچھنے آئی تھی
“سویرا تم ہسپتال کیوں نہیں دی گئی ؟؟ ” شاہ بی بی اسے دیکھ کر حیران ہوگئی
” بس بی بی ایسے ہی !! آپ بتائیں کھانے میں کیا پکانا ہے ۔۔۔؟ ” سویرا نے بات ٹالی
“ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو!!! ” انہوں نے اسے پاس بلایا جو بھی تھا وہ ان کے سب سے لاڈلے چھوٹے بیٹے کی نشانی تھی
” مجھے سب خبر ہے یقینا فرزانہ تمہیں چھوڑ گئی ہو گی !! آنے دو اس کو آج !! دیکھو ایک بات تم بھی سمجھ لو سویرا کتنی بار سمجھا چکی ہوں بیٹا یہ گھر تمہارا بھی ہے تم فرزانہ کی باتوں کو دل پر مت لیا کرو اس کی باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا کرو ۔۔۔۔” وہ پانی کا خالی گلاس اسے پکڑاتے ہوئے بولیں
” وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا تم خوش رہا کرو فرزانہ کے سامنے مت آیا کرو اور فکر مت کرو تمہارے تایا سائیں جلد ٹھیک ہو کر گھر آجائیں گے پھر کسی کی ہمت نہیں ہوگی تم پر انگلیاں اٹھانے کی ۔۔۔۔۔”
“تم نے سنا بھی ہے میں کیا کہہ رہی ہوں بس اس خالی گلاس کو ہی گھورے چلی جا رہی ہوں طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری؟؟؟ ” شاہ بی بی نے اسے ٹوکا
“شاہ بی بی میری زندگی بھی تو ایسے ہی ہے نا بالکل خالی کھوکھلی ویران اس تانبے کے گلاس کی طرح کوئی رنگ ہی نہیں ہے ، میری زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں ہے۔۔۔۔” وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولی
“تم ایسا کیوں سوچتی ہوں تمہارے تایا تم سے کتنا پیار کرتے ہیں میں تم سے کتنا پیار کرتی ہوں خدا کے لئے خود پر ترس کھانا چھوڑ دو!!! ” انہوں نے اسے ٹو کا
“شاہ بی بی آپ مجھ سے پیار کرتی ہیں ؟؟ بتائیں نہ کرتی ہیں نا ؟؟ شاہ بی بی میں سسک سسک کر زندگی نہیں گزارنا چاہتی آپ مجھ پر رحم کریں !!! آپ پلیز انہیں واپس پاکستان بلالیں آپ بلائینگی تو وہ ضرور آئینگے !!! آپ ان کی دوسری شادی کروا دیں پلیز !!! مجھے مجھے سب کی نفرت سے بچا لیں !!! میں تائی امی کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی !! آپ کو میرے بابا کا واسطہ !!! ” وہ بری طرح سسک اٹھی
” اور تم ؟؟ سویرا تمہارا کیا ہوگا ؟؟ ” انہوں نے بغور اپنی پوتی کو دیکھا
” میری خاطر پورے گھر کو داؤ پر مت لگائیں میرا انٹر کا رزلٹ آنے والا ہے آپ پلیز میرا داخلہ میڈیکل کالج میں کروا دیں مجھے ہاسٹل بھیج دیں میں تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو !!!” اس نے امید بھری نظروں سے انہیں دیکھا
” اچھا تم جاؤ آج آرام کرو کام کاج صغراں دیکھ لے گئی ۔۔۔” انہوں نے اسے ٹالا
” شاہ بی بی !! آپ ۔۔۔۔”
” سویرا تم جاؤ !!! ابھی میں زندہ ہوں فکر مت کرو مجھے سوچنے دو ۔۔۔۔”
_______________________________________
شہریار آفس میں ایک ڈیلیگیشن سے میٹنگ میں مصروف تھا ۔۔۔
” اوکے مسٹر شہریار تو ڈیل فائنل ؟؟ ” کے اینڈ کو کے مالک جونس نے پیپر سائن کرکے سر اٹھایا
” یس جونس !! اٹس ڈن !! ” شہریار نے ہاتھ ملایا وہ بیحد خوش تھا لندن کا ہر بزنس مین اس بلین ڈالر اکاؤنٹ کو حاصل کرنا چاہتا تھا جو آج اس کے پاس تھا کامیابی کی راہ میں ایک اور قدم ۔۔
