کتاب: اوراقِ ناخواندہ
شخصی خاکے، سال: 2016ء، صفحہ: 147
کبھی کبھی ’’دادا‘‘ بہت یاد آتے ہیں۔ ’’دادا‘‘ سے میری مراد رئیس فروغؔ ہیں۔ ایک بھولے بسرے شاعر، نہایت عمدہ، شریف النفس انسان۔ آدمی نہیں، انسان۔ آدمی تو خواہشات میں لت پَت ہوتا ہے۔ انسان وہ ہوتا ہے جو خود کو خواہشات سے بڑی حد تک آزاد کر لے۔ ایسا انسان بننے کے لیے بہ قول میرؔ فلک برسوں پھرنا پڑتا، خاک چھاننی پڑتی ہے، تب خاک کے پردے سے وہ برآمد ہوتا ہے جسے انسان کہتے ہیں۔ دادا سچ مُچ کے انسان تھے۔ تھے تو گوشت پوس کے۔ ویسے ہی لوگوں کے بیچ رہتے تھے جیسے سب رہتے ہیں مگر ان کے رہنے سہنے اور زندگی کو برتنے کا اسلوب و انداز الگ تھا۔ کبھی کسی کی برائی نہ کرتے، کسی کو بُرا نہ کہتے۔ شعر کہتے خوب کہتے مگر بہت اصرار کرنے پر سناتے۔ شاید اس خیال سے کہ اصرار کرنے والے کا دل نہ ٹوٹ جائے۔ شعر سنانے کا انداز بھی بڑا معصومانہ تھا۔ سناتے ہوئے اک ذرا سا لہرا جاتے۔ مثلاً جب وہ کہتے:
مٹّی کے کھلونے لینے کو
میں بالک بن کے مچل گیا
تو گردن میں ہلکا سا خم آ جاتا، بائیں کندھے میں جنبش سی آ جاتی اور وہ لہرا جاتے، ہونٹوں پر معصومانہ سی مسکراہٹ کھیلنے لگتی۔ شوکت عابد بعد میں ان کی بڑی صحیح نقل اتارتے تھے۔ کمال کے شاعر تھے اور بے انتہا خوبیاں تھیں ان میں۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔
اُن سے پہلی ملاقات کبھی نہیں بھولتی۔ وہ پہلا دن تھا میرا جب میں نے ریڈیو اسٹیشن کراچی کے احاطے میں قدم رکھا تھا۔ تب مجھے معلوم نہ تھا کہ ریڈیو ایک تہذیبی مرکز ہے۔ اس کی کینٹین اور پروڈیوسروں کے کمروں میں ادبی محفلیں جمی رہتی ہیں اور شہر بھر کے ادبا شعرا، خوش ذوق طلبہ کا جم گھٹا سا رہتا ہے۔ ضمیر علی بدایونی کے کمرے میں سلیم احمد بیٹھے ہیں۔ ساتھ ہی قمر جمیل، ان کے پہلو میں اداکار طلعت حسین، کچھ اور ادیب شاعر۔ عصمت زہرہ سب کے لیے چائے منگوا رہی ہیں اور ادب، سیاست، کلچر اور جانے کیا کیا مباحث چھڑے ہیں۔ کمرا سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہے اور بحث ہے گفتگو ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
ایسے ہی ایک کمرے میں اس روز میرے سامنے دادا تھے، رئیس فروغؔ صاحب۔ میں نوجوانی کے جوش و جذبے سے بھرا، بحث و مباحثے میں بغیر جانے بوجھے ہر ایک سے بھِڑ جانے والا۔ تب تک میری صحبتیں عالم فاضل لوگوں سے رہی نہیں تھیں۔ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ عالم فاضل لوگ کیسے ہوتے ہیں اور کیسی، کس انداز کی کس اسلوب میں باتیں کیا کرتے ہیں۔ تو اپنی نا سمجھی اور نادانی میں بلکہ اپنی کم علمی اور نا واقفیت میں یہ ناچیز ’’دادا‘‘ سے بھِڑ گیا۔ لگا اُن سے بحث کرنے۔ دادا نے میرے اختلافِ فکر بلکہ یوں کہیے کہ کج بحثی کا ذرا بھی بُرا نہ مانا۔ نہایت سنجیدگی اور رسان سے زیرِ بحث موضوع پر اپنے علم اور معلومات سے میرے کورے ذہن کو سیراب کرنے میں کوشاں رہے۔ غالباً جب انھوں نے بھانپ لیا کہ اُن کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہیں کہ سطح اُن کی ناچیز کی ذہنی سطح سے بلند تھی تو انھوں نے ہار ماننے اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے کے بجائے کاغذ قلم کا سہارا لیا اور کاغذ پر اپنی بات کو میری عقل کے مطابق کرنے کے لیے طرح طرح سے نقشے، ڈائی گرام، الفاظ، ان کے معنی۔ مطلب یہ کہ ایسی مشقت انھوں نے گوارا کی کہ اب سوچتا ہوں تو شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہوں۔ ایک بار بھی کم علمی کا جہل کا، مطالعہ کے فقدان کا طعنہ نہ دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ میں تو خوب سمجھ دار ہوں، وہ سمجھانے میں ناکام ہیں۔ کئی گھنٹوں پہ محیط وہ نشست جسے آج تک بھول نہیں پایا کہ شام ریڈیو کے احاطے میں ایستادہ پیڑ کی شاخوں پر اُتر آئی تھی، چاروں طرف ملگجا اندھیرا سا پھیلتا جاتا تھا۔ ہم کمرے سے باہر نکلے تو وہ آگے آگے تھے، خوب دراز قامت شلوار قمیص اور غالباً واسکٹ میں ملبوس، سفید گھنے بال، چمکیلی آنکھیں، چہرے پر ہلکی غیر محسوس سی شرماہٹ کا غبار اور پیکر انکسار۔ ایسی عاجزی کہ جو نہ کھل کر ظاہر ہوتی تھی اور نہ ایسی پوشیدہ کہ محسوس ہی نہ ہو سکے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ غزل کے بہترین شاعر ہیں۔ قمر جمیل صاحب کی امّت میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر نثری نظموں کے شوق میں اپنی غزل گوئی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں اور اس کا احساس بھی نہیں۔ نمونتاً غزل کے چند ایک اشعار نقل کرتا ہوں۔ نہیں سنا تو سُنیے اور قیاس کیجئے کہ کیسے بھرپور امکانات کے شاعر تھے :
جی میں آتا ہے کسی روز اکیلا پا کر
میں تجھے قتل کروں پھر ترے ماتم میں رہوں
عشق وہ کارِ مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
حُسن کو حُسن بنانے میں مرا ہاتھ بھی ہے
آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے
اب تک جو مجھے نہیں ملے ہیں
وہ پھول مرے لیے کھِلے ہیں
اپنے حالات سے میں صلح تو کر لوں لیکن
مجھ میں روپوش جو اِک شخص ہے مر جائے گا
ان دنوں قمر جمیل عزیز آباد میں رہتے تھے۔ ان کے ڈرائینگ روم میں جو محفلیں جمتی تھیں ان میں دادا بھی موجود ہوتے تھے۔ قمر بھائی کے آگے یعنی ان کی خطابت کے سامنے کس کا چراغ جل سکا تھا جو دادا کا جلتا، زیادہ وقت خاموش رہتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی لقمہ ضرور دیتے۔ اپنے مطالعے کی نمائش کے قائل نہ تھے۔ لیکن جو بات کہتے اس میں ان کی فکر اور مطالعہ دونوں جھلکتے تھے۔ نثری نظم کی تحریک میں ان کی شمولیت سے بلاشبہ تحریک کو ایک وقار اور اعتبار ملا تھا کہ باقی اُمّت تو نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جو کالج اور یونیورسٹی کی طالب علم تھی۔ سینئر میں دادا کے علاوہ احمد ہمیش تھے۔ عمر میں محمود کنور کا شمار بھی سینئر میں ہونا چاہئیے تھا لیکن انھیں بھی انگریزی ادب میں ایم اے کے طالب علم ہونے کی رعایت حاصل تھی۔
دادا کو ہم نے چار چھ سال سے زیادہ اپنے درمیان نہیں پایا۔ 1982ء میں وہ دنیا سے اچانک ہی رخصت ہو گئے۔ تب ان کی عمر مشکل سے چھپّن سال تھی۔ عمر کچھ زیادہ نہ تھی۔ اور جینا چاہئیے تھا انھیں۔ مگر نہ جیے کہ جینا کب آدمی کے اختیار میں ہے۔ میرا ان سے ذاتی ربط ضبط محفلوں کی حد تک رہا۔ معاملے کے مراسم کبھی نہ رہے۔ وہ مجھے اچھے لگتے تھے۔ اپنی غزلوں کی وجہ سے، اپنی معصومیت کے سبب سے یا ان کے شرف آدمیت کا دخل تھا کہ دل میں ان کا احترام جاگزیں تھا۔ انھیں شہرت، ناموری اور شناخت یا پہچانے جانے کا ذرا بھی ہوکا نہ تھا۔ بلکہ ان کے انتقال کے بعد عبید اللہ علیم کے رسالے ’’نئی نسلیں‘‘ میں ان کی غزلوں کے ساتھ ان کا خط شائع ہوا تھا۔ عجیب ہی سا خط تھا۔ مدیر کے نام لکھا:
’’چھپنے کے لیے شاعری دیتے ہوئے عجیب سا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے
اپنی شاعری نہ چھپواؤں، نہ کسی کو سناؤں۔ وہ بس کسی مسٹیریس (پر اسرار) طریقے سے پھیل جائے اور کسی کو پتہ نہ چلے کہ لکھنے والا کون ہے؟ ایک آدمی تمھارا شعر تمھارے سامنے دہرا رہا ہے اور اسے معلوم نہیں کہ اس کے خالق تم ہو، جیسے افواہ، صاحبِ افواہ کے نام کے بغیر خود اپنی
قوّت سے پھیلتی ہے۔‘‘
