اسکو تو جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی تھی وہ صبح جلد ہی آگئی
اور آکر سب سے پہلے ناشتہ بنایا پھر وہ اسکے کمرے کی جانب آئی دل تیز تیز دھڑک رہا تھا ایسے جیسے باہر نکل آئے گا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا مگرجواب نہیں آیا اس نے دوبارہ دستک دی کچھ لمحے وہیں انتظار کے گزارے
اور جانے کے لیے مڑی کہ دروازہ کے لاک کھولنے کی آواز آئی اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کھڑا تھا نظر تھی کہ ہٹ نہیں رہی تھی
مگر نظر تو ہٹانی تھی
کہ وہ اسکے مالک کا بیٹا تھا مگر اسکے دل کا مالک بن گیا تھا……
اس نے پوچھا کیا ہوا….؟؟؟
وہ شاید اسی وقت ہی جاگا تھا آنکھیں نیند کے خمار سے آلود تھیں اور وہ جمائی لیتے ہوئے پوچھ رہا تھا
صاحب ناشتہ تیار ہے آپ آجائیں…..
آپکے کمرے کی صفائی بھی کرنی ہے…..
اس نے نظریں نیچی رکھ کے کہا…
ٹھیک ہے تم جاؤ میں آرہا ہوں دس منٹ میں
وہ جی اچھا کہہ کر مڑ گئی مگر دل وہیں اٹکا ہوا تھا…..
وہ دس منٹ میں ناشتے کی ٹیبل پہ آگیا تھا اسکی ماما اور پاپا دونوں اسکا انتظار کررہے تھے…
وہ ناشتہ کرنے لگا اور وہ وہ کچن میں کھڑی اسکو چوری چوری دیکھ رہی تھی وہ اپنے دلکش سراپے کے ساتھ اسکے دل میں اترتا جارہا تھا…..
مگر وہ اس سے کچھ نہیں کہہ سکتی تھی
کیسے کہتی….
وہ کیا تھی وہ جانتی تھی کہ وہ یہاں کیا مقام رکھتی ہے…..
وہ اس گھر کی مالکن نہیں بننا چاہتی تھی وہ تو بس اس دشمن جاں کے دل کی ملکہ بنناچاہتی تھی….
مگر یہ ناممکن تھا……
وہ لوگ ناشتہ کرچکے تو وہ برتن اٹھا کر کچن میں چلی آئی اسکی ماں برتن دھونے لگی تو وہ کمروں کی صفائی کرنے میں مصروف ہوگئی سب سے پہلے وہ اسکے کمرے میں گئی وہ اک اک چیز میں اسکی خوشبو کو محسوس کررہی تھی….
وہ وہاں نہیں تھا مگر وہ اسکو وہیں محسوس کررہی تھی…..
*******
وہ شانزے سے ہر صورت شادی کا فیصلہ کرچکا تھا ہادیہ اور مکرم کے سمجھانے کا اس پہ کوئی اثر نہیں ہوا تھا انہوں نے اپنی کوشش کرکے دیکھ لی تھی مگر بےسود تھا…..
باذل نے شانزے کو پروپوز کردیا تھا اور وہ تو اس خوشی میں ہواؤں میں اڑ رہی تھی کہ جس کو سوچا اسنے خود ہی پانے کی چاہت ظاہر کردی….
شانزے کے لیے وہ اسکا حاصل تھا مگر شانزے کو اس سے محبت نہیں تھی بس وہ اسکو اچھا لگاتھا وہ اک مکمل شخصیت کا پیکر تھا اور جو چیز اسکو اچھی لگتی وہ اسکو حاصل بھی کرلیا کرتی تھی
مگر وہ بھول گئی تھی کہ باذل اک جیتا جاگتا انسان ہے کوئی چیز نہیں کہ وہ جسکو اپنی مرضی سے کہیں بھی رکھ دے……
شانزے اپنے پاپا کے علم میں لائے بغیر نہیں کرسکتی تھی اسکے پاپا لاکھ مصروف مگر وہ اتنا وقت تو نکال ہی سکتے تھے اسکے لیے اسلیے اسنے تھوڑا وقت مانگا اور باذل نے اسکو دے دیا مگر اس وعدے کے ساتھ کہ فیصلہ اسکے حق میں ہونا چاہیے…..
اسنے کہا ٹھیک ہے میں پاپا سے بات کرکے تمہیں بتادوں گی…..
باذل مطمئن ہوگیا اور وہ اگلے ڈرامے کا اسکرپٹ دیکھنے میں مصروف ہوگیا…..
