(Last Updated On: )
علی یشل کو کال کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اسے کچھ تصویریں موصول ہوئیں اس نے وہ اوپن کی تو اس کے سر پہ بم سا پھٹا
” نہیں یہ یشل نہیں ہوسکتی” اس کا دل ماننے سے انکاری تھا اس نے دوبارہ ان تصویروں کو دیکھا وہ بلاشبہ یشل ہی تھی اور ایک میسج تھا
” شریفوں کے سرِ بازار کارنامے دیکھو” علی کا تو دماغ ہی گھوم گیا اس نے نمبر دیکھا ان نون نمبر تھا علی نے غصے میں موبائیل دور پھینک دیا
یہ بات دوسرے رات کی تھی لیلٰی شہلا کے پاس چلی آئی
” آپی علی آیا نہیں پورا دن گزر گیا آج کا” لیلٰی نے پوچھا
” ارے تم اتنا بڑا کام کرچکی ہو لڑکی اس کا کچھ تو اثر ہوا ہوگا نا اس پہ ” شہلا نے کہا لیلٰی مسکرائی
” اب دیکھنا جب وہ لوٹے گا تو وہ صرف اور صرف میرا ہوگا” اس نے یقین سے کہا
” اور اگر ایسا پھر بھی نہ ہوا تو؟”
” تو میں نے ابھی ہار نہیں مانی ہے اسے اپنا بنا ہی لوں گی”
” اچھا ابھی آپ کو ایک کام کرنا ہے؟” لیلٰی نے کہا
” کیا؟” شہلا نے پوچھا
” آپ کو علی کے دل میں جو غلط فہمی در آئی ہے اسے ہوا دینی ہے” لیلٰی نے کہا
” ارے لڑکی اسے شک ہو جائے گا کہ یہ سب کیا دھرا ہمارا ہے ” شہلا گھبرائیں
” ارے ایسا کچھ نہیں ہوگا میں آپ کو بتاتی ہوں” لیلٰی نے کہا اور اپنے پلان کے بارے میں اسے آگاہ کرنے لگی
———–
پچھلی رات سے وہ بے حد ڈسٹرب تھا ایک طرف وہ یشل پہ بھروسہ کرتا تھا پر وہ تصویریں۔۔۔۔۔ وہ تو جھوٹی نہیں تھیں اور جس طرح اس لڑکے نے اسے بازوؤں سے پکڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ علی نے سر ہاتھوں میں تھام لیا کل سے یشل کی کال آرہی تھی پر وہ بہت ڈسٹرب تھا کیا بات کرتا اس سے
کون تھا یہ جس نے اس کو یہ تصاویر بھیجیں تھیں گھر کا تو ہو ہی نہیں سکتا کوئی کیونکہ سب نے ہی یشل کو دل سے قبول کیا تھا پھر یہ کون تھا۔۔۔۔۔ اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا
کہ اس کا پھر سیل بجا ” یشل پلیز ” وہ اکتایا ہوا تھا سیل اٹھا کے دیکھا تو یشل کے بجائے شہلا بھابی کا نمبر دیکھ کے چونکا اور ریسیو کیا سلام دعا کے بعد وہ بولیں
” علی مجھے سمجھ نہیں آرہا میں تم کو یہ بات کیسے بتاؤں ۔۔۔۔۔ اور تم پتا نہیں کیا رییکٹ کرو” وہ بولیں
” کیا بات ہے بھابی”
” علی بات یشل سے ریلیٹڈ ہے” شہلا نے سامنے بیٹھی لیلٰی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جس نے ” کیری اون” کا اشارہ کیا
علی چونکا ” کیا بات بھابی خیریت”
” علی میں بہت دنوں سے تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی مجھے یشل کے رنگ ڈھنگ ٹھیک نہیں لگ رہے ہیں”
” مطلب؟”
” مطلب یہ کہ میں نے اسے کئی دفعہ اسے کسی نہ کسی لڑکے کے ساتھ ہاتھ میں ڈالے آتے جاتے دیکھا ہے جب بھی میں شاپنگ کرنے یا کہیں بھی گئی وہ مجھے کہیں نا کہیں کسی نا کسی کے ساتھ نظر ہی آئی” علی کا دل ایسے جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا
” بھابی کیا پتا اس کا کوئی کزن ہو” اس نے اس کا بودا سا دفع کیا
” ارے چھوڑو جو کزن یا بھائی ہوتے ہیں نا وہ پتا چلتے ہیں ۔۔۔ اور ذرا بات سنو میری تم اگر وہ کزن بھی ہیں تو کیا وہ اس طرح لے کے گھومیں گے یشل کو” علی خاموش ہوا ورنہ دل تو خون کے آنسو رو رہا تھا
