(اسلام پسندی)
اس نظم کا موضوع ملت اسلامیہ ہے۔ یہ اقبال کا خاص اور محبوب موضوع ہے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں میں آفاقیت اور انسانیت کے مضمرات سموئے ہوئے ہیں۔ اس کا پرایہ بیان نہایت حسین و دل آویز ہے اور یہ شاعر کی بہت ہی اچھی اور اہم تخلیقات میں ایک ہے۔ اگر کوئی ناقد اس کو نظر انداز یا رد کرتا ہے تو فن کے متعلق اپنے کسی معروضی نقطہ نظر کی بنیاد پر نہیں، اس لیے کہ نظم فن کا ایک دلکش نمونہ ہے، بلکہ اپنی بالکل موضوعی فکر اور اس کے یکسر ذاتی تعصبات کے سبب۔ ایسا ناقد در حقیقت شاعری پر تنقید نہیں کرتا، اسلام اور ملت اسلامیہ کے موضوع شاعری ہونے پر تنقید کرتا ہے اور اپنی کم نظری اور کم ظرفی کی بناء پر تصور کرتا ہے کہ مذہب اور اس کی امت اچھی شاعری کی تخلیق میں لازماً مزاحم ہے۔ یہ نقطہ نظر صریحاً فن و ادب کی پوری تاریخ سے بے خبری کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ فن اور شاعری کے عظیم ترین کارنامے مذہبی تخیل و احساس کے تحت ہی رو پذیر ہوئے ہیں۔
بہرحال، الگ الگ شمع اور شاعر کے تصورات سے اقبال کا شغف بہت زیادہ رہا ہے۔ ان دونوں عنوانات پر ان کی کئی نظمیں بانگ درا میں ہیں مثلاً:
’’ شمع و پروانہ، شمع، شاعر(1) بچہ اور شمع، رات اور شاعر، شاعر (2)‘‘
شمع اور شاعر ایک مکالمہ ہے شاعر اور شمع کے درمیان، گویا تمثیلی نظم ہے اس میں شمع اور شاعر دونوں کے متعلق اقبال کے وہ خیالات جمع ہو گئے ہیں جو الگ الگ دونوں تصورات پر مختلف عنوانات سے ظاہر کئے گئے ہیں اور اس یک جائی سے کچھ نئے احساسات و اشارات بھی ابھر آئے ہیں، جو گویا دو عناصر کے میل سے پیدا ہونے والی ایک تیسری اور مرکب چیز کی شان ہے جس میں دونوں ترکیبی عناصر کے خصائص مع اضافہ شامل ہو گئے ہیں اس نظم کی تخلیق سے قبل اس کے موضوع سے متعلق اشارات متعدد نظموں میں موجود ہوتے ہیں، جن میں بعض وہ بھی ہیں جن کی مثال وطن دوستی کے عناصر کے لیے دی گئی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی شاعری میں ملت دوستی اور وطن دوستی، خدا پرستی اور انسان دوستی کی بنیادوں پر اس طرح ایک دوسری میں سموئی ہوئی ہیں کہ ایک ہی نظم میں بہ یک وقت دونوں کے احساسات شروع ہی سے کلام اقبال میں رونما ہیں۔ یہ اقبال کے اس درد محبت اور تصور عشق کا فیض ہے جو ان کے نظام فکر کا مرکزی نقطہ ہے اور عقیدۂ توحید اسی کی ٹھوس عملی شکل ہے۔ توحید کی وحدت ہی عشق کو آفاقی بناتی اور وحدت انسانی کا معین و محکم تصور پیدا کرتی ہے۔ یہ آرزو اسی تصور پر مبنی ہے:
ہر درد مند دل کو رونا مرا رلا دے
بیہوش جو پڑے ہیں شاید نہیں جگا دے
(ایک آرزو)
یہی آرزو اس شعر میں ایک تلقین بن گئی ہے:
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے
(سید کی لوح تربت)
اور تلقین کا نتیجہ فن کی درد مندی ہے:
مبتلائے درد کوئی عضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہم درد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
(شاعر نمبر1)
اس درد مندی کا جو مظاہرہ ’’ تصویر درد‘‘ میں ہوا ہے اس میں ہم وطنوں کے ساتھ ساتھ ہم مذہبوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے:
زمیں کیا آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے
غضب ہے سطر قرآن کو چلیپا کر دیا تو نے
زباں سے گر کیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل
بنایا ہے بت پندار کو اپنا خدا تو نے
’’ پیام عشق‘‘ کے آخری اشعار گویا’’ شمع اور شاعر‘‘ کا پیش خیمہ اور اس نصب العین کا منشور ہیں جو اس نظم میں پیش کیا گیا ہے:
گئے وہ ایام، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نور دیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
وجود افراد کا مجازی ہے، ہستی قوم ہے حقیقی
فدا ہو ملت پہ، یعنی آتش زن طلسم مجاز ہو جا
یہ ہند کے فرقہ مانہ اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن تبوں سے اپنا غبار راہ حجاز ہو جا
