“دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا؟یہ کچن کا کیا حال بنا رکھا ہے۔۔”کچن میں داخل ہوتا شایان غصّہ سے پھنکارا۔
سمبل بھوکلا کر چولھے کی جانب بڑھی۔کڑاہی جو دھیمی سی انچ پر بس جل بھن کر بھٹا لگنے کو ہی تھی۔آگے بڑھ کر جلدی سے چولھا بند کیا۔اور چور سی نظر شایان پر ڈالی۔جو کچن کا بکیھرا دیکھ رہا تھا۔چارو اور پیاز،ٹماٹر کا گند،سلپ پر ادھر ادھر گرا پانی۔سنک میں صاف ستھری پلیٹس اور چمچ کا انبار جیسے بس شاید ایک بار میں یوز کر کہ سنک کی نظر کر دیا گیا تھا۔
“یہ تمہارا کام کرنے کا سٹائل ہے۔”شایان کی نفاست پسند طبعیت پر یہ بات خاصی ناگوار گزری تھی۔
“نہیں وہ۔۔بس مجھے علم نہیں ہے نا کہ کونسی چیز کہاں رکھی ہے۔تو اسی لئے کچن پھیل گیا۔”سمبل نے شرمندگی سے بھونڈی سی دلیل دی۔
“شایان اس پر ایک سخت سلگتی نگاہ ڈال کر کچن سے باہر نکل گیا۔اگر وہ تھوڑی دیر مزید کچن میں کھڑا رہتا تو کو بعید نہیں تھی۔وہ اس پھوہڑ کو ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر سے نکال دیتا۔
سمبل نے بھی ارد گرد نظر گھمائی اور ہاتھوں کو تیزی سے چلانے لگی۔اس کی ماں بھی اس کی اس عادت سے سخت نالہ رہتی تھیں۔جو کام کم کرتی تھی اور پھیلاوا زیادہ کرتی تھی۔۔
“افف دانین کی بچی۔صرف تمہاری وجہ سے باتوں میں لگ کر اپنے کام ہی فراموش کر گئی۔”سمبل بڑبڑا کر ہاتھ چلاتی جلدی جلدی سب کچھ سمیٹنے میں مصروف تھی۔کڑاہی مصالحہ میں تو اب جلی جلی سی آگئی تھی۔اسی لئے اس کو بھی ایک طرف کر کہ اب وہ کچھ اور بنانے کا سوچ رہی تھی۔۔
____________________
“پخیر راغلے، پخیر راغلے بچہ۔۔”سمبل اور شایان کو حویلی پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی تھی۔
“شکریہ خالہ جانی ۔”سمبل فرطِ جذبات میں اگے بڑھ کر ان کہ گلے لگ کر یکدم رو پڑی۔ام خانم ایک دم گھبرا اٹھیں۔۔
“سمبل بچے کیا ہوا۔تم رو کیوں رہا ہے بچے۔”ام نے اس کہ سر پر ہاتھ پھیر کر استفسار کیا۔جبکہ آغا سے بغل گیر ہوتے شایان نے نا گواری سے اس کا ڈرامہ ملاخطہ کیا تھا۔۔
“کچھ نہیں خالہ جانی بس امو کی یاد آگئی۔”سمبل نے شایان کی گھورتی نظریں خود پر مرکوز دیکھ بہانہ گھڑا۔
“چلو بچہ کوئی بات نہیں۔تم یہاں بیٹھو۔ہم مردان خانے میں جا رہے ہیں۔”آغا اس کہ سر پر ہاتھ رکھ شایان کہ ہمرا آگے بڑھ گئے۔جبکہ اب وہ سب بھابھیوں اور ان کہ بچوں کے گرد گھری بیٹھی سب کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی تھی۔۔
_______________
آج ان دونوں کے ولیمے کی دعوت تھی۔جس کی خوشی میں قبیلے کے تمام افراد ہی حویلی میں موجود تھے۔سمبل کو منہ دکھائی میں کئی بیش قیمت تحآئف وصول ہوے تھے۔
لائٹ پیچ کلر کی لانگ میکسی پر بھاری بھرکم جیولری پہنے بیٹھی سمبل ہیوی میک اپ لک میں آسمان سے اتری کوئی اپسرا ہی لگ رہی تھی۔جب کہ اس کہ بغل میں بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس وجیہہ سی جذب نظر آتی شخصیت کہ ساتھ اس کہ برابر میں بیٹھا شایان خانزادہ کسی سلطانت کا شہزادہ ہی لگ رہا تھا۔کرسٹل گرے آنکھوں میں ایک الگ ہی الوہی سی چمک تھی۔جس کہ باعث محفل میں موجود ہر آنکھ اسی پر مرکوز تھی۔۔
