۔ I m a Barbie girl . فل والیوم میں سو لگے تھا، گلابی کلر اسکیم سے سجا کمرہ نفاست کے ساتھ اپنے مکین کے خوابوں کہ منہ بولتا ثبوت تھا ، نیہا نے نیٹ کی وائٹ میکسی پہنی ہوئی تھی جس کے گلے پہ موتیوں اور رنگوں کا بہت خوبصورت کام بنا ہوا تھا، اس کی آستین چوڑی دار تھیں ، اس نے ڈریسنگ ٹیبل پہ طائرانہ نگاہ کر اپنی مخصوص لپ لپ سٹک اٹھائی اور فائنل ٹچ دیا، لپ سٹک کے فائنل ٹچ کے بعد کمرہ desiv کی خوشبو سے مہکنے لگا تھا، وہ بیڈ پہ رکھا ڈوپٹہ اٹھانے کے لئے جھکی تو سیاہ سلکی بالوں نے لہرا کر اس کے چاند چہرے کو اپنی اوٹ میں لے کیا ، جبھی عمر جو اسے یہ بتانے آیا تھا کہ سب لوگ گاڑی میں بیٹھ چکے ھیں، صرف وہ اور عفرا رہ چکی تھیں ، آج بی جان کے بھانجے کی بیٹی کی شادی تھی جس میں وہ سب مدعو تھے ، شیشے کے سامنے کھڑی نیہا کو دیکھ کر اس کے قدم تھام گے ، وہ اس وقت اپنے معصوم حسسن اور لباس سے باربی ڈول لگ رہی تھی، نیہا نے اس کے تھام قدم محسوس نہیں کیے تھے ۔
سوری عمر بھیا بس آ رہی ہوں ۔ تیزی سے بیڈ پہ سے ڈوپٹہ اٹھا کے وہ عمر سے پھلے کمرے سے نکل آئی مبادا عمر سے ڈانٹ نہ پر جائے ، اس نے گھٹنوں کے پاس سے چٹکیوں کی مدد سے سے اپنی میکسی اٹھائی ہوئی تھی ، جھبی سامنے سے اسی کے جیسی نیٹ کی پنک میکسی پہنے عفرا اتی نظر ائی ، پورٹیکو میں کھڑی گاڑی میں بیٹھا طاہر جھخجھلا کہ اندر آیا وہ دونوں کو ایک جیسا تیار دیکھ کر یک دم ٹھٹک گیا ، عمر جو سیڑھیوں سے نیچے آ رہا تھا ، اس نے طاہر کہ ٹھٹکنا صاف محسوس کیا تھا ، اب یہ ٹھٹکنا عفرا کے کیا تھا یا نیہا دیکھ کر عمر عباس اس سے لاعلم تھا ۔
میں کسی لگ رہی ہو طاری بھیا ؟ نے کھلکھلا کر پوچھا ۔
میری بہن بکل پرنسس ، اوں نہیں بلکہ ۔۔۔۔
اس کے رکنے پر نیہا نے چونک کر اسے دیکھا ۔
باربی ڈول لگ رہی ہے ، طاہر نے انتہائی محبت سے بھائیوں کی شفقت لیے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو نہ جانے کیوں عمر کا رکا سانس یکدم بحال ہوگیا وہ اپنی کیفیت سے خود بی انجان تھا۔
اور میں ؟؟ عفرا نے طاہر کی توجہ اپنی طرف دلائی،
طاہر نے اس کی طرف رخ موڑا عفرا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں نی ستاروں جیسی چمک آ گی لیکن وہ شرارت پر آمادہ تھا ۔
عمر بھیا یہ کون ہے بلیک بیوٹی یا بل بتوڑی !