اقبال قوم کا لفظ ملک و ملت دونوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، وطن دوستی کے موضوع پر ان کے اشعار میں ہم اس لفظ کا استعمال اہل وطن کے لیے دیکھ چکے ہیں اور اب اہل ایمان کے لیے دیکھ رہے ہیں گرچہ قوم کے ساتھ ساتھ ملت کا استعمال بھی قوم ہی کے معنی میں ایک شعر کے اندر کیا گیا ہے اور اس طرح قوم و ملت کو مترادف بنا دیا گیا ہے، بات یہ ہے کہ یہاں اقبال انگریزی لفظ ’’ نیشن‘‘ اور اس کے تصور کا ترجمہ و ترجمانی نہیں کر رہے ہیں، بلکہ الفاظ کا استعمال غیر سیاسی اور غیر اصطلاحی مفہوم میں محاورہ زبان کے عام استعمال کے تحت کر رہے ہیں۔ پھر قوم و ملت کا ترادف، شعوری یا غیر شعوری طور پر، ذہن اقبال میں دونوں کی ہم آہنگی کا بھی ایک ثبوت اور ہے۔ اس سلسلے میں آخری شعر بہت معنی خیز ہے، شاعری فرقہ سازی کی مذمت کرتا ہے اور اس کو آزادی یعنی بت سازی و بت پرستی قرار دیتا ہے جس سے دامن بچا کر وہ ’’ غبار راہ حجاز‘‘ ہو جانا چاہتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام پسندی اقبال کے تخیل میں فرقہ سازی سے نجات کی ایک صورت ہے جو فرقہ آرائی اور اس کے تعصب سے بالکل پاک، ایک خالص نظریاتی و اصولی نصب العین ہے۔
اسی نصب العین کا اظہار حسب ذیل ملی نظموں میں ہوا ہے:
عبدالقادر کے نام، صقلیہ، بلاد اسلامیہ، گورستان
شاہی، قطعہ، خطاب نہ نوجوان اسلام، ہلال عید
ان کے علاوہ ترانہ ملی، وطنیت اور شکوہ ملی شاعری کے سنگ میل ہیں لیکن عام خیال آرائی کے برخلاف، ان میں سے کسی کا تصادم ’’ تصویر درد‘‘ کی وطن دوستی کے ساتھ نہیں ہے۔ ’’ ترانہ ملی‘‘ کا پہلا شعر ہے:
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ شعر’’ ترانہ ہندی‘‘ کے پہلے شعر کی جو حسب ذیل ہے ہرگز نفی نہیں کرتا:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
ترانہ ملی میں بھی ’’ چین و عرب ہمارا‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ ہندوستاں ہمارا‘‘ کہا گیا ہے اور ’’مسلم ہیں ہم‘‘ کا اعلان کر کے یہ اقرار بھی کیا گیا ہے کہ ’’ وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف ترانہ ہندی میں کہا گیا ہے کہ ’’ ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا‘‘ اور دوسری طرف ترانہ ملی میں جتایا گیا ہے کہ:
اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
اور ترانہ ملی کے اس شعر میں جو ’’ موج دجلہ‘‘ ہے:
اے موج دجلہ تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا
وہ ترانہ ہندی کے اس شعر میں ’’ آب رود گنگا‘‘ تھی:
اے آب رود گنگا وہ دن ہیں یاد تجھ کو؟
اترا ترے کنارے جب کارواں ہمارا
اندلس سے ہندوستان اور دجلہ سے گنگا تک، توحید کی آفاقیت پر مرتب ہونے والا انسانیت کا ایک ہی قافلہ ہے جو تاریخ کے ہر مرحلے پر اور جغرافیہ کے ہر خطے میں رواں دواں ہے۔ اسی عنوان کی نظم میں ’’ وطنیت‘‘ کی مخالفت انسانیت کی اس آفاقیت پر نہ صرف یہ کہ کوئی ضرب نہیں لگاتی بلکہ اس کے حسن کو نکھارتی ہے، نظم کے نیچے قوسین میں تشریح عنوان و موضوع کے طور پر درج کر دیا گیا ہے:
’’ یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے‘‘ اس تصور کے تحت رونما ہونے والی وطنیت پر شاعر کا اعتراض پہلے بند کی ٹیپ سے ظاہر ہے:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یعنی وطن کی پرستش غلط ہے۔ اس لیے کہ یہ خدا کی پرستش میں شرک کے مترادف ہے، لہٰذا مذہب کے آفاقی و انسانی عقیدہ توحید کے منافی ہے۔ پھر وطن پرستی کی محدود نظری کا عملی پہلو بالکل تباہ کن ہے:
ہو قید مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہ بحر میں آزاد وطن صورت ماہی
چنانچہ آخری بند خلاصہ نظم کے طور پر وطن پرستی کی ہولناکیوں اور تخریب کاریوں کو واضح کر دیتا ہے:
اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قوسیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
یہ قومیت اسلام’’ مخلوق خدا ‘‘ کی اقوام میں نہیں بانٹتی اور تباہ کن قید مقامی کی اجازت نہیں دیتی، یہ ایک خدا ایک انسان کی آفاقی و تعمیری توحید قائم کرتی ہے۔ یہاں ’’ وطنیت‘‘ نیشنلزم کا ترجمہ معلوم ہوتی ہے جس کے لیے بعد میں قوم پرستی کا لفظ وضع کیا گیا۔ چنانچہ اقبال نے قوم پرستی کی مخالفت اسی وطن پرستی کی خامیوں اور خرابیوں کے سبب کی ’’ وطنیت‘‘ آفاقی انسانی تصور کو پیش کرنے والی ایک حسین سیاسی نظم ہے جس میں تعمیر ہیئت بھی ہے اور تزئین خیال بھی اور ترنم تو غضب کا ہے۔
’’ شمع اور شاعر‘‘ ترکیب ہند کی ہیئت میں ہے اور مختلف بندوں میں اشعار کی تعداد مختلف ہے، سب سے پہلے ’’ شاعر‘‘ پانچ فارسی اشعار کے اولین اور مختصر ترین بند میں ایک منظر پیش کرتا ہے جس میں رات کے وقت شمع کے ساتھ اس کے مکالمے کی آواز آتی ہے۔ وہ اپنی ’’ منزل ویراں‘‘ میں روشن شمع سے کہتا ہے کہ اس کے ’’ گیسو‘‘ سنوارنے کے لیے تو ’’ پر پروانہ‘‘ کا ’’ شانہ‘‘ موجود ہے مگر شاعر کے ناز اٹھانے والا کوئی رفیق دنیا میں نہیں اور اس کی ہستی ایک ’’ چراغ لالہ صحرا‘‘ کی طرح ہے جس کے نصیب میں نہ تو کسی محفل میں فروزاں ہونا ہے نہ کسی کا شانے میں حالانکہ ایک مدت تک شمع کی طرح اس نے بھی نفس سوزی کی ہے، لیکن ایک پروانہ بھی اس کے شعلے پر نہ گرا۔ چنانچہ اس کے فرسودہ آرزو دل میں ’’ صد جلوہ‘‘ تڑپ رہا ہے اور اس کی محفل میں ایک ’’ دل دیوانہ‘‘ بھی ابھر نہیں رہا۔ لہٰذا وہ شمع سے سوال کرتا ہے:
