رضی مجتبیٰ
شاعری کی کوئی بھی تعریف کرنا اس لیے محال ہے کہ شاعری میں موجود ابہام، جس کے بغیر شاعری ہی ممکن نہیں، اسے انتہائی Complexبنادیتا ہے۔ اور غالباً اس ہی وجہ سے ارسطو نے کہا تھا کہ شاعری فلسفہ اور تاریخ دونوں سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے۔ عبداللہ جاوید صاحب نے اپنی ایک کتاب کے پیش لفظ میں جو بات خارج اور داخل اور صد رنگ کے پیچھے یک رنگ کی موجودگی کے بارے میں کہی ہے، اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ان کی شاعری نے آج کے بیشتر جدید شاعروں کی طرح روایت سے ایک Absurdبغاوت نہیں کی بلکہ روایت کو اپناکر جدیدیت کا Back Dropبنایا ہے۔ ’’موجِ صد رنگ‘‘، حصارِ امکاں‘‘ اور ’’خواب سماں‘‘ کی شاعری کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ عبداللہ جاوید صاحب آج کی دنیا کی Sensibilityمیں ڈوبے ہوئے ہیں مگر انھوں نے اس Sensibilityمیں روایت کا رنگ بھر رکھا ہے۔ اگرچہ کوئی شعر کسی موضوع کو سامنے رکھ کر نہیں لکھا جاتا ہے بلکہ ’’اندھیرے‘‘ میں تخلیق ہوتا ہے مگر جدید دور کے پیچیدہ مسائل اور ان سے پیدا ہونے والی محسوساتی اور جذباتی پیچیدگی کی نبض عبداللہ جاوید صاحب کے یہاں تقریباً ہر تخلیق میں چلتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ عبداللہ جاوید صاحب، جن کو مغرب کے ادب سے بھی گہری شناسائی ہے، کہاں تک شاعری میں Profundityیا تعمق کی اہمیت کو مانتے ہیں۔ مگر میں چونکہ غالب اور شیکسپیئر کا دیوانہ ہوں اس لیے میں ہر شاعر کے یاں تعمقِ فکر اور گداز دِل دونوں کو باہم دیکھنے کا مشتاق رہتا ہوں۔ حرف و بیاں سے متعلق عبداللہ جاوید صاحب کے ہاں ایک بے نیازی پائی جاتی ہے اور اس لیے کہ بقول ان کے ان پر شعر نازل ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ ایک افلاطونی نظریہ ہے مگر عبداللہ جاوید کے یہاں یہ نظریہ نہیں ایک وتیرہ ہے۔ مجھے عبداللہ جاوید صاحب کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری اپنے آپ سے گریز اور حقیقت کے نکتۂ اتصال سے گریز کے جمال سے تابندہ ہے۔ اپنی ذات سے فرار بھی ان کے ہاں پایا جاتا ہے اور غالباً یہی فرار ان کی صد رنگی کو جلا بخشتا ہے۔
عبداللہ جاوید صاحب کو جدیدیت کے تقاضوں کو نبھانے میں کمال حاصل ہے۔ ان کے شعر میں جدیدیت روایت سے پیدا ہوتی ہے اور یہی ان کے شعر کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ ان کے لیے دامانِ غزل تنگ اس ہی لیے نہیں کہہ ان کے پاس روایت اور جدیدیت دونوں کی وسعتیں موجود ہیں۔ ان کے اشعار میں جدید احساس ’’میریت‘‘ لیے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ بھی میرؔ کی طرح ساری کائنات کو اپنی شاعری میں سمونے کے آرزو مند نظر آتے ہیں۔ مگر یہ شعوری نہیں ایک لاشعوری کوشش ہے۔ ورنہ تو ان کی شاعری میں ابہام کا حُسن باقی نہ رہتا۔ مجھے ان کی شعری مجموعوں میں جو شعر پسند آئے ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
یہ بھی بہت ہے سینکڑوں پودے ہرے ہوئے کیا غم جو بارشوں میں کوئی پھول مر گیا
وہ بھی رہتا ہے اسی دنیا میں خاک دنیا سے کنارا ہوگا
جنوں سے کم تو نہیں ہے یہ شدتِ احساس جو شاخِ گل کہیں لچکی تو سانپ لہرایا
ٹھہرے پانی کی طرح جینے سے بہتر ہے یہی صورتِ آبِ رواں خود کو گزرتا دیکھنا
ڈوبنے پر مجھے معلوم ہوا جس میں ڈوبا وہی دریا میں تھا
ہم اُسے دیکھنے کہاں جائیں وہ تو اک شخص ہے گماں جیسا
چار کمروں کے مکاں میں اپنے اک پچھل پائی بھی آبیٹھی ہے
اپنی ہی سوچ پہ چلنا چاہے اپنی ہی سوچ سے ڈر جائے جی
نئی نسل کے وہ شعرا جو جدید بننے کی آرزو میں Triggeringاور کسی حد تک پیروڈی کے سے شعر کہتے ہیں ان کو عبداللہ جاوید صاحب کی شاعری کو بغور پڑھ کر ان سے سیکھنا چاہیے کہ جدّت کیسے پیدا کی جاتی ہے۔ میں نے خود بھی ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں شاعری بڑے شوق سے پڑھتا ہوں لیکن شاعری کے نقّادوں کی طرح رائے نہیں دے سکتا کہ میں نے اسے کبھی اس نظر سے پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی مجھ میں اتنی صلاحیّت ہے کہ موزوں طبع ہونے کا دعویٰ کر سکوں۔لیکن جب کچھ اشعار دماغ سے گزرنے کے بعد دل کے کسی پوشیدہ گوشے میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور پھر اس سے آگے روح میں اگر دا خل نہ بھی ہوسکیں لیکن اس کے ارد گرد منڈ لا نے لگیں ۔ست رنگی تتلیو ں کی طرح ۔تو یقین جا نئے کہbliss کی سی کیفیت طا ری ہو جا تی ہے اور یہی کیفیت آپ کے مجموعے کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوئی۔ آپ نے نجا نے کتنی جگر سوزی سے یہ کلام تخلیق کیا ہوگا۔ مجھے تو یہ عطیہ بے دام ہی مل گیا۔ از حد مسرت ہوئی اور بے حد ممنون بھی ہوں۔
دیوندر اِسر