شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
ؒ مزہ اور شور، . نمک کے مناسبات میں سے ہیں۔ مصنف نے ’مزہ ‘ کو قافیہ کیا اور ہاے مختفی کوالف سے بدلا۔ اردو کہنے والے اس طرح کے قافیے کوجائزسمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِ ملفوظہ کا اعتبار ہے۔ جب یہ ’ہ ‘ ملفوظ نہیں بلکہ ’ز‘ کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اسے حرفِ روی قرار دینے سے۔ اسی طرح سے فوراً اور دشمن قافیہ ہو جاتا ہے گو رسم خط اس کے خلاف ہے۔ لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ ہاے مختفی کو کبھی حرفِ روی ہونے کے قابل نہیں جانتے۔
دل گذر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفس جادۂ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا
تار اور رشتہ اور خط اور جادہ نفس کے تشبیہات میں سے ہے۔قافیہ ’تقوےٰ ‘ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمے میں ’ی ‘ دیکھتے ہیں اس کو کبھی الف اورکبھی ’ی‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ تمنی و تمنیٰ ، تجلی وتجلّیٰ، تسلی وتسلّٰی، ہیولی و ہیولیٰ اور دنیی و دنیا بکثرت ان کے ٖکلام میں موجود ہے۔
رہ زنی ہے کہ دل ستانی ہے
لے کے دل ، دل ستاں روانہ ہوا
’ روانہ ‘ میں ’روا ‘ قافیہ ہے اور ’ نہ ‘ جزوِ ردیف تھا جو یہاں لفظ ’ روانہ ‘ کا جزو واقع ہوا ہے۔ اصطلاح میں ایسے قافیے کو قافیۂ معمولہ کہتے ہیں۔ قواعدِ قافیہ میں اسے عیب لکھتے ہیں لیکن اب تمام شعرا اسے صنایع لفظیہ میں جانتے ہیں اور بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ قافیۂ معمولہ سے شعر سست ہوجاتا ہے۔ نیز دیکھیے:
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب
بدی کی اُس نے ، جس سے ہم نے کی تھی بار ہا نیکی (ص۱۴۴)
یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیفِ شعر میں غالبؔ ز بس تکرارِ دوست
جو لفظ کہ آخرِ شعر میں قافیے کے بعد مکرر آئے اسے ردیف کہتے ہیں۔ قافیوں میں باہم دگر تشابہ ہوتا ہے اور ردیف میں تکرار ہوتی ہے اور قافیہ رکنِ شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے۔ عرب و فارس و ہند میں شعرا تعریفِ شعر میں کلامِ موزوں کو مقفّیٰ کہتے ہیں اور اہلِ منطق کلامِ مخیّل کو شعر کہتے ہیں خواہ وزن و قافیہ نہ ہو۔ شعرا کی اصطلاح میں ہر کلامِ موزوں با قافیہ شعر ہے خواہ تخییل نہ ہو۔ وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ منطق یونانی سے ترجمہ ہوئی ہے اور یونانیوں میں شعر کے لیے قافیہ ضرور نہ تھا اور اگر تخییل میں وزن ہے تو اسے شعر سمجھے اور جو وزن نہ ہو تو قضیۂ شعر کہتے تھے۔ ہند و ایران کے شعرا وزنِ بے قافیہ کو نثرِ مرجّز کہتے ہیں۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں
لفظ ’ کافَر ‘ میں اہلِ زبان ’ ف ‘ کو زیر پڑھتے ہیں لیکن عجم کا محاورہ زبر ہے۔ اسی سبب سے اس کو ساغر کے ساتھ قافیہ کرتے ہیں۔ ایک یہ لفظ اور ایک لفظ ’ ظاہر ‘ کو قا آنیؔ نے ’ساغر ‘ کے ساتھ قافیہ کیا ہے اورروی (یعنی رے )متحرّک ہے اور اسی طرح ایک شعر یہ مشہور ہے۔
آدمی را آدمیت لازم است
عود را گر بو نباشد ہیزم است
اس شعر میں بھی میم جو کہ حرفِ روی متحرک ہے اس سے یہ استنباط نہ کرنا چاہیے کہ جہاں روی متحرک ہو جائے وہاں اختلافِ توجیہ یعنی حرکت ما قبلِ روی کا اختلاف درست ہے اور یہ بھی خیال نہ کرنا چاہیے کہ ضرورتِ قافیہ کے لیے مکسور کو مفتوح کر لینا درست ہوگا بلکہ یہی الفاظ مخصوص سمجھنا چاہیے اس حکم کے لیے۔
مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقولِ حضور
’ ’ فرا قِ یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو‘‘
دوسرا مصرع حضور(بہادر شاہ ظفرؔ)کا ہے اور زمین فرمایشی ہے جس میں قافیہ ندارد۔ مصنف نے کمال کیا کہ اس زمین میں فرمایش کو پورا کیا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ استادِ کامل کے لیے سب کچھ روا ہے ورنہ ’ گفتگو ‘ اور ’ کہو ‘ اور ’ دو ‘ اور ’ دیدار جو ‘ اور ’ غالیہ مو ‘ وغیرہ قافیوں سے احتراز کرنا بہتر ہے۔
نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے
اس مطلع کے قافیے ’ سنانا ‘ اور ’ بنانا ‘ کو ایطا کہتے ہیں اس وجہ سے کہ دونوں لفظوں میں الف زاید ایک ہی طرح کا ہے۔ یعنی معنیِ تعدیہ کے لیے ہے اور ساری غزل میں ستائے نہ بنے ، اور آئے نہ بنے ، اور بلائے نہ بنے کے سب قافیے شائگاں ہیں یعنی سب میں الف تعدیہ ہے۔ حاصل یہ کہ ساری غزل بھر میں چارہی قافیے ہیں جس میں ایک شائگاں ہے جو سات جگہ بندھا ہے۔
دل لگاکر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحَب مجھے
آپ بھی یعنی وہ خود بھی۔ ’ آپ ‘ یہاں محل خطاب میں نہیں ہے۔ میرزا صاحب طعن سے غالبؔ کو کہا ہے۔ یہاں مصنف نے ’ صاحب ‘ کو’ مطلب ‘ کا قافیہ عام محاورے کی بنا پر کیا ہے کہ محاورے میں ’ ح ‘ کومفتوح بول جاتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عربی وفارسی لفظوں میں محاورۂ عام کا تتبع کرنا خطا ہے ، نہیں تو یہ مصرع بھی درست ہو جائے گا ، ع۔۔ سَخَت دل کو اپنے نَرَم کیجیے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس شعر کو مصنف نے اپنا قول نہیں قرار دیا ہے بلکہ دوسرے شخص کی زبانی ہے اور شوخی یہ کی ہے کہ اس کا کلام بعینہ نقل کر دیا ہے۔ ورنہ غالبؔ پر یہ گمان کرنا کہ لفظ ’ صاحب ‘ کے کسرہ سے ناواقف تھے خطا ہے۔ البتہ فارسی دیوان میں یہ شعر مصنف کا
نامہ بنازد بہ خویش ، کز اثرِ فیضِ مدح
نقطہ ز بس روشنی تابشِ نیّر گرفت
