سبک ہندی کی امتیازی پہچان یہ ہے کہ ترکیب سازی پر زور دیا جاتا ہے مضمون آفرینی اور تصویر سازی حساس قاری کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ مثلاً بیدل نے محض ایک لفظ رنگ سے بیشمار تراکیب وضع کی ہیں ۔ پریدن رنگ، شکست رنگ، پرواز رنگ، گردش رنگ، رنگ پریدہ، رنگ باختن، وغیرہ یہ تراکیب بیدل کے عرفانی عقائد کی تائید کرتی ہیں۔ ترکیب سازی زبان کا تخلیقی سلسلہ ہے اور کسی بھی زبان کے حق میں ضرر رساں نہیں ۔ شبلی نعمانی کے خدشات محض خیال خام کی حیثیت رکھتے ہیں۔بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہر دور کے شعراء نے منفرد تراکیب سازی سرانجام دے کر نئے نئے معانی و مفاہیم پیدا کئے ہیں، یہ عمل انکے لئے چیلنج تھا۔ نہ کہ بیکار مشغلہ ہے انہوں نے امکانات مفاہیم کو فروغ دیا ہے۔ اور اس قسم کے اختراعات نے فارسی ادب کے دائرہ کو توسیع دی ہے۔ سبک ہندی میں عام سی چیز یا لفظ یا واقعہ کو منحرف کر کے خصوصی معانی اخذ کئے جاتے ہیں مثلاً حنا کے رنگ اڑنے سے بیدل نے بے ثباتی کے معنی مراد لئے ہیں۔ مثلاً رفتن رنگ، گردیدن رنگ، گردش رنگ، رنگ رفته وغیرہ مثالیں قابل غور ہیں۔ بیدل کو بجا طور پر ابوالمعانی، کہا جاتا ہے ۔ بیدل کے یہاں رنگ کہیں اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کہیں رونق و لطافت کے معنی میں، کہیں ترکیب اضافی کے طور پر استعمال ہوا ہے اور کہیں کنایہ کے طور پر۔
رنگ بطور ترکیب اضافی:
کاروان رنگ و بو را هیچجا آرام نیست
صدجرس میدارد اینجا هايهاي عندلیب
رنگ بہار یہاں مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
بوي وصلی هست در رنگ بهار
آینه میگدازم دل که گردم آبیار آینه
رنگ فایده کے معنی میں:
در عالمی که با خود رنگی نبود ما را
بودیم هرچه بودیم او وانمود ما را
رنگ اثر و نشان کے معنی میں:
نه گلشن را ز ما رنگی، نه صحرا را زما گردي
به هرجا میبرد شوق تو، بی ما میبرد ما را
رونق و لطافت ہے.رنگ کا ایک معنی:
بیدل از رنگین خیالیهاي فکرت میسزد
جدول رنگ بهار، اوراق دیوان تو را
سخت بیرنگ است نقش وحدت عنقاییام
جستجوها خاك شد گردي ز جایی برنخاست
بیرنگی رنگ کی اسیر ہوئی یعنی وحدت کثرت میں ظاہر ہوگئی۔
دراصل رنگوں کا ظہور تعینات کے پردے ہیں ، رنگ ہو یا عکس کسی بھی چیز کو استقرار نہیں اشیا کی حقیقت صفات نت نئے چولے بدلتی رہتی ہیں ۔ بیدل کے یہاں سب سے زیادہ استعمال کیاگیا لفظ غالباً آئینہ ہے۔
وحدت به هیچ جلوه مقابل نمیشود
بیرنگ شو که آیینه بسیار نازك است