تو نے یہ آتش عالم فروز کہاں سے فراہم کر لی
کہ ایک کرمک بے مایہ کو سوز کلیم عطا کر دیا؟
یہ پورا بند فارسی زبان کے بہترین آہنگ میں ایک نہایت دلربا نغمہ شعر ہے اور اس کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ فارسی شاعری اور اس کے اساتذہ کے بہترین کلام کا جو ذوق اقبال فارسی اشعار پر اپنی تضمینوں میں اب تک زیادہ تر چھوٹی نظموں میں ظاہر کرتے رہے تھے اب وہ بڑھ کر مستقل فارسی گوئی کی شکل اختیار کرنے لگا ہے جو فارسی شاعری کی بہترین روایت میں ہونے کے ساتھ ایک دلکش انفرادی اسلوب اظہار بھی رکھتا ہے۔
اس کے بعد پانچ بندوںمیں ’’ شمع‘‘ اردو کی بہترین شعری روایات کے مطابق نہایت فکر انگیز جواب دیتی ہے جس کے بعد باقی پانچ بندوں میں اسی انداز میں شاعر کا ولولہ خیز جواب الجواب ہے۔ اس طرح تمہیدی بند کو چھوڑ کر شمع و شاعر اپنے اپنے مکالمے کے لیے پانچ پانچ بند مخصوص کر لیتے ہیں اور گیارہ بندوں کی تمثیلی نظم دو کرداروں کے مکالمات میں تقریباً برابر برابر تقسیم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس تقسیم کی تکنیک اتنی لطیف ہے کہ غور کرنے ہی پر پتہ چلتا ہے کہ پہلے حصے میں شاعر کے سوال کے بعد جب دوسرے حصے میں شمع کا جواب شروع ہوا تو وہ کہاں تک گیا اور پھر کہاں سے شاعر کا جواب الجواب اسی حصے اور اس کے مضامین و بیان کے تسلسل میں کسی تیسرے حصے کا اعلان کیے بغیر بڑی خاموشی سے شروع ہو گیا؟ شمع و شاعر کے جوابات کو اس طرح ایک دوسرے کے اندر مخلوط کرنے سے شاعر کا فنی مقصد کیا ہے؟ میرے خیال میں اس ترکیب سے شمع و شاعر کے احساسات کو، جو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ہم آمیز کر کے ادائے موضوع کے تاثر کو زیادہ دبیز اور شدید کرنا مقصود ہے۔ تکنیک کی اس ندرت کی ایک ہلکی سی جھلک ’’ تصویر درد‘‘ میں بھی دیکھی جا چکی ہے۔ جب ایسے ہی لطیف انداز میں شاعر نے اپنے آپ کو تصویر درد بنانے کے بعد وطن کو ہی آہستہ آہستہ ایک تصویر درد میں تبدیل کر دیا۔ اس طرح وطن اور شاعر کی باہمی پیوستگی بھی موضوع کے تقاضے سے ہو گئی اور تصویر درد کا موضوع بھی زیادہ دبیز و شدید تاثر کا حامل ہو گیا۔ شمع اور شاعر میں شاعرانہ تخیل اور فن کارانہ اسلوب کا یہ ترکیبی عمل زیادہ بالیدہ و تراشیدہ شکل میں رونما ہوتا ہے:
مجھ کو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا
گل بدامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں
شعلہ ہے مثل چراغ لالہ صحرا ترا
یہ بالکل ترکی بہ ترکی جواب ہے اور مکالمے کی چستی نیز تمثیل کی تاثیر کا باعث ہے، شمع شاعر اور اس کی ملت کے اندر خلوص کی گرمی کا فقدان پاتی ہے اور اس کے وجود کی خواہاں ہے، ساتھ ہی وہ خرابی احوال کے وجوہ و اسباب کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ یہ مصرع اسی کی دلیل ہے:
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا
اس کے بعد اسی بند کے دوسرے اشعار میں مزید نشاندہی ہوتی ہے:
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی تبخانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں
تنگ ہے صحرا ترا محمل ہے بے لیلا ترا
مکالمے اور تمثیل کی چستی و تاثیر کے ساتھ پیکروں کا حسن اور دل آویزی جا ری ہے نہ صرف کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے، جیسے درخشاں پیکر ہیں بلکہ قیس، صحرا، محمل اور لیلا کے استعارے بھی ہیں، جو سب موضوع کی مناسبت سے نہایت معنی خیز اور خیال آفریں ہیں، اس کے علاوہ ترتیب الفاظ کی غنائیت ہے:
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا
پہلے بند کی ٹیپ ماقبل کی دلیلوں کا نتیجہ نکال کر آنے والے بند کے مفہوم کی تمہید بن جاتی ہے:
اب نوا پیرا ہے کیا؟ گلشن ہوا برہم ترا
بے محل تیرا ترنم، نغمہ بے موسم ترا
اگلا بند بہت مختصر مگر پورے کا پورا تاثیر میں ڈوبا ہوا اور اپنی تصویروں نیز ترنم کے لحاظ سے پرکیف ہے:
تھا جنہیں ذوق تماشا، وہ تو رخصت ہو گئے
لے کے اب تو وعدۂ دیدار عام آیا تو کیا
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحدم کوئی اگر مالائے بام آیا تو کیا
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا
پھول بے پروا ہیں، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو
کارواں بے حس ہے، آواز درا ہو یا نہ ہو
’’ ذوق تماشا‘‘ ،’’ وعدۂ دیدار عام‘‘ ،’’ شعلہ آشام‘‘ ،’’ آتش بجام، باد بہاری‘‘ ،’’ آخر شب‘‘، ’’ بالائے بام‘‘ ،’’ سودائی سوز تمام‘‘ ،’’ گرم نوا‘‘ اور’’ آواز درا‘‘ جیسی ترکیبیں اور ’’ انجمن‘‘ ، ’’ ساقیا‘‘، ’’ محفل‘‘ ،’’ گلشن‘‘ ،’’ پیام‘‘ ،’’ بسمل‘‘ ،’’ شعلہ‘‘ ،’’ پرانہ ‘‘ اور’’ کارواں‘‘ جیسے الفاظ ایک پر خیال فضا قائم کرتے ہیں اور شاعر جو تصویر خیال قاری کو دکھانا چاہتا ہے وہ پردہ سیمیں کے پیکروں کی طرح نگاہوں میں پھرنے لگتی ہے۔ چوتھا بند تمثیل کے منظر اور مکالمے کو جاری رکھتے ہوئے نگاہ تخیل کو حال کی بد حالی کے ساتھ ماضی کی خوش حالی کی طرف لطیف طریقے سے موڑ دیتا ہے اور ایک تقابلی مطالعے سے عبرت دلا کر گویا مستقبل کے لیے خبردار اور تیار کرنا چاہتا ہے:
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلا رہی، لیلیٰ کے دیوانے رہے
مینا،پیمانے، ساقی، دشت جنوں پرور، رقص، لیلا، لیلا کے دیوانے تصویر کا رنگ اور ترنم کا آہنگ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اب کہ چشم تصور بالکل خوف فشاں ہے اور شمع کا گداز اور شاعر کا سوز اپنے عروج پر پہنچ رہے ہیں، قاری کے دل پر ایک زبردست ضرب لگائی جاتی ہے:
دائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
ٹیپ کے اس شعر کے بعد شمع کے مکالمے کا آخری سے پہلے کا بند اب تک ارتقائے خیالی کے منطقی نتیجے اور موضوع نظم کے تقاضے کے مطابق، ماضی و حال کی تابانی و تاریکی کا موازنہ جاری رکھتے ہوئے، اگلی ٹیپ کے شعر میں مستقبل کی درخشانی کا ایک جلوہ دکھاتا ہے:
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہراں کے مٹ گئے، آبادیاں بن ہو گئیں
سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں
دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے
موج کی آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں
دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں
وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز
بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہو گئیں
دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں؟
اشک پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہو گئیں
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی
یہ ماضی کا وہ شاندار، خیال انگیز اور ولولہ خیز استعمال ہے جو اقبال کی شاعری کا ایک امتیازی نشان ہے اور اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ حال کے آئینے میں ماضی کی تصویر دکھا کر اس پر مستقبل کا عکس ڈال دیا جاتا ہے، گویا ماضی برائے ماضٰ نہیں برائے مستقبل ہے، اور ماضی و حال و مستقبل تینوں کی ترکیب ایک تو وقت کے بارے میں شاعر کے اس تصور کی ترجمانی ہے کہ:
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
(مسجد قرطبہ)
دوسرے ان تینوں زمانوں کی پیوستگی سے شاعر تاریخ کے تسلسل اور حیات کی ہم آہنگی کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہے تاکہ ماضی سے سبق لے کر مستقبل کی تعمیر و ترقی کا سامان کیا جائے۔ اشارہ مستقبل کے علاوہ آئین مستقبل کا ذکر بھی اشارۃ ہوتا ہے:
دہر میں عیش دوام آئین کی پابندی سے ہے
موج کی آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
اس کے علاوہ نور ایمن، پابند نشیمن اور آسودۂ دامان خرمن کی تراکیب صرف تصاویر نہیں ہیں، تصورات بھی ہیں اور کنایتہ آئندہ طرز عمل کی طرف متوجہ کرنے والی ہیں۔ چنانچہ چھٹا بند شمع کے جواب کی تکمیل اس طرح کرتا ہے کہ یاس و افسردگی کے جو نکتے شمع نے اب تک پیش کیے تھے اب انہیں وہ امید و شگفتگی میں تبدیل کر دیتی ہے اور پورا بند نشاط رجائیت سے چھلکنے لگتا ہے۔ چند اشعار یوں ہیں:
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
نقد خود داری بہائے بادۂ اغیار تھی
پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نا ونوش
ٹوٹنے کے ہے طلسم ماہ سیمایان ہند
پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش
پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز
دل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش
نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش
فارسی تراکیب اور توالی اصنافات کی کثرت بجائے ابہام و ژولیدگی کے ثروت خیال اور روانی بیان کا باعث ہے۔ یہ اسلوب اظہار کچھ دقیق ہونے کے ساتھ نفیس بھی ہے اور لطیف بھی۔ پھر اس سے وہ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے جو موضوع تخلیق کے طور پر مقصود فن ہے۔ اسی لیے وہ سب شبیہیں استعمال کی گئی ہیں جن کی رعنائی ملی حافظے پر مرقسم ہے اور ان کی جمال آفرینی دلوں میں احتراز پیدا کرتی ہے۔ ’’ پیمانہ بردار خمستان حجاز‘‘ لبریز صدائے نا و نوش’’ طلسم ماہ بیمایان ہند‘‘ پیغام خروش، شراب خانہ ساز، نغمہ پیرا، مینا بدوش جیسے نقوش و نغمات کو دیکھ اور سن کر تاثر یہ ہوتا ہے گویا محفل کا رنگ ہی بدل گیا ہو اور ماتم کی جگہ جشن کا ماحول بن گیا ہو۔ جنت نگاہ بھی موجود ہو اور فردوس گوش بھی۔ گذشتہ بند میں ہم نے دیکھا تھا کہ ’’ سطوت توحید‘‘ جن نمازوں سے قائم ہوئی تھی وہ ہند میں’’ نذر برہمن‘‘ ہو گئیں مگر موجودہ بند میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ طلسم ماہ سیمایان ہند ٹوٹ رہا ہے اور علامتی طور پر، سلیمی کی نظر پیغام خروش دے رہی ہے۔ یہ نکتہ ’’ مقابل نکتہ ‘‘ Point Counter point کی موسیقی ہے، بہرحال، ان علامتی بیانات کا مطلب تصویر درد کی وطن دوستی کے خلاف جذبات ابھارنا ہرگز نہیں۔ یہ صرف ایک ملی نظم کا وہ اصولی و نظریاتی موقف ہے جس کی تعیین موضوع تخلیق ہی سے ہو جاتی ہے، چنانچہ اس کی تشریح مقصود فن بن جاتی ہے جہاں تک نظریہ و اصول کا تعلق ہے، یہ وہی آفاقی توحید ہے جس کی رو سے نہ تو نمازوں کی نذر برہمن ہونا چاہیے نہ نظر کو طلسم ماہ سیمایان ہند میں گرفتار ہونا چاہیے۔ ورنہ ’’ سطوت توحید‘‘ اور اس کی آفاقیت مجروح ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ برہمن اور ماہ سیمایان ہند کے ساتھ ساتھ مے مغرب کو بھی رد کیا گیا اور شراب خانہ ساز طلب کی گئی ہے جو ملے گی تو یقینا پیمانہ بردار خمستان حجاز سے لیکن جب خانہ ساز ہے تو ہندوستانی بھی ہو گی اور مشرقی بھی اس لیے کہ مئے مغرب نے دل کے ہنگامے پورے مشرق بشمول ہندوستان میں خموش کر ڈالے ہیں، گرچہ مغرب کی مذمت بھی مغرب کے جغرافیہ کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کی ہو شربا اور دل شکن مے فروشی کے خلاف ہے چنانچہ شمع خاموش ہونے سے پہلے شاعر کو ٹیپ کے شعر میں یہ پیغام دیتی ہے:
آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
اس کے بعد پانچ بندوں میں جو شاعر کا جواب الجواب ہے اس کا رخ شمع کی طرف نہیں، ملت کی طرف ہے اور یہ خود شمع کی تلقین پر ہے، اس لیے کہ یاد کر لینا چاہیے کہ پہلے حصے میں نظم شروع ہوئی تھی شاعر کے شمع کے ساتھ ایک سوال سے جس کے جواب میں نظم کے دوسرے حصے میں شمع نے صرف شاعر ہی نہیں، اس پوری ملت کی ہمدردانہ تنقید و تنبیہہ کی جس کی نمائندگی اور ترجمانی کی تمنا شاعر کو ہے، لہٰذا اب شمع تاریکیوں میں روشنی کی ایک کرن دکھا کر شاعر کو تلقین کرتی ہے کہ وہ دیدار منزل کے وعدے سے خواب غفلت میں پڑے ہوئے افراد ملت کی آنکھوں کو بیدار کر دے اور اپنے جوہر گفتار کے سوز سے مردہ دلوں کو زندہ کر دے یعنی اب وقت آ گیا ہے کہ شاعر کا وہ سوز دروں جس کے ضائع ہونے کا شکوہ اس نے شمع کیا تھا، واقعی محفل میں گرمی پیدا کرے اور اس کے پر سوز نغموں سے ایک پوری ملت بیدار ہو جائے اس سلسلے میں شاعر سے شمع، شمع سے ملت، ملت سے شمع، شمع سے شاعر اور شاعر سے ملت کی طرف جو خاموش انتقال ذہنی مسلسل ہوتا ہے، اس کی فن کارانہ ترکیب، پیچیدگی اور معنی آفرینی پر غور کیا جانا چاہیے۔
بہرحال ملت کے نام شاعر کے خطاب میں جن خاص نکات پر زور دیا گیا ہے وہ یہ ہیں:
1۔ ملی اصلیت، وسعت و جمعیت
2۔ خود داری، کار گزاری و ہنگامہ آفرینی
3۔ توحید، تسخیر و ترقی
4۔ بشارت مستقبل
یہ اقبال کے پیغام کے بنیادی نکات ہیں جو بانگ درا میں خضر راہ، اور طلوع اسلام اور بال جبریل میں مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ جیسی عظیم نظموں کا موضوع ہیں۔ ان پانچ بندوں کے درمیان، جن میں یہ نکات بروئے اظہار آئے ہیں، جو ربط و ارتقا ہے اس کا کچھ اندازہ ان کی ٹیپ کے شعروں سے بھی ہو سکتا ہے۔
بند7
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں
٭٭٭
بند8
کیوں چمن میں بے صد امثل رم شبنم ہے تو
لب کشا ہو جا سرود بربط عالم ہے تو
٭٭٭
بند9
بیخبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
٭٭٭
بند10
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ
٭٭٭
بند11
شب گریزاں ہو گی، آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
٭٭٭
