18 سال بعد
جنگل بیاباں میں وہ کافی دیر سے پیدل چلتا ہوا اب تھکنے لگا تھا بڑے بڑے قد آدم درخت بھی سورج کی تپش کو روکنے، اور چھاؤں پیدا کرنے کے لیے ناکافی تھے پسینے سے شرابور ہوتا ہوا وہ اپنا وجود کھسیٹتا ہوا آگے بڑھے جا رہا تھا۔۔۔ دھوپ کی تپش اس کے پورے جسم کو جھلسا رہی تھی
تب اچانک وہ سامنے سے چلتی ہوئی اس کے پاس آنے لگی، وہ اس لڑکی کو دیکھ کر چونکا تھا جو اس ویران جنگل میں سبز رنگ کے آنچل سے اپنا چہرہ چھپائے اس کے قریب آرہی تھی۔ ۔۔ وہ اُس لڑکی کو دیکھ کر وہی رک گیا تھا،، جیسے جیسے وہ اس کے قریب آرہی تھی سورج اپنی تپش کا اثر کم کرتا جارہا تھا یا پھر وہ خود اپنے آپ کسی ٹھنڈی چھاوں میں کھڑا محسوس کررہا تھا۔۔۔۔ اس کا سارا دھیان وہ لڑکی اپنی طرف مندمل کر چکی تھی جس نے آنچل سے اپنا چہرا چھپایا ہوا تھا،، وہ طرف اس کی خوبصورت کالی گہری آنکھیں دیکھ سکتا تھا
وہ لڑکی چند قدم کے فاصلے پر آکر رک گئی اور اُسے دیکھنے لگی۔ ۔۔۔۔ شاید باقی کا فاصلہ اسے طے کرنا تھا وہ کسی ٹرانس کی کیفیت میں قدم بڑھاتا ہوا اُس لڑکی کے پاس پہنچا جو مقناطیس کی طاقت رکھے اُسے اپنے طرف کھینچ رہی تھی۔۔۔ اس لڑکی کا سحر اُس پر طاری ہوا جا رہا تھا،، وہ بے خود سا اس لڑکی کو دیکھے گیا۔۔۔ وہ لڑکی مکمل طور پر اسکے حواسوں پر سوار ہوچکی تھی
تب اس کے دل میں شدت سے یہ خواہش ابھری کہ وہ اس لڑکی کے چہرے سے آنچل ہٹا کر اس کا چہرے دیکھے۔۔۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس لڑکی کے چہرے سے نقاب ہٹانا چاہا تبھی اُس جنگل میں ایک بھیانگ آواز نے شور برپا کیا۔۔۔۔ اُس نے بےاختیار مڑ کر جنگل میں چاروں طرف اپنی نظریں دوڑائی مگر دور دور تک اسے بڑے بڑے درختوں کے سوا کچھ نظر نہیں آیا
اُس نے دوبارہ اُس لڑکی کی طرف مڑ کر دیکھا مگر وہ لڑکی اب اس کے قریب نہیں بلکہ چند قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ ۔۔۔ اُس نے دوبارہ اس لڑکی کے پاس جانا چاہا تب وہ لڑکی انکار میں سر ہلاتی اُس سے مزید دور جانے لگی،، انچل سے جھانگتی اسکی گہری سیاہ آنکھوں میں وہ اداسی کو صاف محسوس کرسکتا تھا
“رکو پلیز”
اسکو ایک بڑے سے درخت کی اڑھ میں جاتا دیکھ کر وہ بےساختہ بولا اور بھاگتا ہوا اس درخت کے پاس پہنچا مگر اب وہاں وہ لڑکی موجود نہیں تھی
اُس لڑکی کے جاتے ہی ایک بار پر سورج کی تپش اس کے وجود کو جُھلسانے لگی۔۔۔ ایک بار پھر وہ تھکنے لگا۔ ۔۔۔ اس کے دل نے شدت سے دعا کی کہ وہ لڑکی ایک بار پھر اس کے سامنے آجائے دور کہیں سے آذان کی آوز اس کے کانوں میں گونجی
