“بیڈ سائیڈ ٹیبل اور کاؤچ سے ہوتی ہوئی سینٹر ٹیبل پر آکر اس کی نظریں ہار گیئیں۔ کوئی ایک چیز بھی عشال کے مطلب کی نہیں تھی۔ اس نے آہستہ سے آنکھیں بند کر کے کھولیں۔ شاید وہ ٹھیک ہی تھا۔ اس کے سارے راستے بند ہوچکے تھے۔
“اللہ میں کیا کروں؟”
عشال نے بے بسی خود پر طاری ہوتی محسوس کی۔ لیکن یہ وقت مایوس ہونے کا نہیں تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی ساری ہمتیں جوڑ کر خود کو سمیٹا تھا۔ اچانک عشال بغیر سوچے سمجھے باتھ روم میں گھس گئی۔ اس نے دروازہ اندر سے لاک کرکے دیوانہ وار کیبنٹس کی تلاشی لینی شروع کردی۔
اس کے ہاتھ مشینی انداز میں ہر چیز کو کھنگال رہے تھے۔
“میل از ریڈی۔۔۔۔!”
اسے باہر شامی کی آواز سنائی دی تھی۔ عشال لمحہ بھر کو ٹھٹکی۔ مگر پھر دوبارہ سے اپنے کام میں مگن ہوگئی۔ وہ کوئی دسیوں بار ان چیزوں کو دیکھ چکی تھی۔
“عشال۔۔۔؟
شامی نے ایک بار پھر اسے آواز دی تھی۔ مگر وہ ناکام ہو کر باہر نہیں جانا چاہتی تھی۔
” از ایوری تھنگ آل رائٹ؟”
شامی کی فکرمند آواز دوبارہ گونجی۔
عشال اب زیادہ دیر یہاں نہیں رک سکتی تھی۔ شامی مشکوک ہوسکتا تھا اور یہ وہ نہیں چاہتی تھی۔مجبورا چہرہ دھو کر باہر نکل گئی۔
“سب ٹھیک ہے؟”
شامی نے اسے بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“تمہیں کیا لگ رہا ہے؟”
عشال نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اس کے ہاتھ میں تولیہ تھا۔ جس سے چہرہ خشک کررہی تھی۔
“مجھے لگا تم باتھ روم سے بھاگنے کا راستہ ڈھونڈ رہی ہو۔”
شامی نے مسکرا کر خدشہ ظاہر کیا۔
“تم سے بھاگنے کی میری ہر کوشش ناکام ہوچکی۔ اب تو فرار کی خواہش بھی مر گئی ہے۔”
عشال نے سپاٹ لہجے میں اعتماد سے جواب دیا۔
شامی نے مسکرا کر کھانا اس کے آگے کردیا۔
“تم کھانا کھا لو۔ پھر ڈیل فائنل کرتے ہیں۔”
عشال کاؤچ پر آبیٹھی اور کھانے کی ٹرے اپنی طرف کھسکا لی۔
شامی اس کی ایک ایک حرکت کو دیکھتا رہا۔ مگر نوالہ حلق سے اتارتے ہی عشال کو پھندہ لگ گیا۔ وہ بری طرح کھانسنے لگی۔
“کیا ہوا عشال؟”
شامی فکرمندی سے اس کے نزدیک ہوا۔
“پانی۔۔۔!”۔
عشال نے بمشکل پھنسی ہوئی آواز میں کہا۔
شامی تیزی سے پانی لینے اٹھا۔ اس اثناء میں عشال نے جھپٹ کر ریوالور پر قبضہ کر لیا۔
شامی گلاس لے کر جونہی پلٹا۔ عشال کے ہاتھ میں گن دیکھ کر بت بن گیا۔
“گریٹ! تم ایکٹنگ بھی کر لیتی ہو؟ تمہارے اس ٹیلنٹ کا تو مجھے ابھی پتہ چلا ہے۔”
شامی نے اسے سراہا تھا۔
“سنو مسٹر ابشام زبیر! وقت ضائع کیے بغیر مجھے یہاں سے نکالو۔ ورنہ تمہیں شوٹ کرنے کے لیے مجھے سوچنے کی بھی ضرورت نہیں۔ آگے بڑھو لاک کھولو!”
عشال کا چہرہ زرد پڑچکا تھا۔ لیکن وہ کچھ بھی کر گذرنے کو تیار تھی۔
“اور اگر میں انکار کردوں تو؟”
شامی نے ڈھٹائی سے سینے پر ہاتھ باندھے تھے۔
“تو۔۔۔ تو میں خود کو شوٹ کر لوں گی۔ لیکن تمہارے لیے خود کو زندہ نہیں رہنے دوں گی۔”
عشال نے گن کو اپنے ماتھے پر ٹکا کر دونوں ہاتھ اس پر مضبوط کر لیے تھے۔
شامی کا رنگ ایکدم بدلا۔ یہ وہ کسی قیمت پر نہیں چاہتا تھا۔
“تم بہت بڑی غلطی کررہی ہو۔ عشال!”