” شہریار بڈی اب پارٹی ڈیو ہے !! ” تیس سالہ جونس نے کہا
“جی ضرور میں آج ہی ریسٹورنٹ بک کرواتا ہوں ؟! ”
” آج نہیں بڈی !! میں ایک ماہ کیلئے ڈلاس جا رہا ہوں واپس آکر تمہارے گھر پر ڈنر کرونگا ۔۔۔۔” جونس نے اپنے نئے پارٹنر شہریار کو توصیفی نگاہوں سے دیکھا
“Done will do dinner at my place After you come back … _”
جونس کے جانے کے بعد وہ ریلیکس ہو کر سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔۔۔
” سر !!مس عروہ آپ سے ملنا چاہتی ہیں !! ” انٹرکام پر اس کی سیکریٹری کی آواز گونجی
” اوکے سینڈ ہر ان !!! بھیج دو ….” وہ سکون سے بولا
” ہیلو شیری !!!۔۔۔۔” عروہ ایک خوشگوار جھونکے کی مانند اندر آئی
” کیا بات ہے آج تو اسمائل کررہے ہوں ۔۔۔۔” وہ اس کے پاس آکر کھڑی ہوئی
شہریار نے ایک نظر عروہ کے خوبصورت چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھا کوئی تو تھا جو اس کی خوشیوں میں خوش تھا شہریار نے دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑا اور پھر اچانک اسے گھسیٹ کر اپنی آغوش میں لے لیا ۔۔۔
عروہ حیران تھی یہ اسٹون مین جو شادی سے پہلے ہاتھ پکڑنا بھی گناہ سمجھتا تھا آج اسے اپنی آغوش میں لئیے اس کے بالوں میں منھ چھپا رہا تھا !!! عروہ نے ایک آسودہ سی سانس لی اور اپنی بانہیں شہریار کے گلے میں ڈال دیں
شہریار عروہ کو لیکر بیخود ہورہا تھا جب اس کا فون بجنا شروع ہوا ۔۔۔۔۔
شاہ بی بی کالنگ !!!! اس کی نظر فون پر پڑی
اس نے عروہ کو آرام سے خود سے علیحدہ کیا ۔۔۔
” کیا ہوا شیری !!! ؟؟ ” عروہ بدمزہ ہوئی
شہریار فون کو گھورے چلے جا رہا تھا
” شیری کیا ہوا ؟؟ کس کا فون ہے ؟؟ ایسے کیوں فون کو گھورے جا رہے ہو ؟؟ ” وہ زچ ہوئی
” عروہ تم جاؤ !! ” شہریار نے فون اٹھایا اور کان سے لگاتا ہوا آفس سے باہر نکل گیا
________________________________________
یہ شہر کے ایک بہت ہی جدید ہاسپٹل کا وی وی آئی پی کمرہ تھا جس میں باوقار سے بابا سائیں لیٹے ہوئے تھے ان کے ایک ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور چہرے پر سوچ کی پرچھائیاں چھائی ہوئی تھیں تبھی ہلکے سے کھٹکا ہوا اور دروازہ کھول کر ان کی جان سے عزیز بیگم زاہدہ ان کے پیچھے پیچھے فرزانہ اور رخسار اندر داخل ہوئی ۔۔۔
“اسلام علیکم بابا سائیں !! ” رخسار نے سلام کیا
“وعلیکم السلام !! بیٹی ” وہ اس کے پیچھے دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے
“اب آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟ ” زاہدہ بیگم نے ان کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا
بابا سائیں نے ایک نظر زاہدہ کی لال سرخ آنکھوں کو بغور دیکھا ۔۔۔
” آپ اپنا خیال نہیں رکھ رہی ہیں!! ” وہ ناراض لہجے میں بولے
” بھائی صاحب !! بھابھی تو بس دن رات روتی رہتی ہیں پہلے ہی ایک شیرو کا دکھ کم تھا جو اب آپ بھی اس منحوس لڑکی کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں ۔۔۔” فرزانہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا
” پھپھو پلیز ابھی ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ایسی باتیں مت کریں !!! ” رخسار نے انہیں ٹوکا
“زاہدہ بیگم !! سویرا کدھر ہے ؟؟ ” وہ ساری باتیں اگنور کرتے ہوئے پوچھنے لگے
” وہ !! وہ گھر پر شاہ بی بی اکیلی تھیں اس لئیے ان کے ساتھ رک گئی !!! ” زاہدہ بیگم تھرماس سے یخنی نکال کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں
” مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی میں ایک ہفتے سے ہسپتال میں ہوں اور آپ اس بچی کو ایک دن بھی مجھ سے ملانے نہیں لائیں !!! ” انہوں نے تاسف سے کہا
” بھائی صاحب !! بھابھی سے ناراض مت ہوں میں نے اسے منع کیا تھا ۔۔۔” فرزانہ نے کہا
” کیوں ؟؟ فرزانہ کیوں منع کیا ؟؟ وہ میری بیٹی ہے میرے مرحوم بھائی کی نشانی !! آئندہ اگر کسی نے بھی اسے میرے پاس آنے سے روکا تو !!! ” ان کا سانس اکھڑنے لگا
رخسار نے جلدی سے بیل بجا کر نرس کو بلایا جلد ہی نرس اور ڈاکٹر اندر داخل ہوئے
” ریلیکس سر !! ”
ڈاکٹر نے انہیں چیک کر کے سکون کا انجکشن دیا اور نرس کو ڈرپ تبدیل کرنے کی ہدایت دینے لگا دیکھتے ہی دیکھتے بابا سائیں غنودگی میں چلے گئے ۔۔۔
” دیکھئیے ان کی حالت ابھی بہتر نہیں ہے شوگر کنٹرول نہیں ہورہی اور بلڈ پریشر بھی نارمل نہیں ہے اس وقت کسی بھی قسم کا ذہنی دباؤ ان کیلئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کوشش کریں انہیں بالکل بھی اسٹریس نہیں ہو ۔۔۔” اس نے تینوں خواتین کو سمجھایا ۔۔
_______________________________________
شاہ بی بی کے کمرے سے نکل کر سویرا پہلے کچن میں گئی جہاں صغریٰ کام میں مصروف تھی اسے کھانا پکانے کی ہدایات دے کر وہ ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی اپنے کمرے میں پہنچی اور خاموشی سے بیڈ کے کنارے پر آ کر بیٹھ گئی اور بہت دیر تک اپنی جھولی میں رکھے ہاتھوں کو تکتی رہی بائیں ہاتھ میں ہیرے کی ایک نازک سی انگوٹھی جگمگا رہی تھی جو نکاح کے وقت شہریار نے اسے اپنے بابا سائیں کے کہنے پر مجبوراََ پہنائی تھی اس وقت وہ بچی تھی رویوں کو نہیں سمجھتی تھی لیکن آج وہ ایک سمجھدار دوشیزہ کا روپ دھار چکی تھی اسے اپنے اور شہریار کے رشتے کا احساس تھا شہریار کی بیگانگی کا اس کے وجود سے انکاری ہونے کا اپنے رد ہونے کا بھرپور احساس تھا ۔۔۔۔۔
اس نے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اسے اپنے بابا یاد آرہے تھے !! دل بہت دکھا ہوا تھا وہ پھوٹ پھوٹ کر دل کھول کر رو رہی تھی اپنی قسمت کو اپنے مقدروں کو رو رہی تھی ۔۔۔
” اتنی بےعزتی اور بے توقیری ،اللہ کبھی بھی کسی کو یتیم اور محتاج نا بنانا ۔۔۔” وہ سسک رہی تھی
بابا سائیں کی شفقت، تائی امی کی محبت، رخسار بجو کی بے لوث دوستی نے اسے سنبھال رکھا تھا لیکن اب ناجانے کیوں اسے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب رشتے اسے ایک ایک کرکے چھوڑ جائینگے ۔۔۔
_______________________________________
سویرا کو آرام کرنے کا کہہ کر وہ سوچ میں ڈوب چکی تھیں جو بھی تھا اب اس مسئلے کو حل کرنا تھا اس سے پہلے نازک رشتوں کی دراڑ بڑھتے بڑھتے ایک بڑے خلا میں تبدیل ہوجاتی بہتر تھا اس دراڑ کو بھر دیا جاتا !!