آنکھ کھلنے پر اُس کا خواب ٹوٹا تو دور کہیں سے فجر کی اذان کی آواز اس کے کانوں میں آرہی تھی وہ کل ہی حویلی پہنچا تھا کیونکہ آج آرزو کی سالگرہ تھی بے شک اس کی شادی ہو چکی تھی مگر اُسے معلوم تھا آرزو اس کا انتظار کر رہی ہوں گی، رات میں وفا سے موبائل پر بات کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔ وہ بیڈ پر لیٹا ہوا ہے ابھی بھی اپنے خواب کے بارے میں سوچ رہا تھا
*****
طبلے کی تھاپ پر ناچتے تھرکتے وجود کو نشیلی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد وہ اُٹھ کر باہر بیٹھے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کرتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھا۔۔۔ چند دنوں پہلے ہی اُسے اس کے دوستوں نے یہاں کا راستہ دکھایا تھا اور شراب کی عادت تو نہ جانے کتنی پرانی تھی یہ اسے خود بھی یاد نہیں تھا
البتہ مینا بائی کہ ہاں اپنا شرف بخشنے کے باوجود اس نے فل الحال اپنا رجحان ناچنے گانے والیوں تک رکھا تھا اس سے آگے وہ خود نہیں بڑھا تھا
“خان گھر آگیا ہے” ڈرائیور کے بولنے پر تیمور خان نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور ڈرائیور کو دیکھتا ہوا گاڑی سے اُتر کر حویلی کے اندر داخل ہوا اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے، عموماً 10 بجے تک سب اپنے اپنے کمروں میں سو چکے ہوتے
تیمور خان اپنے کمرے میں جانے سے پہلے روشانے کے کمرے کا بند دروازہ دیکھنے لگا دروازے کے نیچے سے آتی ہوئی روشنی پتہ دے رہی تھی کہ وہ ابھی تک جاگ رہی ہے، تیمور خان کے قدم خود بخود روشانے کے کمرے کی طرف اُٹھے
****
بند رجسٹر پر قلم رکھتی ہوئی وہ کوفت بھری نظروں سے دودھ سے بھرا گلاس دیکھنے لگی۔۔۔ دودھ پینے سے اُسے جتنی چڑ تھی زرین اسے بلاناغہ روز سونے سے پہلے دودھ کا بھرا گلاس پینے کے لیے دیتی۔ ۔۔۔ یہ سلسلہ اس کے شہر جانے پر ترک ہو چکا تھا مگر جب وہ چھٹی پر حویلی آتی زرین اُسے دودھ سے بھرا گلاس دینا نہیں بھولتی۔۔۔ دودھ کے گلاس سے اس کی نظر دیوار پر ٹنگی گھڑی پر گئی،، اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے وہ اتنی دیر تک جاگنے کی عادی نہیں تھی مگر آج ہی اسے اسائنمنٹ مکمل کرنا تھا کیونکہ کل صبح اُسے ڈرائیور کے ساتھ شہر نکلنا تھا بائی روڈ آرام سے چار سے پانچ گھنٹے لگ جاتے،، اس کے بعد اُسے کالج جا کر اپنا اسائمنٹ جمع کروانا تھا
کبھی کبھی وہ اپنی ذات کے بارے میں سوچتی تو اُسے شدید حیرت ہوتی اتنا صبر اور اتنی برداشت کا مادہ آخر اُس میں کہاں سے آیا تھا شاید اپنی ماما سے۔۔۔ (تائی ماں) زرین اُسے رباب کے بارے میں یہی بتاتی کہ اس کی ماما بہت صابر عورت تھی جو اس کو پیدا کرنے کے چند گھنٹے بعد دنیا سے چلی گئی تھی۔۔۔ روشانے نے کبھی اتنی ماما کو نہیں دیکھا تھا بقول زرین کے کہ وہ خود ہو بہو بنی بنائی اپنی ماما جیسی تھی