شامی کی آنکھوں میں تذبذب وہ دیکھ چکی تھی۔ اس لیے اپنے اقدام پر مضبوط ہوگئی۔
“ٹھیک کہا تم نے۔ میں چھوٹا کام نہیں کرتی۔”
عشال نے ٹریگر پر انگلی رکھی۔
“اسٹاپ ڈیمن! آئی لو یو”
وہ دھاڑا۔ مگر عشال پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
“تم لاک کھول رہے ہو یا نہیں؟”
عشال بھی چلائی تھی۔ اس کی ہتھیلیوں میں پسینہ آنے لگا اور گن پر گرفت مضبوط ہوگئی۔
شامی نے بے بسی سے سر جھکایا اور بھیگی آنکھوں سے ایک بار اسے دیکھا۔
“میں دوبارہ نہیں کہوں گی۔ لاک کھولو ورنہ میں فائر کرنے لگی ہوں۔”
عشال کی پھٹی پھٹی آنکھیں، ٹریگر پر انگلی اور زرد رنگت شامی کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کررہی تھی۔
بالآخر شامی کے وجود میں جنبش ہوئی اور اس نے جیب سے چابیاں نکال کر کی ہول میں گھسا دیں۔ مگر عشال مسلسل اس کی نظروں کے حصار میں تھی۔
عشال نے اپنی کنپٹی پر پستول رکھے رکھے دروازے کی طرف بڑھنا چاہا۔ اس کی گرفت پوری طرح پستول پر جمی ہوئی تھی۔
شامی نے دروازہ کھول دیا اور خود دہلیز سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔ اور عشال کو جانے کا راستہ دیا۔
“تم میرے آگے چلو۔”
عشال نے گن کا رخ اس کی جانب موڑا۔ شامی اعتراض کیے بغیر آگے بڑھا۔
“گاڑی کی چابیاں۔۔۔؟”
عشال نے ہتھیلی پھیلائی۔
شامی نے جیب سے چابیاں نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیں۔
عشال اسے آگے لیے ہوئے قدم بہ قدم سیڑھیاں اترنے لگی۔ شامی محتاط انداز میں اس کے نشانے پر آہستگی سے چل رہا تھا۔
لاؤنج کی سیڑھیاں اترتے ہی عشال کا پاؤں اپنے ہی لباس میں اٹکا۔ وہ ذرا سا لڑکھڑائی۔ اور شامی کے لیے اتنا کافی تھا۔ اس نے مڑ کر جست لگائی اور عشال سمیت لاؤنج کے فرش پر گر گیا۔
پستول عشال کے ہاتھ سے چھوٹ کر قدرے فاصلے پر گرا۔ عشال نے اسے جھپٹنے کی کوشش کی مگر شامی نے اس کا ہاتھ کھینچ کر قابو میں کرلیا۔ عشال اس کی گرفت میں تڑپی۔ مگر شامی اس کا دوسرا ہاتھ بھی گرفت میں لے چکا تھا۔ عشال نے خود کو چھڑانے کے لیے شدید کوشش شروع کردی۔ اس دھینگا مشتی میں عشال کا لباس بازو سے نکل گیا۔
“میں تمہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ لیکن تم نے مجھے دھوکہ دیا۔۔۔۔”
ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ عشال نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ جو شامی کی آنکھ میں گیا۔ اس کی گرفت ڈھیلی پڑتے ہی عشال نے ہاتھ چھڑا کر انگلیاں شامی کی آنکھوں میں گھسا دیں۔ شامی کی وحشتناک چیخ سے عمارت گونج اٹھی۔ عشال تیزی سے خود کو چھڑا کر کھڑی ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ شامی سنبھلتا عشال نے گن جھپٹی اور اس کا رخ شامی کی طرف کرکے پے درپے فائر کردیے۔ گن کا سیفٹی لاک نہیں لگا ہوا تھا۔ دو چار شعلے پستول کی نال سے نکلے اور شامی کی طرف بڑھے۔ لیکن شامی جو اٹھنے کی کوشش میں تھا۔ بے اختیار اوندھا ہوا تھا۔ اور اس کی بھیانک چیخ نے عشال کو کانوں پر ہاتھ رکھنے پر مجبور کردیا۔ پتہ نہیں اسے گولی کہاں لگی تھی۔ عشال نے آنکھیں میچ لی تھیں۔ گھبراہٹ میں عشال کے ہاتھ سے گن بھی چھوٹ کر قدموں میں آگری۔
اس نے پلٹ کر دیکھنے کے بجائے کپکپاتے ہاتھوں سے لاؤنج کا دروازہ کھولا۔ اور باہر نکل گئی۔
وہ نہیں جانتی تھی۔ باہر گھومتے ہاؤنڈز سے وہ کس طرح نمٹے گی۔ وہ اندھا دھند باہر کی طرف بھاگی تھی۔
