جوزف ویکلاف مئسلبک (Josef Vaclav Myslbek)
(۲۰؍ جون ۱۸۴۸ء- ۲؍ جون ۱۹۲۲ء)
چیک مجسمہ ساز جس کو جدید چیک طرز کی مجسمہ سازی کا بانی قرار دیا گیا ہے۔ اس کا تعلق پراگ کے نواحی قصبے کے ایک نادار خاندان سے تھا۔ وہاں مجسمہ سازی کی تربیت کا کوئی مرکز نہیں تھا۔ وہ پراگ پہنچا اور پراگ کی فائن آرٹس اکیڈمی میں داخلہ لیا۔ بعد میں اس نے مجسمہ سازی کا اپنا اسٹوڈیو قائم کیا۔ اس نے فرانسیسی مجسمہ سازی کے اسلوب سے بہت تأثر قبول کیا اور ساتھ ہی فوٹو گرافی اور ادب سے بھی تأثرات لیے۔ ممتاز آرٹسٹ اور مجسمہ ساز اسٹانس لاف سچارڈا، جان اسٹرسا اور بوہیومل کافکا اس کے شاگرد تھے۔
مئسلبک کو وفات کے بعد پراگ کے قومی قبرستان میں تدفین کا اعزاز دیا گیا۔ اس کے کارناموں میں سینٹ وین سیسلاس (Saint Wenceslas) کے مجسّمے کی بڑی شہرت ہے، جو وین سسلاس چوک میں نصب ہے۔ اس مجسّمے کی تکمیل میں بیس برس کا عرصہ لگا۔
اس مجسّمے کو چیک آرٹ اور سنگ تراشی کا امتیازی نشان اور چیک ریاست کا سمبل قرار دیا جاتا ہے۔
مکولیس ایلس (Mikolas Ales)
(۱۸؍ نومبر ۱۸۵۲ء- ۱۰؍ جولائی ۱۹۱۳ء)
مشہور چیک آرٹسٹ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی پانچ ہزار سے زائد تصاویر شائع ہوئیں۔ اس نے مجلّوں، تاش کے پتوں سے لے کر درسی کتابوں کے لیے تصاویر تیار کیں۔ اس کا بہت سارا کام بوہیمیا سے باہر چلا گیا، لیکن پھر بھی بہت کچھ دستیاب ہے۔ اس کو چیک جمہوریہ کے سب سے بڑے آرٹسٹ کا مرتبہ حاصل ہے۔
ایلس میروٹیس (Mirotice) جو پائی سک (Pisek) کے قریب ہے۔ اس کا تعلق ایک امیر خانوادے سے تھا۔ اس کے بھائی فران ٹی سک (Frantisek) نے اس کو تاریخ پڑھائی اور یہ سلسلہ بھائی کی وفات (۱۸۶۵ء) تک چلا۔ بچپن سے اس کا فطری رجحان آرٹ اور پینٹنگ کی جانب تھا۔ ۱۸۷۹ء میں اس نے میرینا کیلووا (Marina Kailova) سے شادی کی اور اٹلی میں رہائش اختیار کرلی۔ بعد میں وہ پراگ واپس آگیا اور پراگ نیشنل تھیٹر کے لیے دیگر آرٹسٹوں کے ساتھ کام کرتا رہا۔ اس کی وفات ساٹھ برس کی عمر میں ہوئی۔
اس کو اور اس کے کام کو نازی جرمنی کے چیک تسلط کے دوران (۱۹۳۸ء تا ۱۹۴۵ء) پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ بعد میں کمیونسٹوں کے غلبے کے دوران اس کے نام کو پروپیگنڈے کے مقاصد سے استعمال کیا گیا۔
رینے ڈیکارٹ (Rene Descartes)
ولادت: ۳۱؍ مارچ ۱۵۹۶ء لا ہاے این تورین، فرانس۔
وفات: ۱۱؍ فروری ۱۶۵۰ء (بہ عمر تریپن برس) اسٹوک ہوم، سوئیڈش ایمپائر۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ رینے ڈیکارٹ نے جدید فلسفے کی بنیاد رکھی اور اسی سبب سے باباے جدید فلسفہ کے لقب سے سرفراز ہوا۔
اس کے نام اور شخصیت کے ساتھ اتنے زیادہ ’ازم‘ جڑے ہیں کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ چند ’ازم‘ نیچے درج کیے جارہے ہیں۔
(۱) ریشنل ازم، (۲) میکانزم، (۳) کونسیپچوالزم، (۴) ان ڈیرکٹ ریالزم وغیرہ۔
