شام ڈھلے کا وقت تھا ۔۔
موسم ابر آلود تھا ۔۔
گیلری میں کھڑی وہ سرمئی بادلوں پر نظریں ٹکائے طوبی کے متعلق ہی سوچ رہی تھی جب امتل نے آ کر اسے تیمور صاحب کا بلاوا پہنچایا ۔۔
شہلا غائب دماغی سے سر ہلا کر اس کے پیچھے نکل گئی لیکن لائبریری کے دروازے پر پہنچ کر اچانک ذہن میں کچھ کلک ہوا ۔۔
“کہیں تیمور انکل ۔۔
شمعون کے بارے میں تو ۔۔
اففف ۔۔
کیسے جواب دوں ۔۔
تیمور انکل کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔
اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے ان کے خاندان میں ۔۔
اور میں ان کی حویلی میں رہ کر کیا کیا گل کھلاتی پھر رہی ہوں ۔۔”
اپنی سوچوں میں گم اسے احساس نہیں ہوا کہ شمعون اس کے بلکل قریب آ چکا ہے ۔۔
شہلا کے شانے کے اوپر سے اپنا چہرہ آگے کر کے شمعون کچھ دیر تک شہلا کے ترچھے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھتا رہا پھر اس کے کان کے قریب ہونٹ کر کے مدھم گمبھیر آواز میں التجائیا گویا ہوا ۔۔
“ہاں کہنا شہلا ۔۔
پلیز ۔۔”
کان پر گرم سانسوں کا احساس ۔۔
اور یہ التجا ۔۔
شہلا اچھل کر پیچھے ہوئی تو نظریں شمعون کی آنکھوں سے ٹکرائیں ۔۔
جو ہمیشہ کی طرح آج بے تاثر نہیں تھیں ۔۔
کچھ کہہ رہی تھیں ۔۔
کچھ پوچھ رہی تھیں ۔۔
اکسا رہی تھیں ۔۔
شہلا کو اپنے گال تمتاتے محسوس ہوئے تو خود سے ہی گھبراتی ہوئی وہ جلدی سے لائبریری میں گھس گئی ۔۔
پیچھے شمعون شاد سا مسکرا دیا ۔۔
وہ اب مطمئین تھا ۔۔
کیونکہ وہ اپنا کام کر چکا تھا ۔۔
اسے سو فیصد یقین تھا کہ شہلا اب ہاں ہی کرے گی ۔۔
وہ کچھ وقت کے لیئے اس کے ذہن کو اپنے سحر میں لے چکا تھا ۔۔
شہلا اگرچہ خود بھی “ہاں” کہنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔۔
لیکن شمعون جانتا تھا ۔۔
انسان اپنی باتوں پر کم ہی قائم رہتے ہیں ۔۔
پھر اس کا دل بھی ایک بے نام سے خوف کا شکار رہتا تھا ۔۔
شہلا کی طرف سے ایک دھڑکا لگا رہتا تھا ۔۔
سو اس نے اپنا سحر چلانا ضروری سمجھا تھا ۔۔
اوپر جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھ کر شمعون نے اپنی نظریں لائبریری کے بند دروازے پر جما دی تھیں ۔۔
سگرٹ کے کش لیتا حمزہ جب اپنے کمرے سے نکلا تو شمعون کے چہرے پر پھیلی گہری مسکان دیکھ کر حیران ہوا ۔۔
شمعون کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا ایسا ہی تھا جیسے رات کے وقت سورج دیکھنا ۔۔
“چاچو ۔۔”
حمزہ نے شمعون کے قریب جا کر پکارا ۔۔
شمعون کی مسکراہٹ معدوم ہوگئی اور اس نے سپاٹ نظروں سے حمزہ کو دیکھا ۔۔
“خوش لگ رہے ہیں ۔۔”
حمزہ نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔
“تو ۔۔؟
تکلیف ہو رہی ہے تمہیں ۔۔”
شمعون کی طرف سے طنزیہ جواب ملنے کی ہی امید تھی ۔۔
اور وہی ملا بھی ۔۔
حمزہ کوفت سے اسے دیکھتا ہوا پلٹنے لگا جب لائبریری کا دروازہ کھلا ۔۔
پہلے شہلا نکلی ۔۔
بڑی جلدی میں لگتی تھی ۔۔
