’’بھا بھی ،آپ ایک دفعہ مجھے بتاتی تو سہی،میں اڑ کر اپنے بھائی کو دیکھنے آ جاتی۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی والدہ کے آنسو کسی صورت نہیں تھم رہے تھے جب سے انہوں نے اپنے بھائی کے انتقال کی خبر سنی تھی۔وہ اس وقت اپنے بیٹے رامس کے ساتھ ثنائیلہ کے گھر میں موجود تھیں۔
’’بس ،کیا بتاتی،میرے اوپر تو خود غموں کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا۔ایک تو پردیس اور اوپر سے اتنے محبت کرنے والے شریک حیات کی جدائی نے مجھے تو نیم پاگل سا کر دیا۔‘‘وہ بہت محبت سے اپنی نند کا ہاتھ پکڑ کر ساری تفصیل بتاتی گئیں۔
’’پاکستان آنے کے بعد میں نے سوچا کہ آپ کے حصّے کی رقم پہلی فرصت میں آپ تک پہنچا دوں۔اُس کے بعد خود بیمار ہو گئی۔اس لیے وکیل صاحب کو بجھوا دیا۔‘‘ ان کی بات پر بالکل چپ بیٹھے شہیر نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
’’یہ تو اچھا خاصا ہینڈسم بندہ ہے ،لیکن پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔‘‘ کچن میں ان لوگوں کے لیے کھانا تیار کرتی ثنائیلہ نے اپنی الجھن نابیہ سے بیان کی۔جو رامس کی والدہ کی آمد کا سنتے ہی فورا تیر کی طرح آن پہنچی تھی تب سے ثنائیلہ کی مکمل ہیلپ کروا رہی تھی۔
’’دیکھو،اب تم اپنے سکندر شاہ کی طرف ہی دھیان دو،کوئی ضرورت نہیں اُس پر بُری نظر ڈالنے کی۔۔۔‘‘نابیہ نے سلاد کے لیے کھیرے کاٹتے ہوئے اُسے شرارت سے جواب دیا۔
’’جب بھی بات کرنا،کوئی نہ کوئی بونگی ہی مارنا۔۔۔‘‘ اُس نے کباب تلتے ہوئے جل کر جواب دیا تو نابیہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’ایک گلاس پانی مل جائے گا۔۔۔‘‘شہیر کے سپاٹ انداز پر وہ دونوں چونکیں ۔وہ نہ جانے کب کچن کے دروازے میں آن کھڑا ہوا تھا۔ثنائیلہ نے فورا فریج سے بوتل نکال کر اُس کی طرف بڑھائی۔جسے لے کر وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔
’’یہ تمہارے بھائی کے منہ پر کیوں ساڑھے بارہ بجے ہوئے ہیں۔جب سے آیا ہے ،ایسے کھاجانے والی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔‘‘ نابیہ نے ہلکے پھلکے انداز میں جتایا تو ایک تاریک سا سایہ ثنائیلہ کے چہرے پر دوڑا۔
’’ہاں ،اُسے سخت غصّہ ہے کہ ہم نے ماموں سے رابطے کی بات ان سے کیوں چھپائی،اور یہ کہ پیسے گھر کی مرمت پر کیوں ضائع کیے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر نابیہ کو جھٹکا لگا۔
’’دماغ ٹھیک ہے تمہارے بھائی کا ،خود تو کویت جا کر بیٹھ گیا اور تم لوگوں کو اس کھنڈر جیسے گھر میں چھوڑ کر دوبارہ مڑ کر نہیں پوچھا۔۔۔‘‘نابیہ سلاد بنا نا بھول گئی۔
’’اُسے غصّہ ہے کہ اگر وہ پیسے اُسے مل جاتے تو وہ پاکستان آ کر کوئی بزنس کر لیتا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے ہاتھ دھوتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بتایا۔
’’ہونہہ،اب اُس کی مطلبی اور خود غرض بیگم اُسے چھوڑ کر چلی گئی تو اُسے پاکستان کی یاد آ گئی۔۔۔‘‘ نابیہ کا لہجہ زہر آلود ہوا۔
’’خواتین آج کی تاریخ میں کھانا مل جائے گا۔۔۔‘‘ رامس کے خوشگوار انداز پر وہ دونوں چونکیں۔ نابیہ کے ہاتھ میں پکڑا کھیراچھوٹ کر زمین پر جا گرا۔جب کہ اپنے دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتی ثنائیلہ مسکرا دی۔