اسی طرح بے شمار علوم اس سے متعلق ہیں جیسے:
۱۔
ایپس ٹمالوجی
Epsitemology
۲۔
میٹا فزکس
Metaphysics
۳۔
ریاضی
Mathematics
۴۔
طبیعیات
Physics
۵۔
آفاقیات
Cosmology
۶۔
علمِ ہندسہ (جیو میٹری)
Geometry
۷۔
الجبرا
Al-Jebra
رینے ڈیکارٹ کے بارے میں مشہو ہے کہ اس نے ۱۰-۱۱ نومبر ۱۶۱۹ء کی درمیانی رات خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا جو خاصا سرد تھا، جسے صرف ایک اسٹو (stove) قدرے گرم رکھ رہا تھا۔ اس کمرے میں اس نے تین خواب دیکھے۔ وہاں کسی مقدس وجود نے اس کو ایک نئے فلسفے سے آشنا کیا۔ خوابوں میں وہ جس مضمون کے انکشاف سے بہرہ ور ہوا وہ تھا تجزیاتی جیومیٹری (Analytical Geometry)۔ اسے یہ خیال بھی بخشا گیا کہ ریاضی کو فلسفے پر کس طرح منطبق کیا جائے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ رینے ڈیکارٹ علمِ لدنی سے مشرف ہوا۔
ان انکشافات کے بعد ہی رینے ڈیکارٹ کا یہ مشہور فقرہ بھی سامنے آیا، ’’میں سوچتا ہوں اس کا یہ مطلب ہوا میں ہوں۔‘‘ (Cogito ergo sum)۔ اس کے فکری نظام میں تشکیک، شک کرنے اور سوال کرنے کے رویے کو بڑی مثبت اہمیت حاصل ہے۔ اس نے موضوعی سوچ کو بھی وقار دیا ہے۔ اس کے بعد وہ اس طریقے تک پہنچا جس کو میتھڈ اوف نورملز (Method of Normals) کہا جاتا ہے۔ وہ جسم اور دماغ کے مسئلے پر بھی بہت لکھتا رہا ہے۔
اس کا واسطہ ایک سے زائد ملکوں سے رہا۔ وہ فرانسیسی تو تھا ہی، فرانس کے علاوہ نیدر لینڈس (Neather Lands) سوئیڈن (Sweden) بھی اس سے متعلق ملک ہیں۔
سوئیڈن کی ڈیکارٹ کی زندگی اور موت کے سلسلے میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ ۱۶۴۹ء تک ڈیکارٹ یورپ کا سب سے بڑا فلسفی اور سائنس داں تسلیم کرلیا گیا۔ اسی سال سوئیڈن کی ملکہ کرسٹینا (Christina) نے ڈیکارٹ کو اپنے دربار میں بلوایا اور اس کے سپرد ایک سائنس اکیڈمی قائم کرنے کا کام کیا۔ ساتھ ہی اسے اپنا معلم بھی مقرر کیا۔ اس نے ڈیکارٹ کو ’’پیشنز اوف دی سول‘‘ (Passions of the Soul) چھپوانے پر بھی مائل کیا۔ شہزادی الزبیتھ (Princess Elizbeth of Bohemia) اور ڈیکارٹ کے مابین ہونے والی مراسلت پر مشتمل کتاب۔
یہ طے پایا کہ ڈیکارٹ ملکہ کو محبت کے موضوع پر ٹیوشن دے گا ہفتے میں تین دن۔ وقت جو مقرر کیا گیا وہ صبح کے پانچ بجے تھا۔ سرما تھا اور ملکہ کا قلعہ نما محل بھی معمول سے زیادہ سرد تھا۔ خشک سرد۔ اس کے علاوہ دونوں میں نباہ بھی نہ ہوسکا۔ ملکہ کو ڈیکارٹ کا میکانیکل فلسفہ پسند نہیں آیا۔ ڈیکارٹ کو ملکہ کی قدیم یونان سے دل چسپی اچھی نہیں لگی۔ ڈیکارٹ ملکہ کی خدمت میں صرف چار پانچ مرتبہ ہی حاضری دے سکا۔ یکم فروری اسے نمونیا ہوا اور ۱۱؍ فروری کے دن اس کی موت واقع ہوگئی۔ موت کا باعث چانٹ (Chanut) کے مطابق (جس کے ہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا، نمونیا اور ملکہ کے معالج کے مطابق ڈبل نمونیا (Peri Pheumonia) تھا۔ مرض اور موت دونوں ہی مشکوک رہے۔ خاص طور پر ڈاکٹروں میں سے کسی ایک کا یہ بیان کہ ڈیکارٹ نے علاج سے انکار کیا تھا۔ چناںچہ اس کے قتل کیے جانے کا معاملہ بھی سامنے آیا، یا یوں کہیے ایسا مشہور ہوا۔
