سدرہ بالکنی میں کھڑی مریم کا انتظار کر رہی تھی۔
تبھی اُسے بائیک پہ بیٹھا احمد بلڈنگ کہ کمپاونڈ میں داخل ہوتا دکھا۔۔۔اُف یہ تو اکیلے آرہے ہیں مریم تم کہاں چلی گئی ہو اب تو چھ بجنے والے ہیں۔۔۔
کیا کروں۔۔
کیا کروں۔۔۔سدرہ نے فکر مندی سے سوچا۔۔
بالکنی سے واپس اندر لاونج میں آتے رضوانہ پر سدرہ کی نظر گئ۔۔
جو تسبیح پڑھ رہی تھیں۔۔(ممتاز بیگم کی ڈیتھ کہ بعد سے یہ اُنکا معمول تھا)۔۔
سدرہ اُنہیں دیکھتی دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولتے باہر آگئ۔۔
جیسے ہی احمد سیڑھیوں سے اوپر آتا دکھا وہ فوراً اُسکی جانب لپکی۔۔۔
احمد بھائ۔۔۔
ہاں سدرہ کیا ہوا۔
وہ۔۔۔وہ آپی ابھی تک نہیں پُہنچیں۔۔
کیا۔۔پر اُسے تو کب کا پُہنچ جانا چاہیے تھا۔۔احمد کو اب فکر لاحق ہوئی۔۔
ٹھرو میں ڈھونڈتا ہوں۔۔ وہ یہ کہتے ہی اُلٹے قدموں پر واپس لوٹ گیا۔۔
تبھی فہد اپنے دروازے سے باہر نکلا اور
سدرہ کو باہر کھڑے دیکھ اُس تک آیا۔۔
تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟؟
سدرہ کہ چہرے پہ اُڑی ہوائیاں دیکھ کہ فہد کو فکر ہوئی۔۔۔
کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟؟
سدرہ کہ کچھ کہتے لب خاموش ہوۓ تھے۔۔اپنی بہن کا بھرم قائم رکھنا بھی بہت ضروری تھا۔۔۔
کچھ نہیں وہ ابا شام کی چاۓ کہ لئیے نہیں آۓ نا تو اُنہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔مریم نے اُسے ٹالتے ہوۓ کہا۔۔
اوہ اچھا پر تم پریشان کیوں ہو میں دیکھ آتا ہوں دوکان پر بلکہ تم فون کیوں نہیں کر لیتی۔۔
اُف کتنا بولتے ہو تم۔۔سدرہ نے فہد کو ٹالنا چاہا۔۔
مجھے لگتا ہے امی بُلا رہی ہیں۔۔۔تبھی وہ بغیر فہد کی طرف دیکھے غڑاپ سے گھر میں گُھس گئ۔
اُسکے اس طرح اگنور کرنے پہ فہد حیرت سے اُسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔
*************
عادل نے تھوڑا آگے پہنچ کر لڑکی کی مدد کہ خیال سے گاڑی ریورس کی گولی کی آواز پر گاڑی سے اُتر کر بھاگتا ہوا جیسے ہی وہ رکشہ کی طرف پُہنچا۔۔
تو ایک لڑکی کو رکشے میں منہ کہ بل گرے ہوۓ دیکھا۔۔
یہ کوئ رہائشی علاقہ تھا۔۔ لوگ گولی کی آواز پر گھروں سے نکل کر جمع ہونے لگے تھے۔۔
عادل کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اس لڑکی کو سیدھا کیسے کرے۔۔
تبھی مجمع سے ایک شخص آگے بڑھا۔
اور لڑکی کو اسکے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا۔۔
عادل جو ساتھ کھڑے کسی شخص کی بات کا جواب دے رہا رتھا
وہاں مریم کو خون میں لت پت دیکھ کر اُسے اپنے پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئ محسوس ہوئ۔۔
مریم ۔۔۔
مریم ۔۔۔۔