’’بھئی میں تو اپنے حصّے کا کام نبٹا چکی ہوں،یہ دوسری پارٹی ہی اتنی سست ہے تو کیا کیا جائے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے شرارت سے نابیہ کی طرف اشارہ کیا جو اس حملے پر گڑبڑا سی گئی۔
’’اوہو،تو یہ مسئلہ ہے۔۔۔‘‘رامس دونوں بازو اپنے سینے پر جما کر اب بڑی گہری نگاہوں سے نابیہ کو دیکھ رہا تھا اس کی نگاہوں کی تپش سے نابیہ کے رخسار سرخ ہو ئے۔
’’اس کا مطلب ہے کہ مجھے اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔۔۔‘‘ رامس کا معنی خیز انداز نابیہ کے ہاتھ پیر پھلا گیا۔
’’بائی داوے رامس صاحب، آپ اگر اسی طرح کسی انسپکشن ٹیم کے ہیڈ کی طرح ہمارے سروں پر سوار رہے توآجکا ڈنر آپ کو کل ہی ملے گا۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اُسے مصنوعی خفگی سے
گھورا تو وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔
’’کتنی ظالم دنیا ہے۔ان کا بس بھی ہم جیسے غریبوں پر ہی چلتا ہے۔۔۔‘‘ اُس نے فرضی دکھ کے زیر اثر ایک لمبی آہ بھری۔’’حالانکہ بندہ پوچھے کہ میں نے کہا کیا ہے۔‘‘رامس کی شوخی عروج پر تھی۔وہ مسلسل نابیہ پر نظریں جمائے اُسے نروس کر رہا تھا۔
’’بھئی یہ جو آپ ظالم نظروں کے وار کر رہے ہیں ناں عوام الناس پر ،اس کی وجہ سے ہمارا سلاد خاصا لیٹ ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے بڑی صفائی سے چھری نابیہ کے ہاتھ سے پکڑ لی۔
’’ادھر دو بہن کہیں زلیخا کی طرح انگلیاں نہ کٹوا بیٹھنا ،آجکل تو ویسے بھی رشتوں کا بڑا مسئلہ ہے،بغیر انگلیوں والی لڑکی کو کون اپنائے گا۔‘‘ ثنائیلہ نے ہنستے ہوئے نابیہ کو چھیڑا۔
’’کچھ لوگ بڑے دل جگرے والے ہوتے ہیں ۔وہ گونگی بہری،اندھی کانی،حتّی کہ خاصی زبان دراز لڑکیوں کو بھی اپنانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔‘‘ رامس کی بات پر ثنائیلہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔جب کہ نابیہ نے اُسے گھور کر دیکھا جس کی زبان دانی کے جوہر آج کھل کر سامنے آ رہے تھے۔
* * *
’’مجھے تو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ آپ دوسروں سے بدلہ لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے آج پھر اُسے پارک میں پکڑ لیا تھا۔وہ جو پینٹنگ بنانے کے لیے اپنا کینوس سیٹ کر رہی تھی اُن کی بات کو سمجھ کر مسکرا دی ۔اُسے بخوبی اندازہ تھا کہ اُس کا اشارہ اُس دن والی ملاقات کی طرف تھا جہاں عائشہ نے ان کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
’’بلیو می،میں نے ایسا جان بوجھ کر نہیں کیا،بس ایسے ہی زبان پھسل گئی۔۔۔‘‘ عائشہ نے مسکراتے ہوئے انہیں یقین دلایا۔گہرے سبز رنگ میں وہ اس خوبصورت صبح کا ایک دلکش اور دلفریب سا رنگ لگ رہی تھی۔
’’آپ کی زبان نے تو حقیقتاً میرے چھکے چھڑا دیے،مجھے تو موحد کا ڈر تھا کہ وہ کیا سوچے گا۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے خوشگوار انداز میں بتایا تو وہ ہنس دی۔
’’میرا بھائی ماشاء اللہ بہت اچھا ہے،وہ ایسی فضول باتوں پر دھیان نہیں دیتا۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں یقین کی فراوانی تھی۔
’’پھر بھی ایک دفعہ تو آپ نے میرے حواس ہی گم کر دیے۔۔۔‘‘ وہ بے تکلفی سے بتا تے ہوئے سامنے رکھے بڑے سے پتھر پر بیٹھ گئے۔
