“حور شفی نے مولوی سے بات کی ہے وہ کہ رہے ہیں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے مگر حلالہ۔۔۔”
شائستہ بیگم اپنی بات پوری کرتی اس سے پہلے ہی حور نے اپنی خاموشی کو توڑا۔۔۔
“حلالہ، دوبارا نکاح یہ سب تو تب ہوگا نا جب میں شفی کو معاف کروں گی؟۔۔۔میں نے اسے معاف نہیں کیا۔۔۔”
حور نے نم آنکھوں سے کہا۔۔
“مگر حور۔۔۔” اماں نے کچھ کہنا چاہا۔۔
“نہیں نانو میں انہیں معاف نہیں کرسکتی۔۔۔میں جس ععزیت سے گزری ہوں۔۔جتنا روئی ہوں۔۔کیا اس سب کا ازالہ ایک معافی سے ہوجائے گا؟”
حور نے سرخ انکھوں سے پوچھا۔۔
اماں نے اسے گلےسےلگا لیا۔۔
“شفی وہ تمہیں معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔۔۔”
شائستہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔۔
وہ یک دم اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“پھپھو آپ نے بتایا نا کہ شفی شرمندہ ہے۔۔۔”
شفی نےبچارگی سے کہا
“میں نےکہا تھا مگر تمہارا ذکر تک نہیں سننا چاہتی۔۔”
شائستہ بیگم نے بتایا۔۔
“وہ ایسا کیسے کرسکتی ہے پھپھو۔۔۔وہ اتنی پتھر دل کیسے بن سکتی ہے۔۔۔میں۔۔مان رہا ہوں میری غلطی ہے۔۔
وہ مجھے جو سزا دے، برا بھلا کہے میں سہ لوں گا۔۔۔مگر وہ مجھے معاف کردے۔۔۔”
شفی نے منت کی ۔
“شفی سب ایک دم سے ٹھیک نہیں ہوجاتا۔۔۔وقت لگتا ہے اسے وقت دو ابھی۔۔۔”
شائستہ بیگم نے تسلی دی۔۔
“میں۔۔اس سے معافی مانگتا ہوں وہ معاف کردے گی۔۔۔”
وہ جانے لگا کہ شائستہ بیگم نے روکا۔۔
“شفی۔۔۔تم نہیں مل سکتے اس سے وہ عدت میں ہے۔۔۔
اور نا محرم ہو اب اس کے لیے۔۔۔”
شائستہ بیگم کی بات سن وہ رک گیا۔۔
“تم میری بات مانو ابھی واپس چلے جاؤ۔۔۔
جب حور کی عدت پوری ہوجائے گی تو معافی مانگ لینا ۔۔۔”
شائستہ بیگم نے اسے مشورہ دیا۔۔
صبح صبح کا بھیگا موسم اسے بہت پسند تھا۔۔۔
فجر کی نماز پڑھ کر وہ کھڑکی کےپاس آئی۔۔۔
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اس سے ٹکرایا ۔
اس کی نظر لان میں پڑی۔۔۔جہاں شفی کرسی پر بیٹھا اپنی سوچوں میں گم تھا۔۔
حورکے چہرے پر ناگواری اتری۔۔۔
اور اس نے جھٹ سے پردہ برابر کیا۔۔۔
“اب آپ چاہتے ہو کہ میں آپ کو معاف کردوں۔۔۔کبھی نہیں میرے بھروسے کے قاتل ہو آپ۔۔۔”
حور نے خود کلامی کی۔۔۔
پھر الماری کی جانب بڑھ گئی۔۔۔
کپڑوں کو آگے پیچھے کرتی۔۔۔اس کی نظر ایک سوٹ پر ٹھہر گئی۔۔
بلو کلر کا وہ سوٹ جس پر گولڈن کام ہوا تھا۔۔۔
جو وہ وصی کے ساتھ جاکر لائی تھی۔۔
ایک سنہری یاد اس سے ٹکرائی۔۔۔
اور وہ جھٹ مسکرا دی۔۔۔
ناشتہ کے بعد شفی واپسی کے لیے نکل گیا تھا۔۔
