وصی کے ساتھ شان نے بھی آرمی جوئن کی۔۔
وصی کا بلکل دل نہیں تھا جانے کا مگر ددا کی خواہش کے آگے سر جھکا دیا تھا۔۔
شان اور وصی کو سب نے مل کر دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔۔
وصی کے جانے کے بعد ددا نے سکون کا سانس لیا۔۔
“جب گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے۔۔” ددا نے کہا
“ابا ویسے۔۔وصی گھر کی رونق تھا اس کے جانے بعد گھر ایک دم خالی ہوگیا” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“پتا نہیں میرے بچے کا دل بھی لگے گا یا نہیں” ددو اداس ہوئی
“لگ جائے گا بچہ تھوڑی ہے۔۔۔اور دور رہنے سے مستقبل تو سنور جائے گا نا اس کا” ددا نے کہا
“ہاں۔۔ابا ہم نے جو بھی کیا اس کی بھلائی کے لیے ہی تو کیا ہے” شائستہ بیگم نے کہا
“ہاں دیکھنا ایک دن دعائیں دے گا ہمیں اس کی زندگی سنور جائے گی۔۔بری صحبت سے بچایا ہے ورنی یہی عمر ہوتی ہے۔۔جب انسان جوانی میں قدم رکھتا ہے تو بگڑ بھی جاتا ہے اور سنور بھی جاتا ہے” ددا نے کہا
” بلکل ابا۔۔اللہ اسے کامیاب کرے بس” شائستہ بیگم نے دعا دی۔۔
وہ سیٹ پر ٹیک لگائے بیٹھا تھا اس کا دل کر رہا تھا کہ واپس بھاگ جائے یہ سفر اس کے لیے بہت مشکل تھا۔۔
وہ اس راستے پر نکلا تھا جہاں جانا اسے پسند نہیں تھا۔۔
وہ ددا ددو کے بغیر کبھی نہیں رہا تھا۔۔
اس کے دل میں رہ رہ کر ہول اٹھ رہے۔۔کہ وہ دوڑ کر واپس چلا جائے۔۔
مگر ددا کی خوشی کے لیے وہ خاموش تھا۔۔
وہ ددا کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔
وہ لوگ اس کے لیے سب کچھ تھے۔۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کی تو۔۔ایک اور شخص اسے دل و دماغ میں اترتا محسوس ہوا۔۔
“نور۔۔کہاں ہو تم؟” اس نے بے ساختہ دل میں کہا
وہ نور سے کتنی محبت کرتا تھا اسے خود بھی نہیں پتا تھا۔
اسی کے جانے کے بعد اسے ایک ایک پل اس کی کمی محسوس ہورہی تھی۔۔
تبھی اس کا سیل فون چیخنے لگا۔۔
شاید دل سے دل کی راہ تھی
اسکرین پر نور کا نمبر جگمگا رہا تھا۔۔
ایک خوشی کی لہر اس کے چہرے پر پھیل گئی۔۔
اس نے جھٹ سے کال رسیو کی۔۔
“ہیلو نور” وصی کی آواز میں بے تابی تھی
“وصی۔۔کیسے ہو؟” نور کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی
“میں ٹھیک ہوں۔۔تم کہاں گم تھی۔۔پتا ہے میں کتنا پریشان ہوا” وصی نے خفگی سے کہا
“میں ٹھیک ہوں۔۔میرے پاپا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔۔اور میرا سیل فون تو ٹرین میں کہیں گر گیا تھا۔۔اتنی پریشانی تھی کہ میں دوبارہ سم نکلوا ہی نہیں سکی تھی۔۔” نور نے صفائی دی
“پھر بھی تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا نا۔۔تم۔۔تمہیں اندازہ بھی نہیں ہے کہ میں نے یہ دن کیسے نکالے” وصی نے غصہ سے کہا
