Beware of monster in the dark they are ready to drag people to their traps.
شام کے گہرے اندھیرے پھیل چکے تھے ۔ رات کا سفر شروع ہو چکا تھا سحر کی جانب ۔
ارج نے بیکر ی بند کی اور چابی عفت کے حوالے کر کے گھر کی رہ لی آج پورا دن وہ سوچوں کے بھنور میں ہی رہی تھی ۔
یہ رشتہ اس کی مرضی کے خلاف تھا۔ ایسا اس کے وہم و گمان میں بھی نا تھا ۔ کہ ایک دن کے اندر اتنا کچھ بدل جائے گا
"اب اگر وہ اس رشتے سے انکار کر بھی دے۔ علیحدگی اختیار کر بھی لے ۔تو کیا یہ فصیلہ کہیں سے معقول بھی ہو گا ۔ وہ جائے گی کہاں پوری زندگی ایک بیکری میں بھی نہیں گزر سکتی ۔ اور اگر آرزو آنٹی کی بعد مان بھی لی جائے تو کیا نفسیاتی طور پر تیار ہو پائے گی ۔ "ارج کا ذہن مسلسل ان ہی سوچوں میں گھیرا پڑا تھا
اس نے سنسان راستے پر چلتے ہوئے موبائل فون کے لئے پرس کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔ تو کسی آہٹ پر وہ رکی ۔پر پھر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
پھر آواز آنے پر وہ پیچھے کی جانب مڑی ۔ اس بار شاہد اس کا نام بھی لیا گیا تھا ۔
دو تین لوگ تھے جن کو گہرے اندھیرے نے ڈھانپ رکھا تھا ۔ ارج نے ان کو دیکھتے ہی بھاگ پڑی ۔ آرزو صاحبہ کا گھر ابھی دور تھا تو اس نے پامیر کے گھر کی رہ لی ۔
"لڑکی روکو ! ! ! "پیچھے آنے والی آواز نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیے
پامیر دروازہ کھولو ۔ اسنے پامیر کے گھر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا وہ کبھی اردو کبھی ترکش میں مسلسل بول رہی ۔
دروازہ کھلتے ہی اس نے اندر داخل ہو کر دروازہ بند کر دیا ۔
پامیر جو نیند سے اٹھا تھا ۔ وہ حیرانی اور پریشانی سے ارج کی تمام کاروائی دم سادھے دیکھ رہا تھا ۔
"ارج تم اس وقت ؟کیا ہوا ہے؟” پامیر نے سوال پوچھا
پر ارج کی حالت بہت بگڑ چکی تھی ۔ وہ منہ کھولنے کی کوشش کرتی پر ہر کوشش بےسود تھی آنسوؤں کی۔ دھند میں اسے پامیر کا چہرے تک دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔
"پا ۔ن۔۔۔ ی ۔ پا ۔۔نی ۔۔” بہ مشکل اس نے اٹکتی سانسوں کے ساتھ الفاظ ادا کئے ۔
"یہ لو "پامیر نے اس کی۔ طرف پانی کا گلاس بڑھایا ۔
"کیا ہوا تھا اور اتنی رات کو تم یہاں کیا کر رہی ہو۔اس رات اندھیرے میں سو چور وغیرہ ہوتے ہیں ” اس نے خالی گلاس واپس لیتے ہوئے کہا
"وہ ۔۔بی۔کری سے ۔۔۔آ ۔۔رہی تھ۔۔تھی ۔ "وہ اٹک اٹک کر بولی
"آرام سے حوصلے سے بولو ۔ کچھ نہیں ہوا ۔ "پامیر نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
"وہ –میں بیک—ری سے واپس— آ رہی تھی ۔ تو– مجھے لگا کوئی میرا پی—چھا کر رہا ہے ۔ تو میں ڈر کر ب–ھاگ پڑی "اس نے ڈر اور شرمندگی سے کہا
"تمھیں شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔تم ۔۔۔۔بیوی ہو میری ۔ میں آرزو صاحبہ کو فون کر دیتا ہوں کے آج تم یہاں ہی رہو گی ۔” کہتے ہوئے اپنے موبائل پر ڈائل کرنے لگا ۔
"کیا مطلب میں یہاں رہوں گی ۔میں نے آپ کو معاف کب کیا ہے ؟مجھے جانا ہے "۔ ارج کے کہنے پر پامیر کے ماتھے پر شکن ابھری ۔
"چلو میں کم سے کم ان کو فون تو کر دوں ۔” اس نے فون کان کے ساتھ لگاتے ہوئے کہا ۔
