عثمان کو فوت ہوئے دو ماہ گزر چکے تھے اور ان دو ماہ میں آزر اور اسکی ماں کو ایک رات بھی چین سے نیند نا آئ اس کی ماں تو ہر وقت اپنے بیٹے کی یاد میں روتی تھی اور اللہ سے رو رو کر اسکی مغفرت کی دعا کرتی تھی۔۔۔
عثمان کے جانے کہ بعد آزر کی تو راتوں کی نیند ہی اڑگئ تھی ساری سچائ جاننے کہ بعد اسکو آئمہ کا وہ روتا ہوا معصوم سا چہرا یاد آتا تھا جس سے وہ رو رو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کرتی تھی۔۔۔ وہ کس طرح سے تڑپ کر آزر کو سمجھاتی تھی کس طرح سے وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر روتی اور تڑپتی تھی۔۔۔
یہ بات سوچ کر آزر کا دل پھٹنے کو اجاتا تھا۔۔۔
رو رو کر اپنا برا حال کردیا تھا اس نے خود کہ منہ پر تھپڑ مار مار کر اپنا منہ سجا دیا تھا۔۔۔
کبھی وہ اپنے بال نوچتا تو کبھی خود کو تھپڑ مارتا اور رو رو کر آئمہ کو پکارتا تھا۔۔۔۔۔ مگر اب تو آئمہ کبھی بھی نہیں آسکتی تھی کبھی نہیں
ایک رات آزر کی ماں اسکے کمرے میں آئ اس نے دیکھا کہ آزر زمین پر لیٹا ہوا ہے۔۔۔
جب اسکی ماں نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تو اسکی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔
آزر اتنا روتا تھا کہ اسکی آنکھیں تک سوجن کا شکار ہوگئے تھی۔۔۔
آزر نا اپنے کھانے کا خیال رکھتا تھا نا ہی پینے کا۔۔۔
جس کی وجہ سے وہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہی وہ آزر ہے۔۔۔
اسکی ماں حیرت بھری نگاہ سے آزر کو دیکھی جارہی تھی۔۔۔
“آئمہ! آئمہ مجھے معاف کردو آئمہ مجھ سے بہت بڑی غغغ غلطی ہوگئ آئمہ کہاں ہو تم آئمہ واپس آجاو خدا کے لئے واپس آجاو۔۔۔۔
آزر کے منہ سے یہ الفاظ مسلسل نکل رہے تھے اور اس قدر درد تھا اسکی آواز میں کہ سن کر اسکی ماں بھی رو پڑی۔۔۔
اسکی ماں سے اور کچھ دیکھا نا گیا وہ بھاگتی ہوئی آگے بڑھی اور خود بھی زمین پر اپنے بیٹے کیساتھ بیٹھ گئ اور آزر کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے رو کر کہا: ااا آزر بیٹا میری جان یہ سب کیا ہے بیٹا یہ تم نے اپنا کیا حال کردیا ہے بیٹا؟؟؟؟
آزر نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: امی دعا کرے کہ میں مرجاؤ۔۔۔
یہ سن کر اسکی ماں نے چیختے ہوئے کہا: اللہ نے کرے میرے بچے یہ کیسی باتیں کررہے ہو ایسا نہیں کہتے میرے بچے میرے پاس تمہارے علاوہ اس دنیا میں اور کوئ ہے ہی کون؟؟؟؟
یہ کہتے کہتے اسکی ماں پھر سے رودی۔۔۔
آزر نے اپنی روتی ہوئ ماں کو اٹھ کر چپ کرایا اور کہا: امی آپ سمجھ کیوں نہیں رہی ہے میں بہت تکلیف میں ہو امی میرا دل پھٹ رہا ہے میں خود کی نظروں میں بہت بری طرح سے گرچکا ہو آپ بتائے میں کیا کرو بولے میں کیا کرو بولے۔۔۔
آزر نے پھر سے چیختے ہوئے کہا۔
اسکی ماں نے کہا: ایک ہی راستہ ہے بیٹا!
