شموئل اور زرنیش کے نکاح کی تیاریاں زوروشور سے چل رہیں تھیں اب بس ایک دن باقی دہ گیا تھا۔
شموئل تو اس رات اگلےدن ہی اسلام آباد چلا گیا تھا زرنیش نے بھی یہ دن زیادہ تر اپنے کمرے میں گزارے تھے گھر والے اس قدر مصروف تھے کہ کسی نے زیادہ دھیان نہیں دیا۔
زرنیش باجی اٹھ جائیں دیکھیں سورج راجا بھی اٹھ گئے ہیں کب کے۔ملازمہ کھڑکیوں سے ہردے اٹھاتے ہوئے بولی۔
زرنیش کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر وہ اسکی طرف بڑھیں۔۔
اس نے زرنیش کو ہلایا مگر اسکے موجود میں کوئی جنبیش نہیں ہوئی۔
******************************
ٹھ ٹھک!دروازے پر دستک ہوئی اس وقت وہ کچن میں موجود تھی اماں گھر پر موجود نہیں تھی۔
دروازے پرر دوبارہ دستک ہوئی۔
وہ ہاتھ صاف کرتے دروازے کی جانب بڑھی ۔
جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا سامنے مشعل موجود تھی۔
اسکو دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
“کیا ہوا میڈم آپ تو ہمیں بھول ہی چکی ہیں ہمیں” وہ اسکویوں بت بنے دیکھ کر بولی۔
“ادھر سے ہی واپس چلی جاوں” اسکو یوں دروازے پر ہی کھڑے دیکھ کر اس نے نرم لہجے مگر طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ ”
نہیں اندر آؤ۔وہ ہٹتے ہوئے بولی۔
وہ اندر آتے یوئے بولی۔
وہ اس کے گلے لگی۔آج اس کو ماہنور کا لہجہ اور رویہ سرد لگا۔
کیا کوئی بات ہے۔اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
تم اندر آؤ۔وہ اسکو اندر بلاتے ہوئے بولی۔ ۔
************************
جی السلام علیکم !اس وقت وہ میٹنگ میں تھا جب اسے فون آیا۔
دوسری طرف سے معلوم نہیں کیا کہا وہ ہڑ بڑی میں ویاں سے نکلا اس کے چہرے ہر سنجیدگی اور ہریشانی کی عکاسی کرتے ہوئے تاثرات ابھرے۔
*********************
تسبیح کے دانے گراتے ہوئے وہ اسکی دلامتی کی دعا کررہے تھے۔
نشاط صاحب ایک طرف کرسی ہر بیٹھے یوئے تھے۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتے اندر آرہا تھا۔
کیا ہوا سب خیریت ہے نہ؟کیسے ہوا یہ۔شموئل اندر آتے ہوئے پوچھا۔
وہ چاہے جیسا بھی تھا لیکن اتنا برا بھی نہیں تھا بلکہ وہ تو برا تھا ہی نہیں۔
نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے اسکا۔ارشاد صاحب بولے۔
انکی بات سن کر اسکو پتا نہیں کیوں بے چینی لگ گئی تھی یہ سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھا۔
ڈاکٹرز نے کیا کہا۔وہ نشا بیگم کے پہلو میں بیٹھتا ہوا بوکا۔
بس دلاسہ ہی دے رہیں ہیں ۔وہ روتے ہوئئے بولیں۔
حوصلہ رکھیں۔شموئل انکو دلاسہ دیتے ہوئے بولا۔
اسکو اپنا دل بھاری ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
ناجانے کس کی نظر لگ گئی۔ میری ہنستی کھیلتی بچی کو۔نشا بیگم روتے ہوئے بولیں۔
اب یہاں اس کا بیٹھنا محال ہوگیا تھا۔
وہ وہاں سے اٹھ کر باہر آگیا۔
