شفیع بلوچ(جھنگ)
اس دنیا کے بیشتر انسانوں کے مقدر کی طرح کی وہ بھی ایک گہری سیاہ رات تھی۔باہر کے اندھیرے نے بلندی اور پستی کے فرق کو مٹا دیا تھا ،جب کہ اندر کی روشنی اتنی مدھم تھی کہ اپنا آپ بھی اس میں کم کم سُجھائی دیتا تھا۔اندھیرا…… جولمحہ لمحہ روشنی کو قتل کر کے ظلمت کی سلطنت کا بے تاج بادشاہ ٹھہرتا ہے ،اسی اندھیرے کی سیاہ دھند میں لپٹا ،وہ اپنے آپ کو ٹٹولتا ،اِدھر اُدھر دیکھتا چلا جارہا تھا۔اُس نے بھی تو یہی سیاہ چادر اوڑھنے کے لئے دن کے کتنے پہروں کو ہلاک کیا تھا تب جا کے کہیں رات نے اپنی باہیں وا کی تھیں……اور پھر بالآخر وہ اس دروازے تک پہنچنے میں کامیاب ہوا جہاں پہلے سے ہی دو ہیولے کھڑے اس کا انتظار کررہے تھے۔
کوئی یونہی کسی درپہ دستک دینے نہیں پہنچ جاتا ۔جذبوں کی کوئی کششِ ثقل ،کوئی مقناطیسیت،طالب اور مطلوب کے درمیان ضرور کارفرما ہوتی ہے اور یوں بھی کسی عورت اور مرد کے مابین محبت اور جذباتیت کا جو رشتہ استوار ہوتا ہے اس کے پیچھے دونوں کی معروضی اور داخلی شخصیّت کی ترتیب اور فکری ہم آہنگی کی طاقت ہی تو کام کررہی ہوتی ہے،یہی طاقت دلچسپی کی راہ سے گزر تی ہوئی تقریبِ ملاقات پہ منتج ہوتی ہے۔ہجر اور گیان کی ماری دوپیاسی روحیں جب یک جا ہوجائیں تو وہ اپنی تشنگی کی تطہیر کیسے کرتی ہیں؟بس یہی ایک روشن واقعہ تھا جو اس اندھیری رات کے بطن میں ایک مردہ بچے کی طرح اٹک کررہ گیاتھا۔
’’آجاؤ!‘‘دروازے میں کھڑے ایک ہیولے کی سسکی اُبھری۔
’’ادھر بیٹھو!‘‘دوسری سسکی اُبھری۔
وہ خاموش تھا۔اپنی متاہلانہ زندگی کی طرح۔
’’دیکھو کیسا معرکہ سر ہوگیا!‘‘ایک ہیولے نے دوسرے کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تم دونوں بیٹھو،میں تمہارے لئے پانی وانی لاتی ہوں۔‘‘……اورایک ہیولا دور ہوتا گیا۔
’’یہاں بیٹھو……ادھر……میرے پاس!‘‘
وہ مشینی انسان کی طرح اُٹھا جیسے اس کا ریموٹ کنٹرول اس ہیولے کے ہاتھ میں ہو،اور اس کے قریب جا کے بیٹھ گیا۔دوسرے کمرے سے معمولی سی روشنی نیم وا دروازے سے چھن کر اندر آرہی تھی۔اس نے غور سے اسے دیکھا۔’’مونا لیزا……سوہنی……ہیر!!!‘‘اس نے دل ہی دل میں سوچا اور کمرے کی دیوار کو غور سے دیکھنے لگا۔دیواری گھڑی پر دس بج رہے تھے۔
’’کیاسوچ رہے ہو؟‘‘
’’تمہیں……!‘‘
’’ڈائیلاگ؟‘‘
’’نو……بائی گاڈ نو!‘‘
’’کمال ہے!‘‘—–ایک شادی شدہ انٹلیکچول جوڑا ایک دوسرے سے محو گفتگو تھاجو یونیورسٹی کے ہم جماعت تھے۔اتنے میں دوسرا ہیولا کوک لے کر آیا اور ان دونوں کے قریب ہی بیٹھ گیا۔
’’پیو!‘‘اور وہ ایک ہی سانس میں کوک کی بوتل چڑھا گیا۔
’’بہت پیاس تھی کیا؟‘‘
’’پیاس؟……بُجھی کب ہے!سمندر بھی اگر میرے اندر گرے تب بھی شاید نہ بُجھے۔‘‘
’’بھئی اپنی سمجھ سے تو بالاتر ہے آپ کا یہ عارفانہ کلام۔‘‘دوسرے ہیولے نے کندھے اچکائے اور خالی بوتل واپس لے کر چلی گئی۔