عادل نے فوراً اُس آدمی کو پیچھے دھکیلا اور مریم کا چہرہ تھپتھپاتے ہوۓ اُسے آوازیں دینے لگا۔۔۔
کیا آپ انہیں جانتے ہیں
کہیں سے سوال آیا۔۔
پر عادل کو کچھ سُنائ ہی نہ دیا۔ اس وقت اُسے ہوش ہی کہاں تھی۔۔
عادل نے آگے بڑھ کر مریم کو گود میں اُٹھاتے خود میں چھپا لیا۔۔۔
اُسکے وجود میں کوئ بھی حرکت نہ ہوتے دیکھ کہ عادل کہ رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگۓ۔۔
بھائ پلیز آپ میری گاڑی ڈرائیو کریں میں اسے پیچھے لیکر بیٹھتا ہوں۔۔
کیا آپ جانتے ہیں انہیں؟؟
مسز ہیں یہ میری۔۔
اوہ۔۔
ہم نے ایمبولینس کو کال کردی ہے پہنچتی ہی ہوگی۔۔
نہیں میں انتظار نہیں کر سکتا۔۔ کیا پتہ ایمبولینس کب آۓ میں تب تک اسے ایسے نہیں چھوڑ سکتا۔۔عادل نے عجلت میں کہا۔۔
وہ تو ٹھیک ہے بیٹا پر ایمبولینس آئیگی اس میں آکسیجن وغیرہ کا سب سسٹم ہوگا۔۔۔ تو مریض کہ لئیے یہی بہتر ہے۔۔۔
عادل مریم کو کسی بچے کی طرح لئیے کھڑا تھا اور بار بار ڈوپٹہ کھینچ کر اُسکے منہ کو کور کرتا ۔
ٹھیک ہے آپ ایک بار پھر فون کر کہ پوچھ لیں اگر ایمبولینس کہیں قریب ہے تو صحیح ہے نہیں تو میں انتظار کا رسک نہیں لے سکتا ۔۔عادل اس وقت جلد سے جلد مریم کو ہسپتال پہنچانا چاہتا تھا
بیٹا ہاسپٹل قریب ہی ہے۔۔
تبھی ایمبولینس کہ سائرن کی آواز قریب آتی سنائ دی۔۔۔اور عادل فوراً سے بیشتر مریم کو لئیے ایمبولینس میں سوار ہو گیا۔۔
**************
احمد اپنی بائیک لئیے اُسی راستہ پہ مریم کو ڈھونڈ رہا تھا جہاں سے ہوتے ہوۓ اُسے گھر پہنچنا تھا۔۔
پر وہ کہیں ہوتی تو اُسے دکھتی ۔۔
احمد بنا ہمت ہارے اب ہر سٹاپ پر اُسے ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
اُسے رہ رہ کر خود پہ غصہ آرہا تھا۔۔
مجھے مریم سے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔
وہ کتنی دُکھی ہوگئ تھی کہیں اپنے ساتھ کچھ کر ہی نہ لیا ہو اُس نے۔۔
اُف مریم ایک بار مل جاو تمھاری سب شکایتیں دور کر دوں گا۔۔
یا اللہ پلیز اس بار میری سُن لے۔۔
**************
آدھا گھنٹہ مزید گزرنے پر سدرہ نے فرید صاحب کو بھی فون کر کے بُلوا لیا تھا۔۔
رضوانہ کی تسبیح نے مزید تیزی پکڑ لی تھی راضیہ اور فہد بھی آچُکے تھے۔۔
وہاں بیٹھے ہر شخص کی اپنی ہی راۓ تھی۔۔
فہد کا کہنا تھا کہ عادل کو فون لگایا جاۓ۔۔
پر عادل کا نمبر لگ ہی نہیں رہا تھا۔۔
اور فرید صاحب کو لگ رہا تھا۔۔کہ اُنکے سمجھانے پر وہ روٹھ کر کہیں چلی گئ۔۔
تبھی دروازہ کھولے احمد اندر آیا۔۔
رضوانہ اُٹھتے ہی احمد پر جھپٹیں۔
کہاں ہے مریم بولو کہاں ہے وہ۔۔
بھابھی آپ کیا کہہ رہی ہیں احمد کو کیا پتا مریم کا۔۔