پہلا شعر ملی جمعیت کی اہمیت موج و دریا کے استعارے سے واضح کرتا ہے جس طرح موجیں مل کر دریا بنتی ہیں اور ہر موج اسی وقت تک رواں ہے جب تک دریا کے اندر دوسری موجوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اسی طرح افراد مل کر ایک ملت تعمیر کرتے ہیں اور ہر فرد کی اہمیت اسی وقت تک ہے جب تک وہ ملت کے ساتھ دوسرے افراد کی معیت میں رابطہ استوار رکھے ہوئے ہے اور اس طرح ملی جمعیت کے استحکام کا باعث ہے۔
دوسرا شعر جمعیت کے ساتھ ساتھ موثر حرکت کی ضرورت رم شبنم کی متضاد تصویر پیش کر کے واضح کرتا ہے۔ شبنم چمکدار ہونے کے باوجود بہت چھوٹی اور عارضی ہوتی ہے، آفتاب کی پہلی کرن کے ساتھ وہ سبزہ گل پرسے اس خموشی کے ساتھ اڑ جاتی ہے کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ ایک ملت کو اس طرح صدائے حیات سے خالی نہیں ہونا چاہئے، خاص کر اس ملت کو جو سرور بربط عالم ہے اس کی نواؤں سے ہنگامہ عالم گرم ہے اور نغمہ زندگی رواں، جبکہ اس کا سکوت دنیا کی روح کا سکوت ہے۔
تیسرے شعر میں اس خیال کی تشریح و تکمیل اور تعین کر دی گئی ہے، امت مسلمہ آئینہ و ایام کا جوہر اور زمانے میں خط کا آخری پیغام ہے، یعنی اسلام ایک ازلی و ابدی اور آفاقی نظریہ ہے، کوئی نسلی وقتی اور محدود قسم کا مذہب نہیں ہے، جو تاریخ کے کسی عمل اور مرحلے میں اگر فنا ہو جائے تو عالم انسانی کے حالات میں کوئی خاص فرق نہ واقع ہو لہٰذا اہل ایمان کو اپنی ہستی و حیثیت کا شعور اور اس کے مطابق ان کا کردار ہونا چاہئے، انہیں تنگ نظری اور کاہلی چھوڑ کر وسیع النظر اور مستعد ہونا چاہیے تاکہ وہ دنیا میں اپنا حقیقی رول ادا کر کے اپنے اصلی مقام پر فائز ہو جائیں۔ خلق کی خدمت ان کا فرق ہے اور خلق کی قیادت ان کا حق ہے جب تک وہ اپنا فرض ادا نہ کریں گے، ان کا حق انہیں نہ ملے گا۔
چوتھے شعر میں شاعر اپنی اس آتش نوائی کا راز کھولنے کے لیے اپنے دل کے آئینے میں جلوہ تقدیر دکھانا چاہتا ہے، یعنی اس کی نغمہ سنجی گرمی نشاط تصور سے ہے، وہ حال کی تاریکی سے آگے، مستقبل کی روشنی دیکھ رہا ہے۔اور اسے پوری ملت کو دکھا کر اس روشن مستقبل کی طرف بڑھانا چاہتا ہے۔
پانچواں شعر مستقبل کے روشن ہونے کی واضح، متعین اور قطعی بشارت دیتا ہے۔ آخر کے تینوں شعروں میں، جوہر آئینہ ایام، خدا کا آخری پیغام، آتش نوائی، جلوہ تقدیر، جلوہ خورشید اور نغمہ توحید جیسے معنی آفریں پیکروں کے ذریعے ابلاغ خیال کیا گیا ہے۔
ان بندوں کی پر خیال شعریت کا نمونہ دکھانے کے لئے بند 9اور بند11کا نقل کرنا کافی ہو گا:
(9)
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
آہ! کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، راہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
کانپتا ہے دل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
دیکھ آ کر کوچہ چاک گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
دائے نادانی! گہ تو محتاج ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
شعلہ بن کے پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو
بے خبر! تو جوہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
٭٭٭
بند11
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہو گی ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوبیداہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
نالہ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
٭٭٭
معانی اور بیان کے لحاظ سے یہ اشعار نہ صرف اقبال کی شاعری کے بہترین نمونے ہیں بلکہ شاعری کی حسین ترین مثالیں پیش کرتے ہیں معانی کے اعتبار سے غور کیا جائے تو ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ملی موضوع پر ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں وسیع ترین قومی و انسانی اشارات سموئے ہوئے ہیں، جس سے ایک بار پھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کی ملی شاعری وطنی یا بین الاقوامی تصورات کو مانع نہیں ہے بلکہ ان سب کی جامع اور اس طرح آفاقی ہے اس لیے کہ اقبال کا ملی تصور دین کے کسی رسمی عقیدے پر مبنی نہیں ایک اصولی نظرئیے پر استوار ہے، جس سے زیادہ انسانی و آفاقی کوئی تصور دنیائے وجود کے سامنے نہیں آیا۔ اور اس کے مقابلے میں وطنیت جمہوریت اور اشتراکیت وغیرہ جیسے خرد کے بدلتے ہوئے نظریات مخلوق خدا کو اقوام، اعداد اور طبقات میں تقسیم کرنے والے ہیں۔