” اور تمہیں پتا ہے کہ آج صبح ایک ان نون نمبر سے مجھے موصول ہوئی ہیں” علی کا سانس رکا ” علی اس کو یہ سب کرنے سے روکو کل کو اس نے ہمارے گھر کی عزت بننا ہے کیا عزت رہ جائے گی ہماری “
” تو کیا وہ تصاویر اس کے گھر تک بھی پہنچ گئیں ہیں ” اس نے سوچا
“بھابی میں آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں” کہہ کر بنا جواب سنے اس نے فون رکھ دیا
” کام ہو گیا ” بھابی نے خوشی سے کہا
” اوہ واؤ آپی کیا ایکٹنگ کی ہے مان گئی آپ کو” اس نے خوشی سے شہلا کو گلے لگا لیا۔
——–
علی نے فون رکھ دیا ایک دم سے ہی اس دم گھٹنے لگا تھا ہر چیز سے وحشت ہونے لگی تھی اس نے غصے میں ساری چیزیں تہس نہس کردیں اب وہ چھے فٹ کا لمبا چوڑا آدمی ذمین پہ سر جھکائے شکست خوردہ آدمی کی طرح گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا آنسو بھل بھل اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھےسامنے ہی دیوار پہ اس کی پک لگی تھی وہ چلتا ہوا اس تک آیا
” اتنا بڑا دھوکہ یشل۔۔۔۔۔ اتنا بڑا دھوکا کیا کمی رہ گئی تھی میری محبت میں” وہ چیخ رہا تھا ” بتاؤ” اس نے فریم پہ زور سے ہاتھ مارا کہ فریم کا نازک شیشہ ٹوٹ گیا اور کچھ کانچ اس کے ہاتھ میں لگ گئے
” مجھے تم سب لڑکیوں سے الگ لگتی تھیں پر تم بھی وہی نکلیں “
” دھوکا دیا ہے تم نے مجھے یشل میں کبھی معاف نہیں کروں گا تمہیں ” اس نے اپنی آنکھیں بے دردی سے رگڑیں
———
یشل کب سے روم میں بیٹھی علی کو کال پہ کال کیے جا رہی تھی پریشانی سے ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے اس کا دل انجانے خوف سے لرز رہا تھا کبھی ایسا ہوا نہیں تھا کہ علی نے اس کی کال اگنور کی ہو پر آج دو دن سے سے زیادہ ہوگئے تھے پر اس کی کوئی خیر خبر نہیں تھی
” کہیں علی کو کچھ۔۔۔۔۔۔۔” اس کا دل کانپا ” نہیں نہیں اللٰہ نہ کرے” اس نے اسے دوبارہ کال کی پر جواب ندارد۔۔۔۔۔۔
” یشل بیٹے کیا کررہی ہو۔۔۔ روم سے باہر آؤ تمہاری مامی اور اشعر کب سے تمہارا پوچھ رہے ہیں اور اب تو ڈنر کا ٹائم ہو رہا ہے ” وہ جو ادھر ادھر ٹہل رہی تھی ماما کی بات پہ رکی
” جی ماما آتی ہوں”
” جلدی آنا” کہہ کر وہ چلی گئیں
وہ پھر اسے کال کرنے لگی
” علی کیا ہو گیا ہے کہاں ہو آپ” علی نے واپس آنے کا بھی کہا تھا پر وہ نہیں آیا تھا جانے وجہ کیا تھی
ماما کی آواز پہ وہ پھر چونکی اور سیل رکھ کے روم سے باہر چلی گئی ان دو تین دنوں میں پتا نہیں کتنے میسجز اور کالز کر چکی تھی وہ پر کسی بجی میسج یا کال کا ریپلائی نہیں آیا تھا وہ بہت ڈسٹرب تھی
۔ —–
کھانا کھا کے وہ دوبارہ روم میں آئی اور پھر سے اسے کال کرنے لگی اس بار کال ریسیو ہوئی یشل نے سکھ کا سانس لیا
” شکر علی آپ نے کال تو ریسیو کی میں کب سے کال کررہی تھی آپ کو آپ ٹھیک ہیں نا؟” یشل نے پوچھا
” مجھے کال کیوں کررہی تھیں؟” علی نے سپاٹ لہجے میں کہا
” کیا ہوگیا ہے علی آپ کو نہیں کروں گی تو کس کو کروں گی” یشل نے کہا