اوراتنے لمبے سفر کے بعد اسے پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی تھی۔۔
یہاں بھی کافی ٹھنڈ تھی۔۔۔
شام کا سنہری وقت پھیل رہا تھا۔۔
سورج غروب ہورہا تھا۔۔۔
پرندے اپنے گھروں کا واپسی جارہے تھے۔۔۔
اور ہر طرف خاموشی اور اداسی چھائی تھی۔۔
وصی بھی چائے کا کپ تھامے وہاں بیٹھا کسی سوچوں میں گم تھا۔۔ ٹھنڈ میں گرم چائے اسے لطف دے رہی تھی۔۔
(سردی بھی کوئی انجوائے کرنے کی چیز ہے۔۔۔؟)
حور کی بات اسے یاد آئی۔۔اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس نے چائے کی سپ لی۔۔۔
اسے سردی ہمیشہ سے بہت پسند تھی۔۔۔اور حور کو سردی سے چڑ تھی۔۔
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اسے اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہوئی۔۔
اس نے پلٹ کردیکھا۔۔
شفی کھڑا تھا۔۔۔اداس چہرہ لیے۔۔
“کب آیا تو؟”
وصی نے پوچھا۔۔
“آج۔۔۔” اس نے مختصر جواب دیا۔۔
“سب ٹھیک تھے وہاں۔۔؟” وصی نے پھر سوال کیا
“ہاں سب ٹھیک تھے۔۔۔” اس نے کہا۔۔
“معاف کردیا۔۔۔سب نے تجھے۔۔۔؟” وصی نےایک اور سوال کیا ۔۔
“ہاں۔۔۔بس حور نے نہیں کیا” اس نے اداسی سے کہا۔۔
“ہممم۔۔۔میں نے پہلے ہی کہا تھا زخم دینا آسان ہے مگر مرہم لگانا اتنا ہی مشکل۔۔۔” وصی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
“یار۔۔میں نے بہت دکھ پہنچایا ہے اس کو۔۔۔میں۔۔میں ایسا کیا کروں کہ وہ مان جائے۔۔؟”
شفی نے معصومیت سے پوچھا۔۔
“فلحال تو صبر۔۔۔ویسے اس سنے معاف کر بھی دیا تو کیا ہوجائے گا وہ تیری لائف میں دوبارہ نہیں آسکتی۔۔”
وصی نے اسے جتایا۔۔
“کیوں۔۔۔کیوں نہیں آسکتی؟”
شفی نے حیرت سے پوچھا۔۔
“کیوں کہ تو اسے طلاق دے چکا۔۔۔”
وصی سادگی سے گویا ہوا۔۔
“ہاں مگر میں نے مولوی سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ حلالہ ہوجائے تو ہوسکتا ہے ۔۔”
شفی نے بتایا۔۔
“اچھا۔۔۔حلالے کے لیے حور کو کسی اور سے شادی کرنی ہوگی شفی۔۔۔”
وصی نے گہری نظروں سے دیکھا۔۔
“ہاں۔۔۔۔پھر وہ طلاق دے دے گا۔۔۔تاکہ حور مجھ سے شادی کرے۔۔”
شفی نے کہا۔۔
“اور اس بات کی کیا گارنٹی ہوگی کہ وہ شخص جس سے تو حور کی شادی کروائے گا۔۔۔وہ اسے طلاق بھی دے دے گا۔۔۔؟”
وصی نے اس کے دماغ میں بات ڈالی۔۔
“ہاں۔۔دے گا۔۔کیوں نہیں دے گا طلاق؟”
شفی بوکھلایا۔۔
“مکر بھی سکتا ہے۔۔۔حور میں کس چیز کی کمی ہے؟ وہ کیوں طلاق دے گا۔۔۔ایسے کوئی نہیں ملے گاشفی جو حلالے کے لیے شادی کرے گا”
وصی نے سنجیدگی سے کہا۔۔
اور اٹھ کر وہا سے ا گیا اسے سوچوں میں گم کر کے۔۔
حور کی عدت ختم ہونے میں تھوڑے دن رہ گئے تھے۔۔
