٭تعارف اور پس منظر
’ شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی اور دو ماہ بعد انجمن حمایت اسلام کے ۲۷ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء میں پڑ ھی گئی۔ یہ اجلاس اسلامیہ کالج لاہور کے ریواز ہوسٹل کے صحن میں منعقد ہوا تھا۔
اول تو نظم خاصی طویل تھی، دوسرے انجمن کے دو بڑے سرپرستوں مرزاسلطان احمد اور فقیر سید افتخار الدین میں سے ہر ایک نے اصرار کیا کہ نظم اس کی صدارت میں پڑ ھی جائے۔ مجبوراً یہ فیصلہ ہوا کہ اقبالؔ اسے دو نشستوں میں پڑ ھ کر سنائیں گے۔ گذشتہ سال انجمن کے جلسے میں اقبال نے ’’شکوہ ‘‘سنائی تھی اور وہ بہت مقبول ہوئی تھی۔ شاید اسی لیے اس بار ان کی نظم سننے کے لیے تقریباً دس ہزار سامعین جمع ہو گئے تھے۔ شیخ عبدالشکور کا بیان ہے کہ یہ ’’ علامّہ کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ سرخ و سفید رنگ، شان دار مونچھیں ، بڑے وجیہ اور جامہ زیب انسان تھے۔ سرخ ترک ٹوپی ان کے سر پر عجب بہار دکھاتی تھی‘‘۔ (بحوالہ: اقبال کے ہم نشین، مرتبہ:صابر کلوروی، ص: ۲۳۵) …پہلی نشست کی صدارت مرزا سلطان احمد نے کی ۔ اقبال نے نظم کا آغاز کرنے سے پہلے ایک مختصر تقریر کی۔ فرمایا:
’’ جو نظم پچھلے سال لکھی تھی، وہ شکوہ تھا اور اس میں خدا سے شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اسے براخیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے… وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں میرے پاس آچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی، وہ ظاہر کر دی گئی… میری آج کی نظم ایسی جامع ہے، جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہوگا۔ اس کے لیے آپ اس کو دونوں حیثیتوں سے دیکھیں۔ ایک شاعرانہ پہلوسے ، دوسرے تجاویز نسخہ کے لحاظ سے اور اسی لیے عرض ہے کہ خدا کے واسطے تم توجّہ کرو اور اسلام کی عزت بڑ ھانے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لو‘‘۔ ( روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام: ص ۸۳۔۸۴ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام ص)
اس کے بعد انھوں نے نظم کے ابتدائی چھے بند سنائے۔ پہلی صدارت ختم ہوئی۔ دوسرے صدر کے کرسی نشین ہونے اور رسمی تقریرکرنے تک اقبالؔ کو آرام لینے کا موقع مل گیا۔ آخری چھے بند فقیر سید افتخارالدین کی صدارت میں سنائے۔ نظم سنانے سے پیشتر انھوں نے ایک قطعہ بھی سنایا جس میں جلسے کے دونوں صدور کا ذکر تھا۔ قطعہ یہ تھا:
ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت
اے کلامِ تو فروغِ دیدۂ برنا و پیر
درمیانِ انجمن معشوقِ ہرجائی مباش
گاہ با سلطان باشی، گاہ باشی با فقیر
گفتمش اے ہم نشیں! معذور می دارم ترا
در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستی اسیر
من کہ شمع عشق را در بزمِ دل افروختم
سوختم خود را و سامان دوئی ہم سوختم
(مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۴)
اقبال یہ نظم ترنم سے سنا رہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے:
در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے گر تودانی دار گوش
تو ان کے ایک مداح خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے اختیار ہو کر کہا: اقبال بارِد گر بخواں۔ اس پر اقبال نے بے ساختہ کہا: تاب ِ دگر بار سوختن ندارد۔ اقبال کے برجستہ جواب پر سامعین نے دل کھو ل کر داد دی اور خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے تاب ہو کر ، اقبال کا ہاتھ چوم لیا اور اس کے ساتھ ہی انجمن کو ایک ہزار روپے چندہ عطا کیا۔ (مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۶)
یہ نظم مولانا ظفر علی خاں نے اپنے پریس میں خاص اہتمام سے دس ہزار کی تعداد میں چھپوائی تھی اور آٹھ آنے فی کاپی قیمت رکھی گئی تھی۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اس کی فروخت سے جو پانچ ہزار روپیہ وصول ہوگا ،وہ ڈاکٹر اقبالؔ کو دے کر تبلیغ اسلام کے لیے جاپان بھیجا جائے گا۔ (سرودِ رفتہ: ص ۲۰۲)ا یک روایت یہ ہے کہ نظم کی ایک ایک کاپی پانچ پانچ روپے میں فروخت ہوئی۔
