”ہم اتنی آسانی سے نہیں بتانے والے جو کرنا ہے کرلو۔۔۔“
رابوٹ ہنسا۔
”اب تم وہ والے جن نہیں رہے ہماری طرح انسان ہی ہو تم جیسے لوگوں سے اگلوانا ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔“
انسپکٹر طلحہ بولے۔
”ہاہاہا تو آٶ اگلواٶ۔۔۔اگلوا سکو تو۔۔“
کابوٹ پھیکی سی ہنسی ہنسا۔اسے یقین ہوچلا تھا، ان کا راز آسانی سے اگلوایا جاسکے گا کیوں کہ انھوں نے کبھی سختی نہیں سہی تھی، اور نا ہی سہنے کی ہمت تھی۔
”تمہاری بہادری نظر آرہی ہے آنکھوں سے۔۔“
سب انسپکٹر حسن طنزیہ انداز میں بولے۔
”حسین گرفتار کرلو ان دونوں کو۔۔۔“
انھوں نے ایک کانسیٹیبل کو حکم دیا۔
”جو حکم سر“
وہ حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ رابوٹ کی طرف بڑھا۔
”خبردار جو قریب آۓ تو بھون کے رکھ دوں گا۔۔“
رابوٹ مارے ڈر کے پیچھے ہٹا وہ کچا کھلاڑی تھا۔کہاں میدان میں کھڑا ہوپاتا۔میدان میں کھڑا ہونے کی بھی ہمت ہونی چاہیے جو ان دونوں میں نہیں تھی۔
ّ”ہمیں اگر جان کی پرواہ ہوتی تو۔۔۔“
حسین نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی اور رابوٹ کو ہتھکڑیاں پہنانے لگا۔
”تم یہ اچھا نہیں کر رہے اس کا حساب دینا ہوگا بہت جلد۔۔۔“
رابوٹ منمنایا۔
”اور چڑیلیں کہاں ہیں۔۔؟“
جمیل ہنسا۔
”کہاں کی چڑیلیں وہ تو صرف ٹیپ ریکارڈ تھا جس سے خوفناک آوازیں آتی تھیں میں نے حویلی کا سرسری جاٸزہ لیتے ہوۓ ایک جگہ وہ ٹیپ دیکھ لیا تھا۔“
طارق نے بتایا۔
”اور وہ جو ہمارے پاٶں خود بخود چلے جارہے تھے وہ کیا تھا۔۔؟“
سجاد نے پوچھا۔
”اس سارے کھیل میں سانٸس کا استعمال تک کیا گیا۔۔“
محب بولا۔رابوٹ اور کابوٹ کی گرفتاری ہوچکی تھی۔
”اس کا بتاٸیں کچھ؟“
”میرا خیال ہے ہم چلتے ہیں ان دونوں کو تھانے لے جاٸیں گے،سلاخوں کے پیچھے ڈالیں گے، تب تک آپ سب بھی اپنے والدین سے مل لیجیے گا جو آپ کے منتظر ہیں،“انسپکٹر طلحہ نے مشورہ دیا۔
”جیسا آپ بہتر سمجھیں لیکن اس سے پہلے حویلی کا جاٸزہ لینا چاہیے وہ بوڑھی عورت کون تھی جو ساتھ والے زندان میں رو رہی تھی۔۔“
ایمون بولا۔
”آپ سب حویلی میں پھیل جاٸیں کونہ کونہ چھان ماریں۔۔“
سب انسپکٹر حسن نے کانسیٹیبلز کو حکم دیا اور وہ سب پوری حویلی میں پھیل گۓ۔
دو کانسیٹیبل نے رابوٹ اور کابوٹ کو پولیس موباٸل میں تھانے روانہ کردیا۔
چار گھنٹے مسلسل چھان بین سے کچھ بھی ایسا حاصل نہ ہوسکا تھا۔
ایک کانسیٹیبل زندان کا تالا توڑ کر اندر داخل ہوا تو دھک سے رہ گیا، اندر کوٸی ذی روح بھی نہیں تھی ایک جگہ ٹیپ رکھا تھا یقیناً اس سے ہی رونے کی آواز آرہی تھی۔
”سر مزید کچھ نہیں ملا اس حویلی کو تالا لگایا جاۓ تاکہ اس طرح کا خوف نہ پھیل پاۓ لوگوں میں۔۔۔“
جمیل نے مشورہ دیا۔
اور پھر وہ سب اس حویلی سے نکل آۓ جنگل سے یہاں تک کا خطرناک راستہ محب نے انسپکٹر طلحہ کو پہلے ہی بتا دیا تھا اس لیے وہ ہیلی کاپٹر پر آۓ تھے۔میر محمد اور ایمون بھی ان کے ساتھ تھے۔
اور اب وہ سب واپس بھی ہیلی کاپٹر پر جارہے تھے۔
وہ سیدھا انسپکٹر طلحہ کے تھانے پر اترے۔
چاروں دوست اپنے اپنے والدین سے ملنے کے لیے بے تاب تھے۔
