شہناز نبی کا نیا شعری مجموعہ’’شرارِجستہ‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے۔اس میں ان کی نظمیں اور غزلیں شامل ہیں۔شہناز نبی ایک عرصہ سے شاعری کر رہی ہیں،ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں،ان کے مطالعہ سے ان کے کلام میں پختگی کا احساس ہوتا ہے۔’’شرارِ جستہ‘‘میں شامل ایک نظم ’’غلط کہتے ہیں ویرانے‘‘یہاں پیش کر رہا ہوں،اس سے شہناز نبی کی نظموں کے عمومی انداز کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
’’ انہیں دیکھو؍بظاہر ہیں فرومایہ؍شکستہ؍بے سروساماں؍کبھی چہکار چڑیوں کی بسا جاتی ہے ویرانہ؍کبھی اُگتا ہے سبزہ خود فراموشی کے عالم میں؍کہیں پر جھانکتی کرنیں؍کہیں پر تاکتے بادل؍نہ دیواروں کو گرنے کا کوئی صدمہ؍نہ زینوں کو کھسکنے پر تردد ہے؍یہاں ویران ہو جانے میں اک آسودگی سی ہے؍وتیرہ کیا برا ہے یہ؍اسے اپنا کے تو دیکھیں‘‘
شہناز نبی نظم کی طرح غزل بھی عمدہ کہتی ہیں۔غزلوں کے چند اشعار سے ’’شرارِ جستہ‘‘میں شامل غزلوں کے معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
آہوں کی،نہ اشکوں کی،نہ یادوں کی سزا ہے
قدموں کی یہ زنجیر تو خوابوں کی سزا ہے
وہ کیسا عشق تھا جس نے کبھی مغرور رکھا تھا
پہ اب شرمندگی محسوس کرتے ہیں دوانوں میں
دعا ہے کہ لب پر دعا نہ رہے
کسی سے کوئی التجا نہ رہے
غزل کہنے سے میں ڈرنے لگی ہوں
فعولن فاعلن کرنے لگی ہوں
مجھے کس بحر نے دھوکہ دیا ہے
میں کس گرداب میں پھنسنے لگی ہوں
مرے اندر ہے اک پیاسا کنارا
مرے اطراف اک دریا رواں ہے
معرضِ التوا میں ڈال دیا
میں نے دل سے اسے نکال دیا
بہت دن تک ہمارے حال پر ہنستی رہی تھی
پہ یہ دنیا بھی اب تیری دوانی ہو گئی ہے
کبھی اس دل کا رونا ہے کبھی دنیا کا رونا
غزل خوانی بھی جیسے نوحہ خوانی ہو گئی ہے
امید ہے کہ شہناز نبی کایہ شعری مجموعہ ادبی حلقوں میں دلچسپی سے پڑھا جائے گا اور شعر و ادب کا ذوق رکھنے والے قارئین میں بھی پسند کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ عکاس انٹرنیشنل اسلام آباد۔شمارہ نمبر ۲۱۔ستمبر ۲۰۱۵ء