’’آپ نے مجھے بتایا کیوں نہیں ،کہ آپ ڈاکٹر ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے گلہ کیا۔
’’آپ نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔۔۔‘‘انہوں نے سادگی سے جواب دیا۔
’’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ اپنے اتنے بزی شیڈول میں سے اتنا ٹائم نکال کر ایگزیبیشن وغیرہ میں کیسے چلے جاتے تھے۔‘‘ عائشہ بھی اُن کے بالمقابل رکھے پتھر پر آن بیٹھی۔
’’بھئی جس چیز کا انسان کو شوق ہو،وہ اُس کے لیے ٹائم کہیں نہ کہیں سے نکال ہی لیتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے اسے بغور دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہوں ،ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔‘‘ عائشہ مسکرائی۔’’یہ رامس کہاں بزی ہے آجکل۔۔۔‘‘اسے اچانک ہی یاد آیا۔
’’وہ آج کل ماما کا رائٹ ہینڈ بنا ہوا ہے۔ان کے کاموں کو نبٹانے میں لگا ہوا ہے۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی بات پر وہ چونکی۔ ’’کیسے کام۔۔۔؟؟؟‘‘
’’بھئی میرے لیے کسی اچھی سی لڑکی کی تلاش میں ہیں دونوں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی بات پر عائشہ کا دل بے ہنگم انداز سے دھڑکا۔اُس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر ڈاکٹر خاور کو دیکھا۔
’’بھئی کوئی اچھی لڑکی ہے نظر میں تو بتائیے گا۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے چھیڑنے پر وہ بُری طرح تپی۔
’’ہاں ہے۔۔۔‘‘ اُس نے بڑی سرعت سے کہا۔
’’کون ۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے اُس کا تپا تپا سا چہرہ بڑی دلچسپی سے دیکھا۔
’’میری دوست،ماہم۔۔۔‘‘ وہ اب غصے سے اپنے بیگ سے رنگ اور برش نکالنے لگی۔
’’ہوں۔۔۔ماہم بھی اچھی چوائس ہے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی۔جب کہ عائشہ کا چہرہ ناراضگی کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔
’’ویسے بائی داوے ،آپ کی کیا ماہم سے کوئی ناراضگی چل رہی ہے۔۔۔‘‘ انہوں نے ایک دم ہی پوچھا۔
’’نہیں تو آپ کو کس نے کہا۔۔۔؟؟؟ اُس نے چونک کر ڈاکٹر خاور کا سنجیدہ چہرہ دیکھا۔
’’اچھا،مجھے ایسا لگا تھا ۔اللہ جانے کیوں۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا الجھے۔
’’کیسا لگا تھا۔۔۔؟؟؟‘‘وہ ساری ناراضگی بھول بھال کر ان کے قریب آن کر کھڑی ہو گئی۔ ڈاکٹر خاور اس کے اس انداز پر مسکرا دیے۔وہ اب دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ عائشہ کو کس طرح سے ٹالنا ہے جو اُس کو بُرا بھی نہ لگے۔
* * *
’’ماما،ہا ئیٹ دیکھی ہے آپ نے اس بندے کی،میرے کندھوں تک بمشکل آئے گا۔۔۔‘‘ماہم نے بڑی بیزاری کے ساتھ ہاتھ میں پکڑی تصویر صوفے پر اچھالی اور زبردستی ٹی وی کی طرف متوجہ ہوئی جہاں ثمن آپی کا مارننگ شو ،ری پیٹ میں چل رہا تھا۔
’’بزنس کی دنیا میں ایک نام ہے اس کا، سی اے کیا ہوا ہے۔کروڑوں کی جائیداد کا تنہا وارث ہے۔۔۔‘‘مسزمنصور نے اُسے مطلوبہ پرپوزل کی چند ایک خصوصیات بتائیں جو ان کی نظر میں خاصی پرکشش تھیں۔
