شام کا دھندلکا شہر قائد میں پھیلنے لگا تھا دھوئیں کے پار سے اتر کے شام یہاں اب ڈھلنے لگی تھی…..شام آج واقعی سیاہ تھی یا مہرماہ کو ماتمی رنگ میں ڈوبی نظر آئی تھی میر ہاؤس کے سارے مکین آج جمع تھے میر عدیل اور میر حسام جو میر ثمر کا چھوٹا بھائی تھا وہ بھی میر ہالار کے گھر آچکا تھا مہرماہ نے شام کی مناسبت سے خاصا اہتمام کرلیا تھا میر برفت کی صحتیابی کی خوشی میں وہ اب مکمل روبہ صحت تھے اور آج تو انکے چہرے کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی
” ارے لو مہر ماہ بھی آگئی……” میر جاذب بولے تھے
مہر ماہ دھیرے سے مسکرائی تھی اسی پل میر ہاؤس کا دروازہ کھلا تھا اور سفیر صاحب کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی
مہرماہ حیرانی سے سیدھی ہوئی تھی سفیر صاحب عالیہ بیگم اور نیہا کے ساتھ باہر نکلے تھے
” ماموں…..” مہرماہ انکی طرف دوڑی
” کیسی ہو بیٹا….” سفیر صاحب نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا تھا
” ٹھیک …..آپ کیسی ہیں ممانی….آپ کو بہت مس کیا…”
مہر ماہ نے دانستہ نیہا کو نظر انداز کیا تھا
” ارے میری بیٹی میں نے بھی تمہیں بہت یاد کیا…..اور میں ٹھیک ہوں میری اتنی فکر نہ کیا کرو ”
عالیہ نرمی سے بولیں تھیں
” آئیے سفیر صاحب خوش آمدید….م” میر جاذب نے ان کا استقبال کیا تھا اور انہیں ڈرائنگ روم کیطرف لے کے بڑھ گئے تھے
سفیر صاحب کی تیاری بتا رہی تھی کہ وہ میر ہاؤس کسی خاص مقصد سے آئیں ہیں
” یہ لوگ کیوں آئے ہیں…” میر برفت نخوت سے بولے
” ابا جان پلیز….وہ مہر ماہ کی فیملی کے لوگ ہیں اور ہالار کے سسرالی بھی …..” میر جاذب نے جیسے انکو یاد دلایا
” ہنہ….سسرالی…چلو یہ خوش فہمی بھی دور کرتے ہیں انکے…..دیر سے سہی ہالار کو عقل آہی گئی. …” میر برفت تمسخرانہ انداز میں بولے
” کہنا کیا چاہ رہے آپ….” میر جاذب چونکے
” معلوم ہوجائے گا چلو….” میر برفت لاٹھی ٹیکتے آگے بڑھ گئے تھے
میر جاذب فورا ان کے پیچھے لپکے تھے
” ماشاء اللّه اب تو آپ خاصے بہتر لگ رہے ہیں…. ” سفیر صاحب نے رسمی گفتگو شروع کی تھی
” الحمد اللّه ….ہماری بیٹی مہرماہ ہمارا بہت خیال کرتیں ہیں….” میر برفت مان سے بولے تھے
” مہرماہ تو بہت اچھی بچی ہے جس گھر جائے گی وہاں اجالا کردے گی…” عالیہ بیگم ستائش سے بولیں تھیں
” ہم اپنے گھر کے اجالے سے کسی غیر کا آنگن روشن نہیں کرتے….” میر برفت نخوت سے بولے تھے
” ہمارا وہ مطلب نہیں تھا…..” عالیہ بیگم جلدی سے بولیں تھیں
"میرے خیال میں مطلب کی بات اب کرلینی چاہئیے ….” سفیر صاحب کب سے میر برفت کے تھیکے تیور دیکھ رہے تھے
” کہنا کیا چاہتے ہیں آپ…..” مونا بیگم بولیں
” آج سے پہلے آپ لوگ دو مرتبہ ہماری دہلیز پہ ہم سے کچھ مانگنے آئے تھے.,..آج ہم آپ سے کچھ لینے آئے ہیں گو کہ ہم مکمل اختیار رکھتے ہیں مگر آپکی رضا چاہتے ہیں…..”