ڈیکارٹ کیتھولک تھا اور ماحول پروٹسٹنٹ اکثریت والوں کا تھا۔ اسے یتیموں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
ڈیکارٹ کی لحد ایک سے زائد مرتبہ کھولی گئی اور اس کی باقیات کو پہلے فرانس لے جاکر ایک قبرستان میں دفن کیا گیا، بعد میں ۱۷۹۲ء میں پین تھیون (Pantheon) اور پھر ۱۸۱۹ء میں ایبے اوف سینٹ جرمین (Abbey of Saint Germain) میں ایک انگلی اور کھوپڑی کے بغیر دفن کیا گیا۔ اس کا کاسۂ سر پیرس میں زیارت کے لیے موجود ہے۔
نوٹ: ڈیکارٹ کے وقتوں میں اعلیٰ طبقے کی خواتین (اگرچہ شاذ شاذ) اعلیٰ علمی مباحث میں حصہ لیتی تھیں۔
ریشنلزم
ریشنلزم ایسا عقیدہ یا نظریہ جس کے تحت اعمال اور افکار کو منطق اور دلائل پر استوار رکھا جاتا ہے نہ کہ مذہبی عقائد یا جذبات پر۔
فلسفے اور فکریات میں علم سے متعلق کرکے دیکھتے ہوئے ریشنلزم کے تحت منطق اور استدلال کو علم کی اساس قرار دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں تھی اسٹک ریشنلزم (Theistic Rationalism)، تنقیدی ریشنلزم (Critical Rationalism) اور پین ریشنلزم (Panrationalism) بھی زیرِ غور آتے ہیں۔
ریشنلزم کے مطابق حواسِ خمسہ ہی حصولِ علم کا ذریعہ نہیں ہیں۔ حواس دھوکا دے سکتے ہیں۔ منطق، استدلال اور پہلے سے موجود علم اور ریاضی، الجبرا اور جیومیٹری اور فزکس دھوکا نہیں دیتے۔ ۲+ ۲= ۴ دو چیزوں میں دو مزید چیزوں کا اضافہ کیا جائے تو لازماً چار چیزیں حاصل ہوں گی۔ اسی طرح چار چیزوں کی ڈھیری سے دو چیزیں نکال لی جائیں تو ڈھیری میں دو چیزیں باقی ملیں گی۔ ریشنلزم کے نظریے کے مطالعے کے لیے سب سے پہلے رینے ڈیکارٹ کا نام آتا ہے جس کو ’’باباے جدید فلسفہ‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ رینے ڈیکارٹ کے بعد باروک اسپینوزا اور گوٹ فرائڈ لبنیز کے نام آتے ہیں۔
ریشنلزم ایسا عقیدہ یا نظریہ جس کے تحت اعمال اور افکار کو منطق اور دلائل پر استوار رکھا جاتا ہے نہ کہ مذہبی عقائد یا جذبات پر۔
ڈیکارٹ کی فکر میں جو مسائل اور موضوع الجھاؤ کا باعث ملتے ہیں ان میں سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرنے والا موضوع یا مسئلہ دماغ اور جسم کی دوئی (Dualism) ہے۔ اس کی تفہیم کے سلسلے میں مندرجہ ذیل جدول کھنچا ہوا ملتا ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ— God
Infinite Substance
ایسا وجود جو اپنے وجود کے لیے کسی وجود کا محتاج نہ ہو
اصل الوجود
ڈیکارٹ نے دماغ اور جسم کی دوئی کے مسئلے کا یہ حل پیش کیا تھا کہ دماغ اور جسم آپس میں دماغ کے بیچوں بیچ گہرائی میں ملتے ہیں۔ اس مقام پر جہاں تیسری آنکھ یعنی چھوٹا سا پئی نیل غدود (Pineal Gland) پایا جاتا ہے۔
پئی نیل غدود