”میرا خیال ہے اپنے ماں باپ پہلے اپنی شکل مبارک دکھانی چاہیے۔۔“
محب بولا۔
”بالکل تو جاٸیے اب باقی باتیں کل کرلیں گے اور آپ کے گھر میٹنگ رکھ لیں گے جس میں رابوٹ و کابوٹ بھی شامل ہوں گے تاکہ ان سے آرام سے مکمل تفتیش کرلی جاۓ اور وہ ساٸنس کا استعمال بھی بتاٸیں گے آپ۔۔“
انسپکٹر طلحہ جلدی جلدی کہتے چلے گۓ۔
پھر وہ سب ایک ایک کرکے اجازت لے کر وہ رخصت ہوگۓ۔
اپنی گلی میں پہنچے ہی تھے کہ محلے والوں کی ان سب پر نظر پڑی مارے خوشی کے وہ بتانے چلے گۓ۔
”محب زندہ باد محب زندہ باد محب آگۓ۔۔۔“
سارے محلے کے لوگ جمع ہوگۓ اچانک عاٸشہ بیگم بھی شور سن کر باہر نکلیں۔پہلے ہی نظر ان کی محب پر پڑی تو وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں۔
”مم۔۔۔محب یہ تم ہو۔۔؟“
عاٸشہ بیگم نے محب کو ٹٹولا۔
”جی اتفاقاً۔“
محب نے یہ کہتے ہوۓ دروازے پر کھڑی انمول کو دیکھا۔
”لو آگیا کام چور۔۔“
انمول بولی تو محب ہنس پڑا۔
”چپ کر بے شرم۔۔“امی نے مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ اسے جھڑکا۔
جمیل،طارق اور سجاد اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے۔
اگلے دن خوب تھکان اتار کر چاروں دوست لان میں جمع تھے۔
”مجھے تو وہ بدبو ابھی تک ناک میں محسوس ہورہی ہے۔۔“
جمیل نے ناک رگڑی۔
”اور میرا بازو درد کر رہا ہے۔“
طارق بولا۔
”اور میرا تو پورا بدن درد کر رہا ہے“
سجاد بھی چپ نہ رہا۔
”اور بھاٸی آپ کیوں خاموش ہیں۔۔؟“
ایمون بھی ان کے درمیان موجود تھا۔
”سوچ رہا ہوں جمیل کو دِکھنے والا وہ چہرہ کون تھا۔۔؟“
محب نے کہا۔
”اس بارے میں تو ہم نے سوچا ہی نہیں۔“سجاد حیرت سے بولا۔
”جمیل وہ دراصل تمہارا وہم تھا چونکہ دماغ ماٶف تھا کہ جانے کب جن چڑیل سامنے نظر آٸیں۔تبھی وہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی تمہیں نظر آنے لگے تھے۔“
اتنے میں ڈور بیل بجی۔
”یقیناً انسپکٹر طلحہ ہوں گے میں دروازہ کھول آتا ہوں۔“محب اٹھ کھڑا ہوا۔
”السلام علیکم آٸیے آٸیے جناب خوشآمدید۔۔“
محب بولا۔
دروازے پر واقعی انسپکٹر طلحہ تھے۔
”وعلیکم السلام۔“
انسپکٹر طلحہ نے مسکراتے ہوۓ جواب دیا ان کے ساتھ رابوٹ اور کابوٹ اور دو کانسٹیبل تھے جنھوں نے ان دونوں کو پکڑ رکھا تھا۔
”میں چاۓ کا آرڈر دے آتا ہوں تب تک آپ تشریف رکھیے۔“
محب یہ کہہ کر اندر چلا گیا۔
”چڑیل آٹھ کپ چاۓ تو بنا دو فٹا فٹ اور ساتھ میں سموسے پکوڑے جلیبیاں بھی۔“
انمول کان میں ہینڈ فری ڈالے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی جب محب نے کہا۔
”کیا مصیبت ہے پتا ہے جب تم نہیں تھے اتنا سکون تھا اب آگۓ ہو تو پھر وہی کام۔“
انمول ہینڈ فری کان سے کھینچتے ہوۓ بولی۔
”سوچ لو جب میں نہیں تھا ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا گھر کی رونق ہی چلی گٸ تھی۔“
محب سنجیدہ ہوا۔
”نہ ہنساٶ پاٸی گھر کی رونق بہنوں سے ہوتی ہے بھاٸیوں سے نہیں۔“انمول کے آخری الفاظ امی کے کانوں میں پڑے وہ اس کی خبر لینے پہنچ چکی تھیں۔
