وہ اپنے مہندی لگے ہاتھوں کو غور سے دیکھ رہی تھی، جو صبح ناشتے کے بعد کبریٰ خاتون کے حکم سے اُسے ژالے نے لگائی تھی،، اُس کے بعد ژالے نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔۔۔ جبکہ روشانے کل سے ہی اپنے کمرے میں موجود تھی شام کا وقت ہوا چلا تھا تھوڑی دیر بعد اُس کا نکاح ہوجانا تھا۔۔ جس کے بعد اُسے اپنا آپ اُس ہستی کو سونپنا پڑتا جسے وہ ناپسند کرتی تھی۔۔۔ بیڈ پر بیٹھی ہوئی وہ اپنے متعلق سوچ ہی رہی تھی تو اُسے باہر سے شور کی آواز آنے لگی
روشانے تجسس کے مارے کمرے میں موجود کھڑکی کی طرف بڑھی تاکہ معلوم کرسکے کہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ وہاں اُسے مین گیٹ سے اندر آتا ہوا ضیغم دکھائی دیا جو کہ اس وقت سخت اشتعال میں لگ رہا تھا گیٹ پر موجود پہرے دار اور اسماعیل خان کے آدمی اُسے اندر آنے سے روک رہے تھے۔۔۔ تب اس نے ہاتھ میں موجود پسٹل سے ہوا میں فائر کیا،، جس سے سارے آدمی پیچھے ہو گئے یہاں تک کہ روشانے بھی ڈر گئی
اب وہ غُصے میں حویلی کے اندر داخل ہو رہا تھا اُسی کو دیکھ کر روشانے بھی اپنے کمرے سے باہر نکلنے پر مجبور ہوئی
“تیمور۔۔۔ تیمور خان باہر نکل”
ضیغم ہال میں آنے کے بعد غصے میں زور سے دھاڑا،، اُس کی آواز سُنکر روشانے سمیت سبھی ایک ایک کرکے اپنے کمرے سے باہر نکل گئے
ضیغم سردار اسماعیل خان کو دیکھ کر اُس کی طرف بڑھا۔۔۔۔ سردار اسماعیل خان کو چند منٹ پہلے ہی اطلاع مل گئی تھی کہ تیمور خان کی چلنے والی گولی سے شمروز جتوئی ہلاک ہو چکا ہے
“کہاں چھپا کے رکھا ہے اپنے بیٹے کو باہر نکالو اُسے”
غُصے میں سرخ آنکھوں سے ضیغم، سردار اسماعیل خان کو دیکھتا ہوا بولا۔۔۔ وہ ابھی ابھی خون میں لتھڑی ہوئی شمروز جتوئی کی لاش دیکھ کر آ رہا تھا۔۔۔ وہاں حویلی میں ایک قیامت خیز منظر برپا تھا۔۔۔ یہ خبر تھوڑی ہی دیر میں پورے قبیلے میں پھیل چکی تھی کہ سردار تیمور خان نے شمروز جتوئی کی جان لے لی۔۔۔
“تیمور خان اس وقت گھر پر موجود نہیں ہے، تم چاہو تو شمروز جتوئی کی موت کا بدلہ مجھ سے لے سکتے ہو”
سردار اسماعیل خان کی بات پر جہاں کبریٰ خاتون، زرین اور ژالے بے یقینی سے پوری آنکھیں کھولے سردار اسماعیل خان کی طرف دیکھ رہی تھیں، وہی روشانے کا وجود زلزلوں کی زد میں آچکا تھا۔۔۔ برابر میں کھڑی ژالے اس کو نہ تھامتی تو وہ فرش پر گر پڑتی
“میں چاچو کی موت کا بدلہ اُس کے سینے میں گولی اتار کر ہی لوں گا۔۔۔ جہاں بھی چھپایا ہے اُسے باہر نکالو”
ضیغم سردار اسماعیل خان پر غُصّے میں چیختا ہوا بولا اور ساتھ ہی پسٹل کی نال سردار اسماعیل خان کے سینے پر رکھ دی
سردار اسماعیل خان کے سینے پر تنی ہوئی پسٹل دیکھ کر کبریٰ خاتون چیخ کر ملازموں کو بلانے لگی جبکہ زرین جلدی سے سردار اسماعیل خان کے آگے آ کر کھڑی ہو گئی
“بڑے خان سچ کہہ رہے ہیں تیمور خان اس وقت گھر پر موجود نہیں ہے، میں تمہارے آگے اپنے بیٹے اور شوہر کی زندگی کی بھیگ مانگتی ہوں،، اللہ انصاف کرنے والا ہے تم اِن دونوں کو بخش دو”
زرین سردار اسماعیل خان کے ہٹانے پر بھی اُس کے آگے سے نہیں ہٹی بلکہ وہ ضیغم کے آگے ہاتھ جوڑ کر فریاد کرنے لگی
