’’ یہ سِکھڑا اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟ حرامزادہ سوئر کی طرح اکڑ کے چلتا ہے، اُوپر سے گھورتا بھی ہے‘‘۔شوکا اس وقت غصے میں تھا۔
’’شوکے !ذرا تحمل سے کام لو اور ٹھنڈے دل سے سوچو‘‘۔ دارا بولا۔
’’ دارے خاں ! اب صبر نہیں ہوتا۔ بات حد سے نکل گئی‘‘۔جاگیرے نے اپنی مونچھ کو بل دیتے ہوئے کہا۔
’’ آخر یہ عاقل خاں ہماری ساری برادری سے طاقتور تو نہیں ؟ کل کھوہ سے آتے ہوئے ٹانگیں توڑ دو‘‘۔
’’ لیکن۔۔۔‘!‘
’’ لیکن ویکن کچھ نہیں۔ ‘‘غفارے نے دارے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ابھی ہم اتنے بے غیرت بھی نہیں ہوئے کہ عاقل خاں دن دیہاڑے ہماری عزت پر ہاتھ ڈالے اور اب تو بات کمیوں کے منہ پر بھی آ گئی ہے‘‘۔
ڈیرے میں بیٹھا ہر شخص آج طیش میں تھا اس لئے بات دارے کے ہاتھ سے نکل گئی۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ لڑائی ہو اور بات آس پاس کے گاؤں میں بھی پھیل جائے۔ مگر رات کے بارہ بجے ایک فیصلہ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔
سردار نتھاسنگھ کی قلعہ نما حویلی گاؤں کے مرکز میں تھی جس میں سکھوں کے پچاس گھر آباد تھے۔جن کی اکثریت زمین داروں کی تھی۔گاؤں میں زمین تو چودھری سردار محمد عرف دارے خاں اور سردار احمد بخش کی بھی کافی تھی لیکن رعب داب نتھا سنگھ کا ہی تھا۔سکھ، مسلمان کا تعصّب بالکل نہیں تھا۔گاؤں والے دکھ درد کے سانجھے اور صدیوں سے ایک دوسرے کے مدد گار تھے۔ الغرض زندگی امن سے چل رہی تھی کہ اچانک تقسیم کا عذاب آ پڑا۔ساری فاختائیں اُڑ گئیں۔ نتھا سنگھ کو بھی حویلی چھوڑنا پڑی۔ چھکڑوں پر سامان لد گیا اور ساراقبیلہ لدھیانے کے لئے بیل گاڑیوں پر سوار ہو گیا۔ چلنے سے پہلے افراد گنے گئے تو معلوم ہوا کہ شیر سنگھ غائب ہے۔ہزار ڈھونڈا مگر پتہ نہ چلا۔ آخر کار نذیر ے تیلی نے خبر دی،
’’ سردار جی ! شیر سنگھ مسجد میں بیٹھا مولوی جان محمد سے کلمہ پڑھ رہا ہے‘‘۔
یہ سن کر سردار جی کے ہوش اُڑ گئے۔ خبر دھوئیں کی طرح اُٹھی تو مائی دھیراں نے دو ہتھڑ پیٹا اور بین کرنے لگی۔ نتھا سنگھ نے جلدی سے دلبیر کو بھیجا کہ بھائی کو لے کے آئے۔ اِس نے لاکھ منتیں کیں مگر اُس کو نہ آنا تھا، نہ آیا۔
قافلہ تین دن رکا رہا، مائی باپو نے کیا کیا نہ سمجھایا، مگر شیر سنگھ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کیس کٹوا، کڑا کر پان نتھا سنگھ کے منہ پر ماری اور مُسلا ہونے کا اعلان کر دیا۔آخر سردار جی نے بیٹے کی ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔حویلی کی چابیوں کے علاوہ سو ایکڑ زمین کے کاغذات بھی اس کے حوالے کیے۔روتی پیٹتی دھیراں کے ساتھ باقی اولاد کو لیا اور لدھیانہ چلا گیا۔