اور وہاں شفی کو یہ ٹینشن کھائے جا رہی تھی کہ حور سے حلالے کے طور پر شادی کرے گا کون۔۔۔؟
تبھی اس کے زہن نے کام کیا۔۔اور وصی کا چہرہ اس کی آنکھوں میں لہرایا۔۔
“ہاں۔۔۔وصی شادی کرے گا حور سے۔۔۔”
شفی نے سوچا۔۔
پھر اٹھ کر وصی کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔
دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر وہ اندر داخل ہوا۔۔
وصی بیڈ پر کمبل میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا اسے دیکھ چونکا۔۔
“مجھے تجھ سے کوئی بات کرنی ہے”
شفی نے کہا۔۔
“کیا بات بول۔۔۔؟”
وصی نے تجسس سے پوچھا۔۔
“دیکھ وصی۔۔۔میں حور کو نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔اور اسے میری لائف میں دوبارہ لانے کے لیے تجھے میری ہیلپ کرنی ہوگی۔۔” شفی نے کہا۔۔
“کیسی ہیلپ؟” وہ حیران ہوا۔۔
“تجھے حور سے شادی کرنی ہوگی۔۔۔حلالے کے لیے”
شفی نے یک دم بات پوری کی۔۔
“تو پاگل ہوگیا ہے؟” وہ بوکھلایا۔۔
“وصی میں تیرے علاوہ کسی اور پر یقین نہیں کرسکتا۔۔ ”
شفی نے التجا کی۔۔
“اچھا یقین تو تجھے مجھ پر بھی نہیں تھا۔۔۔تو اب کیا ہوا”
وصی نے تیر چلایا۔۔
“تو مجھے پھر سے میری غلطیاں یاد کروا کر شرمندہ کر رہا ہے”
شفی نے ملامت بھرے لہجے میں کہا ۔۔
کتنی ہی بحث کے بعد آخر شفی نے اسے راضی کر لیا۔۔
“لیکن کیا حور راضی ہوجائے گی۔۔۔؟”
وصی نے پوچھا۔۔
“میں اسے منا لوں گا۔۔۔پھر دیکھنا سب پھر سے ٹھیک ہوجائے جا۔۔۔”
شفی نے گہرا سانس لیا۔۔
“اللہ کرے ایسا ہی ہو۔۔مکھے تیری خوشی سب سے زیادہ عزیز ہے”
وصی نے اسے گلے لگایا۔۔
وقت اسی طرح پنکھ لگا کر اڑ گیا تھا۔۔۔
حور کی عدت پوری ہوگئی تھی۔۔۔
مگر اس بیچ وصی اور شفی دوبارہ گھر نہیں گئے تھے۔۔
انہیں بس اسی دن کا انتظار تھا کہ کب عدت ختم ہو اور وہ گھر والوں سے بات کریں۔۔
مگر شفی کو ابھی حور سے معافی مانگنی تھی۔۔
اور اسے یقین تھا کہ وہ اسے معاف کردے گی۔۔
جو کہ اسے وصی نے دلایا تھا۔۔
وہ لوگ پیکنگ کر رہے تھے گھر جانے کے لیے کہ دروازے پر دستک ہوئی۔۔
وصی نے دروازہ کھولا تو ڈاکٹر حمنہ کھڑی تھی۔۔
اسے دیکھ وصی کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔۔
“کیسے ہو وصی؟”
حمنہ نے اندر داخل ہوکر کہا۔۔
“ٹھیک ہوں۔۔آپ یہاں۔۔؟”
وصی نے پوچھا۔۔
“میں یہاں آپ لوگوں سے معافی مانگنے آئی ہوں۔۔۔”
حمنہ نےنظریں چراتے ہوئے کہا۔۔
“جس کے آپ لائق نہیں۔۔۔مگر پھر بھی۔۔۔آپ نے خود جاکر شفی کو سچائی بتائی ہمت کی داد دینی پڑے گی۔۔۔”
وصی نے ابرو اچکائی۔۔
“اس دن آپ کی باتوں نے شاید میرے ضمیر کو جھنجھوڑا تھا۔۔۔میں شرمندہ ہوں اپنے کیے پر۔۔پلیز مجھے معاف کردو”
