مولوی عبدالاحد شمشاد لکھنوی کے بارے میں ہم بہت کم جانتے ہیں، یا یوں کہیں کہ میں بہت کم جانتا ہوں۔ ان کا نام پہلی بار میں نے شاید حضرت شاہ عبد العلیم آسی سکندر پوری (1834 تا1917) کے شاگرد رشید کی حیثیت سے سنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی شاعرانہ نسبت بہت قوی تھی۔ آسی سکندر پوری کے استاد شاہ غلام اعظم افضل الٰہ آباد ی (1810تا1858) ناسخ کے ارشد شاگردوں میں تھے۔
اس طرح شمشاد لکھنوی دو داسطوں سے ناسخ کے شاگرد تھے۔ لیکن شمشاد لکھنوی کا کلا م میری دسترس میں نہ تھا۔ کئی سال بعد مجھے شمس الدین فقیر کی “حدائق البلاغت”کا ایک نسخہ حاصل ہوا جس پر شمشاد لکھنوی کے نہایت عالمانہ حاشیے”نہر الافاضۃ” نام سے تھے۔ “حدائق البلاغت” مع”نہر الافاضۃ” کا جو نسخہ مجھے ملا وہ مفید عام پریس لکھنؤ سے1913میں چھپا تھا۔
“حدائق البلاغت” (سال تصنیف 1754/1755) کی بات نکلی ہے تو یہ بھی عرض کر دوں کہ اس کتاب کے جتنے نسخے میرے پاس ہیں، سب کی کچھ نہ کچھ خصوصیت ہے۔ سب سے پرانا نسخہ نستعلیق ٹائپ میں کولکاتا سے1813 میں چھپا تھا۔ پہلا صفحہ نہ ہونے کی وجہ سے پریس کا نام نہیں معلوم، لیکن نستعلیق ٹائپ کی کچھ اور کتابیں میں نے فورٹ ولیم کالج کی چھپی ہوئی میں نے دیکھی ہیں۔ اس کتاب کا ٹائپ بالکل ویسا ہی ہے۔ لہٰذا یہ نسخہ وہیں کا مطبوعہ ہو گا۔ دوسرا نسخہ نول کشور پریس پٹیالہ کا مطبوعہ ہے۔ نول کشور پریس پٹیالہ کی کتابیں بہت کم یاب ہیں۔ افسوس کہ اس نسخے پر تاریخ نہیں ہے۔ تیسرا نسخہ امام بخش صہبائی کا اردو ترجمہ ہے۔ صہبائی نے اپنا ترجمہ (بلکہ تالیف، کیونکہ انھوں نے عربی فارسی کے بجائے اردو اشعار کی مثالیں درج کی ہیں اور متن کی پابندی ہر جگہ نہیں کی ہے) 1844میں مکمل کیا۔ میرے پاس جو نسخہ ہے وہ نول کشور پریس کانپور کا مطبوعہ ہے (1915)۔ آخری بات اطلاعاً عرض ہے کہ ہندوستان میں علم بدیع و بیان پر جتنی کتابیں فارسی میں لکھی گئیں، ان میں شمس الدین فقیر کی “حدائق البلاغت” شاید سب سے زیادہ مستند ہے۔
شمشاد لکھنوی کا دیوان کب میرے ہاتھ آیا، یہ مجھے یاد نہیں کیونکہ میں نے اس پر اپنے دستخط تو کیے لیکن تاریخ کہیں نہیں درج کی۔ جیسا کہ میرا اندازہ تھا، شمشاد لکھنوی کا کلام نہایت پختہ اور شگفتہ ہے۔ ان کا دیوان ہاتھ آنے کے پہلے مجھے ان کے بارے میں صرف اتنا اور معلوم تھا کہ وہ مدرسۂ چشمۂ رحمت غازی پور میں مدت دراز تک صدر مدرس رہے اور 1917 میں شاید وہیں مرے اور وہیں مدفون ہیں۔ ان کے دیوان “خزانۂ خیال” سے تاریخ1304بر آمد ہوتی ہے۔ اس پر تاریخ اشاعت جولائی1887 درج ہے۔ یہ دیوان محمد نثارحسین نثار جو مشہور رسالے “پیام یار” کے مدیر تھے، ان کے اہتمام سے قومی پریس لکھنؤ میں چھپا تھا۔ اگر شمشاد لکھنوی نے کوئی اور دیوان چھوڑا تو مجھے اس کی خبر نہیں۔