’’کیا فِگر ہے یہ بھی!‘‘
’’کون سا؟‘‘
’’یہی تمہاری پردہ پوش خاتون،رازدار کا……ہیروئن کا مددگار کریکٹر……!‘‘
’’تمہارا اس کریکٹر سے کوئی تعلق نہیں بنتاکیا؟‘‘
’’میری تو محسنہ ہے محسنہ!یہ نہ ہوتیں تو جُگوں پہ یہ بھاری رات کب ہمارے نصیب میں ہوتی۔‘‘
’’بڑی شانت قسم کی ہے میری یہ کزن……سہیلی……کچھ بھی سمجھ لو۔‘‘
’’یہ رشتوں کو اگر کوئی نام نہ بھی دیا جائے تب بھی وہ اپنی جگہ قائم دائم تو رہتے ہی ہیں۔‘‘
’’اچھا تو سنایئے پھر کیسے گزری ……ہمارے بعد؟‘‘
’’جو ہم پہ گزری سو گزری ……‘‘
’’……مگر شب ہجراں!‘‘—–ہیروئن نے درمیان سے ہی مصرع اچک لیا۔
’’تمہیں بھلاتے ہوئے،اپنے آپ کو سمجھاتے ہوئے بالآخر لکھے پہ قانع ہونا ہی پڑا۔‘‘
’’قناعت کے لئے ہم تم ہی رہ گئے تھے کیا؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم ،لیکن کوئی کربھی کیا سکتا ہے؟‘‘
’’بیوی کیسی ہے،بچے کیسے ہیں اور ……اور کیا تم نے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کر لیا ہے؟‘‘
’’بیوی……؟جیسی بیویاں ہوا کرتی ہیں ،ارینج میرج والی……اور بچے؟بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔پھول جہاں بھی کھلیں خوبصورت لگتے ہیں۔رہا مسئلہ ماحول سے ہم آہنگی کا تو بابا ہم فقیروں کا کیا ہے جہاں بیٹھ گئے سوبیٹھ گئے۔‘‘
’’اچھا فقیر صاحب ! یہ بتائیے کہ کوئی دشواری تو نہیں ہوئی یہاں تک پہنچنے میں ؟‘‘
’’دشواری؟……یہ پوچھیے کہ ہجر کے کتنے صحراؤں کو عبور کرنا پڑا۔‘‘
’’یہ رومانیت نہ گئی تم سے۔‘‘
’’رومانیت وومانیت کچھ نہیں،سیدھی سی بات ہے۔‘‘
’’اور میری مشکلوں کو کس کھاتے میں گنو گے۔کتنے پاپڑ بیلنے پڑے تمہارا نمبر تلاش کرنے میں۔کتنے عرصے بعد تم سے رابطہ ہوا اور ایک تم تھے کہ مان کے بھی نہیں دیتے تھے کہ یہ میں ہوں……کرن!……یونیورسٹی کے دنوں میں جس کانام شمس کے ساتھ لیا جاتا تھا……وہی کرن پورے پانچ سال بعد تمہیں……‘‘
’’کیسے یقین کر لیتا؟یوں کبھی ہوا نہیں تھا تبھی تو میں حیرتوں کے سمندر میں ڈوبا جا رہا تھا۔‘‘
’’پھر تم نے یقین کیسے کرلیا؟‘‘
’’یقین……!پہلے امپریشن سے ہی میں یقین کے حصار میں آگیا تھا اور ویسے بھی اولین تاثر ہی حقیقی اوردیرپا ہوتا ہے اور اس پہلی لازوال حقیقت کو میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں جب تم نے میرے سامنے لفظوں کو نغمگی بخشی:’’ایسی بھی کیا جلدی!‘‘لفظوں کے یہی وہ پہلے پھول تھے جو تم نے مسکراتے ہوئے بکھیرے تھے۔تمہاری وہ مسکراہٹ !……کلی بھی ویسی کم کم مسکائی ہوگی۔‘‘–صاحبِ علم مرد کی ذات سے ایک عاشق نے انگڑائی لی۔
’’ہاں! مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا!!……یونیورسٹی کے گلوں بھرے سبزہ زار میں ہم آخری دن کی افسردگی کی بارش میں بھیگ رہے تھے ۔دوسال کی رفاقت کے حسین لمحات کو گھڑیوں کی گٹھڑی میں سمیٹا جارہا تھا کہ تم نے ہی رخصت ہونے میں پہل کی تھی۔‘‘—