اس نے کن اکھیوں سے عفرا کو دیکھتے ہوۓ عمر کو مخاطب کیا۔
طاہر ائی ول کل یو ! عفرا اس کی شررات سمجھ گئی تھی ، دونوں مٹھیاں بھینچ کے اس نے اپنا غصہ دبایا۔
طاری بھیا ! نیہا نے منہ بسوراوہ بھی اس کی شرارت سمجھ گئی تھی۔
نیہا مجھ ڈر لگ رہا ہے ایسا نہ ہو رات سوتے میں ڈر جاؤں کیونکہ سنا ہے رات کے وقت اگر پچھل پیری دیکھ لو تو ڈورؤانے خواب آتے ھیں ، ۔ طاہر نے اسے دوبارہ چھیڑا، تو عمر نیہا کو اشارہ کرتا پورٹیکو کی طرف بڑھ گیا ، جہاں بی جان اور عفرا کے پرنٹس ان کے باہر آنے کے منتظر تھے، عمر اور نیہا کو باہر جاتا دیکھ کر عفرا بھی باہر کی طرف بڑھی تو طاہر نے یکدم اس کی کلائی تھام لی ۔
چھوڑو میرا ہاتھ “۔ عفرا نے خفگی سے کہتے ھوے اپنی کلائی چھڑانا چاہی ۔
ناراض ہوگئیں ؟
ہاں تو نہیں ہونا چاہے کیا ؟ عفرا نے منہ بنایا ۔
یار میں۔مذاق کر رہا تھا ، طاہر نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا ۔
یو آر سو بیوٹی فل اینڈ ویری پریٹی بس ۔
عفرا کی تسلی نہیں ہوئی تھی ان لفظوں سے سو اس نے بھی اسے تنگ کرنا چاہا ۔
میں سچ کہا رہا ہو ۔۔۔ یار کسی کا بی ایمان لوٹ سکتی ہو تو تم اس وقت اور مجھ لگ رہا ہے کہ میں کہیں باہر جانے کے بجائے تمہیں ۔۔۔۔۔۔۔” معنی خیزی سے جملہ ادھورا چھوڑا تو عفرا کے صحیح معنوں میں چھکے چھوٹ گئے اس نے ہراساں نظروں سے باہر کی طرف دیکھا اور پھر طاہر کو جہاں شوق کا ایک جہاں آباد تھا ، عمر کے تیز ہارن بجانے پر عفرا تیزی سے باہر لپکی اور ہائی ہیل سے مکن تھا وہ زمیں بوس ہو جاتی طاہر نے اسے یکدم تھام لیا ، وہ کرنٹ کھا کر سیدھی ہوئی اور د
ڈھک ڈھک دل کو سنبھالتی تیزی سے باہر نکلتی چلتی گئی اور طاہر عباس اس کی حیا و گھبراہٹ اور خوبصورتی کو محسوس کر کے دھیرے مسکرا دیا ۔
………………………………………………………………….
شام کی سنہری دھوپ یکدم سیاہ بادلوں میں چھپ گئی تھی ، دھوپ اور بادلوں آنکھ مچولی نے شام کے خوبصورت منظر کو حسین تر بنا دیا تھا ، نیہا کا دل بے اختیار سائیکلنگ کرنے کا چاہنے لگا اس نے ایک نظر اپنے لباس پر ڈالی بلیک ڈھیلے ڈھالے ٹراؤزر پہ وائیٹ اپنے سے کئے گنا بڑی شرٹ پہنے وہ اس میں چھپ سی گئی تھی ، گلے میں بلیک کلر کا اسکارف ڈالا ہوا تھا ، عفرا کو میسج کر کے وہ باہر آ گئی ، تھوڑی دیر میں عفرا بھی سائیکل لے کے باہر آئی ، اسے پتا تھا عفرا سائیکل چلتی نہیں بلکہ سائیکل کو ڈانس کرواتی ہے ، پھر بھی وہ اس کے بغیر سائیکلنگ نہیں کرتی تھی ، عفرا کے ساتھ تیز تیز سائیکل چلاتی وہ عفرا سے اگے نکل گئی ، بلاک کے اختتام پر اس نے سائیکل روک کر مڑ دیکھا تو عفرا اسے گالیوں سے نوازتی سائیکل کو بے نتھے بیل کی طرح چلاتی اس کی سمت آ رہی تھی نیہا کی بے ساختہ ہنسی نکل گئی مگر پھر اس کی ہنسی کو بریک لگ گیا نجانے کیسے بنگالے سے نکلتی وائٹک کرولا عفرا کی سائیکل سے ٹکرائی تھی بلکہ ٹکرائی تو کیا صرف ٹچ ہوئی تھی مقابل نے تیزی سے بریک لگایا تھا لیکن ڈولتی سائیکل کے ساتھ پھر بھی عفرا زمین بوس ہو تھی ، نیہا تیزی سے سائیکل دوڑائی اس سے پاس پنہچی ، کار میں موجود شخص اب اس سے معذرت کر رہا تھا باوجود غلطی عفرا کی تھی مگر وہ عفرا ہی کیا جو مان جائے ۔
