(Last Updated On: )
عشق وہ ساتویں حِس ھے کہ عطا ھو جس کو
رنگ سُن جاویں اُسے ، خوشبو دکھائی دیوے
ایک تہہ خانہ ھُوں مَیں اور مرا دروازہ ھے تُو
جُز ترے کون مجھے مجھ میں رسائی دیوے
ھم کسی اور کے ھاتھوں سے نہ ھوں گے گھائل
زخم دیوے تو وھی دستِ حنائی دیوے
تُو اگر جھانکے تو مجھ اندھے کنویں میں شاید
کوئی لَو اُبھرے ، کوئی نقش سجھائی دیوے
پتّیاں ھیں ، یہ سلاخیں تو نہیں ھیں راقب
پھول سے کہہ دو کہ خوشبو کو رھائی دیوے
خواتین میں سے عمارہ بھابی رمنا اور فرحان بھائی کی مما امبرین اور ان کے شوہر اکبر علی آمنہ کے گھر آئے تھے۔ عباس رمنا کی وجہ سے اس خاندان کچھ کچھ جاننے لگے تھے۔ رمنا کی سسرال انہیں بہت پسند آئی تھی اور اب آمنہ کے لیے رشتہ ادھر سے ہی آیا تھا۔ نور افشاں کے تو ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ گئے تھے رمنا جس خاندان میں بیاہ کر گئی تھی وہ سماجی حیثیت اور امارت میں ان سے بڑھ کر تھا۔ آثیر علوی فرحان کا خالہ زاد بھائی تھا اب آنا جانا شروع ہو گیا تھا تو فرحان اور اس کے گھر والوں کو قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا۔
فرحان پسندیدہ عادات کا مالک تھا یہ بات آثیر کی فیور میں جا رہی تھی۔ جاتے وقت یاسر اور عمارہ نے انہیں اپنے گھر آنے کی پر زور دعوت دی جو عباس نے قبول کر لی۔ اس بہانے وہ آثیر اور ان کے گھر بار کو بھی دیکھ لیتے باقی فیصلہ انہیں کرنا تھا۔ نور افشاں ویسے اس رشتے کے حق میں تھیں مگر عباس جلد بازی نہیں کرنا چاہتے تھے اسی وجہ سے تو ابھی تک حافظ اسرار کے گھر والوں کو حتمی جواب نہیں دیا گیا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
آمنہ کے لیے آثیر کا رشتہ آیا ہے سماویہ کے لیے یہ اطلاع بہت نا قابل یقین تھی۔
” دیکھا میں کہتی تھی ناں کہ ان دونوں میں چکر چل رہا ہے اب نتیجہ سامنے ہیں۔ شادی میں سب کچھ ہوا اور اب رشتہ بھی آ گیا۔” وہ ندرت سمیت بہت سوں کو یہ بات باور کرانے میں کامیاب ہو گئی تھی کہ آثیر اور آمنہ میں پہلے سے چکر چل رہا تھا جس کی وجہ سے اب اس نے رشتہ بھیجا ہے۔ وہ آمنہ کے پرانے تاثر کو زائل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہی تھی۔ چچی ندرت سیدھی نور افشاں کے پاس پہنچی اور چھوٹتے ہی آثیر کے رشتے کا پوچھا ظاہر ہے انہیں سب کچھ بتانا پڑا۔
” ہاں اچھا ہے اولاد کی پسند بھی ضروری ہے. جب لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو پھر اور کسی کو اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے ویسے کیا سوچا ہے تم نے ؟” ادھر نور افشاں ان کے جملوں کے ہیر پھیر میں گم تھیں کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔
” سوچنا کیا ہے عباس ابھی جا کے ملیں گے آثیر کے گھر والوں سے اس کے بعد ہی دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔” وہ سنبھل کے بولیں۔
” لو اب اس میں سوچنا کیسا سب کچھ تمہارے سامنے ہے۔” وہ اپنی بات کہہ کر چل دیں پر نور افشاں ان کی کہی باتوں پر غور کر رہی تھیں کہ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں کوئی اور اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