بے شک ماں کی کمی کوئی نہیں پوری نہیں سکتا تھا لیکن زرین نے اسے ماں بن کر پالا تھا اور جوان کیا تھا۔۔۔ سردار اسماعیل خان بھی اس سے محبت کرتا مگر برملا محبت جتاتا نہیں تھا جبکہ اس کی دادی حضور (کبریٰ خاتون) بچپن سے ہی اُس کو آنکھوں میں رکھتی اور ڈانٹ پھٹکار کرتی۔۔۔ اُن کا سارا پیار اپنے پوتے تیمور خان کے لئے تھا۔۔۔ سردار اکبر خان اُس سے محبت کرتے تھے مگر جب وہ آٹھ برس کی تھی تو وہ انتقال کر چکے تھے البتہ ژالے سے اس کی خوب دوستی تھی مگر پھر بھی وہ اسکی جیسی دلیر نہیں تھی
اپنی ماں کے رشتہ داروں سے وہ کبھی نہیں ملی تھی نہ ہی اُس نے کسی کو دیکھا تھا۔۔۔ روشانے کو بچپن سے ہی معلوم تھا اس کا ننھیال اس کے خاندان کا دشمن قبیلہ ہے۔۔۔ کبریٰ خاتون کے بعد ایک تیمور خان تھا جس سے وہ ڈرتی تھی یا جو بچپن سے ہی اُسے خوفزدہ رکھتا تھا
بلکہ سال بھر پہلے سے تو وہ اُسے اور بھی زیادہ اپنی باتوں سے ڈرانے لگا تھا۔۔۔ اس کی عجیب عجیب سی باتیں اور بہکی ہوئی نظریں روشانے کو خوف میں مبتلا رکھتی۔۔۔ وہ چاہ کر بھی یہ بات زرین یا ژالے سے شیئر نہیں کر سکی تھی۔۔۔۔ اسی وجہ سے اُس نے ایک دن سردار اسماعیل خان سے ہمت کرکے شہر جا کر پڑھنے کی اجازت مانگی۔۔۔ کبریٰ خاتون کی مخالفت کے باوجود، سردار اسماعیل خان نے اس کے حق میں فیصلہ دیا اور اس کا شہر جاکر کالج میں ایڈمیشن کروایا اور رہائش کے لیے ہوسٹل اسکے لیے منتخب کیا گیا۔۔۔
جس دن اُسے کالج کے لیے شھر جانا تھا روشانے بہت خوش تھی اُس رات تیمور خان اس کے کمرے میں آیا تھا اور اسے اچھی طرح باور کروایا تھا وہ کالج میں کوئی دوست نہیں بنائے گئی نہ ہی کسی سے زیادہ باتیں کرے گی۔۔۔ دروازے کی دستک پر روشانے کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا
“اس وقت کون ہو سکتا ہے”
روشانے سوچتی ہوئی بیڈ سے اٹھی اور دوپٹہ اوڑھتی ہوئی دروازہ کھولنے لگی۔۔۔ مگر سامنے تیمور خان کو کھڑا دیکھ کر وہ چونک گئی۔۔۔ تیمور خان پورا دروازہ کھول کر کمرے کے اندر داخل ہوا روشانے نے جلدی سے اپنا دوپٹہ سر پر اوڑھا
“دروازہ بند کر دو”
تیمور خان بیڈ پر لیٹتا ہوا روشنانے کو دیکھ کر بولا وہ تیمور خان کو دیکھنے لگی مگر تیمور خان کے غصے میں آنکھیں دکھانے پر وہ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے دروازہ بند کرنے لگی
“یہاں آؤ”