****************
کالے بادلوں نے آسمان کو پوری طرح ڈھانپ لیا تھا۔ پہلا قطرہ موٹی بوند کی شکل میں عشال کے جسم سے ٹکرایا اور پھر اچانک ہی سب کچھ جل تھل ہوگیا۔ عشال نے گھور اندھیرے میں آنکھیں پھیلا کر دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن بارش کی تڑتڑاہٹ اور دل ہلادینے والی گرج چمک میں کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ وہ اپنا زرد شرارہ کناروں سے اٹھائے بھاگتی ہوئی پورچ کی طرف بڑھی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ گاڑی کے قریب پہنچتی۔ سیاہ رنگ ہاؤنڈ اپنے نوکیلے دانت اور لٹکی ہوئی زبان کے ساتھ خطرناک تیوروں سے عشال کو دیکھ رہا تھا۔ عشال کو اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا۔ وہ جہاں تھی وہیں جم کر کھڑی رہ گئی۔
اس کی سانس تک سینے میں اٹک کر رہ گئی۔۔۔۔ اس کے اور گاڑی کے درمیان وہ شکاری کتا تھا۔ جس کی قد و قامت ہی عشال کو ہراساں کیے دے رہی تھی۔ مگر وہ زیادہ دیر تک اس طرح کھڑی نہیں رہ سکتی تھی۔ ایک درندہ اس کے تعاقب میں بھی تھا۔ اور دوسرا اس کے سامنے کھڑا تھا۔ عشال کے پاس فیصلہ کرنے کا بس یہی لمحہ تھا۔ لہذا اس نے کانپتے وجود کے ساتھ آہستگی سے ایک پیر کار کی طرف کھسکانا چاہا اور یہی اس کی غلطی ثابت ہوئی۔ ہاؤنڈ پہلے تو بری طرح اس پر بھونکا، پھر اس نے عشال پر چھلانگ لگادی۔۔ یقینی موت کو سامنے دیکھ کر عشال نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔
**************
گولی شامی کی ٹانگ کو چھیدتی ہوئی گذر گئی تھی۔ پل بھر اسے لگا زندگی سے اس کا ناتا ٹوٹ چکا ہے مگر اس سے پہلے کہ اس کی آنکھیں بند ہوتیں۔ وہ ٹانگ کو خون میں ڈوبے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ کوئی چیز تھی جو آگ بن کر اس کے گوشت میں گھسی چلی جارہی تھی۔ لیکن شامی کو نہ اس درد کی پرواہ تھی نہ خون بہنے کی۔ وہ صرف اپنے حواس سنبھالنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس احمق لڑکی کو وہ چاردیواری سے باہر موجود خطرے سے آگاہ کرچکا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی اس کی محبت کو ایک بار پھر ٹھوکر مار کر موت کو گلے لگانے چل پڑی تھی۔ شامی کو حقیقی معنوں میں توہین کا احساس ہوا۔ عشال نے اسے نا صرف دھوکہ دیا تھا۔ بلکہ موت کو اس کی محبت پر ترجیح دی تھی۔ اور یہ اسے کسی صورت قبول نہیں تھا۔
“عشال! تمہیں میں نے تمہاری مرضی سے حاصل کرنا چاہا لیکن تم نے مجھے دھوکہ دیا۔ اب تمہارے وجود پر اپنے نام کی اسٹیمپ لگائے بغیر تو تمہیں مرنے بھی نہیں دوں گا۔”
خود سے عہد کرتا وہ پھولی سانس کے ساتھ اٹھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ دہلیز پر پڑا پستول بھی اس نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
****************
عشال آنکھیں میچے موت کے لیے تیار تھی۔ اسی لمحے فضا میں فائر کی آواز گونجی۔ عشال نے بے اختیار آنکھیں کھولیں۔ جس کتے نے اس پر حملہ کیا تھا وہ ہوا میں ہی چیخ کر دھپ سے زمین پر گرا تھا۔ اس کے مردہ جسم سے رستا خون دیکھ کر عشال نے جھر جھری لی۔ اسے چند سیکنڈ لگے تھے صورتحال سمجھنے میں۔ شامی نے کتے پر فائر کیا تھا اور اب آنکھوں میں قہر لیے عشال کے راستے میں کھڑا تھا۔
بارش تڑ تڑ برس رہی تھی۔ شامی کی گن کا رخ اب عشال کی طرف تھا۔
“کم آن عشال!