کافی سوچ بچار کے بعد وہ جاء نماز بچھا کے نفل پڑھنا شروع ہوگئیں ان کے نزدیک ہر مشکل کا حل سوہنے رب کی عبادت نماز پڑھنے میں تھا۔۔۔
نفل عبادت سے فارغ ہو کر وہ پرسکون ہو چکی تھی انہوں نے سرہانے رکھا فون اٹھایا
” زاہدہ !! آج فرزانہ کو ہسپتال میں رات رکنا ہے، اسے بتا دو اور تم اور رخسار بھی سلیم سے ملکر جلد واپس آؤں ۔۔۔” انہوں نے ہدایت دی
فون رکھ کر انہوں نے انٹرکام ملایا
” صغراں !! زاہدہ بیگم اور رخسار جیسے ہی گھر آئیں انہیں میرے کمرے میں بھیجو ۔۔۔” ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں
_______________________________________
عصر کی نماز کے بعد زاہدہ بیگم اور رخسار گھر واپس لوٹیں تو صغراں نے انہیں شاہ بی بی کا پیغام دیا وہ دونوں چادر اتار کر تہہ کرتی ہوئی شاہ بی بی کے کمرے کی جانب بڑھیں
” اسلام علیکم !! ” اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا
“وعلیکم السلام ” انہوں نے سر کے اشارے سے جواب دیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا
” شاہ بی بی آپ نے یاد کیا ؟؟ ” زاہدہ تائی بیٹھتے ہوئے گویا ہوئیں
” اب سلیم کیسا ہے اس کی طبیعت کیسی ہے ” انہوں نے سنجیدگی سے بیٹے کی طبیعت پوچھی
” ابھی تو ویسے ہی ہیں بڑا ڈاکٹر کہتا ہے شوگر کنٹرول ہوگی تب ہی کچھ کرینگے ۔۔۔”
” زاہدہ بیگم !! ہم نے آج بہت سوچ سمجھ کر ایک فیصلہ لیا ہے ۔۔۔” وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں
” جی شاہ بی بی !! آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر !! آپ حکم کریں ۔۔۔”زاہدہ بیگم نے ان کے ہاتھ تھامے
” سویرا ہماری پوتی !! ہمارے دل کا ٹکڑا ہے تو دوسری طرف شاہو ہماری جان ہے ہم نے یہ رشتہ بہت سوچ سمجھ کر جوڑا تھا بہو !! اور وہ تو تمہارے اپنے ہاتھوں کی پلی بچی ہے اور میں اب تم سب کے رویوں کو دیکھ رہی ہوں اس لئیے میں نے سوچا ہے کے سویرا کی رخصتی کردی جائے ۔۔۔”
” مگر !!! ” زاہدہ بیگم نے کہنا چاہا
” اگر مگر کچھ نہیں !! کیا تمہیں سویرا اپنی بہو کے روپ میں قبول ہے یا نہیں اپنی بات کرو زاہدہ !! ” وہ ان کی بات کاٹ کر دو ٹوک لہجے میں بولیں
” شاہ بی بی سویرا میری بیٹی ہے میں تو خود کب سے اسے رخصت کروانا چاہتی ہوں مگر شاہو !! وہ تو مانتا ہی نہیں شاہ بی بی پانچ سال ہونے والے ہیں بات تک نہیں کرتا بتائیں میں کیا کروں ؟ ” زاہدہ لاچاری سے بولیں
رخسار بچے یہ میرا فون پکڑ اور شاہو کا نمبر ملا ابھی سب کے سامنے بات ہوگی ۔۔۔” وہ اپنا فون رخسار کی جانب بڑھاتے ہوئے بولیں
رخسار نے ان کے ہاتھ سے فون لیا ایک نظر اپنی پریشان بیٹھی مان کو دیکھا اور پھر فون ملا کر ہینڈ فری کرکے میز پر رکھ دیا ۔۔
بیل جا رہی تھی اور وہ سب دم سادھے فون کو دیکھ رہے تھے ۔۔
_______________________________________
شہریار اپنے فون پر شاہ بی بی کا نام جگمگاتا دیکھ کر ایک دم چونک کیا اس نے تیزی سے عروہ کو خود سے جدا کیا اور اسے واپس جانے کا کہتا ہوا فون اٹھا کر کانوں سے لگاتے ہوئے سیدھا باہر نکل آیا ۔۔۔