نظم کی ابتدائی شکل میں ساتویں بند کا پہلا شعر تھا:
ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں
سرمہ چشم دشت میں گردِ رمِ آہو ہوا
بعد میں بانگِ درا کی ترتیب کے موقع پر اس شعر کو حذف کر دیا گیا۔
۱۹۱۱ء کے خاتمے پر اور ۱۹۱۲ ء کے آغاز میں دنیاے اسلام کی دردناک صور ت حا ل ہر دردمند مسلمان کے دل کو رونا رلا رہی تھی۔ شکوہ (اوائل۱۹۱۱ئ) کے زمانے میں عالم اسلام جس افسوس ناک حالت سے دو چار تھا ’شمع اور شاعر‘ ( ۱۹۱۲ئ) تک پہنچتے پہنچتے ، اس میں اتنا اضافہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا۔ سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقوں ( مصر، مالٹا، سوڈان، قبرص، الجزائر ، تیونس اور مراکش وغیرہ) پر تو برطانیہ اور فرانس نے پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا، صرف طرابلس استعماری طاقتوں کے تسلط سے بچا ہوا تھا۔ اٹلی نے اپنے سابقہ اعلانات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے، ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو طرابلس پر ایک بھر پور حملہ کردیا۔ وہاں ترکوں کی بہت تھوڑی سی فوج مقیم تھی۔ ترکی سے مدد پہنچنا مشکل تھا کیونکہ مصر پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی بحریہ بھی کمزور تھی اس لیے سمندر کے راستے کمک پہنچانا بھی ممکن نہ تھا، تاہم غازی انور پاشا کسی نہ کسی طرح طرابلس پہنچ گئے۔ انور پاشا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی دعوتِ جہاد کا طریق ایسا دل نشین تھا کہ قبائلیوں کی صدیوں پرانی عداوت، اخو ّت و مؤدّت سے بدل گئی۔ مزید برآں انور پاشا نے انھیں ایسی عمدہ فوجی تربیت دی کہ عربوں نے اطالویوں سے بہت سا اسلحہ چھین لیا۔
جنگِ طرابلس کے واقعات اس دور کے اخبارات خصوصاً الہلال اور زمیندار میں شائع ہوتے رہتے تھے جس کے سبب ہندستانی مسلمانوں میں کافی جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔ قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی ایک محاذ پر مجاہدین کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوگئی۔ اقبال کی نظم’’ فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ اس ایمان افروز واقعے کی یادگار ہے۔ ’شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی۔ ان دنوں جنگِ طرابلس جاری تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے اقبال نے انھی دنوں ایک اور نظم’’ حضور رسالت مآب ؐ میں ‘‘لکھی۔طرابلس کے واقعات کو سن سن کر مسلمانوں کے دلوں میں جو فکر و اضطراب پیدا ہو رہا تھا، ان دونوں نظموں میں اس کی واضح جھلک موجود ہے۔
فکری جائزہ
شاعر، شدیدذہنی اضطراب اور درد و کرب کے عالم میں شمع کو دیکھتا ہے جو ایک استقلال کے ساتھ جل رہی ہے۔ اس کے گرد بے شمار پروانوں کا ہجوم ہے جنھیں شمع جلا کر خاک میں ملا رہی ہے۔ مگر پروانوں کا طواف اسی جوش و خروش سے جاری ہے اور ان کے عشق میں کمی کے آثار نظر نہیں آتے۔ یہ منظر دیکھ کر شاعر کا کرب و اضطراب دو چند ہو جاتا ہے ۔ اسے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ :
۱۔ وہ تنہا ہے… ’’ لالۂ صحرا‘‘ اور ’’ نے نصیب ِ محفلے‘‘ کی ترکیبوں سے احساسِ تنہائی آشکارا ہے۔ اس زمانے کے خطوط بنام اکبر الٰہ آبادی سے اقبال کے اس احساسِ تنہائی کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔ لکھتے ہیں:’’ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں ۔ ایک فردِواحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جاسکے‘‘۔ (اقبال نامہ، اوّل : ص ۳۵)ایک اور خط میں لکھتے ہی:’’لاہور کی بستی میں کوئی ہمدمِ دیرینہ نہیں… قومی جلسوں سے بھی پہلوتہی کرتا ہوں‘‘۔ (اقبال نامہ ، اوّل: ص ،۳۸)