باذوق خاتون لمحوں کے پھولوں پر یادوں کی قطرہ قطرہ شبنم برسا رہی تھی۔
’’ایک یہی تو بڑا عیب ہے ان چاہنے والوں میں کہ کم بخت بڑے جلدباز ہوتے ہیں۔‘‘
اور دونوں کے دھیمے دھیمے قہقہے کمرے کی دیواروں سے سر پھوڑنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کبھی کبھی تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم کتنے دھوکے باز،مکار،فریبی اور منافق قسم کی مخلوق ہیں!‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’وہ ایسے کہ تم اپنی بیوی کے ساتھ اور میں اپنے میاں کے ساتھ دھوکہ کررہی ہوں،یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
’’شاید……!‘‘وہ کچھ توقف کے بعد بولا۔
’’لیکن محبت……محبت جو دنیا کی سب سے بڑی سچائی ہے وہ کیا ہوئی؟‘‘
’’یہ سچائی اس وقت تک عظیم ہے جب تک اس میں ہوس،لالچ اور لوبھ کی کھوٹ نہ ہو۔کیا ہم اس کھوٹ سے پاک ہیں؟بولو!‘‘
’’ہم بہرحال انسان ہیں۔‘‘
’’اچھا اگر جنس کو محبت سے منہا کردیا جائے تو پھر اس صورت میں بھی کھوٹ باقی رہے گی؟‘‘
’’اگرچہ یہ ہے بہت مشکل لیکن ناممکن نہیں اور پھر وہ محبت جس میں جنسی آلودگی شامل نہ ہو وہ ہے بہت بالیدہ!لیکن ہم اپنی زندگی کے ساتھیوں کے مجرم تو پھر بھی رہیں گے۔‘‘
’’یہ سب سماجی جبر ہے ،کتنا المیہ ،کیسا ستم!!کہ ہم زندگی کی روشن روشن باتیں دن کی روشنی میں کہیں بھی نہیں کرسکتے۔‘‘——کمرہ ہوکے اور آہوں سے گرم ہورہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کب آنا ہے تمہارے ’’اس‘‘نے کراچی سے؟‘‘
’’شاید……کل پرسوں تک۔‘‘
’’اچھا تم یہ بتاؤ کہ اس کا رویہ تمہارے ساتھ کیسا ہے؟‘‘
’’ایک دم اچھا۔میں جو کہوں اسے وہ پورا کرنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔‘‘
’’ویری سَیڈ۔‘‘
’’کیا مطلب ؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ایسے مخلص اور پیارے سے ……‘‘
’’یہی تو میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر تم میں ایسی وہ کیا اضافی خوبی ہے جو میرے شوہر میں نہیں۔‘‘
’’اور پھر تمہارے دو ننھے مُنے خوبصورت بچے؟‘‘
’’تمہارے بھی تو ہیں۔‘‘
’’پھر ……پھریہ سب کچھ کیوں کر ہوا؟‘‘
’’جسے ہم محبت کہتے ہیں ،وہ بہت سفّاک جذبہ ہے،بہت وحشی،بہت شہ زور!!تم جو مجھے اپنی آرزو کہتے تھے تو میں تمہارے وجود میں یا پھر اپنے آپ میں اک حسرت بن کردفن ہوگئی۔مجھے نہیں معلوم کہ کب میں نے شوہر کے اعتماد اور ممتا کو جفا کا نشہ پلا کرسلا دیا ؟کب مجھ میں یونیورسٹی کی ادب کی طالبہ بیدار ہوگئی؟ویسے میں اب تک سوچتی ہوں کہ کوئی قیامت تو نہیں آجانی تھی اگر تمہارے معاملے میں میرے والدین اثبات کا رویہ اختیار کرتے۔لیکن شاید انہیں کوئی انٹلکچول اور مفکر قسم کا داماد نہیں چاہیے تھا ۔وہ تو چاہتے تھے کوئی بیوروکریٹ،کوئی سہگل ٹائپ بزنس مین اور بس……!بزنس مین……؟……ہونہہ!ہر جذبے اور ہر سوچ کو اشرفیوں میں تولنے والا پتھر آدمی……!‘‘