’’ماما کیا فائدہ۔۔۔‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔چہرے پر دنیا جہاں کی بے زاری اور کوفت کی فراوانی تھی۔ ’’جب ایک بندہ آپ کے ساتھ چلتا ہواہی اچھا نہیں لگ رہا تھا تو ایسی کروڑوں کی جائیداد کو چاٹنا ہے کیا۔۔۔‘‘ اُسے غصّہ ہی تو آگیا ۔
’’پھر مسز گیلانی کے بیٹے میں کیا بُرائی تھی،اچھا خاصا چھ فٹ کا بندہ تھا۔۔۔‘‘ماما کو اُس کا ایک اور مسترد کیا پرپوزل عین وقت پر یاد آیا۔
’’رنگ دیکھا تھا آپ نے مسز گیلانی کے بیٹے کا۔۔۔‘‘ ماہم سلگ کر بولی۔’’بلیک پینٹ کوٹ میں پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ کہاں سے شروع ہو رہا ہے اور کہاں ختم۔۔‘‘اُس کے کھل کر مذاق اڑانے پر مسز منصور نے تاسف بھرے انداز سے اُسے دیکھا۔
’’ماہم کچھ خدا کا خوف کرو،اچھی خاصی گندمی رنگت تھی اُس کی ،جیسے ستّر فیصد ہمارے ملک کے مردوں کی ہوتی ہے۔۔۔‘‘
’’رہنے دیں ماما۔آپ کو تو ہر راہ چلتا لڑکا پسند آ جاتا ہے ،اپنی بیٹیوں کے لیے۔۔۔‘‘ ماہم نے طنزیہ نگاہوں سے انہیں یاد دلایا جب انہیں ائیر پورٹ پر ایک فیملی کا بیٹا اچھا لگ گیا تھا جسے ماہم نے ایک نگاہ میں ہی ریجیکٹ کر دیا تھا ۔ وہ کوفت بھرے انداز سے پہلو بدل کر رہ گئیں۔
’’پھر اس کا ایک ہی حل ہے میرے پاس۔۔۔‘‘ وہ تپ کر کھڑی ہوئیں۔ جب کہ ٹی وی اسکرین پر ثمن کے شو پر نظریں جمائے بیٹھی ماہم نے بے زاری سے ماما کو دیکھا جن پر آجکل ماہم کی شادی کروانے کا بھوت سوار تھا۔
’’وہ کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’تم اللہ سے کہہ کر اسپیشل آرڈر پر ہی اپنے لیے کوئی لڑکا تیار کروا لو،ورنہ جیسی تمہاری ڈیمانڈ ہے ۔کوئی نہیں ملنے والا۔۔۔‘‘ماما بڑے شعلہ برساتی نگاہوں سے اُسے دیکھتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔جب کہ ماہم لاپرواہی سے اپنے کندھے جھٹک کر اب ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی۔
’’یہ ثمن آپی بھی اپنے شو میں کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ ہی اوور ہو جاتی ہیں۔۔۔‘‘اُس نے کوفت بھرے انداز سے ریموٹ کنٹرول سے چینل بدلا جہاں سامنے ہی کوئی فیشن ڈریس شو آ رہا تھا۔وہ اب کچھ دیر پہلے کی کوفت کو بھلائے بڑی دلچسپی سے ٹی وی دیکھ رہی تھی۔جب سیل فون کی مترنم سی گھنٹی نے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔سامنے ’’علی کالنگ‘‘کے الفاظ پڑھ کر اُسے اپنی ساری ناراضگی یاد آ گئی۔اُس نے بہت بُرے طریقے سے اُس کی کال کو ریجیکٹ کیا اور صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔اُس کا سارا ذہنی سکون ایک لمحے میں غارت ہو گیا۔
* * *
’’امّی ،دماغ ٹھیک ہے شہیر کا،آخر وہ کس منہ سے آپ سے نابیہ کے رشتے کے لیے کہہ رہا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کا دماغ بھک کر کے اڑا ۔جب اُس نے اپنی والدہ کے منہ سے صبح صبح یہ عجیب بات سنی۔
’’وہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو بیٹا۔۔۔‘‘مسز زبیر نے دانستہ نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔’’لیکن اُس کی ضد ہے کہ میں اُس کا رشتہ مانگنے جاؤں ورنہ وہ واپس کویت چلا جائے گا۔‘‘ انہوں نے اپنی مجبوری بیان کی تو ثنائیلہ کو ٹھیک ٹھاک قسم کا غصّہ آگیا۔