سفیر صاحب صاف لہجے میں بولے تھے
” آپ کھل کے کہیں سفیر صاحب……” میر ہمدان الجھ کے بولے تھے
” ہم یہاں آپ لوگوں سے مہر ماہ کا رشتہ انس کیلئے لینے آئے ہیں…انس میرا اکلوتا بیٹا ائیر فورس میں ایروناٹیکل انجینئر اسکواڈرن لیڈر ہے…..ہم آپ لوگوں کی رضامندی سے انس کے ہاتھ میں مہرماہ کا ہاتھ دینا چاہتے ہیں”
سفیر صاحب پوچھ نہیں بتا رہے تھے
ڈرائنگ روم میں یک دم ہی سناٹا چھا گیا تھا
"____________________________________
” تمہیں یوں نہیں آنا چاہئیے تھا …..” مہرماہ کے پیچھے ہی نیہا کچن میں آگئی تھی
” کیوں….”
نیہا حیران ہوئی
” تمہاری سسرال ہے یہ…..اس طرح معیوب سمجھا جاتا ہے ” مہرماہ نے اسکی عقل پہ ماتم کیا
ناراضگی اپنی جگہ پر وہ اسے ٹوکے بنا رہ نہ سکی تھی
” سسرال ….مائی فٹ….اب تو یہ کسی اور کی ہوگی…..” نیہا پراسرار لہجے میں بولی تھی
” مطلب…..” ماہ الجھی
” جان جاؤگی….ڈئیر یہاں بھی کچن میں الجھی رہو….”
نیہا کہہ کے باہر چلی گئی تھی
میر ہاؤس میں ایک اور قیامت دبے پاؤں اسکے عقب میں اتری تھی
_____________________________________
” یہہں خاموش ہوجاو سفیر یوسف …..تم نے جرأت بھی کیسے کی مہرماہ کا رشتہ مانگنے کی…..” میر برفت دھاڑے تھے
” بزرگوار….مہرماہ ہمارا بھی خون ہے ہم آپ سے ذیادہ اس پہ حق رکھتے ہیں…..”
سفیر صاحب بھی ناگواری سے بولے تھے
نیہا خود حیران ہوئی تھی اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ لوگ اس ارادے سے آئے ہیں ورنہ میر ہالار کو وہ بتا دیتی اور میر ہالار کی پیشانی کے بلوں کا کیا کہنا تھا
اسکا ہر انداز یہ ظاہر کررہا تھا کہ اسے یہ سب کتنا ناگوار گزرا ہے….!!!!!!!!
” اچھا ہوا سفیر یوسف تم خود چلے آئے آج سارے معاملات کلئیر کرلیتے ہیں…..ہمارا تمہارا اب کوئی واسطہ نہیں اور میر ہالار اور مہرماہ کی نسبت ہم طے کرچکے ہیں…..”
میر برفت نے دھماکہ کیا تھا
” واٹ…..آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں ہم نیہا کو مانگ چکے ہیں ہالار کیلئے …..” میر جاذب چٹخ کے بولے تھے
"ہالار انکار کرچکا ہے…..”
میر برفت استہزائیہ انداز میں بولے
” ہالار بیٹا…..” سفیر صاحب بے یقینی سے بولے
” جی انکل…..آپ نیہا سے پوچھ سکتے ہیں…”
ہالار نے نیہا کی طرف اشارہ کیا تھا
نیہا سر جھکا کے رہ گئی تھی وہ کس منہ سے باپ کو بتاتی
عالیہ بیگم دل تھام کے رہ گئیں تھیں
” بلاؤ…..مہرماہ کو ہم اسے انگوٹھی پہنادیتے ہیں تاکہ کسی کو کوئی شک و شبہ نہ رہے….اور جسے کوئی اعتراض ہے وہ جاسکتا ہے….”