چھوٹا انڈوکرائن غدود (small endocrine gland) جو ورٹے بریٹ کے حامل جان داروں کے دماغ میں ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں اس کو تیسری آنکھ کہا جاتا تھا۔ دماغ کے مرکز، بیچ میں گہرائی میں پایا جاتا ہے۔ اپنی کون (مخروطی) شکل سے اس کا یہ نام پڑا۔ یہ غدود ملاٹونن (Melatonin) خارج کرتا ہے جو ایک ہارمون ہے، جو سونے میں مدد دیتا ہے۔ اس پر تحقیقات جاری ہیں۔
رینے ڈیکارٹ کے فکری نظام میں تصورِ باری تعالیٰ
رینے ڈیکارٹ کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ گلیلو (Galile) کی گرفتاری کی خبر ملتے ہی اس نے اپنی کتاب ’’طبیعیات‘‘ کا قلمی نسخہ اشاعتی ادارے سے واپس مانگ لیا تاکہ اس میں اس نوع کی ترمیم کرلے کہ علماے دینیات معترض نہ ہوں اور وہ ریاستی جبر سے محفوظ رہے۔
ڈیکارٹ درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود سے منکر (Atheist) تھا۔ اس نے اپنے نظامِ فکر میں وجودِ باری تعالیٰ کا اثبات محض اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا (دکھاوے کے طور پر)۔ اس عہد کے علماے دینیات جدید میکانکی سائنس کے خلاف تھے۔
ڈیکارٹ نے اپنے آپ کو مذہبی فلسفی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایسا مذہبی فلسفی جو سائنس اور سائنسی فکر کا بھی حمایتی تھا۔
باروچ/ باروک اسپینوزا (ڈچ جیوش فلسفی)
Baruch Spinoza (Dutch Jewish Philosopher)
(پیدائش ۲۴ نومبر ۱۶۳۲ء وفات ۲۱ فروری ۱۶۷۷ء)
اسپینوزا نے ریشنل ازم کی حدود میں اپنی فکر کو رکھتے ہوئے رینے ڈیکارٹ کی الجھن کو سلجھانے کی کوشش کی۔ اسپینوزا ڈیکارٹ کی مانند اللہ تعالیٰ کو اصل وجود (Infinite Substance) تسلیم کرتا ہے، لیکن فائنائٹ وجود کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ کے وجود کے اصل وجود کےinfinite ہونے پر سوالیہ نشان اٹھے گا۔ اسپینوزا ان کو فائنائٹ سبسٹینس کا نام دینے کے بجائے فائنائٹ اٹری بیوٹس (متعلقات) کا نام دیتا ہے جو دوسرے الفاظ میں دماغ اور جسم ہیں۔ ملاحظہ ہو مندرجہ ذیل جدول:
اسپینوزا کا جدول
اللہ تعالیٰ
اصل الوجود
Infinite Substance
ڈیکارٹ کی مانند اسپینوزا نے لامحدود (infiinte) وجود (substance) کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے تعبیر کیا، لیکن اس نے اس اصل وجود کو فطرت (nature) سے بھی تعبیر کیا ہے۔ Nature equates God. نیچر، فطرت، قدرت مساوی ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے۔ اس طرح کی بغیر کسی اساس پر اسپینوزا کو پینتھیسٹ (Pantheist) فطرت پرست کہا جاتا تھا۔ اسی فطرت پرستی کے سبب اس یہودی فلسفی سے یہودی ناراض ہوئے اور عیسائی بھی۔ یہودی اور عیسائی دینیاتی عالموں (Theologians) سے مراد ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت (معرفتِ الٰہی) سے ُ ّحبِ الٰہی۔ ُ ّحبِ الٰہی سے مظاہرِ قدرت سے محبت، اسپینوزا کے فکری محور رہے۔