“شاہ بی بی !! شاہ بی بی یہ آپ ہی ہیں نا !!!!” وہ ابھی تک بےیقینی کا شکار تھا ۔۔۔
گاڑی کے قریب پہنچ کر تیزی سے ڈرائیور کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا
” السلام علیکم ، کتنے سالوں کے بعد آپ نے مجھے یاد کیا ہے مجھے تو لگا آپ مجھے اپنے شاہو کو بھول ہی گئی ہیں !!” نا چاہتے ہوئے بھی وہ شکوہ کرگیا
” وعلیکم اسلام !! راستہ تو تم بھولے بیٹھے ہو !! ” ٹہرے ہوئے لہجے میں شاہ بی بی کی آواز ابھری
“آپ سب جانتی تو ہیں ! میں تو آپ کو بابا سائیں کو امی کو دیکھنے کے لئے تڑپ رہا ہوں لیکن لگتا ہے ادھر کسی کو میری فکر نہیں خیر آج اتنے سالوں کے بعد آپ نے مجھے یاد کیا ہے کہئیے کیا حکم ہے۔۔ ” وہ مؤدبانہ انداز میں بولا
“دیکھ شہریار تو گھر چھوڑ گیا ہمارے فیصلوں سے ٹکرا گیا پھر بھی ہم نے کچھ نہیں کہا بلکہ الٹا تیرے بینک میں لاکھوں پاؤنڈز ڈلوائے کہ تجھے پریشانی نہ ہو ، تو نے پلٹ کے ، ضد میں آکر مڑ کے نہیں دیکھا فون نہیں کیا اور ادھر ہم تیری جان و مال کا صدقہ دیتے رہے چار سال سے بھی اوپر ہو گئے ہیں تجھے گھر چھوڑے اب تو اپنی ضد چھوڑ دے واپس آجا !! تیرا باپ اسپتال میں پڑا ہے بس اب بس کر اور واپس حویلی آجا ۔۔۔”
“میں آجاتا ہوں مگر پھر اس کا اب کیا کریں گی؟؟ ” اس نے درپردہ سویرا کی بات کی
“بس تو آجا !! تو تیری دلہن کی رخصتی کروالینگے ۔۔” وہ اطمینان سے بولیں
“مجھے رخصتی نہیں کروانی شاہ بی بی آپ یہ اچھی طرح جانتی ہیں ۔۔۔” وہ آستین فولڈ کرتا ہوا بلیو ٹوتھ کانوں میں لگا کر ڈرائیو کرنے لگا
“کیا مطلب !! بالکل نہیں کروانی یا ابھی نہیں کروانی؟؟؟” سنجیدگی سے پوچھا
“یہ رشتہ آپ لوگوں نے زبردستی جوڑا تھا میں کبھی بھی اسے رخصت نہیں کرواؤں گا آپ اس رشتے کو ختم کردیں تو میں بھی واپس آجاونگا ۔۔۔”
“رشتہ ختم کردیں؟؟؟ وہ تیری عزت ہے عزت تو اس سے ایسے منھ نہیں موڑ سکتا !! بچپن سے تیرے نام پہ بیٹھی ہے تیرے نکاح میں ہے !! تو اتنا بے غیرت کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنی نکاحی بیوی سے رشتہ توڑ کے اسے کسی اور کے حوالے کر دے ؟؟؟ آخر تجھے اعتراض کیا ہے ؟؟ ”
” شاہ بی بی پلیز میری بات کو سمجھیں وہ مجھ سے عمر میں بہت چھوٹی ہے حویلی میں پلی بڑھی ایک دبو سی مشرقی لڑکی میرے ساتھ نہیں چل سکے گی میں دنیا گھومنا چاہتا ہوں میں اپنی بیوی کے ساتھ مل کے قدم سے قدم ملا کر زمانے کا سامنا کرنا چاہتا ہوں مجھے اپنی ہم عمر بیوی چاہیے پڑھی لکھی ماڈرن مضبوط لڑکی !!!” اس نے ہزاروں بار کی کہی بات دھرائی
“جب وہ تیرے نکاح میں آئی تھی اس وقت بچی تھی اور اب وہ جوان ہو چکی ہے ہمارے سات پشتوں میں اتنی خوبصورت لڑکی نہیں گزری ہے اور پڑھ بھی رہی ہے انٹر کا امتحان دیا ہے ابھی !! سگھڑ ہے نمازی ہے اور بڑے صاف دل کی لڑکی ہے میری سویرا ۔۔۔۔” انہوں نے تحمل سے کہا