ادھر گاؤں میں شادیانے بجنے لگے۔ مولوی جان محمد نے شیر سنگھ کا نام عاقل خاں رکھ دیا کہ اس نے مسلمان ہو کر بڑی عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔دوزخ اور ہجرت دونوں سے بچا۔
نتھا سنگھ کی حویلی جو اب عاقل خاں کے پاس تھی، کی دیوار دارے خاں کے چھوٹے بھائی جمال دین کے گھر سے ملی ہوئی تھی، شیداں اُسی جمال دین کی بیٹی ناک نقشے کی درست، بے باک طبیعت کی مالک تھی۔ ادھر یہ بیس سال کا خوب صورت جوان تھا لہٰذا کبھی یہ دیوار سے اُدھر کبھی وہ دیوار سے ادھر۔ تقسیم کو تین سال ہو گئے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یوں آرام سے نبھ رہی تھی کہ ایک دن عاقل خاں نے جانے کیا سوچ کر جمال دین سے رشتہ مانگ لیا۔اُس وقت چودھری بِدکے اور انہیں معاملے کی سنجیدگی کا علم ہوا۔
فوراََ انکار کر دیا بلکہ لین دین بھی ختم کیا۔ اِس نے بڑا زور مارا لیکن کوئی بس نہ چلا۔ لاکھ زمینوں والا سہی، آخر ہے تو سکھ کا بیٹا۔ چودھری رشتہ دے کر زمانے کو کیا منہ دکھاتے۔
بالآخر شیداں دارے خاں کے بیٹے شوکے سے بیاہ دی گئی۔ مگر یہ بھی نچلا نہ بیٹھا، برابر ملتا رہا۔ پانچ سال ہونے کو آئے، اُس کے دو بچے ہو گئے مگر اِدھر وہی جذبہ بلکہ اب تو احتیاط بھی کچھ باقی نہ رہی اور بات دُور تک نکل گئی۔ کچھ لوگ تو یہاں تک کہنے لگے کہ بچے شوکت سے نہیں، عاقل خاں سے ہیں۔
شوکے نے شیداں کو لاکھ مارا پیٹا، کئی دفعہ عاقل خاں کو بھی دھمکایا لیکن نتیجہ سوائے بدنامی کے کچھ نہ نکلا۔کئی دفعہ چودھریوں کی نیت بدلی مگر عملی کارروائی نہ کر سکے۔ اس طرح کچھ وقت اور گزر گیا۔ آخر چودھری کہاں تک برداشت کرتے۔ اس لئے انہیں اب حتمی فیصلہ کرنا پڑا۔
۔۔۔۔۔
وہ کھوہ پر پہنچا تو شبیرا بھینسوں کو چارہ ڈال رہا تھا۔ اِس نے اپنی چھوی جس کادستہ چھ فٹ لمبے بانس کا تھا، شریہنہ کے تنے کے ساتھ لگا دی اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس نے سوچا، میں بھی کوئی بزدل نہیں۔ آدھ سیر دیسی گھی تو میری ایک دن کی خوراک ہے۔گاؤں میں بس یہ شبیرا ہی ایک ایسا ہے جو میرے مقابلے کا ہے۔لیکن یہ بھی میرا ہی آدمی ہے ویسے بھی جب یہ فیروز پور سے آیا تھا تو میں نے ہی اس کی مدد کی، رہنے کو اپنے کھوہ پر جگہ دی۔ آج سات سال ہو گئے، میری ہی زمین کاشت کرتا ہے۔
اُس نے سوچا یہ بھی اچھا ہی ہوا جوشبیرا میرے پاس ہی چلا آیا۔گاؤں میں کوئی تو ایسا ہے جو میرا اپنا ہے۔ انہیں خیالوں میں گم تھا کہ شبیراپاس آ بیٹھا۔ شبیرے کو دیکھ کر عاقل خاں اُٹھ بیٹھا۔کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ آخر عاقل خاں کی طرف دیکھتے ہوئے شبیرا بولا، ’’ بھائی عاقل خاں ! آج کل چودھریوں کے تیور ٹھیک نظر نہیں آتے‘‘۔
’’ لگتا مجھے بھی کچھ ایسا ہی ہے، پھر کیا کیا جائے؟‘‘ عاقل خاں اُٹھتے ہوئے بولا۔