” تو کیا آمنہ اس لڑکے کو پسند کرتی ہے جو اس نے رشتہ بھجوایا ہے؟” پہلے بھی آمنہ کے حوالے سے وہ آثیر کا قصہ سن چکی تھیں پر آمنہ نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
” یہ سلسلہ مری آنکھوں پر ہی نہیں موقوف
میں تیرا شہر بھی ویران کرنے والا ہوں”
آج نیند آمنہ کی آنکھوں سے کوسو دور تھی. ثمامہ بھابی اور رمنا کی زبانی اسے آثیر کے پرپوزل کا پتا چلا تھا وہ تو یہی سمجھی تھی کہ رمنا اپنی ساس اور اس پیاری سی خاتون ( جو کہ عمارہ تھی ) کے ہمراہ ایسے ہی آئی ہو گی رمنا نے تو اسے ایک لفظ تک نہیں بتایا تھا۔ اپنی آمد کے سبب کی ہوا تک نہیں لگنے دی تھیں یہ تو ثمامہ بھابی تھیں جنہوں نے یہ مہربانی کی تھی۔ امی ابو نے اس پرپوزل کے بارے میں اس کی رائے تو معلوم کرنی تھی انکار یا اقرار کرنا اس کا حق تھا اور اپنے اس حق کو اس نے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کی رائے حافظ اسرار کے حق میں تھی جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ ان کے گھر آیا تھا تو ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے ثمامہ بھابی نے اس کی جھلک دکھائی تھی۔ وہ آنکھیں جھکائے عباس صاحب کی کسی بات کا جواب دے رہا تھا آمنہ کا دل مطمئن تھا حافظ اسرار سنجیدہ مزاج اور باوقار لگ رہا تھا۔
جبکہ آثیر علوی کے بارے میں سوچتے ہی آمنہ کا دل برا سا ہو گیا۔ وہ شادی کی بھری تقریب میں اتنے لوگوں کی پروا کیے بغیر نگاہوں سے اس کا ایکسرے کرنے میں مگن تھا ۔
عجیب بے باکی سے لبریز آنکھیں تھیں جن میں شرم و حیا عورت کے احترام کی کوئی رمق تک نہ تھی پھر ولیمے کے دن ندرت چچی اور سماویہ ہادیہ کے سامنے اس نے پھر وہی حرکت دہرائی تھی بلکہ آگے بڑھ کر ڈراپ کرنے کی آفر کی تھی گھر آ کر ہنستے ہنستے بظاہر سماویہ نے آثیر کے حوالے سے اس پر چوٹ کی تھی۔ بات اتنی چھوٹی بھی نہیں تھی جتنی آمنہ سمجھ رہی تھی۔
” شام سورج کو ڈھلنا سکھا دیتی ہے
شمع پروانے کو جلنا سیکھا دیتی ہے
گرنے والے کو تکلیف تو ہوتی ہے مگر
ٹھوکر انسان کو چلنا سکھا دیتی ہے “
ندا پھوپو آئی ہوئی تھی ان کی آمد بے سبب نہیں تھی ندرت بھابی نے فون پر بتایا تھا کہ آمنہ کے لیے آثیر علوی کا پرپوزل آیا ہے۔ وہ نور افشاں سے اس کی تصدیق کرنے آئی تھیں۔ سچ تو یہی تھا کہ آثیر علوی کو شادی میں دیکھ کر بہت سی ماؤں نے دل میں خواہش کی تھی کہ وہ ان کی بیٹی کا نصیب بن جائے جب وہ ولیمے والے دن ندرت کے ٹیبل پر بیٹھ کے باتیں کر رہا تھا تو ندا نے بھی دیکھا تھا۔
ندرت بھابی کی طرح انہیں بھی اچھا لگا تھا۔ ندرت بھابی نے رازدارانہ انداز میں انہیں بتایا تھا۔ کہ شادی میں آثیر اور آمنہ کا چکر تب ہی اس نے اب رشتہ بھیجا ورنہ عباس بھائی حافظ اسرار کے گھر والوں کو ہاں کر چکے تھے ندا پھپو کی تشریف آوری اسی سلسلے میں تھی۔ نور افشاں عباس فواد ثمامہ سب ہی بیٹھے ہوئے تھے جب ندا نے سوال کیا۔
” بھابی میں نے سنا ہے کہ آثیر آمنہ کو پسند کرتا ہے تب ہی رشتہ بھیجا ہے۔” نور افشاں یہ افوا پہلے بھی سن چکی تھیں پر عباس نے یہ بات اپنی بہن کے منہ سے سنی تو ان کی حالت عجیب سی ہو گئی۔ ان سے کوئی جواب ہی نہ بن پڑا وہ نماز پڑھنے کے بہانے سے اٹھ گئے آمنہ کے کمرے کے سامنے سے گزرے تو وہ نماز پڑھ رہی تھی ان کے دل پر جیسے منوں بوجھ آ پڑا تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆.