سیڑھیوں پر شمعون کو دیکھا تو سٹپٹا کر لان میں بھاگ گئی ۔۔
شمعون بے ساختہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔
حمزہ چونک کر ٹکر ٹکر کبھی شمعون کو دیکھتا تو کبھی اس راہ کو جہاں سے شہلا گئی تھی ۔۔
ابھی وہ الجھا ہوا سا شہلا کے پیچھے جانے کا سوچ ہی رہا تھا جب اندر سے بڑبڑاتی ہوئی جویریہ بیگم بھی نکلیں ۔۔
ان کے ساتھ تیمور آفندی بھی تھے ۔۔
“تیمور آپ ایک بار ۔۔
شہلا کو شمعون کی حقیقت تو بتا دیتے ۔۔
ایسے ہی جلد بازی میں رشتہ جوڑ دیا ۔۔
کل کو وہ لڑکی گلا کرے کہ مجھے ایک حرام ۔۔”
جویریہ بیگم کی چلتی زبان شمعون کی چڑھی تیوری دیکھ کر رک گئی ۔۔
گڑبڑا کر وہ سر جھٹکتی ہوئی حویلی کی باقی خواتین کو اس نئے رشتے کے بارے میں بتانے بھاگ نکلیں ۔۔
جبکہ تیمور آفندی شمعون کی طرف بانہیں پھیلا کر بڑھ گئے ۔۔
شمعون مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے گلے لگ گیا ۔۔
پیچھے کھڑا حمزہ خود کو دنیا کا سب سے بیوقوف انسان محسوس کر رہا تھا ۔۔
بالآخر تیمور آفندی کو اس کا دھیان بھی آ ہی گیا اور وہ ایسے ہی بانہیں پھیلائے پھیلائے اس کی طرف بڑھے ۔۔
حمزہ خجل سا ہو کر ہنس پڑا ۔۔
“اب بتائیں ناں ۔۔
کیا ہو رہا ہے ۔۔
چاچی کیوں بگڑ رہی ہیں ۔۔”
“ارے تمہاری چاچی کب نہیں بگڑتیں ۔۔
اسے چھوڑو ۔۔
بات یہ ہے کہ ۔۔
شمعون اور شہلا کی شادی کا فیصلہ کیا ہے ہم نے ۔۔
سب اسی مہینے ہوگا سادگی سے ۔۔
کمپنی کے کام سے شمعون پھر کینیڈا چلا جائے گا ۔۔
بہت وقت لگ جائے گا اگر اس کی واپسی کا انتظار کیا ۔۔
اور یہ ہوا جا رہا ہے بے صبرا ۔۔”
آخر میں تیمور آفندی نے شرارت سے شمعون کو دیکھا تو وہ اس بار اپنی ہنسی روک نہیں سکا ۔۔
ان دونوں کے ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھتے ہوئے حمزہ کو اپنا آپ بلکل خالی خالی محسوس ہو رہا تھا ۔۔
ابھی تو اس کے دل میں محبت کی ننھی سی کونپل پھوٹی تھی ۔۔
زیادہ وقت تو نہیں گزرا تھا ۔۔
ایک یہی تو شغل تھا اس کا آج کل صرف ۔۔
چوری چوری شہلا کو دیکھنا ۔۔
ڈانٹ ڈپٹ کر اسے اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرنا ۔۔
(خواہ برا ہی سوچے ۔۔
لیکن سوچے تو سہی ۔۔)
محبت ہوگئی تھی ۔۔
لیکن پہلی پہلی نئی نئی تھی ۔۔
ابھی محبت نبھانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا ۔۔
پھر جو حالات چل رہے تھے حویلی میں ۔۔
کیا ایسے میں اس کا اظہار محبت اچھا لگتا ۔۔؟
بلکل نہیں ۔۔
لیکن اس بیچارے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔
کہ اس کا تکلف ۔۔
اس کی خاموشی ۔۔
اس کا اتنا بڑا نقصان کر دے گی ۔۔
اور وہ بیٹھا دیکھتا رہ جائے گا ۔۔
جیسے ہی یہ خبر حویلی میں پھیلی ۔۔
ایک شور سا مچ گیا تھا ۔۔
کوئی ناگواری کا اظہار کر رہا تھا تو کوئی حیرت کا ۔۔
کوئی کوئی خوش بھی لگ رہا تھا ۔۔
“چلو کوئی تو خوشی کی گھڑی نصیب ہوئی ۔۔”