تبھی فرید بھی آگے بڑھے چھوڑو رضوانہ کیا کر رہی ہو۔۔اُنہوں نے عادل کو اُن سے چھڑوانا چاہا۔۔
وہ جس طرح تیار ہو کر نکلی تھی نا مجھے پوری اُمید ہے اسی کہ ساتھ گئ ہوگی۔۔
ممانی وہ بھائ کہ ساتھ کیوں جائیں گی۔۔فہد نے احمد کی حمایت کی
امی صحیح کہہ رہی ہیں ۔۔
آپی احمد بھائ سے ہی ملنے گئ تھیں۔۔
احمد یہ سب کیا کہہ رہے ہیں۔ریحانہ نے ناسمجھی سے احمد کو دیکھتے ہوۓ اُس سے پوچھا۔
امی وہ۔۔
تبھی کمرے میں رکھے رضوانہ کہ فون کی بیل بجی تھی۔۔ سدرہ اندر موبائل اُٹھانے چل دی۔
ہاں وہ مجھ سے ملنے آئ تھی پر مشکل سے آدھا گھنٹہ ہی رُکی تھی۔۔۔احمد کی بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔۔
**************
کراچی کی ٹریفک میں سے بہت مشکل سے نکلتے نکلتے وہ ہاسپٹل پہنچے تھے۔۔
عادل پورے راستے مریم کو آوازیں دیتے اور اُسکی چلتی سانسیں جو بہت رُک رُک کہ چل رہی تھیں محسوس کرتے ہسپتال پہنچا تھا۔۔
مریم کو فوراً آپریشن تھیٹر لے جایا گیا تھا۔۔
یہاں خوش قسمتی سے عادل کا دوست مل گیا تھا تبھی زیادہ مشکل نہیں ہوئ تھی ورنہ یہ ایک پولیس کیس تھا۔۔
عادل وہیں دیوار کہ ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔۔
تبھی اُسے گھر اطلاع دینے کا خیال آیا۔۔
اُسکے پاس رضوانہ کہ علاوہ کسی کا نمبر نہیں تھا۔۔
تبھی اُن کہ نمبر پہ کال ملائ جو سدرہ نہ اُٹھائ۔۔
ہیلو سدرہ۔۔۔
جی عادل بھائ۔۔
وہ مریم۔۔۔
کیا ہوا آپی کو وہ آپکے ساتھ ہیں۔۔سدرہ نے پوچھنا چاہا۔
اُسے گولی لگی ہے۔۔
کیااااا
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ۔۔
تم لوگ ہاسپٹل پہنچو فوراً۔۔
عادل نے ایڈریس بتانے کہ بعد کال کاٹ دی تھی۔۔
*************
سدرہ چیختی ہوئ باہر آئ جہاں سب عدالت لگاۓ احمد کو گھیرے کھڑے تھے۔۔
کیا ہوا ہے سدرہ سب ٹھیک ہے۔۔ فرید صاحب نے سدرہ کہ پاس آ کر پوچھا۔۔
بابا۔۔۔
وہ۔۔۔وہ۔۔۔
عاد۔۔۔عادل بھائ کی کال تھی۔۔
مریم نے روتے ہوۓ اٹک اٹک کر اپنی بات کہی۔۔
وہ کیا کہہ رہا تھا تم کیوں رو رہی ہو۔۔
رضوانہ چلاتی ہوئ بولیں۔۔
مریم کو گولی لگ گئ ہے
کیا؟؟؟
یہ سُنتے ہی رضوانہ زمین پر بیٹھتی چلی گئ تھیں۔۔
************
عادل نے ساجد اور ریحانہ کو بھی کال کر دی تھی۔
اب ہاسپٹل کی لابی میں سب ہی موجود تھے۔رضوانہ اور سدرہ کا رو رو کر بُرا حال تھا۔۔
جہاں عادل بہت فکر مند تھا وہیں احمد اپنی جگہ شرمندہ نظریں جھکاۓ کھڑا تھا۔۔
تبھی آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر باہر نکلتے دکھائ دئیے۔۔
عادل فوراً اُن تک پہنچا۔۔
میری بیوی کیسی ہے اب۔۔
اُنکی حالت خطرے سے باہر ہے۔۔
ہم نے گولی نکال دی ہے۔۔
کچھ دیر تک اُنہیں ہوش آجائیگا۔۔