۲۔ وہ اس ’’ سوزِ کلیم‘‘ اور دیوانگی سے محروم ہے جو پروانوں کے حصے میں آئی ہے۔ دراصل’ شمع اور شاعر‘ کے پہلے بند میں شاعر کی حیثیت عالم اسلام کے اس علامتی فرد کی ہے جو پوری امت ِ مسلمہ کی نمایندگی کر رہا ہے۔ شمع کے سامنے شاعر کا سوال اس امر کا اظہار ہے کہ امت ِ مسلمہ ان فرائض کو فراموش کر چکی ہے جو باری تعالیٰ نے اسے تفویض کیے تھے اور ان اوصاف سے محروم ہو گئی ہے جن کے بغیر اقوام عالم میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ گویا بالواسطہ یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا احیاے امت اور مسلم نشاتِ ثانیہ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ نظم کا باقی حصہ ( شمع کی زبانی) اسی سوال کے جواب پر مشتمل ہے۔-
ضمنا ً یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ اقبال کو ذاتی طور پر ’’ سوزِ کلیم‘‘ سے محرومی کا بڑی شدت سے احساس تھا۔ اسلام اور امت ِ مسلمہ کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں مگر انھیں عمر بھر یہ احساس ستاتا رہا کہ وہ اپنی ملت کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ سید نذیر نیازی کا بیان ہے : ’’ وہ کہا کرتے: میں نے اسلام کے لیے کیا کیا؟ میری خدمت ِ اسلامی تو بس اتنی ہے جیسے کوئی شخص فرطِ محبت میں سوئے ہوئے بچے کو بوسہ دے‘‘۔( اقبال کا مطالعہ: ص ۱۵۵)
شمع کی زبانی اقبال نے نظم کے اس حصے میں ملت اسلامیہ کے ماضی ، حال اور مستقبل پر مفصل بحث کی ہے۔
نظم کے موضوعات و مباحث کو ذیل کے عنوانات کے تحت تقسیم کیا جا سکتا ہے:
۱۔ قومی انحطاط
۲۔ مقامِ مسلم
۳۔ راہِ عمل
۴۔ روشن مستقبل
٭قومی انحطاط:
اقبال کے نزدیک مسلم انحطاط کے اسباب یہ ہیں کہ:
۱۔ مسلمانوں کا انفرادی کردار ختم ہو چکا ہے ،وہ صرف نام کے مسلمان ہیں۔ اخلاقی پستی نے انھیں رسوا کر دیا ہے اور بے عملی کے سبب وہ تن آسانی کاشکار ہوگئے ہیں۔
۲۔ مسلمانوں کے اندر ایسی باعمل قیادت کا فقدان ہے جو بھٹکتی ہوئی ملت کو اسلام کی منزل مقصود کی طرف لے جائے۔ قحط الرجال کا شکوہ اقبالؔ نے اور بھی کئی مقامات پر کیا ہے:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
۳۔ مسلمان آپس کے انتشار اور نفاق کا شکار ہو گئے ہیں۔ جب تک وہ متحد رہے۔ روئے زمین پر ان کا کوئی ہمسر و حریف نہ تھا لیکن باہمی نفاق کا شکار ہوتے ہی ان کی جمعیت ختم ہوگئی اور ساتھ ہی آبرو بھی گئی۔ ( اسی لیے اقبال نے آگے چل کر ’خضر ِ راہ‘ میں مسلم اتحاد کی اہمیت پر زور دیا ہے)۔
زوالِ مسلم کے اسباب گنوانے کے بعد اقبال مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا ذکرکرتے ہیں تاکہ وہ پرشکوہ ماضی کا موازنہ اپنی موجودہ پستی اور ذلت سے کر سکیں ۔ اقبال نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی شان و شوکت کا اس طرح ذکر کیا ہے:
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیں کیا تھے
جہاںگیر و جہاں دارد، جہاں بان و جہاں آرا
مگر اب ان کی کیفیت کیا ہے؟ کہتے ہیں:
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے
افرادِ ملت دینی جذبے سے محروم ہو چکے ہیں ، نہ شعلہ آشامی ہے اور نہ جگر سوزی، ان کی صفیں دیوانوں اور فرزانوں سے خالی ہو چکی ہیں۔ وہ فرقہ آرائی کی زنجیروں میں اسیر ہوچکے ہیں ۔ یہ وہ مقام ہے کہ جب اقبال اپنے مخاطب کے دل میں احساسِ زیاں بھی مفقود پاتے ہیں تو ان کے لہجے سے ایک گونہ مایوسی اور ناامیدی جھلکنے لگتی ہے۔ وہ اپنے نغمے کو بے موسم اور ترنم کو بے محل سمجھتے ہیں۔ در حقیقت یہ مسلمانوں کی اجتماعی بے حسی ، جمود اور قومی انحطاط پرشدید طنز ہے۔ بند ۲،۳،۴ کے آخری اشعار اس طنز کا شاعرانہ اظہار ہیں۔
٭مقامِ مسلم:
اقبال امت کو موجودہ پس ماندگی سے نکال کر دورِ عظمت و شکوہ کی طرف واپس لے جانا چاہتے ہیں مگر مسلمان اپنے حقیقی مقام سے بے خبر ہے، اس لیے وہ راہِ عمل متعیّن کرنے سے پہلے مسلمان کو اس کی اصلیت سے آگاہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