’’جانا ہے تو ہزار دفعہ جائے،لیکن ہمیں بلیک میل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں،پہلے بھی وہ ہماری مرضی کے بغیر ہی گیا تھا اور ہمیں اُس کے وہاں جانے کا کیا فائدہ ہوا۔جو کچھ اُس نے کمایا اپنی سالیوں کی شادیوں پر لگا دیا۔‘‘ ثنائیلہ نے غصّے سے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ میز پر پٹخا۔اُس میں سے تھوڑی سی چائے گر کر سفید میز پوش پر داغ ڈال گئی۔
’’پھر مجھے بتاؤ،میں کیا کروں۔۔۔‘‘ان کے بے بس انداز پر ثنائیلہ کا سارا غصّہ بھک کر کے اڑا۔اس لیے وہ تھوڑا نرم انداز میں بولی۔
’’دیکھیں امّی، ثنائیلہ کے گھر والوں سے ہمارے بہت اچھے تعلقات ہیں ۔وہ ہمارے دکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔آپ خود سوچیں کہ وہ اپنی اچھی خاصی بیٹی کا رشتہ کیوں شہیر کو دیں گے۔جس کے بارے میں سب کو پتا ہے کہ وہ ایک شادی کر چکا ہے۔۔۔‘‘
’’لیکن بیٹا بات کرنے میں تو کوئی ہرج نہیں۔چلو شہیر مطمئن ہو جائے گا۔۔۔‘‘ امّی کی بات پر ایک تلخ مسکراہٹ ثنائیلہ کے لبوں پر ابھری۔
’’ہونہہ،اپنے بیٹے کو مطمئن کرنے کے لیے آپ دوسروں کا سکون غارت کریں گی۔۔۔‘‘ وہ خود کو بولنے سے روک نہ پائی۔
’’کیا کروں ،اپنے بیٹے کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوں۔۔۔‘‘وہ رنجیدہ انداز سے گویا ہوئیں۔
’’لیکن دیکھ لیجئے گا کہ نابیہ کے گھر کے علاوہ کوئی ایسا گھرانہ نہیں جو مشکل وقت میں ہمارے کام آ سکے۔ایسا نہ ہو بیٹے کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے تعلقات خراب کر بیٹھیں۔‘‘ثنائیلہ نے ان کو تصویر کا دوسرا رخ دِکھایا۔جب کہ اس سے زیادہ سننا شہیر کی برداشت سے باہر تھا ۔وہ جو سمجھ رہی تھی کہ وہ گہری نیند میں ہے۔اُسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب اُس کے سر پر آن کھڑا ہوا۔ مسز زبیر کا رنگ فق ہوا۔
’’آپی آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟ آپ کیوں ہاتھ منہ دھو کر میرے پیچھے پڑ گئی ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘وہ طنزیہ لہجے میں بولتا ہوا اُس کے بالکل سامنے آن کھڑا ہوا۔
’’اس لیے ،کیونکہ تم ہمارا ذہنی سکون برباد کرنے کی باتیں کر رہے ہو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اُس کے رعب میں آئے بغیر دوبدو جواب دیا۔
’’میں نے کون سا آپ کا سکون بربا د کیا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ سلگ کر بولا۔
’’کبھی تمہیں لگتا ہے کہ ہم نے اس گھر پر پیسہ لگا کر ساری جمع پونجی داؤ پر لگا دی ہے اور کبھی تمہیں یہ خوش فہمی ہونے لگتی ہے کہ نابیہ کے لیے تمہارا پرپوزل ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔‘‘ ثنائیلہ نے طنزیہ نگاہوں سے اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھا جس کی خود غرضی پر اب اُسے کوئی شبہ نہیں رہا تھا۔
’’ہاں تو اس میں غلط کیا ہے۔۔۔‘‘ شہیر کی غلط فہمی عروج پر تھی۔
’’تو ٹھیک ہے ،بجھوا کر دیکھ لو اپنا پرپوزل،منہ کی کھاؤ گے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔
’’یہ آپ کی بھول ہے۔۔۔‘‘وہ استہزائیہ انداز سے ہنسا۔ ’’نابیہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔‘‘
’’ تصحیح کر لو،وہ تم سے محبت کرتی تھی۔‘‘ ثنائیلہ نے لفظ ’’تھی‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔مسز زبیر نے خوفزدہ نگاہوں سے اپنے بچوں کو دیکھا۔جو ایک دوسرے کو کچھ دیر پہلے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