” بہت سے لوگ ہیں جو تمہارے منتظر ہوں گے” علی نے کہا یشل سمجھی وہ اسے تنگ کرنے کو کہہ رہا ہے تبھی مسکرائی اور شرارت سے بولی
” ہاں ہیں تو۔۔۔۔۔” یشل بولی تو علی کے دل سے ہوک اٹھی
” تو جاؤ ان سے بات کرو” علی نے ضبط سے کہا
” کوئی آپ کی طرح اسپیشل نہیں ہے نا کس سے بات کروں؟”
” اوہ شٹ اپ یشل بے وقوف کسی اور کو بناؤ جا کے” وہ ایک دم ضبط کھو بیٹھا
” کیا ہو گیا علی؟” یشل حیرانی سے بولی کبھی علی نے اس سے اس طرح بات نہیں کی تھی
” یہ تم مجھ سے پوچھ رہی ہو مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔ تمہیں خود پتا ہوگا کہ تم نے کیا ہے یا کیا کرتی پھر رہی ہو” علی نے معنی خیزی سے کہا تو یشل نے ناسمجھی سے پوچھا
” کیا مطلب؟”
” مجھ سے مطلب پوچھ رہی ہو تم واہ”
” صاف صاف بات کریں علی پہیلیاں نہ بجھوائیں”
” اچھا صاف صاف بات کروں تو یہ بتاؤ کہ وہ لڑکا کون تھا جس کے ساتھ تم شاپنگ کرتی پھر رہی تھیں” علی نے پوچھا
” کب؟؟؟” یشل نے پوچھا اور اشعر کا تو اس کے ذہن میں ہی نہیں تھا علی مسکرایا
” تم اس ایک لڑکے کو بھول گئیں یشل کتنوں کے ساتھ شاپنگ کرتی رہتی ہو؟” علی نے زہر میں ڈوبا طنز کیا
” شٹ اپ علی آپ کی ہمت کیسے ہوئی اس طرح بات کرنے کی” یشل کو علی کا یوں کہنا ذرا اچھا نہ لگا اس کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں
” تو کس طرح بات کروں میں نے سمپل یہ پوچھا ہے ایک دو دن پہلے تم کس کے ساتھ شاپنگ پہ تھیں” یشل کو یاد آیا وہ اشعر بھائی کے ساتھ گئی تھی پچھلے دنوں شاپنگ پہ
” علی وہ اشعر بھائی تھے میرے ماموں کے بیٹے۔۔۔۔۔ اور وہ بھائی ہیں میرے آپ نے ایسا سوچا بھی کیسے”
” اچھا ” علی نے صرف اتنا کہا یشل کی دل کو کچھ ہوا ایک غلط فہمی کی وجہ سے وہ اس سے دور جا رہا تھا وہ کیسے اسے دور جانے دیتی
” علی آپ کو برا لگا میرا اس طرح سے اشعر بھائی کے ساتھ جانا” یشل نے پوچھا علی خاموش رہا
” علی سوری علی میں آئیندہ نہیں جاؤں گی پلیز یوں طپ نہ رہیں۔۔۔ مجھ سے ناراض نہ ہوں پلیز علی” وہ رونے لگی تھی
” یشل میں بزی ہوں بعد میں کال کرتا ہوں” علی نے کہا
” نہیں پہلے بتائیں معاف کردیا آپ نے مجھے؟” یشل نے روتے ہوئے کہا
” یشل میں کرتا ہوں بعد میں کال” وہ اکتایا اس کا رونا اسے تکلیف بھی دے رہا تھا
” پہلے بتائیں” وہ بضد تھی
” اچھا کردیا معاف اب رونا بند کرو میں بزی ہوں بعد میں کرتا ہوں کال ” علی جھنجلایا
” تھینک یو علی” یشل بولی علی فون رکھ چکا تھا
یشل کو معلوم بھی نہیں تھا علی اتنی سی بات کا اتنا شدید ردعمل دے گا وہ حیران تھی
وہ علی سے بے حد محبت کرتی تھی اس لیے اسے اپنے اس رشتے کو بچانا تھا اور اس لیے علی کے آگے نا چاہتے ہوئے بھی وہ جھک گئی تھی۔
——-
علی تھک کے بیڈ بیٹھ گیا اور سر ہاتھوں میں تھام لیا
کس کا یقین کیا جائے۔۔۔۔۔ یشل کا یا بھابی کا
یشل اس سے جھوٹ نہیں بولے گی پر۔۔۔۔۔ بھابی کو جھوٹ بول کے کیا ملے گا۔۔۔۔۔ اور پھر وہ تصاویر ان کو بھی بھیجی گئی ہیں اس کے علاوہ انہوں نے بھی یشل کو دیکھا ہے کسی کے ساتھ وہ جھوٹ نہیں بول سکتیں۔۔۔۔۔ تو کیا یشل۔۔۔۔۔۔۔” وہ ایک دم کھڑا دیا اور کھڑکی میں جا کے کھڑا ہو گیا وہ اس وقت بہت تکلیف میں تھا فیصلہ ہو چکا تھا۔