وہ کمرے کی صفائی کرنے میں مصروف ہوگئی
بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ رکھی ہوئی اسکی تصویر پہ نظر پڑی تو دیکھتی رہ گئی اور اسکی تصویر اٹھالی فریم میں لگی دلکش مسکراہٹ اور اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ وہ اسکے دل کو مستقل طور پہ اپنی مٹھی میں کیے ہوئے تھا
وہ اسکو دیکھے جارہی تھی نظر تھی کہ ہٹتی نا تھی
ناجانے اس تصویر کو دیکھتے اسکو کتنی دیر ہوگئی
تو اسکی ماں اسکو بلانے آئی…..
او حریم…..
وہ اپنا نام سن کر چونکی اور جلدی سے تصویر رکھ دی….
اور اپنی ماں کی جانب متوجہ ہوگئی….
جی اماں….!!
اری کتنی دیر لگائے گی کیا کررہی ہے..؟؟؟
اب تک صفائی نہیں کی تو نے….؟؟؟
اسکی ماں اس سے پوچھ رہی تھی جس پہ وہ گڑبڑا گئی
اور کہا بس اماں ہوگیا میں آتی ہوں آپ چلیں….
اسنے جلدی جلدی باقی کی صفائی کی اور کمرے کو بند کرکے جانے لگی اور جاتے جاتے اک نظر اس تصویر کو دیکھنانا بھولی…..
*****
شانزے نے اپنے پاپا سے بات کرلی تھی اسکے پاپا کو کوئی اعتراض نہیں تھا وہ خوش تھے انہوں نے باذل سے ملنے کے لیے کہا اور شانزے نے باذل کو بھی کہہ دیا کہ پاپا تم سے ملنا چاہتے ہیں…..
باذل نے اپنے پیرنٹس کو بھی بتادیا اب انہیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا جب انکا اکلوتا بیٹا راضی اور خوش تھا تو وہ بس دعا ہی کرسکتے تھے اسکے لیے….
وہ راضی ہوگئے ملنے کے لیے اور اتوار کا دن رکھ لیامکرم اور ہادیہ دونوں شانزے کے پاپا سے ملے کچھ کاروبار سے متعلق باتیں ہوئیں کچھ ادھر ادھر کی باتیں اور پھر باقی کے معاملات طے ہوگئے اور منگنی کے حوالے سے بات ہونے لگی……
باذل کی نگاہیِں بار بار شانزے کے چہرے کا طواف کررہی تھیں جو اپنی مکمل خوبصورتی کے ساتھ نظریں جھکائے بیٹھی تھی….
باذل کو محسوس ہوا جیسے وہ خوش نہیں ہے ناجانے کیوں….؟؟؟
اسنے سوچا اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ بتادیتی مگر
وہ اس وقت تو خوش تھی پھر اب….؟؟؟
شاید اسکو اپنی ماما یاد آرہی ہوں….
وہ خود ہی سب کچھ اخذ کیے ہوئے تھا….
اس نے سوچا بعد میں وہ اس سے پوچھ لے گا جو بھی بات ہوگی…..
ملازمہ چائے اور دیگر لوازمات لے آئی تھی ان لوگوں نے چائے پی اور کچھ دیر بعد اٹھ گئے اور واپسی کی راہ لی……
ہادیہ بیگم شانزے سے مل کے کچھ خاص خوش نہیں ہوئیں تھیں مگر وہ انکے بیٹے کی پسند تھی تو بس خاموش تھیں…..
دل میں یہی سوچ رہی تھیں کہ اللّٰہ جانے شانزے کیسی بہو ثابت ہوگی بن ماں کی بچی ہے باپ نے بہت لاڈ سے پالا ہے پتہ نہیں کیا ہوگا…. انکو آنے والا وقت ہولا رہا تھا…..
*****
روحان راحم کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھا جب راحم نے کہا
یار مجھے بھی دیکھنا ہے اس فقیرنی کو کل میں چلوں گا تمہاری ماما کے ساتھ پارک…
روحان حیرت زدہ ہوکر اسکو دیکھنے لگا اور کہا یار تم کیوں دیکھنا چاہتے ہو اسکو جب مجھے اتنا ڈر لگتا ہے تو پھر تم کیوں….؟؟؟
اوہو یار وہ کھا تھوڑی جائے گی بس میں نے دیکھنا ہے اور تم کل چل رہے ہو پارک سنا…
راحم نے روحان کی بات کاٹتے ہوئے کہا….
مگر وہ روز نہیں آتی کبھی کبھی نظر آتی ہے مجھے اس دن کے بعد جب میں نے تمہیں اسکول میں بتایا تھا اسکے بعد اب نظر آئی تھی…..