حمنہ نے نم آنکھوں سےمعافی مانگی۔۔
“کچھ نہیں ملے گا تمہیں یہاں سے جاؤ یہاں سے”
پیچھے سے گرج دار آواز آئی۔۔
اور شفی لمبے ڈگ بھرتا قریب آیا۔۔
“شفی پلیز۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔”
حمنہ نے اس سے التجا کی۔۔
“نہیں تمہاری غلطی معافی کے لائق نہیں۔۔۔جاؤ”
شفی نے اسے باہر جانے کو کہا۔۔
“شفی۔۔۔” وصی نے اسے دیکھا۔۔
“چھوڑ معاف کردے۔۔۔ویسے بھی اعتبار کی ڈور تو ہماری کمزور تھی۔۔جو ایک ہی جھٹکے میں ٹوٹ گئی تھی۔۔
معاف کرنے سے انسان بڑا ہوتا ہے۔۔۔معاف کردے۔۔”
وصی نے کہا۔۔
“وصی تو۔۔۔” شفی نے کچھ کہنا چاہا مگر وصی نے س کی بات کاٹی۔۔
“غلطیاں تو سب سے ہوجاتی ہیں تجھ سے بھی ہوئی تھی نا اور تجھے معافی بھی مل گئی۔۔۔تو تو بھی اسے معاف کردے۔۔
اگر تو چاہتا ہے حور تجھے معاف کردے و تو اسے معاف کردے۔۔حور بھی تجھے اسی طرح معاف کردے گی۔۔یقین جان۔۔”
وصی نے نرم لہجے میں کہا۔۔
اور شفی نے سر جھکائے نم آنکھوں کے ساتھ کھڑی حمنہ کو دیکھا۔۔
وہ مغرب کی نماز پڑھ کر سیدھی لان میں آکر بیٹھ گئی تھی۔۔
وہ زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں ہی گزارتی تھی۔۔
عدت گزار کر اسے اکیلے پن کی عادت ہوئی تھی۔۔۔
وہ یا تو اکیلی بیٹھی رہتی یا پھر عبادت میں مشغول ہوجاتی۔۔۔
مگر سب کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنا۔۔۔
ہنسی مزاق کرنا۔۔۔۔اسے پسند نہیں تھا۔۔
وہ سوچوں کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی۔۔
کہ سامنے ٹیبل پر رکھا اپنا دیکھ چونکی۔۔جو اسے شفی نے دیا تھا۔۔
وہ اسی انداز میں بیٹھی رہی۔۔
بے اختیار ہی اسے وصی کا اس دن اسی جگہ بیٹھ کر موبائل سکھانا اسے یاد آیا۔۔
وصی کی وہ ہنسی۔۔۔اسے ایسا لگا جیسا یہیں پر گونج رہی ہو۔۔۔وہ یک دم مسکرائی۔۔
پھر فوراً اس کی ہنسی غائب ہوئی۔۔
“یہ کیا ہورہا ہے مجھے۔۔میں وصی کے بارے میں۔۔۔”
وہ دل میں سوال کرنے لگی۔۔
“ٹڈی۔۔۔” اس کے کانوں سے آواز ٹکرائی۔۔۔
اس نے وہم جان کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے۔۔
“کیا ہوا ٹڈی میری آواز اتنی بری بھی نہیں۔۔۔جو تم نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔۔”
وصی نے سامنے کھڑے ہوکر کہا۔۔
اور اس کی بات سن حور نے چونک کر اسے دیکھا۔۔
“کیسی ہو حور؟”
ایک اور جانی پہنچانی آواز نے اسے چونکایا۔۔
اس نے پلٹ کر شفی کو دیکھا۔۔
اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
“آنکھوں میں غصہ ابھر آیا۔۔۔
اسے پھر سے وہی واقع یاد آنے لگا۔۔