دیوان شمشاد لکھنوی میں کثرت سے تاریخیں درج ہیں۔ ان میں سے بہت سی خود شمشاد لکھنوی نے کہی ہیں۔ ان تاریخوں اور کچھ تقاریظ سے شمشاد کی مہارت تاریخ گوئی کے علاوہ خود ان کی زندگی کے بارے میں کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ شمشاد لکھنوی فرنگی محلی تھے، وہ اپنے باپ مولوی محمد عبد الحلیم فرنگی محلی کے دوسرے بیٹے تھے۔ پہلے وہ قلق (غالباًآفتاب الدولہ قلق لکھنوی، وفات 1879) کے شاگرد تھے۔ بعد میں انھوں نے حضرت آسی سے سلسلۂ تلمذ باندھا اور یقین ہے کہ آخر تک انھیں کے شاگرد رہے۔ دیوان میں مندرج تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شمشاد1282مطابق1865میں غازی پور آئے اور 1874میں ان کی شادی ہوئی۔ اس سے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ1850کے آس پاس پیدا ہوئے ہوں گے کیونکہ ان کے قطعۂ تاریخ آمد غازی پور سے کچھ اشارہ ملتا ہے کہ وہ تعلیم کی غرض سے غازی پور آئے تھے۔ یہ بات بھی لائق ذکر ہے کہ ظہیرا حسن شوق نیموی عظیم آبادی (1863تا1904) جو اپنے وقت کے جید عربی فارسی کے استاد اور علم حدیث و تفسیر میں بھی ماہر تھے، شمشاد لکھنوی کے شاگرد تھے۔ ان کی کچھ تقریباً نایاب اگرچہ مختصر کتابیں، “اصلاح مع ایضاح” اور “ازاحۃ الاغلاط” میرے پاس ہیں۔ تینوں لغت اور لسان اور علم شعر سے متعلق ہیں۔ اول الذکر کو یو۔ پی۔ اردو اکیڈمی نے شائع کر دیا تھا لیکن اب وہ بھی کمیاب ہے۔
شمشاد لکھنوی کا کلام میری حسب توقع ناسخ کے رنگ خیال بندی (یعنی تجریدی اور دور کے مضامین باندھنا) کی اچھی مثال نکلا۔ لیکن شمشاد کی شاعری میں ایک بات ایسی ہے جو انھیں اپنے معاصروں میں ممتاز کرتی ہے۔ یعنی ان کے یہاں مومن کی سی نازک خیالی بھی ہے۔ یعنی مومن کی طرح ان کے یہاں بھی اکثر مضامین بالکل معمولی ہیں اور محدود ہیں لیکن وہ انھیں ہر بار کسی نہ کسی تازہ انداز سے یا نئے لہجے میں باندھتے ہیں۔ مومن کے مضامین کی فہرست بنائیے تو بس وعدہ خلافی، آہ، ضبط آہ، وصال کی تمنا، رشک، اغیار کی شکایت، اس طرح کے نہایت رسمی مضامین نکلیں گے۔ لیکن ہر شعر پھر بھی دلکش اور تازہ معلوم ہوتا ہے۔ در اصل یہی نازک خیالی ہے۔ اس کا کچھ زیادہ تعلق خیال بندی سے نہیں ہے، لیکن خیال بند شعرا کو نازک خیالی سے بھی طوع و رغبت ہوتی ہے۔ غالب نے اسی لیے مومن کو معنی آفریں کہا تھا۔
غزلیات
شمشاد لکھنوی
انتخاب و شرح: شمس الرحمٰن فاروقی
(1)
جوہر تیغ ادا شمشیر آہن میں نہ تھا
زہر جو چوٹی میں تھا ہرگز وہ ناگن میں نہ تھا
وہ جو بہر فاتحہ آیا قیامت آ گئی
ایک مردہ چین سے دیکھا تو مدفن میں نہ تھا
٭
