ساحرہ آپی واقعی اپنے نام کی طرح ساحرہ تھیں۔ جب ہم لوگ اس نئے مکان میں شفٹ ہوئے تو اس محّلے میں سب سے پہلے ساحرہ آپی ہمارے گھر آئی تھیں، وقت کی دبیز چادر سے نکل کر کچھ لمحے اڑتے ہوئے آئے اور میرے گال سہلاتے ہوئے چلے گئے، ان کے ہاتھوں میں ایک پھولدار چینی کی پلیٹ تھی جسمیں پانچ گلاب جامن رکھّے تھے۔
انھوں نے روپٹہ سر پر جماتے ہوئے امّی کو سلام کیا اور پلیٹ ان کے پاس تخت پر رکھ دی۔ ‘‘ یہ میری امّی نے آپ کے لئیے بھجوائے ہیں نیاز دلائی تھی‘‘ انھوں نے خوشبو دار لہجہ میں کہا، امّی نے انھیں محبت سے اپنے پاس ہی بٹھا لیا۔ میں اسی وقت اسکول سے آیا تھا بستہ میرے کاندھے پر تھا اور میں حیرت زدہ سا ان کو دیکھ رہا تھا کس قدر خوبصورت تھیں وہ۔ ۔ ۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی حسین لڑکی نہیں دیکھی تھی۔ دھلا دھلایا تازہ گلاب جیسا ان کا چہرہ بڑی بڑی مخمور آنکھیں، لمبے سیاہ بال جو ان کی کمر کے نیچے تک آ رہے تھے وہ مجھے اس طرح ہونّق دیکھ کر دھیرے سے ہنس دیں اور امّی نے ڈانٹا۔ یہاں کیا کر رہے ہو جاؤ بستہ رکھو منھ ہاتھ دھو ’’مجھے اس وقت امّی بہت بری لگیں مجھے وہاں سے کہیں نہیں جانا تھا مگر جانا پڑا۔ ساحرہ آپی دنیا کی حسین لڑکی تھیں کم از کم اپنا تو یہی خیال تھا۔ ظاہر ہے نویں کلاس تک میں نے کتنی دنیا دیکھ لی ڈالی ہو گی۔
دوسری شام جب امّی وہاں نجانے کے لئیے تیار ہوئیں تو میں بھی ساتھ چل دیا۔ جب زینہ چڑھ کر ہم ان کے گھر پہنچے تو وہ سامنے برامدے میں بیٹھی اپنی امّی سے دھیرے دھیرے کچھ بات کر رہی تھیں اور سونف کھاتی جا رہی تھیں ہمیں دیکھ کر دنکا ہاتھ رک گیا اور انھوں نے بیساختہ سر پہ آنچل اوڑھ لیا۔ مجھے ان کی یہ ادا بہت پسند آئی، خیر اس وقت مجھے ان کی ہر ادا اچھی لگتی تھی۔ خواتین با توں میں مصروف ہو گئیں اور میں بری طرح بور ہونے لگا۔ ساحرہ آپی چائے لے کر آئیں اور دھیرے سے میرے پاس آ کر بولیں ’’لو ڈو کھیلو گے ؟‘‘
’’ہاں ‘‘ میں خوش ہو گیا۔ پھر ہم وہیں برامدے میں تخت پر بیٹھ کر لو ڈو کھیلتے رہے، وہ میری گوٹ جان کر نہیں پیٹتی تھیں بلکہ دوسری گوٹ چل دیتی تھیں اور میں جیت گیا، ان کی وہ معصوم مدد مدّتوں میرے ساتھ رہی۔ اس دن جب ہم گھر جانے کے لئیے اٹھے تبھی باہر کے کمرے سے ان کی بڑی بہن برامد ہوئیں وہ بے انتہا میک اپ کئیے ہوئے تھیں گہری سرخ لپ سٹک بالوں کے دائرے ان کے چہرے پر بھٹک رہے تھے، وہ گہرے رنگوں کے کپڑے پہنے ہوئے تھیں جن سے ایک تیز سی مہک اٹھ رہی تھی وہ مجھے بیحد بری لگیں۔ انھوں نے کچھ ایسی نظروں سے ساحرہ آپی کو دیکھا کہ وہ سہم گئیں۔ امّی نے اسی وقت جانے کی اجازت لی۔