جعفر صاحب کی بیوہ شمائلہ بیگم کی عدت بھی کچھ دن پہلے ہی ختم ہوئی تھی ۔۔
انہوں نے اپنا واویلا شروع کر رکھا تھا ۔۔
ایسے میں سیڑھیوں پر شاک کی کیفیت میں بیٹھے حمزہ پر توجہ کسے دینی تھی ۔۔
گم صم سا وہ سب کو دیکھتا رہا ۔۔
پھر پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تمام تقریب حویلی میں ہی رکھی گئی تھی ۔۔
حویلی کے مکینوں کے سوا تیمور آفندی کے ہی کچھ جاننے والے شامل تھے ۔۔
اور شہلا کی طرف سے صرف فیروزہ خالہ اور ان کے اہل خانہ مدعو تھے ۔۔
اس قدر سادگی سے شادی پر تیمور آفندی نے اس سے بہت معزرت کی تھی ۔۔
شہلا خود اپنی جگہ شرمندہ تھی ۔۔
کیسی دلہن تھی وہ ۔۔
جہیز وغیرہ تو دور کی بات ۔۔
اپنے لباس اور زیورات سمیت کسی چیز میں بھی تو اس کی طرف سے ایک پھوٹی کوڑی نہیں لگی تھی ۔۔
وہ تو خود شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں تھی اور کسی سے نظر نہیں ملا پا رہی تھی ۔۔
اب بات اگر شہلا کی ذاتی تیاری کی کی جائے تو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ شمعون نے کیا کیا نہیں کیا ہوگا ۔۔
مشہور و معروف ڈیزائنر کا سرخ اناری برائیڈل ڈریس ۔۔
جس پر کہیں کہیں سلور اور سیاہ کا ہلکا ہلکا دیدہ زیب کام ہوا تھا ۔۔
بھاری بھرکم دوپٹے کے کناروں پر ننھے ننھے موتی سجے تھے ۔۔
ڈائمنڈ جویلری میں اس کی رنگت چمک رہی تھی ۔۔
سرخ لبوں سے جھانکتے موتیوں جیسے دانت بہت بھلے لگ رہے تھے جن سے وہ الجھن میں گھری ہونٹ کاٹ رہی تھی ۔۔
پور پور سجی وہ ایک الگ ہی چھب میں تھی اور حویلی کی خواتین کو سخت حیران کر رہی تھی ۔۔
بہت سے لوگ اتنے بڑے حادثے کے بعد اچانک شادی پر ناخوش تھے ۔۔
لیکن پروہ کسے تھی ۔۔
ان لوگوں نے کبھی شمعون کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھا تھا ۔۔
اسے ہر معاملے سے دور رکھا تھا ۔۔
پھر اس کے ذاتی معاملے میں کیسے کچھ کہہ سکتے تھے ۔۔
نکاح کے بعد جب شمعون لان سے اٹھ کر مرد حضرات سمیت لائونج میں آیا تو شہلا کو کہیں نہ پا کر اچھا خاصہ تلملا گیا ۔۔
اشارے سے امتل کو پاس بلایا جو حمزہ کو میسجز کیئے جا رہی تھی ۔۔
صبح سے وہ نہ جانے کہاں چھپا بیٹھا تھا ۔۔
“جی ۔۔”
امتل کا انداز لٹھ مار تھا ۔۔
شمعون نے گہری سانس خارج کر کے خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا ۔۔
“شہلا کہاں ہے ۔۔؟
یہاں کیوں نہیں یے ۔۔؟”
“اسے تھکاوٹ ہو رہی تھی ۔۔
اس لیئے کمرے میں بھیج دیا آپ کے ۔۔”
شمعون کی پیشانی کا بل دیکھ کر امتل سیدھی ہوگئی اور گھبراہٹ میں جلدی جلدی بتا کر وہاں سے بھاگ نکلی ۔۔
جبکہ شمعون مطمئین ہو کر تیمور آفندی کی جانب متوجہ ہوگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون جب کمرے میں داخل ہوا ۔۔
تب تک شہلا رو رو کر اپنی آنکھیں سجا چکی تھی ۔۔
ظاہر ہے یہ وقت ہی کچھ ایسا تھا ۔۔
اپنوں کی یاد آنی فطری تھی ۔۔
شمعون کے آنے پر شہلا نے جلدی سے اپنی آنکھیں ہنائی ہاتھوں کی پشت سے پونچھیں ۔۔