“میں مانتا ہوں وہ بہت اچھی لڑکی ہے اس میں سبھی کچھ ہے مگر پھر بھی اس میں مجھے صرف ایک کزن روتی دھوتی بچی نظر آتی ہے میں اپنی پوری زندگی ایسے بے جوڑ رشتے میں بندھ کر نہیں گزار سکتا مجھے اپنا ہم عمر ساتھی چاہیے۔۔۔۔” وہ گویا ہوا
“ایسی جیون ساتھی تو خوش قسمتی سے ملتی ہے !! شہریار تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے تمہیں اس لڑکی کے قابل نہیں ہوں۔۔۔” ان کے لہجے میں بلا کا دکھ تھا
“شاہ بی بی !! آپ ایک دفعہ میرا نظریہ بھی تو دیکھیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ بے جوڑ شادی میرے ساتھ ناانصافی ہے کم از کم جیون ساتھی تو انسان کی پسند کا ہونا چاہیے ؟؟ یا ساری زندگی انسان اپنے ناپسندیدہ شخصیت کے ساتھ گزار دے آپ ایک دفعہ میری بات کو تو سمجھیں میری اس سے نہیں بنتی نا ہی بنے گئی !!!” وہ زچ ہوا
“دیکھ شاہ !! دنیا میں میں نے ایسے بہت سے جوڑے دیکھے ہیں جن کی آپس میں نہیں بنتی ذہنی مطابقت نہیں ہوتی خیالات نہیں ملتے اور وہ الگ ہو جاتے ہیں رشتے ٹوٹ جاتے ہیں مگر تیری طرح بغیر جانے، بغیر دیکھے بغیر پرکھے کون اپنی بیوی کو چھوڑتا ہے ؟؟ نکاح ایک پاکیزہ رشتہ ہے اسے مذاق مت بنا !! میں تیری ہر بات مان لو گی لیکن پہلے تو سویرا کو جان تو لے پرکھ تو لے ایسے مفروضات کی بنا پر اسے چھوڑنا ظلم ہے اور اب وہ کوئی اتنی بھی بچی نہیں ہے آٹھ دس سال کا فرق تو کوئی فرق نہیں ہوتا ۔۔۔۔” انہوں نے سمجھداری سے بات آگے بڑھائی
“آپ کہنا کیا چاہتی ہیں ؟؟” وہ الجھا
” دیکھ ادھر پوری برادری کو پتا ہے کہ سویرا تیرے نکاح میں ہے اب اگر تو اسے ملے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہے تو ہمارے خاندان کی بنیادیں ہل جائیں گی کوئی بھی پھر آپس میں رشتہ کرنے کی نہیں سوچے گا اس لئیے پتر تو واپس آ !! اسے رخصت کروا پھر سال بھر بعد بھی اگر تجھے وہ نا بھائے تو پھر تیرا کوئی انتہائی فیصلہ کرنا حق پر ہوگا !! سوچ لے اس طرح تیری سسکتی تڑپتی ماں بھی تجھ سے مل لیگی اور تیرے باپ کو بھی چین ملیگا ۔۔۔” شاہ بی بی نے سمجھایا
” آپ کہنا کیا چاہتی ہیں !! کے اگر ایک سال کے عرصے میں میری اس سے نہیں بنی تو میں اسے طلاق دے سکتا ہوں ؟؟ آپ اور بابا سائیں میرا ساتھ دینگے ؟؟ ” اس نے بے یقینی سے پوچھا
” ہاں مانا کے ہمیں بہت دکھ ہوگا لیکن یہ اطمینان تو ہوگا کہ تو نے کوشش کی اس رشتے کو نبھانے کی !! میں مرنے کے بعد اپنے فاروق کو منھ تو دکھا سکونگی ۔۔۔۔” وہ سنجیدگی سے بولیں
” ٹھیک ہے شاہ بی بی !! مجھے منظور ہے لیکن آپ بھی یاد رکھئیے گا کہ بات صرف ایک سال کی ہے اس کے بعد میں آزاد ہونگا اپنی پسند سے شادی کرکے زندگی گزارنے کیلئے ۔۔۔” وہ توقف کر کے ٹہرے ہوئے لہجے میں بولا
“چل اب جلدی سے فلائٹ بک کروا اور آجا !! ” انہوں نے پیار سے کہا
” میں ٹھیک تین بعد پاکستان میں ہونگا ۔۔۔”
_______________________________________