بند 9میں ’’ دہقاں‘‘ سے خطاب کر کے اسے اپنی حقیقت سے آشنا ہونے کی تلقین کی گئی ہیں۔ اس طرح بند کا آغاز کر کے باقی سب اشعار اسی تلقین کی تشریح و تفصیل مختلف استعاروں میں کرتے ہیں، جو سب کے سب دنیا کے تمام مجبوروں اور مظلوموں کے لیے عام ہیں، یہاں تک کہ آخری شعر ’’ شعلہ‘‘ بن کر خاشاک غیر اللہ، کو پھونک دینے کی ہدایت کرتا ہے اور اسے باطل شکنی کا پیام قرار دیتا ہے۔ یعنی معرکہ فرقوں، طبقوں، خطوں، گروہوں، نسلوں، ذاتوں اور علاقوں کے درمیان نہیں جو سب کے سب ’’ خاشاک غیر اللہ‘‘ ہیں، بلکہ حق و باطل کے تصورات کے درمیان ہے، اس کے بعد ٹیپ میں بھی مخاطب کو ’’ جوہر آئینہ ایام‘‘ اور’’ زمانے میں خدا کا آخری پیغام‘‘ کہا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بالکل اصولی و عمومی تخاطب ہے۔ جوہر آئینہ ایام اور خدا کے آخری پیغام کے درمیان کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ اسلام بمعنی بندگی رب خدا کا اولین پیغام بھی ہے اور آخری بھی بلکہ
’’ ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘
کی آیت کے مطابق واحد پیغام ہے حتیٰ کہ
’’ فکل اسلم وجھد، للہ طوعاً او کرھاً‘‘
کی آیت اسلام کو پوری کائنات کا نظام قدرت قرار دیتی ہے، اس لیے کہ قانون فطرت اللہ ہی کا بنایا ہوا ہے اور اس کی اطاعت تمام مخلوقات کو کرنی ہے۔ اس لحاظ سے خدا کا آخری پیغام و حقیقت ایک آفاتی پیغام توحید ہے اور وحدت انسانی پر مشتمل ہے، نیز ایک ازلی و ابدی قانون قدرت ہے، لہٰذا جوہر آئینہ ایام ہے۔
بند11بھی انہی تصورات کا ترجمان ہے۔ اس میں حسب ذیل اشعار تو بداہتہً رائج الوقت جبر و استبداد کو جو ملک و ملت اور پوری انسانیت بالخصوص عالم مشرق پر مسلط ہے، پیغام فنا دیتے ہیں:
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
نالہ صیاد سے ہوں گے نواساماں طیور
خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی
ان استعاروں میں اس نو آبادیاتی سامراجیت کے استحصال و استبداد کا انجام نمایاں ہے جو اپنی برق رفتار مادی ترقیات کے بل پر پوری دنیا، خاص کر ایشیا و افریقہ میں سالہا سال سے ظلم و ستم اور وحشت و بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے، یہاں تک کہ اس نے جدید تمدن کی روشنی علم و ہنر کے باوجود عالم انسانیت پر ایک ہمہ گیر ظلمت مسلط کر دی ہے، چنانچہ بند کا پہلا ہی شعر اس کی تاریکی کے دور ہونے کا مژدہ سناتا ہے اور بعد کے سب اشعار اس تخیل کی تفسیر کرتے ہیں:
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
یہاں تک کہ آخری شعر ایک لطیف پیش گوئی بالکل عمومی انداز میں کرتا ہے:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
بہرحال، اس ابہام کی قطعی وضاحت ٹیپ کے شعر میں جو خاتمہ نظم ہے ہو جاتی ہے:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
ظاہر کہ یہاں رات کی اسی ظلمت کے سیماب پا ہونے کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر بند کے پہلے شعر میں ہوا تھا اور اس طرح بند کی بھی ابتدا و انتہا، نظم کی ابتدا و انتہا کی طرح ایک دوسری سے مربوط ہیں۔ جہاں تک ’’ نغمہ توحید‘‘ کا تعلق ہے، اس کی آفاقیت سے کوئی خدا پرست انکار نہیں کر سکتا، اسی لیے شاعر نے توحید کے متوقع غلبے کو جلوۂ خورشید، کے آفاق گیر استعارے میں ظاہر کیا ہے اور اس کے مقابلے میں جو کچھ ہے اسے شب کے ہمہ گیر پیکر میں ممثل کر دیا ہے۔ چنانچہ بند کے دیگر درمیانی اشعار کی کائناتی شعریت ملاحظہ کیجئے:
اس قدر ہو گی، ترنم آفریں باد بہار
نکہت خوبیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی
آخری شعر میں ’’ پیغام سجود‘‘ اور’’ خاک حرم‘‘ سے وحشت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ حرم لفظی و معنوی اور لغوی و اصطلاحی طور پر حریم کو کہتے ہیں، جو یہاں حریم خداوندی ہے اور کائنات کا حقیقی حریم ناز ہے، اس کی خاک سے کسی بھی انسان کی جبیں کا آشنا ہونا اس کے لیے معراج زندگی ہے۔ اسی مفہوم میں دلوں کو پیغام سجود کا یاد آنا فردوس گمشدہ کی دریافت سے کم نشاط انگیز نہیں۔ یہ سب خالص توحید کے اشارات ہیں اور بہار و بیداری، وصال و اتحاد اور سوز و ساز کا جو پیغام اوپر کے اشعار میں دیا گیا ہے وہ انہی اشارات پر مبنی ہے۔
ان بندوں میں اقبال کا اسلوب سخن اور طرز فن اپنے شباب اور معیار کمال پر ہے۔ ان کے اشعار میں ایک نغمہ ریز آہنگ کے ساتھ پے بہ پے تصویروں کے جو رنگ نمایاں ہیں اور رنگ و آہنگ کے اس اجتماع سے جو علامتی بلکہ طلسماتی فضا پیدا ہوتی ہے وہ اقبال کی شاعری کا امتیازی نشان ہے غور کیجئے نقوش و نغمات کی اس فراوانی، روانی اور خیال آفرینی پر:
بند9
دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو، حاصل بھی تو
راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