ڈاکٹر نے عادل کہ کندھے پہ ہاتھ رکھے پروفیشنل انداز میں کہا۔۔
وہاں کھڑے ہر شخص کی جان میں جان آئ۔۔
************
گھنٹے بعد نرس نے مریم کہ پوری طرح ہوش میں آنے کی اطلاع دی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ باری باری آپ سب مل سکتے ہیں۔۔ اور آئ سی یو میں رش نہ لگایا جاۓ۔۔۔
اب سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے کہ پہلے اندر کون جائیگا۔۔۔
تبھی رضوانہ کھڑی ہوئیں میں اندر جانا چاہتی ہوں وہ یہ کہتے ہی دروازے کی جانب بڑھ گئیں۔۔
تبھی احمد عادل کہ پاس آیا۔۔
عادل۔۔۔
احمد کہ پکارنے پر عادل نے احمد کو دیکھا۔۔احمد کو دیکھتے ہی عادل کی تیوری پر بل پڑ گۓ تھے۔۔
کیا تم کچھ دیر کہ لئیے میری بات سُن سکتے ہو ۔۔
عادل بنا ادھر اُدھر دیکھے ہوسپٹل کہ کیفے کی طرف بڑھ گیا۔۔اور احمد نے اُسکے پیچھے اپنے قدم بڑھا دئیے۔۔
*************
رضوانہ جیسے ہی اندر داخل ہوئیں مریم کو ایسے مشینوں میں جکڑا دیکھ اُنکا دل بیٹھنے لگا تھا۔۔
مریم نے اُنہیں دیکھنے کہ بعد اپنا منہ موڑ لیا تھا۔۔اور اُسکی اس بات پر اُنکا دل کٹ کہ رہ گیا تھا۔۔
مریم میری بیٹی۔۔
میری گڑیا۔۔۔
وہ اُسکے منہ اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ ایک جذب کہ عالم میں کہنے لگیں۔۔
مریم کو آنسووں کا گولا اپنے گلے میں اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔۔
تم جانتی ہو جب تم پیدا ہوئیں تھیں اُس دن مجھے احساس ہوا کہ جیسے میں مکمل ہو گئ ہوں۔۔
رضوانہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں اُسے بتانے لگیں۔۔
میں جانتی ہوں میں بہت ضدی انا پرست اور شاید کافی حد تک خود غرض بھی واقع ہوئ ہوں۔۔۔
میں جو بھی جیسی بھی ہوں پر اپنی اولاد سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔
مریم نے حیرت سے اُنکی طرف دیکھا۔۔
تم جانتی ہو ایک عورت کہ لئیے بار بار یہ سُننا کہ وہ صرف بیٹیوں کی ماں ہے۔۔
وہ اپنے شوہر کو بیٹا تک نہیں دے پائ۔۔
ہاۓ بیچاری کا بڑھاپے میں کیا بنے گا کون سہارا ہوگا۔۔۔۔شوہر کب تک اس کہ ساتھ وفا کریگا۔۔
ہر کسی کی آنکھوں میں اپنے لئیے ہمدردی دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔
اور پھر اللہ نے راضیہ اور ریحانہ کو بھی تو بیٹا دیا تھا۔۔
تو مجھے کیوں نہیں کیا اللہ کہ پاس صرف میرے لئیے ہی کمی تھی۔۔
یہ باتیں دن بدن مجھے اللہ سے دور اور تم دونوں کی طرف سے لاپرواہ کرتی گئیں۔۔
راضیہ سے مجھے حسد ہونے لگا۔۔۔
اور ریحانہ بھی مجھے ایک آنکھ نا بھاتی۔ تب میں نے اپنی محبت عادل کو دینی شروع کی کہ شاید وہ میرا سہارا بن جاۓ۔۔آخر کو میرا اپنا خون تھا۔۔