وہ کیا؟؟؟؟؟؟؟ آزر نے فوراً کہا۔
اسکی ماں نے کہا: تمہیں آئمہ سے مل کر اس سے معافی مانگنی ہونگی اور اپنے بھائ کے لئے بھی معافی مانگنی ہوگی تاکہ تمہارا بھائ آگے چین سے رہ سکے۔۔۔۔
اسکی ماں نے آزر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔
آزر نے کہا: مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں آئمہ کو دیکھ بھی سکو۔۔۔۔
آزر نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
آزر کی ماں نے اسکا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: تمہیں یہ کرنا ہوگا تمہیں تمہاری ماں کی قسم لگے آزر آزر تمہارا بھائ بہت تکلیف میں ہے اسے اس تکلیف سے چھٹکارا تب ہی ملے گا جب آئمہ اسے معاف کرے گی تمہیں اپنے بھائ کو اس تکلیف سے نجات دینی ہوگی اسکی یہ آخری خواہش پوری کردو۔۔۔۔ ددد دیکھوں دیکھوں میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہو آزر وہ بہت تکلیف میں ہے بچا لو اسے۔۔۔۔
یہ کہہ کر اسکی ماں پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔۔
آزر نے اپنی ماں کے جڑے ہوئے ہاتھ پکڑے اور کہا: ننن نہیں امی خدا کے لئے ایسا مت کرے مممم میں میں ککککک کل آئمہ سے ملنے جاؤ گا اسکے آگے ہاتھ جوڑ کر اسکے پپپپ پیر پکڑ کر معافی مانگوں گا کیا کیا وہ مجھے معاف کردے گی امی؟؟؟؟؟
اسکی ماں نے فوراً کہا: ہا ہاں بیٹا ضرور کرے گی معاف۔۔۔ ضرور کرے گی۔۔۔۔
یہ کہہ کر اسکی ماں نے اسے سینے سے لگا لیا اور اسے چپ کرایا آزر کسی بچے کی طرح اپنی ماں سے لپٹ گیا۔۔۔۔
جب صبح ہوئی تو آزر اپنے گھر سے باہر نکلا آج کافی دنوں بعد اس نے نیلے آسمان کو دیکھا تھا اس کی آنکھوں میں اس قدر شرمندگی تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھی شیشے میں دیکھ نہیں پا رہا تھا ناجانے وہ کیسے آئمہ سے ملے گا۔۔۔ یہ سوچ سوچ کر اسکی جان نکل رہی تھی۔۔۔۔ اسکا دل اسے یہ کرنے سے سختی سے روک رہا تھا جیسے وہ اسے وارننگ دے رہا ہو کہ اگر وہ اس کے سامنے بھی گیا تو اس کا دل مر جائے گا۔۔۔۔
لیکن اس کہ زہن میں اس کہ مرتے ہوئے بھائ کی آخری خواہش گونج رہی تھی اور اسکی ماں کہ وہ جڑے ہوئے ہاتھ اسے آگے بڑھنے پر مجبور کررہے تھے۔۔۔۔
زندگی اسے آج یہ کس موڑ پر لے آئ تھی وہ یہ نہیں جانتا تھا اسے اب اپنی زندگی پر کوئ یقین نہیں رہا تھا۔۔۔۔
نا چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔۔۔۔
راستے میں اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا اس کا سارا جسم ٹھنڈا پڑ گیا تھا پتا نہیں وہ گاڑی کیسے چلا رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ آئمہ کہ ماں باپ کہ گھر کہ سامنے کھڑا ہوگیا اور گھر کو اپنی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اسکا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔۔۔۔
اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اور گھر کہ سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔
جب وہ گھر کہ دروازے تک پہنچا تو اس کہ پاؤں وہی جم گئے دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے اس کہ دل نے اسے ایک بار پھر سے روکا۔۔۔۔
اب اس کی ہمت جواب دے رہی تھی اس کے قدم وہی رک گئے تھے آگے وہ کیسے جائے کس منہ سے جائے کس شکل سے جائے کس نیت سے جائے وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئ فیصلہ کرتا سامنے دروازے سے ایک شخص باہر نکلا اور اس نے آزر کو دیکھا۔۔۔۔۔
“تم! تم یہاں کیا کرہے ہو حرام زادے تجھے میں زندہ نہیں چھوڑو گا”.
آواز میں اس قدر غصہ تھا کہ آزر کی روح تک کانپ اٹھی جب اس نے نگاہ اٹھاکر سامنے کی طرف دیکھا تو سامنے آئمہ کا والد کھڑا تھا جو کہ دفتر کے لئے نکل رہا تھا۔۔۔۔
آزر کو دیکھتے ہی وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا وہ دوڑتا ہوا آزر کے پاس گیا اور اس کا گریبان پکڑ لیا اور نہایت غصے سے چیخ کر کہا: تیری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟؟؟
آزر میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ نگاہ اٹھا کر دیکھ سکے۔۔۔
اس سے پہلے کہ آئمہ کا والد غصے میں آکر کچھ کرتا آزر نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دئے اور تڑپتے ہوئے کہا: ممممم مجھ مجھ سے بہت بہت بڑی غلطی ہوئی تھی اس کی معافی مانگنے آیا ہو مممم میں یہاں خدا کے لئے مجھے آآآآ آئمہ آئمہ سے مممم ملوا دے خدا کے لئے۔۔۔۔
“اپنی گھٹیا زبان سے میری پاکیزہ بیٹی کا نام مت لو آئ سمجھ تم جانتے بھی ہو کہ تمہارے یہ الفاظ مجھے کس قدر گھٹیا لگ رہے ہے میرا بس چلے تو میں تمہیں ابھی اور اسی وقت ختم کردو لیکن میں تمہیں کچھ نہیں کہو گا میرا اللہ ہی تمہارے لئے کافی ہے” آئمہ کا والد بہت غصے میں تھا۔۔۔۔
یہ الفاظ آزر کہ دل کو زخمی کرنے کے لئے کافی تھے۔۔۔
آزر نے تڑپ کر کہا: انکل انکل مجھے میری غلطی کککک کا احساس ہوگیا ہے میں آپکے پاؤں پکڑتا ہو انکل مجھے بس ایک بار ایک بار آئمہ سے ملوا دے پلیز خدا کے لئے ملوا دے نہیں تو میرا اندر باہر آجائے گا میں مر جاؤ گا انکل پلیز انکل۔۔۔۔۔
آزر کی آواز اس قدر تکلیف سے بھری ہوئ تھی جسے اگر کوئ بھی سنتا تو اسے آزر پر ترس اجاتا۔۔۔۔
شور کی آواز سن کر آئمہ کی والدہ بھی گھر سے باہر نکل آئ اور سامنے والا منظر دیکھ کر اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی آزر کس طرح سے اس کے شوہر کہ قدموں پر ڈھیر پڑا تھا اور جس قدر وہ تڑپ رہا تھا آئمہ کی ماں کو اس پر ترس آگیا وہ آگے بڑھی اور جاکر آزر کو کھڑا ہونے کا کہا۔۔۔۔
آزر نے آئمہ کی ماں کی طرف دیکھا اور کہا: آآآنٹی خدا کے لئے ایک بار مجھے آئمہ سے ملوا دے۔۔۔۔۔ خدا کے لئے۔۔۔۔
آزر کی آنکھوں کا رنگ ہی بدل گیا تھا۔۔۔
آئمہ کی ماں نے کہا: مگر کیوں کیوں ملنا چاہتے ہو تم آئمہ سے بولو اب کیا چاہتے ہو تم اس سے کیا ابھی کوئ اور دکھ بھی رہ گیا ہے جو تم آج اسے دینے آئے ہو؟؟؟؟
اسکی ماں نے آزر سے ایک ہی سانس میں کئ سوال پوچھے۔۔۔
آزر نے تڑپتے ہوئے کہا: آنٹی ایسا مت کہے میں آئمہ سے معافی مانگنے آیا ہو اس سے معافی مانگنے کے لئے میں اپنی جان کی بازی بھی لگا دو گا میں اس سے عثمان کہ حصے کی بھی ممممم معافی مانگنا چاہتا ہو ۔۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کہ والد نے چیخ کر کہا,: نام مت لو اس شیطان کا یہاں پر اس کا انجام بہت برا ہوگا تم دیکھنا۔۔۔۔
آزر نے سر جھکاتے ہوئے کہا: جی انجام دیکھ لیا ہے اس کا!!!
آزر کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
یہ سن کر آئمہ کی ماں نے فوراً کہا: ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟؟؟؟
آزر نے روتے ہوئے کہا: عثمان اب اس اس دددد دنیا میں نہیں رہا۔۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کہ والدین کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔
آزر نے مزید کہا: عثمان نے اپنے آخری لمحات میں سب کچھ سچ سچ بتا دیا تھا مجھے اور وہ مرتے وقت بھی یہی چاہتا تھا کہ آئمہ اسے معاف کردے تاکہ اسے آگے آسانی ہو۔۔۔۔ میں نے ان سے وعدہ کیا ہے خدا کے لئے آئمہ کو بلوائے پلیز۔۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کے والد کا دل کچھ ہلکا ہوا اللہ کا انصاف دیکھ کر اس نے کہا: یہ اور کچھ نہیں ہے یہ اللہ کا انصاف ہے میرے مالک کا انصاف ہے یہ۔۔۔۔
یہ سن کر آزر بہت شرمندہ ہوا۔۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: آئمہ اب یہاں نہیں ہے؟؟؟؟
یہ سن کر آزر کافی حیران ہوا حیرت بھری نگاہ سے اس نے آئمہ کی والدہ کی طرف دیکھا اور کہا: تتتتتت تو تو پھر کہاں ہے آئمہ؟؟؟؟؟
آئمہ کی ماں نے کہا: اسکی شادی ہوچکی ہے اور اس وقت اسکا ایک بچہ بھی ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش رہ رہی ہے۔۔۔۔
یہ الفاظ آزر کہ دل پر کسی تیر کی طرح بجے اس سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا۔۔۔۔
اسے اتنی شرمندگی اور اتنا غصہ اپنے آپ پر آرہا تھا کہ اس سے اور برداشت نہیں ہورہا تھا اس نے ایک آخری بات آئمہ کے والدین سے پوچھیں: آآآ آئمہ کا گگگگ گھر کہاں ہے آپ لوگ پلیز مجھے اس کے گھر کا بتا دے میں وہی جججج جا کر اس سے مممم مل لو گا۔۔۔۔
آزر کی آواز رولا دینے والی تھی۔۔۔۔
اس کہ آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔۔
آئمہ کی والدہ نے اسے آئمہ کہ گھر کا پتا بتایا۔۔۔۔
پتا جان کر آزر وہاں سے سیدھا آئمہ کی طرف نکل گیا۔۔۔۔۔
دل خون کے آنسو رو رہا تھا آزر گاڑی میں بیٹھا بہت رو رہا تھا اس سے اور برداشت نہیں ہورہا تھا ناجانے کیسے وہ گاڑی ڈرائیو کررہا تھا اس کی آنکھوں کہ سامنے سے آئمہ کی تصویر ہٹ ہی نہیں رہی تھی اس کی آنکھوں کہ سامنے آئمہ کا وہ معصوم روتا ہوا چہرا بار بار آرہا تھا آئمہ کیسے رو رو کر اپنی بے گناہی ثابت کررہی تھی اس کہ وہ جڑے ہوئے ہاتھ آزر کا دل چیرنے کے لئے کافی تھے۔اس کا وجود تھر تھر کانپ رہا تھا پتا نہیں وہ آئمہ کہ سامنے کیسے جائے گا ناجانے آئمہ اسے معاف کردے گی یہ بات اسے بہت ڈرا رہی تھی پھر اچانک اسے اپنے مرتے ہوئے بھائ کے آخری الفاظ یاد آگئے۔۔۔ اس کے اندر پھر سے تھوڑا بہت حوصلہ پیدا ہوگیا کیونکہ عثمان کی یہ آخری خواہش آزر کے سوا اور کوئی پورا نہیں کرسکتا تھا۔
جو ایڈریس آئمہ کہ ماں باپ نے آئمہ کا آزر کو دیا تھا آزر ٹھیک وہی پہنچ گیا جب آزر نے باہر سے گھر کی جانب دیکھا تو اسے یہ احساس ہونے لگا کہ خدا کا طرح خوشی کو غم میں بدلتا ہے وہ انسان کو کبھی غم میں نہیں رکھتا گھر اتنا خوبصورت اور اتنا پیارا تھا کہ آزر کو یہ یقین ہوگیا کہ آئمہ یہاں کتنی خوش رہتی ہے یہ سب اللہ کا ہی کرم ہے۔