’’صاحب‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا۔ اپنی بات کا آغاز اسی ’’صاحب‘‘ سے کرتے تھے۔ ان کی جو غزلیں ’’نئی نسلیں‘‘ میں انتقال کے وقت چھپی تھیں، پہلی ہی غزل کے دو اشعار میں موت کا تذکرہ ہے:
شہروں کے چہرہ گر جنھیں مرنا تھا مر گئے
پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے
اونچی مسہریوں کے دھُلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
نثری نظم کی تحریک کے دوران بڑے اختلافات کے خار زار پودے باہمی تعلقات کے بیچ اُگے۔ طرح طرح کی چپقلشیں بھی ہوئیں۔ غیبت اور عیب جوئی کے سیاہ بادل بھی محفلوں پہ منڈلاتے دکھائی دیے۔ ہجو ملیح اور طنز و تضحیک سے بھی گاہ گاہ علاقہ رہا لیکن ان میں دادا کو کبھی شریک نہ پایا۔ عجیب سی مٹی کے بنے تھے دادا۔ کسی میں انھیں کوئی عیب دکھتا ہی نہ تھا۔ ممکن ہے دِکھنے پر نگاہیں نیچی کر لیتے ہوں۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ عیب ہوں اور دِکھائی نہ دیں۔ ان کی معصومیت پر اس وقت جوبن آیا جب انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں لکھنی شروع کیں اور ٹیلی ویژن سے پیش ہوئیں۔
’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کسی پیاری پیاری نظمیں لکھیں۔ میرا گمان ہے بڑوں سے زیادہ بچّے انھیں جانتے تھے۔ وہ خود بھی ایک ’’بڑے بچّے‘‘ ہی تھے اپنی عادات و اطوار کے لحاظ سے۔
جب کسی بات سے اتفاق ہوتا تو گردن ہلا کر کہتے :
’’صاحب! یہ تو ہے‘‘
ان کے معصومانہ انداز پہ پیار آ جاتا تھا۔
ان کی بے نفسی اور معصومیت کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ حج کا موسم تھا۔ دادا اور ان کے داماد ریڈیو کے آگے بیٹھے تھے۔ داماد حج کی بابت کوئی دستاویزی پروگرام سنتے جاتے اور دادا کو متوجہ کرتے جاتے کہ ذرا سنیے تو سہی کیسی زبردست معلومات ہیں۔ دادا نے تائید میں سر ہلا دیا ’’ہاں سن رہا ہوں‘‘۔ پروگرام ختم ہوا تو اناؤنسر نے اعلان کیا کہ ابھی آپ نے دستاویزی پروگرام سنا جسے تحریر کیا تھا رئیس فروغؔ نے۔ دادا پہ تو کوئی اثر نہ ہوا، ویسے ہی بیٹھے رہے البتّہ داماد موصوف پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ایسے تھے دادا۔
۵ اگست ۱۹۸۲ء کی شام کبھی نہ بھولے گی۔ میں ریڈیو اسٹیشن گیا تو گیٹ ہی پر اطلاع ملی، دادا چلے گئے۔ اندر داخل ہوا تو ہر طرف سنّاٹے کا راج تھا۔ دادا سے پہلی ملاقات یاد آئی۔ جب انھوں نے کیسے ضبط و تحمّل سے مجھے برداشت کیا تھا۔ ریڈیو کے سارے ہی لوگ دادا کو رخصت کرنے گئے تھے۔ میں بھی جمشید روڈ بھاگا جہاں ان کا قیام تھا۔ بندر روڈ کے ہجوم سے نکل کر وہاں پہنچا تو ان کے چھوٹے سے کوارٹر سے جنازہ اٹھایا جا چکا تھا۔ قبرستان میں تدفین میرے سامنے ہی ہوئی۔ شہر کے اکثر شعرا موجود تھے۔ شدّتِ غم سے ان کے سر جھکے ہوئے تھے۔ جب تک میّت قبر میں اتار نہ دی گئی، وہ سارے منظر کے خاموش تماشائی بنے رہے۔ کیسی عجیب سی بات ہے کہ آدمی پہلے تماشائی بنتا ہے اور پھر تماشا۔
رات کے وقت عبید اللہ علیم اور صابر ظفر دادا کی موت کی خبر اور تصویر لیے آئے کہ اُن دنوں میں ایک اخبار میں رپورٹنگ کے فریضے پر مامور تھا۔ میں نے انھیں بتایا کہ خبر اور تصویر چھپنے پریس چلی گئی ہے۔ تصویر میں دادا کے گھر سے لے آیا تھا۔ صابر ظفر نے پوچھا ’’خبر کس صفحے پر چھپ رہی ہے؟‘‘ یہ سُن کر کہ شہرے صفحے پر، دونوں بہت مایوس ہوئے۔ صابر ظفر کہنے لگے پھر تو میری موت کی خبر چھپنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ میں انھیں کیا بتاتا کہ اخبار ہمارے ملک میں سیاست دانوں کے لیے نکلتے ہیں، شاعروں کے لیے نہیں۔
٭٭٭