* * *
’’تھینکس گاڈ بھائی،آپ کے چہرے پر بھی مجھے مسکراہٹ نظر آئی۔۔۔‘‘ عائشہ نے ناشتے کی میز پر بلاوجہ مسکراتے موحد کو دیکھ کر چھیڑا۔جب کہ ماما نے بھی چونک کر اپنے دونوں بچوں کے تروتازہ چہرے دیکھے اور دل ہی دل میں دونوں پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونکی۔
’’میں نے سوچا کہ آجکل تم ہر وقت مسکراہٹوں کے پھول بکھیرتی رہتی ہو تو میں کیوں پیچھے رہوں۔۔۔‘‘ موحد نے بریڈ کے پیس پر جیم لگاتے ہوئے اُسے چھیڑا۔
’’ہوں۔۔۔مجھے تو آجکل زعفران کے کھیت نظر آ رہے ہیں ،آپ کی طرف کیا ماجرا ہے۔۔۔‘‘اُس نے اورنج جوس کا گلاس لبوں سے لگایا۔
’’بس سمجھو،کہ میری طرف بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔۔۔‘‘ ایک ذومعنی سی مسکراہٹ موحد کے چہرے پر ابھری۔
’’یہ تم دونو ں آپس میں کون سے کوڈ ورڈز میں باتیں کر رہے ہو۔۔۔‘‘ماما نے جھنجھلا کر دونوں کو دیکھا۔
’یہ تو آپ بھائی سے ہی پوچھیں۔۔۔‘‘عائشہ نے جان بوجھ کر اُسے پھنسایا تو وہ گھور کر رہ گیا۔
’’میں سوچ رہا ہوں ماما کہ عائشہ کی شادی وادی کا کچھ کریں۔لڑکیوں کی عمر نکلنے کا پتا تھوڑی چلتا ہے۔‘‘موحد نے موقعے پر ہی حساب برابر کیا۔عائشہ اُس کی شرارت سمجھ کر مسکرا دی۔
’’میں تو خود اس سلسلے میں خاصی اپ سیٹ ہوں،کل ہی مجھے مسز کامران نے ایک پرپوزل کے بارے میں بتایا ہے۔۔۔‘‘ ماما کی بات پر عائشہ چونکی۔
’’وہ بتا رہی تھیں کہ لڑکے کی والدہ نے عائشہ کو کسی فنکشن میں دیکھا ہے،اور انہیں پسند بھی ہے۔۔۔‘‘ماما کے پرجوش انداز پر عائشہ کا رنگ اڑا۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟کیا کرتا ہے لڑکا۔۔۔‘‘ موحد نے بھی فوراً ہی دلچسپی ظاہر کی۔
’’آرمی میں میجر ہے۔۔۔‘‘ ماما کے جواب پر موحد کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ دوڑا۔وہ آج بھی آرمی کا نام سن کر جذباتی ہو جاتا ہے۔
’’پھر تو آپ فوراً بلا لیں انہیں۔۔۔‘‘ موحد کی دلچسپی ماما کے لیے مورل اسپورٹ کا باعث بنی۔ ’’آج ہی فون کرتی ہوں انہیں۔۔۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں ہے ماما،مجھے آرمی کی لائف پسند نہیں۔۔۔‘‘ عائشہ ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی۔اُس کا چہرہ شدید تناؤ کا شکار لگ رہا تھا۔اُس کی بات پر ماما نے ناگواری سے اُسے دیکھا اور موحد کو نظروں ہی نظروں میں کوئی اشارہ کیا۔
’’کیا بات ہے عائشہ ،ایسے ٹینس کیوں ہو رہی ہو۔۔۔‘‘موحد کی بات پر عائشہ نے اُسے شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا،جیسے کہہ رہی ہو کہ مجھے آپ سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔اُس نے ہاتھ میں پکڑا ٹوسٹ کا آدھا پیس پلیٹ میں رکھا اور ڈائننگ روم سے نکل گئی۔
’’دیکھا ،دیکھا تم نے ،اس لڑکی نے مجھے کتنا زچ کر رکھا ہے۔۔۔‘‘؟؟؟ ماما کو ایک دم ہی غصّہ آیا۔
’’ڈونٹ بی ٹچی ماما،میں بات کروں گا عائشہ سے۔۔۔‘‘ موحد نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی لیکن وہ بجائے مطمئن ہونے کے بھڑک اٹھیں۔’’دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا،اور کچھ نہیں،تم صاف صاف پوچھو اس سے،اگر کوئی پسند ہے تو بتائے،ورنہ اس دفعہ میں اس کی کچھ نہیں سننے والی۔۔۔‘‘ماما نے بھی دوٹوک انداز سے دھمکی دی اور کمرے سے نکل گئی۔موحد سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ سیل فون کی گھنٹی نے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا۔دوسری جانب ثنائیلہ تھی۔