آپ کو نظر نہیں آ رہا تھا یہ اونٹ کے جتنی لمبی گاڑی نکال کر سڑک پہ آنے سے پہلے آپ کو یہ نازک اندام حسین دوشیزہ نظر نہیں ائی، غصہ کے باوجود گاڑھی اردو میں اپنی تعریف پہ نیہا کی ہنسی نکال گئی وہی مقابل شخص کے چہرے پھیلتی مسکراہٹ نے عفرا کو گویا پتنگے لگا دئیے تھے ، بس پھر جو عفرا بی بی شروع ہوئی الامان الحفیظ ، نیہا کو باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر اسے خاموش کروانا پڑا تھا ۔
ائی یم سوری سر اگین سوری سر آپ پلیز جاسکتے ھیں اس کی طبیت کچھ ٹھیک نہیں ہے اسی لیے غصہ کر بیٹھی ۔ نیہا نے مقابل سے معذرت کرتے ھوے اس کی طبیت کا بہانہ
گھڑا تو عفرا اس شخص کو چھوڑ کر نیہا پہ چھڑھ دوڑی ۔
کسی معذرت کہاں کی معذرت ؟؟؟؟ وہ شخص مسکراتے لبوں ان دونوں کی نوک جھوک انجونے کرتا گاڑی میں بیٹھ کے یہ جا وہ جا ، اس کے جانے کے بعد عفرا نے دونوں ہاتھ جوڑے تو نیہا نے اچنھبے سے اسے ہاتھ جھاڑتے ہوۓ دیکھا ۔
جب تک سامنے والا ہر نہ مان لے ہمیں بھی زوردار مقابلہ کرنا چاہے ہے ناں ہنی ۔ اس کے آفریں خیالات سن کے نیہا کا دل چاہا اپنا سر پیٹ ڈالے ۔
اب چلیں ! ۔۔۔۔۔۔۔ نیہا نے عفرا سے پوچھا ۔
کہاں ؟؟؟؟ نیہا نے بے خیالی میں پوچھا !! سائیکلنگ کرنے مس نیہا سلیمان ۔
عفرا نے غصہ سے دانت پیستے ھوے اس کا پورا نام لیا تو نیہا اثبات میں سر ہلاتی سڑک کے کنارے گری اپنی سائیکل اٹھانے بڑھ گئی بلاک ایک نمبر کراس کر کے وہ دونوں بلاک دو میں داخل ہو چکی تھیں ، نیہا نے سائیکل کی رفتار قدرے ہلکی کر لی تھی کیوں نکہ عفرا کی رفتار سیدھی سائیکل چلانے میں نہایت کام تھی ، بلاک نمبر دو کے آخر میں مسجد کے پاس ڈھلان تھی یکدم نیہا نے عفرا کو سپیڈ بڑھانے کا اشارہ کیا اور خود سائیکل کو بھاگانا شروع کر دیا ، نیہا کو سائیکل بھگاتا دیکھ کر عفرا کو بی جنوں چڑھ گیا اور اس نے پیڈل پہ تیز تیز پاؤں مارنا شروع کر دیا نتیجتاً ڈھلان پہ اسے اترتے ھوے سائیکل بے قابو ہوئی اور عفرا سائیکل سمیت پہ سے پھسلتی چلی گئی ، فضا نسوانی چیخ سے گونج اٹھی تھی ، نیہا نے پلٹ کر دیکھا ، عفرا سائیکل سمیت ڈھلان پہ اوندھے منہ گری ہوئی تھی ، وہ سائیکل چھوڑ کر بھاگتی ہوئی عفرا کے پاس آئی تھی ۔
عفی عفی آنکھیں کھولو !!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے عفرا کے گال تھپتھپاے تو عفرا سر ہلا کر رہ گئی ، اس نے شکر ادا کیا وہ بے ہوش نہیں ہوئی تھی ، جبھی سامنے سے اتی بلیک کرولا کو اس نے ہاتھ دیا وہ یکدم روک گئی ۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا تو گاڑی میں مجود عمر عباس کو دیکھ کر سو والٹ کا کرنٹ لگا تھا ۔