آئینہ میں کسی چیز کا عکس مستقل طور پر نہیں ٹھہرتا اسے صوفیا اس سے صفائے دل مراد لیتے ہیں۔دنیا کو رنگ کا طوفان سمجھتے ہیں اور خود کو بیرنگی کے مشتاق ، بقول شخصے
شوخ چشمی نیست کار ما به رنگ آینه
چون حیا، پیراهنی از عیب میپوشیم ما
آئینہ خودمائی اور ظاہر داری کا وسیلہ ہے۔ بیدل نے اسے مظہر حیرت کہا ہے۔
دورنگ کو بیدل نے نفاق کے معنی میں استعمال کیا ہے اور یکرنگی کو خلوص پر محمول کیا ہے۔
امتیازي در میان آمد، دو رنگی نقش بست
کرد بیدل، ساغر مارا گل رعنا، شراب
آخر از وهم دو رنگی، قدر خود نشناختم
شیشه ها برسنگ زد فطرت، ز سوداي پري
شکست رنگ تجرد کا استعارہ ہے۔
دامن فشانتر از کف دست تجرّدیم
رنگی که جز شکست نبندد، حناي ماست
محرم اسرار خاموشان زبان و گوش نیست
من شکست رنگم، آوازم ز دل باید شنید
میں رنگ کی پسپائی ہوں میرےدل کی آواز سنی جائے۔ محرم اسرار کو زبان و کان نہیں ہوتے یعنی حیرت انکی گویائی اور سماعت کو چھین لیتی ہے ۔ بیدل کا مخصوص خیال ہے۔
گلِ خود رو ہستی کا استعارہ ہے۔
فریب محفل هستی مخور که این گل خودرو
ز رنگ و بو همه دارد مگر وفا که ندارد
آب و رنگ:
فرش نادانی است هرجا آب ورنگ عشرتی است
ساده لوحی داردعرض دستگاه، آیینه را
رنگ و بو:
چو غنچه، پرده در رنگ و بو خودآرایی است
اگر تو گل نکنی، نیست هیچ کس غم
رنگ و بوها جمع دارد، میزبان نوبهار
هر دو عالم را صلا زد عشق، تا من آمدم
بیرنگ، عالم عشق ، مجرد کے معنی میں استعمال ہوا ہے جب کہ رنگ تعلق یا کثرت کا استعارہ ہے اور دنیا کی گہما گہمی ۔ طاؤس یعنی دنیا کی رنگا رنگی مراد ہے جو کوے کے کالے پنجے اپنی چونچ میں لئے ہوئے ہے ۔ یعنی دنیا اپنی تمامتر خوبیوں کے ساتھ زشتی کے کئی پہلو بھی رکھتی ہے۔
جز خاك تیره نیست بناي جهان رنگ
طاووس سوده است به منقار زاغ پا
برق، بیدل کے یہاں عشق کا استعارہ ہے
برق بیرنگ است عشق، اما درین صحراي وهم
دیده خلق از سیاهیهاي خود ترسیده است
بیرنگی:
سوي بیرنگی، نفس هردم پیامم میبرد
میرسد گردم به منزل، پیشتر از رفتنم
عاشق اور معشوق کے درمیان کی دوئیت جب تک مٹتی نہیں وصال ممکن نہیں
بہ دست آئینہ رنگ آئینہ کی ترکیب :
صفاي حال ما، مغشوش رنگیست
عدم را نام هستی، سخت ننگیست
صفاي دل، نپسندد غبار آرایش
به دست آینه، رنگ حنا چه میجویی؟
آسیابانی کا مقصد رزائل کو دور کرنا ہے۔
تا به همواري رسد دور درشتیهاي طبع
هرکه را رنگی است، باید آسیابانی کند
یک رنگ بمعنی یکسانی و اتحاد کے معنی واضح کرتا ہے۔