ابھی وہ گاڑی سے باہر ہی نکلا تھا کہ اس کا وجود ایک بار پھر ساکت پڑ گیا وہ چاہ کر بھی آگے بڑھ نہیں پارہا تھا۔
آنکھوں سے آنسو پھر سے نکل آئے تھے۔
اس کا دل اس کہ قابو میں ہی نہیں تھا۔
ڈر کہ مارے وہ پھر سے گاڑی میں جا بیٹھا اور خود کہ منہ پر تھپڑ مارا اور پھر سے رو دیا۔
یہ سن اسے کیا ہوگیا تھا کیوں اس میں ہمت باقی نہیں رہی تھی۔
کیوں اس کا دل اسے آگے بڑھنے نہیں دے رہا تھا آخر کیوں؟؟؟؟؟
ابھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اسکی نظر گھر کے گیٹ پر پڑی جہاں ایک 4 سالہ بچہ اپنی گیند کو پکڑتے پکڑتے باہر آگیا تھا اتنا معصوم اور اتنا پیارا بچہ آزر نے پہلی بار دیکھا تھا۔
کہ اچانک اس کہ پیچھے اسکی ماں بھی بھاگتی ہوئی باہر آگئ۔
“ریحان! ریحان بیٹا باہر مت جاؤ سڑک پر رکو میرے بیٹے!
مگر ریحان تو کھیل میں مست تھا اور اسکی گیند آزر کی گاڑی کہ پاس آکر رک گئ۔
ریحان نے جاکر اپنی گیند اٹھائ اور اس کیساتھ کھیلنے لگا آزر نے کھڑکی سے اس بچے کو قریب سے دیکھا اس بچے کی شکل ہوبہو آئمہ سے مل رہی تھی۔
“ریحان ادھر آؤ بیٹا” اسکی ماں بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئ جب آزر نے اسکی ماں کی طرف دیکھا تو اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا آنکھوں پر یقین کرنا مشکل ہورہا تھا جسم بلکل ٹھنڈا پڑ گیا اور حرکت کرنے کہ قابل ہی نہیں رہا۔
کیونکہ سامنے آئمہ تھی۔
وہ بھاگتی ہوئی ریحان کہ پاس گئ اور ریحان کو پکڑ کر کہا: بیٹا دیکھو کتنا تھکا دیا آپ نے اپنی ممی کو چلو اب گھر چلے چلو آج میں نے آپکا فیورٹ چاکلیٹ والا پراٹھا بنایا ہے چلو۔۔۔
یہ سن کر بچہ خوشی سے جھوم اٹھا اور اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر واپس گھر کی جانب بڑھنے لگے۔
آزر پتا نہیں کیسے یہ سب اپنی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کیا وہ کوئ خواب تو نہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔
آئمہ کا دیکھ کر وہ خود کو نا روک سکا اب اسکے برداشت کی حد ختم ہوچکی تھی۔
وہ گاڑی سے باہر نکلا اور آئمہ کو تڑپتی ہوئ آواز سے پکارا۔
آواز سن کر آئمہ چونکی جب اس نے پلٹ کر دیکھا تو اس کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کہ پیروں کہ نیچے سے زمین کھسک گئ ہو۔۔۔
وہ جلدی سے اپنے بچے کو پکڑے تیزی سے واپس گھر کی طرف بھاگی۔
“ریحان جلدی چلو گھر جلدی!!! وہ رک رک کر بول رہی تھی۔
آزر پیچھے سے چیخ چیخ کر اسے پکار رہا تھا۔
“آئمہ! آئمہ رکو رک جاؤ میری بات سنو خدا کے لئے رک جاو۔
لیکن تب تک آئمہ اپنے گھر کہ اندر جاچکی تھی۔
آئمہ اس قدر ڈر گئ تھی کہ اسکا سانس تک پھول رہا تھا۔
آزر کا رو رو کر برا حال ہوچکا تھا وہ سڑک پر بیٹھ کر رو رو کر آئمہ کو پکار رہا تھا۔
اچانک کیف کی نظر آئمہ پر پڑی جو کہ اندر سے ہی آرہا تھا۔
اس نے آئمہ کو یوں دیکھا تو اس نے جلدی سے جاکر آئمہ سے فوراً پوچھا: آئمہ یہ کیا ہوا تمہیں اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو۔؟؟؟
آئمہ نے چونک کر کیف کی طرف دیکھا اور رک رک کر کہا: وہ وہ ببب باہر…!