"جی !! آرزو صاحبہ ” پامیر نے فون پر بو لا ۔
"کیا ہوا ہے جمال صاحب کو ۔ ” وہ سیدھا ہو کر بیٹھا ۔
"اچھا نہیں کوئی بات نہیں ۔” اس نے کچھ توقف کے بعد کہا
ارج میری ساتھ ہی روک جائے گی ۔ جی ٹھیک ہے اللہ حافظ ۔ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا
"کیا ہوا ہے ؟” ارج پریشان سے اس کے جواب کی منتظر تھی ۔
"وہ جمال صاحب کا بلڈ پریشر کچھ شوٹ کر گیا ہے تو ان کی طرف ہی گئیں ہیں "۔ پامیر ارج کی بات کا جواب دیا
"کیا پھر تو مجھے بھی جمال انکل کے پاس جانا چاہیے ۔ "ارج نے اپنا بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف چل پڑی
دروازے پر پہنچ کر وہ کچھ دیر کے لئے روکی ۔
"کیا آپ مجھے ہسپتال تک چھوڑ دیں گے ”
"نہیں بلکل بھی نہیں” ۔ پامیر نے جواب دیا
"کیوں !! آپ کو اس چیز کا احساس بھی ہے کہ وہ میرے انکل ہیں ۔” اس نے غصے کے عالَم میں رخ مڑا ۔
"جی محترمہ مجھے تو احساس ہے لیکن شائد آپ کو نہیں ہے ۔ وہ لوگ پہلے ہی پریشان ہیں آپ پہلے ہی زیادہ رش میں نہیں جاتیں اور غیر لوگوں سے آپ کو خوف محسوس ہوتا ہے ۔ آپ وہاں پہنچ کر ان کو نئے مسلے میں ہو ڈالیں گی ۔۔” پامیر کے کہنے پر ارج کا موڈ شدید ہوا پر اس کی بات سچ تھی ۔
"تو اب میں کہاں جاؤں؟ گھر کی چابی میں ساتھ لانا بھول گئی ۔ آرزو آنٹی گھر میں نہیں ہیں ۔ "اس کا چہرہ غم و غصے کی تصویر تھا ۔
"میرے گھر میں ایک ہی روم ہے میں اپنا بستر نیچے لگا لوں گا آپ چاہیں تو سو جایئں نہیں تو آپ کی مرضی ۔ "وہ آرام سے کہتا اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔
"اور ہان !! یہاں میں نے ایک کوکروچ اڑتے ہوئے دیکھا ہے "۔ اس لئے دھیان سے اس نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے کہا
ارج کبھی بیرونی دروازے کو دیکھتی کبھی وہاں جہاں سے پامیر غائب ہوا تھا آخر ہار کر دل میں سو سلوتیں سناتی اندر کو چل دی ۔
اندر داخل ہو کر وہ کافی دیر تک دروازے پر ہی کھڑی رہی ۔ کمرے میں الماری تھی ایک سنگل بیڈ اور ڈریسنگ ٹیبل تھا ۔ اس علاوہ سادہ سی دیواریں تھیں ۔ کوئی سجاوٹ کا سامان نا تھا ۔
عجیب بات تھی کہ اس دل میں ڈر و خوف نا تھا ۔ پر ایک اضطراب سا تھا ۔
"اندر آ جاؤ یقین مانو میں جن ہرگز نہیں ہوں ۔” پامیر نے کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا ۔
ارج چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ۔ بیڈ کے سائیڈ پر آ کر بیٹھ گئی ۔
"ارج !! ” پامیر بولا
” کال کوٹھری بہت وحشت ناک ہوتی ہے ۔ جب اندھیرا زیادہ ہوتا ہے تو تاریکی میں انسان کو غلطیوں کو کھردنا کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ تاریکی کے بعد ہی روشنی آتی ہے ۔ اسلام تھی وہ روشنی ۔ میں نے اسلام کو اپنایا کیونکہ اس میں عورت کو بہت عزت دی گئی ہے ۔” اس نے ارج کی طرف اپنا رخ موڑا ۔