وہ وہ پیچھے پیچھے قدم بڑھانے لگی۔۔
“حور۔۔۔میری بات سنو۔۔۔” شفی نے آگے بڑھ کر اسے بازو سے تھاما۔۔
“نہیں۔۔۔چھوڑیں مجھے۔۔۔” حور اس کا ہاتھ ہٹانے لگی۔۔
“اتنی نفرت کرتی ہو مجھ سے؟”
شفی نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔۔
“نہیں۔۔اب تو آپ سے نفرت بھی نہیں کرتی میں۔۔آپ اس کے بھی لائق نہیں۔۔”
حور نے بھری آنکھوں سے کہا۔۔۔
“حور ایسا مت کہو۔۔۔میں اپنی ہی نظروں میں گر چکا ہوں۔۔کتنے وقت سے تمہاری معافی کا انتظار کررہا ہوں۔۔۔اور مجھے اور مت گراؤ۔۔۔میں مر جاؤں گا”
شفی نے ہاتھ جوڑے۔۔
حور خاموش کھڑی اس کے جڑے ہاتھوں کو گھورنے لگی۔۔
پھر جانے ہی لگی تھی کہ شفی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔۔
“خدا کے لیے میری غلطیوں کی اور سزامت دو۔۔۔انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔۔۔میں بھی ایک انسان ہوں ۔۔۔ہوگئی غلطی۔۔۔معاف کردو یار ۔۔۔” ہاتھ جوڑے وہ بس آنسوں بہا رہا تھا ۔۔
اور وہ موم کی گڑیا۔۔۔جس کا دل نرم پڑ گیا اور اسے روتا دیکھ پگھلنے لگا۔۔
وہ کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔
“حور۔۔۔” شائستہ بیگم نے پکارا۔۔
“جی مما۔۔۔”حور نے جواب دیا۔۔۔
“تونے شفی کو معاف دل سے کردیا ہے نا؟”
شائستہ بیگم نے پوچھا۔۔
“جی۔۔۔” حور نے مختصر کہا۔۔
“تو کیا تو اس سے پھر سے شادی بھی کرنا چاہتی ہے؟”
انہوں نے پھر سوال کیا۔۔
“اس بارے میں میں نے نہیں سوچا” حور نے معصومیت سے کہا۔۔
“مگر شفی نے سوچا ہے۔۔۔”
انہوں نے اطلاع دی۔۔
“کیا؟” وہ چونکی
“کہ تم سے پھر سے شادی ہوجائے۔۔۔اور اس کے لیے حلالہ لازم ہے۔۔۔تو اس نے۔۔۔”
شائستہ بیگم اپنی بات پوری کرتی کہ حور نے ٹوکا۔۔
“ایک منٹ مما۔۔۔غلطی شفی نے کی ہے۔۔۔تو حلالے کے لیے شادی میں کسی اور سے کیوں کر کے سزا بھگتوں۔۔۔؟”
حور نے سنجیدگی سے کہا۔۔
“مگر حور۔۔۔” شائستہ بیگم نے اسے سمجھانا چاہا۔۔۔
مگر وہ بنا کوئی بات سنے وہاں سے جا چکی تھی۔۔
وہ کچن سے نکلی تو اس کی نظر باہر لان میں کھڑے وصی پر پڑی۔۔۔
بے اختیار ہی اس کے قدم لان کی طرف بڑھ گئے۔۔
وہ اس کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔۔۔
“کیا کر رہے ہیں آپ؟”
حور نے نرم لہجے میں سوال کیا۔۔
وہ ایک دم پلٹا۔۔
“تمہارا انتظار۔۔۔” وصی نے ہنس کر جواب دیا۔۔
“میرا کیوں؟” حور نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
“کیوں کہ مجھے شادی میں جانا ہےکل۔۔۔۔اور میرے کپڑے پریس نہیں ہوئے۔۔”وصی نے شرارت سے کہا۔۔۔
“میں کردوں گی۔۔۔” حور نے مسکرا کر کہا۔۔
“ہائے کتنی کیوٹ ہو تم ٹڈی۔۔۔”