قیس تو، لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محفل بھی تو
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
کیا یہ وفور اور والہانہ پن صرف تصویر و ترنم کے لیے ہے اور ایک پریشانی خیال کا آئینہ ہے؟ سیاق و سباق اور موضوع نظم پر ایک نظر اس سوال کا جواب نفی میں دینے کے لیے کافی ہے۔ پورے بند کا مقصود، جیسا کہ اس کے پہلے مصرعے سے واضح ہے ’’ آشنا اپنی حقیقت سے‘‘ ہونا ہے جس پر گردش ایام اور انقلاب احوال نے تہ بہ تہ پردے ڈال رکھے ہیں، لہٰذا اب شاعر ایک ایک نکتہ لے کر رنگ بہ رنگ تصویروں کی مدد سے تمام تصورات پر پڑا ہوا ایک ایک پردہ اٹھاتا اور اس کے پیچھے چھپی حقیقت دکھاتا جاتا ہے۔ اس فن کارانہ تکنیک سے مظاہر کی حقیقت اور وجود کی اصلیت منور ہو جاتی ہے۔ اگر منفرد تصویروں کی بہتات میں کسی کو کچھ ابہام کا احساس ہو تو اسے یہ نہ بھولنا چاہئے کہ مجموعی طور پر موضوع کا تصور نہ صرف واضح بلکہ زیادہ سے زیادہ واضح ہو جاتا ہے۔ بندش الفاظ کے ظاہری ابہام سے معانی کی وضاحت فن شاعری کا معیار مطلوب ہے۔
بند11
’’ سحر کے نور سے‘‘ آسماں کا، آئینہ پوش ہونا، رات کی ’’ ظلمت‘‘ کا ’’ سیماب پا‘‘ ہونا’’ باد بہار‘‘ کا ’’ ترنم آفریں‘‘ ہونا، غنچے کی نکہت خوابیدہ کا نوا ہونا سینہ چاکان چمن، سے سینہ چاکان چمن کا آ ملنا۔ ’’ باد صبا‘‘ کا بزم گل کی ہم نفس ہونا اشک شاعر کی شبنم افشانی کا ’’ سوز و ساز‘‘ پیدا کرنا ’’چمن کی ہر کلی ‘‘ کا ’’ درد آشنا‘‘ ہو جانا، ’’ سطوت رفتار دریا کا مآل‘‘ موج مضطر کا ’’ زنجیر پا‘‘ ہونا، دلوں کو پیغام سجود یاد آ جانا، جبیں کا خاک حرم سے آشنا ہو جانا، ’’ نالہ صیاد‘‘ سے طیور کا ’’ نوا ساماں ہونا‘‘ خون گلچیں سے کلی کا رنگیں قبا ہونا ’’ جلوہ خورشید ‘‘ سے شب کا گریزاں ہونا۔ ’’ نغمہ توحید‘‘ سے چمن کا معمور ہونا۔
یہاں بھی جلوؤں کی فراوانی نظر کی حیرانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ لیکن کسی اعلیٰ نمونہ فن سے پیدا ہونے والی یہی وہ حیرانی ہے جو احساس کی شادمانی کا باعث ہوتی ہے اور ذہن کی سیرابی کا بھی۔ اگر کسی فن پارے سے اس طرح حیرت و مسرت و بصیرت بیک وقت تینوں کے مرکب احساسات پیدا ہوں تو وہ اس کی کامیابی کی معراج ہے۔
نظم سوال سے شروع ہوئی تھی اور جواب در جواب کے مراحل سے گزر کر یاس و الم کی تصویروں کے بعد امید و نشاط کے پیکروں پر ختم ہو گئی۔ یہ مکالماتی تمثیل اول سے آخر تک استوراتی نقوش اور لفظی نغمات سے پر ہے۔ بندوں کے درمیان ا رتعائے خیال کے سلسلے میں انتقال ذہنی کی لطافتوں کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ ہر بند کے اندر اشعار کے درمیان ربط و تسلسل کا اندازہ ٹیپ کے شعروں سے بھی کیا جا سکتا ہے، جو اگلے بند کی تمہید اور اس کے ساتھ رابطہ ہونے کے علاوہ پچھلے بند کا خلاصہ معانی کے ایک تسلسل ہی میں پیش کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ممکن ہے کہ بعض اشعار کی ترتیب بالکل ناگزیر اور کامل نہ ہو، لیکن ایک لمبی نظم میں یہ کوئی معیوب چیز نہیں ہے، جبکہ عمومی ارتعائے خیال اور ربط فکر یا تسلسل بیان میں اس سے کوئی رخنہ پیدا نہ ہوتا ہو۔ جہاں تک استعارات کی کثرت کا تعلق ہے اس سے نہ تو ابہام پیدا ہوتا ہے نہ تضاد، یہ صرف ایک مسرت انگیز تنوع اور فرحت بخش وفور ہے جو کسی مرکزی خیال کے تمام اطراف و مضمرات کا احاطہ اور ان کی صراحت کرتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمثیلیہ الفاظ کا ایک غنائیہ ہے جس کے استعارات و نغمات تصورات و خیالات کو رقصاں و مترنم پیکروں میں پیش کرتے ہیں۔ شاعری میں موسیقی و مصوری کی لطیف اداؤں کا ایسا امتزاج بہت نادر ہے۔
’’ شمع اور شاعر‘‘ کے بعد ملی موضوعات پر چھوٹی بڑی جتنی بھی نظمیں بانگ درا میں ہیں سب میں اس اہم نظم کے نقوش کچھ نہ کچھ نظر آتے ہیں، مثلاً:
مسلم، حضور رسالب مآبؐ میں، جواب شکوہ، تعلیم اور اس کے نتائج شاعر 21 ، فاطمہ بنت عبداللہ، تضمین بر شعر ابو طالب کلیم، صدیق، تہذیب حاضر، کفر و اسلام، بلال، مسلمان، تعلیم جدید، فردوس میں ایک مکالمہ، مذہب 2پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، خضر راہ، طلوع اسلام۔
بال جبریل کی بھی چند اہم نظموں خاص کر ’’ مسجد قرطبہ‘‘ جیسی عظیم ترین تخلیق پر ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے اثرات نمایاں ہیں۔ ضرب کلیم اور ارمضان حجاز تک کی بعض نظموں میں اس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ نظم فکر و فن دونوں کے اعتبار سے اقبال کی شاعری کا ایک سنگ میل ہے۔