عشال نے ایک نظر شامی کی طرف دیکھا نفی میں سر کو دائیں بائیں جنبش دی اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔
شامی لب بھینچے گن پکڑے کھڑا رہ گیا۔ وہ چاہ کر بھی عشال پر فائر نہیں کرسکا۔ اور وہ شامی کے سامنے سے نکل کر تاریکی کا حصہ بن گئی۔
” ڈیمن!”
شامی بے بسی سے گن کو جھٹک کر رہ گیا۔۔ عشال اس کے سامنے سے نکل کر جاچکی تھی۔ شامی زخم خوردہ وحشی کی طرح عشال کے پیچھے لپکا تھا۔
**************
“عائشہ مسلسل کمرے میں اہل رہی تھیں۔ ہاتھ میں سیل فون تھا اور اضطراری انگلیاں بار بار ایک ہی ننمبر پنچ کررہی تھیں۔ جواب نہ موصول ہوتا تو دوبارہ کوشش کرنے لگتیں۔ مسٹر زبیر عثمانی کسی سوچ میں تھے لیکن چہرے پر فکر مندی کے آثار گہرے نہیں تھے۔
” کب تک خود کو سزا یہ سزا دیتی رہو گی۔ وہ save ہے۔”
بالآخر زبیر صاحب کا ضبط جواب دے گیا۔
“تم زبیر عثمانی تم! ایک بات یاد رکھنا، میری پوری زندگی کا حاصل صرف شامی ہے۔ اور اگر اسے کچھ ہوا تو آباد تم بھی نہیں رہو گے! میں تمہیں تباہ کردوں گی۔”
عائشہ ذرا سا جھک کر زبیر صاحب پر غرائی تھیں۔
“تم بلاوجہ بات کو ایشو بنا رہی ہو۔ میں سنبھال لوں گا سب!”
“پولیس کیس بن گیا ہے اس پر! یہ سنبھالا ہے تم نے؟”
عائشہ اس وقت کچھ سننے کو تیار نہیں تھی۔
“عائشہ کام ڈاؤن! اس طرح کی فیملیز اپنا تماشا ہرگز گوارا نہیں کرتیں۔ وہ کبھی پولیس کے پاس جانے کی غلطی نہیں کرسکتے۔”
زبیر عثمانی نے عائشہ کو تشفی دی۔
“تم انھیں انڈرایسٹیمیٹ کررہے ہو۔ وہ واضح الفاظ میں پولیس کی دھمکی دے گئے ہیں۔ اور اس سب کے ذمہ دار تم ہو۔ تمہاری سو کالڈ ایگو کی وجہ سے اگر شامی کو کچھ ہوا تو۔۔۔۔جتنا برا تم سوچ سکتے ہو ، تمہارے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا ہونے والا ہے۔”
عائشہ کہہ کر رکی نہیں۔ وہ سیل سمیت بیڈروم سے باہر چلی گئی تھی۔
زبیر عثمانی عائشہ کی بات نظرانداز نہیں کرسکے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عائشہ کی سپورٹ اگر زبیر کو عرش پر پہنچاسکتی تھی تو فرش پر پہنچانے میں بھی دیر نہیں لگنی تھی۔
کچھ سوچ کر زبیر صاحب نے اپبا سیل اٹھایا اور شامی کا نمبر ٹرائی کیا لیکن حسب سابق وہ اب بھی بند جارہا تھا۔ اور پہلی بار زبیر عثمانی کی پیشانی پر تفکر کی شکن ابھری تھی۔
****************
موسم کی شدت قدرے کم ہورہی تھی۔ موسلا دھار برسنے والی بارش کا زور قدرے ٹوٹا تو تھا۔ لیکن آسمان پوری طرح صاف نہیں تھا۔ نوکیلی پھوار کی صورت پانی برسنے کا سلسلہ ابھی جاری تھا۔ شہیر لاؤنج سے ضیاءالدین صاحب کو سادہ لباس میں پولیس انسپکٹر کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اس نے دو ایک بار گفتگو میں حصہ لینا چاہا مگر ضیاءالدین صاحب اور آغا جان نے اسے اس معاملے سے دور رہ کر گھر اور خواتین کا خیال رکھنے کی ذمہ داری دے دی تھی۔ چنانچہ وہ دور سے ہی معاملے کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس کے اندر جو جوار بھاٹا کھول رہا تھا اس کا اظہار وہ کسی سے نہیں کرسکتا تھا۔ اسے ایک بار تو شامی سے دوبدو ملنا ضرور تھا۔
“آپ فکر نہ کریں انصاری صاحب! ہماری نفری لڑکے کا کھوج لگا چکی ہے۔ اور کچھ لوگوں کو ہم نے روانہ بھی کردیا ہے۔ مسئلہ بس چھوٹا سا ہے۔ جس فارم ہاؤس کا ہمیں پتہ چلا ہے وہ شہر سے باہر ہے۔ اوپر سے موسم بھی خراب ہے، اس لیے تھوڑا وقت لگ رہا ہے۔ لیکن آپ فکر مت کریں۔ جلد ہی لڑکی کو ہم بازیاب کرالیں گے۔ ان شاءاللہ!”