روحان نے منہ بناتے ہوئے کہا…
اچھا یار ہمت رکھو ہم دونوں مقابلہ کریں گے ہمیں بہادر بننا ہے یار اتنا بھی کیا ڈرنا۔۔۔۔
دیکھتے ہیں وہ کیا کہتی ہے..
تم اسکی وجہ سے پارک جانا چھوڑ دو گے یہ تو کوئی بات نہیں ہے تمہاری ماما کتنا خوش ہوتی تھیں تمہارے ساتھ پارک جانے پہ اور اب دیکھو وہ اکیلی گئی ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے نا….
راحم نے روحان کو سمجھاتے ہوئے کہا اور وہ اسکی بات سن کر جیسے راضی نظر آرہا تھا…..
اس نے کہا ٹھیک ہے پھر ہم دونوں چلیں گے ساتھ…..
راحم نے دوست کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا یہ بات میرے دوست…..
اب اگلے دن سے ان دونوں نے ساتھ پارک جانا تھا اور راحم نے اپنی ماں سے بھی کہہ دیا تھا اور اس نے اجازت دے دی مگر اس تاکید کے ساتھ کہ وہ پارک سے کہیں باہر نہیں جائےگا…..
اور راحم نے یقین دلایا تھا کہ ایسا ہی ہوگا…..
اگلے دن سے روحان اور راحم دونوں بھی پارک جانے لگے
وہ دونوں اک ساتھ بہت خوش تھے اور نظریں دوڑاتے رہتے کہ وہ فقیرنی کہیں سے نظر آجائے
مگر ایسا نہیں ہوا ناجانے کیوں جب ان دونوں کو انتظار ہوتا تو وہ نظر نہیں آتی اور جب بھول جاتے تو وہ اک دم سامنے آجاتی……
ایسا ہی چلتا رہا اور وہ اپنی اپنی مستیوں میں مگن ہوگئے…..
اس فقیرنی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا……
******
حریم روز صفائی کرنے کے بعد اس تصویر کو دیکھتی اور دیکھتی ہی چلی جاتی…..
اور تصویر دیکھتے ہوئے کہتی….
” کبھی کبھی کسی کو دیکھ لینا ہی کتنا کافی ہوتا ہے…
ایسےجیسے سکون اتر آیا ہو…..
” اک روز وہ ایسے ہی تصویر دیکھتے ہوئے اسکو دیکھنے میں مگن تھی اسکو پتہ ہی نا چلا اور دروازہ کھول کر وہ دشمن جاں اندر چلا آیا…..
اسنے جب حریم کو اپنی تصویر دیکھتے دیکھا تو کچھ حیران ہوا اور پوچھنے لگا….”
یہ کیا کررہی ہو تم…؟؟؟
حریم جو اسکی آمد سےبے خبر تھی اک دم گھبراگئی
اور اسکی تصویر رکھتے ہوئے کہنے لگی”صاحب کچھ نہیں صفائی کررہی تھی بس”
اس نے کہا کہ میری تصویر کو ایسے کیوں دیکھ رہی تھیں تم”؟؟
وہ اسکے اتنے صاف الفاظ میں پوچھے گئے سوال پہ گھبراگئی مگر پھر اپنے آپکو سنبھالتے ہوئے کہنے لگی…
” نہیں صاحب وہ صاف کررہی تھی تو بس اسلیے…”
اسکی بات سن کر وہ ہلکا سا مسکرایا اور کہا اچھا صفائی ہوگئی تو میری چائے گرم کرکے لادو ٹھنڈی ہوگئی مگر زرا جلدی….
مجھے نکلنا ہے کام کے لیے پاپا بھی تیار ہیں بس….!!!
حریم نے سر ہلایا اور چلی گئی پانچ منٹ بعد وہ اسکے کمرے میں چائے لیکر آگئی
اور چائے دیکر اسکو اک نظر دیکھا پھر واپس مڑگئی……
“کاش آپ کبھی میرے ہوسکتے
میں اک حق سے آپکے سارے کام کرسکوں کبھی…..
میرا دل تو آپکے نام ہے کاش آپ کا نام بھی میرےنام کے ساتھ لگ جائے…..”
حریم کے دل میں اک حسرت جاگی اور وہ دعا کرتے ہوئے جانے لگی…..”
یہ سوچے بغیر کے کچھ دعائیں کبھی قبول نہیں ہوتیں
اور کچھ ایسے قبول ہوتی ہیں کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا….
مگر ناجانے اسکی یہ دعا قبول ہوتی یا نہیں کون جانتا تھا سوائے اللّٰہ کے……
******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...