اختر گرفت ، و اخگر گرفت کی زمین میں کوئی تاویل عیبِ اقوا سے بری ہونے کی نہیں رکھتا ، اس سبب سے کہ اور سب قافیوں میں حرکتِ توجیہ زبر ہے۔ اور ’ نیّر‘ میں زیر ہے۔ اساتذہ. اہلِ زبان جو عربی داں گذرے ہیں انھیں ایسا دھوکا ہو جائے ممکن نہیں۔ ہاں جو زبانِ عربی سے نا آشنا ہیں اگر ان کے کلام میں نےّر کہیں اختر کے ساتھ آ بھی گیا ہو تو قابلِ استناد نہیں ہو سکتا اس سبب سے کہ عربی میں لفظِ عجم کا تصرف نامقبول ہے سوا چند محاوروں کے کہ وہاں حکم عجمہ پیدا ہو گیا ہے ، جیسے کافر ہے۔
( استدراک:۔ ’ مولانا نجم الغنی خاں نے بحر الفصاحت۔ ص ۲۵۵ )میں لکھا ہے :ِِ توجیہ کے اختلاف کا نام اقوا ہے۔جیسے ’گل‘ کا قافیہ ’چل‘ بالفتح سے کر نا۔ اور یہ عیوبِ قافیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کا قافیہ لانا ناروا ہے جیسے عندلیبِ عجم ، مرزا غالبؔ کے کلام میں ایک جگہ واقع ہوا ہے۔ لکھتے ہیں : عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے۔ لفظ۔۔۔۔… صاحب کی حاے حطی باعتبار قواعدِ صرف کے مکسور ہے او ر ’ لب ‘ ’ یا رب ‘ میں لام اور رے مفتوح۔(لب اور یا رب اس غزل کے دیگر قوافی ہیں۔۔ذکا )…اور راقم نے (۱۳۰۲ ھ میں )نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے اس باب میں استفسار کیا تو جواب دیا کہ غالبؔ نے مقولۂ غیر بیان کیا ہے ، اور مثال میں یہ شعر ناظم ؔ کا پڑھا
غلطی غیر کی گفتار کی دیکھی ناظم
واں میں جاتا ہوں تو کہتا ہے: نواب آتے ہیں
اور حق یہ ہے کہ اب روز مرّہ. اردو میں ’ صاحب‘ اعلام کے ساتھ بفتحِ حاے حطّی بیشتر مستعمل ہے۔ ہم کو اس سے کیا مطلب کسی زبان میں کچھ ہو۔۔۔ جو الفاظ ہم لوگوں کی زبان پر جاری ہوں گے ، وہ ہی صحیح سمجھے جاویں گے۔ ہاں ، جس وقت عربی عبارت میں لکھیں ، یا تلفظ کریں ، اس وقت ان کی زبان کی پابندی لازم ہے۔ البتہ صحتِ لفطی ضرور ہے۔ (بہ حوالہ نسخۂ عرشی ، ص ص ۲۷۳ و ۲۷۴)
آمدِ سیلاب طوفانِ صدائے آب ہے
نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے
اس مصرع میں : نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ’ دال ‘کو زیر دیں اور ’ جادے سے ‘ کہیں۔ اس لیے کہ سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، نے ، کا ، یہ سات حروفِ معنویہ زبان اردو میں ایسے ہیں کہ جس لفظ میں ہاے مختفی ہو اسے زیر دیتے ہیں۔ غرض کہ اس مصرع میں تو ’ جادہ ‘ کی دال کو زیر ہے ، اور اس کے بعد کا جو شعر ہے اس میں کہتے ہیں ، ع شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے۔۔۔۔یہاں بادہ اضافتِ فارسی کی ترکیب میں واقع ہے اور موج کا مضاف الیہ ہے۔ اب اس پر ترکیبِ اردو کا اعراب یعنی ’ سے ‘ کے سبب سے زیر نہیں آ سکتا۔ اس لیے کہ اگر ’ موجِ بادے سے ‘ اسے پڑھیں تو یہ قباحت ہوگی کہ لفظ ’ بادہ ‘ میں ہندی تصرف کر کے اور اسے ہندی لفظ بنا کر ترکیب اضافت فارسی میں داخل کیا ، بعینہ جیسے کو ئی کہے ’ عشقِ بتوں میں یہ حال ہوا ‘۔ اور یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ لفظ ’ بت ‘ میں ہندی تصرف کیا ہے اور ہندی جمع کی علامت اس میں بڑھائی ہے۔ اب وہ ہندی لفظ ہو گیا۔ پھر ہندی لفظ کی طرف عشق کی اضافت کیونکر درست ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ ’ سے ‘ کا عمل اگر ہے تو لفظِ موج پر ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ ’ موج سے بادہ کی ‘۔ پھر ’ سے ‘ کے سبب سے بادہ کی دال کو زیر کیوں ہونے لگا۔ غرض کہ جادہ کی دال کو زیر ہے اور بادہ کی دال کو زبرہے اورقافیے تہ و بالا ہیں۔ اگر یوں کہو کہ ہم بادہ اور جادہ کی ’ ہ ‘ کو حرفِ روی لیتے ہیں تو اختلافِ توجیہ کے علاوہ ایک عیب یہ پیدا ہوگا کہ شعر بے قافیہ کے رہ جائے گا ، اس سبب سے کہ ’ و ‘ وزن سے گرگئی ہے۔ جیسے حکیم مومن خاں صاحب ایک مثنوی میں دونوں کے باہمدگر عاشق ہو جانے کے بیان میں کہتے ہیں
اس کا ہوش اپنے رنگ کا پیرو
اپنا صبر اس کے رنگ کا پیرو
اس شعر میں ’ اس کے ‘ اور ’ اپنے ‘ کو قافیہ کیا ہے اور حرفِ روی یعنی ’ ے ‘ وزن میں نہیں سماتی۔ اب ’ اسک ‘ اور ’ اپن ‘ قافیے کی جگہ رہ گیا۔ میر حسنؔ نے بھی یہ دھوکا کھایا ہے
تو کہنے لگی مسکرا اس کو وہ
گرا اس طرف سے قدم پر جو وہ
ہمیں پھر ان سے امید اور انھیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیونکر ہو
یعنی ہمیں امید کیونکر ہو اور انھیں قدر کیونکر ہو۔ بندش میں تعقید ہے اور ’ وہ ‘ کی ’ ہ ‘ کو قافیے کے لیے وا و بنا لیا ہے اس لیے کہ یہ ’ ہ ‘ تلفظ میں نہیں ہے بلکہ اظہارِ حرکتِ ما قبل کے لیے ہے جیسی ’ ہ ‘ لالہ و ژالہ و نہ و کہ وغیرہ میں ہے تو دوسر ا واو محض اشباعِ حرکت سے پیدا ہو ا ہے اور وہی یہاں حرفِ روی ہے جس طرح دریا کا قافیہ ’ لا ‘ کریں اورحرکتِ لام کے اشباع سے جو الف پیدا ہو وہی حرفِ روی قرار دیں۔ لیکن میرؔ کی زبان پر ’ وہ ‘ کا لفظ بفتحِ واو تھا۔ اور ’ ہ ‘ ملفوظ تھی۔ یہ شعر ان کا شاہد ہے
کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر تو وہ کر
پر ہوسکے تو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر
کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں ، غالب ؔ
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی
اس غزل کے سب شعروں میں ’ کی‘ جز وِردیف تھا اور اس شعر میں جزوِِ قافیہ ہو گیا ہے۔ قواعدِ قافیہ میں اس قسم کے قافیے کو معمول کہتے ہیں اسے عیوبِ قافیہ میں شمار کیا ہے۔ (اس سے پہلے صفحہ۱۳۹ پر یہی عیب مصرع: لے کے دل ، دل سِتاں روانہ ہوا۔۔۔ میں ملاحظے سے گذر چکا ہے۔)لیکن شعراے تصنّع پسند اسے ایک صنعت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اہلیؔ شیرازی نے ساری مثنویِ ’سحر حلال‘ میں ہر ہر شعر میں قافیۂ معمولہ کا بھی التزام کر لیا ہے۔ اور اسی طرح مفتی میر عباس مغفور نے عربی کی مثنوی ’ مرصع ‘ میں قافیۂ معمولہ کی قید کو لازم کر لیا ہے۔
وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ، ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دلہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
اس شعر میں ’ دیکھا ‘ قافیۂشائگاں ہے یعنی الف اصلی نہیں ہے بلکہ علامتِ فعلِ ماضی ہے۔ اسے مفت کا قافیہ کہتے ہیں اور سست سمجھتے ہیں۔
بے طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے
غزل اور قصیدے میں اس کا خیال رکھنا اچّھا ہے کہ مطلع کے بعد پھر دونوں مصرعوں میں ایسا تشابہ نہ ہونے پائے جیسا مصنف کے اس شعر میں ہو گیا ہے کہ جس نے اور شعر نہ سنے ہوں وہ مطلع سمجھے اسے بھی۔یعنی ’ ملتا ‘ اور ’ اچّھا ‘ یہ دونوں لفظ قافیہ معلوم ہوتے ہیں اور ’ ہے ‘ ردیف۔ جس کو مذاقِ صحیح ہے وہ ضرور اس نکتے کی قدر کرے گا کہ اس سے شعر کی بندش میں سستی پیدا ہوتی ہے اس وجہ سے کہ مطلع کے بعد دونوں مصرعوں کا مبا ین ہونا شرط ہے اور اس میں شک نہیں کہ زمین کے اعتبارسے اس شعر میں بھی مباینت بقدرِ کافی ہے۔ لیکن اگر اتنی مشابہت بھی نہ ہوتی تو اور بھی اچھا تھا۔
(قصائد)
مجھ پہ فیضِ تربیت سے شاہ کے
منصبِ مہر و مہ و محو ر کھلا
اس شعر میں ’ اختر ‘ کو چھوڑ کر ’ محور ‘ قافیہ لائے ہیں ، بے لطف و بے ربط معلوم ہوتا ہے اس سبب سے کہ محور اجرام و اجسام میں سے کوئی شے نہیں ہے بلکہ ایک فرضی و موہومی لکیر کا نام اہلِ ہیئت نے محور رکھ لیا ہے۔ یعنی کرۂ متحرکہ کے درمیان میں (کذا )جو ایک ساکن لکیر قطبینِ کرہ کے بیچ میں موہوم ہوتی ہے وہ لکیرمحور ہے۔ بھلا اس کو مہر و ماہ کے ساتھ کیا ربط ہے۔ لیکن مصنف کو مناسبتِ لفظی جومہ و مہر و محور میں ہے باعث ہوئی کہ اسی کو قافیہ بنایا۔
ہات سے رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کے خنجر کھلا
اس شعر میں ہاتھ کو ہات لکھا ہے۔ یہ فقط اپنی بات کی پچ ہے کہ رات اور ذات کے ساتھ جو ہاتھ کو قافیہ کر دیا ہے تو محض اس کے نباہنے کے لیے رسمِ خط ہی بدل دیا۔ اہلِ لکھنؤ اور تمام اردو زبان والے ہاتھ ہی لکھتے ہیں اور ہاے مخلوط کو تلفظ میں داخل سمجھتے ہیں۔ اور بات اور سات کے ساتھ اس کا قافیہ غلط سمجھتے ہیں ، بلکہ ہاتھ کا قافیہ ساتھ لاتے ہیں۔
(استدراک :۔ نسخۂ عرشی میں ’ ہات ‘ کے بجاے ’ ہاتھ ‘ ہے ، اور دوسرے مصرع میں ’ کی ‘ بجاے ’ کے ‘ ہے۔)
(قطعہ)
پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اوقات میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بنِ ناخنِ تدبیرمیں کیل
ہندی قافیہ کس حسن سے باندھا ہے۔
قبلۂ کون و مکاں ، خستہ نوازی میں یہ دیر
کعبۂ امن و اماں ، عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل
اسی قطعے میں یہ دوسرا ہندی قافیہ کیا ہے۔ عقدہ کشائی سے ڈھیل دینے کو کس قدر مناسبت ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی یعنی یہ سچ ہے کہ بے ڈھیل دیے گرہ نہیں کھل سکتی لیکن اس قدر ڈھیل کوئی دیتا ہے ؟