پولیس انسپکٹر انھیں تسلی دے رہا تھا۔ مگر ضیاءالدین صاحب کے دل کی بے کلی سوا ہوگئی۔ وہ مطمئن نہیں ہوسکتے تھے۔ صارم نے کسی قدم کی دلچسپی نہیں دکھائی۔ وہ وقار کو صورتحال بتاکر بارات روک چکا تھا۔ اور اب آکر خاموشی سے ٹہلنے لگا تھا۔
“صارم بھائی چائے!”
شہیر نے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا۔
“شکریہ! اس کی ضرورت نہیں۔”
صارم نے روکھے سے انداز میں چائے سے معذرت کی۔
“جانتا ہوں! آپ کے دل کو کسی چیز کی طلب نہیں، لیکن تھکے ہوئے اعصاب اور شل ہوتی سوچوں کو تھوڑی دیر کے لیے سکون ضرور مل جائے گا۔ میرا مشورہ ہے پی لیجیے۔ آئندہ حالات پتہ نہیں ہمارے لیے کیا طے کرنے والے ہیں۔ اسے ایک وٹتی دوا سمجھ کر پی لیں۔”
شہیر نے ہمدردانہ انداز میں اسے مشورہ دیا تھا۔ صارم نے ایک لحظہ چائے کے کپ کو دیکھا اور شہیر کے ہاتھ سے لے لیا۔ اس کی نظریں بار بار وقت کی سوئیاں ماپ رہی تھیں۔
****************
عشال تیز برستی بارش میں دوڑتی چلی گئی۔ اسے اب موت کی پروا نہیں تھی۔ کتنے ہی کنکر، کانٹے اور کانچ اس کے پیروں میں آکر اسے لہولہان کرتے چلے گئے، مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ زندہ شامی کے ہاتھ نہیں لگنا۔ لیکن مین گیٹ کے سامنے اسے رکنا پڑا۔ وہاں موٹا سارا تالا زنجیر کے ساتھ جھول رہا تھا۔ عشال بری طرح تڑپی۔ اس نے دو ایک بار مڑ کر دیکھا۔ اسے بارش کے شور میں شامی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جو پوری طاقت سے ادے نام سے پکار رہا تھا۔ عشال کی آنکھوں میں خوف لہرایا۔ لمحہ بہ لمحہ اس کی آواز نزدیک ہورہی تھی۔ عشال کو اپنی بے بسی پر رونا آیا۔ مگر وہ جانتی تھی۔ اس کے پاس رونے کا بھی وقت نہیں ہے۔ عشال نے اہنے گیلے گال پونچھے اور گیٹ کی گرل کو مضبوطی سے پکڑا۔ زخمی پیروں کو بھی گیٹ کے ڈیزائن میں پھنسایا اور اوپر کی طرف چڑھنے کی کوشش کی۔
“عشااااال!”