***********************
مانو ! بتاؤ تو سہی ۔وہ دونوں اس وقت اس کے کمرے میں موجود تھیں جب مشعل نے پوچھا۔
ایک بات بتا۔ مجھے ۔سنجیدگی سے ماہنور نے پوچھا۔
ہمممم۔اس نے جواب دیا۔ مشعل بہت حیران تھی اسکا یہ رویہ دیکھ کر وہ جو ہرٹائم غیرسنجیدہ رہتی تھی آج اتنی سنجیدہ کیسے۔۔
مجبت کیا ہے؟؟ اس نے بیڈ کی چادر پر انگلی گھوماتے ہوئے پوچھا۔
اس کی بات سن کر اسکے ذہن کے پردوں ہر زہرام کا سراپا لہرایا۔
ایک انجانی سی خوشی اس نے دل میں محسوس کی گالوں ہر گلاپی پن نے بسیرا کیا اور ہونٹوں پر ہلکے سے تبسم نے رقص کیا۔
“محبت ایک احساس ہے جسے صرف محسوس کیا جاتا ہے محبت کا کوئی چہرہ کوئی روپ نہیں ہوتا یہ تو سب ہوجاتی ہے”
یہ محبت کیا صرف امیر سے ہی یوتی ہے کیا؟؟اس کے لہجے میں سردپن تھا۔
نہیں جانتی کو جب تمہیں مجبت ہوجاتی ہے نہ تو تمہیں اگلے بندے سے کسی چیز کا سروکار نہیں رہتا بس وہ تمہاری عزت کرے اور جانتی کو جو لوگ پیڈہ دیکھ کر محبت کرتے ہکں تو کبھی بھی وہ لوگ خوش نہیں رہ ہاتے اور تو اور اس احساس سے محروم رہتے ہیں۔وہ بولی۔
لیکن ایک منٹ تم کیوں ہوچھ رہی ہو ؟؟کہیں تمہیں بھی تومحبت نہیں ہوگئی۔وہ پرجوش ہوکر بولی۔
اسکی بات کر وہ گربڑائی اور پھر سنبھل کر بولی۔
نہیں بھئی دماغ خراب تو نہیں ہوگیا۔
ایک منٹ تمہیں بھی سے کیا مراد۔وہ بات گھما کر بولی۔
اسکی بات کر اس کے چہرے پر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ آئی اور گالوں سے گلابی چھلکنے لگی۔
اس کے چہرے جو گلابی ہڑتے دیکھ کر وہ بولی۔
“کمینی” اور ساتھ ساتھ اسے کشن سے مارنے لگی۔
*******************
ایسا محسوس ہوتتا تھا جیسے کسی نے مخمل کا کمبل بچایا ہو جس کے اوپر وہ دھیرے دھیرے سے چل رہا تھا سامنے ہی سفید خوبصورت لباس پہنے کھڑی تھی وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اسکی جانب بڑھ رہا تھا۔
مشک کی خوشبو سے فضا معطر تھی
جیسے ہی اس کے قریب پہنچا۔وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے ہٹی دو آنسو موتیوں کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے
میں نے خود سے زیادہ اسکی خفاظت کی اور آج تم نے اس حال میں پہنچادیا اسے ۔تو میں نے تمہیں سونپا تھا خود کی جان قربان کرکے اور تم نے آج اسے توڑدیا”وہ روعہی اور وہاں سے چلی گئی۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی۔
کہ اچانک آنکھ کھولی اور اس کا وجود پسینے سے شرابور تھا ۔عہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔
“وردہ” ۔۔۔۔۔۔زرنیش”
یہ دو الفاظ تھے جو سانس بحال ہونے کے بعد اس نے لیے تھے۔
یااللہ ۔وہ اپنا سر ہاتھوں میں گراکر بولا۔
**********************
ابھی ابھی وہ اپنے گھر پہنچی تھی کہ اس کے فون پر ایک مسیج موصول ہوا۔
مسیج دیکھتے ہی اس کا چہرے خوشی سے دھمک اٹھا۔
اگلے ہی لمحے اس نمبر سے کال آنے لگی۔
اس نپے کال اٹینڈ کی۔
السلام علیکم ۔دوسری طرف سے مردانہ آواز آئی۔