“وصی۔۔میں کسی سے بات نہیں کر پائی۔۔حنا بھی پوچھ رہی تھی۔۔اور۔۔۔” نور نے کہا مگر وصی نے اس کی بات کاٹی
“میں ہر کسی میں شامل نہیں ہوں نور۔۔۔” اس نے تلخی سے کہا۔۔
لمحہ بھر وہ خوموش ہوئی۔۔
“وص۔۔۔وصی۔۔میں۔۔۔”
“میں نے آرمی جوئن کرلی ہے اکیڈمی جارہا ہوں ٹریننگ ہے میری۔۔میں اب شاید بات نہیں کر پاؤں۔۔۔” وصی نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“وصی۔۔میری۔۔بات۔۔” نور نے کچھ کہنا چاہا جسے مہارت سے اس نے اگنور کیا
“تم بھی تو میری کمی کو محسوس کرو نا” وصی نے کہ کر فون بند کردیا۔۔
ایک آنسوں اس کی آنکھ سے گرا۔۔
اسے نور سے سے اتنی محبت تھی۔۔۔جسے آج اس نے محسوس کیا۔۔مگر اب اسے تسلی تھی کہ نور ٹھیک ہے۔۔مگر وہ چاہتا تھا۔۔۔نور بھی وہ سب محسوس کرے جو اس نے کیا۔۔
وہ دونوں سامان پکڑےاکیڈمی میں داخل ہوئے۔۔۔ہر طرف یونیفارم میں کیڈٹس دکھائی دے رہے تھے ۔۔
وہ لوگ بھی لائن میں کھڑے ہوگئے۔۔
سینئرز کی گرجنے کی آواز باقاعدہ ان کے کانوں میں پڑ رہی تھی۔۔
تھوڑی بہت فورمیلٹیز کے بعد وہ لوگ آگے بڑھے۔۔
ان دونوں کو یہاں کے رولز اور سختی کا پہلے سے علم تھا۔۔
مگر صرف پتا ہونے اور ان رولز کو فالو کرنے میں فرق تھا۔۔
اپنے روم میں آکر ان لوگوں نے اپنا سامان رکھا۔۔
اور بیٹھ گئے۔۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔
وصی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا۔۔
سامنے ہی شفی کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔
“شفی۔۔۔” وصی نے زیر لب دہرایا۔۔
“نا منا نا۔۔۔سر بول” شفی نے اترا کر کہا
“سر۔۔۔” وصی نے منہ بنایا
“بولنا تو پڑے گا۔۔۔” شفی نے مسکرا کر کہا۔۔
“اور نا بولوں تو؟” وصی نے اکڑ کر کہا۔۔
“تیرے تو اچھے بھی بولیں گے۔۔تو تو آرمی بھی جوئن نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ددا کے ماسٹر پلان نے تجھے یہاں لا پٹخا۔۔” شفی نے کہا۔۔
“کیا۔۔۔کیا ددا کا۔۔۔” وصی کو جھٹکا لگا۔۔
“ہاں سچی ددا نے ناٹک کیا تا کہتو مان جائے اور دیکھ پلان سکسیس فل رہا۔۔۔” شفی نے داد دی۔۔
“ددا۔۔۔یہ ٹھیک نہیں کیا دڈا نے۔۔۔دھوکہ دیا۔۔” وصی روہانسی ہوا
“اب تو کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔اس لیے چپ چاپ میری بات ماننی ہے۔۔ورنہ اپنے لیے مصیبت کھڑی کرے گا۔۔” شفی نے اس کا گال تھپتھپایا
اور پلٹ گیا۔۔
“میں بھاگ جاؤں گا یہاں سے..” وصی نے تپ کر کہا
“یہ بھی کوشش کر کے دیکھ لے۔۔
وہ کہتا وہاں سے چلا گیا۔۔
اور پیر پٹختا کمرے میں آیا۔۔
“وصی۔۔۔” شان نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا
“میں بھاگ جاؤں گا یہاں سے۔۔” وصی نے غصہ سے کہا
“بھاگنے سے کیا ہوگا؟” شان نے کہا
“مجھے یہاں نہیں رہنا شان۔۔۔” وصی نے کہا