ابھی اس نے چڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ شامی کی آواز اس کے پاس گونجی۔ عشال کے ہاتھ لڑکھڑائے۔ اس نے غیر ارادی طور پر مڑ کر دیکھا۔ شامی قدرے فاصلے پر کھڑا دھاڑا تھا اور اب زخمی ٹانگ کو گھسیٹتے ہوئے پوری طاقت سے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
عشال کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کا ہاتھ گرل پر پھسلا لیکن منہ سے نکلنے والی بے اختیار چیخ کے بعد وہ سنبھل گئی تھی۔ عشال نے اپنی حرکت میں تیزی لانے کی کوشش کی مگر پاؤں میں چبھن کی وجہ سے وہ زیادہ تیزی نہیں دکھا پارہی تھی۔ جبکہ شامی اب کچھ ہی فاصلے پر تھا۔
******************
ہائی وے پر وہ ٹرک اپنی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ پچاس پچپن کے پیٹھے میں اس ڈرائیور کو ایسے موسمی حالات کا سابقہ پڑتا رہتا تھا۔ مختلف شہروں میں ایسے مال بردا ٹرک دوڑاتے اس کی زندگی بیت چکی تھی۔ سولہ سالہ شفقت اس وقت نیند اور تھکن کی اونگھ میں تھا۔ جب اچانک ٹرک کو جھٹکا لگا اور شفقت ہڑبڑا کر جاگا تھا۔
“کیا ہوگیا استاد؟ سب ٹھیک تو ہے؟”
شفقت جانتا تھا کہ اس کا استاد معمولی باتوں پر لڑکھڑانے والوں میں سے نہیں۔
“راستے میں کچھ تھا۔”
استاد حیران پریشان صورت لیے راستے کو گھور رہا تھا۔
“کیا استاد؟ تم کو اس عمر میں اب بھوت چڑیل نظر آنے لگ گئے ہیں؟”
شفقت نے نیند بھری آواز میں ٹھٹھہ اڑایا۔
“بکواس نہ کر! میں نے ابھی ابھی سڑک پہ کسی کو دیکھا ہے۔ پتہ کر ایکسیڈنٹ تو نہیں ہوگیا؟”
استاد نے شفقت کو لتاڑا۔
“چھوڑو استاد نکلنے کی کرو! خواہ مخواہ کیوں مصیبت مول رہے ہے؟
شفقت کسی مسئلے میں پڑنے کو تیار نہیں تھا۔
“منہ بند رکھ۔ اور جا کے دیکھ کیا معاملہ ہے؟”
استاد نے اسے لتاڑا تو شفقت کو اترتے ہی بنی۔
وہ ٹرک سے کود کر اتر گیا اور محتاط انداز میں چلتا ہوا سڑک کے وسط میں پہنچا ہی تھا کہ وہ تیزی سے اس سے آکر لپٹی تھی۔
“خدا کے لیے میری مدد کریں آپ کو اللہ کا واسطہ!”
وہ بری طرح اسے جھنجھوڑ رہی تھی۔ تیز تیز بولتے ہوئے اس کے لفظ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے۔
“استاد!”
شفقت بوکھلا کر رہ گیا تھا۔ اسے بس اتنی ہی سمجھ آئی تھی۔ کوئی بلا تھی جو اس برستی رات میں اس سے چمٹ گئی تھی۔ لیکن جہاندیدہ استاد سارا تماشا دیکھ چکا تھا۔ وہ بھی تیزی سے ان تک پہنچا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔
“آرام سے بتاؤ بی بی تمہارا مسئلہ کیا ہے؟”
“مجھے شہر جانا ہے بابا! میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔”
سڑک کے وسط میں گری ہوئی تھی۔ لباس سے کوئی دلہن لگتی تھی۔ استاد نے اس کا چہرہ دیکھا، حلیہ دیکھا اور شانوں پر پڑی چادر سے اس کا سسکتا وجود ڈھانپ دیا۔
“ہے۔۔۔ ائی۔۔۔۔ی۔۔ی۔۔ی۔۔!”
شامی دھاڑتا ہوا اس کے پیچھے لپکا تھا لیکن وہ خود کو گھسیٹ کر ٹرک میں سوار ہوچکی تھی۔ شامی کی زخمی ٹانگ خون کی لکیر بناتے ہوئے پبارش کے پانی میں مدغم ہوگئی تھی۔
شامی نے گن کا رخ ٹرک کے ٹائروں کی طرف سیدھا کیا۔ اور ٹریگر پر انگلی جمائی۔
*****************
شامی نے ٹریگر پر انگلی مضبوط کی ہی تھی کہ اس کے ہاتھوں کی گرفت جواب دینے لگی۔ اس کا ہاتھ بے جان ہوکر اس کے پہلو میں گرا تھا اور وہ کیچڑ زدہ سڑک پر اوندھے منہ گر گیا تھا۔
دور ہوتے ٹرک کی بتیاں اندھیرے میں ٹمٹماتے دیے کی طرح لو دیتی چھوٹی ہوتی جارہی تھیں۔
***************
وہ گدلی زمین پر زخمی پاؤں گھیسٹتی دوڑ رہی تھی۔ بے دم ہوتی سانسوں کے ساتھ اس نے سر سے پھسلتی بھاری چادر کو کھینچ کر اپنے گرد کسنے کی کوشش کی اور ٹھٹھرتی نظروں سے ایک بار نگاہ اٹھا کر سامنے کے منظر کو سمجھنے کی کوشش کی۔ رنگین قمقموں سے سجی پرشکوہ عمارت پر سوگوار خاموشی طاری تھی۔ صدر دروازے پر چوکیدار موجود نہیں تھا۔ چھوٹا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ شاید کوئی مکین ابھی ابھی اندر داخل ہوا تھا۔ اس نے تلووں کی تکلیف محسوس کیے بغیر قدم آگے بڑھائے اور تیر کی طرح اندر داخل ہوگئی۔
عشال۔۔۔؟
پہلی نظر اس پر شہیر کی پڑی تھی۔ لیکن وہ ہر سوال ہر نگاہ عقب میں چھوڑتی ہوئی سیدھی اس بت سے ٹکرائی تھی۔ جو اس کا محرم جاں تھا۔
“صارم!”