یہ بات خاص طور پہ میر جاذب کو دیکھ کے کہی تھی
” یہ ذیادتی ہے ابا….آپ اسکے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے…..” میر جاذب بولے
” اس میں کونسی ذیادتی ہے…..میر جاذب…میر ہالار ہمارے خاندان کا ہیرا ہے…..اسکی ہسفری پہ مہرماہ ہمیشہ ناز کرے گی…..” میر برفت بولے تھے
"عائشہ….جاؤ مہرماہ کو لے کے آؤ…”
میر برفت نے حکم دیا تھا
عائشہ بیگم انکے حکم کی تعمیل کیلئے اٹھ گئیں تھیں
سفیر صاحب اور عالیہ ایک دوسرے کو دیکھ کے رہ گئے تھے
اپنے بیٹے کی واحد خوشی وہ پوری نہیں کرپائے تھے……
انس کا دل ایک بار خالی انہیں کے ہاتھوں ہوا تھا……!!!!!!
_____________________________________
” مہر ماہ…..”
” جی…” وہ فورا پلٹی
” تمہیں دادا ابا بلارہے ہیں….”
” بس یہ چائے لے لوں….” اس نے مڑ کے ٹرے اٹھائی تھی
” ارے رہنے دو اسے…..آج تمہارا اسپیشل دن ہے….”
عائشہ نے کہا
” کیوں…..آج میری سالگرہ تو نہیں ہے..” مہرماہ ہلکا سا مسکرائی تھی
” سالگرہ سے بھی بڑھ کے. ….” عائشہ نے تجسس پھیلایا
” اچھا ایسا بھی کیا ہے…” مہرماہ نے دلچسپی سے پوچھا
” بھئی تمہارا رشتہ پکا ہوگیا…”عائشہ نے خوشی سے کہا تھا
” جی….”
مہر ماہ نے حیرانی سے سوچا….تو کیا ماموں اس لئے آئے تھے انس کے ساتھ میرا رشتہ طے کرنے….”
مہرماہ کا دل دھڑکا
چہرہ پہ جیسے رنگوں کی قوس قزح بکھری تھی
تو اسکے اچھے دن آگئے تھے….!!!!!
انس سفیر نے اپنا وعدہ پورا کیا تھا….!!!!
خشک ہوا نے تھک کے اس اچھی لڑکی کو دیکھا تھا
جس کی خوش گمانی کا ست رنگہ بلبلہ بس پھٹنے کو تھا
” پوچھو گی نہیں….کس سے..” عائشہ نے تنگ کیا
” چچی….” مہرماہ جھینپی
” اچھا….میں خود بتادیتی ہوں…”
مہرماہ نے مڑکے ٹرے اٹھالی تھی
” ارے اپنے میر ہالار سے تمہاری نسبت طے کردی ہے تمہارے دادا نے….سو لکی مہرماہ….م” عائشہ اپنی خوشی میں بولیں تھیں
مہرماہ کے زمین آسمان گھوم گئے تھے
کیا….!!!!
مہرماہ کے ہاتھ سے چائے کی ٹرے چھوٹ کے نیچے جا گری تھی
گرم گرم چائے اسکے پیروں میں گری تھی جلن کا شدید احساس ہوا تھا
مگر یہ درد اس درد کے مقابلے میں کچھ بھی نہ تھا جو دل میں جگا تھا
” مہرماہ…..”
عائشہ کو اسکا چہرہ بہت سفید لگا تھا
وہ گھبرا کے آگے بڑھیں تھیں
” چچی…..” مہرماہ نیچے بیٹھ گئی تھی بے دم سی ہوکے
” مہرماہ ….آر یو اوکے…”
عائشہ پریشانی سے بولیں تھیں
مہرماہ کا سانس بند ہورہاتھا
وہی کیوں ….!!!!
ہر بار!!!!!
ہمیشہ….!!!!
وہی کیوں تقدیر کے ستم کا نشانہ بنتی ہے….
جب محبت تھی میر ہالار سے….اسکے عشق میں سترہ سال فنا کیے تھے…تب وہ محروم ٹھری تھی
اسکے دل کے کتنے ٹکرے ہوئے تھے
کتنی اذیت سے کتنی کٹھنائیوں سے اس نے انہیں جمع کیا تھا…..ان پہ انس نام کا مرہم لگایا تھا
مگر یہ نصیب اسکا ہمیشہ سارے گھاؤ پھر سے ہرے کردیتا ہے…..!!!!!!
” چچی….نہیں…میں نہیں….لوگ اتنے ظالم کیوں ہوتے ہیں….”