برچه از وصلش به یکرنگی نیامیزد دلت
گر همه جان باشد، از اندیشهاش بیزار باش
بیدل کی معرفت کے مطابق معشوق کی توجہ وتغافل میں کوئی فرق نہیں۔
شعر
از تغافل تا نگاه چشم خوبان، فرق نیست
نشۂ یکرنگ است اینجا، درد و صاف جام را
ترکیبات کنایی:
ظاہر ی معنی سے ایک باطنی معنی پیدا کرنا بیدل کا خاصہ ہے مثلاً
از رنگ بیرون آمدن:
از این هوسکده با آرزو به جنگ برون آ
چوبوي گل،نفسی، پاي زن به رنگ برون آ
بوی گل کا زایل ہونا فنائیت کا استعارہ ہے
از نام اگر نگذري از ننگ برون آ
اي نکهت گل، اندکی از رنگ برون آ
بیدل کی نظر میں معشوق کی وفاداری ترک اسباب دنیوی میں ہے۔
آب رخ گلزار وفا، وقف گدازي است
خونی به جگر جمع کن و رنگ برون آ
رنگ باختن یعنی رنگ کا بیچ میں اڑجانا یا چلے جانا مراد ہے
چو برگ گل کز آسیب نسیمی رنگ میبازد
تن نازك مزاج او ز بوي گل خطر دارد
آتش رنگ بازی:
پیش روي او که آتش رنگ میبازد ز شرم
آینه از ساده لوحی میزند نقشی بر آب
اس کے سامنے شرم نے آتش رنگ کو بھڑکایا تھا اور آئینہ نے سادہ لوحی سے پانی چھڑکا
خندیدن رنگ:
بیدل کے یہاں رنگ ہنستے بھی ہیں۔
رنگ ریختن از چیزي یعنی کسی چیز سے اسکی رونق غائب ہوجانا۔
طبع ما هم از حوادث، رنگ خواهد ریختن
شوخی تمثالگر، آیینه را خواهد شکست
رنگ ریختن یعنی طرح عمارت افکندن
از تپیدنهاي دل، رنگ دو عالم ریختند
هرکجادیدم بنایی، گرد این ویرانه بود
رنگ پدید کردن یعنی رنگ آشکار کرنا ، رنگ کی جلوہ گری کرنا۔
رنگ باریدن یعنی رنگ کردن و رنگ پاشیدن
به چشم شوق نگاهی که در بهار نیاز
شکست حال ضعیفان چه رنگ میبارد
رنگ بستن یعنی رنگا رنگ کرنا اور خوبصورت کرنا
چه رنگها که نبستیم در بهار خیال
طبیعت پر طاووس، عالمی دارد
ز بسکه سرخوشم از جام بی نیازي شبنم
بهار شیشه به رویم شکست و رنگ بستم
بهر سامان هوس، باید خیالی رنگ بست
خواه لعل اندر نظرها، خواه بر کف، سنگ باش
رنگ بردن:
غنچه قبا نوگلی، مست جنون میرسد
تا نشود پایمال، رنگ ز گلشن برید
رنگ نداشتن یعنی جلوہ و زیبائی نداشتن
شعر
رنگی از عشرت ندارد، نوبهار اعتبار
زین چمن باید چو شبنم، چشمِ تر برداشتن
رفتن رنگ یعنی کمرنگ شدن و نابود شدن
غنچه ما بر تغافل تا کجا چیند بساط
میرسد آواز پاي رفتن رنگش ز دل
شکستن رنگ:
برنقش پاي شمعِ تصور، حنا مبند
من رنگها شکسته به تصویر میرسم
از رنگ دامن شکستن:
یک گل در این بهار، اقامت، سراغ نیست
بیدل ز رنگ خود، همه دامن شکسته اند
گردیدن رنگ یعنی رفتن یہاں “تلک الأیام نداولها بین الناس “آیت کا مفہوم مد نظر ہے.
دور این بزم، رنگ گردانی است
شش جهت، یک ایاغ میگردد
تا نگه برخویش جنبد، رنگ گرداندهاست،
حسن نیست بیرون، وحشت شمع از پر پروانه ام
رنگ فروختن یعنی خاصیت به چیزي دادن و جلوه گري
رنگ آفریدن:
بیدل کے یہاں بہاع مظہر رنگارنگی و بوقلمونی ہے اسی نسبت سے اپنی طبیعت کی رنگا رنگی کو بہار سے معنون کیا ہے
چون شمع، رنگم از چه بهار آفریده است
کز هر نگه به صد گل تغییر میرسم
رنگآمیزي :
یعنی خودنمایی و فخر به داشت ها۔
بیدل نے اس ترکیب کو ترکیب فعلی کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اگر علم و فنی داري، نیاز طاق نسیان کن
که رنگ آمیزي ات نقاش میسازد، خجالت را
رنگ به رنگ شدن یعنی رنگ کا شرمندگی و خجالت سے متغیرہونا۔
سرا پا بالم و از عجز طاقت
چو گل پروازم از رنگی به رنگیست
یہاں شاعر سراپا آمادہ پرواز ہے اور بیطاقتی سے پھول کی طرح رنگ پریدنی کا ہدف بنتا ہے۔
ترکیبات اضافی:
اضافہ استعاری میں مضاف غیر حقیقی معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا نیچے دیے گئے شعر میں دست بمعنی حوادث استعمال ہوا ہے اضافہ استعاری کی مثال ہے۔
دست روزگار، سنگ جدایی میان من و شما انداخت
حساب آورد:
بیدل اس دنیا میں اشیا کے ظہور کو استعارتی مبادلہ سمجھتے ہیں۔
گلفروشی رنگ:
ریزش خون تمنا، گلفروشیهاي رنگ
پرفشانیهاي حیرت، بلبل گلزار ما
یہاں گلفروشیہای رنگ ، اضافہ استعاری ہے اس ترکیب میں بیدل پھولوں کے رنگ یا مختصر مدت کے لئے نمودار ہونے کو گل فروشی رنگ سے تعبیر کرتا ہے۔
عشق می جوشید هرجا گرد شوخی داشت،
رنگ شمع از پرفشانی، عالم پروانه بود
ترکیبات اضافی تشبیهی:
یہاں موج رنگ اضافہ تشبیہی ہے۔
حسن، بی ایجاد عشقی، نیست در اقلیم ناز
گل چو موج رنگ زد، گلباز پیدا میشود
ایک اور مثال : ساغر رنگ
حیرتم میبرد از خویش که چون ساغر رنگ
به چه امید شکستم، به چه رو گردیدم
نیچے دیے گئے بیت میں طائر رنگ اضافہ تشبیہی میں شمار کی جائے گی۔
چو غنچه بسکه تپیدم ز وحشت دل تنگ
شکست رنگ :
شکست بر رخ من آشیان طائر رنگ
ترکیبات اضافی اختصاصی
شکست رنگ، گردش رنگ ، دونوں کا مطلب رونق رنگ کا اڑنا ہے یہ عارفانہ نکتہ ہے۔
سخت دشوار است پرداز شکست رنگ من
بشکن اي نقاش، اینجا خامه تصویر را
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
غالب
ز طرز مشرب عشّاق، سیر بینوایی کن
شکست رنگ کس، آبی ندارد زیر کاه آنجا
گردش رنگ:
اگر سنگ وقارت در نظرها شد سبک بیدل
فلاخن کرده باشی، گردش رنگ قناعت را
گردش رنگ بیدل کے یہاں خصوصیات روزگار و گردون، متصور ہیں
ترکیبات وصفی:
رنگ رفته
یاران به رنگ رفته دو روزم مثل کنید
تمثال من کم است گر آیینه تل کنید
رنگهاي از خود رفته
وحشتی میباید اینجا، خضر ره درکار نیست
رنگ ازخود رفته جز رفتن ندارد همعنان
رنگ پریدہ یعنی رنگ جستہ
چون صبح دارم از چمنی، رنگ جستهاي
گرد شکستهاي، به هوانقش بستهاي
مزید تراکیب ، رنگ وحشت دیدہ رنگ خزانی، رنگ زرد ، رنگ ثبات صد رنگ نوا ، ہزار رنگ کے علاوہ ادات تشبیہہ مثلاً بہ رنگ، بہر رنگ وغیرہ ان تراکیب کو بیدل کے اشعار میں ملاحظہ کریں ۔
پختگی در پرده رنگ خزانی بوده است
میوه هم در فکر سرسبزي، خیال خام داشت
از نارسایی ثمر خام من مپرس
تا رنگ زرد نیز همان دیر میرسم