میں لوٹ آئی ہوں۔ صرف آپ کے لیے۔ مجھے دیکھیے صارم! میں نے آپ کی امانت کو جان سے زیادہ سنبھال کر رکھا۔ میں نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی صارم۔ صرف آپ کے لیے۔ صارم صرف آپ کے لیے۔آپ کہاں تھے میں نے صرف آپ کو یاد رکھا صارم۔۔۔۔
وہ صارم کی شیروانی کو مٹھیوں میں جکڑے تیز تیز بول رہی تھی۔ وہ خود بھی نہیں جانتی وہ کیا کہہ رہی ہے۔ وہ بول رہی تھی اور وہاں موجود ہر نفس آنکھیں پھاڑے اسے سننے پر مجبور تھا۔ شہیر نے پشت سے آکر اسے تھام لیا تھا۔
“عشال۔۔۔عشال۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ہم تمہیں سن رہے ہیں تم پلیز بیٹھ جاؤ۔”
مگر وہ کسی کو نہیں سن رہی تھی۔ اس کی نظریں صارم کے چہرے پر جمی تھیں۔ وہ صارم کو دیکھ رہی تھی۔
صارم نے اس کی سرد مٹھیوں پر اپنے ہاتھ جمائے۔ اور عشال کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
“مجھے صرف ایک سوال کا جواب چاہیے عشال!
تمہارے کمرے کا دروازہ کس نے کھولا تھا عشال؟ دروازے کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی گئی۔”
صارم کے سوال پر وہ ساکت ہوئی تھی۔ ساتھ شہیر بھی سن ہوا تھا۔ جبکہ عشال کی آنکھوں میں بے یقینی تیر رہی تھی۔ جو آگ کا دریا وہ تیر کر آئی تھی، اس سوال کے لیے۔۔۔۔؟
اس کی آنکھوں میں آنسو تک مر گئے۔ وہ جواب کیا دیتی، وہ خود کچھ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔ کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔ زخموں کی حدت سے تپتا اس کا وجود صارم کے سوال پر بے جان پتھر میں ڈھل گیا تھا۔ اتنا طویل سفر کیا اس نے یہ سننے کے لیے طے کیا تھا۔
عشال کی خاموشی نے صارم کو جواب دے دیا تھا۔ صارم نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑے اور۔۔۔
“میں صارم برہان پورے ہوش و حواس میں تمہیں عشال زبر جرد کو طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔ طلاق دیتا ہوں۔ سنا تم نے؟ تم اب میرے لیے کچھ نہیں ہو۔”
اور اس کے ہاتھ سے اپنا گریبان چھڑا کر اپنے ہاتھ واپس کھینچ لیے۔ اس کے بعد وہ ایک لمحہ وہاں نہیں رکنا چاہتا تھا۔
وہاں موجود ہر شخص برف کا مجسمہ ہوا تھا۔ شہیر کو ہوش اس وقت آیا جب عشال کا بے جان وجود لہرا کر فرش بوس ہوا۔ عشال تک دوڑ کر آنے والا وہ پہلا فرد تھا۔
“تم۔۔۔۔ یہ کیسے کر سکتے ہو صارم برہان؟
شہیر سخت چہرے کےساتھ صارم کے روبرو ہوا تھا۔
“تمہاری بہن اپنی مرضی سے اس کے ساتھ گئی تھی۔”
صارم کے لفظوں نے شہیر کے وجود میں انگارے بھر دیے۔ اس کا گھونسا سیدھا صارم کے منہ پر پڑا۔
“تم کون ہوتے ہو یہ طے کرنے والے؟”
شہیر اس کے دوبدو تن گیا تھا۔
ضیاءالدین صاحب تیزی سے ان دونوں کی طرف بڑھے۔ آغاجان کی ٹانگیں کپکپانے لگیں وہ چاہ کر بھی اپنی جگہ سے اٹھ نہ پائے۔ صدمے نے ان کی آواز گنگ کردی تھی۔
“میں تمہیں اس کا بھرپور جواب دے سکتا ہوں۔ لیکن بہتر ہوگا تم اپنے ہر سوال کا جواب اپنی بہن سے لو۔”
