(Last Updated On: )
۱۹۸۷ء سے
وہاں ہر ایک اسی نشۂ انا میں ہے!
کہ خاکِ رہ گزر یار بھی ہوا میں ہے!
الف سے نام ترا، تیرے نام سے میں الف
الٰہی میرا ہر اک درد اس دعا میں ہے
وہی کسیلی سی لذت، و ہی سیاہ مزہ
جو حرفِ ہوش میں تھا، حرف ناروا میں ہے
وہ کوئی تھا جو ابھی اٹھ کے درمیاں سے گیا
حساب کیجئے تو ہر ایک اپنی جا میں ہے
نمی اتر گئی دھرتی میں تہہ بہ تہہ اسلمؔ
بہارِ اشک نئی رت کی ابتدا میں ہے ٭٭٭