کیف نے کہا: کیا ہوا کیا ہے باہر!
اچانک کیف کہ کانوں میں آزر کی آواز آئ جو کہ رو رو کر باہر سے آئمہ کو پکار رہا تھا۔۔۔
کیف نے حیرانگی سے بھری نگاہ سے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: یہ باہر تمہیں کون رو رو کر بلا رہا ہے بولو۔
آئمہ کہ پسینے چھوٹ رہے تھے اس نے کہا: ببب باہر وہ پھر سے آگیا ہے…
کیف نے کہا: کون کون آگیا ہے؟؟؟؟
آئمہ نے کہا: آآآ آزر!
کیف نے کہا: کیا! مگر کیوں۔
آئمہ نے کہا؛ میں نہیں جانتی۔
آزر باہر سڑک پر بیٹھا آئمہ کو بار بار پکار رہا تھا۔۔۔۔
آواز میں اتنا دکھ تھا جسے سن کر کیف نے آئمہ سے کہا: تمہیں اسکی بات سن لینی چاہئے۔۔۔
آئمہ نے چونک کر کیف کی طرف دیکھا اور کہا: یہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہے۔
کیف نے کہا: مجھے لگتا ہے اس نے تم سے کوئ ضروری بات کرنی ہوگی۔
آئمہ نے کہا: مممم میں۔ اسکی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔
کیف نے کہا: آئمہ وہ باہر بیٹھا تمہارا انتظار کررہا ہے آخر پتا تو چلے وہ کہنا کیا چاہتا ہے اب کیوں آیا ہے وہ اور تمہیں اس طرح سے کیوں بلا رہا ہے مجھے لگتا ہے تمہیں اسکی بات ایک بار سن لینی چاہئے۔
آئمہ نے کہا: مگر کیف!.
کیف نے کہا: اگر مگر کچھ نہیں آئمہ چلو۔
آئمہ نے کہا: تتتت تو پھر آپ بھی میرے ساتھ چلیں میں اکیلی نہیں جاؤ گی۔۔۔
کیف نے کہا: اچھا چلو۔
کیف اور آئمہ دونوں باہر گئے۔
آزر نے دیکھا کہ آئمہ اور کیف اسکی جانب بڑھ رہے ہے۔۔۔
آزر کی آنکھوں سے بے شمار آنسو گرنا شروع ہوگئے۔
جب کیف اور آئمہ اس کہ قریب جاکر کھڑے ہوئے تو آزر نے کھڑے ہوکر آئمہ کو دیکھا۔۔۔۔
آئمہ نے اسکی آنکھوں میں دیکھا اسکی آنکھیں اس قدر سوجن کا شکار ہوگئ تھی کہ دیکھ کر آئمہ بھی حیران رہ گئ۔
آزر نے بغیر کوئ وقت ضائع کئے آئمہ کے آگے ہاتھ جوڑ دئے اور تڑپتے ہوئے رو کر کہا: آآآ آئمہ ممم مجھے مجھے معاف کردو۔۔۔
آئمہ ایک دم چپ آزر کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔
آزر نے مزید کہا: میں نے تتت تمہارے ساتھ بےفائ کی تم پر الزام لگائے میں مممم معافی کہ کابل تو ننن نہیں ہو مگر پلیز مجھے معاف کردو اگر تم مجھے معاف نہیں کرو گی تم میں میں مرجاؤ گا۔۔۔۔