دیکھنا شاید کہ میرا دل ہو وہ اے چارہ گر
نقطۂ خوں بستہ اک طرف خط سوزن میں تھا
کیوں مرے زخم جگر سینے میں گتھی پڑ گئی
رشتۂ جان عدو کیا رشتۂ سوزن میں تھا
کیا قیامت تھا یہ رخنہ سینے کا اے چارہ گر
آفتاب حشر مثل ذرہ اس روزن میں تھا
افسر عالم جو سر تھا اس کو کاٹا بے دھڑک
کیا فلک کا نفس ناطق شمر ذی الجوشن میں تھا
شعر 1:طرف خط سوزن =سوئی کی سرا، یعنی اس کی نوک۔ دل کو سوئی کی نوک کے ایک طرف ٹکا ہوا ایک قطرۂ خوں بستہ کہنا نہایت نادر بات ہے، اور یہ بھی کہ چارہ گر تو زخم دل کو سینے کے لیے آیا تھا لیکن زخم کی سلائی میں دل ہی نکل گیا۔ نقطہ اور خط میں ضلع کا لطف ہے۔
شعر2:رشتۂ جان عدو اور رشتۂ سوزن کیا خوب ہے۔ زخم اور سینے میں ضلع کا لطف بھی ہے۔
شعر 3:افسر اور سر کی رعایت ظاہر ہے۔ افسر کے مجازی معنی بھی” سر”ہیں۔
شعر4:رخنہ اور سینے میں ضلع کا لطف ہے۔ ناسخ کا یہ مطلع بھی ذہن میں لائیے ؎
مرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
شمشاد نے ناسخ کے مضمون کو بلند تر کر دیا کہ میرے سینے کے چاک (روزن، اور روزن میں ذرہ ہوتا ہی ہے) کا ایک ذرہ آفتاب صبح محشر تھا۔
شعر 5۔ شمر لعین کے باطن میں فلک کے نفس ناطق کا ہونا غیر معمولی بات ہے اور بڑی جرأت کی بات ہے۔ آج کوئی شاعر ایسی ہمت نہیں کر سکتا۔ قافیہ نہایت نادر ہے۔
(2)
تو ہی کھولے جسے ایسی گرہ دل دینا
اے مرے عقدہ کشا عقدۂ مشکل دینا
رات دن تازگی زخم غم دل دینا
کشت زار ہوس درد میں حاصل دینا
اے فلک خوب اگیں دانۂ زنجیر جنوں
کشت امید میں آب چہ بابل دینا
کس سے سیکھے ہو مری جان چرا کر آنکھیں
زخم شمشیر نگہ بر سر غافل دینا
یہ غزل شاہ آسی کی مشہور زمین میں ہے۔ دو شعر ان کے سنئے ؎
تاب دیدار جو لائے مجھے وہ دل دینا
منھ قیامت میں دکھا سکنے کے قابل دینا
ذوق میں صورت موج آ کے فنا ہو جاؤں
کوئی بوسہ تو بھلا اے لب ساحل دینا
مطلع :استاد کے مطلعے میں کیفیت زیادہ ہے لیکن شاگرد کا مطلع خیال بندی اور نازک خیالی دونوں کا شاہکار ہے۔ دل کو گرہ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
شعر 3۔ ایک رقاصہ زہرہ کے عشق میں دو فرشتے دیوانے ہو گئے تھے۔ بطور سزا ے الٰہی انھیں چاہ بابل میں الٹا لٹکا دیا گیا۔
(3)
کیا ہوا تجھ سے جو گل بلبل نالاں چھوٹا
جائے عبرت تو یہ ہے گل سے گلستاں چھوٹا
تو وہ قحبہ ہے جو آغوش میں تیرے آیا
تا قیامت نہ پھر اے گور غریباں چھوٹا
شعر 2۔ قبر کو آغوش قحبہ سے تشبیہ دینا بہت بدیعی بات ہے۔ اس بات کا پورا ثبوت بھی ہے کہ قبر کی آغوش سے کوئی نکلتا نہیں، کیونکہ بات گور غریباں، یعنی بے گھر اور اجنبی لوگوں کی قبر کی ہے۔ انھیں بھلا کون قبر سے نکال کر ان کے وطن لے جانے کی زحمت کرے گا۔
(4)