مہرماہ نے تکلیف سے اپنا دل تھاما
رگوں میں کھینچاؤ سا ہورہا تھا
اسے سانس نہیں آرہا تھا اسے لگ رہا تھا وہ جیسے مرگ کی کیفیت میں ہے
مہر ماہ کی آنکھیں سفید پڑ گئیں تھیں….!!!!!
” جاذب….جاذب بھائی….وہ مہرماہ…” عائشہ پریشان سی دوبارہ ڈرائنگ روم میں آئیں تھیں
” کیا ہوا مہرماہ کو ؟؟؟؟” میر جاذب کھڑے ہوکے پریشانی سے بولے تھے
” پتہ نہیں…..آپ آکے دیکھیں اسے….” عائشہ نے کہا
” چلو…” میرجاذب فورا آگے بڑھے تھے نیہا بھی فورا باہر لپکی تھی اور اسکے پیچھے باقی سب بھی
” مہرماہ….” نیہا فورا اسکے پاس پہنچی
جو کچن کے فرش پہ کیبنیٹ سے ٹیک لگائے بے دم پڑی تھی
” مہرماہ کی آنکھیں با مشکل کھلیں تھیں
” بس مہرماہ …..کیا خوشی سے بیہوش ہونے لگی ہو….دیکھو میرا پلان کامیاب رہا ….میر ہالار نے خود تمہارا کہا….میں نے اسے سب بتادیا تمہاری سترہ سالہ محبت…..تمہارا ایک ایک انداز….سب کچھ….میر ہالار تمہارا ہوا….مبارک ہو….” نیہا اسکے کان میں جھک کے بولی تھی
مہرماہ کو لگا اسکا دل پھٹنے کو ہے سینے پہ رکھا ہاتھ اس نے نہ جانے کس قوت کے زیر اثر نیہا کو دے مارا تھا
” تم …..تم…..” مہرماہ بامشکل بولی تھی
” تم مرکیوں نہیں جاتی نیہا…. یا مجھے کیوں نہیں ماردیتیں…..” مہرماہ نے اذیت سے سر پٹخا
نیہا شاکڈ سی اسے دیکھ کے رہ گئی تھی….یہ مہرماہ کو کیا ہوا تھا
” تم ….ہمیشہ….تمہاری وجہ سے میرا دل ….ٹوٹ جاتا …ہے….مجھے ایک دفعہ ہی مار دو نیہا….تم نے میرے لئے کیسی زندگی چنی….جس میں ساری زندگی میں ایک کنیز بن کے….رہوں گی….”
مہرماہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے چہرہ ذرد پڑنے لگا تھا
” مہرماہ….خدا گواہ ہے میں نے کبھی تمہارا برا نہیں سوچا… ” نیہا پریشانی سے ادھر ادھر دیکھ کے بولی تھی سب کچن میں ہی آگئے تھے
” خدا کو….گواہ کرتے…کرتے…تم خود…خدا بن گئیں….تم نے میری زندگی کا فیصلہ کرڈالا….نیہا…کیوں ہمیشہ ایسا کرتی ہو….آج مجھے مار ہی ڈالو….” مہر ماہ اٹک اٹک کے بولی تھی
اسکی آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی جن لوگوں سے اس نے بے حد محبت کی انہی لوگوں نے اسکا دل خالی کیا تھا اسکی عزت نفس پہ گھاؤ دیا تھا
” ماہ بچے کیا ہوا…..” میر جاذب نے فورا بی پی اپریٹس سیٹ کرکے اسے چیک کیا
” اوہ مائی….گاڈ….ایمبولنس کال کرو ثمر جلدی…….” مہرماہ کے دل کی دھڑکن خطرناک حدت تک کم ہوچکی تھی
"ہوا کیا ہے اسے….” میر برفت پریشانی سے بولے
” یہ مررہی ہے بابا آپکی عنایت سے اس کا دل کام نہیں کررہا…..” میر جاذب رنجیدگی سے بولے
اور اسے سہارا دینے لگے ہالار نے آگے بڑھنا چاہا مگر انہوں نے روک دیا عائشہ نے جلدی سے انکے ساتھ مل کے مہرماہ کو سنبھالا تھا
جس کے وجود سے زندگی روٹھ رہی تھی
روح قطرہ قطرہ نچڑ رہی تھی
نہ جانے شام کونسا غم منا رہی تھی
ہیں دل کے رستے دشوار بہت…..جس نے بھی کہا تھا ٹھیک کہا تھا دل کے کہنے پہ چلنے والوں کی قمست میں نارسائی ہی نہ جانے اکثر کیوں ہوتی ہے…..مگر یہ مکمل حقیقت نہیں ….ہار تو وہ بھی جاتے ہیں جو دماغ اور ذہانت کے بھروسے پہ رہتے ہیں
مگر مہرماہ وہ تو ازل سے ہی دل کے رستوں کی مسافر تھی اور منزل نہ جانے کہاں تھیں ڈھونڈیں اس نے کہاں کہاں تھیں
اک عرضی محبت
مستقل نبھائی ہے ہم نے….!!!!!