رات دیر تک محفل اپنے اختتام کو پہنچی تو سب نے رخ اپنے اپنے کمرے کی جانب کیا۔جبکہ شایان رات دیر تک اپنے دوستوں کے ساتھ ہی مصروف رہا تھا۔اور صبح فجر میں آغا کی ڈانٹ سن کر وہ سارے بھی اپنے اپنے کمروں کی جانب ڈورے تھے۔۔
_____________
سمبل اور شایان کو کراچی آۓ ایک ہفتہ ہو گیاتھا۔زندگی اپنی ڈگر پر روا دواں تھی۔شایان کے بے حد اسرار پر سمبل نے بھی فارغ بیٹھنے سے بہتر اپنی ڈگری مکمل کرنے کو ترجیح دی۔
ان دونوں کی ہی اب یہ روز صبح کی روٹین بن گئی تھی۔شایان پہلے اسے یونیورسٹی چھوڑ دیتا تھا اور پھر خود اپنی یونیورسٹی چلا جاتا تھا۔ جبکہ سمبل واپس خود ہی آتی تھی۔سمبل کچن کی ذمہ داریوں سے ہاتھ کھینچ چکی تھیں۔دونوں ہی اب زیادہ تر کھانا باہر ہی کھاتے تھے۔یا پھر کچھ آرڈر کر لیتے تھے۔ایک صبح کا ناشتہ ہی تھا جو دونوں کا ساتھ ہوتا تھا ورنہ شایان تو زیاده تر گھر سے باہر ہی رہتا تھا۔جبکہ سمبل نے اکیلے ہونے کے باعث رات کا کھانا ترک کر دیا تھا۔اس کی اکثر ہی حویلی بات ہوتی رہتی تھی۔مگر اب دونوں ہی خاموشی سے وقت کو دھکا دے رہے تھے۔۔
_______________
“شایان پھر کیا سوچا تم نے،اب تو تمہاری شادی کو ایک مہینہ ہونے والا ہے۔” ماہین اور وہ اس وقت ایک ریسٹورانٹ میں موجود تھے۔آج ان کا ساتھ ڈنر کا پلین تھا۔۔
سوچنا کیا ہے۔سمبل اپنی ڈگری مکمل کر رہی اور میں اپنی۔”شایان نے کندھے اچکا کر سیدھا سا جواب دیا تھا۔۔
“میں تمہاری اور میری شادی کی بات کر رہی ہوں۔”ماہین نے اسے دیکھ کر ناگواری سے آنکھیں گھومآئیں۔
“ہاں!!یار تھوڑا صبر کر لو ابھی۔۔ویسے بھی یہ بات پہلے ہی طے تھی کہ ڈگری مکمل ہونے سے پہلے ہم شادی نہیں کریں گے۔”شایان نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر کہا تو ماہی کا کھانا کھاتا ہاتھ بیچ میں ہی رک گیا۔۔
“تو۔۔میرے جو رشتے آرہے ہیں۔ان کا میں کیا کروں۔ہاں بولو۔”ماہی نے اپنے لمبے تراش خراش کئے ناخنوں پر پھونک مار کر کہا۔۔
“سمپل ہےمنع کردو ۔”شایان نے اطمینان سے کہا۔۔
“کیوں منع کردوں؟تمہارا کیا بھروسہ کل کو کہ دو کہ تمہاری ام نہیں مان رہی۔اور تم اسے جاہل کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہو تو میرا کیا ہوگا۔”ماہی نے ڈرامائی انداز میں رندھے ہوۓ لہجے میں کہا۔۔
“یار تم مجھے ایسا سمجھتی ہوں۔بے فکر رہو شایان خانزادہ اپنی زبان سے پھرنے والوں میں سے نہیں ہے۔”شایان نے اسے اطمینان دلايا۔
“پکی بات ہے نا۔”ماہی نے ایک انداز سے تصدیق چاہی۔تو شایان بھی مسکرا اٹھا۔۔
کوئی شک۔”برو اٹھا کر پوچھا۔۔
“بلکل نہیں۔مجھے یقین ہے۔تم اس سمبل کو چھوڑ دو گے۔”ماہی نے شطرانہ بات معصوم سے انداز میں کہی تو شایان نے ٹھٹھک کر اسے دیکھا۔ماہی اسے ہی دیکھ رہی تھی جو کسی گہری سوچ میں گم تھا۔۔
،___________________
شایان ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ انلاک کرتا فلیٹ میں داخل ہوا تو نظر سیدھی سمبل پر پڑی جو وہیں سوفے پر پیر پسار کر بیٹھی بک پکڑے کچھ یاد کرنے میں مصروف تھی۔۔
سمبل نے گھڑی پر نظر ڈوڑا کر ذرا حیرانی سے اسے دیکھ کر سلام کیا۔جو آج نا جانے دن دهاڑے کیسے گھر میں اگیا تھا۔۔شایان نے اس کہ حیران چہرہ دیکھا پھر سر ہلا کر اشارے سے جواب دیتا ہاتھ میں پکڑے دو لارج پزا کے باکس ،کولڈنک کی بوٹلز اور پاستا اٹھا کر فرج میں رکھا۔جو آج شاید لنچ کے بعد ڈنر گھر میں ہی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔سمبل بھی بے نیازی سے کندھے جھٹکتی اپنا ٹیسٹ یاد کرنے میں مصروف ہوگئی۔۔