دورِ حاضر کے مسلمان کو ’’ مقامِ مسلم‘‘ کی طرف توجّہ دلاتے ہوئے خطاب کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے:
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
پھر اقبال اس ’’ دہقان‘‘ کو مختلف مثالوں اور علامتوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین قوم ہو۔ تمھاری عظمت کا ثبوت یہ ہے کہ تم نے دنیا بھر سے حق کے لیے معرکہ آرائی کی ہے۔صحرا ہوں یا سمندر اور دریا ، تم نے ہر جگہ خدا کا نام لیا اور تلواروں کی چھاؤں میں بھی اللہ کا کلمہ بلند کیا۔ جب تم حق کی خاطر’’تیغ کیا چیز ہے؟ ہم توپ سے بھی لڑ جاتے تھے‘‘تو اب خاشاکِ غیر اللہ کو بھی شعلہ بن کر پھونک سکتے ہو۔ شرط صرف یہ ہے کہ اپنی حیثیت و حقیقت کو پہچانو… اور یہ حیثیت معمولی نہیں ہے بلکہ تم زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہو۔ اقبال اتنی بات کو ناکافی سمجھتے ہوئے ایک بار پھر مسلمان کو جھنجھوڑتے ہیں:
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو
شاید وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دو ر کا مسلمان احساس کمتری کاشکار ہے۔ خود کو بے وقعت خیال کرتا ہے، اسے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا علم نہیں ۔وہ ’’ طلسم ہیچ مقداری‘‘ میں گرفتار ہے حالانکہ وہ بہت کچھ ہے ، بلکہ سب کچھ ہے۔ چاہے تو ہفت کشور بھی تسخیر کر سکتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان اگر فی الواقع صاحب ایمان و عمل ہے تو وہ نہایت بلند مرتبت ہے اور عظمت کے ایسے بلند مقام پر فائز ہے کہ اس کا تصو ّر ہی محال ہے۔
٭راہِ عمل:
اقبال کی شاعری حرکت و عمل اور سوز و دردکی شاعری ہے۔ عالم اسلام کے مایوس کن حالات اور مسلمانوں کی بے حسی اور جمود کے باوجود ،وہ ایک باہمت رہنما کی طرح مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں پُر امید ہیں۔ پروفیسر محمد اکبر منیر کے نام ایک خط میں فرماتے ہیں: ’’ میرا مذہبی عقیدہ ہے کہ اتحاد ہوگا اور دنیا ایک بار پھر ایک دفعہ جلال اسلامی کا نظارہ دیکھے گی‘‘۔( اقبال نامہ، دوم: ص ۱۶۳)اور اس پر امید مستقبل کو روشن تر بنانے کے لیے وہ ایک ایسے راہِ عمل کی نشان دہی کرتے ہیں جو ان کے نزدیک مسلمانوں کے لیے واحد ذریعۂ نجات ہے۔
اقبال مسلمان کے دل میں منزل مقصود کی تڑپ تازہ کرتے ہیں ، مگر ان کے نزدیک مسلمان کے لیے رخت سفر کے طور پرسب سے زیادہ ضرور ی چیز ’ شرابِ خانہ ساز ‘ اور ’ نقد خودداری ‘ ہے۔ بند ۶ اور ۸ میں اقبال نے بار بار اس طرف توجّہ دلائی ہے۔ ’اپنی مے‘ ، ’شعلۂ تحقیق‘، ’ شاخِ کہن‘ سے دراصل وہ خود ی کا درس دینا چاہتے ہیں ۔ مسلمان جب تک اپنی خودی کا احساس نہیں کرے گا ، اس کی حفاظت و بقا اور اس کی تعمیر و استحکام کے لیے کوشاں نہیں ہوگا، منزل مقصود پر پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ’’ خودی‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کسی معاملے میں بھی غیروں کا احسان مند نہ ہو اور ان کی تہذیب و تمدن اور معاشرت و ثقافت ہر شے سے بے نیاز ہو جائے۔ یاد رہے کہ ’’شمع اور شاعر ‘‘کا زمانہ وہ ہے ،جب اقبال کے ذہن میں نظریۂ خودی کے مختلف پہلوؤں پر غورو فکر جاری تھا ۔ اس دور کی شاعری میں تصو ّر خودی کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ جلد ہی ۱۹۱۵ء میں انھوں نے نظریۂ خودی کو ایک مکمل اور منضبط فلسفے کی شکل میں پیش کیا ( اسرارِخودی) بند ۶ اور ۸ کے بعض اشعار میں واضح طور پر مغرب پر تنقید کی گئی ہے ، مثلاً :
دل کے ہنگامے مے مغرب نے کر ڈالے خموش
اس باب میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو خودی کی پوشیدہ قو ّت سے کام لیتے ہوئے خاکسترِ پروانہ سے تعمیرِ سحر کرنی چاہیے۔ گویااقبال سمجھتے ہیں کہ مسلم قوم کے خاکستر میں اب بھی ایسی چنگاریاں موجود ہیں جو ان کے سینوں میں نشاتِ ثانیہ کے لیے عزمِ نو کی آگ لگا سکتی ہیں۔ اس امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ بار بار کہتے ہیں:
خیمہ زن ہو وادیِ سینا میں مانندِ کلیم
______
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر
______
نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگامِ خاموشی نہیں
______
ہاں اسی شاخِ کہن پر پھر بنالے آشیاں
______
لب کشا ہو جا سرودِ بربطِ عالم ہے تو
گویا ’’شمع او رشاعر‘‘ میں مسلمانوں کے لیے راہِ عمل کا تعیّن کرتے ہوئے اقبال نے دو بنیادی امور کی طرف توجّہ دلائی ہے:
۱۔ خودی کا احساس ۔
۲۔ تقلید مغرب سے اجتناب۔
مسلمان جب ان باتوں پر عمل پیرا ہوگا تو پھر وہ: ’’شعلہ بن کر پھونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو‘‘ کا مجسم نمونہ بن جائے گا۔
٭روشن مستقبل:
اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک راہِ عمل تجویز کی ہے۔ پھر انھیں اس پر گامزن ہونے کی ترغیب بھی دی ہے۔ان کی تمنا ہے کہ خاکستر مسلم میں دبی ہو ئی چنگاریاں سلگ اٹھیں۔اور اقبال نے انھیں خوب خوب سلگانے بلکہ بھڑکانے کی کوشش کی ہے: (بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے جوش) تو پھر آسماں کو نور سحر سے آئینہ پوش ہونے سے کوئی نہیں رو ک سکتا۔ ’’ جہانِ نوہورہا ہے پیدا‘‘ کی نوید دیتے ہوئے آخری بند میں علامّہ اقبال بڑے اعتماد ، جوش اور تیّقن کے ساتھ مسلمانوں کے روشن مستقبل پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں دو امور توجّہ طلب ہیں:
اول یہ کہ روشن مستقبل کی نوید سناتے ہوئے ، اقبال تقلید مغرب سے احتراز کی تلقین ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک زوالِ مسلم کا بہت بڑا ( اور دو رِ حاضر میں غالباً سب سے بڑا) سبب ایک طرف مسلمانوں کی تقلید مغرب ( سادگی اپنی بھی دیکھ) اور دوسری جانب مغرب کی سیاست ( اوروں کی عیاری بھی دیکھ) ہے۔ اس موقع پر اگر مشرق وسطیٰ کے اندوہ ناک حالات کو ذہن میں تازہ کر لیا جائے، خصوصاً سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ، اسرائیل کا قیام اور ممالک عربیہ کی بندر بانٹ ، تو اقبالؔ کی تلقین کی اہمیت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اقبال روشن مستقبل کی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنی آتش نوائی کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہ آتش نوائی اور پیغام سروش قافلۂ حجاز کے لیے زادِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ در اصل ’’ آتش نوائی‘‘ یا ’’ پیغام سروش‘‘ اور اسی طرح کی دوسری ترکیبیں ، علامات ہیں مسلم رہنماؤں کے لیے، یعنی جس طرح بھیڑوں کے کسی گلے کو ایک خاص مقام تک پہنچانے کے لیے کسی گڈریے کا ہونا ضروری ہے، اسی طرح روشن مستقبل تک پہنچنے کے لیے لازمی ہے کہ مسلمانوں میں ایسے باہمت دانش مند اور غیور رہنما موجود ہوں جو ان کی ڈولتی ہوئی کشتی کو کنار ے لگاسکیں۔ اس پہلو کی طرف اقبالؔ نے ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں بار بار توجّہ دلائی ہے۔ نواپیرا، ترنم ، نغمہ، گرمِ نوا، آوازِ درا، گفتمت روشن حدیثے، پیغامِ سروش ، لب کشا ہو جا ، شبنم افشانی… یہ ساری ترکیبیں اور اشارے مسلم قیادت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ گویا طلوعِ سحر اورجلوۂ خورشید کی تابانی کے لیے ضروری ہے کہ :
الف: مسلمان تقلیدِ مغرب سے اجتناب کریں۔
ب: باعمل رہنما ان کی رہنمائی کریں۔
اس آخری بند میں اقبال اس شیر کی بیداری کی نوید سنا رہے ہیں جس نے کسی زمانے میں صحرا سے نکل کر روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا۔ آخری بند پڑ ھتے ہوئے یوں احساس ہوتا ہے ، جیسے اقبالؔ کہہ رہے ہوں :
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گااپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا
اقبال ملت اسلامیہ کے حالات پر افسردہ و پریشان ضرور تھے مگر مایوس اور دل شکستہ ہونے کے بجاے ہمیشہ پر امید رہے ۔ ان کے ایک قریبی رفیق سید نذیر نیازی لکھتے ہیں: ’’وہ [اسلام ]کے مستقبل یا اس کی تقدیر سے ایک لحظے کے لیے بھی مایوس نہیں ہوئے۔ عالم اسلام کے جدید رجحانات ظاہر اً کس قدر یاس انگیز ہیں لیکن ان کی رجائیت میں سرِ مو فرق نہیں آیا۔ اس اعتبارسے اللہ تعالیٰ نے انھیں ایک خاص بصیرت عطا کی تھی۔ لوگ ان کے پاس آتے اور بے چین ہو کر مادّیت و وطنیت کے اس سیلاب کی طرف اشارہ کرتے جو بلاد اسلامیہ میں ہر طرف پھیل رہا ہے۔ حضرت علامّہ فرماتے: تمھاری نگاہیں قشر[چھلکے یعنی ظاہر] پر ہیں ۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھو اور منتظر رہو کہ انسان کے اندرون ضمیر سے آخر کس چیز کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عین اس وقت جب سیاست حاضرہ کی دسیسہ کاریوں سے عوام اور خواص تو کیا بڑے بڑے حجرہ نشین اور عبادت گزار بھی محفوظ نہ رہے۔ حضرت علامّہ کے پاے استقامت کو جنبش تک نہ ہوئی‘‘۔(اقبال کا مطالعہ: ص ۱۵۳۔ ۱۵۴)
یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے افسوس ناک حالات پر دکھ درد کے اظہار اور آنسو بہانے کے باوجود وہ’’ شمع اور شاعر ‘‘کے دور سے لے کر مرض الموت تک مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں پر امید رہے۔
فنی تجزیہ
شمع اور شاعر ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَعِلَاتُنْ فَاعِلُنْ
٭فارسی حصہ
’شمع اور شاعر ‘کا پہلا بند فارسی میں ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب پوری نظم اردو میں کہی گئی ہے تو پھر صرف پہلا بند فارسی میں لکھنے کا کیا سبب تھا یا ضرورت؟ اس کا ایک جواب تو ناقدینِ اقبال یہ دیتے ہیں کہ شمع اور شاعر کا دور وہ ہے جب اقبالؔ اردو سے زیادہ فارسی کی طرف مائل تھے۔ چونکہ ان کی شاعری کا مخاطب پورا عالم اسلام تھا جہاں اردو سے زیادہ فارسی قابلِ فہم تھی، اس لیے وہ فارسی کو ذریعۂ اظہار بنا رہے تھے مگر یہ اس سوال کا مکمل جواب نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ اقبال جیسے عظیم شاعر کے بارے میں جس کی قادر الکلامی فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں مسلّم ہے ، یہ سوال اٹھانا کہ اس نے ایک اردو نظم کے چند اشعار فارسی میں کیوں کہے ہیں، ایک ناقابلِ التفات اور غیر ضروری سی بات ہے۔
شاعر بسا اوقات اردو نظم میں کوئی ایک شعر یا مصرع فارسی کہہ جاتا ہے اور یہ بات معیوب نہیں سمجھی جاتی بلکہ یہ شاعر کے رجحانِ طبعی اور فنی اظہار کی ایک شکل ہوتی ہے۔’’ شمع اور شاعر‘‘ کے پہلے بند کے فارسی میں ہونے کا جواز بھی یہی ہے۔
پھریہ کہ شاعر اظہارِ جذبات میں بسا اوقات یہ محسوس کرتا ہے کہ زبان کی پابندی، اظہارِ جذبات میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے یا جذبے کو مکمل یا کسی مخصوص صورت میں پیش کرنے میں زبان مانع ہو رہی ہے اور وہ کسی دوسری زبان میں اسی جذبے کا زیادہ مکمل، بہتر اور جامع انداز میں اظہار کر سکتا ہے، اس صورت میں شاعر پر کسی ایک زبان میں شعر کہنے پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اس کی کوئی نظم اس لیے قابلِ گرفت قرار دی جاسکتی ہے کہ اس نے دو زبانوں کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے۔ اسی نظم کے چھٹے بند اور ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری بند میں اقبال اسی صورت حال سے دوچارہیں۔ چھٹے بند کا یہ ایک شعر ( در غمِ دیگر……) اور ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا آخری بند، اردو نظموں میں فارسی ٹکڑے ہیں۔ سبب اس کا یہی ہے کہ شاعر ان مقامات پر محسوس کرتا ہے کہ اردو زبان اس کے جذبات کی شدت اور جو ش و و فور کا ساتھ نہیں دے سکتی اس لیے وہ فارسی کو اظہار کا ذریعہ بناتا ہے۔
٭علامتی انداز:
نظم کا انداز رمزیہ اور علامتی ہے۔ نظم کا نام’’ شمع اور شاعر ‘‘ ہے مگر اصل موضوع ملت اسلامیہ ہے۔ شاعر کا لفظ صرف عنوان میں آیا ہے نظم میں کہیں استعمال نہیں ہوا۔ مختلف افراد، طبقوں اور کیفیات و احوال کے لیے جو علامتیں اقبال نے استعمال کی ہیں، وہ شعریت سے بھرپور ہیں۔ شمع، سوز دل علامت ہے۔ ساقی، پھول، مے کش، موج، دہقان وغیرہ کی علامتیں مسلمان کے لیے اور قیس کی علامت مسلم رہنماؤں کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ اقبال نے شاعری کی پرانی اور روایتی علامتوں کو نئے معنی و مطالب عطا کیے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے الفاظ میں:’’ اقبال نے شمع اور شاعر میں ایمائی کیفیت کا کمال دکھایا ہے۔ سارامکالمہ کنائے کی زبان میں ہے۔ یہ نظم اقبال کے آرٹ کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔ شاعر اپنی ایمائی کیفیت سے سامع کو اپنی ذہنی بلندیوں کی سیر کراتا ہے‘‘۔ ( روح اقبال: ص۷۳-۷۴)
٭رنگِ تغزل:
اقبال کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ نظم کے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں کی تعدادغزلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے اور ان کی شہرت کی بنیادیہی مختصر اور طویل نظمیں ہیں مگر ان کے کمال فن اور شاعرانہ مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ ان کی نظموں میں بھر پور رنگ تغزل پایا جاتا ہے۔ اردو نظم میں رنگ تغزل کا یہ منفر د انداز کسی اور شاعر کے ہاں نہیں ملتا… ’’شمع اور شاعر‘‘ بحیثیت مجموعی رنگِ تغزل میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بطور مثال چند اشعار ملاحظہ ہوں:
در جہاں مثلِ چراغ لالۂ صحرا ستم
نے نصیب محفلے، نے قسمتِ کاشانۂٖ
______
تھا جنھیں ذوقِ تماشا وہ تو رخصت ہوگئے
لے کے اب تو وعدۂ دیدارِ عام آیا تو کیا
______
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے
وہ جگر سوزی نہیں ، و ہ شعلہ آشامی نہیں
فائدہ پھر کیا جو گردشمع پروانے رہے
______
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی
وہ نگاہیں نا امیدِ نورِ ایمن ہوگئیں
دیدۂ خونبار ہو منت کشِ گل زار کیوں؟
اشک ِ پیہم سے نگاہیں گل بدامن ہوگئیں
’’ شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال نے غزل کی پرانی علامتیں اور الفاظ: ساقی ، مینا ، شمع ، پروانہ، تجلی ، ایمن ، اشک ، گل، راہبر، منزل ، بسمل ، صحرا وغیرہ ہی استعمال کیے ہیں مگر ان کے معانی و مفاہیم کو وسعت بخشی اور نیا مفہوم عطا کیا ہے۔
٭نظم کا لب و لہجہ:
’’شمع اور شاعر‘‘ میں متعدد موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کے مختلف حصوں میں انداز بیان اور لب و لہجے کا فرق ہے۔ پہلا بند ایک سوال ہے ، اس کا لہجہ بھی سوالیہ ہے۔ بند ۲- ۵ میں اقبال نے ملی انحطاط کارونا رویا ہے، اس لیے اس حصے میں افسردگی ، تاسف ، غم و اندوہ اور رنج و الم کا رنگ غالب ہے۔ اگلے چا ربندوں میں علامّہ اقبال مسلمانوں کو ان کے اصل مقام سے آگاہ کرتے ہوئے بڑے راز دارانہ انداز میں فہمایش کر رہے ہیں جیسے کوئی شخص اپنی بھٹکی ہوئی مگر پھر تائب ہو کر راہِ راست پر آجانے والی اولاد کو نصیحت کرتا اور سمجھاتا ہے، اس لیے یہاں اقبال کا لہجہ مفکرانہ ، ناصحانہ اور حکیمانہ ہے۔ بند نمبر ۸ میں وہ مسلمانوں کو ایک راہِ عمل دکھا کر جدو جہد کی تاکید کر رہے ہیں، اس لیے اس حصے کا لہجہ ترغیب دینے اور اکسانے والا ہے۔ آخری حصے میں ( آخری بند اور چھٹا بندبھی) مسلمانوں کو نوید مسرت سنائی جارہی ہے ، اس لیے لہجہ بہت پرجوش ہے۔
نظم کے مختلف حصوں میں استعمال کیے جانے والے الفاظ اور ترکیبوں کا، نظم کے مختلف اور متنوع لہجوں سے، گہرا تعلق ہے، مثلاً: ناصحانہ اور حکیمانہ لہجے والے حصے کے الفاظ و تراکیب بھی نرم، دھیمے ،سبک اور شیریں ہیں ( گوہر ، شبنم، آنسو ، کاروانِ بو، مثل جو وغیرہ) اس کے برعکس پرجوش لہجے والے حصے کے الفاظ و تراکیب جوشیلے ، متحرک ، جاندار اور قو ّت و حرارت سے بھر پور ہیں( سیماب پا، موج مضطر، نالۂ صیاد، سطوتِ رفتارِ دریا، آتش نوائی، جلوۂ خورشید) افسردہ لہجے والے حصے کے الفاظ و تراکیب سے احساسِ محرومی، رنج و تأسّف اور مایوسی ٹپکتی ہے( ویرانے ، ٹوٹی ہوئی مینا، سامانِ شیون، بسمل ، بے حس، سوز سے خالی، ناامیدِ نورِ ایمن، احساس زیاں ، واے ناکامی، نذر برہمن ، آسودۂ دامانِ خرمن۔)