“کچھ ایسا کر کہ لوگ خود ہی تجھے یہاں سے نکال دیں” شان نے مشورہ دیا۔۔
اور وہ اثبات میں سر ہلاتا سوچنے لگا۔۔
“نانو۔۔۔” وہ زمین پر بیٹھی سر میں مالش کروا رہی تھی۔۔
“ہاں میری بچی۔۔” ثریا بیگم نے کہا۔۔
“وصی۔۔کو اگر پتا چلا نانا ابا کے ڈرامے کا تو؟” حور نے معصومیت سے پوچھا
“تو۔۔کیا کر سکتا ہے رہنا تو پڑے گا” انہوں نے کہا
“نانو وصی کا وہاں دل نہیں لگا تو؟”
حور نے سوال کیا
“تو دل لگانا پڑے گا۔۔”
“اور اگر پھر بھی نہیں لگا تو؟”
“تو آہستہ آہستہ لگ جائے گا” وہ مسکرائی
تبھی شائستہ بیگم اندر آئی۔۔
“اماں۔۔۔کیا بنے گا کھانے میں؟” شائستہ بیگم نے پوچھا
“جو دل کرے بنا لے۔۔وصی ہوتا تو ڈھیر ساری فرمائش کردیتا۔۔پتا نہیں میرا بچہ کیا کر رہا ہوگا” ریا بیگم کو فکر ہوئی
“اماں آپ نے پھر بھیجا ہی کیوں۔۔دل تو لگنا نہیں آپ کا اب۔۔” شائستہ بیگم نے ہنس کر کہا
“ہاں جس کو اتنے لاڈ پیار سے رکھا اب وہاں اکیلا بھیج دیا۔۔وہاں یہاں جیسی بات نہیں ہوگی۔۔سختی میں رکھتے ہیں۔۔
سخت سے سخت ٹریننگ ہوگی۔۔” انہوں نے بتایا
“ہاں لیکن وہاں سے اس کا مستقبل بھی سنور جائے گا۔” فاروق صاحب اندر داخل ہوئے
“وہاں لوگ جاتے ہیں کچھ بن کر نکلتے ہیں۔۔
بہتر لوگ جاتے ہیں اور بہترین بن کر نکلتے ہیں” فاروق صاحب نے کہا
“نانا ابا اگر اسے پتا چل گیا آپ نے دھوکے سے بھیجا ہے تو؟” حور نے کہا
“اس کا انتظام کردیا میں نے۔۔میجر سے بات ہوگئی میری وہ بھاگے گا۔۔تو بھاگنے نہیں دیں گے۔۔نکلنا چاہے گا تو نکلنے نہیں دینا اسے” فاروق صاحب نے ہنس کر کہا
“انہیں کہنا زیادہ سختی نہیں کریں میرے وصی پر” ثریا بیگم نے کہا۔۔
“سختی ہی کیڈیٹ کو قابل بناتی ہے۔۔ آہستہ انہیں عادت ہوجاتی سختی کی، رولز کے مطابق زندگی بسر کرنے کی”
فاروق صاحب نے کہا
“اور وصی نے اگر کوئی شرارت کی تو” شائستہ بیگم نے بے ساختہ پوچھا
“تو سزا بھی ملے گی۔۔تبھی تو سدھرے گا” فاروق صاحب نے کہا اور سب ان کی بات پر ہنسنے لگے۔۔
“اٹھ جا یار میس چلتے ہیں۔۔” شان نے کہا۔۔
“ہاں چل۔۔” وہ اٹھ کر اس کے ساتھ ہولیا۔۔
دونوں یونیفارم میں میس کی جانب بڑھ گئے۔۔
وہاں پہنچ کر دونوں خالی ٹیبل دیکھ بیٹھ گئے۔۔
ارادہ کھانا کھانے کا تھا۔۔
وہ دونوں بیٹھے ہی تھے۔۔
پیچھے سے کرخت آواز پر اچھل پڑے۔۔
“ہے۔۔بوئیز اسٹینڈ اپ” سنتے ہی وہ لوگ کھڑے ہوئے اور مڑ کر دیکھا۔۔
دو سینئر کیڈٹس ان کے قریب آئے۔۔
جن میں ایک شفی تھا۔۔
“یس سر۔۔” شان نے کہا۔۔
“پیچھے ہم بیٹھے تھے۔۔اور اور جہاں سینئرز بیٹھے ہوں اجازت لے کر بیٹھتے ہیں۔۔۔اور تم لوگوں نے سلام تک نہیں کیا ” شفی نے سخت لہجے میں کہا
“سوری سر۔۔۔” شان نے یک دم معافی مانگی
“چلو سلام کرو” شفی نے شرارت سے کہا۔۔
“اسلام علیکم سر” شان نے فوراً سے سلام کیا