’’ کرنا کیا ہے ؟ میں تو کہتا ہوں شیداں کا پیچھا اب چھوڑ ہی دے، کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے‘‘۔شبیرے نے دھیمے سے کہا۔
’’ شبیرے یہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ عاقل خاں بولا۔
’’آخر کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘ شبیرے نے پوچھا۔
’’ اس لئے کہ اسی بے چاری کی خاطر تو میں نے واہگرو سے بے وفائی کی۔ دین دھرم بدلا اور ساری برادری سے لعنتیں لے کرمُسلا ہوا۔ جب سارا قبیلہ لدھیانے چلا گیا تو میں نے اِسی کی خاطر گاؤں نہ چھوڑا اور شیر سنگھ سے عاقل خاں بنا، بے بے روتی پیٹتی چلی گئی‘‘۔
کچھ دیر رک کر بولا، ’’ پھر تو بھی تو میرے ساتھ ہے، ان کو پتا ہے کہ دو شیر سنبھالنے مشکل ہیں ‘‘۔
شبیر ا یہ سن کر کچھ دیر چپ رہا، پھر کہنے لگا، ’’بھائی عاقل خاں !ٹھیک ہے میں تیرے ساتھ ہوں، آخر تجھے بڑا بھائی سمجھتا ہوں لیکن پھر بھی احتیاط سے‘‘۔
جب آٹھ دس دن فیصلے کو ہو گئے اور چودھریوں کی طرف سے کوئی کارروائی نہ ہوئی تو عاقل خاں پھر حوصلے میں آگیا۔دوسرا غضب یہ ہوا کہ سردار احمد بخش نے پیغام بھیج دیا، جس کا دارے خاں سے شریکا تھا۔
’’ عاقل خاں ! کوئی بات نہیں، حوصلہ رکھنا ہم تیرے ساتھ ہیں۔ آخر سردار نتھا سنگھ کو میں نے بھائی کہا تھا، آج اس کے بیٹے کو اکیلا کیسے چھوڑ دوں گا‘‘۔
ان باتوں سے عاقل خاں پہلے سے بھی شیر ہو گیا اور کھل کھیلنے لگا۔ اور بات یہاں تک پہنچی کہ چودھریوں کے محلے سے گزرتے ہوئی اونچی اونچی کھانستا اور طرح طرح کے آوازے بھی کسنے لگا۔
’’ سن دے سی گے، میدان لگنا وا۔ پر چپ چاند ای ہو گئی آ۔بیبا! شیراں نال میدان لانے کوئی سوکھی گل آ۔ پن سیری کلیجہ چاہی دا، پن سیری‘‘۔
۔۔۔۔۔
آج نو چندی تھی۔ گاؤں کی غریب عورتیں اور بچے عاقل خاں کے کھوہ پر جمع تھے۔ عاقل خاں بھینسوں کا دودھ اُن میں تقسیم کر نے لگا۔ہر نوچندی کو دودھ تقسیم کرنے کی رسم اس کے دادے سردار موہن سنگھ سے چلی آتی تھی۔جب شام کا جھٹپٹا سا ہو گیا، عورتیں اور بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو عاقل خاں کچھ دیر بیٹھ کر حقہ پیتا رہا پھراُس نے
ایک ہاتھ میں اپنی چھوَی اور دوسرے میں کتیا کی زنجیر پکڑ کر اُٹھ کھڑا ہوا اور جاتے جاتے شبیرے کو آواز دی( آج اُس نے رہٹ چلایا ہوا تھا)۔
’’ لے شبیرے رب راکھا، میں چلیا، تو اج کماد نوں پانی لا کے سونا‘‘۔
شبیرے نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔
اندھیرا چھا چکا تھا۔وہ بے فکری سے چلتا ہوا جیسے ہی چودھریوں کے محلے کے نکڑ پر پہنچا، کچھ جوانوں نے راستہ روک لیا۔
شوکا سب سے آگے تھا۔اس نے کہا، ’’ لے عاقل خاں ! ہم نے آج پن سیری کلیجہ کر لیا اور میدان میں بھی آ گئے، تو سنبھل لے‘‘۔