٭حسن شعر کے دیگر وسیلے:
علامّہ اقبال سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ میں نے کبھی اپنے آپ کو شاعر نہیں سمجھا… فن شاعری سے مجھے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ہاں بعض مقاصد ِ خاص رکھتا ہوں جن کے بیان کے لیے اس ملک کے حالات و روایات کی رو سے میں نے نظم کا طریقہ اختیارکر لیا ہے۔‘‘( اقبال نامہ، اول: ص ۱۹۵)سید سلیمان ہی کو ایک اور خط میں لکھتے ہیں: ’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے، کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوںکی طرف توجّہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو اور بس‘‘۔ (اقبال نامہ ، اوّل: ص ۱۰۸)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے زبان و بیان کے حسن و جمال اور فنی لوازمات کی طرف کبھی سنجیدگی سے توجّہ نہیں کی۔ مگر اقبال کی اس بے نیازی کے باوجود ان کا کلام زبان و بیان کی جملہ خوبیوں سے بھر پور ہے۔ انھوں نے تراکیب سازی اور نادر تشبیہات و استعارات ، صنائع بدائع اور موزوں ردیف و قوافی کے استعمال میں متعدد وسیلوں سے کا م لیا ہے، چند پہلو ملاحظہ ہوں:
الف : چند نادر تراکیب:شعلہ آشامی۔ نقد خود داری۔ پیمانہ بردارِ خمستانِ حجاز۔ سرود بربطِ عالم۔ سطوتِ رفتار ِدریا۔ دشت جنوں پرور۔ وغیرہ۔
ب: محاکات: امیجری کی چند مثالیں:
آملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
________
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبح دم کوئی اگر بالاے بام آیا تو کیا
________
دیکھ لوگے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
ج: صنائع بدائع:
۱۔ صنعت تلمیح:
تنگ ہے صحرا ترا، محمل ہے بے لیلا ترا
۲۔ صنعت طباق ایجابی: ( دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہوں):
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائیِ بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوقِ بے پروا ترا
۳۔ صنعت مراعاۃ النظیر:
واے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا
مے بھی تو ، مینا بھی تو ، ساقی بھی تو، محفل بھی تو
۴۔ صنعت لزوم ما لایلزم: ( ایک امر یا چند ایسے امور کا جو ضروری نہ ہوں ، اہتمام کرنا):
دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو ، لیلا بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو
۵۔ صنعت تفریق:
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک
شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا
۶۔ صنعت جمع: ( کئی چیزوں کو ایک حکم کے تحت جمع کرنا) :
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا
دانہ تو ، کھیتی بھی تو،باراں بھی تو ، حاصل بھی تو
۷۔ صنعت اشتقاق: ( ایک ہی ماخذ اور ایک اصل کے چندالفاظ کا استعمال):
آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تو، راہ رو بھی تو، رہبر بھی تو، منزل بھی تو
بہ حیثیت مجموعی ’’ شمع اور شاعر‘‘ کے ذریعے اقبال نے، اپنی حالتِ زبوں پر نوحہ کناں مسلمانوں کو ایک خوش گوار مستقبل کی امید دلائی ہے۔ ’’ شکوہ‘‘ کے ذریعے ان کی ناگفتہ بہ حالت پر تند و تلخ شکایت کی گئی تھی، اس کا منطقی جواب تو ’’ جوابِ شکوہ‘‘ (نومبر ۱۹۱۲ئ) میں ملا مگر ’’ شمع اور شاعر‘‘ میں شکوہ کرنے والے کو امید دلائی گئی ہے کہ خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو، نغمۂ توحید سے چمن معمور ہوا چاہتا ہے۔ علامّہ اقبال کے اپنے الفاظ میں ان کی یہ نظم ’’ایسی جامع ہے جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہے۔‘‘