"تمہیں پتا ہے میں نے اسلام کیوں چنا جبکہ میں دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بھی ملا تھا کیونکہ ۔ اسلام نے جتنی عزت عورت کو دی ہے کوئی اور فلسفہ کوئی اور قانون نہیں دے سکا ۔ گھر میں داخل ہو تو سب سے پہلے بیٹی کو لائی ہوئی چیز دو ۔ماں کے پاؤں تلے جنت رکھ دی دی ۔ جیسے پانا ہر انسان کی خواہش ہے ۔ پھر بھی لوگ کہتے ہیں عورت حقیر ہے فریب ہے فسادی ہے ۔ اگر دو شادیاں کی جایئں تو عورتوں میں انصاف کرنا چاہیے ۔ ۔ عورتوں کو جائیداد میں حصہ دیا ۔ حق مہر کا حق ۔ کھانا پینا بیچونا سب کی اسطاعت رکھتے ہیں تو دینا پڑے عورت کو ۔ آپ عورت سے بتمیزی نہیں کر سکتے ۔ میں نے کسی قانون میں عورت کے لئے اتنے حقوق نہیں دیکھے کسی فلسفے میں نہیں پڑھے ۔ ”
"جب کوئی سپورٹ کرنے والا دیکھنے والا نا ہو گا تو بھیڑیے تو چھپٹیں گے ہی ۔
مجھے ان لوگوں سے بہت نفرت ہے ارج جو اپنے نفس کے پیچھے حلال ،حرام بھول جایئں ۔ کسی کی عزت نفس ،کسی کی جان کی پروا نا رہے ۔ اتنا اپنے نفس پر قابو نہیں کے ہوس کی خاطر لوگوں کی جان تک لے لیتے ہیں ۔ کسی کی جان اور عزت زیادہ ضروری ہے یا لوگوں کی ہوس "۔ پامیر کا لہجہ کاٹ دار ہو چکا تھا ۔دل میں پس پردہ چھپے دکھوں نے سامنے آنے کی کوشش کی ۔
"اپنے آپ سے لڑا تو جا ہی سکتا ہے یا ضمیر ہی نہیں بچا کے جو ملامت کرے ۔” اس نے افسوس سے اپنا سر جھٹکا ۔
"عورت اور مرد دونوں کو عزت دی گئی ہے اسلام میں ۔یہ سب میں تمھیں اس لئے بتا رہا ہوں تاکہ تم میرے بارے میں غلط خیال نا کرو ۔ میں دل سے عزت کرتا ہو تمہاری۔اور کسی اپنے کو بتانے سے دل بھی ہلکا ہو جاتا ہے ۔ باقی باتیں بعد میں چلو اب سو جاؤ” ۔اس نے کہتے ہوئے کتاب میز پر رکھی ۔
"میں لائٹ بند کرنے لگا ہوں۔ "بیڈ کے نیچے سے آواز ا آئی
نہیں !!!!! جلی رہنے دیں ، ارج کونے میں دوبک کر بیٹھی تھی ۔
کافی دیر نیند سے بوجھل آنکھیں لئے بیٹھی رہی ۔نیند کے غالب آنے پر اس کر سر ایک طرف ڈھلک گیا ۔
پامیر نے اس کو سوتے دیکھ ٹھیک سے لٹایا ۔ اور لائٹ بند کردی ۔۔
ارج کی آنکھ کھلی پہلے تو وہ غائب دماغی سے یہاں وہاں دیکھتی رہی لیکن پھر یاد آنے پر یک دم اٹھ بیٹھی ۔ عجیب بات تھی کے وہ پامیر سے خوف زدہ نہیں تھی ۔
سورج کی روشنی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی ۔وہ منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو پامیر کچن میں کام کرتا ملا ۔
‘آپ مجھے میرے گھر چھوڑ دیں ۔” پامیر ناشتہ بناتے ہوئے روکا ۔ "کسی کا گھر اپنا لگتا ہے ان کو "۔ پامیر نے سوچا
"ناشتہ کر کے جانا” ۔ پامیر نے ناشتہ لگاتے ہوئے کہا
"مجھے نہیں کھانا "۔ ارج نے بیگ کی سٹرپ کو ٹھیک کرتے ہوئے کہا ۔
"آرام سے بیٹھ کر کھانا کھاؤ میں چھوڑ دوں گا ۔ مجھے مجبور مت کرو کے تمھیں اس گھر میں بند کر کے خود چلا جاؤں "۔ پامیر نے مصنوعی غصے سے کہا .ارج کو مجبور بیٹھنا ہی پڑا .
"کیا آرزو آنٹی سے آپکی بات ہوئی.” ارج بولی
"ہاں ! وہ لوگ واپس آ گئے ہیں لیکن آرزو صاحبہ ابھی جمال صاحب کے گھر میں ہی موجود ہیں”
"آدھے گھٹنے تک وہ گھر واپس آ جائیں گی تو تم وہاں جا سکتی ہو .” پامیر نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا
"آ پ کا بہت شکریہ آ پ نے میری مدد کی . ورنہ میں تو کل بےہوش ہی ہو جاتی” ارج کچھ وقفے سے بولی
"میرا دماغ خراب نا کریں محترمہ. ” وہ کہتا ہوا اٹھ گیا
عجیب ہی ہیں میں شکریہ ادا کر رہی ہوں اور یہ ڈانٹ رہے ہیں.
ارج نے ناشتہ مکمل کیا اور پامیر کے آ تے ہی اس کے ساتھ آرزو صاحبہ کے گھر کی طرف چل دی .