اس سمت سے گذر ہو جو اس شہسوار کا
تعظیم دے غبار ہمارے مزار کا
پھیلا جنوں میں جامۂ ہستی کی سمت ہاتھ
ممنون کب ہوں جیب و گریباں کے تار کا
قاصد تڑپ کے ہاتھ سے نامہ نکل نہ جائے
لکھا ہے اس میں حال دل بے قرار کا
سبزے کے بدلے تیغ دو دم قبر سے اگے
کشتہ ہوں میں جٹے ہوئے ابروئے یار کا
(5)
دیکھئے دل کی کشش سے وہ ادھر آتے ہیں آج
یا ہمیں گھبرا کے اس جانب چلے جاتے ہیں آج
جان دے کراب لحد میں کیوں نہ پچھتانا پڑے
حشر پر موقوف اٹھنا اور وہ آتے ہیں آج
کیا کسی کی آتش فرقت بجھانی ہے انھیں
سردئی اپنا دوپٹہ کیوں وہ رنگواتے ہیں آج
چھین کر آدم سے جنت کیا ملا تھا کل انھیں
اپنے کوچے سے جو ہم کو بھی نکلواتے ہیں آج
شعر 2:آتے ہیں آج=وہ آج آنے والے ہیں۔
شعر 3:سردئی=سبزی مائل زرد۔ آتش اور سردئی کی رعایت بھی پر لطف ہے۔ قافیہ بھی نادر ہے۔
شعر4:اس شعر کی شوخی حیرت انگیز ہے۔
(6)
شیخ کو عقبیٰ کی خواہش رند کو دنیا پسند
مرد کامل ہے وہی جس کو ہوں دونوں ناپسند
اے برہمن آب و آتش میں بتا کیا ربط ہے
بعد مردن کیوں کیا سوز لب دریا پسند
دل کو کیا بھائے مرقع مانی و بہزاد کا
ہم ہیں شاعر ہم کو ہوتے ہیں بت گویا پسند
سوز=جلنا۔
(7)
کیا خوش نما ہے دل سے ترے غم کی چھیڑ چھاڑ
کیا لطف دے رہی ہے یہ باہم کی چھیڑ چھاڑ
اس کی گلی میں کیوں نہ ستائے مجھے رقیب
شیطان سے نہ جائے گی آدم کی چھیڑ چھاڑ
(8)
خدا سے مانگتا اک دوسرا دل
جو ملتا بے غرض بے مدعا دل
اڑاتا خوب سوداے ہوس میں
جو کچھ پاتا بھی نقد مدعا دل
وفور بے خودی سے وصل کی شب
تمھیں مطلق نہیں پہچانتا دل
نشان کوے دلبر سن لے قاصد
پڑے ہیں اس گلی میں جا بجا دل
خدائی کا اگر کرنا ہے دعویٰ
بتوں کو چاہیئے حاجت روا دل
(9)
کفر ہم ایمان ہم تسبیح ہم زنار ہم
پردۂ اسرار رمز و پردۂ اسرار ہم
آج نوک خار غربت آبلوں کے منھ میں ہے
وہ بھی دن ہوں گے کہ چوسیں گے زبان یار ہم
اس کے ہوتے سوئے طفل برہمن کیوں دیکھتے
کیا رگ جاں سے ملا تے رشتۂ زنار ہم
کیا عجب دم میں فنا ہو صورت قصر حباب
چرخ کو بھی دیکھتے ہیں بے درو دیوار ہم
شعر4۔ حباب کو قصر کہنا اور آسمان کو بھی حباب ٹھہرانا خیال بند شاعر ہی سے ممکن تھا۔ محل کو قصر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں داخلہ ممنوع یا مشکل ہوتا ہے۔ بلبلے میں داخلہ غیر ممکن ہے۔
(10)
قطرہ تو سمندر میں ہے میں کس میں نہاں ہوں
کھلتا ہی نہیں بھید کہ میں کیا ہوں کہاں ہوں
عالم ہے اگر نام تری جلوہ گری کا
کیا عیب جو میں شیفتۂ طرز جہاں ہوں
در اصل نہیں مجھ میں کوئی اور نمائش
ہاں ذرہ صفت مہر درخشاں سے عیاں ہوں
میر کی غزل آپ کے ذہن میں ہو تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میر کے یہاں بھی خیال بندی کی جھلک مل جاتی ہے، لیکن میر کے یہاں معنی زیادہ ہیں، اور زور بھی بہت وافر ہے ؎