آئمہ نے ایک پل بھی اپنی پلکیں نا جھپکی اس نے آزر کو دیکھتے ہوئے کہا: ہا معافی! کس رشتے سے؟؟؟؟
یہ سن کر آزر کو دھچکا لگا۔
آئمہ نے مزید کہا: کس رشتے سے معافی مانگنے آئے ہو تم اب کونسا رشتہ ہے تمہارے اور میرے درمیان جو تم معافی مانگنے آئے ہو۔۔۔۔ تمہارے لئے بہتر یہی ہوگا کہ تم تم یہاں سے چلے جاؤ میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔
آزر کا دل پھٹنے کو آرہا تھا۔۔
“نہیں نہیں آئمہ ایسا مت کرنا نہیں تو میں مرجاؤ گا میں تمہارا گنہگار ہو میں نے بہت دکھ دئے ہے تمہیں ایسا مت کرو میرا دل پھٹ جائے گا۔
آزر نے تڑپتے ہوئے کہا۔
“یہ دل اس وقت کیوں نہیں پھٹا جب جب تم نے مجھ پر اتنے گھٹیا الزام لگائے تھے مجھے گزرا ہوا وقت یاد مت دلاؤ خدا کے لئے یہاں سے چلے جاؤ۔
آزر آئمہ کہ پیروں پر گر گیا اور کہا: میں نہیں جاؤ گا جب تک تم مجھے معاف نہیں کرو گی میں نہیں جاؤ گا۔
یہ دیکھ کر آئمہ جلدی سے پیچھے ہٹ گئ اور کہا:یہ کیا کررہے ہو تم تم بچے نہیں ہو!!!!
آزر نے کہا: میں بہت برا ہو میں نے بہت برا کیا تمہارے ساتھ مجھے میری غلطی کا احساس ہوگیا ہے مجھے معاف کردو۔۔۔
کیف نے آزر کو کھڑا کیا اور کہا: یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
آزر نے چیخ کر کہا: تو اور کیا کرو میں۔۔۔
آزر نے آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: تم ایسا کرو تم میرا گلہ دبا دو مار دو مجھے اب یہی راستہ رہ گیا ہے کیونکہ میں اس طرح سے زندگی نہیں گزار سکتا عثمان کو بھی۔۔۔۔
ابھی آزر بول ہی رہا تھا کہ آئمہ نے چیخ کر کہا: اس کا نام مت لینا نہیں تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہوگا۔۔۔
آزر نے منہ نیچے کرتے ہوئے کہا: اسے اس کے کئے کی سزا مل چکی ہے۔۔۔
یہ سن کر آئمہ کافی حیران ہوئ۔
کیف نے آزر سے پوچھا: کیا مطلب؟
آزر نے روتے ہوئے کہا؛ بھائ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔
یہ سن کر آئمہ کافی حیران ہوئ۔
کیف نے کہا: مگر کیسے!