’’تم اپنے شوہر کی توہین کررہی ہو۔‘‘
’’اور جو میری توہین کی گئی مجھ پہ بھروسہ نہ کرکے؟۔میں اکثر سوچتی ہوں شمس کہ ہمارے معاشرتی رویوں میں اور کہیں استقلال ہو نہ ہو لیکن عورت کے معاملے میں شاید ہمارے تمام مکاتیبِ فکر کا اس سوچ پہ اجماع ہے کہ عورت بھروسے کے،اعتماد کے لائق نہیں اور پھر عورت سے فہم وادراک اور علم وحکمت کی توقع تو کی ہی نہیں جا سکتی۔‘‘
’’ہاں کرن سچ کہتی ہو تم……یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے ۔اگر عورت کوچیزے دیگرنہ سمجھا جائے تو وہ ہر میدان میں معرکے سر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔‘‘
’’ایسا ہو تب ہے ناں۔‘‘
’’دنیا میں صرف دوالمیے ہوتے ہیں کرن……!‘‘
’’کون سے؟‘‘
’’ایک یہ کہ آدمی کو وہ نہ ملے جو وہ چاہتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ مل جائے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اُف……دوبج گئے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ادھر دیوار ی گھڑی پر۔‘‘
’’نو……!یار یہ وقت کی نبض اتنی تیز کیوں چل رہی ہے؟‘‘
’’اسے بھی محبت کا بخار چڑھا ہوا ہے۔‘‘
’’ہماری زندگیوں کا دارومدار وقت کی رحم دلی پر ہے۔کوئی نہیں جو وقت کی باگیں کھینچے ،کوئی نہیں جواِسے کہے یارذراآہستہ……!‘‘
اچھا تم کوئی اور بات کرو۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’وہ محبت اور ادب سے ہٹ کر ہونی چاہیے۔‘‘
’’اچھا……اوں……ہوں……نہیں یار……ایسا نہیں ہوسکتا۔ہم محبت اور ادب کے بغیر صفر ہیں۔‘‘
’’چلو یوں ہی سہی۔تم کوئی شعر ویر سناؤ۔‘‘
’’شعروں ویروں کو چھوڑو ۔میں تمہیں ایک گیت سناتا ہوں۔ایک نغمہ……!‘‘
’’نغمہ……!یاد ہے تمہیں شمس کہ پروفیسر سارنگ نے ہمیں موسیقی اور شاعری پر ایک خصوصی لیکچر دیا تھا ۔پتہ نہیں کس کا حوالہ تھا ؟ شاید ……مولانا ابوالکلام آزاد کا……!‘‘
’’جن کا پورے بتیس چونتیس صفحات کا ایک خط موسیقی کے بارے میں ہے……غبارِ خاطر کا آخری خط……!‘‘
’’ہاں ،ہاں……اسی خط میں مولانانے کہیں یہ بات لکھی کہ طبیعت کا توازن اور فکر کی لطافت بغیر موسیقی کی ممارست کے حاصل نہیں ہوسکتی……‘‘
’’کیا وہ فی الواقع مولوی تھے؟‘‘
’’پتہ نہیں تھے یا نہیں پر انہوں نے خدا لگتی باتیں کہی تھیں کہ نغمہ بھی ایک شعر ہے لیکن اسے حرف ولفظ کا بھیس نہیں ملا ،اس نے اپنی روح معنی کے لئے نواؤں کا بھیس تیا کرلیا……‘‘
’’یار ……یہ مولانا آزاد کہاں سے ٹپک پڑے؟چلو تم گیت سنو……وہ والا نہیں کہ کون ساگیت سنو گی انجم……بلکہ یہ تو نصرت فتح علی نے گایا ہے ،بھئی کمال کی کمپوزنگ ہے!