وصی نے خوش ہوکر کہا۔۔
“ایک بات پوچھوں؟”
حور نے کہا۔۔
“ہاں پوچھوں۔۔” وصی نے لاپرواہی سے کہا۔۔
“آپ مجھے ٹڈی کیوں کہتے ہیں۔۔۔جب کہ میرا قد اتنا بھی چھوٹا نہیں۔۔” حور نے معصومیت سے پوچھا۔۔
اوراس کی بات سن وصی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔۔۔
حور کنفیوز ہوئی کہ اس نے پتا نہیں کیا پوچھ لیا۔۔
پھربنا کچھ کہے تیز قدم اٹھاتی بھاگ گئی۔۔۔
وہ کھانے کے بعد سب کے لاؤنج میں بیٹھا تھا۔۔۔
“ددا میں پھر سے نکاح کرنا چاہتا ہوں حور سے”
شفی نے کہا۔۔
“تو نے کھیل سمجھا ہے شادی بیاہ کو۔۔جب دل کیا توڑ دیا۔۔جب دل کیا جوڑ لیا؟”
ددا نے غصہ سے کہا۔۔
“ددا میں نے غصہ میں سب کیا۔۔۔میں اب اپنی غلطی سدھارنا چاہتا ہوں۔۔۔”
شفی نے نرمی سے گزارش کی۔۔
“تو غصہ میں طلاق ہی دے دی۔۔تھوڑا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتا۔۔۔عورت جذباتی ہوتی ہے۔۔وہ فیصلہ کرنے میں جلد بازی کرتی ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے طلاق کا حق اسی لیے مرد کو دیاہے کیوں کہ اس میں برداشت ہوتی ہے۔۔۔سمجھ ہوتی ہے۔۔۔”
ددا نے تلخ لہجے میں سنائی۔۔
“ددا ہم جائز طریقے سے نکاح کریں گے۔۔۔اور۔۔۔”
شفی نے کچھ کہنا چاہا مگر ددا نے اس کی بات کاٹی۔۔
“جائز طریقہ۔۔یہ ہے ہے کہ تم جہالت عام کرو۔۔۔جاہلوں کی طرح تین طلاق دے کر فارغ کرو۔۔۔ طلاق دینے میں بھی جائز طریقہ اپناتے نا۔۔۔”
ددا آج تیش میں تھے۔۔
شفی خاموش بیٹھا سر جھکائے ان کی بات پر شرمندہ تھا۔۔
“اور یہ حلالے کے لیے تو وصی کا نکاح کروائے گا حور کے ساتھ۔۔۔منصوبے کے تحت۔۔کیا یہ جائز طریقہ ہے۔۔۔؟”
ددا نے کرخت لہجے میں پوچھا۔۔
“نہیں ددا۔۔۔یہ وصی نے خود کہا ہے کہ یہ مدد کرے گا میری۔۔۔میں نے نہیں فورس کیااسے۔۔۔وصی بتا۔۔۔”
شفی نے بوکھلا کر وصی کو اشارہ کیا۔۔۔
“جی ددا۔۔۔۔ددا چھوڑیں نے اب غصہ کم کریں۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔”
وصی نے پیار سے ددا کا ہاتھ تھاما۔۔
بھی حور لاؤنج میں داخل ہوئی۔۔۔
چائے کی ٹرے دونوں ہاتھوں میں تھامے۔۔
اور لاکر ٹیبل پر رکھ دی۔۔۔پھر بنا کچھ کہے لاؤنج سے باہر نکل گئی۔۔
وہ روم کے باہر لگے اسٹینڈ پر استری کرنے میں مصروف تھی۔۔۔ وصی تھوڑے فاصلے پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔
(نہیں ددا۔۔۔یہ وصی نے خود کہا ہے کہ یہ مدد کرے گا میری۔۔۔میں نے نہیں فورس کیااسے۔۔۔وصی بتا۔۔۔)
اسے شفی کا جملہ یاد آیا جو اس نے لاؤنج میں داخل ہونے سے پہلے دروازے پر سنا۔۔
وہ سوچ ہی رہی تھی کہ یک دم اس کا ہاتھ استری سے ٹکرایا۔۔۔اور اس کے منہ سے کراہ نکلی۔۔
