ایک عرصہ میں شاپور قطع مسافت کرتا ہوا شیریں کے ملک میں پہنچا۔ شہر میں ہر طرف پھرا۔ رفتہ رفتہ شیریں کو خبر ہوئی کہ ایک سوداگر گراں بہا مال لے کر آیا ہے، تجارت کرتا ہے۔ شیریں اُس وقت اپنے خاص باغ میں مصروف عیش و نشاط تھی۔ رقص و سرود کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ایک پری پیکر نہایت ناز و ادا سے یہ غزل گا رہی تھی۔
غزل رضاؔ لکھنوی فرنگی محلی
رہ گیا تیر جو دل میں مرے پنہاں ہو کر
اب نہ نکلے گا قیامت تلک ارزاں ہو کر
کشتیِ تن کا پتا بحر محبت میں نہیں
میرے اشکوں نے ڈبویا مجھے طوفاں ہو کر
دردِ عشقِ سگِ جاناں کی محبت دیکھو
ہڈی ہڈی میں رہا کرتا ہے پنہاں ہو کر
نظر آ جائے جو گلدام تری زلفوں کا
پھول ابھی اڑنے لگیں برگ گلستاں ہو کر
حال جب میں دلِ پرسوز کا لکھنے بیٹھا
جل گیا کاغذِ خط ہاتھ میں سوزاں ہو کر
نئے انداز سے وہ روکتے ہیں دعوے سے
آئے ہیں حشر میں انگشت بدنداں ہو کر
جان کر عاشق افشاں مجھے غول صحرا
دھوکا تاریکی میں دیتے ہیں چراغاں ہو کر
دولت وصل نہ ہاتھ آئی رضاؔ دنیا میں
مثل دنیا رہی مجھ سے گریزاں ہو کر
تمام رات اسی طرح بسر ہوئی۔ عیش و راحت میں سحر ہوئی۔ صبح کو شاپور جو بہ شکل سوداگر آیا تھا، درِ دولت پر طلب ہوا۔ یہ آداب شاہی سے واقف تھا، نہایت عزت و احترام سے سلام کیا۔ پھر با ادب قیام کیا۔ تمام مال و اسباب دکھایا، دام فریب پھیلایا، تصویر کی جھلک دکھا کر اُس کو الگ کر لیا۔ شیریں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ جسے تو نے چھپا لیا۔ شاپور نے کہا: وہ امانت ہے، مال تجارت نہیں۔ ایک تصویر ہے، جس کے دام عشق میں عالم اسیر ہے۔ اس کے دیکھنے سے کیا فائدہ؟ اس تقریر سے شیریں کو اس کے دیکھنے کا شوق ہوا اور زیادہ ذوق ہوا۔ بے حد اصرار اور انکار کے بعد اُس نے وہ تصویر نکالی۔ شیریں دیکھتے ہی شیدائی ہوئی۔ الفت کا تیر لب سوفار کی طرح دل میں اثر کر گیا۔ ایک آہ کر کے بے ہوش ہوئی۔ انیسیں، جلیسیں بدحواس ہوئیں۔ بہت دیر کے بعد ہوش آیا۔ شاپور سے پوچھا یہ کون ماہ لقا ہے، جس نے مجھ کو دیوانہ کیا۔ عقل و ہوش سے بیگانہ کیا۔ اس نے کہا: خسرو شاہ نوشیروان کا پوتا ہے۔ جس طرح عوتوں میں آپ بے مثال ہیں، ویسے ہی مردوں میں وہ یکتا ہے۔ ہر حسین اُس کا طالب وصال ہے۔ شیریں کو عشق نے دیوانہ تو کر ہی دیا تھا۔ بے باکانہ حکم دیا۔ لشکر آراستہ ہو، دیار معشوق کی تیاری ہو، ہر ایک چلنے پر آمادہ ہو۔ نہایت جاہ و جلال سے وہ پری تمثال روانہ ہوئی۔ شاپور نے بھی ایک صبا رفتار سوار کو اطلاع کے لیے خفیہ روانہ کیا اور جلد پہنچ کر بادشاہ کو اس کی خبر دینے کی تاکید کر دی۔ غرض خسرو پرویز اس خبر طرب خیز سے آگاہ ہوا۔ خوشی میں مال و زر لٹایا، ہر ایک کو امیر بنایا۔ پھر لشکر کو آراستہ کر کے استقبال کے لیے روانہ ہوا۔