تیمور خان نے دوسرا حکم صادر کیا بھلے روشانے اس کا حکم کیسے ٹال سکتی تھی کبریٰ خاتون نے بچپن سے ہی اسے تیمور خان کی ہر بات ماننے کو کہا تھا۔۔۔ روشانے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی
“جوتے اتارو میرے”
بیڈ پر رکھے ہوئے نوٹس کو دیکھتا ہوا وہ روشانے سے بولا
تیمور خان کی آواز پر روشانے خاموشی سے اُس کے پیر سے جوتے اتارنے لگی یہ کام اُسے عجیب نہیں لگا تھا کیوکہ یہ کام اس نے پہلی بار نہیں کیا تھا وہ بچپن سے ہی روشانے سے اپنے جوتے اترویا کرتا،، روشانے نے جوتے اتار کر فرش پر رکھے جب تیمور خان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے اپنے پاس آنے کے لیے کہا
روشانے خوفزدہ ہوکر تیمور خان کو دیکھنے لگی اس کے چہرے پر خوف دیکھ کر تیمور خان کے لبوں پر مسکراہٹ آئی یہی وہ خوف تھا جو بچپن سے وہ روشانے کی آنکھوں میں دیکھتا آیا تھا اور ہمیشہ دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ چاہتا تھا روشانے اس سے ساری زندگی اسی طرح خوفزدہ رہے
“سمجھ میں نہیں آیا تمہیں پاس بلا رہا ہوں میں یہاں آؤ”
اب کی بار تیمور خان نے آنکھیں دیکھا کر غُراتے ہوئے کہا روشان مرے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے پاس آئی تیمور خان نے روشانے کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھایا تو روشانے مزید سہم گئی
“کل رات جب میں نے تمہیں سب کے سونے کے بعد اپنے کمرے میں آنے کا حکم دیا تھا تو کیوں نہیں آئی تھی میرے کمرے میں”
وہ بیڈ پر لیٹا ہوا دوپٹے سمیت روشانے کے بال مٹھی میں جگڑ کر روشانے کا چہرہ اپنے قریب لا کر اس سے پوچھنے لگا
“خان پلیز”
تیمور کے منہ سے آتی شراب کی بدبو سے روشانے کو قہہ کا احساس ہونے لگا وہ اپنے بالوں کو تیمورخان کہ ہاتھ کی مٹھی سے آزاد کرواتی ہوئی پیچھے ہٹ کر بولی
“خان کی بچی، بہت پر نکل آئے ہیں تیرے۔۔۔ کیا لگ رہا ہے تجھے،، پڑھنے لکھنے کے بہانے شہر جاکر تُو مجھ سے بچ جائے گی۔۔۔ چھوڑ دوں گا میں تجھے،، بول لے جاؤ تجھے اسی وقت اپنے کمرے میں اٹھا کر۔۔۔ کوئی کیا بیگار لے گا میرا۔۔۔ بول”
تیمور خان شراب کے نشے میں غصے میں بولتا ہوا بیڈ سے اٹھ کر بیٹھا روشانے کے بالوں کو دوبارہ مٹھی میں جکڑ کر وہ اس پر جھکنے لگا تو روشانے پیچھے سرکتے ہوئے بیڈ کر گر گئی
“میں کچھ نہیں بگاڑ سکتی آپ کا خان، میری کیا اوقات ہے بھلا۔۔۔ خدارہ میرے پر رحم کریں”
وہ روتی ہوئی اُس کے آگے ہاتھ جوڑ کر بولی پہلے وہ روشنانے کو صرف اپنی باتوں سے ڈراتا تھا مگر آج تو شراب کے نشے نے حد ہی کر چکا تھا
“اپنا اور میرا نام کیوں مٹایا اس کتاب سے”
شاید اسے روشانے پر ترس آگیا تھا تبھی اسے بٹھا کر اس کے نوٹس سامنے رکھتا ہوا پوچھنے لگا