______________
شایان کچن میں داخل ہوا تو صاف ستھرا سا خالی کچن اس کا منہ چڑا رہا تھا۔کیا مطلب اس لڑکی نے دوپہر کے کھانے کے لئے کیا کچھ نہیں بنایا تھا۔۔
شایان اپنی سوچ کے پیش نظر باہر آیا۔
“سمبل دوپہر میں کھانا نہیں بنایا تم نے۔”اس کہ سولیہ انداز پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔
“نہیں میں تو یونیورسٹی سے واپسی پر یا تو کھانا پیک کروا لیتی ہوں یا آرڈر کردتی ہوں۔کبھی کبھار موڈ ہوتا ہے تو بنا لیتی ہوں۔کیوں کیا ہوا۔”سمبل نے مزے سے اپنی کارستانی بتائی تھی۔جبکہ شایان کامنہ حیرت کی زیادتی سے کھل گیا تھا۔۔
“کیا مطلب تم گھر میں کھانا کیوں نہیں بناتی ہو۔روز روز ہوٹل کا کھانا کون بیوقوف کھاتا ہے۔”شایان کو جان کر حیرت ہوئی۔وہ لڑکا ہو کر گھر میں کچھ نا کچھ بنالیتا تھا اور یہ میڈم ایک مہینے سے باہر کے کھانے پر پارٹی اڑا رہی تھی۔۔۔
“کون بیوقوف کیا مطلب آپ بھی تو باہر ہی کھاتے ہیں۔”سمبل نے اس کی بات کا برا مان کر کہا۔
آپ کی اطلاح کے لئے عرض ہے یہاں میرے بہت سارے دوست ہیں۔اور ان کی فمیلیز بھی ،میں جہاں جاتا ہوں۔کھانا انہی کے ساتھ کھاتا ہوں۔نہیں تو ہم سارے دوست مل کر کچھ نا کچھ بنا لیتے ہیں۔تمہاری طرح کام چور نہیں۔”شایان نے گہرا طنز کیا۔پہلے ان سب کا ڈیرہ شایان کے فلیٹ میں ہوتا تھا۔پر جب سے اس کی شادی ہوئی تھی وہ سارے حیدر کے فلیٹ پر جمع ہوجاتے تھے جو پہلے شایان کے ساتھ ہی اپارٹمنٹ شئیر کرتا تھا۔اس کہ زیادہ تر دوست غیر مقامی ہی تھے۔جو پڑھنے کی غرض سے کراچی آۓ ہوۓ تھے۔
“تو میں اپنی اکیلی کہ لئے کیا بناؤ۔زیادہ سے زیادہ نوڈلز یا سیلڈ وغیرہ بنا لیتی ہوں۔۔”سمبل کی تو ویسے ہی گھر کے کاموں سے جان جاتی تھی۔۔
“بہت نیک کام کرتی ہیں آپ۔کل سے پروپر طریقے سے کھانا بنانا ورنہ آئندہ میں صرف تمھیں اتنے ہی پیسے دوں گا ۔جتنی تمھیں ضرورت ہے۔”شایان کو تو یہ جان کر جھٹکا ہی لگا تھا۔کہ وہ اس کے دے گئے پیسے صرف ہوٹلنگ پر اڑا رہی ہے۔یونیورسٹی میں تو وہ اسکولر شپ پر پڑھ رہی تھی۔
اس کی دهمكی سن سمبل کو غصّہ ہی اگیا تھا۔مطلب وہ چند ہزار دے کر اس پر احسان جتا رہاتھا۔وہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔شایان نے ذرا حیرانی سے اس کا غصّہ دیکھا تھا۔۔
کچھ دیر میں واپس آئی۔اور کچھ دن پہلے کی دی ہوئی ساری رقم ایسی کی ایسی ہی شایان کے ہاتھ میں تهما دی۔جس میں اس نے ابھی تک کچھ بھی خرچ نہیں کیا تھا۔
شایان حیرت سے کبھی اسے دیکھتا تو کبھی اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی رقم کو۔”یہ کیا ہے۔”سولیہ انداز میں پوچھا۔۔
“یہ آپ کے پیسے ہیں۔بہت شکریہ آپ کا۔مجھے آپ کا احسان نہیں چاہیے۔میری ماں میرے لئے اتنا چھوڑ کر گئی ہے کہ میں اپنا گزارا کر سکوں۔”سمبل عجیب دکھ بھرے لہجے میں بول کر اسے ہقابقا چھوڑ گئی تھی ۔۔
وہ بیوقوف یقیناً اس کی بات کا غلط مطلب لے چکی تھی۔وہ تو بس اسی لئے کہ رہا تھا۔کہ روز روز باہر کا کھانا کھانا کوئی اچھی بات نہیں تھی۔مگر وہ بھی اپنی جگہ درست تھی کہ اکیلی خود کے لئے وہ کیوں اپنی جان جوکھم میں ڈالتی۔۔
__________________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...