عاقل خاں ایک دفعہ تو گھبرا گیا لیکن جلد ہی خود کو سنبھالا۔ کتیا کی زنجیر کھول دی اور چھوَی کو مضبوطی سے پکڑ کر ڈٹ گیا۔
ڈانگو ں اور چھوَیوں کا مینہ برسنے لگا۔ عاقل خاں بے جگری سے لڑ رہا تھا۔ ڈانگوں کے کھڑکنے کی آواز دور تک سنائی دینے لگی۔ جس کی دھمک شبیرے کے کان میں بھی جا پڑی۔ اُس نے سوچا، ہو نہ ہو، چودھری، عاقل خاں سے بھڑ گئے ہیں۔ اِس نے جلدی سے اپنی ڈانگ پکڑی اور امداد کو بھاگا۔
لڑائی تو دو منٹ میں ہی ختم ہو جاتی مگر عاقل خاں کی کتیا غضب کی نکلی۔ اُچھل اُچھل کر چودھریوں کو کاٹنے لگی۔ ادھر عاقل خاں کے ساڑھے چھ فٹ قد اور لمبے دستے والی چھوَی نے بھی بڑا کام کیا۔ دو تین چودھری زخمی کر کے گرا دیے مگر کہاں تک۔ آخر پانچ منٹ بعد ہی عاقل خاں بھی گر گیا۔ شبیرا پہنچا تو چودھری جا چکے تھے۔باقی خلقت موجود تھی۔ شبیرا چودھریوں کو گالیاں دیتے ہوئے جب عاقل خاں کے نزدیک آیا اور اُسے اُٹھانے کی کوشش کی تو وہ اُٹھ نہ سکا۔اِس نے دیکھا کہ دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں اور کتیا پاس کھڑی زخمی حالت میں شدت سے بھونک رہی تھی۔
خیر دس بجے کے قریب شبیرے نے عاقل خاں کو شہر کے ہسپتال پہنچایا۔ علاج شروع ہو گیا۔دوسرے دن رپٹ درج کرا دی اور مقدمہ چل پڑا۔
ادھر شبیرے کی توجہ اور گھی دودھ کی بدولت عاقل خاں کے زخم جلد ہی بھرنے لگے۔ یہاں تک کہ چند ماہ میں ہی دوبارہ چلنے پھرنے لگا مگر ٹانگوں میں ایک لنگ سا پیدا ہو گیا کہ دُور سے ہی عیب ظاہر ہو جاتا تھا۔یعنی وہ پہلی سی بات نہ رہی۔ پھر بھی اِس نے بد دلی ظاہر نہ ہونے دی اور بجائے پیدل چلنے کے گھوڑے پر بیٹھ کر کھوہ پر آنے جانے لگا۔
دوسری طرف چودھریوں نے ٹانگیں تو توڑ دیں مگر شبیرے اور احمد بخش نے انہیں کیس میں ایسا اُلجھا یا کہ جان چھڑانا مشکل ہو گئی۔مقدمہ طول پکڑ گیا حتیٰ کہ سالوں لمبا ہو گیا۔ادھر رفتہ رفتہ عاقل خاں کا عشق بھی سرد پڑ گیا۔کیونکہ ایک تو جسم میں وہ تاب نہ رہی اور دوسرا مقدمے کے اُلجھاوے نے توجہ بانٹ دی مگر ایک کسک سی دل میں اب بھی باقی تھی۔
پھر ایک دن کچھ لوگوں نے دونوں پارٹیوں میں صلح کرادی جس میں چودھریوں کو کچھ تاوان پڑ گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ نہ جانے کیوں عاقل خاں اب بُجھا بُجھا سا رہنے لگا۔وہ بات بھی کم کم ہی کرتا۔بڑی دفعہ شبیرے نے حوصلہ بھی دیا مگر اُس پر ایک اداسی چھائی رہتی۔اب وہ رات کو اکثر گاؤں آنے کے بجائے شبیرے کے پاس کھوہ پر ہی رہنے لگا تھا۔ کبھی کبھی چپکے سے رو بھی لیتا۔ اس طرح کئی سال مزید گزر گئے۔آخر ایک دن شبیرے سے کہنے لگا، ’’ شبیرے ! کچھ دنوں سے بے بے بہت یاد آ رہی ہے۔ اُس کا جاتے وقت کا روتا ہوا چہرہ آنکھوں سے نہیں ہٹتا۔جانے کیوں آج میرا دل کرتا ہے پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ اب تو کئی سال خط آئے کو بھی ہو گئے پتا نہیں چھوٹی جیناں کا کیا حال ہو گا۔بختاں ماری بیاہ دی گئی ہو گی۔ جانے لگی تو میری ٹانگوں سے چمٹ گئی کہ ویرے کو ساتھ لے جاؤں گی۔واہگرو کی سونہہ، رات کو نیند نہیں آتی‘‘۔