کافی دنوں تک اسکول میں ٹسٹ وغیرہ ہوتے رہے جس کی وجہ سے میں الجھا رہا اور سب کچھ بھولا رہا۔ پھر امتحان شروع ہو گئے۔ اور میں سب کچھ بھول کر پڑھائی میں جٹ گیا۔ ۔ اب دسویں کلاس میں آنا کوئی آسان بات تو ہے نہیں۔ ۔ ۔ ۔
آ گیا دسویں میں۔ ۔ امتحان ختم ہوئے تو ایک بوجھ سرسے اترا۔ ۔ ۔
ایک دن ان کی امّی گھر پر آئی ہوئی تھیں امّی کے پاس کچھ اداس سی بیٹھی تھیں اور امّی ان کو سمجھا رہی تھیں کہ اللہ سب کا مدد گار ہے بس اسی سے امید رکھنے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ بچّیوں کا نصیب بھی وہی اچھّا کرے گا آپ اتنی فکر کیوں کرتی ہیں ؟ انشاء اللہ سب اچھّے گھروں میں بیاہی جائیں گی۔ ۔ امّی ان کو سمجھا رہی تھیں اور کمرے میں لیٹے لیٹے مجھے زور کی نیند آنے لگی امّی کی نرم نرم آواز لو ری کا کام دے رہی تھی۔ ۔ میں سو گیا۔ ۔ اور خواب میں میں نے ساحرہ اپّی کو دیکھا وہ میرے پاس ہی بیٹھی تھیں اور پھر انھوں ے اپنے گلابی ہاتھوں میں میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے کر نٹ سا دوڑ گیا۔ ۔ میں چونک کر جاگ اٹھا۔ ۔ گھر میں سنّاٹا سا چھایا ہوا تھا مہمان جا چکے تھے سب اپنے اپنے کاموں میں لگے تھے میرا دل گھبرائے لگا۔ ۔ مومو پڑھنے میں مصروف تھی۔
’’مومو‘‘ میں نے اسے دھیرے سے آواز دی
’’ہوں ‘‘ اس نے بڑی بے دلی سے جواب دیا
’’ساحرہ اپّی کی طرف چلو گی؟‘‘
’’نہیں بھائی۔ ۔ مجھے یہ سارے نوٹس آج ہی تیار کرنے ہیں۔ ۔ ۔ ‘‘ اس نے صاف جواب دے دیا۔
میں اٹھ کر نہایا اور خوب تیار ہو کر ساحرہ اپّی کے گھر چل پڑا۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں ان سے بہت کچھ کہنے کے لئیے سو چتا رہا۔ وہ سامنے سے چلی آ رہی تھیں ان کے ساتھ ایک صاحب بھی تھے جو بہت مسکرا رہے تھے مجھے دیکھ کر ساحرہ اپّی سٹپٹا سی گئیں۔ ۔ ۔
آج انھوں نے بھی بے انتہا میک اپ کیا ہوا تھا کپڑے بھی بہت شوخ رنگوں کے پہنے ہوئے تھیں، ان کے کانوں میں لمبے لمبے سے جھمکے عجیب سے لگ رہے تھے۔ ۔ ۔ وہ خود بھی عجیب لگ رہی تھیں میں حیران سا ان کو دیکھتا رہا۔ ۔ ۔ وہ نیچے اترتی چلی گئیں۔ ۔ ۔ میں وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ ۔ ۔
چند لمحوں بعد جب وہ واپس آئیں تو ان کی لپ اسٹک کچھ بجھی بجھی سی تھی۔ ۔ ۔ انھوں نے میرے قریب آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو بدھو؟‘‘
’’ساحرہ اپّی! یہ صاحب کون تھے ؟ اور میں بدّھو بالکل نہیں ہوں سمجھیں آپ۔ ۔ ‘‘
میں بگڑ گیا۔
’’ارے بھائی یہ تو ہمارے بھائی صاحب تھے۔ ۔ ۔ ‘‘ وہ سکون سے بولیں۔ ’’تم کیا سمجھے ؟؟؟؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ ۔ ‘‘ میں کیا سمجھا تھا۔ ۔ یہ بات خود بھی نہیں جانتا تھا۔
بس ان کا ہاتھ جھٹک کر گھر بھاگ آیا۔ ۔ ۔
بہت دنوں تک وہاں نہیں جا سکا۔ چھٹیوں میں اپنے ننہال چلا گیا۔ آیا تو اسکول شروع ہو گئے۔ ۔ پڑھائی تھی کچھ سوچنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔
کبھی کبھی ساحرہ اپی کی آواز ذہن میں گونجتی۔ ۔ مگر میں سر جھٹک کر پڑھائی میں مصروف ہو جاتا۔ ۔
آخری پیپر ہوا تو اس دن خواب میں ساحرہ اپی کو دیکھا۔ ۔ ۔ ان کا دھیمے دھیمے لہجے میں بات کرنا۔ ۔ ۔ ان کی نرم سی ہنسی۔ ۔ ۔
’’امّی میں ساحرہ اپّی کی طرف جا رہا ہو۔ ۔ ‘‘ صبح ہوتے ہیں میں نے ارادہ کیا۔
’’چلو گی مو مو۔ ۔ ؟‘‘
’’نہیں مو مو کہیں نہیں جائیے گی اور تمہیں بھی ضرورت نہیں یہاں وہاں گھومنے کی میرے پاس بھی کبھی بیٹھ۔ ۔ ۔ ‘‘ امّی نے خلاف توقع تیز لہجے میں جواب دیا۔ ۔
پھر میں احتراماً وہیں بیٹھ گیا دیر تک امّی سے بات کرتا رہا۔ ۔ ا نکو مومو کی شادی کی فکر ابھی سے ستا رہی تھی اور مجھے لگتا تھا کہ مومو ابھی بہت چھوٹی ہے۔ وہ مجھ سے صرف چار برس ہی تو بڑی تھی۔ ۔ پھر اتنی جلدی کیا ہے ؟؟؟ مگر میں امّی کی فکروں کو سمجھ نہیں سکتا تھا۔ وہ ماں ہیں۔ وہ بہتر فیصلہ کر سکتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔
دوسری شام میں امّی کو بتائے بغیر ان سیڑھیوں پر جا پہونچا۔ ۔ ۔
وہاں شام کی چائے پہ جا رہی تھی سبھی بہنیں مو جود تھیں ان کی امّی مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور ساحرہ اپّی بھی بیحد خوش ہو گئی۔ ۔ ۔ ان کے چہرے پر میرے آنے کی خوشی میں جو چمک میں نے دیکھی وہ میرے لئیے بالکل نیا احساس تھا۔ ۔ ۔
انھوں نے کاجو سے بھری پلیٹ میرے سامنے کر دی۔ ۔
’’لو کھاؤ۔ ۔ ‘‘ ان کے لہجے میں محبت ہی محبت تھی۔ ۔ ۔
میں نے ہاتھ بڑھا یا ہی تھا کہ ان کی چھوٹی بہن سامنے سے آئیں اور ایک کاجو پلیٹ سے لے کر اپنے ہونٹوں میں دبا لیا پھر میری طرف شرارت سے جھکیں۔ ۔
’’اب کھائیے۔ ۔ ‘‘ انھوں نے اشارہ کیا۔ ۔ آدھا کاجو جو ان کے ہونٹوں سے باہر تھا۔ ۔ ۔ اسے لینے کو کہہ رہی تھیں۔ ۔ ۔ میں چکرا گیا۔ ۔ میں نے ساحرہ اپی کی طرف دیکھا۔ ۔ ۔ ’’جاؤ تم یہاں سے۔ ۔ بے شرم کہیں کی۔ ۔ ‘‘ انھوں نے اپنی بہن کو زور سے ڈانٹا۔ ۔ اور پھر دیر تک مجھ سے سکول اور پڑھائی کی باتیں کر تی رہیں میرے دوستون اور نئے کالج کی باتیں دلچسپی سے سنتی رہیں۔ ۔ ۔
ان کی آواز میں ایک طلسم تھا ان کے لہجے میں اپنا پن تھا۔ ۔ ان کے چہرے پر محبت کی روشنی تھی میں کافی دیر بیٹھا رہا۔ ۔ ۔
رات ہونے لگی تھی۔ ۔ گھر آیا تو امّی مجھ پر برس پڑیں۔ ۔
’’کہاں تھے تم۔ ۔ ؟‘‘
میرے بتا دینے پر بھی ان کا غصہ کم نہیں ہوا۔ ۔ ۔ بلکہ اس شام انھوں نے مجھے وہاں جانے سے سختی سے منع کر دیا۔ ۔ میں بڑا ہو رہا تھا فکریں مجھے بھی ہونے لگی تھیں میں بھی کسی اور انداز میں سوچنے لگا تھا۔ ۔ ۔ مگر امّی کا یہ انداز؟؟ میرے لئیے بالکل الگ تھا۔
زندگی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی مجھے پڑھنے کے لئیے دہلی میں داخلہ مل گیا اور جاتے وقت میں چاہتے ہوئے بھی ساحرہ اپّی سے نہیں مل سکا۔
نئے لوگ نئے استاد۔ ۔ کورس کافی مشکل تھا کچھ دنوں تک تو میرا بالکل دل نہیں لگا پرانا اسکول اور پرانے دوست بہت یاد آئے مگر آہستہ آہستہ یہاں کی زندگی کا عادی ہوتا چلا گیا۔ ۔ ۔
شاید اب میں بڑا ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ زندگی کو اور طرح سے سوچنے لگا تھا۔ ۔ ۔ ادھر گھر پر مومو کی شادی کی تیاری ہونے لگی، میں پہونچا تو دیکھا امّی بہت کمزور ہو گئی تھیں۔ ۔ ۔ دیر تک مجھے باہوں میں لئیے روتی رہیں۔ ۔ ۔
گاؤں کی زمین کا سودا ہو گیا تھا اور پھر مومو کی شادی کی، شہنائیاں بج اٹھیں۔ میں دن رات مصروف رہا جس دن وہ رخصت ہوئی دیر تک روتا رہا۔
پھر واپس دہلی۔ ۔ ۔ وہی، پڑھائی وہی مصروفیت۔ ۔
زندگی کچھ اور آگے بڑھ آئی ایم بی اے پورا ہوا تو ملازمت کے لئیے مصروف ہوا۔ ۔ ۔ ۔
امّی بیمار تھیں فون پر پتہ چلا تو بھاگ کر واپس آیا۔ ۔ ۔ وہ مومو کی شادی کے بعد بہت اکیلی پڑ گئی تھیں چاہتی تھیں میں جلدی سے کسی نوکری پر لگ جاؤں اور شادی کر لوں۔ ۔ ۔ ۔
وہ میرے آ جانے سے بیحد خوش تھیں۔ ۔ ۔ روز کچھ نہ کچھ میری پسند کی ڈش خود کھڑی ہو کر بناتیں۔ ۔
اس شام میرا دل اداس تھا اچانک مجھے ساحرہ اپّی کی یاد آ گئی۔ سو چا امّی سے پوچھوں۔ ۔ مگر پرانی ڈانٹ یاد آئی تو خاموشی سے ان کے گھر چل پڑا۔ ۔
وہاں پہونچا تو ایک سنّاٹے نے میرا استقبال کیا۔ ۔ ۔ ۔ تخت پر پان دان کھلا ہوا تھا ایک میلی سی چادر بچھی ہوئی تھی ان کی امی سامنے اسی تخت پر اکیلی بیٹھی تھیں۔ میں ان کوسلام کر کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ ۔ مجھے دیکھ کر آنکھوں میں شناسائی کی ایک چمک سی آئی۔ ۔ اور پھر اسی حزن میں ڈوب گئی۔ ۔
’’کیسے ہو بیٹا؟؟؟‘‘ ان کی آواز بہت بدل گئی تھی۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ ۔ ۔ سب لوگ کہاں ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘‘ میں نے زیادہ صبر نہیں کیا۔
’’نادرہ تو گھر سے بھا۔ ۔ ۔ چلی گئی۔ ۔ ۔ شادی ہو گئی نا اس کی تو۔ ۔ ‘‘ انھوں نے عجیب طرح سے اٹک کر بتایا۔
’’سمیرہ اور مائیرہ اپنے ماموں کے گھر پر گئی ہیں۔ ۔ ‘‘
’’اور ساحرہ اپّی۔ ۔ ؟‘‘
’’وہ۔ ۔ ۔ اس کی کچھ طبیعت ٹھیک نہیں۔ ۔ ۔ سو رہی ہے شاید۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
’’میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔ ۔ ۔ ‘‘ میں نے رک رک کہا۔
’’اچھا۔ ۔ ۔ آؤ۔ ۔ دیکھتی ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘
انھوں نے جھک کر نیچے پڑی چپّل میں پیر ڈلا۔ ۔ وہ مجھے بہت کمزور اور ٹوٹی ہوئی لگیں۔
وہ مجھے لے کر ایک چھوٹے سے کمرے میں آ گئیں۔ ۔ ۔ مجھے بے پناہ گھٹن کا احساس ہوا۔ ۔ ۔ ایک پلنگ پر ساحرہ اپّی۔ ۔ نہیں یہ تو بس ان کا سایہ تھا۔ ۔ وہ تو نہ تھیں۔ ۔ ۔ میرے اندر دکھوں کی بارش سی ہونے لگی۔
’’کیا ہوا ہے ساحرہ اپّی کو ؟؟؟؟‘‘ میری چیخ سی نکل گئی۔ ۔
انھوں نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا کر میری طرف دیکھا۔ ۔ آنکھیں وہی مگر ان میں کوئی چمک نہیں۔ ۔ ۔ کوئی رنگ نہیں۔ ۔ مجھے دیکھ کر جو مسکراہٹ ان کے بیمار لبوں پر ایک لمحے کو ابھری وہ دوسرے لمحے معدوم ہو گئی۔
میں وہاں پڑی ہوئی واحد کرسی پر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔
ان کی آنکھوں سے آنسو نکلے اور گوشوں کو نم کرتے ہوئے گردن تک چلے گئے۔ ۔
کانچ کے زرّوں کی طرح بکھری ہوئی ساحرہ اپّی میرے سامنے تھیں۔ ۔
’’روتی کیوں ہیں ؟ ٹھیک ہو جائیں گی آپ۔ ۔ ‘‘ میں نے کمزور سا دلاسہ دیا۔ ۔ ۔ اب اس کمرے میں بری طرح دم گھٹ رہا تھا میرا۔ ۔ ۔ میں بھاگ جانا چاہتا تھا۔ ۔ ۔
اب انھوں نے پھر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔ ۔ میں ایک دم باہر آ گیا۔ ۔ پھر بغیر کسی طرف دیکھے گھر سے بھی نکل آیا۔ ۔ ۔ اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ ۔ ۔
دو آدمی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ ۔ ۔ مجھے دیکھ کر عجیب طرح سے مسکرائے۔ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
’’ان سب میں ایک ہی تو اچھی تھی۔ ۔ مگر اب اسے بھی۔ ۔ ۔ اب تو جانا بیکار ہی ہے ‘‘
’’کیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ اسے ؟؟‘‘ میں نے اپنے پیچھے ایک آواز سنی۔ ۔ ۔ ۔ اور کیا ہونا تھا۔ ۔ ۔ کام ہی ایسا کرتی تھیں۔ ۔ ‘‘
’’کون والی؟
’’ارے وہی۔ ۔ ساحرہ بائی اور کون۔ ۔ ‘‘
میں سرسے پیر تک سن ہو گیا۔ ۔ ۔
میرے گمان میرے خدشے یہاں تک نہیں پہونچ سکتے تھے۔ ۔ ۔ امّی کی ڈانٹ پھر سے یاد آئی۔ ۔
سر سے پاؤ تک ندامت میں ڈوب گیا۔ ۔ ۔ ۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...