وعلیکم السلام !مشعل نے جواب دیا۔
کیسی ہیں اور کیا کررہی ہیں مخترمہ؟زہرام شوخ لہجے میں بولا۔
کچھ نہیں۔آپ بتائیں۔مشعل نے جواب دیا۔
ہمیں آپکی یادوں سے فرصت ملے تو کچھ کریں نہ۔وہ بولا۔
اسکی بات سن کر مشعل کچھ جواب دیتی فون کسی نے اسکے ہاتھ سے چھینا۔
اگر تم سچ میں محبت کرتے ہو تو عزت سے اپنے والدیں کے ساتھ آکر رشتہ لے کر جاؤ۔کنزہ بیگم کی کی کڑک آواز سن کر زہرام چونک گیا اور مشعل کو اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہوا۔
امی۔وہ بولی۔
کنزہ بیگم خاموشی سے وہاں سے چلی گئیں۔
انکو جاتا دیکھ کر اسکو بہت دکھ ہوا۔
********”****************
وہ ہاتھ جوڑے اسکے سامنے بیٹھا تھا۔ابھی کچھ ہی دیر پہلے وہ انکو اکیلا چھوڑ کر باہر گئے تھے۔
مجھے معاف کردو ۔۔۔پلیز دیکھو میں نہیں جانتا تھا کہ میری وجہ سے تم اس حال میں پہنچ جاؤ گی مجھے معاف کردو اللہ کے لیے۔وہ رو رہا تھا۔
زرنیش سر جھکائے اسے سن رہی تھی۔ آنسو گر رہے تھے۔
خواب صرف شموئل کو نہیں اسے بھی آیا تھا۔
میں جانتی یوں آپ غلط نہیں تھے وہ ایک وقتی ٹروما تھا آپکی جگہ کوئی اوربھی ہوتا اگر
میں بھی ہوتی تو میرا بھی ردعمل یہی یوتا جائیں معاف کیا آپکو مگر۔۔۔آج کہ بعد اگر ایسا ہوا تو میں برداشت نہیں کرونگی۔وہ سادہ لہجے میں بولی ہ آخری جملے میں دھمکی تھی۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرایا دل میں ایک اطمینان اتر گیا۔
***************************
غم کے سائے ہٹ چکے تھے شموئل اور زرنیش کا نکاح بخیروعافیت ہوگیا تھا۔ باقی کے فنکشنز زہرام کی شادی کے ساتھ کیے جائیں گے ایسا سوچا گیا تھا۔
ہاں جی تو میاں کب لڑکی دیکھنے جانا ہے۔ملک اقتتدار نے پوچھا۔
دادا جان ! ہفتے والے دن۔زہرام نے مسکرا کر جواب دیا۔
اس وقت ٹیبل پر سب موجود تھے۔
جب زرنیش اور شموئل بھی آئے۔
شموئل کرسی نکالو بیگم کے لیے۔دائمہ پھپھو نے کہا۔
ہائے پھپھو ابھی تو رخصتی بھی نہیں ہوئی اور آپ مجھے جوڑو کا غلام بنارہی ہے۔وہ منہ بنا کر بولا۔
اسکی بات سن کر زرنیش جھنپ گئی سب کے قہقے بےساختہ تھے۔
ملک جی باہر کوئی آیا ۔۔۔ملازم نے خبر دی۔
کون ہے؟؟اقتدار صاحب نے ہوچھا ۔
ارحم نام بتارہے ہیں وہ اپنا۔وہ بولا۔
مصطفی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور چہرے کے اثرات پتھریلے تھے۔
اسے بولو دفع ہوجائے یہاں سے۔ ملک مصطفی اپنی نشست سے کھڑے کوگئے اور دھاڑے۔ ہاتھ میں پکڑا جوس کا گلاس زمین بوس ہوکر چکنا چور ہوگیا۔
گھر کے بچے اپنے سوئیٹ چاچو کا یہ روپ دیکھ کر ڈرگئے۔
مرال بھی اپنے ڈیڈ کی یہ سائیڈ یکھ کر شاک رہ گی تھی۔
ایک بار بات سن لو۔ملازم کے پیچھے سے ایک آواز آئی۔
تم۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں داخل ہونے کی ۔وہ غصے کے مارے آگے بڑھا۔
شموئل اور زہرام نے انہیں سنبھالا۔
میں بھی یہاں آنے کا روادار نہیں تھا بس ایک چیز بتانے آیا تھا۔راحم بولا۔