“تمہیں الگ سے بولنا پڑے گا؟” شفی اب وصی سے مخاطب تھا۔۔
وصی اس کی بات پر تپا۔۔مگر ابھی اس کا وقت نہیں تھا۔۔
اس لیے خاموش رہا۔۔
“اسلام علیکم سر” وصی نے سلام کرنے عافیت جانی
“کیا۔۔مجھے آواز نہیں آئی۔۔پھر کرو” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“اسلام علیکم سر” وصی نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔۔
“بی کیئرفل فور دا نیکسٹ ٹائم۔۔۔” شفی نے کہا۔۔
اور آگے بڑھ گیا۔۔
“تیرا بھائی ہے نا یہ شفی؟” ساتھ چلتا احمد شفی سے مخاطب تھا
“ہاں۔۔۔” شفی نے جواب دیا۔۔
“تبھی تو ٹانگ کھینچ رہا اس کی” احمد نے کہا
“ہاں۔۔۔ابھی تو آیا ہے اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔” شفی نے کہا
“یہاں اور سینئرز اور آفیسرز کم۔ہیں سزا دینے کے لیے جو تو بھی ان معصوموں کے پیچھے پڑ گیا” احمد نے کہا
“معصوم نہیں ہے یہ بہت ٹانگ کھینچتا ہے میری۔۔۔اب موقع ملا ہے سارے بدلے لینے کا” شفی نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔۔
وہ وہ کھانے سے فارغ ہوکر برتن دھونے لگی۔۔
مگر اس کا دھیان وصی میں ہی اٹکا تھا۔۔
اس کی باتیں اس کے دماغ میں گھوم رہی تھی۔۔
وہ کام سے فارغ ہوکر کمرے میں گئی۔۔
نیند اس کی آنکھوں سے دور تھی۔۔
وہ بیڈ پر بیٹھی اور ناول پڑھنے لگی۔۔
مگر آج پہلی بار ایسا ہوا کہ اسے ناول پڑھنے میں اکتاہٹ ہوئی۔۔
تنگ آکر اس نے سائیڈ پر رکھی اور سونے کی غرض سے لیٹ گئی۔۔
“وصی۔۔سچ میں مجھ سے؟” وہ الجھی۔۔
“ہم تو صرف دوست تھے۔۔پھر وصی نے ایسے کیوں کہا؟” وہ سوچنے لگی۔۔
” وصی یہ کس کشمکش میں ڈال دیا مجھے” اس نے سوچا
پھر سائیڈ سے فون اٹھایا اور وصی کا نمبر ڈائل کیا۔۔
مگر مسلسل آف جارہا تھا۔۔
“ایک تو غصہ بھی بہت ہے اس میں” نور بڑبڑائی۔۔
اور پھر سے لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگے۔۔
“یہاں کافی ٹھنڈ بڑھ گئی ۔۔۔۔شان نے کہا۔۔
“اس شفی کے بچے کو تو میں دیکھ لوں گا” وصی بڑبڑاتے ہوئے لیٹ گیا۔۔
“وہ بس اپنی ڈیوٹی کر رہا ہے۔۔۔خوامخواہ کر بغض مت پال دل میں۔۔۔” شان نے لیٹتے ہوئے کہا۔۔ اور اپنے اوپر کمبل اوڑھا۔۔
“ایک ایک بدلہ لوں گا اس سے تو میں ” اس نے چبا کر کہا۔۔
“کیا ہوگیا یار بھائی ہے تیرا” شان نے کہا
“تو لے لے اس کو۔۔۔فری میں دوں گا” وصی نے یک دم جواب دیا
اور وہ ہنسنے لگا۔۔
“میں تو سو رہا ہوں۔۔لائٹ آف کر کے سونا۔۔۔ٹائم آؤٹ کے بعد لائٹ آف رہی تو نا تیری خیر نا میری” شان نے کہ کر کروٹ لی۔۔
اور اس کے دماغ کی بتی جلی۔۔
“ددا میں بھی آپ کا پوتا ہوں دیکھنا یہ لوگ خود نکال باہر کریں گے مجھے۔۔۔” وصی نے دل میں کہا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں شان گہری نیند سوچکا تھا۔۔
مگر وہ جاگ رہا تھا۔۔نیند اس کی آنکھوں سے کوسو دور تھی۔۔
یک دم تیز تیز دروازہ بجنے لگا۔۔۔
وہ چونکا۔۔
شان کو گہری نیند سورہا تھا آواز سے چونک کر اٹھا۔۔
ان کے ساتھ دو روم میٹ بھی جو تقریباً سو چکے تھے۔۔
وہ بھی چونک کر اٹھے۔۔
“اوپن دا ڈور۔۔۔یو ایڈیٹس” باہر سے گرجنے کی آواز آئی۔۔
شان یک دم اٹھ کر روازہ کھولا۔۔
وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
“ٹائم آؤٹ کے بعد بھی لائٹ کیوں آن ہے؟” ایک سینئر کیڈٹ نے غصہ سے اندر اکر کہا
سر وہ۔۔۔سوری سر۔۔” شان کو وصی پر بے حد عصہ آیا۔۔
“ایسی پنشمنٹ ملے گی نا آج نیکسٹ ٹائم رول کو نہیں توڑو گے” وہ دھاڑا
“سوری۔۔سوری سر” شان نے پھر کہا
جبکہ وصی مزے سے کھڑا تھا۔۔
وہ ان چاروں کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہا تھا
” ناؤ فالو می۔۔۔۔” وہ کہتا باہر نکل گیا۔۔
اور وہ لوگ اس کے پیچھے بڑھ گئے۔۔
“سر۔۔۔” وصی نے پکارا۔۔
“وہ رک کر اسے دیکھنے لگا۔۔
“میں کوئی بھی پنشمنٹ نہیں پوری کروں گا آپ لوگ مجھے نکال دیں” وصی نے مزے سے کہا۔۔
“واٹ۔۔۔” وہ چونکا۔۔
تھوڑے فاصلےپر کھڑے میجر صاحب کسی کیڈیٹ سے بات کرنے میں مصروف تھے۔۔
وہ بھاگتا ہوا ان کے پاس گیا۔۔اور ان کی طرف اشارہ کرتے کچھ بتانے لگا۔۔
ان تینوں کے چہروں پر گھبراہٹ تھی مگر وصی اسی طرح مزے سے کھڑا تھا۔۔
وہ سینئر کیڈیٹ میجر کے ساتھ چلتا ان کے قریب آرہا تھا۔۔
“وصی اب کیا ہوگا؟” شان بڑبڑایا
“جو ہونا ہوگا میرے ساتھ ہوگا۔۔تو کیوں ڈررہاہے؟” وصی نے کہا
“تیرا دوست ہوں تیری فکر ہے مجھے۔۔”شان نےفکر سےکہا
“میری فکر مجھے نہیں تو تجھے کیوں ہورہی ہے؟” وصی نے اکتا کر کہا
“اسلام علیکم سر” باری باری سب نے میجر کو دیکھ سلام کیا
“سر آپ مجھے نکال دے دیں میں یہاں نہیں رہنا چاہتا” وصی نے جلدی سے کہا
“جانا چاہتے ہو؟ چلے جانا۔۔” میجر نے سنجیدگی سے کہا
“پہلے سزا کے لیے تیار ہوجاؤ” انہوں نے کہتے ہی پاس کھڑے سینئر کو اشارہ کہا۔۔
“انہیں لے جاؤ۔۔۔اور پوری رات پانی میں کھڑا رکھو تاکہ نیکسٹ ٹائم رول فالو کریں۔۔۔” میجر صاحب نے ایک سیکنڈ میں چاروں کے ہوش اڑائے۔۔۔
وہ چاروں پانی میں آدھے ڈوبے کھڑے تھے۔۔
سردی بھی کافی تھی۔۔ٹھنڈ میں وہ چاروں ٹھٹر رہے تھے۔۔
اوراب تو حالت ایسی ہوگئی تھی کہ ان لوگوں کے دانت بجنے لگے۔۔
سردی کہ رہی ہو جیسے جنتی آج پڑنی ہے اتنی کبھی نہیں۔۔
وہ چاروں ٹھنڈے پانی میں کھڑے کانپ رہے تھے۔۔
“پتا نہیں میں فوج میں کیوں آگیا؟” ان میں سے ایک بڑبڑایا۔۔
اور اس کی بات پر وصی کی ہنسی نکلی۔۔
“ہنس مت سالے تیری وجہ سے ہوا ہے سب” شان نے غصہ سے وصی کو گھورا۔۔
“میں نے اپنا کہا تھا تم لوگوں کا کیا بگاڑ دیا میں نے؟” وصی نے کہا
“تونے لائٹ کیوں نہیں آف کی؟” شان نے غصہ سے پوچھا۔۔
“تونے ہی کہا تھا کہ کچھ ایسا کر تجھے یہاں سے خود نکال دیں یہ لوگ” وصی نے یاد دلایا
“اچھا تو تجھے یہی سوجی تھی۔۔اس میں تو اکیلا نہیں ہم سب پھنسے ہیں” شان نے کہا
“اور چل مجھے تو تیرے ساتھ دوستی کی سزا مل رہی ہے۔۔۔ان بیچاروں کا کیا قصور ہے؟” شان تلخی سے کہنے لگا۔۔
اور وصی کا قہقہہ گونجا۔۔
“ہنس لے بیٹا۔۔۔یہاں سردی میں حالت ٹائٹ ہوگئی۔۔۔” شان نے ناگواری سے کہا
“دیکھ۔۔۔سردی اور بے عزتی جتنی فیل کرے گا۔۔اتنی لگے گی” وصی نے شرارت سے کہا
“بے عزتی فیل کرنا تو اسی وقت چھوڑ دی تھی جب تجھ سے دوستی کی تھی” شان نے ناگواری سے کہا۔۔
“کم ہیئر بوئیز۔۔۔” تبھی وہاں میجر صاحب آئے۔۔
“یس سر” وہ لوگ جلدی سے باہر نکلے اور سیدھے کھڑے ہوئے۔۔
“یہ لاسٹ ٹائم تھا۔۔۔نیکسٹ ٹائم کوئی بھی رول توڑا تو سزا کے لیے تیار رہنا جو اس بھی بڑی ہوگی” میجر صاحب نے کرخت لہجے میں کہا۔۔
“ناؤ گو۔۔۔” انہوں نے سخت لہجے میں کہا
اس وقت فجر کا وقت ہونے میں ایک گھنٹہ تھا۔۔
وہ لوگ سردی سے کانپ رہے تھے۔۔
جب کمرے میں آئے۔۔
“فجر تو ہونے ہی والی ہے۔۔۔پوری رات۔۔۔اچھو۔۔۔” شان کو چھینک آئی۔۔
اور وصی کا قہقہ گونجا۔۔
“ہنس لے بیٹا اللہ پوچھے گا تجھے” شان نے رومال سے ناک صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
اسے سردی لگ چکی تھی۔۔۔
لگ تو وصی کو بھی رہی تھی۔۔ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔۔
رات بھی وہ لوگ ٹھیک سے نہیں سوئے تھے اور پورے دن سے تھکا دینے والی ٹریننگ۔۔۔
ان سب کی حالت خراب ہوگئی تھی۔۔
بھاگ بھاگ کر اب تو ان کے پاؤں درد کر رہے تھے۔۔
وہ لوگ کھانے کی غرض سے میس پہنچے۔۔
اور جا کر ٹیبل پر بیٹھ گئے۔۔
“تو دیکھنا میری تو میت نکلے گی اس اکیڈمی سے۔۔۔زندہ تو یہ چھوڑیں گے نہیں مجھے” شان نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا
“اتنا ہی ڈر تھا تو آرمی کیوں جوئن کی تو نے۔۔” وصی نے کہا۔۔
“دماغ خراب ہوگیا تھا میرا۔۔۔” شان نے کہا۔۔
اور وصی کا قہقہ نکلا۔۔
“ہے یو۔۔۔” کرخت آواز پر وہ دونوں چونکے۔۔
سامنے ہی شفی کھڑا تھا۔۔۔
وصی کے چہرے پر ناگواری اتری۔۔
“وائے آر یو لافنگ؟” شفی سخت لہجے میں دھاڑا
“نتھنگ سر۔۔۔” شان اور وصی اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
“سر ہم ہم تو بس کھانا کھانے آئے ہیں” شان نے کہا
“اوہ کھانا کھانا ہے۔۔۔اوکے ناؤ سیٹ ڈاؤن” شفی نے سنجیدگی سے کہا
“لسن۔۔۔ادھر دو پلٹ پائے کا سالن لے آؤ” شفی نے شرارت سے کہا۔۔
“پائے۔۔۔” وصی نام سنتے ہی اچھل پڑا۔
“ہاں کیوں۔۔۔پائے سے کوئی پرابلم ہے تمہیں؟” شفی نے ہنسی دباتے ہوئے سنجیدگی کا لبادہ اوڑھا۔۔
“میں نہیں کھا سکتا” وصی نے کہا
“تم سینئر کی بات ماننے سے انکار کر رہے ہو؟” شفی نےتلخی سے پوچھا۔۔۔