پہلی بار جب وہ چھٹیوں پر حویلی آئی تھی تب تیمور خان نے اس کے نوٹس پر اپنا اور روشانے کا نام لکھا جو کہ بعد میں روشانے مٹا دیا تھا۔۔۔ وہ کبھی آگے زندگی میں اپنے نام کے ساتھ تیمور خان کے نام کو دیکھنا نہیں چاہتی تھی
“میں دوبارہ لکھ دیتی ہو”
روشانے اُس کے غُصب سے بچنے کے لیے خوفزدہ ہوکر بولی۔۔۔ جلدی سے قلم اُٹھا کر روتی ہوئی اپنا اور تیمور خان کا نام لکھنے لگی۔۔۔ جب اس نے اپنا اور تیمور خان کا نام لکھا۔ ۔۔ تو تیمور خان نے اس کے ہاتھ سے قلم لے کر سختی سے دوسرے ہاتھ سے روشانے کا منہ دبوچا
“خان کے علاوہ کسی دوسرے کا خیال تک اپنے دماغ میں مت لانا روشانے۔ ۔۔ تیمور خان کا ہی نام تمہارے مقدر میں لکھا جاچکا ہے اب تمہیں اسی کے ساتھ اپنی ساری زندگی گزارنی ہے”
تیمور خان ایک بار پھر اسے باور کرواتا ہوا اس کے کمرے سے باہر نکل گیا روشانے نے جلدی سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے لاک لگایا اور شکر ادا کرنے لگی کہ تیمور خان وہاں سے چلا گیا
اب اُسے نیند کیا ہی آنی تھی وہ بیڈ پر بیٹھ کر صبح ہونے کا انتظار کرنے لگی تاکہ شہر کے لیے نکل سکے
****
“واپس جانے کی تیاری کر رہا ہے”
ضیغم بیگ میں اپنے کپڑے رکھ رہا تھا کشمالا کی آواز پر پلٹ کر اسے دیکھنے لگا جو اس کے کمرے میں آتی ہوئی اُس سے پوچھ رہی تھی
“جی ماں، کل صبح چھ بجے شہر کے لیے نکلوں گا،،، 9 بجے تک آفس پہنچ جاؤ گا۔۔۔ شام تک ہی گھر پہنچنا ہوگا” ضیغم اپنے کپڑے بیگ میں رکھتا ہوا کشمالا کو اپنا پروگرام بتانے لگا
“پورے چار ماہ بعد چکر لگایا ہے تُو نے، وہ بھی صرف دو دن کے لیے۔۔۔ ابھی تو تجھے دیکھ کر میرا دل بھی نہیں بھرا تھا اور تجھے جانے کی لگ گئی”
کشمالا اُس کے پاس بیڈ پر بیٹھی ہوئی اداسی سے بولی ضیغم اپنا آخری ڈریس بیگ نے رکھ کر بیگ کی زپ بند کرتا ہوا بولا
“آرزو کی سالگرہ تھی تبھی یہاں آنے کا پروگرام بنا لیا مہینے بعد دوبارہ چکر لگاؤں گا تو پورا ہفتہ روکو گا آپ کے پاس”
بیگ کو ایک سائیڈ پر رکھ کر ضیغم کشمالا کا اداس چہرہ دیکھتا ہوا بولا
سہی تو یہ تھا کہ شمروز جتوئی اور اُسے اپنا آفس دوسری جگہ شفٹ کرنا پڑا تھا اور کچھ اسٹاف بھی چینج کیا تھا اُس لئے وہ دونوں ہی چند مہینوں سے کافی مصروف ہوگئے تھے، رمشا کو بھی شمروز سے مصروف ہونے کی شکایت رہنے لگی تھی
“یہ گولی کسی اور کو دے، میں ماں ہوں تیری خوب جانتی ہوں تجھے۔۔۔ اب تُو دو مہینے سے پہلے اپنا چہرہ نہیں دکھائے گا”
کشمالا ناراض نظروں سے ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی اُس کی بات سن کر ضیغم نے بے ساختہ قہقہہ لگایا