سترہ برس یوں ہوا میں تحلیل ہوئے تھے کہ انکے نام و نشان ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں
بس اب اور کج ادائیاں برداشت نہیں ہوئیں تھیں….ساری زندگی اس نے دیا تھا….لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کچھ لینے کی چاہ نہیں ہو ہی نہیں سکتا تھا ….یہ فطرت کے اصولوں کے خلاف تھا….وہ آدم کی نشانی تھی….بنت حوا تھی….جیتی جاگتی انسان….اس کے بھی کچھ خواب تھے…کچھ ارمان تھے…جنہیں ساری زندگی اس نے سب پہ وارا تھا….
تھک گئی تھی مہرماہ سیال
ٹوٹ گیا تھا اس کا دل ….ایک بار نہیں بار بار…اپنوں کی محبت اتنا بھی آزماتی ہے اسے یہ اندازہ بھی نہ تھا
جن کی محبت میں وہ اسپتال کے بستر تک آن پہنچی تھی …..
ڈاکٹرز نے اسے ایمرجنسی سے آئی سی یو میں شفٹ کیا تھا
” تم آخر بتاتے کیوں نہیں ہوا کیا ہے اسے….” میر برفت لاٹھی کے سہارے بمشکل کھڑے ہوتے ہوئے بولے تھے
وہ انہیں بہت عزیز تھی….یوں اچانک اسے ہوا کیا تھا وہ خود بھی سمجھ نہیں پائے تھے
اور یہی تو سارا مسئلہ تھا کہ وہ کبھی سمجھتے ہی نہیں تھے…
” بابا….ڈاکٹرز دیکھ رہے ہیں ابھی….اللّه خیر کرے گا….آپ بیٹھ جائیں بلکہ آپکو تو آنا ہی نہیں چاہئیے تھا …..” میر جاذب خود کو کنٹرول کرتے ہوئے بولے
ورنہ دل تو کررہا تھا کہ صاف کہہ دیں کہ یہ سب آپکی وجہ سے ہے….مگر پھر انکا احترام آڑے آجاتا تھا
"ارے کمال کرتے ہو کیسے ڈاکٹر ہو….جسے کچھ پتہ ہی نہیں….اور ہم آرام سے بیٹھ جائیں ادھر ہماری بچی مشکل میں ہے…..”
میر برفت چڑ کے بولے
” بابا….اسے ہارٹ اسپیشلیسٹ کی ضرورت ہے اور میں ہارٹ اسپیشلیسٹ نہیں ہوں……” میر جاذب نے وضاحت کی
” دادا….آپ یہاں آئیں سکون سے بیٹھیں….سب ٹھیک ہوجائے گا….” ہالار صورت حال کشیدہ دیکھ کے آگے بڑھا تھا اور میر برفت کو ایک طرف لے گیا تھا
اسپتال وہ سب ہی جمع تھے انس کو بھی سفیر صاحب نے کال کی تھی لیکن وہ بیس میں تھا اور اسکا کوئی فلائٹ آپریشن تھا مگر دل میں مہرماہ کی فکر تھی ….