ریشنلسٹک فکر کی مدد سے معرفتِ الٰہی کی منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔ سفلی جذبات اور خواہشات سے بچتے ہوئے وہ کیفیت حاصل کی جاسکتی ہے جو سچی خوشی سے مملو ہے۔ اس طرح حزن و یاسیت سے بھی بچاؤ کی صورت بھی نکل سکتی ہے۔
مسلمان صوفیاے کرام کی بتائی ہوئی مندرجہ ذیل راہ پر غور فرمائیے:
عرفانِ نفس<— عرفانِ کائنات (Cosmos)، عرفانِ الٰہی
بلیزے پاسکل (Blaise Pascal)
ولادت: ۱۹؍جون ۱۶۲۳ء۔ کلیمنٹ-فرانڈ (Clemont-Ferrand)، فرانس۔
وفات: ۱۹؍ اگست ۱۶۶۲، پیرس، فرانس۔
فلسفی، ریاضی داں، سائنس داں، موجد اور عیسائیت کا مبلغ اور عالم۔ گیم تھیوری، پروببلٹی تھیوری اس سے منسوب ہیں۔ ایگزسٹن شیالزم کے نظریے سے جڑے ہوئے اوّلین مفکروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
اس کی کتابوں میں ’’دی مائنڈ، اون فائر‘‘ زیادہ مشہور ہیں۔ مندرجہ ذیل قول پاسکل سے منسوب ہے۔
اگر میں خداے تعالیٰ کو مانتا ہوں اور موت کے بعد کی زندگی میں یقین رکھتا ہوں اور آپ نہیں رکھتے، ہم دونوں خسارے میں رہیں گے۔ اگر خدا نہ ہوا تو۔۔۔۔۔
اگر خدا ہوا تو آپ خسارے میں ہوں گے اور میں— مجھے سب کچھ حاصل ہوجائے گا۔
فرینکوئس رابلائس (Francois Rabelais)
ولادت: ۴؍ فروری ۱۴۹۴ء، چینون (Chinon)، فرانس۔
وفات: ۹؍ اپریل ۱۵۵۳ء، پیرس، فرانس۔
فرانسیسی نشاۃِ ثانیہ (French Renaissance) کا ممتاز قلم کار رومن کیتھولک جو راہب اور یونانی ادبیات کا عالم، انسانیت پرست (Humanist) کے طور پر تاریخِ ادبیات میں ایک ممتاز مقام کا حامل تھا۔ وہ ایک اچھا طبیب بھی تھا۔
ایک قلم کار کی حیثیت سے اس کا امتیاز مندرجہ ذیل اصناف سے متعلق ہے:
فینٹیسی (Fantasy) طنز و ہجو (Satire)، گروٹسک (Grotesque) باؤڈی جوکس (Bowdy Jokes)، سرگزشت— گارگانٹوا (Gargantua) پانٹا گروئل (Pantagruel) الکوٹریباس کے نام سے بھی مشہور تھا۔
اس کی تصانیف خاصی ضخیم ہیں۔ اس سے منسوب اہم فرمودات مندرجہ ذیل ہیں:
٭. I go to seek a great perhaps.
٭. We always long for the forbiden things and desire what is denied us.
٭. Gestures, in love, are incomparably more attractive, effective and valuable than words.
٭۔ میں کسی بڑے شاید کی تلاش میں ہوں۔
٭۔ ہم— ہمیشہ ممنوعہ چیزوں کے لیے تڑپتے رہتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں ان کی جو ہمارے لیے ممنوع ہیں۔
٭۔ محبت میں اشارے، کنائے مقابلتاً زیادہ پرکشش، تأثر انگیز اور گراں قدر لگتے ہیں بہ نسبت الفاظ کے۔
شہنشاہ نیرو (Nero the King)
ولادت: ۱۵؍ دسمبر ۳۷؍ عیسوی، ان زیو (Anzio)، اٹلی۔
وفات: ۹؍ جون ۶۸؍ عیسوی، روم، اٹلی۔
پورا نام: امپریٹرینرو کلاڈیس (Imperator Nero Cladius)۔
جولیو کلاڈین خانوادے کا آخری رومن فرماں روا ہے۔ اس کو اس کی ماں نے، بادشاہ کو قتل کروا کے تخت نشین کیا، لیکن اصل حکمران وہ خود رہی، تاآںکہ پانچ سال بعد اس نے ماں کو مروا دیا۔ نیرو نے تیرہ برس آٹھ ماہ حکومت کی (یعنی ۱۳؍ اکتوبر ۵۴ سے ۹؍ جون ۶۸ تک)۔ اس کی پانچ بیگمات کے نام ملتے ہیں۔