“بے شک اللہ انصاف کرنے والا ہے مگر اُس حویلی میں صفِ ماتم بِچھا ہے تو یہاں پر بھی خوشی کے شادیانے نہیں بج سکتے۔۔۔ اگر تیمور خان سچ میں یہاں موجود نہیں ہے مگر اپنے باپ کی موت کی خبر سن کر وہ یہاں ضرور آئے گا”
ضیغم غُصے میں پاگل ہو رہا تھا جبھی اُس نے زرین کا بازو پکڑ کر اُسے اسماعیل خان کے آگے سے دھکا دے کر دور ہٹایا،، اس سے پہلے وہ دوبارہ اسماعیل خان کے سینے پر بندوق کی نال رکھتا۔۔۔ روشانے اسماعیل خان کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہوگئی
“ہٹو سامنے سے”
روشانے کے مہندی لگے ہاتھوں کو دیکھ کر وہ مزید طیش میں آکر چیخا،، جس پر روشانے نے نفی میں سر ہلایا
سردار اسماعیل خان روشانے کو بھی ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا مگر وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی نہیں ہلی
“ان پر گولی چلانے سے پہلے آپ کو مجھے جان سے مارنا ہوگا”
روشانے آنکھوں میں آنسو بھرے ضیغم کو دیکھتی ہوئی بولی،، وہ غضبناک تیوروں سے روشانے کو گھورنے لگا۔۔۔
یہی اس کی حویلی تھی یہی کے لوگوں کی محبت اس کے دل میں بستی تھی،، شمروز جتوئی کی موت کا تو شاید اُسے دکھ بھی نہیں ہوا ہوگا۔۔۔ اگر اسماعیل خان کی جگہ وہ آج تیمور خان کا بچاؤ کرتی تو شاید وہ تیمور خان سے پہلے اُس کے سینے میں گولی اتار دیتا۔۔۔ اُس کے سینے کی آگ ابھی تک نہیں بجھی تھی وہ ہاتھ میں موجود پسٹل نیچے کرتا ہوا وہاں سے جانے کے لیے مڑا
“شکل کیا دیکھ رہے ہو تم لوگ، سب مل کر قابو کرلو اسے”
سردار اسماعیل خان نے اپنے ملازم کو ہاتھ سے وہی کھڑا رہنے کا اشارہ کیا تھا مگر ضیغم کے وہاں سے جاتا دیکھ کر کبریٰ خاتون ایک دم بولیں
وہ لوگ ضیغم کی طرف بڑھے ہی تھے تب ضیغم نے چھت پر ٹنگے فانوس پر فائر کیا جو کہ زمین بوس ہوا وہ سب وہی رک گئے
روشانے اور ژالے دونوں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی۔۔۔ جبکہ سردار اسماعیل خان افسوس سے کبریٰ خاتون کو دیکھ رہا تھا
“میں تیمور خان کو چھوڑو گا نہیں”
ضیغم غُصّے میں کبریٰ خاتون کو دیکھتا ہوا بولا اور باہر نکل گیا۔۔ جبکہ زرین وہی فرش پر بیٹھ کے زور زور سے رونے لگی
“مجھے مار لیں۔ ۔۔ پیٹ لیں لیکن میں خاموش نہیں رہوں گی اماں حضور،، آپ کی تربیت کی وجہ سے میرا تیمور خان قاتل بنا ہے”
زرین روتی ہوئی کبریٰ خاتون کو دیکھ کر بولی۔۔۔ جبکہ روشانے اور ژالے ملامت بھری نظروں سے کبریٰ خاتون کو دیکھنے لگی۔۔۔ سردار اسماعیل خان وہی خاموش کھڑا تھا
“یوں آنکھیں پھاڑ کر مجھے مت دیکھو،، لے کر جاؤ اِسے کمرے میں”
کبریٰ خاتون کرخت لہجے میں روشانے اور ژالے کو دیکھتی ہوئی بولیں تو وہ دونوں ہی فرش پر بیٹھ کر روتی ہوئی زرین کو اُٹھا کر کمرے میں لے جانے لگی
“راشد۔۔۔ نوشاد فوراً تیمور خان کا پتہ لگاؤ کہ وہ اس وقت کہاں موجود ہے اور اس سے خبردار کر دو، جب تک معاملہ ٹھنڈا نہ ہو جائے وہ حویلی میں قدم نہ رکھے۔۔۔ کلیجہ ٹھنڈا کیا ہے آج میرے شیر نے میرا،، زریاب خان کا بدلہ آج پورا ہوا”
کبریٰ خاتون اپنے خاص ملازموں کو حکم دیتی ہوئی تفکر سے بولی تو سردار اسماعیل خان اپنی ماں کو دیکھنے لگا