وہ عمر بھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عمر بھائی کو دیکھا کر اس سے لفظ ساتھ چھوڑنے لگے اس نے ہکلاتے ھوے بتانا چاہا اتنی دیر میں عمر گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا اس نے سڑک پہ گری عفرا کو دونوں بازوؤں میں اٹھیا اور پچھلی سیٹ پہ لیٹا دیا خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ کر اس نے برابر والی سیٹ کا دروازہ کھولا تو پتھر بنی نیہا لڑکھڑاتے قدموں سے گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ قریبی کلینک وہ عفرا کی پٹی کروا کے جب وہ لوگ واپس لوٹے تو رات کے 8 بج رہے تھے ، عفرا کو نیہا کے سہارے چلتا دیکھ کر لاؤ نج میں بیٹھے بی جان اور طاہر ایک ساتھ اس کی طرف بڑھے تھے ، نیہا نے اسے سوفے پہ بیٹھا دیا ۔
یہ کیسے ہو گیا ہنی ۔۔۔۔یہ کیا ہوا ہے عفرا کو ۔ بی جان کے اساون خطا ہونے لگے تھے ۔۔ کیوں نکہ عفی ۔۔حیدر اور اس کی اہلیہ عفرا کو جی جان کے حوالے کر کے اپنے بھائی سلمان حیدر کے پاس اسلام آباد گیے تھے ۔۔۔
وہ جی جان !!!۔۔۔۔۔ اس نے انگلیاں مروڑتے ھوے بتانا چاہا عمر کا غضبناک چہرہ اسے ہی دیکھ رہا تھا ، عفرا نے صورتحال کو سمجھتے ھوے نیہا کو کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اسے سہارا دینے کا اشارہ کیا ، نیہا کے سہارے سے بیٹھنے ھوے اس نے کہا ۔۔
بی جان اصل میں میرا سائیکلنگ کا بہت جی چاہ رہا تھا تو میرے کہنے پہ نیہا مجھ سائیکل چلنا سیکھا رہی تھی بس بلاک 2 کے آخر میں بنی مسجد کے پاس ڑھلان مجھے نظر ہی نہ آ سکی اور یکدم مجھے چکر آ گیا تو میں اپنے آپکو سنبھال ہی نہ سکی ۔۔۔۔ عفرا نے ساری بات خود پہ ڈال کر نیہا کو بی جان اور عمر کے عتاب سے بچایا تو نیہا حیرت سے اسے دیکھنے لگی اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تو عفرا نے اس کا ارادہ جان اس کا ہاتھ ڈوبا کر زوردار چیخ مار دی ۔
کیا ہوا بیٹھا کیا زیادہ تکلیف ہو رہی ہے ؟؟؟؟اس کے چیخنے پی بی جان گھبراگئیں ۔
جی بی جان اگر آپ اجازت دے تو میں اپنے کمرے میں جاؤں ۔ عفرا نے معصومیت سے پوچھا ( اس کا آج کل قیام نیہا کے کمرے میں تھا )
ہاں ہاں ہنی بیٹا اسے کمرے میں لے جاؤ آرام کر لے ۔ عفرا نے نیہا کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا اور دھرے دھرے چلتی ہوئی اس کے کمرے میں آ گئی ۔ کمرے کا دروازہ بند کرتے ہی اس نے نیہا کو پیچھے کیا اور ناب گھما کر دروازہ لاک کر دیا ، اس وقت نیہا کی آنکھیں کھولی رہ گئیں جب عفرا ایک لمبی جست لگا کر بیڈ پہ گری اور بیڈ پہ گرتے ہی اس نے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیا ، نیہا ساکت وجامد اس کی ایکٹنگ دیکھتی رہ گئی تھی یعنی وہ سب ایک ڈرامہ تھا جو اتنی دیر سے باہر عفرا کری ایکٹ کر رہی تھی ، نیہا کے دماغ میں یکدم سوچ لہرائی جبکہ حقیقت یہ تھی عفرا سائیکل سے گری ضرور تھی لیکن چوٹ اس کی اتنی شدید نہیں لگی تھی جتنا وہ واویلا کر رہی تھی نیہا کی آنکھوں میں حیرت دیکھ کر عفرا نے کھلکھلا کر کہا ۔
ویسے تمہیں میری ایکٹنگ اور عمر بھیا کے عتاب سے بچ جانے پر مجھ آسکرایوارڈ تو ضرور دینا چاہے ، عفرا نے اس کی حیرت دور رہنے کے لیے مذاحاًطنز کیا تو نیہا نے اپنے بے وقوف بن جانے پر عفرا حیدر کو بطور آسکرایوارڈ تکیہ کی دھنا دھن اور ان دونوں کے قہقہوں سے گونجا اٹھا تھا ۔
بی جان نسیمہ بیگم اور دادا جان یعنی خاور عباس کو خدا نے ایک بیٹا اور بیٹی سے نوازا تھا ، بیٹا احمد عباس اور بیٹی ملیحہ عباس، احمد بڑا تھا اور ملیحہ اس سے دس سال چھوٹی تھی ، احمد کی شادی انہوں نے اپنی بھتجی نبیلہ سے کی تھی شادی کے سال بھر بعد خدا نے عمر عباس سے نواز دیا یوں عباس ہاؤس کو ایک جیتا جاگتا کھونا مل گیا عمر اس وقت چار سال کا تھا جب ملیحہ کی شادی خاور عباس کے بھتیے سیلمان حیدر سے ہوئی ، شادی کے سال بھر بعد خدا نے ملیحہ کو نیہا سے نواز دیا ، لیکن بعد قسمتی سے بیٹی کی خوشی ملیحہ ک نصیب میں نہیں تھی اور نیہا کے پیدا ہوتے ہی مالک حقہقی سے جل ملی ، شریک سفر کی جدائی سیلمان حیدر سے برداشت نہیں ہوئی ۔
نیہا کی پیدائش کے ایک ماہ بعد خدا نے احمد عباس کو ایک بار پھر نعمت طاہر عباس سے نوازا یوں احمد عباس کو دو بیٹے اور بیٹی کی شکل میں نیہا مل گئی ۔
نیہا چار سال کی ہوئی تھی جب ماں باپ جسے شفیق ماموں اور مومی پلین کرش میں چل بسے ، احمد اور نبیلہ کی وفات نے عمر کو چڑ چڑا کر دیا تھا ، پہلے جان چھڑنے والی پھپھو چھوڑ کر گئیں ، پھر دادا بھی چل بسے اور ابھی جب وہ دس سال کا تھا کہ ماں باپ کہ سایہ بھی سر سے اٹھ گیا ، اسے جانے کو چھوٹی نیہا سے چڑ ہونے لگی تھی ، ملیحہ کی شادی کے بعد اس نے بہت مشکل سے ایڈجسٹ کیا تھا لیکن نیہا کی پیدائش کے ساتھ ہی ملیحہ کی وفات نے اسے بری طرح جھنجھوڑ دیا ، جب چھوٹی نیہا دادا دادی کی آنکھ کہ تارہ بنی تو گویا عمر عباس پس منظر میں جانے لگا لیکن اس پس منظر کہ حصہ بنی سے پہلے دادا بھی اسے چھوڑ گے اسے وہ رات آج بھی یاد تھی جب انتقال سے ایک دین پہلے دادا نے اسے اپنے پاس بلا کر پیار کیا اور پھر سینے سے لگ کر وہ کتنے دیر بے آواز روتے رہے عمر نے کئی پل خاموشی سے گزرا دیے اور اس نے ان کے سینے سے سر اٹھا کر اپنے ننھے ہاتھوں سے ان کے آنسو پونچھے تو انہوں نے صرف ایک ہی جملہ کہا ۔