’’کیا ہوا موحد۔۔۔؟؟؟‘‘وہ اُس کا لہجہ سنتے ہی پریشان ہوئی۔
’’کچھ نہیں یار،ماما اور عائشہ کے درمیان سینڈوچ بنا ہوا ہوں۔۔۔‘‘اُس نے اپنی الجھن اُس کے ساتھ شئیر کی۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟‘‘ دوسری جانب اُسے حقیقتاً ہی سمجھ نہیں آئی۔
’’بھئی عائشہ کے لیے کوئی پرپوزل آیا ہے ،جب کہ اُس نے صاف انکار کر دیا اور ماما سخت غصّے میں ہیں۔۔۔‘‘ اُس نے مختصرا بتایا۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟عائشہ تو مجھے بہت سادہ اور دوستانہ مزاج کی لگی ہے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر وہ بُری طرح چونکا۔ ’’تمہیں کس نے بتایا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’مجھے کس نے بتانا ہے۔اُس نے مجھے کال کی تھی۔۔۔‘‘ثنائیلہ کی بات پر موحد کو جھٹکا سا لگا۔
’’کب۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ بے تابی سے بولا۔
’’کافی دن ہو گئے اب تو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر اُسے غصّہ آگیا۔ ’’تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔۔‘‘؟؟؟
’’سوری ذہن ہی سے نکل گیا اور پھر میراخیال تھا کہ اُس نے آپ سے ہی نمبر لیا ہوگا اس لیے آپ کے علم میں ہوگا۔‘‘ ثنائیلہ نے گھبرا کر اُسے وضاحت دی۔
’’یہ کوئی اتنی عام سی بات تو نہیں تھی کہ تمہارے ذہن سے نکل جائے۔‘‘دوسری جانب موحد کا موڈ خراب ہو چکا تھا۔ اچانک ہی اُس کے ذہن میں ایک بات آئی۔
’’کہیں تم عائشہ کے کہنے پر تو نہیں ،مجھ سے ملنے آئی تھی۔۔۔؟؟؟‘‘اُس کے لہجے میں چھپی بدگمانی ثنائیلہ کا دل خراب کر گئی۔
’’آپ کی بدگمانی کبھی کبھی میرے دل کو اتنے بُرے طریقے سے مسلتی ہے کہ میں اُسے لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کا رنج بھرا انداز موحد کو بے چین کر گیا۔جب کہ دوسری جانب وہ ناراض ہو کرفون بند کر چکی تھی۔
* * *
’’آپ مجھ سے ناراض ہیں ناں۔۔۔‘‘ وہ اُس دن اچانک ہی ماہم کے کلینک میں چلا آیا۔ علی کو اپنے سامنے دیکھ کر بھی ماہم بہ دستور اپنے کام میں مگن رہی جو اُس کی ناراضگی کا بھرپوراظہار تھا۔اُس نے بس ایک نگاہ اٹھا کر ہی علی کو دیکھا تھا۔
’’بیٹھنے کے لیے نہیں کہیں گی آپ۔۔۔؟؟؟‘‘ علی نے دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر تھوڑا سا جھک کر اس ادا سے ماہم کی طرف دیکھا کہ اُس کے لیے اپنے دل کی اتھل پتھل کیفیت کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔اُس نے آنکھ کے اشارے سے اُسے بیٹھنے کے لیے کہا۔علی کے لبوں پر ایک مبہم سی مسکراہٹ ابھری۔
’’آئی ایم سوری،میں پچھلے دنوں اپنے ہوسپٹل اور پرائیوٹ کلینک میں بہت بزی رہا اور آپ سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ ڈاکٹرز کی لائف کتنی بزی ہوتی ہے۔‘‘ علی کی بات پر ماہم نے جھٹکے سے سر اٹھا کر سامنے بیٹھے علی کو غور سے دیکھا۔’’آپ ڈاکٹر ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس کے چہرے کے تاثرات بڑی سرعت سے تبدیل ہوئے۔
