سلطان عبدالمجید کا تعلق نقشبندی سلسلے کی حالیدی شاخ سے تھا۔ جو اپنا تعلق شیخ حالد بغدادی کے دمشق کے مزار سے جوڑتے تھے۔ اعلیٰ عہدیداران کا انتخاب بھی اسی سلسلے سے کیا گیا تھا۔ ان کا سلطان بننے کے بعد پہلا کام ایک مسجد، ایک خانقاہ اور ایک مزار کی تعمیر تھا جبکہ گولہانے فرمان حکمرانی کی سمت کا اعلان تھا۔ اس میں آغاز اس سے کیا گیا تھا کہ ریاست نمازِ پنج وقتہ پڑھنے کی ترغیب دے گی۔ اس کے بعد ایک نیا عمرانی معاہدہ پیش کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے اچھی گورنس، عوام کی طرف سے سلطنت سے وفاداری۔ سلطانی فرمان کے بجائے قانون کی بات کی گئی تھی، جو ایک بڑی تبدیلی تھی۔ اسی سال قانون میں کھیتوں میں جبری مشقت ختم کی گئی۔ لیکن عملی طور پر یہ نہ ہو سکا۔ وجہ یہ تھی کہ مرکزی اور مقامی حکومتوں میں لوگ ہی وہی تھے جو اس سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ خالی خزانے، ان پڑھ عوام، ناقص انفراسٹرکچر، رابطوں کے نظاموں کے فقدان کے باعث پیشکردہ اصلاحات تھیوری سے عمل کی طرف زیادہ نہ جا سکیں۔ خاص طور پر مرکز سے دور علاقوں میں۔
کرنسی ڈی ویلیو کی گئی۔ پچھلے سلطان کے دور میں جانثاروں نے یہ کوشش روک دی تھی۔ اس مرتبہ یہ آسانی سے ہو گیا۔ لیکن ملک کے معاشی حالات ابتر تھے۔ کاغذی کرنسی جاری ہوئی جو آٹھ سال کے ٹریژری بانڈ کی شکل میں تھی۔ اس پر شرحِ سود ساڑھے بارہ فیصد مقرر ہوئی اور 1844 میں کرنسی کا ریٹ سونے سے منسلک کیا گیا۔ یہ جدت مصر سے سیکھی گئی تھی۔
تعلیم اور قانون کے شعبوں میں اصلاحات آئیں۔ 1850 میں وزارتِ تعلیم بنی اور دس سے پندرہ سال کے لڑکوں کے سیکولر تعلیم کے سکول سلطنت پہلی بار قائم ہوئے۔ دیہی سروے کا سسٹم بنایا گیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اصلاحات کی رفتار بہت سست تھی۔ جاگیرداری نظام سے جبری مشقت کا طریقہ ختم کرنے پر زور دینے سے جاگیرداروں کی طرف سے شدید مزاحمت آئی۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ ایسے تنازعے مقامی سطح پر نمٹے جائیں گے۔ اور اس کا مطلب سٹیٹس کو برقرار رکھنا تھا کیونکہ مقامی سطح پر شنوائی انہی جاگیرداروں نے کرنی تھی۔
لندن میں 1851 کی نمائش میں پہلی بار عثمانی سلطنت نے شرکت کی جس میں سات سو نمائش کنندگان نے زراعت، صنعت، آرٹ اور دستکاری کو شوکیس کیا گیا۔ پیداوار اور برآمدات کی طرف توجہ کی یہ ایک مثال تھی۔ مغرب میں آنے والے صنعتی انقلاب کو زراعت اور مینوفیکچرنگ میں رفتہ رفتہ اپنا کر پروڈکشن بڑھانا، ڈومیسٹک منڈیوں کو ایفی شنٹ بنانا، بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی کی کوشش 1839 سے 1853 تک سلطنتِ عثمانیہ کی طرف سے کی جانے والی اندرونی جنگ تھی۔ بیرونی تاجروں کو اپنے ملک کی رسائی دینے سے پرانی اجارہ داریاں ٹوٹنا شروع ہو گئیں تھیں۔
سلطان عبدالمجید کے حکم پر استنبول میں صدیوں پرانی غلاموں کی منڈی 1846 میں بند کر دی گئی۔ کئی لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ تھا۔ اس خبر پر جدہ میں احتجاج ہوئے۔ مسلح تصادم بھی ہوئے لیکن 1857 میں سلطنت بھر میں غلاموں کی تجارت غیرقانونی قرار دے دی گئی۔ (اگرچہ رکھنے پر پابندی نہیں لگائی گئی اور غلامی سلطنت کے خاتمہ کے بعد ممنوع قرار پائی)۔
روس کے ساتھ کریمیا کی جنگ 1854 میں شروع ہوئی۔ اس جنگ کی وجہ یروشلم میں آرتھوڈوکس کرسچن کے مقدس مقامات تھے جن پر زارِ روس نے کنٹرول طلب کیا تھا۔ اس جنگ میں عثمانیوں کو اپنے اتحادی فرانس، برطانیہ کی صورت میں مل گئے۔ روس نے برطانیہ کے اثر کا غلط اندازہ لگایا تھا اور اس کو 1856 میں جنگ بند کرنا پڑی۔ لیکن پیرس امن معاہدے کا ایک سائیڈ ایفیکٹ عثمانی سلطنت کے برطانیہ پر مزید انحصار کی صورت میں نکلا۔ اور اس کا نتیجہ اصلاحات کا بڑھنے والا دباوٗ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عثمانی سلطانوں میں اپنے شہر سے باہر جانے کا رواج نہیں تھا، ماسوائے فوج کے سربراہ کے طور پر۔ ملک سے باہر جانے کا تو بالکل بھی نہیں۔ سلطان عبدالمجید کے بعد آنے والے سلطان عبدالعزیز وہ پہلے اور واحد سلطان تھے جو کسی بھی غیرملکی دورے پر گئے۔ انہوں نے 1867 میں گیارہ روز ملکہ وکٹوریا کے مہمان کے طور پر اور چھ ہفتے فرانس کے دورے میں گزارے۔اس دورے میں مصر کے گورنر خدیوی اسماعیل بھی تھے جنہوں نے نہرِ سویز کے لئے فرانس سے بڑا معاہدہ کیا اور قرضہ حاصل کیا۔ یہ نہر مصر کے لئے بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کے کھلنے پر تین ہفتے مصر میں جشن منایا گیا جس میں دنیا بھر سے لوگوں کو مدعو کیا گیا۔
یہ وقت سلطان عبدالعزیز اور خدیوی اسماعیل کی رقابت کا تھا۔ کیا قاہرہ استنبول سے زیادہ طاقتور بن سکتا تھا؟ کہیں خلافت کا مرکز ترک سے عرب تو نہیں چلا جائے گا؟ یہ خوف سلطان کو رہا۔ یہ وہ وقت تھا جب عثمانیہ سلطنت کی ابتدا کا رومانس تخلیق کیا گیا۔ سوگت میں مقبرے بنائے گئے۔ فوج کے روایتی لباس میں عثمانی لکھوایا گیا۔ عثمانی سلطنت کے ابتدا کی تاریخ 1299 مقرر کی ہوئی۔ اپریل 1862 کو بورصہ میں عثمان کی قبر پر “عثمانی آرڈر” چڑھایا گیا جس میں جواہرات لگے تھے۔ یہ سب اس کو بتانے کے لئے تھا کہ عثمانیہ خاندان ماضی کی دھند نہیں۔ تابناک ماضی اور آغاز رکھتا ہے۔ سلطنت کی شناخت عثمانیوں کا خاندان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نئی سوسائٹی “محبِ الوطنوں کا اتحاد” کے نام سے 1865 میں قائم ہوئی۔ دانشوروں کا یہ گروپ “نوجوان عثمانی” کہلایا۔ ان کا خیال تھا کہ محض روشن خیال آمریت اور اچھی گورننس کافی نہیں۔ عوام کی حکومت میں شرکت ضروری ہے۔ آئین اور لبرل ازم ضروری ہیں۔ عثمانی اسلامی کلچر کو برقرار رکھتے ہوئے نئے خیالات کی ضرورت ہے۔ اس گروپ کی سزا سنسرشپ اور جلاوطنی ٹھہری۔
تعلیمی پسماندگی بڑا مسئلہ تھی۔ تنظیمات کا مقصد بھی عام تعلیم نہیں تھا۔ عوام کے لئے چند سکول بنائے گئے تھے۔ 1869 میں عام تعلیم کے لئے قواعد و ضوابط بنے جو 1876 میں نافذ ہوئے۔ اس میں پرائمری، سیکنڈری اور اس سے آگی کی تعلیم کا سسٹم تھا۔ یہ سسٹم اس وقت کی روایتی تعلیم کے متوازی بنایا گیا تھا؎۔
نئے سول قوانین بنانے میں کئی برس لگے۔ ان کو فرنچ سول کوڈ کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ بینک کا ادارہ 1840 کی دہائی میں شروع ہوا تا کہ تجارت کی جا سکے۔ پہلی ٹرین کی چھوٹی سی پٹری ازمیر سے بحرِ اسود کے ساحل تک 1873 میں بچھائی گئی۔