آزر نے کیف کی طرف دیکھا اور کہا: اللہ نے اسے اس کے کئے کی سزا دے دی ہیں اور اس نے مرتے وقت سب کچھ سچ بتا دیا تھا موت کہ قریب جاکر اس نے مجھ سے یہ کہا کہ آئمہ سے اس کہ کئے کی معافی مانگنا یہ کہہ کر وہ اس دنیا سے چلے گئے۔
آئمہ بڑی حیرانی سے اللہ کی کرنی سن رہی تھی اب جب اللہ نے اس کہ حصے کا سارا بدلہ لے لیا ہے تو پھر اب اس کہ چیخنے چلانے کا کیا فایدہ۔
اس نے آزر سے کہا: میں نے تمہیں اور عثمان کو معاف کیا اللہ تمہارے بھائ کہ درجات بلند کرے اور اسے بخش دے میں نے سچے دل سے تم دونوں کو معاف کیا۔
یہ سن کر آزر کہ چہرے پر کافی دنوں بعد مسکراہٹ سی بکھری اس نے حیرانگی سے ایک بارپھر پوچھا: واقعی واقعی کیا یہ سچ ہے۔۔۔
آئمہ نے کہا: ہاں یہ سچ ہے۔۔۔۔
آزر خوشی سے جھوم اٹھا اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔
آئمہ نے مزید کہا: میرے دل میں اب کسی کے لئے کوئ بھی گلہ شکوہ باقی نہیں رہا میں اپنے اللہ کے کئے گئے فیصلوں پر خوش ہو۔۔۔
آزر خوشی سے پاگل ہورہا تھا۔۔۔۔
یہ سن کر آزر نے ایک آخری دفع آئمہ کی طرف دیکھا اور کہا: بہت شکریہ امی ٹھیک کہتی تھی تم معاف کردو گی کیونکہ تم کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتی بہت شکریہ بہت شکریہ۔
آزر کی آنکھوں سے خوشی کہ آنسوں نکل رہے تھے۔۔۔
پھر آزر نے آئمہ کی طرف ایک آخری دفعہ دیکھا اور وہاں سے چلے گیا آئمہ بھی آزر کو آخر تک دیکھتی رہی کہ اچانک کیف نے آئمہ کہ پاس اپنا ہاتھ لے جاکر چٹکی بجائ جس سے آئمہ بلکل چونک گئ۔۔۔
کیف نے مسکراتے ہوئے کہا: ویسے مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ تم اتنی پیاری باتیں بھی کرتی ہو جائے تیری باتیں۔۔۔
کیف کو دیکھ کر آئمہ مسکرا دی اور کہا: تمیز سے رہو میں تو پیاری باتیں ہی کرتی ہو۔۔۔
یہ سن کر کیف نے آئمہ کو اپنے سینے سے لگایا وہ آئمہ سے بہت خوش تھا آئمہ بھی کافی راحت محسوس کررہی تھی پھر وہ دونوں وہاں سے سیدھا اپنے گھر کی طرف خوشی خوشی چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو عائشہ ہمیں قبرستان بھی جانا ہے۔۔۔
آزر نے جلدی جلدی میں تیار ہوتے ہوئے کہا۔
عائشہ جلدی جلدی تیار ہورہی تھی اور پھر اس نے کہا: جی جی بس میں امی کو دیکھ آؤ کہ وہ تیار ہوگئی کہ نہیں۔۔۔
یہ کہہ کر وہ نیچے چلی گئ۔۔۔
کچھ دیر بعد آزر کی ڈیڈھ سالہ بیٹی حریم بھی تیار ہوگئی اور اپنے باپ سے لپٹ گئ آزر کو اپنی بیٹی جان سے بھی زیادہ پیاری تھی آزر نے اس کو اپنے کندھوں پر بٹھایا اور اسے نیچے گاڑی تک لے کر گیا جس سے حریم بہت خوش ہوئ اور ہنستی رہی پھر آزر اس کی بیوی عائشہ اور اس کی ماں قبرستان گئے اور جاکر انہوں نے اپنے پیاروں کی قبروں پر پھول رکھے آزر کی ماں اپنے بیٹے عثمان کی قبر کیساتھ جاکر بیٹھی اور اللہ سے روکر اسکی مغفرت کی دعا مانگتی رہی۔۔۔ آزر اس کی بیوی عائشہ اور اسکی ننھی سی بیٹی بھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے قبر پر کھڑی ہوکر دعا کررہی تھی۔۔۔ عائشہ اسے جیسے کہلا رہی تھی وہ بلکل ویسے ہی پڑھ رہی تھی عثمان کی قبر اسکے والد کیساتھ ہی تھی سب نے دونوں قبروں پر ڈھیر سارے پھول چڑھائے اور پھر وہاں سے خوشی سے چلے گئے۔۔۔۔
سچ کہتے ہے لوگ
شاخ ہے تو پتے بھی آئے گے
آج اگر غم ہے تو پھر کل
خوشیاں بھی آئے گی