ماں کا نام: اگریپنا دی یونگر (Aggripina the Younger)۔
ماں سے اور اپنے اتالیق سے چھٹکارا پانے کے بعد دو تین بڑی جنگیں اس کے حکم سے لڑی گئیں۔ اس کے ایک جنرل نے پارتھیا سلطنت سے ٹکر لی اور صلح کا معاہدہ کیا۔ ایک اور جنرل نے ایسنی ملکہ باؤڈیکا کی برطانیہ میں بغاوت کو فرو کیا۔ تھوڑے عرصے کے لیے بوسپران سلطنت کو بھی اس کی سلطنت میں ضم کیا گیا، اور یہودیوں اور رومیوں کے درمیان اوّلین جنگوں کا آغاز ہوا۔ نیرو نے تجارت اور ثقافت کی ترقی پر بہت توجہ دی۔ اس نے ڈراموں میں خود بھی حصہ لیا۔ ایکٹر، شاعر، موسیقار اور رتھ بان کے روپ میں۔ اس سے ایک شہنشاہ کے طور پر اس کے وقار میں کمی ہوئی۔ اس کے دورِ حکومت میں ریاستی اخراجات میں اضافہ ہوا اور اس کے نتیجے میں ٹیکس میں اضافہ کرنا پڑا۔ نیرو پر قاتلانہ حملے ہوئے جن میں اس کے دربارِ خاص کے مصاحب ملوث تھے۔ بغاوتیں بھی ہوئیں۔ آخرکار اس کو روم سے فرار ہونا پڑا اور گالبا کو شہنشاہ بنالیا گیا۔ بالآخر نیرو کو خودکشی کرنی پڑی۔ نیرو کے بارے میں تاریخ میں متنازع تبصرے ملتے ہیں۔ وہ عوام میں مقبول تھا۔ دو تین مرتبہ افواہیں اُڑیں کہ اس نے خودکشی نہیں کی، بلکہ روم واپسی کی تیاری میں مصروف ہے۔
اس پر سب سے بڑا الزام یہ لگا کہ اس نے اپنے نئے محلاتی کمپلیکس کے اکناف آبادی کا رخ موڑنے کے لیے ایک بڑے گنجان آباد علاقے میں آگ لگا دی۔ آج بھی یہ فقرہ پڑھنے کے لیے مل جاتا ہے کہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو اپنے محل میں بانسری (یا کوئی اور ساز) بجا رہا تھا۔‘‘
نپولین بونا پارٹ (Napoleon Bonaparte)
(۱۵؍ اگست ۱۷۶۹ء- ۵؍ مئی ۱۸۲۱ء)
فرانسیسی لیڈر اور فوجی سربراہ جس کو انقلابِ فرانس اور انقلابِ فرانس کے دور کی جنگوں میں شہرت اور اہمیت ملی۔ اس کا دس سالہ عروج کا زمانہ اس طرح گزرا کہ وہ پورے یورپ پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کا شمار عالمی تاریخ کے چند عظیم کمانڈروں میں ہوتا ہے۔ وہ فرانس کی فوج میں آرٹلری افسر (artillery officer) تھا۔ جب انقلابِ فرانس کا آغاز ۱۷۸۹ء میں ہوا۔ اس نے تیزی سے ترقی کی اور صرف چوبیس برس کی عمر میں جنرل کے عہدے پر فائز ہوگیا۔ چھبیس سال کی عمر میں اس نے فوجی مہمات اور فتوحات کا شان دار سلسلہ شروع کیا۔ آسٹریا اور اٹلی کے بادشاہوں کو زیر کیا اور چھوٹی چھوٹی جمہوریتیں تشکیل دیں اور فرانس کے جنگی ہیرو کے طور پر عالمی شہرت حاصل کی۔ اس نے مصر کا فوجی دورہ کیا۔ ۱۷۹۹ء کے نومبر میں اس نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ ۱۸۰۴ء میں وہ فرانس کا حکمران بن گیا۔ اس نے روسی شہنشاہیت اور آسٹری شہنشاہیت کو آسٹرلیٹز کی جنگ (Battle of Austerlitz) میں شکست سے ہم کنار کیا اور ہولی رومن امپائر کا ۱۸۰۶ء میں خاتمہ کردیا۔ پروسیا (Prussia) کو جنا (Jena) اور آئرسٹڈ (Auersted) کے محاذوں میں شکست دی۔ اپنی زبردست فوج کے ساتھ وہ مشرقی یورپ میں داخل ہوا اور فرائڈ لینڈ (Friedland) کے محاذ پر جون ۱۸۰۷ء میں روسی افواج کو شکست سے دوچار کیا۔ جولائی ۱۸۰۷ء میں Tisit کا صلح نامہ ہوا۔ ۱۸۰۹ء میں آسٹرین اور برطانوی، فوجوں نے فرانس کے غلبے کو توڑنے کی کوشش کی، لیکن نپولین نے ویگرام (Wagram) کے محاذ پر ان کو شکست دی۔