عمر میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ہنی کہ بہت خیال رکھنا ، بیٹا سارے رشتے چھوڑتے جا رہے ھیں ، اس سے تم اپنی ایک ذات میں ان سارے رشتوں کو سیمٹ کر بہت محبت دیانا بیٹا ، دو گے ناں محبّت میری ہنی کو”۔۔۔۔ پہلی مرتبہ دادا نے نے ہی اسے ہنی کے نام سے پکارا تھا ، پھر تو وہ گویا گھر بھر کے لیے ہنی بن گئی ، گویہ کے عمر اسے نیہا ہے کہا کرتا تھا مگر کھبی کھبی بے اختیاری میں اس کے منہ سے بھی ہنی نکل جاتا دادا کے انتقال کے ٹھیک چار سال بعد احمد اور نبیلہ کا بھی انتقال ہوا تو نیہا سلیمان سے ہونے والی چڑ نفرت میں بدلنے لگی یوں ہر رشتہ اور محبت چھن جانے کا محرک نیہا سلیمان کو سمجنے لگا گوکہ رشتہ چھننے کے بعد نسیمہ بیگم نے انہوں متاع حیات کی طرح سمیٹ لیا ، سلیمان حیدر کی وفات کے بعد ان کے بھائی علی حیدر بی جان کی بیوگی و تنہائی اور معصوم بچوں کی وجہ سے عباس ہاؤس کے برابر والا پلاٹ خرید کر اس پہ کام کروانا شروع کروا دیا ، حیدر ولا تیار کرتے وقت جس چیز کو پیش نظر رکھا گیا تھا وہ تھی درمیان کی دیوار دونوں گھروں کے درمیان صرف ایک باڑ تھی اور اور آنے جانے کے لیے لکڑی کا نفیس دروازہ تعمیر کروایا گیا تھا ، ہفتے کے چار دین وہ ان کے گھر کھانا کھاتے تو باقی کے تین دین بصداصرار بی جان کو اپنے گھر بلا لیا جاتا عمر کے سمجھدار ہونے تک علی حیدر ان کے بز نس کی نہایت ایمانداری سے دیکھ بھال کی تھی اور ملنے والا منافع بی جان کے ہاتھوں میں رکھتے رھتے تھے اور اب عمر کے سمجھدار ہونے اور تعلیم مکمل ہونے ہونے ساتھ انہوں اس کا بزنس اس کے حوالے کر دیا تھا ، علی حیدر کی ایک ہی بیٹی تھی عفرا حیدر جو نیہا اور طاہر سے چھوٹی تھی لیکن رعب اپنے بڑے ہونے کا چھاڑتی تھی جس کو وہ لوگ بہت انجونے کرتے تھے عمر عباس کو وہ اپنی بکل چھوٹی بہن لگتی تھی جبکہ طاہر عباس سے لڑکپن میں قدم رکھتے ہی اسے بہن مانے سے انکار کر دیا کیونکہ دل کی دھڑکنوں نے اپنی لے بدل لی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج عباس ہاؤس میں خفیہ میٹنگ تھی ، بی جان کے کمرے میں علی حیدر ، اسماء حیدر اور عمر عباس مجود تھے ، کمرے کا دروازہ بہت دیر سے بند تھا ، نیہا طاہر اور عفرا کے اندر آنے پہ پابندی تھی ، عفرا اس خفیہ میٹنگ پہ جلتی بنھتی لاؤنج میں مسققل پریڈ مارچ کر رہی تھی ، اس کے برعکس نیہا اور طاہر پر سکون انداز میں بیٹھے ھوے تھے گویا انہیں اطمینان تھا کہ اس خفیہ میٹنگ عقدہ جلدی ہی کھول جائے گا ، عفرا کو ان کے پر سکون انداز پہ رہ رہ کے تاؤ آ رہا تھا ، مسققل پریڈ مارچ کرتے ھوے اس کی نظر یکدم لاؤنج میں کھولنے والے روشندان کی طرف گئی تو کسی خیال کے تحت اس کی آنکھ چمک اٹھیی ، اس نے لاونج میں رکھی سینٹر ٹیبل کو گھیسٹ کر دیوار سے لگائی تو طاہر اور نیہا نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا گویا پوچھ رہے ہو یہ کیا