آثیر نے اتنی جلدی مچائی کہ عمر علوی کو آتے ہی بنی افروز نگین اور چھوٹے پوتے کی وجہ سے فی الحال آ نہیں سکتی تھی پر آثیر کے تیور اور بے صبری دیکھتے ہوئے لگ رہا تھا کہ انہیں آنا ہی پڑے گا۔ یاسر نے فون پر بڑی تفصیل سے اس کی ضد اور جارخانہ روئیے کا ذکر کیا تھا جانے وہ کیوں اس طرح کر رہا تھا۔ فرحان نے آمنہ کے لیے آئے پہلے پرپوزل کا بتا کر اسے بے سکون کر دیا تھا اسے ان دیکھے حافظ اسرار سے حسد محسوس ہو رہا تھا۔ آمنہ کے گھر والوں نے ابھی حافظ اسرار کے گھر والوں کو رضامندی نہیں دی تھی پر آثیر خوف کا شکار تھا۔
پاپا آگئے تھے آثیر نے کھل کے کہا تھا آپ خود آمنہ کے گھر جائیں اس کا مطالبہ ایسا نا جائز بھی نہیں تھا سعودیہ سے آنے کے دو دن بعد عمر علوی عباس صاحب کے گھر گئے۔
ادھر حافظ اسرار کے گھر والے ان سے پہلے وہاں موجود تھے انہوں نے بھی اڑتی اڑتی سنی تھی کہ آمنہ کے لیے ایک اور نوجوان کا رشتہ آیا ہے اور وہ ادھر ہی ہاں کریں گے۔ اسرار کی والدہ کو دھڑکا لگ گیا تھا اتنی اچھی لڑکی کو وہ ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہتی تھیں. عمر علوی مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکروں سمیت آئے تھے ان کے ساتھ آئے نوکر نے سارے لوازمات گاڑی سے اتار کر رکھے تھے۔
اسرار کی والدہ کا چہرہ بجھ سا گیا نور افشاں نے انہیں کھانا کھائے جانے نہیں دیا لیکن وہ مایوس سی تھیں آتے وقت انہوں نے پھر جواب مانگا۔ نور افشاں نے کہا کہ آخری فیصلہ ان کے مجازی خدا کا ہو گا. یہ بات سن کر ان کا یقین ندرت کی باتوں پر پختہ ہو گیا کہ یقینا آثیر کا رشتہ آمنہ کی مرضی سے آیا ہے ورنہ عباس اور نور افشاں ٹال مٹول سے کام نہ لیتے. ندرت نے ہی انہیں اکسایا تھا کہ آپ جا کر عباس بھائی سے جواب مانگیں ندرت کا جی نہیں چاہ رہا تھا کہ عباس حافظ اسرار کے علاوہ کسی اور کو ہاں کریں یہاں حسد کا جذبہ ہی کارفرما تھا۔ آثیر کی فیملی حافظ اسرار کے گھر والوں سے کئی گنا اچھی تھی ان کی خواہش تھی کہ عباس بھائی آثیر کے گھر والوں کو صاف انکار کر دیں۔
سماویہ نے پورے خاندان میں یہ بات مشہور کر دی تھی کہ آثیر اور آمنہ کا افئیر چل رہا ہے آمنہ جس طرح کی لڑکی تھی اسے دیکھتے ہوئے یہ بات نا قابل یقین لگتی تھی کہ وہ بھی کسی لڑکے کے ساتھ چکر چلا سکتی ہے۔ شادی میں جن جن کزنز نے آثیر کی نگاہوں کی بے باکی نوٹ کی تھی انہیں تو اس بات پر سو فیصد یقین تھا۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆.
عمر علوی کا اصرار زور پکڑتا جا رہا تھا وہ تین چار بار آ چکے تھے عباس ابھی تک تذبذب میں تھے کہ کس کو ہاں کریں کس کو ناں کریں۔ حافظ اسرار کے بارے میں انہوں نے جاننے والوں سے معلومات کروائی تھی سب ٹھیک ہے کی رپورٹ ملی تھی آثیر کے بارے میں ںوبت ہی نہیں آئی تھی کیونکہ ان کی بیگم سمیت بہو اور بیٹے کا فیصلہ بھی آثیر کے حق میں تھا۔ ایک بیٹی وہ پہلے ہی آثیر کے خاندان میں دے چکے تھے بظاہر کوئی برائی نظر نہیں آتی تھی آثیر کی فیملی اسرار کے مقابلے میں بہت اسڑونگ تھی وہ پھر بھی فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔
رات بھر وہ سوچتے رہے بار بار رائے بدلتے رہے فجر کی نماز پڑھ کر خدا سے مدد طلب کی تو سکون سا آ گیا۔ وہ فیصلے پر پہنچ چکے تھے ان کا فیصلہ حافظ اسرار کے حق میں تھا بے شک آثیر علوی کی فیملی حافظ اسرار سے مضبوط اور ہر چیز میں بڑھ کر تھی اگر وہ آثیر علوی کے لیے ہاں کرتے تو خاندان والوں کے دل میں یہ بات پختہ ہو جاتی کہ آمنہ کا واقعی آثیر علوی کے ساتھ کوئی معاملہ تھا ایک بیٹی کا باپ ہونے کی حیثیت سے وہ اس معاملے میں انا پسند تھے نہیں چاہتے تھے کوئی ایسی بات کرے۔ انہیں دو کام کرنے تھے حافظ اسرار کی والدہ کو فون کر کے ہاں کرنی تھی اور عمر علوی کو فون کر کے معزرت کرنی تھی۔