(11)
میں کون ہوں اے ہم نفساں سوختہ جاں ہوں
اک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں
(12)
ہیں نہیں سادے ہمیں تو ان کے گھر جاتے ہیں کیوں
اور اگر جاتے ہیں تو دل دے کے پچھتاتے ہیں کیوں
بال و پر بیضے میں کب ممکن ہیں طائر کے لئے
زیر گردوں ہم پئے شہرت مرے جاتے ہیں کیوں
جب کہ یاران کہن ہیں باعث آرام روح
پھر تپ کہنہ سے اکثر لوگ مر جاتے ہیں کیوں
شعر 2۔ زیر فلک تنگی کا مضمون فارسی اور اردو کے خیال بند شعرا نے باندھا ہے۔ لیکن زمین آسمان کو ملا کر ایک بیضہ کہنا، اور پھر اس مضمون کو اس طرف لے جانا کہ طائر جب تک بیضے میں ہوتا ہے اس کے بال و پر نہیں ہوتے، نہایت لطیف بات ہے۔ پھر شہرت کا ذکر کر کے بات اور بھی عمدہ کر دی کیونکہ شہرت پر لگا کر اڑتی ہے، یہ مشہور روز مرہ ہے۔
(13)
ہے جو دانا عاشق زلف پری پیکر نہ ہو
دیدہ و دانستہ اے دل طعمۂ اژدر نہ ہو
بار ہیں عکس رگ سنبل کی مجھ پر بیڑیاں
زلف کے سودے میں اس درجہ کوئی لاغر نہ ہو
ابروئے قاتل کا نقشہ کھینچنا ممکن نہیں
مو قلم میں صرف جب تار دم خنجر نہ ہو
مطلع۔ دانا اور طعمہ کا ضلع خوب ہے۔
شعر 3۔ دم خنجر =خنجر کی دھار۔ اور جب دھار ہے تو تار بھی ہو گا (جیسے پانی کی دھار، اور خنجر میں آب= چمک، تیزی بھی ہوتی ہے۔ ) خیال بندی ہو تو ایسی ہو۔
(14)
شرح لکھی ہے جو خط نے صفحۂ رخسار پر
مصرع برجستۂ کاکل مگر پیچیدہ ہے
اشک بے تاثیر سے کھلتا نہیں مضمون عشق
صفحۂ چشم بو الہوس کاغذ نم دیدہ ہے
تو اگر ہے سرو موزوں میں ہوں شمشاد رواں
تیرے مصرعے پر میرا مصرع بہت چسپیدہ ہے
یہ غزل بھی آسی سکندر پوری کی ایک بے حد مشہور زمین میں ہے۔ دو شعر آپ بھی ملاحظہ کریں ؎
وصل ہے پر دل میں اب تک ذوق غم پیچیدہ ہے
بلبلہ ہے عین دریا میں مگر نم دیدہ ہے
بے حجابی وہ کہ ہر شے میں ہے جلوہ آشکار
گھونگھٹ اس پر یہ کہ صورت آج تک نادیدہ ہے
استاد کی غزل خیال بندی میں تصوف کا طرز نبھانے کے لحاظ سے ایک معجزے کا حکم رکھتی ہے، اور پھر سب شعر بھر پور مع ثبوت ہیں۔ شمشاد وہاں تک کہاں پہنچتے، لیکن پھر بھی دوسرا شعر بہت خوب کہا۔ مقطع میں یہ حسن ہے کہ سرو کی طرح شمشاد کو بھی قد معشوق سے تشبیہ دیتے ہیں اور سرو رواں کی طرح شمشاد رواں بھی مستعمل ہے اور سرو اور شمشاد کو معشوق کے قد سے مناسبت ہونے کی وجہ سے انھیں بھی موزوں کہتے ہیں، کیوں کہ موزوں ہونا قد کی صفت ہے۔ علاوہ بریں، روانی شعر کی ایک بہت بڑی صفت بھی ہے۔
(15)
اے گل نو خیز تجھ سے اوس سب پر پڑ گئی
نو عروسان گلستاں پر بہار آنے کو تھی
شیخ جی اب کیا پئیں ہو گئی جب مہنگی شراب
پیتے تھے وہ خم کے خم جب تین چار آنے کو تھی