“یہ وقت شکل دیکھنے کا نہیں ہے اسماعیل خان۔۔۔ میرے کمرے میں آؤ تاکہ کچھ صلح مشورا کیا جائے”
کبریٰ خاتون سردار اسماعیل خان کو بولتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئیں
****
آپ شمروز جتوئی کی موت کو پورا ایک ہفتہ گزر چکا تھا ضیغم کے علاوہ رمشا اور دونوں بچے بھی حویلی میں موجود بلکہ دلآویز، پلورشہ اور آرزو بھی ہفتے بھر سے وہی پر تھیں۔ ۔۔
فیروز جتوئی نے اپنے آدمیوں کو چاروں طرف پھیلا دیا تھا، مگر تیمور خان کہاں پوشیدہ تھا اس کے آدمی ابھی تک معلوم نہیں کرسکے تھے۔۔۔ شمشیر جتوئی اپنے بیٹے کی موت کے غم میں آدھ موا سا ہو گیا تھا
لیکن آج جرگہ بٹھایا گیا تھا بہت ہمت کرکے شمشیر جتوئی فیروز جتوئی کے ساتھ وہاں پہنچا تھا۔۔۔ اُنہوں نے شمروز جتوئی کے خون کے بدلے تیمور خان کا سر مانگا تھا مگر چونکہ تیمور خان منظر سے ہی غائب تھا تو سردار اسماعیل خان نے اُن لوگوں کو پیسوں کی پیشکش کی تھی،، جسے رد کرتے ہوئے فیروز جتوئی نے اُن سے خون بہا میں روشانے کو مانگا
واپس حویلی آکر جب یہ خبر فیروز جتوئی نے حویلی میں موجود سب لوگوں کو سنائی تو رمشا نہ صرف بری طرح چونکی بلکہ ضیغم سانس لینا بھول گیا،، اُسے اپنے جسم کا خون خشک ہوتا محسوس ہوا۔،۔۔۔ بہت مشکلوں سے وہ بولنے کے قابل ہوا تھا
“یہ کیا بول رہے ہیں آپ بابا سائیں،، آپ لوگوں نے اُن کی پیشکش قبول کیسے کر لی۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا،، چاچو کا یوں اس طرح رائیگاں نہیں جائے گا۔۔۔ خون کا بدلہ صرف خون ہوگا”
ضیغم اِس فیصلے سے اختلاف کر کے فیروز جتوئی کو مخاطب کرتا ہوا بولا
“تمہیں یہ کیوں لگ رہا ہے کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کا خون معاف کردوں گا،، میں تو اُن سرداروں کی نسل کو ہی جڑ سے ختم کردوں گا۔۔۔ سردار اسماعیل خان نے پیشکش پیسوں کی تھی تب میں نے رقم کے بدلے خون بہا میں رباب کی بیٹی کو مانگا۔۔۔ ایک بار رباب کی بیٹی اس گھر میں اسد کی بیوی کے طور پر آ جائے تو پھر اس تیمور خان کو بھی بعد میں دیکھ لوں گا”
فیروز جتوئی ضیغم کو سمجھاتا ہوا بولا
“گستاخی معاف فیروز بھائی مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔ میرا بیٹا اسد، رباب کی بیٹی سے چھوٹا ہے نہ میں اس بےجوڑ شادی کے حق میں ہو اور نہ ہی خون بہا کے اس فیصلے کے حق میں،، جانے والا تو اس دنیا سے چلا گیا۔۔۔ اب آپ لوگ اُس کے بدلے میں اپنی ہی بیٹی کی بیٹی کو اس گھر میں لائیں گے وہ بھی بدلے کے لیے۔۔۔۔ ویسے بھی اعجاز بھائی مجھے لینے کے لیے آرہے ہیں۔۔۔ کل شام تک میری اور بچوں کی شہر کے لئے روانگی ہے”
رمشا جو کہ خاموشی سے ساری بات سن رہی تھی فیروز جتوئی کی بات سن کر اُس کے فیصلے سے انکار کرکے حویلی سے اپنے جانے کا فیصلہ سناتی ہوئی بولی
“تو تمہیں کون کہہ رہا ہے رباب کی بیٹی کو تم بہو کی روپ میں قبول کرو۔۔۔ کل اسد کا اُس سے نکاح کر دیا جائے گا اس کے بعد بے شک تم لوگ چلے جانا رباب کی بیٹی یہی رہے گی حویلی میں۔۔۔۔ چار لوگوں میں بیٹھ کر فیصلہ کیا جا چکا ہے اس میں اب رد و عمل کیسے ممکن ہوسکتی ہے”
شمشیر جتوئی اپنی چھوٹی بہو کو دیکھ کر اُسے سمجھاتا ہوا بولا۔۔۔ رمشا ضیغم کے سفید پڑتے چہرے کو دیکھنے لگی جو کہ اب بالکل خاموش کھڑا تھا