سانوں اک پل چین نہ آوے سجناں تیرے بناں
دل کملا ڈُب ڈُب جاوے سجناں تیرے بناں
ہوکے ہاڑے ہجر تے اتھرو دے گیا یار سوغاتاں
مُڑ نہ آئے دل دے محرم بیت گیاں برساتاں
’’اور وہ سلمان شاہ کی گائی ہوئی بابا بلھے شاہ کی وہ کافی تم نے نہیں سنی:
اساں کو عشق مریندا ڈھولن ول ول قتل کریندا
’’بھئی مجھے تو وہ بہت پسند ہے……وہ……یار……کیا ہے……ہاں:
یار ڈاہڈھی آتش عشق نے لائی ہے
اساں کوں ہو گئی بے اختیاری
سینے دے وچ نہ سمائی ہے
’’ہر لَے کا اپنا ایک حُسن اور ابلاغ ہوتا ہے۔‘‘—-وہ دونوں اپنی اپنی پسند سے اپنی شدت کا اظہار کررہے تھے۔ایک سراپا ہجر……ایک سراپا سوز……!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اللہ اکبر……اللہ اکبر !!‘‘—-دور پار سے آواز آئی۔
’’زندگی صبح کی اذاں تک ہے……‘‘
’’کبھی کسی کو مکمل زندگی ملی بھی ہے ……زندگی تو رہی ایک طرف مکمل خوشی بلکہ مکمل غم بھی کسی کو نہیں ملا اور یہ زندگی ……ہم نے اپنے اپنے روز وشب کو زندگی سمجھ رکھا ہے۔ہماری سوئی اپنی ذات کے ریکارڈ پلے پر ہی اٹکی رہتی ہے۔ہم اپنی ذات کے حصار سے نکل کر دیکھیں تو یہ کائنات بہت وسیع لگے،جہاں ایک طرف انسان مختلف سیاسی،سماجی،معاشی اور روحانی مسائل سے دوچار ہے تو دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی سورج کو کھینچ کر فرش نشیں کرنے میں جُتی ہوئی ہے اور پھر یہ الیکٹرانک میڈیا……؟دنیا سمٹ کر ڈرائنگ روم ،بلکہ انسانی آنکھ کی دوپُتلیوں میں آبسی ہے۔اس کے باوجود انسان کتنا تنہا ہوتا جارہا ہے۔
’’کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں……!‘‘
’’جتنا کسی نے اپنے آپ سمجھا ہے ،جانا ہے ،جتنی خودآگاہی حاصل کی ہے اتنا ہی وہ یکّا وتنہا ہوا ہے۔‘‘
’’گویا آگہی سب سے بڑا عذاب ہے۔‘‘
’’یقینا……لیکن اس عذاب سے گزرنا ضروری ہوتا ہے اور یہ عذاب وہ عظیم روحانی تجربہ ہے جس سے گزر کر انسان صحیح معنوں میں کندن بنتا ہے……ایک کھرا انسان……سب آلائشوں سے پاک!!‘‘
’’لااِلہ الااللہ……!‘‘
’’لگتا ہے ہمارا وقت پورا ہوگیا ہے۔‘‘
’’ہاں……شاید……ہماری حالت اس بوڑھے غبی طالب علم کی سی ہے جو معلمِ عصر کے ہاتھوں طمانچے کھا کھا کر ڈھیٹ بن جاتا ہے اور پھر کتابِ زندگی سے جہالت،کینہ،بُغض،عناد،لُوٹ کھسوٹ،ریاکاری جیسے الفاظ کے معنی ومطالب جاننے کی کوشش میں انہیں دانتوں میں چباتا رہتا ہے ،پیستا رہتا ہے اور اپنی مُٹھیاں بھینچ بھینچ کر ہوا میں لہراتا رہتا ہے۔محض خالی خولی وقت پر غصہ نکالتا رہتا ہے ۔وقت……؟اے وقت،اے یارِ مہربان!!ہم ایسے محبت زدہ ’’بوڑھوں‘‘پر تیرا یہ احسان کیاکم ہے کہ تُو نے اپنے لمحوں کے خزانوں میں سے قرنوں پہ بھاری ایک رات ہمیں بھی تحفے کے طور پر بخش دی ۔ہم نے یہ خزانہ،یہ تحفہ ضائع تو نہیں کیا۔اے وقت۔اے یارِ مہربان!!……پھر کب؟……کبھی تو پھر مہربان ہونا۔‘‘ہوکے،آہوں اور حسرتوں سے اب کمرہ ناک ناک ڈوب چلاتھا۔
’’اچھا تو میں چلتا ہوں……لیکن وہ ایک بات……جوابھی باقی ہے……ہزار باتوں پہ بھاری ایک بات!……اس کے کہنے کے لیے تو صدیاں درکار ہیں ……اے زمانے……اے وقت……اے عصر……تو کیا کوئی امید رکھوں……شاید……شاید……اچھا خدا حافظ……‘‘
وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا۔’’خدا ہی حافظ!!‘‘ لفظ لرز رہے تھے۔وہی دروازہ تھا۔دروازے پر اسی طرح اندھیرے کا پہرہ تھا پر اب اس دروازے میں اسے الوداع کہنے کے لیے صرف ایک ہیولا کھڑا تھا……باہر ابھی تک سنّاٹا تھا……دور پار کہیں روشنی کے آثار نظر آرہے تھے۔