“آہ۔۔۔۔” وہ اپنی انگلی چہرے کے سامنے کیے دیکھنے لگی۔۔جو جل چکی تھی۔۔۔
دور کھڑا وصی بھاگ کر اس کے پاس آیا۔۔۔
“کیا ہوا ہے دکھاؤ مجھے۔۔۔۔” وصی اس کا ہاتھ تھامے نظریں جھکائے دیکھ رہا تھا۔۔
جبکہ حور کی نظر اس پر ٹھہر گئی۔۔
“کیا۔۔۔۔ سوچ کیا رہی تھی۔۔۔جو بے دھیانی میں ہاتھ جلالیا۔۔”
وصی نے غصہ سے کہا۔۔
مگر وہ بنا کوئی جواب دیے اسے نظروں کے حصار میں لیے ہوئے تھی۔۔
“او ہو تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔۔”
وصی نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔۔
اور اس نے حواس میں آتے ہی فوراً ہاتھ پیچھے کھینجا۔۔۔
“نن۔۔۔نہیں کچھ بھی نہیں۔۔۔وہ میں۔۔۔” وہ بوکھلائی۔۔۔پھر پلٹ کر تیزی سے نکل گئی۔۔
“حور۔۔۔” وصی نے پکارا جسے اس نے مکمل نظر انداز کردیا
تھا۔۔۔
وہ جلدی سے کمرے میں کمرے میں آئی اور دروازہ بند کیا۔۔
اس کی سانسیں پھول رہی تھی۔۔
“کتنا فرق ہے تم دونوں میں وصی۔۔۔کتنی پرواہ ہے تمہیں میری۔۔۔”
حور نے خود کلامی کی۔۔
“کیا وصی مجھ سے شادی کر رنے کے لیے رضامند ہے؟”
حور نے سوچا۔۔
“مگر وہ تو صرف حلالے کے لیے مجھ سے شادی کرے گا۔۔۔”
اس نے خود ہی تصحیح کی۔۔
“شفی تم وصی جیسے کیوں نہیں ہو؟”
اس نے ملامت کی۔۔
“یہ میں سوچ رہی ہوں۔۔۔؟”
اس نےاپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔
“نہیں۔۔۔۔ایسا کچھ مت سوچ۔۔۔یہ غلط ہے۔۔”
حور نے پھر سے خود سے جواب دیا۔۔
اور بالوں کو باندھتی واش روم کی جانب بڑھ گئی۔۔
صبح کا وقت تھا۔۔ہر طرف ہلکی ہلکی دھند چھائی تھی۔۔
وہ حسب معمول۔۔نماز پڑھ کر کھڑکی پر آئی۔۔
اور پردہ ہٹا کر دیکھا۔۔
لان میں وصی اسی طرح کھڑا تھا۔
فون کان سے لگائے۔۔شاید کال پر بات کر رہا تھا۔۔
“انہیں سردی نہیں لگتی۔۔۔صبح صبح لان میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔پہلے تو سوتے رہتے تھے۔۔”
حور نے مسکرا کر خود کلامی کی۔۔
“شاید یہ آرمی جوئن کرنے کا اثر ہے جو جناب صبح صبح اٹھ جاتے ہیں۔۔”
جملہ پورا کر کے خود ہی ہنس دی۔۔
پھر پلٹ کر کمرے سے باہر نکلی۔۔
تیزی سے سیڑھیا اتر رہی تھی۔۔کہ نیچے کھڑے شفی پر اس کی نظر پڑی۔۔
جو سیڑھیوں کے برابر سے گزر رہا تھا مگر اسے دیکھ رک گیا۔۔
حور بھی اسے دیکھ ٹھٹکی۔۔
وہ لمحہ بھر سیڑھیوں پر رکی پھر پلٹ کر واپس اوپر جانے لگی۔۔کہ شفی کی آواز پر پھر سے رک گئی۔۔
“حور۔۔۔” شفی نے پکارا۔۔
“جی۔۔۔” وہ پلٹی۔۔
میری بات سنو۔۔” وہ سیڑھی چڑھتا اس کے پاس آنے لگا۔۔
اور حور نظریں چرانے لگی۔۔
“حور تم نے مجھے معاف کردیا۔۔۔تمہارا دل بہت بڑا ہے۔۔