“یعنی میں اپنے بیٹے کا نکاح رباب کی بیٹی سے کروا کر، اُس بےقصور لڑکی کو یہاں اِس حویلی میں چھوڑ کر چلی جاؤ۔۔۔۔ اور وہ ساری زندگی یہاں پر اسد کے نام پر بیٹھی رہے۔۔۔ بابا سائیں ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیں یہ دشمنی آپ کس کے ساتھ نکال رہے ہیں ان سرداروں کے ساتھ یا پھر اپنی بیٹی کے ساتھ”
رمشا شمشیر جتوئی کو دیکھتی ہوئی افسوس سے پوچھنے لگی
“توبہ کرو بی بی کیسے بزرگ کے آگے گز بھر کی زبان چلا رہی ہو، شوہر مرا ہے تمہارا اور یہ اُسی کے باپ ہیں جن کا حکم ماننے سے تم انکار کر رہی ہو۔۔۔ شوہر کے مرنے کے بعد رشتے ختم نہیں کیے جاتے اور جرگے میں جو فیصلہ ایک بار ہوجائے اُس سے پیچھے ہٹنا اپنی بےعزتی کروانے کے متعارف ہے”
رمشا کو بولتے دیکھ کر کشمالا بھی میدان میں اتر کر اپنے نمبر بڑھانے لگی
“بھابھی شمروز کے والد میرے لئے قابل احترام ہے لیکن میں حق بات کہنے سے پیچھے نہیں ہٹو گی۔۔۔ لیکن اگر آپکو ایسا لگ رہا ہے مجھے میرے شوہر کے مرنے کے بعد اُن سے جڑے رشتوں کی قدر نہیں ہے یا میرے اِس فیصلے کی نا منظوری پر اس خاندان کی ناک کٹ سکتی ہے تو پھر آپ ضیغم کا نکاح رباب کی بیٹی سے کروا دیں۔۔۔ یہ تو بےجوڑ رشتہ بھی نہیں کہلائے گا۔۔۔ بابا سائیں آپ میری بات پر غور ضرور کیجئے گا”
رمشا کشمالا سے کہتی ہوئی۔۔۔ آخر میں شمشیر جتوئی کو دیکھ کر بولی۔ ۔۔ ضیغم رمشا کی بات پر چونک کر اُسے دیکھنے لگا جیسے رمشا کی بات نے ضیغم کے بےجان وجود میں جان پھونکی ہو۔۔۔ مگر وہ ابھی بھی خاموش کھڑا تھا
“ارے واہ بی بی تم تو اپنا بچاؤ کرکے اپنا سارا ملبہ میرے سر پر ڈال رہی ہو”
کشمالا چمک کر بولی اور ساتھ ہی خونخوار نظروں سے رمشا کو گھورنے لگی
“آپ کو میری بات اتنی بری کیو لگ گئی بھابھی،، اگر اسد اور روشانے کی شادی میں کوئی مضائقہ نہیں ہے تو پھر ضیغم کے ساتھ روشانے کی شادی میں کیسا مسئلہ۔۔۔ آپ اس خاندان کی بڑی بہو ہے چار لوگوں کے بیچ میں کیے گئے فیصلے اور اپنے خاندان کی عزت و وقار کا اچھی طرح سمجھ سکتی ہو گی پلیز بھابھی بڑے پن کا ثبوت دیں روشانے اور ضیغم کا نکاح ہونے دیں اور اپنی نند کی بیٹی کو سچے دل سے اس گھر کی بہو تسلیم کرلیں”
رمشا کے مزید بولنے پر کشمالا کا دل چاہا کہ وہ اس کا منہ نوچ لے مگر ضبط کر کے خاموش رہی
“ضیغم کے لئے فیصلہ کرنے والی اس کی ماں کون ہوتی ہے۔۔ یہ میرا پوتا ہے۔۔۔ ابھی میں زندہ ہوں اس کا فیصلہ کرنے کے لئے۔۔۔ شمروز نے تو ہمیشہ سے ہی اپنی چلائی ہے تو پھر میں اُس کی بیوی بچوں سے بھلا کیا توقع رکھو گا۔۔۔ ضیغم اور رباب کی بیٹی کا نکاح ہوگا اور وہ ضیغم کی بیوی کی حیثیت سے اس حویلی میں آئے گی”
شمشیر جتوئی کے فیصلے پر سب اس کی طرف دیکھنے لگے فیروز جتوئی بالکل خاموش تھا جبکہ کشمالا نے ناگوار نہ گزرے رمشا کو دیکھا اور غصے میں اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ رمشا کے چہرے پر سکون تھا وہ مطمئن انداز میں حیران اور پریشان کھڑے ضیغم کو دیکھنے لگی پھر خود بھی اپنے کمرے میں چلی گئی
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...