“نہیں گولی تو میں پچھلی بار دے کر گیا تھا، اب کی بار بالکل سچ بول رہا ہوں بلکہ چاچو بھی اس بار آنے کا کہہ رہے تھے میرے ساتھ”
ضیغم کی بات پر کشمالہ نے اپنا سر جھٹکا
“وہ تیری چچی آنے دی گی اسے، ڈیڑھ سال ہوگیا اُسے یہاں آئے ہوئے۔۔۔۔ نہ جانے کیسی عورت ملی ہے اپنے شوہر کو تو قابو میں کیا ہی تھا، میرا بیٹا بھی اسی کا ہو کر رہ گیا۔۔۔ اپنی ماں سے تو تجھے پیار ہی نہیں ہے ضیغم”
شاید وہ بہت مہینوں بعد اُسے دیکھ رہی تھی اور نہیں چاہتی تھی کہ ضیغم اتنی جلدی واپس جائے اس لیے اس سے شکوے پر شکوے کیے جا رہی تھی
شمروز جتوئی نے بارہ سال پہلے رمشا نامی لڑکی سے شادی کی تھی جو کہ سُلجھی ہوئی طبعیت کی مالک تھی شمروز کے دو بچے اسد اور وفا تھے۔۔۔ ضیغم بھی دس سال سے اب انہی کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔۔۔ مہینے بعد ئی اس کا چکر لگتا۔۔۔ اس کی اپنی چچی سے کافی اچھی دوستی تھی ساتھ ہی اسد اور وفا بھی اُس سے کافی اٹیچ تھے
“کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ ماں،، چاچو اور میں بھلا کسی عورت کے قابو میں آنے والی شے لگتے ہیں آپ کو، چچی بیچاری چاچو کو کیا قابو کریں گی ان سے زیادہ تو نرم مزاج خاتون شاید ہی میں نے اپنی لائف میں دیکھی ہو۔۔۔۔ آپ ماں ہے میری، مجھے پیدا کیا ہے آپ نے، میں آپ سے زیادہ بھلا کسی اور سے محبت کر سکتا ہوں”
ضیغم کشمالا کی آنکھوں میں اداسی دیکھتا ہوا اس کے کندھے کے گرد بازو حائل کرتا ہوا کشمالا سے پوچھنے لگا
“اپنی آپھو سے تو تجھے مجھ سے زیادہ محبت تھی، اس کے لیے یو چھوٹی سی عمر میں دشمنوں کی حویلی پہنچ گیا تھا اُس سے ملنے کے لیے۔۔۔ وہ ابھی بھی زندہ ہوتی تو مجھ کو پورا یقین تھا تُو مجھ سے زیادہ اسی سے محبت کرتا”
کشمالا کی بات سن کر ضیغم ایک دم خاموش ہوگیا
“آپ آرام کریں مجھے کام ہے تھوڑا سا آفس کا”
کشمالا کے پاس سے اٹھ کر وہ اپنا لیپ ٹاپ لیتا ہوا وہ صوفے پر جا کر بیٹھ گیا
“ہاں معلوم ہے مجھے اس کا نام لوں گی تو تیرا منہ ہی بنے گا اور دل اداس ہو جائے گا،، نہ جانے مرنے سے پہلے کیا بول گئی،، لازمی کان بھرے ہوں گے اُس نے میرے خلاف”
کشمالا ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی
“ماں پلیز آپ یہاں سے جا رہی ہیں یا پھر میں چلا جاؤں”
ضیغم ایک دم غصے میں بلند آواز سے بولا
کشمالا اس کی آنکھوں میں غصہ اور لہجے میں سختی دیکھ کر خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔۔۔ یہی وجہ تھی وہ رباب کی موت بھی اس کے اندر سے کڑواہٹ کم نہیں کر پائی تھی دوسری طرف ضیغم لیپ ٹاپ صوفے پر رکھ کر سگریٹ کا پیکٹ اور لائیٹر اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...