خدا تمہیں اچھی زندگی دے…..اچھی لڑکی
افق کی بلندیوں پہ پرواز کرتے انس سفیر نے دل سے دعا کی تھی
اور
دل سے جو دعا نکلتی ہے وہ لازمی اثر کرتی ہے نا ….چاہے دیر سے ہی سہی
____________________________________
” ڈاکٹر جاذب…..”
ڈاکٹر کی آواز پہ وہ فورا پلٹے تھے
” یس….ڈاکٹر”
سارے ڈاکٹر کی ہی طرف دیکھنے لگے تھے
” آپ ذرا میرے ساتھ آئیں….مجھے پیشنٹ کی کیس ہسٹری ڈسکس کرنی ہے….”
اس بات پہ میر جاذب نے سفیر یوسف کو بھی آنے کا اشارہ کیا تھا ظاہر ہے مہرماہ نے ساری زندگی ان ہی کے ساتھ ہی گزاری تھی تو اسکی ہر خبر انہیں معلوم ہونی تھی
” مہر ماہ کو کبھی لائٹ سی بھی پرابلم ہوئی ہے ہارٹ کی….یا بی پی پرابلم….”
ڈاکٹر نے پوچھا تھا
” نو ڈاکٹر….وہ اب تک ایک صحت مند زندگی گزارتی آئی ہے…اسے تو موسمی بخار بھی بہت کم ہوتا تھا….”
سفیر یوسف سنجیدگی سے بولے تھے …مہر ماہ کا اسطرح سے اسپتال آنا انکو بھی سمجھ نہیں آیا تھا
” ہوں….عموما ٹینشن اور پریشر کا اثر ہمارے نروس سسٹم پہ ہوتا ہے….مگر مہرماہ کے کیس میں انکا دل بھی متاثر ہوا ہے….”
” دل….بھی سے کیا مراد ہے آپکی…”
میر جاذب بولے
” مہر ماہ کے اعصاب پہ بھی افکٹ ہوا ہے….بٹ انکا ہارٹ بلڈ سرکولیشن صحیح سے نہیں کرپارہا اور ہارٹ بیٹ بھی بہت لو ہے….شی از انڈر آبزرویشن…..جب تک وہ خطرہ سے باہر نہیں آجاتیں….بٹ ایسی بھی کیا ٹینشن تھی انہیں….کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی کریٹیکل سیچوئشن….”
ڈاکٹر حیرانگی سے بولے تھے
” اس بات پہ تو ہم بھی حیران ہیں….بظاہر سب ٹھیک تھا اسکی لائف میں پھر یوں اچانک….!!!!”
میر جاذب الجھ کے بولے تھے
کیا ماجرا تھا یہ….
ہالار کا انکار کر کے مان جانا….
اور
مہرماہ کا یہ کیفیت صرف ہالار سے نسبت ہونے کا سن کے ہو نہیں سکتی تھی
کوئی اور بات ضرور تھی ….!!!!!
میر جاذب سوچ میں ڈوبے رہ گئے تھے
_____________________________________
” اماں …ریلیکس ہوجائیں….سب ٹھیک ہوجائے گا….” نیہا تھک گئی تھی
عالیہ بیگم کو چپ کراتے کراتے جو گھر آکے مسلسل رو رہیں تھیں….سفیر یوسف نے ان دونوں کو گھر بھیج دیا تھا
انس سے فی الحال کوئی رابطہ نہیں تھا انکا…اور اس صورت حال میں وہ چاہتے بھی نہیں تھے کہ انس کو دیکھ کے خواہ مخواہ کی بدمزگی ہو اور پھر گھر میں ماوی بھی اکیلی تھی حالانکہ سب نے کہا تھا اسے ساتھ چلنے کو مگر کوئی کیسے اپنے ہی ارمانوں کو سولی چڑھتے ہوئے دیکھ سکتا تھا
سو ماوی بھی نہیں گئی تھی
” کیا ہوا آپ لوگ آگئے….!!!!اور خالہ آپ کو کیا ہوا…”
ماوی چونکی
” مہرماہ ہاسپٹلائزڈ ہے….” نیہا نے مختصرا بتایا
” مہر ماہ….”
ماوی دو قدم پیچھے ہوئی تھی تو کیا اسکے حسد نے اپنا رنگ دکھا دیا تھا
جس انس کے اس نے خواب دیکھے تھے انکی تعبیر اب مہرماہ کو مل رہی تھی ….کیسے برداشت ہوتا اس سے یہ
” تو….کیا ہوا انہیں..” ماوی نے پوچھا
” مائنر سا ہارٹ پرابلم ہے….شی ول بی فائن..اور آپ اماں پلیز ریسٹ کریں پھر جتنے آنسو بہانے ہیں سجدے میں جا کے بہا لیجئے گا….”
نیہا ان سے بولی تھی
” یہ مہرماہ بھی عجیب ہے سترہ برس ایک شخص کے پیچھے بھاگتی رہی اور اب جب وہ اسے مل رہا ہے تو اسے کونسا صدمہ لگ گیا ہے…..نخرے ہی نہیں ختم ہوتے ”
نیہا بڑبڑائی تھی
اور یہ بولتے ہوئے وہ یہ قطعا بھول گئی تھی کہ ایک لڑکی کیلئے اسکی عزت اسکی خودداری پہ سب قربان ہوتا ہے….چاہے وہ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیونکہ عزت کے بغیر عورت عورت ہی نہیں رہتی
_____________________________________
” ہالار…” ثمر نے پکارا
” ہوں تم آؤ….ثمر….کوئی کام …”
ہالار نے پوچھا
” کام تو نہیں مگر کچھ پوچھنا ہے تم سے ”
” پوچھو….”
ہالار کا انداز مصروف سا تھا
” دادا کے ساتھ تمہاری کیا بات ہوئی تھی …”
” کونسی بات….”
ہالار چونکا
” وہی جس کے بعد تم مہرماہ سیال سے شادی کرنے پہ راضی ہوگئے تھے…..حالانکہ پہلے تم انکار کرچکے تھے ”
ثمر نے اسکا سپاٹ چہرہ کھوجا
” پہلے میں انجان تھا..” .
” کس بات سے….”
ثمر نے ابرو تنے
” کسی کی بےتحاشہ محبت سے ”
” کس کی…..مہرماہ سیال کی”
” ہاں…”
ہالار نے اقرار کیا
” لیکن وہ تو تمہیں جانتی ہی کتنا ہے…..اور ملے دن ہی کتنے ہوئے ہیں…..”
ثمر الجھ کے بولا
” سترہ برس…..سترہ برس سے وہ مجھے جانتی ہے….آواز کے رشتے میں بہت طاقت ہوتی گو کہ یہ بے سبب رفاقت ہوتی ہے مگر اسکا طلسم جسے جکڑ لے ….پھر رہائی ممکن نہیں….جتنے سال مجھے ریڈیو پہ ہوئے ہیں اتنے ہی برس مہرماہ اور میں آواز کے رشتے سے جڑے ہیں….”
ہالار نے بتایا تھا
” اور میر ہالار اتنا اچھا ہے تو نہیں….کہ محبت کے بدلے ریورڈ کے طور پہ اپنا آپ پیش کردے …یہ آپ ہی تھے نہ جو کہا کرتے تھے کہ ہر وہ لڑکی جو مجھ سے دعوی محبت کرے میں اسے شریک زندگی بنا لوں ….پھر اب یہ پتھر کو جونک کیسے لگی اور نیہا سفیر سے محبت کا دعوی کہاں گیا….”
ثمر طنزیہ بولا
” چاہنے سے زیادہ چاہے جانے کا احساس خوبصورت ہوتا ہے ….میر ثمر… ”
لفظوں کے ساحر نے ایک طویل قصہ چند لفظوں میں نمٹایا تھا …
” اب وہ کیا کہتا کہ نیہا سفیر تو اسی دن اسکے دل سے اتر گئی تھی جب اس نے مہر ماہ سے نکاح کی شرط رکھی تھی….اتنی بے وقعت تھی نیہا سفیر کے نزدیک میر ہالار کی محبت اسکے جذبے….اسکی مردانہ انا کو جو ٹھیس لگی تھی وہ بہت شدید تھی ….جس کی چاہ کی تھی اسے ہی پروا نہیں تھی
نیہا سفیر جیسے لوگ جو لہروں کی ہلچل کی مانند ہوتے ہیں ان کا پہلا تاثر بیشک بہت مضبوط ہوتا ہے مگر اتنا ہی عارضی ہوتا ہے
جبکہ مہرماہ سیال جیسے لوگ جو بوند بوند برستے ساون جیسے …..اور قطرہ قطرہ سمندر جیسے ہوتے ہیں
بھلے سے انکا پہلا تاثر اتنا جاندار نہیں ہوتا مگر دیرپا ہوتے ہیں
مہرماہ سیال جیسے لوگ پھر زندگی کی اساس بن جاتے ہیں
یہی میر ہالار کے ساتھ ہوا تھا اور سترہ برس کوئی اسکی چاہ میں رہا تھا…..
اور تھا…..کا مطلب شاید ابھی میر ہالار کو آتا نہیں تھا
_____________________________________
” تم مر ہی کیوں نہ گئیں…..اگر اسپتال ہی پہنچ گئیں تھیں….”
ماوی کے دل میں یہ خیال آیا تھا
” توبہ…..کیا میں اتنی بری بھی ہوسکتی ہوں….” ماوی کا ہاتھ دل پہ ٹھرا ہی رہ گیا تھا
” اف خدایا…..”
وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام کے رہ گئی تھی
رات کی اس تاریکی میں جب چاند بھی تنہا ہو کے بادلوں کی اوٹ میں گم ہوگیا تھا وہ لان کی سبز گھاس پہ تنہا بیٹھی تھی
” کیا میں انسانیت کے بھی معیار سے گرگئی ہوں…..میں ایسا کیسے سوچ سکتی ہوں اور کیا اس طرح سے انس میرا ہوجائے گا… ”
اسی پل انس گھر آیا تھا فل یونیفارم میں شاید وہ سیدھا بیس سے یہیں آرہا تھا دو دن بعد
مہرماہ دو دن سے اسپتال میں ہی تھی
” تم ابھی تک جاگ رہی ہو….” انس نے پوچھا
” جی بس….جارہی تھی.. ”
ماوی دھیرے سے بولی تھی
” آپ مہرماہ جی کے پاس نہیں گئے….”
ماوی نے کس دل سے پوچھا تھا وہی جانتی تھی
” ابھی تو نہیں….صبح جاؤں گا…”
انس نے جواب دیا
” آپ تھکے ہوئے ہیں آرام کریں اب….” ماوی نے آج پہلی بار معمول کی بات اس سے کی تھی
جب اسکا دل معمول پہ نہیں رہا تھا
_____________________________________
دل کہاں تک تری دہائی دے…..
دے مجھے رنج آشنائی دے
اب مجھے مستقل جدائی دے
آنکھ کو اشک کی کمائی دے
دے مجھے درد کی خدائی دے
پچھلے تین گھنٹے سے میر ہالار مہرماہ سیال کے سرہانے بیٹھا تھا جس کی ڈوبتی ابھرتی سانسیں چل رہی تھیں فی الحال وہ کوئی خاص بہتر نہ تھی
کوئی اور وقت ہوتا تو مہرماہ سیال کا دل خوشی سے بھر جاتا کہ میر ہالار نے اسکی پروا کی ہے مگر اب جب وہ ساری کشتیاں جلا چکی تھی تو وہ اسکے راستوں پہ آنے کو تیار تھا
گو کہ وہ جاگ رہی تھی مگر اس نے آنکھیں بند ہی رکھیں تھیں ….وہ اس سراب کے پیچھے بہت خوار ہوئی تھی….اب وہ اس سحر سے باہر نکلنا چاہتی تھی
بھلے سے درد انتہا کو پہنچ جائے
اذیت سے بھی پرے کہیں دل ٹوٹ جائے
اسی پل دروازہ ایک مخصوص انداز میں بجا تھا
اور مہرماہ یہ انداز اچھی طرح پہچانتی تھی
بے ساختہ ہی اس نے آنکھیں کھولیں تھیں
میر ہالار نے پہلے اسے اور پھر آنے والے کو دیکھا تھا…..!!!!!
امریکہ کی خانہ جنگی سول وار کے آخری سپاہی مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن
::: امریکہ کی خانہ جنگی {سول وار} کے آخری سپاہی : مینیسوٹن البرٹ ہنری وولسن۔ { کچھ تاریخی یادیں} :::...