شفی جانتا تھا وصی کو پائے کا سالن پسند نہیں۔۔۔
وہ سب کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔۔
حور بس چمچ ہلا رہی تھی۔۔
پتا نہیں کن سوچوں میں گم تھی۔۔
“کیا ہوا حور؟” ثریا بیگم نے اسے نوٹس کیا
“جی۔۔۔کچھ نہیں۔۔نانو۔۔” حور بوکھلائی
“پھر کھانا ٹھیک سے کیوں نہیں کھا رہی؟” انہوں نے اسے ٹوکا
“کھا رہی ہوں نانو” حور نے کہا اور کھانے لگی۔۔
“یہ کہاں کچھ کھاتی ہے اماں۔۔۔کبھی کبھی تو بغیر ناشتے کے اسکول چلی جاتی ہے” شائستہ بیگم نے کہا
“کھانے کا دھیان رکھا کرو بیٹا” انہوں نے سمجھایا۔۔
“زبردستی کھلایا کرو۔۔کمزور ہوتی جا رہی ہے۔۔۔اور شفی کو دیکھو ماشاءاللہ صحت ہے۔۔” نونو نے کہا
“ہاہاہا جوڑ ہی نہیں بیٹھے گا پھر تو۔۔۔” شائستہ بیگم ہنسی۔۔
“ویسے شفی کی کال وغیرہ آئی؟ ” انہوں نے پوچھا
“ہاں اماں۔۔بتا رہا تھا وصی کا دل نہیں لگ رہا۔۔” شائستہ بیگم نے کہا
“ہاں۔۔میرے بچے کا دل نہیں لگ رہا کبھی دور رہا ہی نہیں۔۔میرا خود دل نہیں لگ رہا اس کے بغیر” نانوں نے اداسی سے کہا۔۔
لگ جائے گا کوئی بچہ تھوڑی رہ گیا اب” فاروق صاحب نے کہا۔۔
“بچہ ہی ہے” ثریا بیگم نے کہا۔۔
“ابا یہ سبزی لیں نا اچھی بنی ہے” شائستہ بیگم نے بات کو ٹالااس سے پہلے کہ ان کا جھگڑا شروع ہوتا۔۔
“بیڑا غرق ہو شفی تیرا” وصی نے پیٹ کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔۔
“ہاہاہا یار تیرا بھائی نہیں لگتا مجھے وہ تیرا دشمن لگتا ہے” شان نے ہنس کر کہا
“تو ہی تعریف کر رہا تھا۔۔۔” اس نے جل کر کہا۔۔
“میں تو اس کو نیک سمجھ رہا تھا۔۔۔” شان نے ہنس کر کہا۔۔
اور وصی کچھ کہنے کے بجائے واش روم بھاگا۔۔
جب سے اس نے زبردستی کھانا کھایا تھا۔۔
بار بار اسے الٹی آنے کو ہورہی تھی۔۔
یہ سزا اسے سب سے زیادہ مہنگی پڑی تھی۔۔
شفی کو معلوم تھا اسے پائے کے سالن سے چڑ ہے۔۔
اور اس نے تو ٹھان ہی رکھی تھی کہ اسے تنگ کرنا ہے بس۔۔
“وصی تو ٹھیک ہے؟” شان نے کہا۔۔
اسے الٹی کرتا دیکھ شان نے پوچھا۔۔
وہ پیٹ پر ہاتھ رکھے پھر سے باہر آیا۔۔
“اس شفی کو۔۔۔میں۔۔۔نہیں چھوڑوں گا” وصی نے بمشکل کہا
“وصی تو ٹھیک ہے؟” شان نے پھر پوچھا۔۔
“ٹھیک رہنے لائق اس نے چھوڑا کہاں ہے مجھے۔۔۔” وصی کہتے ساتھ بیڈ پر لیٹا۔۔
اور شان کا قہقہہ نمودار ہوا۔۔۔
“ہنس لے۔۔۔بیٹا تیرا اور شفی کا وقت ہے سود سمیت بدلہ لوں گا” وصی نے کہا
“یہ لے پانی پی” شان نے پانی بڑھایا اس کی طرف۔۔
جسے اس نے غٹاغٹ پی لیا۔۔تو تھوڑا سکون ملا۔۔
“میں نہیں رہوں گا یہاں۔۔۔ میں بھاگ جاؤں گا” وصی نے کہا۔۔
“فلحال تو تو آرام کر” شان نے کہا اور لائٹ آف کردی۔۔
اس بار وہ ٹائم آوٹ کے بعد لائٹ آن کر کے رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