اتنا کہہ کر صارم وہاں ٹھہرا نہیں۔
“شہیر! جانے والوں کو پیچھے سے آواز دینا ہمارا شیوہ نہیں۔”
آغا جان نجانے کیسے اتنا کہنے کے قابل ہوپائے۔ شہیر کے باہر کو جاتے قدم وہیں ٹھہر گئے۔
*****************
گلاب اور موتیے کی لڑیوں سے مزین وہ خوبصورت سیج اب اجڑی ہوئی قبر دکھائی دیتی تھی۔ صارم نے اپنے ہاتھوں سے ایک ایک لڑی کو نوچا تھا۔ اور پھر اپنی شیروانی کو اتار کر پھینکنے کے بعد وہیں بیڈ کی پائنتی بیٹھ گیا تھا۔ اپنے اجڑے خوابوں کی تربت سجائے اسے کئی گھنٹے بیت چکے تھے۔ وقار اور شافعہ اس کے دروازے پر دستک دے دے کر تھک چکے تھے۔ شافعہ کا خیال تھا عشال نے ہی شامی کو شہہ دی تھی۔ جو نوبت یہاں تک آئی۔ وقار کا خیال تھا ایک بار عشال کو صفائی کا موقع دینا چاہیے تھا۔ اور رہ گیا صارم! وہ سارے حساب کتاب یکطرفہ کرچکا تھا۔ وہ سمجھنے سمجھانے کی حد سے بہت دور جاچکا تھا۔ پہلی بار انصاری فیملی کا جھوٹ اس کے دل میں ترازو ہوا۔ لیکن جب اس نے انسپکٹر کے ساتھ عشال کے کمرے کا جائزہ لیا تو اس کا صحیح و سالم دروازہ تیر کی طرح اس کے وجود مین کھب کر رہ گیا۔
“کاش تم مر ہی جاتیں عشال! لیکن اپنے پیروں پر چل کر اس کے ساتھ نہ جاتیں۔”
اس نے نفرت سے ایک بار پھر گاب کی پتیاں نوچی تھیں۔
****************
اس نے آنکھ کھولی تو خود کو اسپتال کے بستر پر پایا۔ ٹانگ ہلانے کی کوشش کی تو درد کی لہر سرسراتی ہوئی پوری ٹانگ کو چیر گئی۔
شامی!”
عائشہ اس پر جھکی تھیں۔
“شکر ہے گولی صرف ٹانگ کو چھوتی ہوئی گذر گئی۔ ورنہ اس وحشی لڑکی نے تو تمہاری جان ہی لے لی تھی۔”
شامی نے اٹھنے کی کوشش کی مگر جسم کو حرکت دینے پر ایک بار پھر اسے درد سہنا پڑا۔ اس کا ذہہن جاگ رہا تھا مگر جسم بھاری اور سن محسوس ہوتا تھا۔ شاید اسے ہائی پوٹینسی کی پین کلرز دی گئی تھیں۔
“ماما! عشال ٹھیک ہے؟”
شامی کے چہرے پر درد کی لکیریں تھیں۔
“تم اس بارے میں مت سوچو! تمہارے پاپا سب سنبھال لیں گے۔”
عائشہ نے ناگواری سے جواب دیا۔
“مام! میں گھر جانا چاہتا ہوں۔”
شامی کوشش کرکے بیٹھ ہی گیا تھا۔ اگرچہ آنکھوں میں غنودگی تھی لیکن وہ بات کرسکتا تھا۔
“سنو شامی! یہ ابھی ممکن نہیں۔تم پولیس کسٹڈی میں ہو۔ بہت کوشش کے بعد تمہیں اس ہاسپٹل میں شفٹ کیا گیا ہے۔ تمہارے پاپا مسلسل تمہیں بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس لڑکی کے گھر والے اپنی پوری طاقت لگارہے ہیں تمہیں جیل بھیجنے کے لیے۔”
“I dame care!
شامی نے تلخی سے کہا تھا۔
“آخر تم چاہتے کیا ہو؟ اپنی حالت دیکھی ہے تم نے؟”
عائشہ کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
“مام! آپ صرف ایک کام کریں۔ عشال سے میرا نکاح۔ اس کے علاوہ آپ سے کوئی دوسری بات نہیں ہوسکتی۔”
وہ اپنا فیصلہ سنا کر کروٹ بدل گیا تھا۔
عائشہ بے بسی سے اس کی پشت دیکھ کر رہ گیئں۔
****************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...