ویگرام کی جنگ (جولائی) میں نپولین نے یورپ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ ۱۸۰۸ء میں نپولین نے اپنے بھائی جوزف بونا پارٹ کو اسپین کا بادشاہ بنا دیا۔ برطانیہ کے اکسانے پر اسپین اور پرتگال میں بغاوت ہوئی۔ جنگوں اور گوریلا لڑائیوں کا سلسلہ چھہ برس تک چلا اور اتحادی افواج نپولین پر غالب آگئیں۔ حالات بدلتے گئے اور ۱۸۱۲ء کے موسمِ گرما میں نپولین نے روس پر ایک بڑا حملہ کردیا۔ روس کے کئی شہروں میں جنگ کی تباہ کاری مچی، لیکن نپولین کو فتح نصیب نہ ہوسکی۔ ۱۸۱۳ء میں پروسیا اور آسٹریا کی فوجوں نے روس سے اتحاد قائم کیا۔ (چھٹا اتحاد) اس اتحاد کی زبردست فوج نے اکتوبر ۱۸۱۳ء میں زبردست کامیابی حاصل کی، لیکن نپولین نے لڑبھڑ کر فرانس تک پسپائی حاصل کرلی۔ اتحادی افواج نے فرانس پر حملہ کیا اور ۱۸۱۴ء کے موسمِ بہار میں پیرس پر قبضہ کرلیا۔ اپریل میں نپولین کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بوربون خاندان (Bourbon Dynasty) اقتدار میں آیا۔ نپولین کو جزیرہ البا (Island of the Elba) میں جلاوطن کردیا گیا۔ نپولین فروری ۱۸۱۵ء میں ایلبا سے فرار ہوگیا اور ایک بار پھر فرانس میں اقتدار پر قابض ہوگیا۔ اتحادیوں نے ساتواں اتحاد قائم کرلیا اور وائر لوئے محاذ پر ماہ جون میں نپولین کو شکست دی۔ برطانیہ نے اس کو جزیرۂ سینٹ ہیلینا (Island of Saint Helena) میں بھیج دیا۔ نپولین وہاں چھہ سال رہا اور اکیاون برس کی عمر میں وفات پائی (۵؍ مئی ۱۸۲۱ء)۔
نپولین کو محض ایک فاتح، مہم جو اور جنگجو حکمران کے طور پر دیکھنا اور جانچنا مناسب نہیں۔ جو علاقہ اس کے قبضے میں آیا اور کچھ عرصے رہا، اس علاقے کا چہرہ بدل گیا۔ اس علاقے میں لبرل انداز کی اصلاحات کا نفاذ ہوتا۔ وہ ملک جن کو لو ممالک (Low Countries) کہا جاتا تھا، سوئزر لینڈ، جدید اٹلی کا بڑا حصہ اور جرمنی نپولین کے تحت نئی راہوں پر گامزن ہوئے۔ اس نے آئینی اور قانونی اصلاحات جاری کی جن کو نپولین کوڈ کہا گیا۔ ان اصلاحات کو دنیا کے ستر ممالک میں قبول کیا گیا۔ قانون کے آگے سب برابر ہیں، حقوقِ ملکیت، مذہبی رواداری، جدید سیکولر تعلیم اور دیگر جدید نظریات مغربی دنیا کو نپولین کا تحفہ ہیں۔ اس ضمن میں ممتاز برطانوی مؤرّخ انڈریو روبرٹ (Andrew Robert) کی تحاریر پڑھنے کے لائق ہیں۔
یہاں اس کا ذکر لازمی ہوا جارہا ہے کہ میسور کے حکمران سلطان ٹیپو نے نپولین سے رابطہ پیدا کیا تھا اور دعوت دی تھی کہ وہ اپنی مشہورِ عالم فوج کے ساتھ ہندوستان پر فوج کشی کرے اور برطانوی حکومت سے آزادی دلائے۔