سلطان نے دفاعی سامان کی بھاری خریداری کی تھی۔ 1873 میں ہونے والا عالمی منڈیوں کا کریش، اناطولیہ میں اسی دوران قحط اور سیلاب۔ ٹیکس کے نظام میں تبدیلیوں سے محصول میں کمی۔ 1875 میں عثمانی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہی اور ڈیفالٹ کر گئی۔
یہ وقت تھا جب عثمانی شناخت کے بحران کا شکار تھے۔ “ہم کون ہیں”، “ہمیں کیا ہو گیا ہے”، “کیا ہم محض نقال ہیں”، “کیا کبھی بھی واپس اٹھ سکیں گے”۔ انٹلکچوئل حلقوں میں یہ سوال ہونے لگے تھے۔ مارچ 1876 کو ایک پمفلٹ شائع ہوا “مسلم حب الوطنوں کا منشور”۔ اس میں انتخابات کروانے اور مشاوارتی اسمبلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بااثر حلقوں میں عثمانیوں کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ سلطان نے اس کا جواب سنسرشپ اور ٹیلی گراف بند کرنے سے دیا۔ لیکن اس کا فائدہ نہیں ہوا۔ ایک مہینے کے آخر میں سلطان عبدالعزیز کو معزول کیا جا چکا تھا۔ یہ بہت احتیاط سے کی جانے والی بغاوت تھی جس میں اہم وزراء شامل تھے۔ نیا سلطان ان کے ولی عہد مراد پنجم کو بنایا گیا۔ مراد پنجم صرف تین ماہ حکمران رہے۔ ان کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے معزول کر دیا۔ مراد کو چراغاں محل میں گرفتار کر کے اگلا سلطان مراد کے بھائی عبدالحمید دوئم کو بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپریل 1876 کو بلغاریہ کے صوبے پلوڈیو میں بغاوت ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات میں روس نے اپریل 1877 کو عثمانیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔ بیس سال امن کے بعد یہ جنگ عثمانیوں کو بہت مہنگی پڑی۔ بلغاریہ کے تین حصے کر دئے گئے جن میں سے ایک عثمانیوں کے پاس رہا۔ ایک نیم خود مختار اور ایک آزاد۔ روس نے باتومی، قارص، اور ارداہان کا علاقہ لے لیا۔ سربیا، رومانیہ اور مونٹی نیگرو کو آزادی مل گئی۔ بوسنیا اور ہرزیگووینا آسٹرو ہنگری سلطنت کے پاس چلا گیا۔ جن علاقوں پر روس نے قبضہ کر لیا تھا اور صلح کے معاہدے میں ان سے دستبردار ہوا، اس کے عوض اسی کروڑ پچیس لاکھ فرانک ہرجانہ لگا دیا گیا۔
ایک صدی میں عثمانی اپنی سلطنت کا ایک تہائی علاقہ کھو چکے تھے۔ آسٹرو ہنگری سلطنت عثمانیوں کا علاقہ تو حاصل کر چکی تھی لیکن یہ ان کے لئے دردِ سر بن گیا۔ وہ مسئلہ جو عثمانیوں کو تھا، وہ اب یہاں تک پہنچ گیا۔ اب یہ سلطنت بھی کئی قومیتوں اور مذہبوں پر مشتمل لوگوں کی تھی۔ اس بادشاہت کو بھی نیشنلزم کا سامنا پڑ گیا۔ مقامی آبادی کو کنٹرول کرنے کا مسئلہ تھا۔ بڑے علاقے کے روس کے خلاف دفاع کا مسئلہ تھا۔ یہ وہ مسائل تھے جنہوں نے ہیبسرگ سلطنت کو عثمانی سلطنت سے بھی پہلے ختم کر دیا۔ برلن معاہدے میں ملنے والا علاقہ ان کے جلد انہدام کا سبب بن گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر توپکاپی محل کے شاہی فوارے کی ہے۔ یہ فوارہ اس محل میں سلطان احمت سوئم نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ تصویر سویڈش فوٹوگرافر گوالوم برگرن نے 1880 میں کھینچی تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...