مجھے کچھ بھی نہیں سننا ۔یہ کہہ کر وہ اوپر کی جانب بڑھا۔
“کنزہ بے قصور تھی” ابھی آدھی سیڑھیاں چڑھا تھا جب یہ الفاظ اس کے کانوں میں پڑے۔
اس کے قدم وہیں ساکت ہوگئےملک فرحان اٹھ کھڑے کوۂے۔ساریہ کو اپنا دل رکتا ہوا محسوس ہوا۔ینگ پارٹی ایک دوسرے کو ناسمجھی سے دیکھ رہی تھی صرف شموئل تھا جو سارے حالات سے واقف تھا۔
کیا کہا تم نے۔؟؟وہ مڑ کر بولا۔
“کنزہ معصوم تھی۔اس رات میں نے جھوٹ بولا تھا میرا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا ہم نے تو کبھی روبرو بات بھی نہ کی تھی” ۔ وہ آگے آتا ہوا بولا۔
“کمینے۔تجھے شرم نہ آئی دوست کے گھر آگ لگاتے ہوئے” .وہ برق رفتاری سے اسکی جانب بڑھا اور اسکا گلا دباتے کوئے بولا۔
نشاط صاحب اورارشاد صاحب نے مشکل سے اسے چھڑوایا۔
وہ کھانس رہا تھا۔
“میں نے اسے یارغار کہا تھا اور اس نے میری پیٹھ پر ہی خنجر مارا ہے۔”وہ چلاتے یوئے بول رہا تھا۔
ملک فرحان کرسی پر ڈھہ گئے تھے۔
ارحم کی برداشت سے باہر ہوا تو وہ بھی بولا۔
“تمہیں خود نہیں یقین تھا اس پر تم اندھے تو نہیں تھے جو اسکی معصومیت نہیں دیکھ پائے اور نہ بہرے جو اسکی باتیں نہیں سن سکے اور اپنی اس بیوی سے ہوچھو جس کی وجہ سے تم نے اس معصوم کی زندگی تباہ کردی یہ سب پلاننگ ساریہ نے کی تھی جس کے ساتھ تم نے اتنے سال زندگی کے گزارے اور جانتے ہو ہماری پلاننگ تو یہ تھی ہی نہیں تم خود اس سے اکتا چکے تھے جو ایک چھوٹی سی بنیاد بنا کر اسے چھوڑ ڈالا”
“سچ کہوں تو مصطفی تم نے ایک پیتل کے لیے انمول ہیرا گنوادیا ”
“محبت کو پالینا اصل کامیابی نہیں آخری دم تک نبھانا کامیابی ہے۔جانتے ہو جب وہ میرے ساتھ گاڑی میں تھی تو میں نےاسے کہا تھامصطفی ساریہ سے محبت کرتا ہے اور وہ جلدتمہیں چھوڑ دے گا اس نے یقین نہیں کیا اور کہا مجھے مصطفی کی محبت ہر یقین ہے انکی محبت ہرمیرا ایمان ہے اور تم نےاس کے مان کی کرچیاں کردیں”
بہت خسارے کا سودا کیا تھا تم نے۔راحم نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔
مصطفی چپ لوگیا تھا واقعی قصور تو اسکا تھا وہ چھٹکارا ہی توچاہتا تھا۔ اس سے ۔
اورآپ۔اب وہ ملک فرحان کی جانب بڑھا۔
آپ باہ تھے نہ اسکے ۔اسکو تب سے جانتے تھے جب سے وہ بول بھی نہیں سکتی تھی پھر پھر کیسے آپ نے اسےدھتکارا آپ تو اسکی آخری امید تھے مگر صد افسوس۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا۔
مصط۔مصطفی میری بات سنیں بکواس کر کے گیا ہے وہ۔ساریہ آگے بڑھی اور اسکا بازو پکڑا
چٹاخ۔ہاتھ مت لگانا مجھے زندگی برباد کر
دی تم نے میری۔وہ اس نے اسکو تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔۔
ساریہ بے یقینی کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی جو اسکے سامنے سے جاچکا تھا۔
**********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...