وہ روتے ہوۓ آج پہلی بار اپنا دکھ کھول رہی تھیں۔
پر ایسا نہیں ہوا اپنی اولاد اپنی ہوتی ہے کسی دوسرے کی اولاد کو پیار کرنے سے وہ آپکی نہیں بن جاتی۔۔یہ مجھے بہت دیر سے سمجھ آیا۔۔
تم میری بیٹی ہو مجھے تم سے شدید محبت ہے۔۔
پر مجھے اپنی ماں سے بھی بہت محبت تھی مریم ۔۔۔۔
کیونکہ اُنہوں نے ہمیشہ میرے ہر صحیح غلط میں میرا ساتھ دیا تھا۔۔
پھر میں کیسے اُنکی آخری خواہش پوری نا کرتی۔۔
میں جانتی تھی تم احمد سے محبت کرتی ہو عادل کہ انکار کہ بعد میں تمھارے اور احمد کہ لئیے دل سے راضی تھی۔۔
اور یہ میرا خدا جانتا ہے مریم۔
پر میں اپنی ماں کی آخری خواہش کہ آگے ہار گئ۔۔
مجھے معاف کردو میری جان۔۔
اب وہ روتے روتے باقاعدہ ہاتھ جوڑے بیٹھی تھیں۔۔
تبھی مریم نے اپنے آنسو صاف کرتے اُنکے ہاتھ پکڑے۔۔
آپ میری ماں ہیں۔۔
مجھے اب کوئ گلہ باقی نہیں ہے آپ سے پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں۔
بلکہ مجھے معاف کردیں میں نے آپکو سب کہ سامنے بہت شرمندہ کیا۔۔
نا میرے بچے ایسا نہ کہہ۔
وہ پیار سے مریم کو پُچکارنے لگیں۔۔
تبھء سدرہ اندر آئ ۔۔
میں بھی ہوں امی۔۔۔
سدرہ جو کب سے دروازے میں کھڑی تھی اُن سے لپٹ گئ۔
(غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کی فضا چھٹ گئ تھی)
**************
بولو احمد کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔
عادل نے ٹیبل پہ دونوں کہنیاں ٹکاتے ہوۓ احمد سے پوچھا۔۔
تم نے مریم کو کیوں واپس بھیجا؟؟
کیونکہ وہ تمھارے ساتھ رہنا چاہتی یے۔۔
عادل نے اپنی سُرخ ہوتی آنکھیں احمد پہ گاڑے اُسے کہا۔۔
کیا اپنی بیوی کو چھوڑنا اتنا آسان ہوتا ہے؟؟؟
آسان تو نہیں ہوتا۔۔
پر جب آپکی بیوی کہ دل میں ہی کوئ اور ہو تو اُسے اپنے ساتھ باندھے رکھنا میرے نزدیک محض بیوقوفی ہے۔۔
دیکھو عادل میں نہیں جانتا کہ تم میرے اور مریم کہ تعلق کو کیسے دیکھتے ہو۔۔پر میں کچھ کلئیر کرنا چاہتا ہوں۔۔
احمد عادل کی طرف دیکھتے کہنا شروع ہوا۔۔
ہم کزنز ہیں بچپن سے ساتھ کھیل کہ بڑے ہوۓ ہیں ہمارے گھر آمنے سامنے تھے سو آنا جانا بھی بہت تھا وہ اپنی امی کہ رویہ کی وجہ سے بہت پریشان رہتی تھی اور سب مجھ سے شئیر کرتی تھی۔۔
میں اُسکا اُستاد بھی رہ چُکا ہوں۔۔۔
میں اُسے واقعی بہت چاہتا ہوں میں کیا اُسے کوئ بھی چاہ سکتا ہے وہ بہترین ہے۔۔۔
اس بات پر عادل نے اپنے دانت پیسے تھے۔۔
پر ہمارا کوئ ایسا ویسا تعلق نہیں تھا ہم کبھی تنہائ میں نہیں ملے کبھی کہیں باہر اکیلے نہیں گۓ۔۔کبھی کچھ ایسا نہیں کیا جس پر ہمیں شرمندگی ہو۔۔
احمد نے اپنی طرف سے صفائ دیتے ہوۓ کہا
عادل لڑکیاں بہت نازک ہوتی ہیں۔۔
اُنکے دل میں ہر اُس انسان کہ لئیے نرم گوشہ ہوتا ہے جس نے کبھی بھی کسی بھی قسم کی ہمدردی شو کی ہو۔۔۔
وہ بچپن سے تم سے چڑتی تھی۔۔
اور کیوں یہ تم بہتر جانتے ہوگے۔۔
میں بالکل نہیں مان سکتا کہ اُسے مجھ سے کبھی بھی محبت تھی۔۔
ہاں تم اس سب کو دوستی یا افیکشن کہہ سکتے ہو پر محبت نہیں۔۔۔
تم سمجھ رہے ہو نا۔۔۔
احمد نے عادل کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔
ایک اچھے دوست کی طرح میں چاہتا ہوں کہ مریم پہ کسی بھی قسم کا الزام نہ لگے اور طلاق کا دھبہ تو بالکل بھی نہیں۔۔۔
بس ایک ریکویسٹ ہے۔
وہ بہت سینسٹیو ہے سو پلیز اُسکا بہت خیال رکھنا۔۔
اور ایک اور بات احمد نے جاتے جاتے پھر سے رُکتے ہوۓ کہا۔۔۔
تم کبھی بھی کسی بھی موڑ پر مجھے اپنے اور مریم کہ بیچ نہیں پاوگے۔۔۔وہ سب کلئیر کرتے عادل کو اُسکی سوچوں میں گھرا چھوڑ کر جا چُکا تھا۔۔
***************
باری باری سب مریم سے مل چُکے تھے اگر کوئ نہیں آیا تھا تو وہ عادل تھا۔۔
یہ تو وہ جان چُکی تھی کہ اُسے ہاسپٹل تک عادل ہی لایا تھا۔۔
اگر وہ جانتا تھا کہ وہ یہاں ہے تو اب تک ملنے کیوں نہیں آیا۔۔
ہر بار دروازہ کھلنے پر مریم فوراً سے دروازے کی طرف دیکھتی کہ شاید اب آگیا ہو پر ہر بار اُسکی نظریں نا اُمید لوٹتی تھیں۔۔
تبھی آج تیسرے دن عادل مریم کو دکھا تھا۔۔
وہ اُسے نہایا دھویا بہت فریش لگ رہا تھا
تبھی اُسے دیکھ کر مریم نے سوچا کیا واقعی اُسے میری ذرا پرواہ نہیں ہے۔۔
مریم نے عادل کو دیکھتے ہوۓ سوچا جو رضوانہ سے کوئ بات کررہا تھا۔۔
چلیں میں سامان لے جا کر رکھتا ہوں گاڑی میں آپ اسے لے آئیں۔۔
بیٹا ایک ہی بیگ ہے میں اُٹھا لیتی ہوں تم ویل چئیر پہ مریم کو لے آو۔۔
عادل نے بنا مریم کی طرف دیکھا اُسے اُٹھنے میں ہیلپ کی۔۔اور وہیل چئیر پر بٹھاۓ باہر لے جانے لگا۔۔
مریم حیرت سے اُسکے رویے کہ متعلق سوچنے لگی۔۔
سدرہ تو کہہ رہی تھی کہ یہ دو دن تک خون والے گندے کپڑے پہنے کمرے کہ باہر بیٹھا رہا تھا۔۔اور بہت فکرمند تھا میرے لئیے پر اسے دیکھ کہ تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا۔۔
بات تو دور کی بات یہ تو میری طرف دیکھ بھی نہیں رہا۔۔
مریم اپنی ہی سوچوں میں گُم تھی۔۔
ہاسپٹل سے باہر نکلتے ہی۔۔
عادل نے گاڑی کا دروازہ کھولے مریم کو بیٹھنے میں مدد دی۔۔
اور گاڑی کی چابی فہد کو پکڑا دی۔۔۔
تم انہیں چھوڑ کر مجھے گاڑی یہیں لا دینا۔۔
میں اپنے دوست کہ پاس ہوں۔۔
عادل فہد کو سب سمجھاتے دوبارہ ہاسپٹل کہ اندر چلا گیا اور مریم سب حیرت سے دیکھتی ہی رہ گئ۔۔۔
***************
مریم اپنے گھر آگئ تھی۔۔
گھر پر سدرہ کہ نکاح کی تیاریاں شروع کر دی گئ تھیں۔۔کیونکہ فہد کہ حانے کہ دن قریب آرہے تھے
مریم سب چُپ چاپ دیکھتی ہوئ اپنے مستقبل کہ لئیے فکرمند تھی۔۔
جس کہ لئیے اتنے زعم سے سب چھوڑ آئ تھی۔۔
اس نے اپنانے سے ہی انکار کر دیا تھا اور خود سے واپسی کی طرف پلٹنے کو اُسکی انا ہی تیار نہیں تھی۔۔
گھر پہ بھی سب نے اُس سے اُسکے متعلق کچھ نہیں پوچھا تھا۔۔۔مریم کو ڈسچارج ہوۓ ہفتہ ہوگیا تھا اور اب وہ پہلے سے بہت بہتر تھی۔۔
رضوانہ سدرہ کو لئیے بازار گئ ہوئ تھیں اور فرید کارڈز بانٹنے ۔۔
گھر پر صرف مریم ہی تھی تبھی دروازہ بجنے کی آواز آئ۔۔
مریم سستی سے اُٹھتی ہوئ دروازے تک آئ۔۔
اور دروازے میں عادل کو کھڑے دیکھ حیران ہوئ۔۔
عادل نے اندر آنے کہ لئیے قدم بڑھاۓ تبھی۔
اس کے ہاتھ میں خاکی رنگ کا لفافہ دیکھ کہ مریم کہ دل کو پتنگے ہی لگ گۓ۔۔
کیا یہ مجھے طلاق دینے آیا ہے؟؟؟
نہیں نہیں پلیز یا اللہ ؟؟
مریم نے دل ہی دل میں دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔۔
تبھی عادل نے لاونج میں رُکتے وہ لفافہ مریم کی طرف بڑھایا۔۔۔
وہ یہ تمھارے۔۔۔
مریم نے اُسکی بات سُنے بغیر لفافے کو ہاتھ مار کر گرا دیا۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے مریم؟؟
عادل نے غصے سے کہا ۔۔
یہ بدتمیزی ہے اور جو آپ کر رہے ہیں وہ کیا ہے۔۔
مریم کہ منہ سے آپ سُن کہ عادل ٹھٹکا تھا۔۔
میں مانتی ہوں میں غلطی پر تھی میری جگہ کوئ بھی ہوتی وہ یہی کرتی۔۔
عادل حیرت سے کھڑا اُسے سن رہا تھا۔۔
پر آپ ہی نے کہا تھا نا۔۔
کہ۔۔ مریم نے اپنا حلق تر کرتے ہوۓ بات جاری رکھی۔۔
کہ جو بھی ہونا تھا ہوگیا ہمیں سب بھول کر نئ زندگی کی شروعات کرنی چاہیں۔۔۔
مریم نے پُر اُمید نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا۔۔مجھے آپ سے طلاق نہیں چاہیے پلیز۔۔
مریم نے سر جھکاۓ اقرار کرتے ہوۓ کہا۔۔۔میں آپ کہ ساتھ رہنا چاہتی ہوں عادل۔۔
او ہیلو ۔ ۔ طلاق کون دے رہا ہے تمیں؟؟
آپ وہی تو لے کر آۓ ہیں۔۔مریم نے سر اُٹھاۓ عادل کی جانب دیکھتے ہوۓ کہا۔۔
یہ تمھاری رپورٹس ہیں بیوقوف جو میری گاڑی میں رہ گئ تھیں۔۔
آج دیکھیں تو دینے آگیا کہ کہیں تمھیں ضرورت نہ ہو۔۔۔
مریم شرمندگی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی۔۔
اُف کیا بول گئ میں تھوڑا صبر ہی کر لیتی۔۔مریم کو خود پر غصہ آیا۔۔
تبھی عادل نے اُسے ہاتھوں سے پکڑتے ہوۓ صوفے پر بٹھایا اور خود پیروں کہ بل زمین پر بیٹھ گیا۔۔۔
مجھے معاف کردو مریم بچپن کی شرارتوں سے لے کر اب تک جو بھی بات میری بُری لگی اُس سب کہ لئیے۔۔
میں یہ نہیں کہتا کہ میں تم سے کوئ طوفانی محبت کرتا ہوں۔۔
پر ہاں محبت کرنے لگا ہوں۔۔
مریم کی آنکھیں آنسووں سے بھرنے لگی تھیں۔۔
میں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔
اور۔۔۔۔ یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ تمھیں چاہونگا۔۔۔صرف تمھیں۔۔
عادل نے اپنی ہتھیلی مریم کہ آگے پھیلا دی تھی۔۔۔
جسے مریم نے فوراً تھام لیا تھا۔۔
کچھ کہو گی نہیں۔۔
مریم نے سر جھکاتے نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔
“”””تو بول نہ بول تیرے بولنے کا غم نہیں۔۔۔
“تیرا ایک بھی دیدار تیرے بولنے سے کم نہیں۔
اُسکے شعر پڑھنے پر مریم کھل کہ مسکرائ تھی تبھی دونوں پر کیمرے کہ فلیش کی روشنی پڑی تھی۔ ۔
سدرہ اور رضوانہ دونوں دروازے میں کھڑی تھیں۔۔
واہ کیا پکچر آئ ہے ڈیویلپ کر کے اپنے کمرے میں لگوانا کیونکہ یہ آپ دونوں کی ساتھ میں پہلی پکچر ہے۔۔
مریم کو مسکراتا دیکھ عادل کی مسکراہٹ گہری ہوئ تھی۔۔
چلو میری بیوی کا برائیڈل ڈریس دکھاو۔۔
باتیں بعد میں کرنا۔۔۔
میرا ڈریس ؟؟ مریم نے حیرت سے پوچھا۔۔
ہاں تمہارا۔۔
سدرہ اور فہد کہ نکاح کہ ساتھ ہماری رخصتی ہے۔
ہیں ں ں ں ں۔۔۔
ہاں بالکل۔۔۔
ان سب کو ہنستا مسکراتا دیکھ رضوانہ کہ دل سے انکی دائمی خوشیوں کی دعا نکلی تھی۔۔
**************
آج کہ دن سدرہ اور فہد کا نکاح تھا ساتھ ہی مریم کی رُخصتی بھی تھی۔
آج کہ دن وہ سب بے حد خوش تھے کیونکہ سب کو اُنکی منزل مل گئ تھی۔۔
فہد نے نکاح کہ اگلے دن کینیڈا چلے جانا تھا۔۔۔
اور اسکی واپسی پر سدرہ کی رُخصتی متوقع تھی۔۔
بلڈ ریڈ کلر کہ لہنگے میں مریم بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔عادل نے سفید شیروانی پہنی ہوئ تھی۔۔
جبک سدرہ پیچ کلر کی گھیردار فراک پہنے بیٹھی تھی۔۔ساتھ ہی سفید شلوار قمیض پہ پرنس جیکٹ پہنے بیٹھا فہد بھی ہمیشہ کی طرح ڈیشنگ لگ رہا تھا۔۔۔۔اُن سب کو ہنستا مسکراتا دیکھ احمد بھی دور بیٹھا مسکرایا تھا۔۔۔
احمد کا ماننا تھا کہ وہ محبت جو عزت سے نہ ملے اُسے بوجھ کی طرح خود پر لادنے سے بہتر ہے کہ راستہ بدل لیا جاۓ۔۔۔اور ویسے بھی محبت پالینا ہی سب کچھ نہیں ہوتا اپنی محبت کو عزت اور سکون سے رہنے دینا بھی محبت ہے۔۔۔
اکسکیوز می۔۔۔
نسوانی آواز پر احمد نے مُڑ کر دیکھا۔۔۔
السلام و علیکم۔۔
وعلیکم السلام۔۔
میں بیٹھ سکتی ہوں یہاں۔
جی ضرور۔۔۔
میں نبتھل ہوں عادل کی کزن اوہ اچھا لگا آپ سے مل کہ۔۔۔احمد نے مسکراتے ہوۓ کہا۔۔
دور کھڑی رضوانہ نے احمد کو مسکراتا دیکھ اُسکی مسکراہٹ کہ قائم رہنے کی دُعا دی۔۔
***************
ختم شُد۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...