میں اب بھی تم سے ہی محبت کرتا ہوں۔۔۔اور پھر سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔جو کہ حلالہ۔۔۔۔تم سمجھ رہی ہو نا؟”
شفی نے اس کی جھکی نظروں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
“جی۔۔۔” اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
“تو میں یہ اعتبار کسی پر کر نہیں سکتا تو میں نے وصی کو منایا ہے اس کام کے لیے۔۔وہ تم سے شادی کرلے گا۔۔۔پھر اے دن طلاق دے دے گا۔۔۔تو اس طرح ہم پھر سے شادی کر سکتے ہیں۔۔۔”
شفی نے ساری تفصیل بتائی۔۔
حور خاموش رہی۔۔
“تو مجھے یہ پوچھنا تھا کہ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں۔۔۔؟”
شفی نے سوالیا نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
“نہیں۔۔۔۔” حور نے مختصر سی ہامی بھری اور تیزی سے اوپر چڑھتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔
شفی اس کی رضامندی جان کر مسکرا دیا۔۔
خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔۔
اب سب ٹھیک ہورہا تھا۔۔
تبھی اس کا فون بجا۔۔
اس نے جیب میں ہاتھ فون نکالا۔۔۔اور کال رسیو کی۔۔
“ہیلو۔۔۔” شفی نے عادتاً کہا۔۔
اگلے لمحے وہ گھبرایا۔۔
“کیا؟” شفی نے حیرت سے پوچھا۔۔
“میں آرہا ہوں۔۔۔جی۔۔۔اوکے اللہ حافظ”
وہ کہتا پریشانی میں سیڑھیا اترتا۔۔لان کی طرف بڑھ گیا۔۔
جہاں وصی کھڑا تھا۔۔
“وصی۔۔۔” اس نے اس کے قریب آکر کہا۔۔
“ہاں۔۔۔” وصی نے پلٹ کر پوچھا۔۔
“وصی یار۔۔۔احمد کی طبیعت بہت خراب ہے۔۔۔اور اس کی ڈیوٹی کشمیر میں لگی ہے۔۔۔تو وہ وہیں ہے۔۔۔ایک دو دوست بھی جارہے ہیں طبیعت معلوم کرنے۔۔۔تو مجھے نکلنا ہوگا۔۔۔
پتا نہیں کیسی طبیعت ہے اس کی یار۔۔۔پریشانی ہورہی ہے”
شفی نے اداسی سے کہا۔۔
احمد اس کا بہت اچھا دوست ہے یہ بات وصی اچھے سے جانتا تھا۔۔
“سب ٹھیک ہوگا انشاء اللہ تو فکر نہیں کر۔۔۔میں بھی چلوں کیا تیرے ساتھ؟”
وصی نے پوچھا۔۔
“نہیں تیرا یہاں ہونا لازمی ہے۔۔۔حور کو میں نے راضی کرلیا ہے۔۔اب تو ایک دن مقرر کر کے نکاح کر۔۔۔تجھ پر یہ زمہ داری چھوڑ کر جا رہا ہوں میں۔۔۔یہ کام لازم ہے۔۔”
شفی نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
“تو فکر نہیں کر۔۔۔سب بہتر ہوگا۔۔۔”
وصی نے اسے گلے سے لگایا۔۔۔
پھر شام تک وہ سب سے مل کر کشمیر کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔۔۔
وصی پر یہ زمہ داری ڈال کہ وہ حور سے شادی کرلے گا اور دوسرے دن اسے طلاق دے دے گا۔۔۔
اور وہ سکون سے سفر طے کرنے لگا۔۔
اس سوچ سے بے فکر کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔۔