“چچی آپ نے ایسا سب کے سامنے کیوں کہا،، مطلب۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ۔۔۔”
ضیغم رمشا کے کمرے میں آتے ہی اُس سے پوچھنے لگا۔۔ کیا وہ بھی شمروز جتوئی کی طرح اُس کے دل کی بات جانتی تھی
“کیا سمجھ میں نہیں آ رہا تمہیں ضیغم۔۔۔ بابا سائیں اسد سے روشانے کا نکاح پڑھوا رہے تھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تمہیں یا پھر روشانے کو اِس حویلی میں ساری زندگی اسد کے نام پر زندگی گزارتے دیکھنا سمجھ میں آرہا تمہیں”
رمشا ضیغم کو دیکھتی ہوئی پوچھنے لگی تو ضیغم نے بے ساختہ اُس سے نظر چرائی یعنٰی وہ بھی روشانے سے اُس کی پسندیدگی کے بارے میں جانتی تھی
“تمہیں معلوم ہے ناں ضیغم،،، اُس دن شمروز، اسماعیل خان کے پاس تمہاری اور روشانے کی شادی کی بات کرنے کے لیے جا رہے تھے۔۔۔ یوں مجھے حیرت سے مت دیکھو،، شمروز شوہر تھے میرے۔۔ وہ مجھ سے ہر بات شیئر کرتے تھے انہیں اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ تم روشانے کو پسند کرنے لگے ہو،، وہاں جانے سے پہلے انہوں نے مجھے خود موبائل پر کال کر کے اپنے جانے کا بتایا تھا۔ ۔۔ شمروز بھی یہی چاہتے تھے کہ رباب کی بیٹی اِس حویلی میں تمہاری بیوی کی حیثیت سے واپس آجائے۔۔۔ مگر روشانے کو یہاں لانے کا جواز وہ خود بن جائیں گے اِس کا تو انہیں خود بھی اندازہ نہیں تھا”
آخری بات پر رمشا کی آواز روندھ گئی اور ضیغم کا دل افسُردہ ہو گیا
“مجھے معلوم ہے کشمالا بھابھی اِس وقت مجھ سے سخت خفا ہوگیں،،، بابا سائیں بھی خفا ہوں گے لیکن اِس وقت جو ہو رہا ہے جیسے ہو رہا ہے،، اُسے ہونے دو ضیغم۔۔۔ بعد میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا”
تھوڑے وقفے کے بعد رمشا ضیغم سے دوبارہ بولی تو وہ خاموشی سے رمشا کو دیکھنے لگا
اُس وقت ضیغم کے اپنے دل کی کیفیت عجیب ہو رہی تھی۔۔۔ وہ خود بھی اپنی اس کیفیت کو سمجھنے سے بالاتر تھا۔۔۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اپنی زندگی میں روشانے کے آنے پر خوشی سے جھوم اٹھتا۔۔۔۔ کیوکہ روشانے اُس کی بن مانگی دعا تھی۔۔۔ اُس نے روشانے کو دل سے خواہش کی مگر خدا سے مانگا نہیں تھا۔۔۔ اب وہ اُسے بن مانگے مل رہی تھی مگر پھر بھی اُس کا دل اندر سے اداس تھا شاید شمروز جتوئی کی جدائی پر یا پھر زرین کی بات پر کہ وہ بچپن سے تیمور خان کو پسند کرتی ہے
****
وہ غور سے اپنے ہاتھ میں موجود مہندی کو دیکھ رہی تھی جس کا رنگ اب پھیکا پڑ چکا تھا۔۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ہی اُس کا ضیغم جتوئی سے نکاح ہوچکا تھا۔۔۔ کبریٰ خاتون نے اپنے پوتے کی زندگی بچانے کے لیے، اُس کو قربان ہونے کے لیے پیش کیا تھا۔۔۔ ابھی چند منٹ پہلے کبریٰ خاتون اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اُسے سلامتی کی دعائیں دے کر اپنے کمرے میں جا چکی تھیں جبکہ زرین اور ژالے روشانے کے پاس اُس کے کمرے میں موجود تھیں
“کیا ہوا روشانے تم پریشان ہو”
ژالے کی بات سن کر روشانے اُسے دیکھنے لگی
“پریشان نہیں ہو خوفزدہ ہو”
روشانے ژالے کو دیکھتی ہوئی بولنے لگی کیا اُسے معلوم نہیں تھا کہ خون بہا میں جانے والی لڑکیاں کس سلوک کی مستحق ہوتی ہیں
“خوف ذدہ تو تمہیں جب ہونا چاہیے تھا بچے، جب تم میری بہو بنتی”
زرین پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تو روشانے خاموشی سے زرین کو دیکھنے لگی جبکہ ژالے بیڈ سے اُٹھ کر بڑے سے بیگ میں روشانے کے کپڑے، کتابیں اور ضرورت کی دوسری اشیاء رکھنے لگی
“رباب تمہیں پیدا کر کے چند گھنٹے بعد ہی گزر گئی تھی۔۔۔ تو اس سے میں نے تمہیں اپنی بیٹی سمجھ کر پالا۔ ۔۔۔ اجب تم نے کہا کہ تمہیں خان سے ڈر لگتا ہے تم اُس سے شادی نہیں کرنا چاہتی،، تب میں نے دل سے تمہارے حق میں دعا مانگی تھی اور یہ بھی کہ کوئی معجزہ ہوجائے میری پھول جیسی بیٹی کو کوئی شہزادہ آ کر لے جائے”
زرین روشانے کو دیکھتی ہی بتانے لگی تو روشانے نے زرین کے کاندھے پر اپنا سر رکھ دیا
“مجھے ضیغم سے ڈر لگ رہا ہے تائی ماں، وہ شمروز ماموں سے بہت پیار کرتے تھے۔۔۔ آپ نے اُس دن دیکھا تھا ناں ان کی آنکھوں میں غُصہ”
روشانے اپنے محسوسات زرین سے شیئر کرتی ہوئی بولی
“اُس کے غُصے پر مت جاؤ بچے۔۔۔ میں نے اُس کی آنکھوں میں ابھرتا ہوا ایک اور جزبہ بھی دیکھا ہے”
زرین کی بات سن کر روشانے نے اُس کے کندھے سے سر اٹھایا ژالے بھی چونک کر زرین کو دیکھنے لگی
“بالکل سچ کہہ رہی ہوں میں،، جو جذبہ اُس کی آنکھوں میں اس وقت امنڈ رہا تھا اور مجھے پورا یقین ہے وہ جذبہ اُس کے غصے پر کبھی بھی حاوی نہیں رہے گا”
زرین کو وہ دن یاد آیا جب ضیغم روشانے کے لیے حویلی آیا تھا۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں بے چینی اور بے قراری صرف اور صرف روشانے کے لئے تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ آج ضیغم سے روشانے کے نکاح پر زرین اندر سے مطمئن تھی
روشانے زرین کو مزید کنفیوز ہو کر دیکھنے لگی اُسے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کی تائی ماں نے ضیغم کو کب اتنے قریب سے دیکھ لیا کہ وہ اُس کے اندر کا حال جان گئی
“آنٹی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں، تم فضول کی سوچیں پال کر کیوں اپنے آپ کو پریشان کر رہی ہو”
ژالے اُس کا بیگ ایک سائیڈ میں رکھ کر روشانے کے پاس آتی ہوئی اُس سے بولی
“اگر میں فضول سوچ رہی ہو تو وہ دو بول پڑھوا کر فوراً نہ چلے جاتے”
ژالے کی بات سن کر روشانے کے دل میں موجود شکوہ زبان پر آیا
کیونکہ ملازمہ کے مطابق نکاح کے بعد شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی اپنی گاڑی میں واپس حویلی جا چکے تھے جبکہ ضیغم اُن دونوں سے الگ دوسری گاڑی میں جاچکا تھا۔ ۔۔۔ اب اِس وقت صرف ڈرائیور موجود تھا جو کہ روشانے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔ اِس طرح کا برتاؤ اسے آنے والے وقت کا پتہ دے رہا تھا تبھی روشانے اندر سے ڈری ہوئی تھی
“چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اِس قبیلے کی عورتوں کو،، تم بھی زیادہ محسوس نہیں کرو۔۔۔ اے روشی اپنی تائی ماں کو تو یاد کرے گی ناں یہاں سے جانے کے بعد”
زرین کے یوں اچانک پوچھنے پر روشانے اُس کے گلے لگ گئی۔ ۔۔۔ بے اختیار ہی اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے
“میں نے تمہارے بیگ میں کپڑے اور کتابوں کے ساتھ تمہارا موبائل بھی چھپا کر رکھ دیا ہے۔۔۔ زیادہ نہیں ہفتے میں ایک بار جب بھی موقع ملے، صرف پانچ منٹ کے لیے مجھے یا آنٹی کو اپنی آواز سنا دیا کرنا۔۔۔ ہمیں اطمینان رہے گا کہ تم وہاں خیریت سے ہو”
ژالے اپنی آنکھوں سے آئی ہوئی نمی صاف کرتی ہوئی روشانے کو بولی تو روشانے اب ژالے کے گلے لگ گئی۔ ۔۔۔ اسکے جانے وقت سردار اسماعیل خان کافی چپ تھا، اُس نے اور زرین نے روشانے کو ڈھیر ساری دعاؤں کے حصار میں اپنی حویلی سے رخصت کیا۔۔۔۔
وہ ایک حویلی سے رخصت ہو کر ڈرائیور کے ہمراہ دوسری حویلی جانے لگی جو کہ اس کا ننھیال ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سُسرال بھی تھا
****
“اتنے دنوں بعد کیوں چکر لگایا ہے نوشاد”
تیمور خان دس دنوں سے شہر میں اپنے دوست کے فارم ہاؤس پر قیام پذیر تھا۔۔۔ نوشاد کو وہاں آتا دیکھ کر اُس سے پوچھنے لگا
“فیروز جتوئی نے اپنے بندے چاروں طرف چھوڑ رکھے ہیں خان۔۔۔ ابھی بھی بہت احتیاط کے ساتھ، ہر طرف نظر رکھتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں”
نوشاد اس کے سامنے مودبانہ انداز میں ہاتھ باندھنا ہوا بولا
“جلدی سے خبر دو فیصلہ کیا سنایا گیا ہے جرگے میں”
تیمور خان صوفے پر بیٹھا ہوا بے چینی سے نوشاد سے پوچھنے لگا
اس دن شمروز جتوئی پر اُس نے ارادہ باندھ کر گولی نہیں چلائی تھی،، بلکہ اپنے منہ پر پڑنے والے تھپڑ کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس سے غُصّے میں گولی چل گئی تھی۔۔۔ چونکہ وہ دشمن تھا اس لئے تیمور خان پشیماں ہرگز نہیں تھا۔۔۔ تب سے اُس کا اپنی حویلی اور وہاں کے ہر فرد سے رابطہ منقطعہ ہوچکا تھا
“چھوٹے خان وہ انہوں نے۔۔۔۔ آپ کے بدلے چھوٹی بی بی کو خون بہا میں مانگا تھا۔۔۔ کل ہی روشانے بی بی کا نکاح ضیغم جتوئی ہوا ہے”
نوشاد ہچکچاتا ہوا بولا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ چھوٹی بی بی سے اُس کے خان کی شادی ہونے والی تھی۔۔۔ جبکہ یہ خبر سن کر تیمور خان ایک دم طیش میں آگیا صوفے سے اُٹھ کر اُس نے نوشاد کا گریبان پکڑا
“کیا بکواس کر رہے ہو،، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔ دادی حضور میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں”
تیمور خان غصّے میں زور سے دہاڑا یہ خبر سن کر اُس سے ضبط کرنا مشکل گیا تھا
“بڑے خان نے ان لوگوں کو پیسوں کی پیشکش کی تھی اور اُس زمین کی بھی پیشکش کی تھی جس کو لے کر آپ لوگوں کا برسوں سے تنازعہ چل رہا تھا مگر وہ لوگ روشانے بی بی کی ہی شرط پر راضی ہوئے”
نوشاد تیمور خان کے غُصے کو دیکھ کر ہاتھ جوڑتا ہوا اُسے بتانے لگا۔۔۔ تیمور خان نے نوشاد کا گریبان چھوڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا
“چھوڑوں گا نہیں میں اِن باپ بیٹوں کو”
تیمور خان کی برداشت جواب دے گئی وہ غصّے میں کمرے سے باہر نکلنے لگا
“خان۔۔۔ خان میری بات سنیں بی بی سائیں (کبریٰ خاتون) نے خاص آپ کے لیے پیغام بھیجا ہے آپ کو چند دنوں تک مزید یہی رہنا ہے۔۔۔ کیوکہ ابھی بھی خطرہ ختم نہیں ہوا ہے اُن لوگوں کی زبانوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا”
نوشاد ہانپتا ہوا تیمور خان کے پیچھے آیا اور ہاتھ جوڑ کر تیمور خان سے التجا کرنے لگا
“بہت بڑا وار کیا ہے اس ضیغم جتوئی نے میرے اوپر،، چھوڑوں گا نہیں میں اسے”
تیمور خان ضبط کرتا ہوا اپنے آپ سے بولا
****
وہ کمرے میں موجود لکڑی کے تخت پر لیٹی ہوئی اِس وقت بخار میں جل رہی تھی،، اُس کے دونوں پاؤں بری طرح سوجھے ہوئے تھے۔۔۔ پورا ایک ہفتہ گزر گیا تھا اُسے حویلی میں آئے ہوئے
روشانے کو وہ دن یاد آیا جب اُس نے حویلی میں قدم رکھا تھا، اُس حویلی میں اُسے اپنی حیثیت کا اُسی دن اندازہ ہو گیا تھا۔۔۔ شانو نے اُسے ضیغم کے کمرے میں پہنچا دیا تھا مگر تھوڑی دیر بعد کشمالا غُصے میں ضیغم کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئی اور غضب ناک نظروں سے روشانے کو دیکھنے لگی اسکی نظروں میں ایسا کچھ تھا کہ روشانے سہم کر بیڈ سے اٹھ کر کھڑی ہوگئی
روشانے اُسے دیکھ کر پہچان گئی تھی کہ وہ اس کی بڑی مامی ہیں کیوکہ شمروز جتوئی کے پاس البم میں کشمالا کی بھی تصویر موجود تھی
روشانے کے سلام کے جواب میں کشمالا اُسے بالوں سے کھینچ کر نہ صرف ضیغم کے کمرے سے باہر لے کر آئی تھی،، بلکے اُس کو بالوں سے پکڑ کر سیڑھیاں اُترتی ہوئی روشانے کو نیچے لا کر آئی، اور ایک چھوٹے سے کمرے میں اسے لا پھینکا تھا
کشمالا روشانے پر صاف لفظوں میں واضح کر چکی تھی۔۔۔ کہ وہ خون کے بدلے میں یہاں آنے والی لڑکی ہے اُسے ضیغم کے کمرے میں رہنے کے خواب ہرگز نہیں دیکھنے چاہیے۔۔۔ کشمالا نے اُسے بتایا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی اپنی مرضی کی لڑکی سے کروائے گی
کشمالا روشانے کا حسن دیکھ کر اندر سے بری طرح جل گئی تھی اسے ڈر تھا کہ ضیغم جیسے بچپن میں رباب کا دیوانہ تھا ویسے ہی اب وہ اُس کی بیٹی کا بھی دیوانہ ہوجائے گا اِس لیے اس نے روشانے کو کڑے لفظوں میں تنبیہہ کی تھی کہ وہ ضیغم سے اپنا چہرہ چھپائے
روشانے کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون کھول رہا تھا اس لیے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اس نے روشانے کے سامنے رباب کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا شروع کردیا تھا
روشانے ساری رات کشمالا کے الفاظ یاد کر کے روتی رہی تھی جو الفاظ کشمالا نے اس کی مری ہوئی ماں کے بارے میں استعمال کیے تھے
روشانے کا بیگ کشمالا کے کہنے پر اُسی کمرے میں رکھوا دیا گیا جو کمرہ روشانے کو استعمال کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔۔۔ وہ کمرہ کہیں سے بھی اس عالیشان حویلی کا حصہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔۔۔ جہاں ایک لکڑی کا تخت ایک پلنگ اور لکڑی کی بوسیدہ الماری کے سوا کچھ بھی نہیں تھا
دوسرے دن صبح ناشتے کی ٹیبل پر اسکی شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی یعنیٰ اپنے نانا اور ماموں سے ملاقات ہوئی تھی۔ ۔۔۔ شمشیر جتوئی کے کہنے پر ہی اُسے ناشتے کی ٹیبل پر بلایا گیا تھا
اسے حویلی کے کچھ اصول اور چند ہدایت دی گئی تھیں۔۔۔ وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتی تھی،، اُسے کہیں اکیلے آنے جانے کی اجازت نہیں تھی، خاص کر سرداروں کی طرف سے قطع تعلق کا حکم دیا گیا تھا۔۔۔
ہاں حویلی کے اندر وہ جیسے چاہے اپنی مرضی سے رہ سکتی ہے۔۔۔ کوئی بھی پریشانی ہو یا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو وہ بلاجھجھک اُن لوگوں سے کہہ سکتی ہے۔۔۔۔ یہ سب کچھ اُسے فیروز جتوئی نے کہا تھا
شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کا رویہ اگر بہت زیادہ اپنائیت بھرا نہیں تو اتنا برا بھی نہیں تھا۔۔۔ روشانے وہاں ٹیبل پر موجود کشمالا کو دیکھتی ہوئی سوچنے لگی مگر کشمالا کو کاٹ دار نظروں سے اپنی طرف دیکھنے پر اُس نے ناشتے کے دوران دوبارہ کشمالا کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا
دوسرا دن تو یونہی ہی گزر گیا، تیسرے دن بھی جب اُسے ضیغم نظر نہیں آیا تو روشانے نے ڈرتے ڈرتے بہت ہمت کرتے ہوئے کچن میں کام کرتی ہوں شانو سے ضیغم کے بارے میں پوچھا مگر اس کی قسمت خراب تھی کیونکہ اس وقت کچن میں آتی ہوئی کشمالا، اس کے منہ سے ضیغم کا نام سن چکی تھی
ضیغم کا نام منہ سے لینے پر کشمالا نے اس کا چہرہ تپھڑ سے سرخ کر دیا تھا۔،۔۔ اُسے ضیغم کا نام لینے پر کشمالا نے بے شرمی اور بے حیائی کے طعنے بھی دیے تھے۔۔۔۔ روشانے کشمالا کا مزاج دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگا چکی تھی کہ اس کی ساس کافی دقیانوسی غصے والی اور سخت گیر خاتون ہے۔ ۔۔۔
بعد میں شانو نے اسے کمرے میں آکر بتایا تھا کہ ضیغم سائیں نکاح کے فوراً بعد اپنی چچی اور شمروز سائیں کے بچوں کے ساتھ شہر چلے گئے تھے اور وہ شہر میں ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔ شانو کی بات سن کر روشانے خاموش ہوگئی تھی
اسے کشمالا سے کچھ اچھے کی اُمید نہیں تھی۔۔۔ اور واقعی دو دن گزرنے کے بعد کشمالا نے اس کا جینا حرام کردیا تھا۔ ۔۔۔ وہ شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کے سامنے روشانے کو کچھ بھی نہیں کہتی شاید ان دونوں کو تو علم بھی نہیں تھا کہ وہ کہ اُسے کس کمرے میں رکھا گیا ہے۔۔۔ ان دونوں کی غیر موجودگی میں کشمالا اسے ملازمہ کے ساتھ گھر کا سارا کام کرنے کو کہتی۔ ۔۔۔ دوپہر میں آرام کرتے وقت اپنے ہاتھ پاؤں دبواتی۔۔۔۔ وقت بے وقت اُس کے سامنے رباب کو برا بھلا کہتی
آج پورا ایک ہفتہ ہو گیا تھا اُسے اس حویلی میں آئے ہوئے۔۔۔ اور اسے اپنی زندگی پہلے سے بھی زیادہ مشکل لگنے لگی تھی۔۔۔ شانو سے اُسے معلوم ہوا تھا کہ آج اس کی نند کو آنا ہے۔۔۔ اس وجہ سے وہ سارا دن کچن کے کاموں میں مصروف رہی جب سے وہ یہاں آئی تھی،، اس کی زرین یا ژالے سے بات نہیں ہوتی
شمشیر جتوئی اور فیروز جتوئی کا لچکدار رویہ دیکھتے ہوئے رویہ شاید وہ اُن کے بتائے ہوئے اصول بھول بیٹھی تھی۔۔۔ اس لیے اپنا موبائل نکال کر زرین کو کال ملانے لگی
کافی دیر تک بیل جاتی رہی،، تو اُس نے ژالے کے نمبر پر کال کی اتنے دنوں بعد ژالے سے بات کرتے ہوئے اُسے وقت کا احساس نہیں ہوا
جب اُس کے کمرے کا دروازہ زور سے بجا تب اس نے جلدی سے موبائل بند کرکے تکیہ کے نیچے رکھ دیا۔ ۔۔ کمرے کا دروازہ کھولتے ہی کشمالا نے اسے مارنا شروع کر دیا بقول کشمالا کے کمرے میں کوئی موجود تھا جس سے وہ باتیں کر رہی تھی
جب وہ کشمالا کی مار برداشت نہیں کر پائی تب اُس نے تکیے کے نیچے سے اپنا موبائل نکال کر کشمالا کو دیا اور اُس سے معافی مانگنے لگی۔۔۔ مگر موبائل دیکھ کر کشمالا نے شانو سے ڈنڈا منگوایا۔ ۔۔۔
موٹے سے ڈنڈے کو دیکھ کر روشانے کی روح فنا ہونے لگی۔۔۔ اُس کے بار بار معافی مانگنے کے باوجود گھر کے تمام ملازموں کے سامنے کشمالا نے اُسے بری طرح مارا
شام میں جب آرزو میکے آئی اور شانو سے اُسے دوپہر والا واقعہ معلوم ہوا تو اسے صرف ماں کی حرکت پر ہی دکھ نہیں ہوا بلکہ ضیغم کی لاپرواہی پر بھی غصہ آیا۔۔۔ وہ افسوس بھری نگاہوں سے روشانے کو روتا سسکتا ہوا دیکھ کر اپنے گھر چلی گئی
****
وہ تھوڑی دیر پہلے ہی آفس سے اپنے فلیٹ میں آیا تھا ہفتہ بھر ہوا چلا تھا اُسے حویلی سے واپس شہر آئے ہوئے۔۔۔ اب کی بار حویلی سے واپسی پر ضیغم کا دل کافی اداس تھا کیونکہ شمروز اس کے ساتھ نہیں تھا
رمشا اور بچوں کو شہر والے گھر میں چھوڑ کر وہ خود اپنے فلیٹ میں آ گیا تھا،، اسد اور وفا کے ساتھ رمشا نے بھی اسے کافی روکا مگر وہ وقتی طور پر اپنے فلیٹ کی شفٹ ہونے کا کہہ کر انہیں ٹال گیا تھا
وہ رمشا، اسد اور وفا کی طرف سے اس لیے بھی مطمئن تھا کیوکہ رمشا کے بھائی اور بھابھی چند ماہ کے لئے اُسی کے گھر میں موجود تھے
یہاں اپنے فلیٹ میں آ کر اُس نے ضرورت کے سامان کے ساتھ رومز کے حساب سے فرنیچر تو خرید لیا تھا مگر آفس میں مصروفیت کے باعث اسے ٹائم نہیں مل رہا تھا کہ سارے فرنیچر کو طریقے اور سلیقے سے رکھ سکے
آفس سے آنے کے بعد اس نے ابھی شوز بھی نہیں اتارے تھے وہ ریلکیس انداز میں صوفے پر بیٹھا ہوا اسموکنگ کرتا روشانے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔ ہفتے بھر سے فراغت کے اوقات میں اب شاید اُس کا ایک یہی کام رہ گیا تھا
نکاح کے بعد شہر آتے وقت وہ روشانے سے مل کر نہیں آیا تھا۔۔۔۔ ایسا نہیں تھا کے وہ اپنے دل میں روشانے کے لیے کوئی بات رکھے ہوئے تھا یا پھر اس سے خفا تھا۔۔۔ اس طرح یوں اچانک ان دونوں کا نکاح ہوجانا،، معلوم نہیں روشانے کا ذہن اس نکاح کو قبول کر چکا تھا یا نہیں۔۔۔ وہ روشانے کو تھوڑا ٹائم دینا چاہتا تھا اور یہ وقت وہ اسے دور رہ کر ہی دے سکتا تھا
زرین کی بات کو وہ پہلے جذباتی ہوکر سوچ رہا تھا لیکن اب وہ زرین کی بات پر ٹوٹلی کنفیوز تھا اگر واقعی روشانے تیمور خان کو پسند کرتی تھی تو وہ تیمور خان نے اسطرح خوفزدہ ہرگز نہیں ہوتی، جس طرح وہ شمروز کے گھر اُس رات خواب میں اُس سے ڈر گئی تھی۔۔۔ پھر جسطرح شمروز جتوئی نے تیمور خان کا رویہ روشانے کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے بتایا تھا۔۔۔ یہ سب سوچ کر ضیغم کا دماغ الجھ جاتا۔۔۔ بہرحال جو بھی تھا لیکن اب تو روشانے اس کی بیوی تھی
اسموکنگ کرتا ہوا وہ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ اس کا موبائل بجنے لگا
“ہاں آرزو سناؤ کیسی ہو،، سب خیریت ہے”
آرزو کی کال ریسیو کرتا ہوا وہ صوفے سے ٹیک لگا کر مزید ریلیکس ہوکر بیٹھا اپنی بہن سے خیر خیریت پوچھنے لگا
“آرزو کی تو آرزو ہی رہ جائے گی کبھی اس کا بھائی خود بھی کال کرکے اپنی بہن کی خبر گیری کر لے”
آرزو ضیغم سے شکوہ کرتی ہوئی بولی جس پر وہ مسکرایا
“آج کل تو تمہارے بھائی کو اپنی خبر نہیں ہے یہ بتاؤ بچے کیسے ہیں دونوں”
ضیغم بےپروائی سے کہتا ہوا ہاتھ میں موجود سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلنے لگا
“دونوں ٹھیک ہیں اپنے بابا کے ساتھ باہر گئے ہیں، جب تم کو اپنی خبر نہیں ہے تو اپنے سے جڑے لوگوں کی کیسے خبر ہوسکتی ہے میں بھی کیا پوچھ بیٹھی ہو خیر یہ یہ بتاؤ رمشا چچی اور بچے کیسے ہیں”
آرزو نے جس بات کے لیے فون کیا تھا اس کو کرنے کا ارادہ ترک کرتی ہوئی رمشا کی خیریت پوچھنے لگی
“پرسوں گیا تھا میں چچی کی طرف اسد اور وفا سے بھی ملاقات ہوئی تھی وہ لوگ ٹھیک ہیں اور ایسا بالکل نہیں ہے کہ اپنے سے جڑے لوگوں کی خبر نہیں ہے مجھے،، دادا سائیں اور ماں سے بات ہوئی تھی میری”
ضیغم اپنی آنکھیں بند کرتا ہوا تھکے ہوئے انداز میں آرزو کو بتانے لگا
“حویلی سے رخصت ہوتے ہوئے ایک اور بھی تعلق جوڑ کر آئے تم،، اگر فرصت ملے تو اُس کی بھی خبر لے لینا کہ کس حال میں ہے وہ”
نہ چاہتے ہوئے بھی آرزو کے منہ سے شکوہ نکل گیا۔۔۔ روشانے کا چہرہ اس کی بند آنکھوں کے سامنے آیا اور ضیغم نے اپنی آنکھیں کھولیں
“کس حال میں ہے، کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔ کیا ہوا ہے روشی کو،، ٹھیک تو ہے ناں وہ”
ضیغم آرذو سے پوچھتا ہوا ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھا
“بیوی وہ تمہاری ہے اُس کے بارے میں پوچھ تم مجھ سے رہے ہو”
وہ طنزیہ انداز میں مسکراتی ہوئی ضیغم سے بولی
“آرزو پلیز سیدھی طرح مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے روشی کو”
ضیغم اب آرزو سے تھوڑا سختی سے پوچھنے لگا اور ساتھ ہی اٹھ کر کھڑا ہوگیا
“ایسے منہ زبانی بتانے میں تھوڑی مزہ آئے گا۔۔۔ جاؤ جا کر خود دیکھ لو کہ کس حال میں ہے تمہاری بیوی”
آرزو نے بولتے ہوئے لائن ڈسکنیکٹ کردی
ضیغم کو آرزو کے کال کاٹنے پر غصہ آیا مگر وہ جانتا تھا اب وہ اسے کچھ نہیں بتائے گی،،، ضیغم کو روشانے کی فکر ہونے لگی۔۔۔ اس لیے اپنی تھکاوٹ کو نظر انداز کرتا ہوا گاڑی کی کیز اٹھا کر فلیٹ لاک کرتا ہوا باہر نکل گیا
****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...