’’آپ نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ آپ ڈاکٹر ہیں۔۔۔‘‘؟ ماہم کی ساری ناراضگی بھک کر کے اڑ گئی۔وہ اب توصیفی نگاہوں سے اُسے دیکھ رہی تھی
’’اسپشلائزیشن کس میں ہے آپ کی۔۔۔؟؟؟‘‘
’’اسپائنل سرجری میں یو کے سے ۔۔۔‘‘ علی نے بھی آج ماہم کو متاثر کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی ۔
’’اور کتنے بہن بھائی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟ ماہم نے آج موقع غنیمت جان کر ان کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا مرحلہ عبور کر ہی لیا۔
’’صرف دو بھائی ہیں۔فادر کی ڈیتھ ہو چکی ہے اور صرف ماما ہیں۔۔۔‘‘ علی کے بتائے ہوئے سارے ہی کوائف متاثر کن تھے۔
’’آپ سنائیں کہ کہاں بزی تھیں۔۔۔؟؟؟‘‘علی کی زیرک نگاہوں سے اُس کے چہرے کے بدلتے تاثرات پوشیدہ نہیں رہ سکے۔
’’کچھ نہیں ،بس آجکل ماما پر میری شادی کا بھوت سوار ہے۔اس سلسلے میں چھانٹی پروگرام جاری ہے۔۔۔‘‘ ماہم کی خود پسندی کو باہر نکلنے کے لیے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی اور آج تو اُس کے ہاتھ میں اچھا خاصا موقع تھا۔
’’ہوں۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ امیدواران کی لسٹ خاصی لمبی ہے۔۔۔‘‘ علی نے ہلکے پھلکے انداز میں اُسے چھیڑا۔
’’جی ہاں۔۔۔‘‘ ماہم نے اپنی ہنس راج جیسی خوبصورت گردن اٹھا کر دیکھا۔’’ابھی تو شارٹ لسٹنگ ہونی ہے۔۔۔‘‘وہ بڑی ادا سے مسکرائی۔
’’اُف،میرے جیسے غریب لوگ تو مارے جائیں گے پھر۔۔۔‘‘ علی کے شرارتی انداز پر وہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’غریبوں پر تو ہم خصوصی نگاہ کرم کرتے ہیں۔۔۔‘‘ماہم کے ذومعنی انداز پر علی نے مسکراتے ہوئے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔’’اور سنائیں ،آپ کی دوست کی انگجمنٹ ہو گئی ۔۔۔‘‘؟ علی
کے دانستہ انداز میں موضوع تبدیل کرنے پر وہ جی بھر کر بد مزہ ہوئی۔
’’جی سننے میں تو یہی آ رہا ہے۔۔۔‘‘ اُس نے گول مول جواب دیا۔
’’کیا ،اُسی رامس کے ساتھ۔۔۔؟؟؟‘‘ علی نے چونکنے کی بھرپور اداکاری کی۔
’’جی ،جی،وہ ہی جو میرا پیشنٹ تھا۔۔۔‘‘ ماہم نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا ۔علی نے اب اُس کے چہرے کو بغور دیکھا۔
’’کیا کوئی محبت وحبت کا چکر تھا۔۔۔؟؟؟‘‘علی کو نہ جانے کیوں اس سوال و جواب میں مزا آ رہا تھا۔
’’جی لگتا تو بظاہر یہی ہے۔۔۔‘‘ماہم نے بڑی اداسے اپنے کندھے اچکائے۔
’’چلیں ،اچھی بات ہے۔اللہ ان دونوں کو خوش رکھے۔۔۔‘‘ علی کی بات پر ماہم کے لبوں پر بڑی پرسکون سی سانس خارج ہوئی ۔وہ اب بڑی مطمئن سی نظر آ رہی تھی۔
’’آپ کا فنڈ ریزنگ کا پروگرام کہاں تک پہنچا۔۔۔؟؟؟‘‘علی کی بات پر ماہم نے ایک دفعہ پھر کوفت بھرے انداز سے پہلو بدلا۔
’’میں نے ثمن آپی سے بات کی تھی ،ان کا آج کل بڑا بزی شیڈول ہے ۔تھوڑی سی فراغت مل جائے تو انشاء اللہ کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔اُس نے بڑی عمدگی سے خود کو سنبھالتے ہوئے اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔اس دفعہ علی کے چہرے پر پھیلنے والی مسکراہٹ بڑی عجیب سی تھی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...