”کیا بک رہی ہو پتا بھی ہے میرا اکلوتا بیٹا ہے خبردار جو آٸندہ اس طرح کہا تو جاٶ جا کر چاۓ بناٶ اور ساتھ میں نمکین بھی۔۔“
انمول رونی شکل بناتے ہوۓ کچن کی طرف چل پڑی جاتے جاتے اس نے محب کو گھورا جیسے کہہ رہی ہو بدلہ لوں گی اس کا تم سے۔
محب باہر آگیا۔
”بھاٸی اس سے تفتیش لی گٸ ہے بہت ہی شاطر ہیں دونوں۔“
جمیل نے کہا۔
”کیا معلوم ہوا۔؟“
محب کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولا۔
”ان دونوں کا کہنا ہے وہ کسی شانگلہ نامی ملک کے رہنے والے ہیں شانگلہ کی حکومت نے ان دونوں کو سال قبل سزا کے طور پر ملک بدر کردیا تھا اس لیے وہ یہاں آۓ تھے۔ملک بدر کرنے کی یہ وجہ تھی کہ وہ اپنے ملک کے جاسوس بن کر دشمن ملک کے لیے کام کرتے تھے، دونوں ساٸنس دان ہیں ساٸنسی چیزیں بنا کر دشمن ملک کو دیتے اور شانگلہ ملک وہ اشیا انہی کے ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے جس کے بدلے میں شانگلہ کی حکومت خوش ہو کر دونوں کو مالا مال کردیتی۔پھر ان کے ایک ناٸب سے یہ برداشت نہیں ہوا اس نے جا کر ان کا بھانڈا پھوڑ دیا جس کے نتیجے میں یہ دونوں ملک سے نکالے گۓ اب سوال یہ تھا وہ جاٸیں تو کہاں؟پھر انھوں نے ہمارے ملک کے بارے میں ریسرچ کی جو بھا گٸ اور یہ دونوں یہاں آگۓ ایک جنگل میں حویلی بن رہی تھی، رابوٹ نے اس حویلی کے مالک کو باتوں سے اپنا گرویدہ بنا لیا اور اس کے ساتھ شامل ہوگیا۔رابوٹ اور کابوٹ نے حویلی میں اپنا ڈیرہ جما لیا وہ پھر سے اپنے ملک کے خلاف کام کرنے لگے مگر ایک مسٸلہ آڑے آنے لگا۔
نٸ چیزیں دیکھنے کون نہیں آتا؟سو اس بستی کے لوگ اس حویلی کو دیکھنے کے لیے آنے لگے، کسی بھی صورت ان لوگوں کو روکنا تھا سو انھوں نے اس حویلی کا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھا لیا لوگ وہاں آنے سے ڈرنے لگے، مگر کچھ بہادر لوگ ہر خطرے سے بے نیاز اس طرف آنے لگے جس کا انتظام وہ پہلے ہی کر بیٹھے تھے انھوں نے حویلی سے کوسوں دور عام آدمیوں کو اپنا غلام بنا کر جنگلی بنا دیا پھر جو بھی اس طرف نکلتا جنگلی لوگ ڈرا دھمکا کر بھگا دیتے، ایک عرصے سے کسی نے بھی اس طرف کا رخ نہیں کیا کیوں کہ سبھی کو اپنی جان پیاری تھی، پھر محب جیسے بہادر نوجوان اس طرف نکل آۓ جنگلیوں سے لڑاٸی کی، پھر حویلی میں گھسنے میں کامیاب ہو ہی گۓ یہاں ایک کردار نے بہت ساتھ دیا جس کا نام میر محمد ہے اس کا بیٹا ایمون محب وغیرہ کے ساتھ تھا اگر میر محمد نہ ہوتا تو شاید یہ راز کبھی کھل نہ پاتا اور یہاں کے لوگ اسی طرح ڈر ڈر کر جیتے۔چونکہ دونوں ساٸنس دان تھے، جس کا استعمال بھی کیا گیا اس حویلی میں بھی۔
یہ جو ان کے پاٶں خود بخود چل رہے تھے یہ ایک ٹیکنولیجی سے ہورہا تھا۔۔“
اتنا کہہ کر انسپکٹر طلحہ رکے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔
اتنے میں انمول کی آواز آٸی۔
”بھاٸی چاۓ تیار ہے۔“
محب چاۓ لے کر آیا پکوڑے سمومے جلیبیاں خود انمول نے بناٸی تھیں سب نے خوب انصاف کیا۔اور کہے بغیر نہ رہے۔
”اف مالک اتنی ذاٸقے دار چیزیں واہ بھٸ۔“یہ سن کر انمول خوش ہوگٸ۔
محب کو اس پر بہت پیار آیا۔کہ اللہ نے اس کو اتنی پیاری بہن دی ہے خیر۔
”کھانے سے یاد آیا وہ جو حویلی کے باہر انسانی ڈھانچے پڑے تھے اس کی کیا حقیقت ہے۔؟“طارق نے پوچھا۔
”اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ہڈیاں پلاسٹک کی تھیں۔“
پیٹ پوجا کے بعد انسپکٹر طلحہ نے پھر بولنا شروع کیا۔
”اس ساٸنسی چیز کی تفصیل کچھ یوں ہے:
”یہ آج سے پانچ چھ سال قبل کی بات ہے۔نیویارک میں واقع یونیورسٹی آف راچیسٹر کے دو ساٸنسدانوں جوزف چوٸی اور جان ہوول نے دو ہزار پندرہ کے آغاز میں ایک ایسا تھری ڈی آلہ تیار کرکے پیش کیا جسے جسم کے جس حصے پر بھی رکھا جاتا، وہ حصہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا۔
دراصل یہ ایک نٸ نیکنالوجی کا شاہکار تھا۔اس آلے کی اہم بات یہ تھی کہ اسے جس زاویے سے بھی دیکھا جاتا وہ حصہ غاٸب ہی نظر آتا۔
اس آلے کی تخلیق کار ساٸندانوں نے اس میں چار اسٹینڈرڈ کے لینس لگاۓ تھے۔جن کی بدولت یہ تھری ڈاٸی مینشل بلکہ ملٹی ڈاٸی مینشل کے طور پر کام کرتا ہے اس میں شعاعوں کو نظر آنے والے اسپیکٹرم تبدیل کردیا جاتا ہے۔
اگرچہ اس قسم کے آلات 2015 سے پہلے بھی بناۓ جاچکے تھے، لیکن ان میں خامی یہ تھی کہ اگر وہ ایک زاویے سے اوجھل کرتے تو دوسرے زاویے سے وہ چیز نظر آنے لگتی۔جوزف چوٸی اور جان ہوول نے اس خامی کو نہ صرف دور کردیا بلکہ اس لینس کا ساٸز بڑھا کر اس قابل کردیا کہ اسے چھوٹا بڑا بھی کیا جاسکتا ہے۔دراصل یہ آلہ مکمل اسپیکٹرم آف لاٸٹ کے طور پر کام کرتا ہےاور روشنی کو موڑ کر پیچھے رکھی گٸ چیز کے مرکز سے گزرنے پر مجبور کرتا ہے جس سے ایکس ریزرایجن کو بلاک نہیں کیا جاسکتا تھا اس کی تیاری میں جو تیکنیک استعمال کی گٸ ہے اسے اے، بی، سی میٹر یسز کہا جاتا ہے جو لینس شیشوں اور دیگر شفاف ذراٸع سے روشنی کے گزرنے کے عمل کی وضاحت کرتا ہے ان دونوں نے حویلی کے صحن میں ان کا استعمال کیا تھا۔۔“
اتنا کہہ کر انسپکٹر طلحہ رابوٹ کی طرف دیکھا۔
”جی بالکل ایسا ہی ہے۔“
رابوٹ فوراً بولا۔
”اب ان دونوں کا کیا کریں گے واپس اپنے ملک بھیجیں گے۔؟“طارق نے پوچھا۔
”شانگلہ کی حکومت کسی صورت ان کو واپس نہیں لے گی اس لیے اب یہ ہمارے ملک کی قید میں تا عمر رہیں گے۔“انسپکٹر طلحہ بولے۔
”یہ یہاں رہ کر ہمارے ملک کے خلاف بھی جاسکتے تھے لیکن آپ لوگوں نے پکڑ لیا جس پر حکومت کی طرف سے شیلڈ اور سرٹیفیکٹ دیے جارہے ہیں کل کی تقریب میں۔۔“اتنا کہہ کر انسپکٹر طلحہ اٹھ کھڑے ہوۓ۔
”شاباش میرے ملک کے بہادر جوانوں۔“پھر وہ سب چلے گۓ۔
اور جمیل،طارق سجاد اپنے اپنے گھروں کو چلے گۓ۔
اب رہ گۓ ایمون اور میر محمد جن کے لیے حکومت کی طرف سے رہاٸش کے لیے گھر دیا گیا تھا۔
انمول کی آنکھوں میں خوشی کے مارے آنسو آگۓ وہ بھاٸی جس کو وہ ناکارہ سمجھتی تھی اس نے وہ کام کر دکھایا تھا جو کسی میں کرنے کی جرات نہیں پاٸی جاتی تھی۔
اگلے دن تقریب میں چاروں دوست شامل تھے، ان کے ہاتھوں میں اعزازی سرٹیفیکٹ اور شیلڈ تھے خوشی سے ان کے چہرے تمتما رہے تھے۔
“ختم شد”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...