شہلا کو اندازہ تھا وہ اس وقت خوف و ہراس سے بلکل ٹھنڈی یخ ہو رہی تھی ۔۔
موسم ابھی اتنا سرد نہیں تھا ۔۔
پھر بھی شہلا اپنا برف برف وجود محسوس کر سکتی تھی ۔۔
شمعون دم بخود سا لمبی لمبی گھنی پلکوں پر ٹکے آنسئوں کا رقص دیکھنے لگا ۔۔
شہلا گھبراہٹ میں کبھی نظریں اٹھا کر شمعون کی طرف دیکھتی ۔۔
کبھی نظریں جھکا لیتی ۔۔
کبھی ٹیبل پر جلتی شمع کو دیکھتی ۔۔
تو کبھی گیلری کے آگے پڑے سفید پردے کو ۔۔
جو ہلکی ہلکی ہوا کے زور پر لہرا رہا تھا ۔۔
کمرے کی تمام بتیاں بجھی تھیں ۔۔
صرف بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ روشن تھے جن سے زرد خواب ناک روشنی پھوٹ رہی تھی ۔۔
جو شہلا کے وجود کے ساتھ ساتھ ان لمحات کو بھی سحر انگیز بنا رہی تھی ۔۔
شمعون کو لگا اگر اس نے درمیانی فاصلہ مزید کچھ دیر قائم رکھا تو غضب ہی ہوجائے گا ۔۔
اس نے بے اختیار ہو کر اپنا ہاتھ شہلا کے چہرے کی طرف بڑھایا تھا ۔۔
شہلا اپنے سرد گال پر شمعون کا دہکتے مضبوط ہاتھ کا ہلکا سا لمس محسوس کر کے سر جھکا گئی جبکہ شمعون کے چہرے کا رنگ سفید ہونے لگا ۔۔
اس نے کرنٹ کھا کر اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا ۔۔
اتنا ہی نہیں ۔۔
خود بھی وہ کئی قدم پیچھے ہوتا شہلا کو حیران پریشان کر گیا تھا ۔۔
شہلا نے خوفزدہ ہو کر شمعون کی طرف دیکھا جو اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے متوحش سا اِدھر اُدھر چکرا رہا تھا ۔۔
“شش شم ۔۔”
شہلا نے اس سے اس کی طبیعت کے متعلق پوچھنے کی کوشش کی لیکن شمعون اچانک اس کی طرف پلٹا اور شہلا کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تقریباً دبوچ کر گویا ہوا ۔۔
“سوجائو شہلا ۔۔
ابھی اور اسی وقت ۔۔
آرام کرو شاباش ۔۔
اتنی اچانک بننے والے رشتے سے تم گھبرا رہی ہوں گی ناں ۔۔
میں تمہارے احساسات سمجھ رہا ہوں ۔۔
تم خود کو مینٹلی تیار کرو ۔۔
ساری الجھنیں بھلا دو ۔۔
میں صبر کر سکتا ہوں ۔۔
گڈ نائٹ ۔۔”
اپنی بات مکمل کر کے شمعون جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑ کر کمرے سے نکلتا چلا گیا ۔۔
پیچھے شہلا خوف اور حیرت کی مورت بنی سیج پر بیٹھی رہ گئی ۔۔
اسے شمعون کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا ۔۔
اور وجہ شمعون کے الفاظ نہیں اس کا انداز تھا ۔۔
اگر یہی باتیں وہ نارملی کرتا تو شہلا کے دل میں اس کی قدر بے انتہا بڑھ جاتی ۔۔
اسے واقعی ابھی کچھ وقت چاہیے تھا ۔۔
لیکن شمعون کا انداز تو ایسا تھا کہ شہلا کے دل میں الٹا ایک خوف سا بیٹھ گیا تھا ۔۔
کچھ دیر تک شہلا بیٹھی انتظار کرتی رہی کہ شائد ابھی شمعون آئے گا اور اپنے رویئے کی وضاحت دے گا ۔۔
لیکن انتظار انتظار ہی رہا ۔۔
تھک ہار کر وہ چینج کرنے اٹھ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون لان میں لگے جھولے پر بیٹھا تھا ۔۔
جھولا آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہل رہا تھا ۔۔
جبکہ اس کی نظریں اپنے کمرے کی گیلری پر جمی تھیں ۔۔
بے بسی کے احساس سے شمعون کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔۔
اور آنکھوں کی پتلیاں چھوٹے چھوٹے نقطوں کی شکل اختیار کر چکی تھیں ۔۔
“کیوں کیوں کیوں ۔۔
کیوں نہیں ہوں میں ایک عام انسان ۔۔
کیوں میں اپنی محبت کو پا کر بھی چھو نہیں سکتا ۔۔
کیا فائدہ میری اتنی طاقتوں کا ۔۔
آخر کیوں نہیں ۔۔”
شمعون چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کی چیخ ساری حویلی کی نیندیں اڑا سکتی تھی سو وہ دل میں دہاڑتا رہا ۔۔
اس نے جب شہلا کے چہرے کو چھوا تھا تب اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے اس کے جسم سے آگ کی لپیٹیں نکل رہی ہوں ۔۔
شہلا کے نرم سرد گال میں در حقیقت اس کی انگلیاں گڑ جانے کو ہو رہی تھیں ۔۔
وہ سرتاپا آگ تھا ۔۔
وہ شہلا کو جلا کر خاکستر کر سکتا تھا ۔۔
اگر معاملہ محبت کا نہ ہوتا صرف جسمانی تعلق کا ہوتا جو اس جیسی بہت سی دوسری مخلوقات کسی انسان پر فدا ہو کر قائم کر لیتی ہیں تو وہ بھی پیچھے نہ ہٹتا ۔۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ شہلا کی جان نہیں لے سکتا تھا ۔۔
یہ ناممکن تھا ۔۔
جان ہی لینی ہوتی تو اتنے احتمام ۔۔
اتنا صبر کس لیئے کرتا ۔۔
اتنی بڑی حقیقت کیسے جھٹلا رہا تھا وہ ۔۔
“کیا مصیبت ہے ۔۔”
وہ اندر ہی اندر خود سے لڑ رہا تھا جب اس نے اپنے کمرے کی گیلری میں کودتی اس سیاہ بلی کو دیکھا ۔۔
شمعون لمحوں میں پہچان گیا تھا وہ اس کی ماں تھی ۔۔
اندیشوں میں گھرا وہ بھی سیاہ بلے کا روپ دھارتا درختوں کی دو تین چھلانگوں کے بعد اپنی ماں کے مقابل تھا ۔۔
ایونا نے سرد نظروں سے اسے گھورا اور غرائی ۔۔
“کون یے یہ ۔۔؟
تمہارے کمرے میں کیا کر رہی ہے ۔۔
یہ سب کیا چل رہا ہے شمعون ۔۔
مت کہنا کہ تم وہ ناقابل معافی غلطی کر چکے ہو ۔۔”
جواباً شمعون بھی اس سے اونچا غرایا ۔۔
“یہ میرا ذاتی معاملہ ہے ۔۔
میں اس میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کروں گا ۔۔
آپ صرف اتنا کریں کہ اس لڑکی سے دور رہیں ۔۔
بھوک لگی ہے آپ کو ۔۔
کل تک کا صبر کریں ۔۔
کچھ کرتا ہوں میں ۔۔
لیکن اس لڑکی کی طرف آپ نے یا قبیلے والوں نے نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو انجام بہت بھیانک ہوگا ۔۔”
“تم ایک آدم زادی کے لیئے اپنی ماں اور قبیلے کی دشمنی مول لے رہے ہو ۔۔”
“میں کسی سے دشمنی مول نہیں لے رہا ۔۔
یہ آپ لوگ ہوں گے جو اس لڑکی کی طرف بڑھ کر مجھ سے دشمنی کریں گے ۔۔
میں نے کہہ دیا دور رہیں مطلب دور رہیں ۔۔”
شمعون کی غراہٹ ناقابل برداشت حد تک کریہہ تھی ۔۔
کچی نیند میں ڈولتی شہلا چونک کر اٹھ بیٹھی اور گیلری میں دو بڑی بڑی سیاہ بلیوں کو ایک دوسرے پر غراتے دیکھ کر خوف سے چیختے چیختے رہ گئی ۔۔
یہ بلیاں وہی بلائیں تھیں ۔۔
ان کے حد سے زیادہ بڑے سائز دیکھ کر شہلا نے اندازہ لگا لیا ۔۔
منہ پر ہاتھ رکھ کر شہلا نے یہاں وہاں شمعون کو ڈھونڈنا چاہا اور شمعون کو کہیں نہ پا کر مزید خوفزدہ ہوگئی ۔۔
شمعون نے ایونا سے بحث کرتے ہوئے ایک نظر شہلا پر ڈالی جو خوف سے سکڑی بیٹھی تھی ۔۔
پھر ایونا کو گھورا ۔۔
“کہا ناں جائیں یہاں سے ۔۔”
“اس مصیبت کو جڑ سے ختم کیئے بغیر میں نہیں جائونگی ۔۔”
ایونا نے نفرت سے کہتے کے ساتھ ہی شہلا کی طرف چھلانگ لگائی تھی لیکن شمعون نے اچھل کر ایونا کو دبوچ کر نیچے گرا لیا ۔۔
شہلا چیخوں کا گلا گھونٹی ہوئی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگی ۔۔
اندر دونوں بلیوں نے وہ طوفان بدتمیزی مچا دیا کہ کوئی چیز اپبی جگہ سلامت نہیں رہی تھی ۔۔
اوپر سے بلیوں کی کان پھاڑتی غراہٹیں ۔۔
حویلی کے کمروں کے دروازے کھٹاکھٹ کھلے ۔۔
سب خوفزدہ سے لائونج میں جمع ہوگئے ۔۔
وجدان نے ہمت کر کے شمعون کے کمرے کا دروازہ بند کردیا لیکن شور غراہٹیں چیخیں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی تھیں ۔۔
شہلا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو چکا تھا ۔۔
شمعون کی فکر میں الگ دل پریشان تھا ۔۔
نہ جانے اسے کیا پریشانی تھی ۔۔
وہ اسے یوں تنہا چھوڑ کر کہاں چلا گیا تھا ۔۔
“یہ بلیاں ۔۔
توبہ ۔۔
اللہ خیر کرے ۔۔ ۔۔
خدارا کچھ کریں فخر ۔۔”
حمنہ بیگم اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں ۔۔
“کیا کروں ۔۔؟
اندر جا کر ان کا ڈنر بن جائوں ۔۔”
فخر آفندی پریشانی سے چلائے ۔۔
کچھ وقت پہلے ہی انہوں نے ہانیہ کو کھویا تھا ۔۔
اور اب یہ حمزہ پتہ نہیں صبح سے کہاں گم تھا ۔۔
“آرام سے فخر بھائی ۔۔”
تیمور آفندی نے اپنے بڑے بھائی کا شانہ تھپتھپایا پھر شہلا کے پاس جا کر بیٹھ گئے ۔۔
“شہلا بیٹا ۔۔
شمعون کہاں ہے ۔۔؟”
شہلا ان کے پوچھنے پر خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔
“کیسا لاپروہ لڑکا ہے آپ کا پیارا بھائی ۔۔
شادی کے لیئے اتاولا ہو رہا تھا ۔۔
اب ہوگئی تو ان حالات میں اپنی دلہن کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔”
جویریہ بیگم نے ہاتھ نچا نچا کر کہا ۔۔
باقی خواتین نے ہاں میں ہاں ملانی ضروری سمجھی جب اچانک بلیوں کا شور بلکل بند ہوگیا اور ہر طرف موت کی سی خاموشی چھاگئی ۔۔
ایسی ہیبت ناک خاموشی تھی ۔۔
سب ٹکر ٹکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔
“کون توڑے یہ خاموشی ۔۔؟”
“کون کرے یہ ہمت ۔۔؟”
سب کی آنکھوں میں یہی سوال تھا جب لائونج کا بھاری دروازہ کھول کر شمعون اندر داخل ہوا ۔۔
اس کے قدموں کی دھمک نے خاموشی کو توڑ ہی دیا ۔۔
سب کے سب گردنیں موڑے اسے دیکھ رہے تھے اور وہ شہلا کو ۔۔
“کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے ۔۔؟
یہاں کیوں جمع ہیں آپ لوگ ۔۔؟”
شہلا کے روئے روئے چہرے سے اپنی سپاٹ نظریں ہٹا کر وہ تیمور آفندی سے مخاطب ہوا ۔۔
“پہلے تم بتائو تم کہاں تھے ۔۔
کچھ ہوش ہے کیا حالات چل رہے ہیں ۔۔
ایسے میں تم اسے اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہو ۔۔
یہ لڑکی اب تمہاری ذمہ داری ہے ۔۔
اتنی لاپراہی برتو گے تو کیسے چلے گا شمعون ۔۔
تم سے یہ امید نہیں تھی ۔۔”
تیمور آفندی کی آواز اونچی سے سونچی ترین ہوگئی تھی ۔۔
انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا ۔۔
سب حق دق تھے ۔۔
کیونکہ پہلی بار تیمور آفندی شمعون سے اس طرح مخاطب ہوئے تھے ۔۔
شمعون کی ضبط سے مٹھیاں بھینچ گئی تھیں ۔۔
لیکن وہ سر جھکائے چپ رہا کونکہ مقابل تیمور آفندی تھے ۔۔
جو شہلا کی ہی بھلائی سوچ کر اس طرح بات کر رہے تھے ۔۔
“کینیڈا سے ایک کال آگئی تھی ۔۔
ڈسٹربنس کے خیال سے باہرچلا گیا تھا ۔۔
لان مں بیٹھے بیٹھے ہی آنکھ لگ گئی ۔۔
پھر اندازہ نہیں ہوا کسی چیز کا ۔۔
اب بتائیں گے پلیز کے سب یہاں کیوں جمع ہیں ۔۔”
تیمور آفندی چپ سے ہوگئے ۔۔
پھر اسے ساری صورتحال سمجھانے لگے ۔۔
جبکہ شہلا حیرت سے اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے شمعون کو دیکھ رہی تھی ۔۔
جس نے کس اعتماد سے فون کال کا جھوٹ بولا تھا ۔۔
“اوہ ۔۔
اتنا سب ہوگیا اور میں بے خبر رہا ۔۔
تم ٹھیک ہو ۔۔؟”
آخر میں س نے جھک کر شہلا سے پوچھا ۔۔
لیکن شہلا کچھ غصے سے اپنی نظریں اس پر سے ہٹا گئی ۔۔
اس کے اس انداز پر شمعون کے اندر آتش فشاں سا پھٹا تھا ۔۔
“چلیں پھر چل کر دیکھیں اب اتنی خاموشی کیوں ہوگئی ہے ۔۔”
شمعون نے تیمور آفندی سے کہا ۔۔
وہ سر ہلا کر آگے بڑھنے لگے ۔۔
جب جویریہ بیگم ان سے بولیں ۔۔
“صبح تک کا انتظار کر لیں ۔۔”
“تاکہ کوئی اور حادثہ ہوجائے ۔۔”
تیمور آفندی خفگی سے کہہ کر آگے بڑھے ۔۔
اب سب سے آگے شمعون تھا ۔۔
پھر تیمور آفندی ۔۔
اور ان کے پیچھے وجدان تھا ۔۔
پیچھے حمزہ بھی سارا دن اپنی ناکام محبت کا سوگ منا کر حویلی لوٹ آیا تھا اور اب حمنہ بیگم اور فخر صاحب کی جھڑکیاں حیرت سے سن رہا تھا ۔۔
شمعون نے جب اپنے کمرے کے دروازے کے ہینڈل کو پکڑا تب اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزرا تھا ۔۔
وہ جانتا تھا اسے کیا دیکھنے کو ملنے والا تھا جبکہ تیمور آفندی اور وجدان دم سادھے کھڑے تھے ۔۔
شمعون نے لاک گھمایا ۔۔
دروازہ بے آواز کھلتا چلا گیا ۔۔
سامنے کمرے کی حالت ایسی تھی جیسے یہاں سے کوئی طوفان گزرا ہو ۔۔
کوئی چیز بھی تو اپنی جگہ سلامت نہیں تھی ۔۔
لیکن سب سے خوفزدہ کر دینے والی چیز وہ مردہ سیاہ بلی تھی جس کے اندر سے سیاہ گاڑھا سیال بہہ بہہ کر اس کے آس پاس کی جگہ کو گھیر رہا تھا ۔۔
“اوہ خدا ۔۔”
تیمور آفندی بڑبڑائے ۔۔
وجدان نیچے سب کو بتانے بھاگا ۔۔
جبکہ شمعون کی سرد آنکھوں سے ایک موتی گرا جسے اس نے تیمور آفندی سے چھپا کر صاف کر لیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...