کچھ دیر رک کر آنسوپونچھتے ہوئے پھر بولا، ’’ شبیرے ! کوئی سب کچھ مجھ سے لے لے پر مجھے باپو اور بے بے تک پہنچا دے‘‘۔
عاقل خاں کی باتیں سن کر شبیرے کے بھی آنسو بھی نکل آئے۔ اُسے بھی اپنے ماں باپ یاد آ گئے جو اٹھارہ سال پہلے فیروز پور سے آتے ہوئے بلوے میں مارے گئے تھے۔
پھر ایک دن عاقل خاں نے تحصیل جا کر دس ایکڑ زمین شبیرے کے نام کر دی۔اور لدھیانے جانے کا فیصلہ کر لیا۔سارے گاؤں میں یہ خبر پھیل گئی کہ عاقل خاں اپنی زمین بیچ کر لدھیانے جانا چاہتا ہے۔ بات جونہی احمد بخش کے کان تک پہنچی اُس نے زمین خریدنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ اُسے معلوم تھا کہ اتنی اچھی اور نَے کی زمین ہاتھ آنے کا اِس سے اچھا اورسستا موقع پھر ہاتھ نہیں آئے گا۔ اُس نے عاقل خاں سے کہا، ’ ’عاقل خاں !سردارنتھا سنگھ میرا بھائی بنا تھا اِس لئے پہلا حق میرا ہے‘‘۔خیر عاقل خاں احمد بخش کے ہاتھ زمین بیچنے کو تیار ہو گیا۔اُدھر چودھریوں کو پتا چلا تو وہ پیچ و تاب کھانے لگے۔ احمد بخش کا عاقل خاں سے زمین خریدنا اُنہیں بالکل گوارا نہ تھا مگر مصیبت یہ تھی کہ عاقل خاں دارے خاں کو زمین کبھی نہ دیتا۔ یہ دارے خاں کو بھی پتہ تھا۔
مغرب کی نماز کے بعد تو مسجد کے دروازے پر اس زمین کے معاملے میں چودھری دارے خاں اور احمد بخش کے درمیان کافی لے دے بھی ہوئی اور دارے خاں نے احمد بخش کو یہاں تک دھمکی دے دی کہ تُو ہمیں نہیں جانتا۔ شریکے کے معاملے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ زمین ہماری زمینوں کے ساتھ پڑتی ہے اِس لئے زمین اگر خریدیں گے تو ہم ہی۔اس پر سردار احمد بخش تمسخرانہ انداز میں ہنسا اور آگے بڑھ گیا۔ دوسرے دن احمد بخش رقم اور گواہ لے کر تحصیل پہنچ گیا کہ شام اُس کے ساتھ عاقل خاں کی بات پکی ہو گئی تھی لیکن اُس نے دیکھا کہ دارے خاں کچھ آدمیوں کے ساتھ پہلے سے وہاں موجود تھا۔وہ اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا اور پھر یہ سُن کر تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچا کہ عاقل خاں نے کچھ
ہی دیر پہلے زمین دارے خاں کے ہاتھ بیچ دی ہے۔ احمد بخش نے عاقل خاں کی طرف مڑ کر بگڑتے ہوئے پوچھا، ’’ یہ تو نے کیا کیا، تجھے حیا نہ آئی؟
اِس پر عاقل خاں نے سر جھکا کر کہا، ’’ چاچا احمد بخش ! رات دارے خاں کے ساتھ وہ آئی تھی۔۔۔ اب تو ہی بتا، میں شیداں کی بات کیسے ٹال دیتا ؟‘‘