کرنا چاہ رہی ہے ، طاہر نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا ، سینٹر ٹیبل کو دیوار کے ساتھ لگا کر عفرا بھاگتی ہوئی اسٹور کی طرف گئی ، تھوڑی دیر بعد وہ اسٹول کے ساتھ باہر ائی ، تو طاہر کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی وہ اس کا پلان سمجھا گیا تھا ، عفرا نے سینٹر ٹیبل پہ اسٹول رکھا اور خود اس پہ چڑھ گئی اس کے چڑھنے سے اسٹول ڈگمگایا مگر وہا پروا کیسے تھی ، ابھی اسے اسٹول پر چڑھے چند پل گزرے تھے کہ دروازہ کھلنے کی آواز آہی، دروازہ کھلنے کی آواز کے ساتھ عفرا کہ دل کے ساتھ پیر بھی ڈگمگایا اور وہ بدحواس ہوتی اسٹول سے نیچے آ رہی ، طاہر تیز سے نیچے گرتی عفرا کو سنبھانے لپکا لیکن اس سے پہلے ہی دروازے سے باہر نکلتے عمر نے اسے گرنے سے بچنے کے لے سارا دے دیا ۔
خیریت یہ سینٹر ٹیبل اور اسٹول یہاں کس لے آیا تھا ۔ عمر اس کی کروائی سمجھا چکا تھا اور اس کی جیمزبانڈ والی حرکتوں سے بی واقف تھا اس کے باوجود اس نے کڑے تیوروں سے پوچھا تو اس کے غصہ سے عفرا یکدم ڈر گئی
وہ عمر بھ۔۔۔۔بھ۔۔۔بھ۔۔۔بھائی میں نیہا سے کہا رہی تھی کہ مسسی سکینہ آج کل صیح صفائی نہیں کر رہی اور روشنداں پہ بہت مٹی اور جلے لگ گے ھیں ، اس نے ہکلاتے ھوے بہانہ ترشا جسے عمر عباس نے چٹلیوں میں اڑاتے ہوئے طنز کیا
پھر صاف کر لیے تم نے مٹی اور جالے ۔
کہاں بھائی ۔۔۔۔ اس نے اپنی خفت مٹاتے اور خوف دور بھاگتے ناک پہ سے نادیدہ مکھی اوڑئی ۔
ابھی تو میں مٹی جالے صاف کر رہی تھی کہ طاری نے مجھ دھکا دے کر گرا دیا اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ھوے منہ بسورا تو اس کی قدد کھلی طوطا چشمی اور جھوٹ پر طاہر ہکابکا رہ گیا۔
نہیں بھائی یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طاہر نے عمر کے سامنے اپنے پوزیشن کلیر کرنی چاہی جسے عمر نے ہاتھ کے اشارہ سے روک دیا ۔
طاہر تم اندر جاؤ تمہیں بی جان بولا رہیں ھیں اور نیہا تم جا کے چائے بناؤ سب کے لیے اور آپ عفرا بی بی یہ سارے جالے اور مٹی صاف کیجئے ابھی سمجھییں آپ میں خود چیک کرو گا آ کر ۔
ج ۔۔۔۔ج ۔۔۔۔جی اس کے اس قدر صاف حکم پہ عفرا لڑکھڑائی ہوئی پاس پرے اسٹول پہ گر گئی، اس کے ساتھ اس وقت اپنے آپ دام میں صیادا آ گیا والی مثال ہو گئی تھی ، طاہر اس کی حالت اور عمر کے حکم پر اپنی ہنسی چھپتا تیزی سے بی جان کے کمرے میں چلا گیا مبادا عمر کی نظر اس کی مسکراہٹ پہ نہ پر جائے ۔ نیہا کچن میں چلی گئی جبکہ عمر اس کی ایکٹنگ پہ نیچلا لب ڈباتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔ پیچھے اکیلی رہ جانے والی عفرا نیہا کی دغا بازی اور عمر کے حکم پر ان دونوں کو کوستی اسٹول دوبارہ سینٹر ٹیبل پہ رکھنے لگی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...