کچھ وہ سمجھے دل میں کچھ ہم بات یوں ہی رہ گئی
ورنہ کیا کیا گفتگو روز شمار آنے کو تھی
شعر 2۔ قافیہ اور مضمون، دونوں کی شوخی کمال کی ہیں۔
(16)
تصور کھینچتا ہے جو ہمارے دل کے صفحے پر
نہ وہ تصویر عکسی ہے نہ وہ تصویر دستی ہے
نہیں وہ دیکھ سکتے مفلسوں کو اپنی حالت پر
خداوندان نعمت کی یہ کیا کم سرپرستی ہے
تصویر عکسی=فوٹوگراف، تصویر دستی= جو تصویر مصور نے بنائی ہو۔
شعر2۔ “اپنی حالت” سے مراد “اپنی جیسی تونگری کی حالت”۔ خوب بات نکالی۔
(17)
مجھے جیسے عشق کمر ہو گیا ہے
مرا جسم تار نظر ہو گیا ہے
جو موہوم وہ ہے تو معدوم یہ بھی
تن لاغر ان کی کمر ہو گیا ہے
مرے طفل اشک آج کیوں مضمحل ہیں
کسی کی نظر کا اثر ہو گیا ہے
تن زار پر رحم اے سیل گریہ
پرانا یہ مٹی کا گھر ہو گیا ہے
شعر 3۔ اشک یا آنسو کو طفل سے تشبیہ دیتے ہیں کیونکہ مچلنا دونوں کی صفت ہے۔ یہاں یہ لطف ہے کہ طفل اشک بھی آنکھ سے نکلتے ہیں اور نظر بھی آنکھ ہی سے لگتی ہے۔ ممکن ہے اپنی ہی نظر ہو۔
(18)
کبھی ہم شوخی طبع جواں تھے
کبھی ہم حرص پیر ناتواں تھے
کبھی ہم تھے مسیحاے زمانہ
کبھی ہم کشتۂ لعل بتاں تھے
کبھی تھے بادۂ ہستی کی وحدت
کبھی درد خمار این و آں تھے
کبھی تھے آفتاب عالم آرا
کبھی ہم ذرۂ ریگ رواں تھے
کبھی تھے رونق بازار ایجاد
کبھی ہم گنج اسرار نہاں تھے
کبھی تھے دیر میں فریاد ناقوس
کبھی مسجد میں ہم بانگ اذاں تھے
ہماری بھی کبھی بھاتی تھیں باتیں
کبھی مشہور ہم بھی خوش بیاں تھے
کمال کی غزل کہی ہے۔ میں نے اختصار کی غرض سے کئی شعر چھوڑ دیے ہیں۔ انسانی صورت حال کی دو رنگی اور اس کے تلون اور انسان کے باطن میں تضادات کا جوش، یہ سب بے حد قوت اور ساتھ ہی ساتھ محزونی سے بیان ہوئے ہیں۔ اصلی شاعری اور جعلی شاعری کا فرق دیکھنا ہو تو جوش صاحب کی نظم “شاعر کا دل”ملاحظہ کیجئے۔ میں پوری نظم نقل کرتا ہوں۔ پہلا ہی مصرع ایسا ہے گویا مرغا بانگ دے رہا ہوں۔ اور آخری دو شعر ایسے ہیں گویا کوئی پولیس والا کسی لفنگے کو ڈانٹ رہا ہو۔ شمشاد کے ہر شعر میں بات مکمل ہے اور امکانات انسانی کی حامل ہے۔ جوش صاحب کے یہاں صرف بے لطف مبالغہ ہے اور اتنی مختصر نظم میں بھی آخری دو شعر فضول ہیں۔
شاعر کا دل
جوش ملیح آبادی
کبھی دل فخر سے دیتا ہے آواز
کہ اک تنکے سے ہلکا آسماں ہے
کبھی فریاد کرتا ہے کہ مجھ پر
نفس کا ثقل بھی کوہ گراں ہے
کبھی ہر ذرۂ خاکی کا محکوم
کبھی شمس و قمر پر حکمراں ہے
کہیں ہے کامراں ہو کر بھی ناکام
کبھی ناکام ہو کر کامراں ہے
کبھی لطف خداوندی سے مغموم
کبھی جور بتاں سے شادماں ہے
کبھی مژگاں کی جنبش سے کہن سال
کبھی صدیوں کی کاوش سے جواں ہے
سن اے غافل کہ جس دل کے ہیں یہ طور
وہ دل ہم شاعروں کا آشیاں ہے
دماغوں پر کھلیں ہم کیا کہ ہم کو
وہ سمجھے گا جو دل کا راز داں ہے
رباعیات
شمشاد لکھنوی
شمشاد لکھنوی کی اکثر رباعیاں خیال بندی کے عالم سے ہیں، لیکن ان کا کمال ان رباعیوں میں خوب کھلا ہے جہاں انھوں نے معشوق کے عیب کو حسن بنا کر پیش کیا ہے۔
درحسن تعلیل تنگی چشم
اب ذکر تمھارا ہے وظیفہ اپنا
الفت میں ہے کچھ اور طریقہ اپنا
آنکھیں در اصل ہیں چھوٹی چھوٹی
یا شرم سے روکتے ہو غمزہ اپنا
دیگر درحسن تعلیل تنگی چشم
ہے قد سہی کہ نخل گلزار جناں
میوے جنت کے ہیں کہ نار پستاں
تنگ آنکھیں یا نیم شگفتہ نرگس
کلیاں بیلے کی ہیں کہ سلک دنداں
در حسن تعلیل داغ ہائے چیچک
ہر عضو بدن ہے عاشقوں کے دلخواہ
کیا حسن ہے کیا رنگ ہے ماشاء اللہ
چیچک کے نہیں داغ رخ روشن پر
اکھڑے ہیں نزاکت کے سبب پاے نگاہ
دیگر در حسن تعلیل تنگی چشم
اس نے کب مجھ سے گرم جوشی کی ہے
میں نے شمشاد سر فروشی کی ہے
دراصل نہیں یہ اس کی آنکھیں چھوٹی
عاشق سے شروع چشم پوشی کی ہے
دیگر در حسن تعلیل داغ ہائے چیچک
صورت کوئی آ کے اس پری کی دیکھے
رنگت گوری تو گال پھولے پھولے
کب آئینۂ رخ میں ہیں داغ چیچک
ہیں عکس ہجوم مردمک کے دھبے
معشوق کے عیب کو خوبی بنا کر پیش کرنا، خیال بند شعرا کے سوا کس کو ایسی بات سوجھ سکتی ہے؟ اس ضمن میں پہل شاید کمال اسمٰعیل نے کی (شاید ایسی ہی باتوں کی وجہ سے اسے “خلاق المعانی”=مضامین کو خلق کرنے والا) کہا جاتا ہے۔ کانے معشوق پر اس کی رباعی ملاحظہ ہو ؎
داری ز پئے چشم بد اے در خوش آب
یک نرگس نا شگفتہ در زیر نقاب
ویں از ہمہ طرفہ تر کہ از بادۂ حسن
یک چشم تو مست است و دگر چشم بخواب
نرگس نیم شگفتہ کا مضمون شمشاد نے شاید یہیں سے لیا تھا۔ لیکن شمشاد لکھنوی نے اور کئی مضامین نکالے ہیں، جیسا کہ مندرجہ بالا رباعیوں سے ظاہر ہے۔ چیچک رو معشوق کا مضمون ہمارے یہاں شاید میر نے شروع کیا (اور یہ پھر اس بات کی دلیل ہے کہ میر کو خیال بندی کا بھی ذوق تھا)۔ میر کا شعر نہایت شگفتہ اور نادر خیال پر مبنی ہے ؎
داغ چیچک نہ اس افراط سے تھے مکھڑے پر
کن نے گاڑی ہیں نگاہیں ترے رخسار کے بیچ
شمشاد کے مصرعے ع اکھڑے ہیں نزاکت کے سبب پائے نگاہ پر میر کا پرتو معلوم ہوتا ہے۔ اب جرأت کا شعر دیکھیں ؎
چیچک سے نہایا تو ہے اس گل کا بدن یوں
لگ جائے ہے جوں مخمل خوش رنگ میں کیڑا
چیچک سے نہانا=چیچک کے داغوں کا تمام جسم پر ہو جانا۔
یہ بات خیال میں رکھئے کہ آج کل ہم لوگ بھلے ہی جرأت کو چوما چاٹا کا شاعر سمجھتے ہوں، لیکن ان کے معاصرین انھیں معنی آفریں کہتے تھے (معنی آفرینی سے مراد مضمون آفرینی بھی تھی)۔ اور میرا خیال ہے ناسخ نے ان دونوں سے بڑھ کر خیال بند شعر کہا ہے ؎
آبلے چیچک کے نکلے جب عذار یار پر
بلبلوں کو برگ گل پر شبۂ شبنم ہوا